اگلی باری تمہاری ہے (مکمل اردو کہانی)

 

اگلی باری تمہاری ہے(مکمل اردو کہانی)

یہ بات بہت پرانی ہے تقریباً 1632 کی ۔یہ واقعہ برصغیر کے ایک قصبہ زاویر میں رونما ہوا تھا ،مغلیہ سلطنت کا ان دنوں برصغیر میں چرچا تھا لیکن کسی کو کیا پتہ تھا کے زاویر میں ایسا کوئی واقعہ پیش آۓ گا جس سے سب کے ہوش اڑ جاۓ گے ،اس کا خوف زاویر میں اسے پھیلا ہوا تھا کے جیسے وہاں کوئی وبا پھیل گئی ہو ،اس قصبہ میں سب لوگ اپنے گھروں میں بند ہو کر رہ گۓ تھے وہ پہلےہی زاویر کے تین گھروں کو اپنا شکار بنا چکی تھی 

ہر کسی کو یہی دھڑکا لگا رہتا کہ آج تو باری ہماری ہے ،خوف کے مارے زاویر میں رات کو کوئی سوتا بھی نہیں تھا ،خوف کی وجه سے زاویر میں یہ رواج بن چکا تھا کے ہر کوئی دن کو سوتا اور رات کو جاگتا تھا کیوں کہ وہ رات کو ہی حملہ کرتی تھی لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ رات کو جاگنے سے ان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونا تھا کیوں کہ اس کو کوئی بھی روک نا سکا تھا ،ڈر کے مارے کوئی بھی اس قصبہ کے قریب بھی جانا پسند نہیں کرتا تھا ،ایک فیملی نے اس قصبہ سے نکلنے کی کوشش بھی کی تھی اور وہیں ان کا خون ہو گیا تھا ،اس لئے لوگوں کے پاس گھروں میں نظر بند ہونے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نا تھا

(سلمیٰ کا گھر)
علی اپنی امی یعنی سلمیٰ سے کہہ رہا تھا ،امی کہیں آج اس کا نشانہ ہم نا ہوں،عائشہ ٹوکتی ہے ،علی یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو اللّه نا کرے اس کا نشانہ ہم بنیں ،علی بولتا ہے ،باجی آپ کو پتا ہے کے جب اس نے افضل کے گھر پر حملہ کیا تھا تو وہاں سے چیخوں کی بہت آوازیں آرہی تھیں خون کے چھینٹے گلی میں بھی آکر گرے تھے اور جب لوگوں نے صبح وہاں جا کر دیکھا تو افضل اس کی ماں اور نانی کا پیٹ چاک تھا لیکن خون کا ایک قطرہ ان میں موجود نا تھا ان کے گوشت کے لوتھڑے گھر میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے آنتیں ان کی پیٹ سے باہر نکل رہی تھیں ،ان بیچاروں کی آنکھوں میں کس قدر خوف اور تکلیف تھی ،سلمیٰ علی سے ،بیٹا چپ کرو ایسی باتیں نہیں کرتے ،امی میں باہر کھیلنے جاؤں ،نہیں بیٹا ایسی کوشش نا کرنا ،تمہاری عمر کی ایک لڑکی کل ہی غائب ہوگئی تھی جب وہ کسی سے پوچھے بغیر باہر چلے گئی تھی اور آج ہی اس کی لاش ملی ہے اور اگر تمہارے ابو کو پتہ چل گیا کے تم باہر گۓ تھے تو وہ مجھ پر بہت غصّہ ہونگے ،علی اپنی امی سے پوچھتا ہے ،امی لیکن جب شاہد کے گھر والوں کو اس نے مارا تھا تو تب ابو بھی تو اگلے دن شاہد کے گھر گۓ تھے ؟؟ بیٹا ایک تو وہ بڑے ہیں دوسرا وہ اکیلے نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کے ساتھ مل کر گۓ تھے ،چلو اب ان باتوں کو چھوڑو اور عائشہ باجی کے ساتھ صفائی کرانے میں مدد کرو ،یا اللّه ہمیں اس عذاب سے نکال ،سلمیٰ دعا کرتی ہے _

(لائبہ کا گھر )
لائبہ جاہ نماز پر بیٹھی اللّه سے اپنے شوہر،اپنے بچے اور اپنی حفاظت کی دعا کر رہی تھی ،لائبہ کے ساتھ تھوڑا سا آگے اس کا شوہر عامر نماز پڑھ رہا تھا ،عامر اور لائبہ اس گھر میں اکیلے رہتے تھے ،وہ دونوں دکھ درد میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے ،عامر کی ماں کا مہینہ پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا،ان کی شادی کو پانچ مہینے ہو چکے تھے ،لائبہ امید سے تھی،ابھی وہ دونوں نماز پڑھ کر فارغ ہوئے ہی تھے کے سامنے والے گھر سے چیخ و پکار کی آواز آنا شروع ہو گئی ،اور ایسی ایسی دلخراش چیخیں کے لائبہ تھر تھر کانپنے لگی ،لائبہ چلانے لگی ،عامر عامر آگئی وہ ،آگئی وہ ،جلدی سے دروازہ بند کردو جلدی کرو ،عامر فورا اٹھا اور اس نے دروازے کی کنڈی لگا دی ،لائبہ عامر کے گلے لگ کر رونے لگی ،عامر کب تک ہم یہ سہیں گے یہ ایک ایک کرکے سب کو مار دے گی ،عامر خود بہت ڈرا ہوا تھا ،وہ لائبہ کو حوصلہ دینے لگا ،لیکن اس کو خود لگ رہا تھا کے شاید کل باری ان کی ہو ،اسے اپنی بیوی اور بچے کی فکر ستاۓ جا رہی تھی ،کیوں کے اس کی بیوی اور ہونے والا بچہ ہی اس کی کل کائنات تھی ،رات کو پانچ بجے تک سامنے والوں کے گھر سے دلخراش چیخوں کی آواز آتی رہی اور ساڑھے پانچ چیخوں کی آواز آنا بند ہو گئی،زاویر کا ایک اور گھر موت کے گھاٹ اتر چکا تھا

اگلی صبح جب عامر اور کچھ محلے والے مل کر سامنے والوں کے گھر میں گئے ،دروازے کے نیچے سے خون نکل کر پوری گلی میں پھیلا ہوا تھا ،عامر نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گۓ ،عامر کے ساتھ جو دوسرے لوگ کھڑے تھے ان سب کو بھی چپ لگ گئی تھی،سب توبہ توبہ کر رہے تھے ،عامر نے دیکھا کے دانیال جو اس کا ہم عمر تھا اس کا کٹا ہوا گلا فرش کے ایک طرف پڑا تھا جبکہ دھڑ دوسری طرف ،دانیال کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی ،اس کے بوڑھے بیچارے ماں باپ دونوں رسی کے ساتھ صحن میں لٹک رہے تھے ان کی آنکھیں باہر کی طرف ابل رہی تھیں،ان کی کٹی ہوئی ٹانگیں فرش پر پڑی ہوئی تھیں ، ان تینوں کے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا لیکن وہ اس بات پر حیران تھے کہ گھر کے پورے صحن اور جو گلی میں خون پھیلا ہوا تھا وہ کہاں سے آیا،اور صرف اسی گھر میں ایسا نہیں ہوا تھا اس نے زاویر کے جس جس خاندان کو مارا تھا ،

ان میں سے کسی کے جسم میں خون کا ایک بھی قطرہ نہیں ہوتا تھا لیکن گھر کے پورے صحن اور گھر کے باہر گلی میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہوتی تھیں ،گھر کے پاس ہی خالی پلاٹ میں گڑھا کھودا گیا اور دانیال کے گھر والوں کو ڈنڈے کی مدد سے دھکیل کر اس گڑھے میں پھینک دیا گیا ،کیوں کے اگر کوئی مرنے والے کو ہاتھ یا پاؤں لگا دیتا تو اگلی باری اس کی ہوتی تھی

(ریشم کا گھر )
اری ریشم کچھ خدا کا خوف کر پورے قصبے میں اس کا خوف پھیلا ہوا سب اپنی حفاظت کی دعائیں کر رہے ہیں اور تو یہاں بناؤ سنگھار کر رہی ہے نا تو نے کسی کے گھر جانا ہے پھر کیوں گھر میں بن ٹھن کر رہتی ہے تو شادی شدہ بھی نہیں ہے اور تجھ جیسی لڑکیوں کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا ،ریشم کی نانی ریشم پر برس رہی تھیں،کچھ اپنی بہنوں سے ہی سیکھ لے دیکھ وہ دن رات اللّه سے اپنی حفاظت کی التجا کرتی رہتی ہیں کچھ دعا تو بھی اللّه سے کر لے ،رہنے دو نانی میں اس کمبخت کو اکیلے ہی دیکھ لوں گی ،وہ سب کو مار سکتی ہے مگر مجھے نہیں مار سکتی ،اور جو لوگ اب تک مر گۓ ہیں وہ بھی تو اللّه سے دعائیں کرتے رہتے تھے وہ کون سا بچ گۓ ہیں تو میری بہنوں کو بھی کہہ دے کے کوئی فائدہ نہیں ہے دعائیں مانگنے کا ،بقواس نا کر لڑکی اللّه سے ڈر کچھ سوچ سمجھ کر بولا کر ،اللّه بڑا رحیم اور کریم ہے وہ ہماری مدد کے لئے کوئی راستہ نکالے گا اور اگر ہم مر بھی گۓ تو اس میں بھی اللّه کی کچھ رضا ہوگی ،جاؤ جاؤ نانی میرا دماغ کی دہی نا بناؤ ،

ریشم اپنی نانی سے کہتی ہے ،ریشم کی نانی وہاں سے چلی جاتی ہے ،ریشم کے ماں باپ نہیں تھے اس کی تین بہنیں تھیں وہ اپنی نانی کے پاس رہتی تھیں ان کے علاوہ اس گھر میں کوئی نہیں تھا ،رات کے 2 بج رہے تھے سب جاگ رہے تھے لیکن ریشم سو رہی تھی اس کی ایک بہن ریشم کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ ریشم کی نانی اور اس کی دو بہنیں دوسرے کمرے میں تھیں ،رونے کی آواز سے ریشم کی آنکھیں کھل گئی ،اس نے دیکھا کے اس کی بڑی بہن عظمیٰ رو رہی تھی ،کیا ہوا عظمیٰ باجی رو کیوں رہی ہو ؟؟؟ ریشم نے پوچھا ،ریشم مجھے لگتا ہے دروازہ کے پیچھے کوئی ہے،عظمیٰ نے جواب دیا ،ارے باجی کچھ نہیں ہے میں دیکھتی ہوں ،ریشم نے اٹھ کر دروازہ کے پیچھے دیکھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا ،دیکھا باجی کچھ نہیں ہے ،لیکن عظمیٰ کی آنکھیں ساکن تھیں وہ الماری کی طرف دیکھے جا رہی تھی ،عظمیٰ باجی اب کیا ہوا ،عظمیٰ نے الماری کے اوپر کی طرف اشارہ کیا ،جیسے ہی ریشم نے الماری کی طرف دیکھا تو ،وہ الماری کے اوپر بیٹھی تھی، اس نے زوردار چیخ ماری اور ریشم کے اوپر چھلانگ لگا دی ،نانی نانی آگئی وہ، آج ہماری باری ہے ،عظمیٰ چلا اٹھی ،پورا گھر چیخوں سے گونج اٹھا

لائبہ کے پیٹ میں اچانک شدید درد ہونے لگا عامر مجھے بہت درد ہو رہا لائبہ چلانے لگی ،عامر بھوکلا گیا ،میں اس وقت دائی کا انتظام کہاں سے کروں گا ،عامر باہر جانے لگا لیکن لائبہ اس کو روکنے لگی ،عامر نے لائبہ کی ایک بات نا سنی اور باہر چلا گیا

وہ ریشم کے اوپر لپکی،ریشم حواس باختہ ہو گئی اسے کچھ سمجھ ناآئی اس نے ایک ہی وار میں ریشم کے سینے میں اپنے پنجے گاڑ دیے اور اس کا دل نکال لیا ریشم تڑپنے لگی اور موقع پر دم توڑ گئی ،ریشم کے تمام دعوے جو وہ کرتی تھی دھرے کے دھرے رہ گئے ،ریشم کی بیچاری بہن عظمیٰ سامنے بیٹھی یہ خوفناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ،وہ مسلسل کانپ رہی تھی اسے اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا ،وہ بھاگنا چاہ رہی تھی مگر اس کے پاؤں نے اس کا ساتھ نا دیا ،چیخنا چاہ رہی تھی مگر ڈر کے مارے چیخ نا پائی ،پھر اس نے اپنے نوکیلے دانت ریشم کے گلے میں گاڑھ دیے اور اس کا خون پینے لگی جب ریشم کا جسم خون سے اچھی طرح خالی ہو گیا تو اس نے ریشم کو دوسری طرف پٹخا ،اب وہ عظمیٰ کی جانب بڑھ رہی تھی ،عظمیٰ کی آنکھوں میں آنسو تھے ،

اس نے عظمیٰ کا بھی ریشم جیسا ہی حال کیا اور اس کے جسم کو بھی خون سے خالی کر دیا ،ریشم کی نانی اور دونوں بہنیں جو دوسرے کمرے میں تھیں انہوں نے کنڈی لگا لی تھی وہ رو رہی تھیں اور اللّه سے اپنی حفاظت کی دعا کر رہی تھیں ،اچانک دروازہ کو کوئی زور زور سے کھٹکھٹانے لگا ،ایک دم دروازہ کھلا اور عظمیٰ اور ریشم کی لاشیں اندر آکر گر گئیں ،ریشم کی دونوں بہنیں چیخ اٹھی،نانی بیچاری تو یہ صدمہ برداشت نا کر پائی ،وہ دل کا دورہ پڑنے سے وہیں ڈھیر ہو گئیں ،اب رہ گئی تھی ریشم کی دو بہنیں سو ان دونوں کا بھی ریشم جیسا ہی حال ہوا ،اس نے ان سب کے جسموں سے اچھی طرح خون پیا اور وہاں سے چلتی بنی ،یہ شاید ریشم کا غرور تھا یا قسمت کی ستم ظریفی کے اس کا پورا گھر موت کا شکار ہو گیا تھا

(سلمیٰ کا گھر)
صبح کے تقریباً 9 بج رہے تھے کے سلمیٰ کے گھر کا کسی نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ،سلمیٰ ڈر گئی اس نے اپنے شوہر کو اٹھایا ،سلمیٰ کے شوہر نے دروازہ کھولا اور سلمیٰ کو اندر جانے کا اشارہ کیا ،تھوڑی دیر بعد سلمیٰ کا شوہر منہ لٹکا کر واپس ایا ،سلمیٰ کے پوچھنے پر وہ رو پڑا ،کیا ہوا آپ ایسے رو کیوں رہے ہیں ،سلمیٰ نے پوچھا ،تمہاری ماں اور تمہاری بھانجیوں کو اس نے مار دیا ،سلمیٰ یہ سن کر گم سم ہو گئی ،(ریشم اور اس کی بہنیں سلمیٰ کی بھانجیاں تھیں اور ریشم کی نانی سلمیٰ کی ماں تھی) ،نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ،میری ماں بیچاری میری بھانجیاں ہاۓ اللّه ،سلمیٰ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ،سلمیٰ کی بیٹی اپنی ماں کو اندر لے گئی ،سلمیٰ کے شوہر کو فکر پڑ گئی تھی کیوں کے اسے یقین ہو گیا تھا کے اگلی باری اس کے گھر کی ہے ،(کیوں کے پہلے بھی جب وہ کسی گھر پر حملہ کرتی تھی تو اگر اس گھر کے رہنے والوں کا کوئی اور رشتہ دار بھی زاویر میں ہوتا تو اس کا اگلا نشانہ وہی ہوتے تھے ،اس لحاظ سے چوںکہ سلمیٰ کا رشتہ ریشم کہ گھر سے تھا اس لئے اگلی باری سلمیٰ کے خاندان کی تھی ) ،سلمیٰ کے شوہر نے اپنے پڑوس میں اس بارے میں بات کی اور محلے کہ تمام مردوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات سب مرد سلمیٰ کے گھر پر جمع ہو کر اس کا مقابلہ کریں گے ،رات کو سب مرد سلمیٰ کے
گھر میں ڈنڈے لے کر جمع ہو گئے ،سلمیٰ کے شوہر نے اپنے گھر والوں کو چھت پر بھیج دیا ،رات کے تقریباً 12 بج رہے تھے ،سلمیٰ کے شوہر کو دروازے کے پاس کوئی کھڑا نظر آیا اور وہ وہی تھی

عامر چھپتا چھپاتا دائی کے گھر پہنچا اور کسی طرح دائی کو اپنی گھر لے جانے کے لئے راضی کر لیا جیسے ہی وہ اپنی گھر پہنچا تو لائبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب عامر اور دائی گھر پہنچے تو لائبہ بیہوش ہو کر نیچے گری ہوئی تھی عامر نے فوری طور پر لائبہ کو بستر پر لٹایا اور خود باہر آگیا کچھ دیر بعد دائی باہر آئ اور اس نے عامر کو خوش خبری سنائی کے عامر کو اللّه نے اپنی رحمت سے نوازا ہے ،دائی نے عامر سے کہا کے مجھے میرے پیسے دے دو تا کہ میں اپنے گھر چلوں عامر نے دائی کو مشورہ دیا کے فلحال وہ ایک رات ان کے گھر قیام کر لے کیوں کہ رات کہ اس وقت باہر جانا خطرے سے خالی نہیں ،دائی نے عامر کی بات سے اتفاق کیا اور عامر نے اسے دوسرے کمرے میں آرام کرنے کے لئے بھیج دیا ،اور خود عامر وضو کر کے تہجد کی نماز ادا کرنے لگ گیا ،نماز ادا کرنے کے بعد اس نے اللّه کا شکر ادا کیا ،کہ اللّه نے اس کو بیٹی عطا کی ،پھر وہ اس کمرے میں جہاں لائبہ اور اس کی بیٹی موجود تھی چلا گیا ،عامر نے اپنی بیٹی کو اپنی باہوں میں لے لیا اس کو چوما اور اس کے کانوں میں اذان دینے لگا ،لائبہ یہ منظر دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں اللّه کا شکر ادا کر رہی تھی

(سیما کا گھر)
سیما اپنے پورے خاندان میں واحد پڑھی لکھی لڑکی تھی ،نہایت تمیز دار اور با ادب لڑکی تھی ہر کوئی اس کو پسند کرتا تھا ،اپنے گھر کو اس نے جنت کا نمونہ بنا رکھا تھا ،اس کی پوری فیملی میں اس کے ساس ،سسر ،اس کے تین بیٹے اور شوہر تھا ،احمد سیما کا سب سے چھوٹا بیٹا اپنی دادی سے مخاطب تھا ،دادی دادی مجھے باہر جانا ہے کھیلنے امی مجھے جانے نہیں دے رہی ،نہیں میرے بیٹے باہر نہیں جانا ورنہ وہ تمھیں اٹھا کر لے جاۓ گی ،دادی نے جواب دیا ،اچھا دادی ٹھیک ہے پر مجھے یہ بتایں یہ ہے کون ،ارے بیٹا تمھیں ہزار دفعہ میں اس کی کہانی سنا چکی ہوں ،دادی ایک دفعہ اور سنا دیں نا ،احمد نے دادی کو کہا ،تو پھر سنو ،آج سے تقریباً دو سو سال پہلے کی بات ہے کے ایک عورت بانو اس قصبے میں کالا جادو کرتی تھی ،شروع شروع میں تو صرف وہ جادو کرتی تھی مگر شیطان کو راضی کرنے کے لئے اس نے لوگوں کا قتل کرنا شروع کر دیا ،شروع میں تو کسی کو معلوم نا ہوا کہ یہ قتل کون کر رہا ہے مگر جب لوگوں کو پتا چلا کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ بانو ڈاین ہے تو لوگوں نے اسکو قصبے سے باہر نکل جانے کا حکم دیا ،چلو بیٹا دادی کو تنگ نا کرو باقی کہانی بعد میں اب دادی کو آرام کرنے دو ،سیما احمد کو کمرے سے باہر لے گئی ،اور دادی نے آرام کرنے کی غرض سے انکھیں بند کر لیں۔

جب عامر اور دائی گھر پہنچے تو لائبہ بیہوش ہو کر نیچے گری ہوئی تھی عامر نے فوری طور پر لائبہ کو بستر پر لٹایا اور خود باہر آگیا کچھ دیر بعد دائی باہر آئ اور اس نے عامر کو خوش خبری سنائی کے عامر کو اللّه نے اپنی رحمت سے نوازا ہے ،دائی نے عامر سے کہا کے مجھے میرے پیسے دے دو تا کہ میں اپنے گھر چلوں عامر نے دائی کو مشورہ دیا کے فلحال وہ ایک رات ان کے گھر قیام کر لے کیوں کہ رات کہ اس وقت باہر جانا خطرے سے خالی نہیں ،دائی نے عامر کی بات سے اتفاق کیا اور عامر نے اسے دوسرے کمرے میں آرام کرنے کے لئے بھیج دیا ،اور خود عامر وضو کر کے تہجد کی نماز ادا کرنے لگ گیا ،نماز ادا کرنے کے بعد اس نے اللّه کا شکر ادا کیا ،کہ اللّه نے اس کو بیٹی عطا کی ،پھر وہ اس کمرے میں جہاں لائبہ اور اس کی بیٹی موجود تھی چلا گیا ،عامر نے اپنی بیٹی کو اپنی باہوں میں لے لیا اس کو چوما اور اس کے کانوں میں اذان دینے لگا ،لائبہ یہ منظر دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں اللّه کا شکر ادا کر رہی تھی

(سیما کا گھر)
سیما اپنے پورے خاندان میں واحد پڑھی لکھی لڑکی تھی ،نہایت تمیز دار اور با ادب لڑکی تھی ہر کوئی اس کو پسند کرتا تھا ،اپنے گھر کو اس نے جنت کا نمونہ بنا رکھا تھا ،اس کی پوری فیملی میں اس کے ساس ،سسر ،اس کے تین بیٹے اور شوہر تھا ،احمد سیما کا سب سے چھوٹا بیٹا اپنی دادی سے مخاطب تھا ،دادی دادی مجھے باہر جانا ہے کھیلنے امی مجھے جانے نہیں دے رہی ،نہیں میرے بیٹے باہر نہیں جانا ورنہ وہ تمھیں اٹھا کر لے جاۓ گی ،دادی نے جواب دیا ،اچھا دادی ٹھیک ہے پر مجھے یہ بتایں یہ ہے کون ،ارے بیٹا تمھیں ہزار دفعہ میں اس کی کہانی سنا چکی ہوں ،دادی ایک دفعہ اور سنا دیں نا ،احمد نے دادی کو کہا ،تو پھر سنو ،آج سے تقریباً دو سو سال پہلے کی بات ہے کے ایک عورت بانو اس قصبے میں کالا جادو کرتی تھی ،شروع شروع میں تو صرف وہ جادو کرتی تھی مگر شیطان کو راضی کرنے کے لئے اس نے لوگوں کا قتل کرنا شروع کر دیا ،شروع میں تو کسی کو معلوم نا ہوا کہ یہ قتل کون کر رہا ہے مگر جب لوگوں کو پتا چلا کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ بانو ڈاین ہے تو لوگوں نے اسکو قصبے سے باہر نکل جانے کا حکم دیا ،چلو بیٹا دادی کو تنگ نا کرو باقی کہانی بعد میں اب دادی کو آرام کرنے دو ،سیما احمد کو کمرے سے باہر لے گئی ،اور دادی نے آرام کرنے کی غرض سے انکھیں بند کر لیں

(سلمیٰ کا گھر)
سلمیٰ کے شوہر نے دیکھا کے دروازہ کے قریب کوئی کھڑا ہے غور کرنے پر پتا چلا کے وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہی ڈاين تھی،سلمیٰ کے شوہر نے شور مچا دیا ،آگئی آگئی وہ سب تیار ہو جاؤ سب مردوں نے ڈنڈوں کو پکڑ لیا اور اس کی جانب لپکے مگر وہ ڈاين تو جیسے کوئی طاقتور شیر تھا دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دو تین مردوں کے چیتهڑے ہوا میں اڑا دیے اور ان کے جسم کو خون سےخالی کر دیا ،سلمیٰ کے گھر میں کہرام مچ گیا سب مرد حواس باختہ ہو گۓ اور سلمیٰ کے گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے سلمیٰ کا شوہر بیچارہ سب کو روکتا رہا مگر کوئی نا رکا ادھر وہ ڈاين ایک مرد کا خون پینے میں مصروف تھی ،اس کے بعد وہ سلمیٰ کے شوہر کی جانب لپکی اور اپنے لمبے لمبے اور نوکیلے دانت اس کے پیٹ میں گاڑھ دیے اور پهر جب اس نے اپنا منہ سلمیٰ کے شوہر کے پیٹ میں سے نکالا تو اس کے منہ میں سلمیٰ کے شوہر کی آنتین تھی ،سلمیٰ کا شوہر تڑپ رہا تھا ،اس کی آنکھوں میں درد کے مارے آنسو نکل آۓ ،سلمیٰ چھت سے اپنے شوہر کی موت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ،وہ چیخ رہی تھی ،رو رہی تھی ،مگر اس ڈاين پر سلمیٰ کی دوہائیوں کا کوئی اثر نا ہوا آخر کار سلمیٰ کا شوہر دم توڑ گیا ،اس کا خون پینے کے بعد وہ ڈاين سلمیٰ کی جانب بڑھنے لگی

اس ڈاين کو کوئی اور نہیں میں ختم کروں گئی ،مریم چلائی جو کے سامنے والے گھر سے سلمیٰ کی چیخ و پکار کی آوازیں سن رہی تھی،مریم کی عمر 22 سال تھی ،مریم نے سلمیٰ کے گھر کی جانب دوڑ لگا دی ،مریم کی ماں اس کو روکتی رہی مگر وہ نا رکی۔

مریم نے سلمیٰ کہ گھر کی جانب دوڑ لگا دی اس سے پہلے کے مریم سلمیٰ کے گھر میں داخل ہوتی ،مریم کا بھائی وقت پر پہنچ گیا اور اس نے مریم کو پکڑ لیا اور گھر واپس لے گیا ،بھائی یہ کیا کر رہے ہیں آپ جانے دیں مجھے، مجھے سلمیٰ باجی کی جان بچانے دیں نہیں تو وہ ڈاين ان کو بھی مار دے گی ،اتنے مرد تو اس کو روک نا سکے تو تو کیسے روکے گی ،مریم کا بھائی چلایا،اس سے پہلے کہ مریم کچھ بولتی اس کا بھائی اس کو گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا اور اس کو کمرے میں بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی ،امی اب یہ دروازہ نا کھولیے گا یہ لڑکی تو پاگل ہو گئی ہے ،مریم کا بھائی اپنی امی سے مخاطب تھا ،امی نے اثبات میں سر ہلایا ،مریم چلاتی رہی کے اسے جانے دیں ،دروازہ کھٹکھٹاتی رہی مگر کسی نے اس کی بات نا سنی اور دروازہ نہیں کھولا

ادھر وہ ڈاين سلمیٰ کی جانب بڑھ رہی تھی،سلمیٰ کو تو اپنے بیوہ ہونے کا دکھ چین نہیں لینے دے رہا تھا ،اب وہ اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں سے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی ،تیرے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے میں خود کشی کرلوں ،سلمیٰ چلائی،یہ کہتے ہی سلمیٰ نے اپنے دونوں بچوں کو چھت سے دھکا دے دیا اور خود بھی چھلانگ لگا دی ،سلمیٰ اور اس کے بچے خون میں لت پت تڑپ رہے تھے,سلمیٰ بیچاری امید سے تھی ،درد کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے ،سلمیٰ کے بچے دم توڑ چکے تھے مگر سلمیٰ اب بھی تڑپ رہی تھی اس ڈاين نے زمین پہ گرا نیزہ اٹھایا اور سلمیٰ کے پیٹ میں گھونپ دیا ،سلمیٰ اور اس کا تیسرا بچہ بھی دم توڑ گۓ ،پھر وہ ڈاين سلمیٰٰ کی جانب لپکی سلمیٰ کا خون پینے کہ بعد سلمیٰ کہ بچوں کا خون پیا ،اور سلمیٰ کے گھر کی دہلیز پر اس نے وہ خون اگل دیا ،ایک بار پھر اسے وہ خون نا ملا جس کی تلاش میں وہ تھی ،زاویر کا ایک اور خاندان موت کے منہ میں چلا گیا

(سیما کا گھر)
چلیں دادی جان اب باقی کی کہانی سنایں ،احمد دادی سے مخاطب تھا ،اچھا سنو،پھر قصبے کہ لوگوں نے اس ڈاين کو قصبے سے نکل جانے کا حکم دیا ،مگر وہ نا مانی اور اس نے لوگوں کو قتل کرنا نا چھوڑا ،پورے قصبے میں اس کی دہشت پھیل گئی تھی،پھر ایک روز ایک بزرگ کا ہمارے قصبے سے گزر ہوا ،قصبے والوں نے انکو ساری کہانی سنائی ،ان بزرگ نے اس ڈاين پر کوئی عمل کیا اور اس کو قید کردیا ،لیکن انہوں نے ساتھ ہی بتا دیا کے انہوں نے اسکو عارضی طور پر قید کیا ہے پورے 200 سال بعد یہ دوبارہ آزاد ہو جاۓ گی ،یہ سن کر لوگ پریشان ہو گۓ ،لوگوں نے ان سے کہا کے انھیں وہ عمل بتا دیں کے جس سے انہوں نے اس ڈاين کو قید کیا ،تو ان بزرگ نے بتایا کے یہ عمل دوبارہ کام نہیں کریگا،یہ کہہ کر وہ بزرگ قصبے سے چلے گۓ ،لیکن پرانی پیشنگوئیوں کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ جب یہ ڈاين دوبارہ وقوع پزیر ہو گی تو ایک شخص ایسا ہوگا کہ جس کا خون پینے سے وہ ڈاين لمبی عمر حاصل کر لے گی جب کے ایک شخص ایسا ہوگا کہ جس کا خون پینے سے وہ ڈاين ہلاک ہو جاۓ گی یعنی پورے قصبے میں صرف دو ہی لوگ ایسے نایاب خون کے حامل ہوں گے لیکن دونوں کا خون ایک دوسرے سے مختلف ہو گا ،دادی جان کیا یہ پیشنگوئیاں سچ ہیں،احمد نے دادی سے پوچھا ،ان میں کتنی صداقت ہے یہ تو میں نہیں جانتی البتہ یہ کہا جاتا ہے کے جن دو لوگوں کے جسم میں وہ خون موجود ہو گا انکو خودبخود پتہ چل جاۓ گا ،لیکن ان کو یہ نہیں پتا چل پاۓ گا ان کے خون سے ڈاين بچے گی یا مرے گی ،رہی بات ڈاين کی تو اس کو یہ نہیں پتہ کے کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کا خون پینے سے وہ مر سکتی ہے ،وہ بس یہی جانتی ہے کے کوئی ایسا شخص ہے کہ جس کا خون پینے سے وہ لمبی عمر پاۓ گی،وہ خون جو وہ چاہتی ہے اگر اس کو مل گیا تو وہ اس کو نگل جاۓ گی وگرنہ اگل دے گی ،اس سے اس کے دو مقصد پورے ہو جایں گے لوگوں کا قتل کر کے شیطان کو راضی کرنا اور لمبی عمر پانا ،چلو بیٹا اب جاؤ مجھے آرام کرنے دو ،دادی نے احمد سے کہا اور احمد چلا گیا

(لائبہ کا گھر)
رات کہ 12 بجے لائبہ کو چیخوں کی آواز آنے لگی ،عامر اور لائبہ تو پہلے ہی جاگ رہے تھے،لائبہ نے اپنی بیٹی کو عامر کی گود میں ڈالا اور باہر جانے لگی ،کہاں جا رہی ہو لائبہ؟؟،عامر نے لائبہ سے سوال کیا،ڈاين کو ختم کرنے،عامر مجھے پرسوں خواب میں ایک نورانی چہرے کے بزرگ دکھائی دیے ،انہوں نے مجھے بتایا کہ تمہارے اندر وہ خون ہے جو شاید ڈاين کو مار بھی سکتا ہے یا اسے لمبی عمر بھی دے سکتا ہے ،ہو سکتا ہے میرا خون پینے کے بعد وہ ڈاين مر جاۓ لیکن اس کے لئے مجھے اپنی جان دینی ہوگی ،نہیں لائبہ میں تمھیں اس چیز کی اجازت نہیں دوں گا ،لائبہ نے عامر کی ایک نا سنی اور باہر کی جانب بھاگی عامر بھی لائبہ کے پیچھے بھاگا

(مریم کا گھر)
امی مجھے چکر آرہے ہیں دروازہ کھولیں،مریم چلائی،امی نے فورا دروازہ کھول دیا،مریم نے امی کو دھکا دیا اور باہر کی جانب بھاگی ،کہاں جا رہی ہو مریم؟؟ امی نے پوچھا،اس ڈاين کو ختم کرنے،مریم نے جواب دیا ،مریم اس ہی گھر کی جانب بھاگی جس طرف لائبہ بھاگی تھی

(سیما کا گھر)
آج باری سیما کے گھر کی تھی،احمد کی دادی کو تو وہ ڈاين پہلے ہی مار چکی تھی اب وہ سیما کی جانب بڑھ رہی تھی،اچانک پیچھے سے دروازہ کھلا اور لائبہ چلائی،میں ہوں وہ جس کا تو خون پینا چاہتی ہے،ادھر سے مریم داخل ہوئی نہیں میں ہوں وہ جس کا تو خون پینا چاہتی ہے مریم چلائی،مریم تم لائبہ بولی ،ہاں میں تمہاری دوست اور وہ ڈاين تمہارا نہیں میرا خون چاہتی ہے میرے خواب میں بزرگ آۓ تھے اور انہوں نے مجھے بتایا،مریم بولی،میرے شوہر اور میری بچی کا خیال رکھنا اب سے عامر تمہارا اور لائبہ ڈاين کی جانب بھاگی ،عامر بھی آگیا تھا،لائبہ نہیں عامر اور مریم یک زبان ہو کر بولے ،مگر لائبہ تو ڈاين کے پاس پہنچ چکی تھی اور ڈاين نے لائبہ کے پیٹ میں اپنے پنجے گاڑ دیے ،لائبہ تڑپنے لگی،عامر لائبہ کی جانب بھاگنے لگا مگر سیما کے شوہر نے اسے پکڑ لیا ،مریم لائبہ کی جانب بھاگی،مگر مریم کو بہت دیر ہو چکی تھی ،ادھر اس ڈاين نے لائبہ کے گلے میں اپنے دانت گاڑ دیے اور اس کا خون پینا شروع کر دیا،خوش قسمتی سے لائبہ کا خون وہی تھا جو ڈاين کو مار سکتا تھا ،یہ مجھے کیا ہو رہا ہے،ڈاين چلائی اور زمین پڑ گر کے تڑپنے لگی،اور کچھ ہی دیر میں ڈاين فنا ہو گئ ،مریم لائبہ کی حالت دیکھ کر بیہوش ہو گئ اور عامر بیچارے کو تو کوئی ہوش ہی نہیں تھا وہ اپنی زندگی کی سب سے قیمتی چیز کھو چکا تھا
لائبہ اور مریم گہری سہیلیاں تھی ،دونوں عامر کو پسند کرتی تھیں،مگر دونوں ایک دوسرے کی محبت سے واقف نہیں تھی ادھر عامر لائبہ کو پسند کرتا تھا لہٰذا عامر اور لائبہ کی شادی ہوگئی اور مریم نے چپ سادھ لی ،بعد میں لائبہ کو مریم کی محبت کے بارے میں پتا چلا،لیکن اب وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی ،اسلئے مریم کو لائبہ نے مرنے وقت عامر سے شادی کرنے کو کہا تا کہ مریم اپنی محبت بھی حاصل کر لے اور عامر اور لائبہ کئی بیٹی کا بھی خیال رکھے
(چند ماہ بعد)
عامر اور مریم کی سادگی سے شادی کر دی گئ ،مریم نے لائبہ کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھ کر پرورش کی ،زاویر کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہو چکی تھیں ،مگر ان رونقوں کو بحال کرنے میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو گیا تھا
(ختم شد)

آنکھیں بھیگ جاتی ہیں (مکمل اردو کہانی)

خطرناک بچھو اور یہودی کا قصہ

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں