بس ڈرائیور کی کہانی (قسط نمبر 2)

کہانیاں اردو میں
 

بس ڈرائیور کی کہانی (قسط نمبر 2)

ایک بس ڈرائیور کی کہانی جس نے زندگی میں ایسی بھیانک صورتحال کا سامنہ کیا کہ جان کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ایک حسین لڑکی جو صرف اس ڈرائیور کو دیکھائی دیتی تھی
---------------------------
آخر کار میں کچھ سوچ کر ڈرائیونگ سییٹ سے اٹھا اور پیچھے اس کی سیٹ کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور یہ سوچ کر کہ اتنی خوبصورت جوان لڑکی اکیلی میرے ساتھ ویرانے میں اپنے ساتھ بیٹھنے کی پیشکش کیسے کر سکتی ہے۔ میں نے پوچھا کہاں بیٹھوں تو مسکرا بولی۔ ہُوں تو ڈر رہے ہو مگر ڈرو نہیں بے شک میرے ساتھ چپک کر نہ بیٹھو۔
مگر اسی سیٹ پر بیٹھو اور میری طرف منہ کرکے بیٹھو اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوے بات سنو اور جواب دو۔
اسکی بات سن کر میں اسکے پاس بیٹھ گیا اور اسکے چہرے پر نظریں جما لیں۔ اور بولا جی فرمائیں اس ویرانے میں کیونکر روکا۔ تو اسنے کہا تم تو بہت ہی شریف اور شرمیلے ہو میں نے اتنا سوچا نہیں تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟

تو بولی وہ ایسے کہ کل تم شہر جاتے ہوے میرے گھر پانی پیتے ہوے مجھے دیکھ لینے کے باوجود مجھے پاس بلانے کی تکلیف گوارہ نہ کی۔ میں خود تمہارے پاس نہ آئی تو تم مجھے نظرانداز کر کے چل دیے تو مجھے بہت غصہ آیا۔ اور پھر تم نے شاید اپنے ساتھی کو اسلیے بھیجا کہ مجھے دیکھے کہ میں کیا کررہی ہوں؟
اسکی یہ بات سن کر میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ لگا کہ میں کسی بہت بڑی مصیبت میں پھنس چکا ہوں ساتھ ہے اس نے آگے بڑھ کر میرے دونوں کندھوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوے کہا چلو گاڑی سے اترتے ہیں۔ میں نے خود میں ہمت پیدا کی اور اسکے ساتھ گاڑی سے اتر کر نیچے آگیا۔

 میں نے کہا کہ یہ کیا طریقہ ہے، دیکھو یہ راستہ ہے کسی نے ہمیں اکیلا اس طرح دیکھا تو کیا سوچے گا اور نہ جانے اور کیا کچھ ہو۔ تو وہ بولی ایسا کیا ہے تم اس طرف سائیڈ پر میرے ساتھ چلو ان جھاڑیوں اور درختوں کے بیچ۔ میں تو مزید پریشان ہو گیا وہ مسلسل میرے چہرے کو دیکھے جارہی تھے اور میں کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ میں اسکے ساتھ اس جگہ آگیا تو بولی ہاں اب بولو اگر مجھ سے پیار ہے تو پیار کے مزے بھی لوگے نا؟ اسکی اس بے ہودہ بات کو سن کر میرے دماغ میں سیٹیاں بجنے لگیں کیونکہ میں نے کبھی بھی زندگی میں کسی بھی لڑکی کے بارے میں ایسا سوچا تک نہیں تھا۔ اور اسکی اس دیدہ دلیری پر غصہ بھی آرہا تھا اور اس پر ہاتھ بھی نہیں اٹھا پارہا تھا۔۔اس وقت میں بہت بے بس ہو چکا تھا۔۔

اسنے کہا آؤ میرے گلے لگو۔ اب مجھ سے نہ رہا گیا میں ایک قدم پیچھےہٹا اور بولا یہ بتا دو تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے کہا نام چھوڑو کام پر دھیان دو۔ مجھے اب اندر ہی اندر غصہ آنے لگا تھا۔ اب میں نے کہا میں تم سے پیار ضرور کرتا ہوں مگر یہ اس بیہودگی کیلیے بالکل نہیں سوچ سکتا اور نہ کر سکتا ہوں نہ یہ چاہتا ہوں۔ تو وہ بولی مگر میں تو چاہ رہی ہوں۔ میری نہیں مانو گے؟ تو میں نے جواب دیا پھر بھی نہیں مانو گا اور تمہیں بھی منع کرتا ہوں کہ یہ اچھا نہیں ہے ہم وقت آنے پر شادی تو کرسکتے ہیں مگر یہ سب بالکل نہیں۔

یہ سن کر وہ کِھلکِھلا کر ہنس پڑی اور ساتھ ہی بولی شاباش تم پاس ہوگئے۔ میں نے پوچھا کیا مطلب تو بولی میں دیکھنا چاہتی تھی کہ تم کتنے ہوس پرست ہو اور ایک تنہا خوبصورت اکیلی اور جوان لڑکی کو دیکھ کر کہاں تک خود کو روک سکتے ہو؟مگر تم تو بالکل نہیں پِگھلے۔ پھر بھی مجھے تم نے کل جو پانی پیتے وقت نظر انداز کیا اپنے پاس نہیں بلایا تھا اس پر مجھے ابھی بھی بہت غصہ ہے۔ اسکا تو میں بدلہ لونگی۔

یہ اسکی بات عجیب لگ رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ کل مجھے تو نظر آرہی تھی اور یہ مجھے دیکھ رہی تھی تو اس بچے کو اور شفیق کو دکھائی کیوں نہیں دے رہی تھی۔ بس یہاں پر میں عجیب کشمکش میں تھا اور چاہ رہا تھا یہ میرے سوال سے پہلے ہی کسی وقت اس راز سے پردہ اٹھادے ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے بابا جو میری سزا بنتی ہے دے دینا مگر اب یہاں سے تو چلو۔

وہ وہاں سے میرے ساتھ گاڑی میں آگئی۔ وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی ایک عجیب سی کشش تھی اس میں۔ اب اسنے میرے پیچھے سیٹ پر بیٹھ کر میرے کندھوں کے ساتھ سر کو ٹِکا دیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ پیچھے ہو کر بیٹھ جاؤ کوئی سواری گاڑی میں بیٹھ گئی تو غلط سمجھ بیٹھے گی۔ میری اس بات کا اس نے اثر لیا اور اٹھ کر وہ اس سیٹ کو چھوڑ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

اور وہ بولی اب تو ٹھیک ہے نا میں نے مسکرا کر شیشے میں دیکھتے ہوے کہا جی شکریی تو وہ بھی مسکرا دی۔
گاڑی آگے بڑھانے لگا تو بولی کوئ اچھا سا اردو گانا چلا دو۔
میں نے پوچھا کتنا پڑھی ہو اور نام کیا ہے۔ تو بولی زیادہ نہیں میٹرک پاس ہوں اور نام انیتا ہے۔ میں نے کہا کیا۔۔انیتا؟؟؟
بولی ہاں میں نے جواب دیا اچھااا۔۔

میں نے اردو گانوں کی کیسٹ دھیمی آواز میں چلا دی ۔ تو بولی اب ٹھیک ہے میں نے روڈ پر نظریں جما دیں اور دھیان سے گاڑی چلانے لگا۔ وہ بھی اب اپنے سے آگے والی سیٹ پر دونوں بازو اور پیشانی رکھ کر میوزک سننے لگی تھی۔
کچھ دیر بعد ایک بزرگ عورت مرد بس میں سوار ہوے اور مرد نے آواز لگائی چلو جانے دو پُتّر گاڑی کو۔ یہ بہت ہی سُنسان راستہ تھا اور گرمی بھی تیز ہو گئی تھی۔
اور پیاس بھی لگ رہی تھی آگے شفیق کا گاؤں آنے والا تھا ایک لڑکا لڑکی اور سوار ہوے۔

آج میری طبیعت بالکل ٹھیک تھی۔جب شفیق کے گاؤں پہنچے تو میں ایک لڑکے سے پانی منگوا کر پی لیا۔ اور میں نے سوچا کہ شفیق کا پتہ کروں تاکہ اسکو یہ بھی پتہ چلے کہ اب میں ٹھیک ہوں۔ پھر سوچا کہ اب اس سے کیا ملنا صُبح گاؤں سے واپسی پر اسے ملاقات ہو ہی جانی ہے۔ یہ سوچ کر میں وہاں نہیں رُکا اور چلتا رہا۔ گاؤں سے نکلنے کے بعد اب برساتی نالے سے گزرنا تھا۔ اور میں نے وہاں سے گاڑی میں پانی بھی ڈالنا تھا۔

اب میں اس برساتی نالے میں پہنچ گیا گاڑی بند کی اور نیچے اتر کر گیلن سے گاڑی میں پانی ڈالا انجن کو دو منٹ ہوا لگوائ اور سیٹ پر بیٹھتے ہوے ایک نظر پیچھے انیتا کو دیکھنا چاہا تو وہاں سیٹ پر کوئی نہیں تھا میں نے پوری گاڑی میں نظریں گھمائیں مگر وہ نظر نہ آئی۔

پھر اپنی تسلی کیلیے نیچے اتر کر دیکھا کہ کہ شاید میں جب نیچے پانی ڈالنے کیلیے اترا تو وہ پل بھر کے لیے اتر گئی ہو تو اسے واپس بیٹھنے کو کہوں۔ مگر وہ کہیں دکھائی نہ دی۔ مایُوس ہو کر گاڑی میں آکر چاروں سواریوں سے پوچھا کہ اس سیٹ پر ایک نیلے رنگ کے کپڑوں والی ایک لڑکی بیٹھی تھی وہ اب یہاں نہیں ہے۔ وہ لڑکا لڑکی تو کچھ نہ بولے مگر بزرگ بولے بیٹا وہ لڑکی تو بہت پیچھے جب ہم بس میں سوار ہوے تو وہ ہمارے سوار ہونے سے پہلے اتر گئی اور جنگل کی طرف چلی گئی تھی۔

یہ سن کر میں بہت حیران ہوا اور خود پر بہت غصہ بھی آیا کہ میں نے اس پر دھیان کیوں نہیں دیا اور شیشے میں دیکھتا رہتا تو ٹھیک تھا اور پتہ بھی چلتا رہتا۔ مگر اب سوائے افسوس کرنے کے کچھ پاس نہ تھا۔ ایک بار پھر ٹینشن بن گئی کہ وہ کیوں چلی گئی اور وہ بھی مجھے بتائے بغیر ؟؟؟؟؟
یہ سب کیا تھا ؟؟ ایسا کیوں ہورہا تھا میرے ساتھ؟؟؟؟

پھر دماغ چکرانے لگا تھا دل کر رہا تھا گاڑی یہیں روک دوں اور اسکو ڈھونڈنے نکل جاؤں مگر یہ میرے بس میں نہ تھا۔ بس انہی سوچوں میں آگے بڑھنے لگا۔ برساتی نالا کراس کرنے کے بعد میں ویران کچّے راستے پر گاڑی دوڑانے لگا۔ دھول اور گرد روڈ پر اڑنے لگی۔ آگے تقریباً پچاس سال کے لگ بھگ عمر کا ایک شخص میلے کچیلے کپڑوں میں کھڑے تھا اس نے مجھے روکا اور میری طرف آکر بولا استاد جی آپکے لیے ایک لڑکی کا پیغام ہے اسکا نام انیتا یا انیکا کوئی اس طرح کا نام بتایا تھا اس نے کہا ہے کہ اتنی آہستہ گاڑی پر بیٹھنے سے اچھا ہے بندہ پیدل سفر کر لے۔ اور کہنا کہ کل صبح اپنے گاؤں سے جب شہر کیلیے نکلو تو بیری کے دو جڑے گھنے درختوں کے پاس میرا انتظار کرنا۔ مجھے ساتھ لے جانا ہوگا بھولنا نہیں میں نے کہا جی بالکل ٹھیک ہے۔ مگر یہ بتاؤ پھر وہ کس طرف گئی اس نے جنگل کی طرف مڑتے ہوے کہا جی اس طرف اور ساتھ ہی وہ جنگل کی طرف غائب ہو گیا۔ میں نے چکرا کر اپنا سر پکڑ لیا کہ الٰہی یہ کیا معاملہ ہے اتری وہ اتنا کافی پیچھے اور نمودار یہاں سے ہوئی اور مجھ سے پہلے کیسے پہنچی اور یہ بندہ ایک دم کیسے غائب ہوگیا؟ میں کبھی کچھ سوچتا کبھی کچھ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پا رہا تھا۔۔

اتنے میں بزرگ کی آواز آئی پتر کیا ہوا اب چلو گرمی ہورہی ہے ۔میں نے پیچھے مڑ کر کہا بزرگو بس ایک بندے سے بات کر رہا تھا بس اب چلتا ہوں۔ تو بزرگ بولے کس سے بات کررہے تھے یہاں تو کوئی نہیں تھا تم نے خواہ مخواہ گاڑی روک دی اور باہر کی طرف سر نکال کر خود سے ہی بڑبڑا رہے تھے۔ اور اس نے دوسروں سے بھی پوچھا کیا تم میں سے کسی نے کسی کو دیکھا تو انہوں نے بھی کہا کہ باہر کوئی نہیں تھا۔

یہ سن کر میں نے گیلن میں بچا پانی باہر کی طرف سر کر کے سر پر ڈال دیا اور ان سے کہا ٹھیک ہے ایسا ہی ہوگا اور میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ اور اب میرے دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے تھے میں نے ٹیپ رکارڈر اونچی آواز میں چلا دیا اور گاڑی دوڑانے لگا اب میں جلدی گھر پہنچنا چاہ رہا تھا کیونکہ میری حالت پھر کل والی ہونے لگی تھی۔ 

اللّٰہ اللّٰہ کرکے گاؤں پہنچا جلدی سے گاڑی کو اسکی جگہ کھڑا کیا۔ اور گھر پہنچا تو امی نے مجھے دیکھا تو دیکھتے ہی مجھے گلے سے لگا لیا اور میں رونے لگا تو امی نے کہا بیٹا کیا ہوگیا۔ طبیعت کی خرابی کا ہی بہانہ کیا اور کہتا بھی کیا۔ابو نے کندھوں پر ہاتھ پھیرا تسلی دی اور کہا اللّٰہ بہتر کرے گا چلو ڈاکٹر سے دوا لیتے ہیں پہلے منہ ہاتھ دھو لو میں نے منہ ہاتھ دھویا تھوڑا بہت کھانا کھایا بہن نے دودھ پتی بنائی اہنے پاس رکھی سر درد کی گولی کھائی اور لیٹ گیا امی نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کچھ سُورتیں پڑھ کر پھونکیں تو جلد ہی آنکھ لگ گئی۔۔۔

حسب معمول امی کی آواز پر آنکھ کھلی امی ابو نے طبیعت کا پوچھا اور میں نے کہا الحمدُاللّٰہ ٹھیک ہوں۔
تو انہوں نے بھی اللّہ کا شکر ادا کیا اور دعا دی۔
اب میں ناشتہ وغیرہ کرکے اڈہ پر آیا اور گاڑی کو اسکی جگہ پر کھڑا کیا۔سواریاں پوری ہوئیں تو شہر کو روانہ ہونے لگا

گزرے کل کی تمام ویڈیو دماغ میں چل رہی تھی۔ اور کوئی کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے؟
میں عجب کشمکش میں مبتلا تھا۔
کبھی سوچتا کسی عامل سے رابطہ کرنا چائیے اور اور اس سے پہلے کسی اپنے سے شئیر کرکے مشورہ لُوں۔ پھر سوچتا کہ پہلے مزید آگے چل کر کسی طرح اس لڑکی کا کچھ راز جانچ لینا چائیے کہ وہ اصل میں ہے کون؟

یہ سوچ کرمیرے اندر کچھ ہمت پیدا ہوئی اور میں آگے تیزی سے بڑھتا گیا۔ جب کل والے میلے کچیلے شخص کی بتائی ہوئی جگہ دوبیری کے پاس پہنچا تو بس روک دی دو منٹ گزرے تو لوگوں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ کیا ہوا بھئی کیوں گاڑی روک دی کیا خرابی ہوگئی ہے؟

جب گاؤں کے ایک بزرگ بولے اسد پُتر چلو گرمی ہوجائے گی تو میں نے کہا جی چاچا جی چلتا ہوں بس انجن سے کچھ آواز آنے لگی ہے دیکھ لوں تو نکلتے ہیں۔
دائیں بائیں نظر گھمائی تو انیتا نظر نہ آئی انتظار بھی ضروری تھا ورنہ ناراضگی پیدا ہو جاتی اور میں اس حُسن کی دیوی کو کسی صُورت کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ مجھے میرےسپنوں کی رانی لگنے لگی تھی۔

مگر ابھی تک ایک پہیلی بنی ہوئی تھی جسے میں بُوجھ نہیں پا رہا تھا۔
کافی دن ہوے بارش نہیں ہو رہی تھی جسکی وجہ سے گرمی ہر روز بڑھتی جا رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں واپس گاڑی میں آگیا اور کپڑے سے چہرے اور گردن سے پسینہ صاف کرنے لگا تو اچانک وہ سامنے زرد رنگ کے لباس میں بائیں جانب ایک درخت کے پاس کھڑی نظر آئی تو میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ اس نے ہاتھ کا اشارہ سے روکا اور گاڑی پر سوار ہوگئی۔

وہ میرے پیچھے تین نمبر والی سیٹ پر دو عورتوں کے پاس بیٹھ گئی۔ گورا رنگ اور زرد کپڑے کیا حسن تھا سبحان اللّٰہ۔۔
میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا دھڑکنوں کو سنبھالا اور میں نے اسکی پسند کی کل والی اردو کیسٹ لگا دی اور چلنے لگا۔

اب میں شفیق کے گاؤں پہنچ گیا شفیق نے پاس آکر طبیعت کا پوچھا اور کہنے لگا اس کا کیا ہوا تو میں نے آہستہ سے کہا میرے پیچھے زرد کپڑے۔ اور شفیق پچھلے دروازے سے بس میں آکر کرایہ وصول کرنے لگا۔ اس گاؤں سے نکلنے کے بعد اب جنگل کا سنسان راستہ شروع ہوگیا تھا۔ اور سب لوگ گرمی کا رونا رو رہے تھے سب پسینے میں شرابور تھے۔ اور اپنے اپنے چہروں سے پسینہ صاف کررہے تھے۔ میں انیتا کے چہرے کو باربار آئینے میں دیکھ رہا اور یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اسکے چہرے پر کہیں بھی پسینے کا ایک قطرہ نہ تھا اور نہ اس پر گرمی کا کوئی اثر نظر آرہا تھا۔

اب جب ہم انیتا کے گھر کے پاس پہنچے تو بہت سے لوگ اترے اور دو تین سواریاں سوار ہوئیں۔ انیتا بھی اپنے کپڑوں اور دوپٹے کو سنبھالتے ہوے اتری اور گھر میں داخل ہو گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد جب نلکے پر کوئی نہ رہا تو میں بھی اترا اور پانی پینے کیلیے اندر گیا تو ساتھ ہی وہ گلاس اٹھا کر پاس آگئی۔ میں نے اس کے ہاتھ سے گلاس لیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھ کر آہستہ سے سلام کیا جواب میں اسنے صرف ہُوں کہا۔
میں نے کہا کوئی ناراضگی؟؟

تو,جواب آیا کل جواب دونگی اور بولی کل میری دو یا تین دوست بھی میرے ساتھ ہونگی میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے اور کہا اچھا بتاؤ تم کل جاتے ہوے گاڑی سے کیسے اور کیوں اتری مجھ سے اتنا جلدی آگے کیسے پہنچی؟
تو یہ کہہ کر واپس چل دی کے سب کل پتا چل جائے گا تمہیں۔
میں نے کہا ٹھیک ہے جی اور واپس گاڑی میں آگیا۔سواریاں واپس آگئیں تو میں نے بس آگے بڑھادی۔

گاؤں سے باہر نکلے تو ایک چھوٹے سے درخت کے پاس روڈ پر ایک بوڑھی عورت اور ایک جوان خوبصورت لڑکی کھڑی تھی بڑھیا بیمار لگ رہی تھی لڑکی نے بڑھیا کو بامشکل سنبھال رکھا تھا میں بڑھیا کی حالت دیکھ کر جلدی سے نیچے اترا اور بڑھیا کو سنبھالتے ہوے لڑکی سے کہا کوئی مرد یا اور عورت نہیں تھی جو تم اکیلی انکو لیے پھرتی ہو۔ تو جلدی سے بولی ہوتے تو ساتھ نہ آتے کیا۔ اور میں ماں جی کو لیے پھر نہیں رہی بلکہ شہر ڈاکٹر کو دکھانے لے جا رہی ہوں۔
میں نے کہا سوری جی میرا مطلب بھی یہی تھا۔ اور ماں جی کو گاڑی میں بٹھا دیا وہ میرے پیچھے تھی اور ابھی گاڑی سے نیچے تھی میں اترا تو مجھے ایک ہاتھ سے چُھوتے ہوے بولی کل پھر آپ سے انیتا کے ساتھ ملاقات ہوگی۔ اور ساتھ ہی وہ جلدی سے بس پر سوار ہوگئی۔
میں بہت حیران ہوا کہ اب یہ کیا ہے؟

بحرحال میں گاڑی چلانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جنگل میں سفر ہورہا تھا یہ لڑکی بھی کم خوبصورت نہیں تھی۔ بڑھیا کی طبیعت بہت خراب لگ رہی تھی اور وہ لڑکی باربار اسکے ماتھے پر گیلا کپڑا لگا رہی تھی اسکے ہاتھ میں ایک پلاسٹک کی پانی والی بوتل تھی۔جسکی مدد سے وہ کپڑا گیلا کرریی تھی۔

اچانک ایک خوبصورت کبوتر میری طرف والے دروازے سے بس میں داخل ہوا اور میرے کندھے کے پاس میری سیٹ پربیٹھ گیا۔ اور فوراً اڑ کر اس لڑکی کے کاندھے پر بیٹھ گیا۔ اور پھر اڑ کر میرے پاس آکر اسی طرح بیٹھ گیا۔ اور دوبارہ اسی طرح اس لڑکی کے پاس گیا اور پھر میرے پاس آیا تو میں نے کہا یار چلا جا گاڑی چلانے دے۔ اور اڑ کر پھر لڑکی کےپاس گیا تو وہ بولی جاؤ چلے جاؤ گھر ورنہ رستہ بھول جاؤ گے تمہارا کام ختم ہوگیا۔ 

سب لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوے کہ وہ اڑ کر پچھلے دروازے سے باہر چلا گیا۔ ایک عورت نے لڑکی سے کہا بیٹی واہ یہ کیسے تمہاری بات سن کر چلا گیا تو لڑکی بولی اپنا ہی ہے خریت پوچھنے آیا تھا۔ سب لوگ ہنسنے لگے اور بولے واہ بھئی واہ کیا بات ہے۔

اب شہر قریب آنے والا تھا لڑکی زور سے بولی مہربانی کر کے گاڑی تھوڑی تیز کر دیں ماں جی کی طبیعت بگڑتی جا رہی ہے۔ 
کیونکہ اب سڑک پکی تھی تو میں نے گاڑی تیز کردی اور جلد ہی ہم شہر پہنچ گئے ایک جگہ میں نے بس روک کر لڑکی سے کہا ماں جی کو نیچے لے آؤ یہاں ایک اچھا ڈاکٹر ہے اسکو دکھاؤ انشااللّٰہ انکو جلد آرام آجائیگا۔ وہ اٹھی اور دو عورتوں نے اسکو اتارنے میں مدد کی۔ وہ اتری تو میں نے بڑھیا کو سنبھالا اور اس سے کہا تم سامان اٹھاؤ میں انکو سنبھالتا ہوں یہاں سے مُڑ کر ساتھ ہی ڈاکٹر کا کلینک ہے۔ تم انکو دکھاؤ اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں گاڑی کھڑی کر کے واپس آجاتا ہوں تمہاری مدد کیلیے۔ پیسوں کا مسئلہ ہو تو بھی بتاؤ مجھے غلط نہ سمجھنا۔ تو وہ سختی لہجے میں بولی جتنی نیکی کر چکے ہو نا یہی کافی ہے اب یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

واپسی پر تمہارے ساتھ ہی تو جانا ہے۔ اور میں انکو ڈاکٹر کے پاس چھوڑ کر واپس گاڑی میں آگیا۔ اور سوچ رہا تھا عجیب لڑکی ہے۔
اپنے ٹھکانے پر گاڑی کھڑی کی سواریاں اترکر چلی گئیں شفیق اور میں ہوٹل پر آکر فریش ہوے اس نے گاڑی کو دیکھا بھالا پھر ہم نے تھوڑی دیر بعد کھانا کھایا اور پنکھے کے سامنے لیٹ کر آرام کرنے لگے۔

 کچھ دیر بعد چائے منگوائی اور بعد میں گاڑی کا کچھ کام کروایا دوسرے دوستوں سے گپ شپ بھی کی۔ شفیق نے انیتا کے بارے پوچھا تو مختصر مختصر اسکو بتایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کا ذکر بھُولے سے بھی کسی اور سے نہ کرنا۔
اور پھر گھر کیلیے سامان خریدا۔ اتنے میں واپسی کا ٹائم بھی ہوگیا کچھ دیر بعد سواریاں بیٹھ چکی تھیں اور ہم گاؤں کی طرف روانہ ہونے لگے تھے۔

 بس ڈرائیور ( قسط نمبر 3) آخری قسط

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں



Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں