بے صبرا

Sublimegate Urdu Story

وہ موسم سرما کی ایک ٹھنڈی صبح تھی، جمعرات کا دن تھا۔ میں حسبِ معمول تیار ہو کر تھانے پہنچا تو برآمدے میں چند لوگوں کو بے چین بیٹھے دیکھا۔ ان کے چہروں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ میں نے ان پر سرسری نگاہ ڈالی اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ابھی میں کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ کانسٹیبل اکرام اللہ کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ پریشانی اور اضطراب سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، میں نے پوچھ لیا، "اکرام اللہ، صبح صبح تھانے میں اتنا رش کیوں ہے؟ سب خیریت تو ہے؟"

"جناب، خیریت بالکل نہیں ہے،" اکرام اللہ نے جواب دیا۔ "ساتھ والے گاؤں میں قتل اور اغوا کی ایک سنگین واردات ہوئی ہے۔ یہ لوگ اسی سلسلے میں رپورٹ درج کرانے آئے ہیں۔ واقعہ چوہدری نظام دین کے گھر سے متعلق ہے۔ ان کی بھابھی کو قتل کر دیا گیا ہے، اور ان کی اکلوتی بیٹی، یعنی چوہدری صاحب کی بھتیجی، کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ بس اتنا ہی پتا چلا ہے۔ آپ ان لوگوں کو اندر بلا کر تفصیل جان لیں۔ ان میں چوہدری نظام دین اور ان کا بیٹا ناصر علی بھی شامل ہیں۔"

میں نے سر ہلایا اور سنجیدگی سے کہا، "تم صرف چوہدری نظام دین اور ان کے بیٹے کو اندر بھیجو۔ باقی سب کو برآمدے میں ہی رہنے دو۔ اگر ضرورت پڑی تو میں کسی اور کو بلا لوں گا۔" اکرام اللہ باہر چلا گیا۔

میں ملک صفدر حیات ہوں۔ اس تھانے میں میری تعیناتی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، اس لیے میں یہاں کے لوگوں سے پوری طرح واقف نہیں تھا۔ البتہ، یہ معلوم تھا کہ اس گاؤں کے چوہدری کا نام گل شیر ہے، لیکن ابھی تک میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ جب اکرام اللہ نے بتایا کہ چوہدری نظام دین ملنے آئے ہیں، تو مجھے کچھ عجیب لگا۔ پھر بھی، میں نے زیادہ غور نہ کیا۔ شاید نظام دین، گل شیر کا کوئی قریبی رشتہ دار ہو، کیونکہ چوہدری خاندان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص خود کو چوہدری کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔

دو افراد میرے کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک کی عمر پچاس سال سے زائد تھی، اور دوسرا بیس سے بائیس سال کا نوجوان تھا۔ فوراً اندازہ ہو گیا کہ ادھیڑ عمر شخص چوہدری نظام دین اور نوجوان ان کا بیٹا ناصر علی ہے۔ میں نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ میری میز کے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

"تھانیدار صاحب، آپ کو ابھی ہمارے ساتھ چلنا ہوگا،" نظام دین نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ "آج میرے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ میری بھابھی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے، اور ان کی اکلوتی بیٹی پروین، جو آج ظہر کی نماز کے بعد میرے بیٹے ناصر کے ساتھ نکاح کرنے والی تھی، اسے اغوا کر لیا گیا ہے۔" وہ ایک لمحے کو رکے، بھاری سانس لی، اور گلوگیر آواز میں بولے، "جناب، میں تو اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ پروین میرے مرحوم چھوٹے بھائی سلام دین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ میں نے اسے اپنے گھر کی عزت بنانے کا فیصلہ کیا تھا، مگر اس اندوہناک واقعے نے سب کچھ تباہ کر دیا۔"

میں نے مختصراً کہا، "ٹھیک ہے، آپ لوگ جائیں۔ میں دس منٹ میں آتا ہوں۔ باقی باتیں آپ کے گھر پہنچ کر ہوں گی۔" میں نے کانسٹیبل حامد علی کو بلایا اور فوراً جائے وقوع پر جانے کی تیاری کا حکم دیا۔

چوہدری نظام دین کا گھر حویلی تو نہ تھا، لیکن بیس مرلہ کے قطعہ اراضی پر بنا ایک کشادہ مکان تھا۔ کراچی والے اسے چھ سو مربع گز کا پلاٹ سمجھ سکتے ہیں۔ گاؤں تھانے سے زیادہ دور نہیں تھا، اس لیے وہاں پہنچنے میں ہمیں چند منٹ ہی لگے۔ صبح کے دس بج رہے تھے۔

چوہدری نظام دین مجھے سیدھا اس کمرے میں لے گئے جہاں ان کی بھابھی زینب کی لاش رکھی تھی۔ زینب کی عمر پچپن سے ساٹھ سال کے درمیان ہوگی۔ وہ چارپائی پر بستر کے اندر پڑی تھی۔ اس کے چہرے اور سینے سے لحاف ہٹا ہوا تھا۔ اس کی شہ رگ کو کسی تیز دھار آلے—چھری یا خنجر—سے کاٹا گیا تھا۔ خون نے بستر اور زینب کے کپڑوں کو بری طرح بھگو دیا تھا۔ یہ دیکھ کر کوئی شک باقی نہ رہا کہ زینب کی سانسیں ختم ہو چکی تھیں۔

میں نے چوہدری نظام دین اور ان کی بیوی نرگس سے زینب کی لاش کا بغور معائنہ کیا۔ گردن کے کٹاؤ کے علاوہ اس کے جسم پر کوئی اور چوٹ یا زبردستی کے نشانات نہ تھے۔ زینب کی لاش دیکھ کر ذہن میں یہی خیال آیا کہ اس ضعیف عورت کو قتل کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ اس کی صحت ایسی تھی کہ اسے زندہ انسانوں میں شمار کرنا مشکل تھا۔

"کیا زینب کو کوئی سنگین بیماری تھی؟" میں نے نظام دین سے پوچھا۔

"جی ہاں،" انہوں نے جواب دیا۔ "زینب برسوں سے تپ دق میں مبتلا تھی۔ تھانیدار صاحب، میں نے اس کے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مگر وہ پہلے ہی موت کے قریب تھی۔ نہ اس کے جسم میں گوشت دکھائی دیتا تھا، نہ چہرے پر زندگی کی کوئی رمق۔ پتا نہیں قاتل کو اس لاچار عورت سے کیا دشمنی تھی۔"

چونکہ زینب اور اس کی بیٹی پروین اسی گھر میں رہتی تھیں، میں نے پروین کے کمرے کا معائنہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ کمرے کا بستر بے ترتیب اور خالی تھا۔ اگلے پندرہ منٹ تک میں نے کمرے کا بغور جائزہ لیا، مگر کوئی ایسی چیز نہ ملی جو پروین کے اغوا پر روشنی ڈال سکے۔

جائے وقوع کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد، میں نے زینب کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے کانسٹیبل حامد علی کی نگرانی میں ضلعی ہسپتال بھجوا دیا اور گھر والوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ چوہدری نظام دین پہلے ہی بتا چکے تھے کہ آج پروین اور ناصر کا نکاح ہونا تھا، لیکن یہ گھر کسی شادی والے گھر جیسا دکھائی نہ دیتا تھا۔

میں نے پوچھا، "چوہدری صاحب، اس وقت آپ تینوں کے علاوہ گھر میں کوئی اور دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر آج ظہر کے بعد نکاح ہونا تھا، تو مہمان کہاں ہیں؟"

چوہدری نظام دین جواب دینے ہی والے تھے کہ ناصر علی بول پڑا، "تھانیدار صاحب، ہمارے اور چاچی زینب کے کوئی قریبی رشتہ دار ہیں ہی نہیں۔ ہم کس کو دعوت دیتے؟"

نرگس نے بیٹے کی تائید کی۔ "زینب کے بڑے بھائی قادر علی اور بھابی حمیدہ برسوں پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ زینب کا شوہر، یعنی میرا دیور سلام دین، اس وقت گزر گیا جب پروین چھوٹی بچی تھی۔ میری طرف سے بھی کوئی رشتہ دار نہیں۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی، اور وہ بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ نظام دین کا بھی صرف ایک بھائی تھا۔ ناصر ہماری اکلوتی اولاد ہے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ظہر کی نماز کے بعد سادگی سے مسجد میں پروین اور ناصر کا نکاح کر دیں، اور کل جمعہ کو ولیمہ کریں۔ گاؤں والوں کو ولیمے میں مدعو کیا تھا، مگر اس سے پہلے سب تباہ ہو گیا۔"

نرگس نے معتدل لہجے میں کہا، "تھانیدار صاحب، زینب کو تو واپس نہیں لایا جا سکتا، لیکن آپ کم از کم پروین کو ڈھونڈ نکالیں تاکہ میرے بیٹے کا گھر آباد ہو جائے۔"

میں نے کہا، "نرگس، میں آپ کے جذبات سمجھتا ہوں۔ لیکن قانون کا پاسبان ہونے کے ناطے، میرا فرض ہے کہ نہ صرف پروین کو بازیاب کروں بلکہ زینب کے قاتل کو بھی کیفر کردار تک پہنچاؤں۔ یہ دونوں کام آپ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔"

چوہدری نظام دین بولے، "تھانیدار صاحب، ہم ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔ آپ حکم کریں، ہمیں کیا کرنا ہوگا؟"
میں نے تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "آپ کو کب پتا چلا کہ زینب کو قتل اور پروین کو اغوا کیا گیا ہے؟"

نرگس نے جواب دیا، "تھانیدار صاحب، میری آنکھ صبح سویرے کھل جاتی ہے۔ جب میں چوہدری صاحب کو سوتا چھوڑ کر کمرے سے باہر نکلی، تو مجھے گھوڑوں کے دوڑنے کی آواز سنائی دی۔ یہ بہت عجیب تھا، کیونکہ اس سے پہلے کبھی ایسی آواز نہیں سنی تھی۔ میرا دل گواہی دینے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ میں فوراً صحن میں نکلی تو دیکھا کہ گھر کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے دروازے سے باہر جھانکا تو دو گھوڑوں کو دھول اڑاتے تیز رفتاری سے جاتے دیکھا۔ وہ کون تھے، یہ تو نہیں بتا سکتی، مگر لگتا تھا کہ وہ کوئی واردات کر کے بھاگ رہے ہیں۔"

وہ رکیں، دو تین گہری سانسیں لیں، اور بولیں، "میں واپس کمرے میں آئی اور چوہدری صاحب کو جگایا۔ ہم نے گھر چیک کیا تو پتا چلا کہ زینب کو قتل کر دیا گیا ہے اور پروین اپنے کمرے میں نہیں تھی۔ ہم نے ناصر کو جگایا اور مل کر پورے گھر میں پروین کو تلاش کیا، مگر وہ کہیں نہ ملی۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ جس نے زینب کو قتل کیا، وہی پروین کو اٹھا کر لے گیا۔ فجر کی اذان کے بعد ہم صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جب صبح ہوئی تو گاؤں والوں کو بھی خبر ہو گئی، اور ہم آپ کے پاس پہنچے۔"

میں نے کہا، "یہ صاف ظاہر ہے کہ زینب کا قاتل اور پروین کا اغواکار ایک ہی شخص یا گروہ ہو سکتا ہے۔ نرگس نے دو گھوڑوں کو جاتے دیکھا، تو امکان ہے کہ یہ دوہری واردات انہی گھڑسواروں کی کارستانی ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ جو بھی تھا، وہ زینب اور پروین کا پکا دشمن تھا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اس معاملے میں مدد کروں، تو مجھے ان کے دشمنوں کے بارے میں پکی معلومات چاہئیں۔"

چوہدری نظام دین بولے، "تھانیدار صاحب، سچ کہوں تو اس گاؤں میں ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ آج تک کسی نے ہم سے ٹیڑھے منہ بات نہیں کی۔"

میں نے دوٹوک انداز میں کہا، "میں آپ کے دشمنوں کی بات نہیں کر رہا، زینب اور پروین کے دشمنوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں، کیونکہ اس واردات میں انہی ماں بیٹی کو نشانہ بنایا گیا۔"

ناصر علی نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور کہا، "ابا جی، ہمیں تھانیدار صاحب کو اس دھمکی کے بارے میں بتا دینا چاہیے۔"
"کون سی دھمکی؟" میں نے پوچھا۔
چوہدری نظام دین بولے، "چند روز پہلے مجھے ایک خط ملا تھا، جس میں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر پروین کی شادی ناصر سے کی گئی تو وہ پروین اور زینب کو کاٹ ڈالے گا۔"

میں نے تیز آواز میں کہا، "یہ بات آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی؟ کیا وہ خط آپ کے پاس محفوظ ہے؟ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔"

ہم سب چوہدری نظام دین کی بیٹھک میں بیٹھے تھے۔ وہ اٹھ کر گھر کے اندرونی حصے میں گئے اور وہ خط لے آئے۔ لفافے پر چوہدری نظام دین کا نام اور گاؤں کا پتا لکھا تھا، مگر بھیجنے والے کا نام یا پتا نہیں تھا۔ میں نے لفافہ کھول کر پرچہ نکالا۔ خط میں زینب کو مخاطب کرتے ہوئے پروین کی شادی سے باز رہنے کی دھمکی دی گئی تھی، اور ماں بیٹی کو موت کے گھاٹ اتارنے کی بات لکھی تھی۔

نظام دین، نرگس، اور ناصر کے بیانات سے معلوم ہوا کہ زینب کا صرف ایک بھتیجا تھا، ذوالفقار علی عرف زلفی، جو برسوں سے ان کے رابطے میں نہیں تھا۔ اس نے گاؤں میں قدم رکھے بھی کئی سال ہو گئے تھے۔ نرگس نے بتایا، "زلفی کا ٹھکانہ کوئی نہیں جانتا۔ سننے میں آیا ہے کہ وہ چوری، ڈکیتی، اور قتل و غارت گری جیسے جرائم میں ملوث ہے۔ پولیس سے بچنے کے لیے وہ جھنگ، سرگودھا، شیخوپورہ، یا ساہیوال جیسے علاقوں میں چھپتا پھرتا ہے۔ کبھی کبھار وہ لائل پور بھی جاتا ہے۔"

میں نے خط کو غور سے دیکھا۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ زلفی یا کوئی اور اس واقعے میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اب تفتیش کا اگلا مرحلہ اس دھمکی کے پیچھے چھپے کردار کو ڈھونڈنا تھا۔

پروین کی عمر چوبیس سال تھی، جبکہ ذوالفقار علی عرف زلفی کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔ وہ برسوں پہلے گاؤں چھوڑ کر جا چکا تھا، اور اس کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھیں۔ بس اڑتی اڑتی خبروں سے پتا چلتا تھا کہ زلفی نے جرم کی دنیا اختیار کر لی ہے۔ تین چار اضلاع کی پولیس اسے چوری، ڈکیتی، اور دیگر جرائم کے الزامات میں مطلوب تھی، اور کئی تھانوں میں اس کے خلاف مقدمات درج تھے۔

میں نے زلفی کے بارے میں چوہدری نظام دین، نرگس، اور ناصر سے کافی معلومات حاصل کر لی تھیں۔ ناصر علی نے جوش بھرے لہجے میں کہا، "تھانیدار صاحب، زلفی ایک بزدل اور کم ظرف انسان ہے۔ چھپ کر وار کرنا مردانگی نہیں۔ اس بدمعاش نے میری چاچی کو قتل کیا اور میری ہونے والی بیوی پروین کو اغوا کر کے میری غیرت کو للکارا ہے۔ اگر ابا جی نہ روکتے، تو میں اس کی تلاش میں کب کا نکل پڑتا۔"

میں نے سنجیدگی سے کہا، "ناصر، میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں، لیکن اس خط کی بنیاد پر ہم یہ قیاس کر رہے ہیں کہ زینب کے قتل اور پروین کے اغوا میں زلفی ملوث ہے۔ ہمارے پاس اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور اس دوہری واردات کے پیچھے ہو اور زلفی کی طرف توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہو۔"

چوہدری نظام دین نے ناصر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "بیٹا، تھانیدار صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ہم نے یہ معاملہ ان کے حوالے کر دیا ہے، تو انہیں اپنے طریقے سے کام کرنے دیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہیں۔ ظلم ہم پر ہوا ہے، اور زینب کے قاتل اور پروین کے اغواکار کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے ہمیں ان سے بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔"

ناصر کی بات سمجھ میں آئی یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا۔ بہرحال، میں نے اس کی تسلی کے لیے کہا، "میں پہلی فرصت میں اپنے ذرائع سے جھنگ، ساہیوال، سرگودھا، اور شیخوپورہ کے تھانوں سے زلفی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات حاصل کروں گا۔ اگر وہ اس واقعے میں ملوث ہے، تو وہ میرے ہاتھ سے نہیں بچ پائے گا۔ چاہے وہ پروین کو لے کر پاتال میں ہی کیوں نہ چھپا ہو، میں اسے پکڑ کر باہر نکالوں گا۔ بس تم تینوں میرے ایک سوال کا صاف جواب دو: کیا زلفی پروین سے شادی کرنا چاہتا تھا؟"

نظام دین نے معتدل لہجے میں جواب دیا، "جناب، ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں۔ اگر زلفی کے دل میں یہ خواہش ہوتی، تو وہ چھپ نہ سکتی۔ ہمیں نہ سہی، گاؤں میں کسی نہ کسی کو ضرور پتا ہوتا۔"

میں اپنی جگہ سے اٹھا، وہ مبینہ خط اپنی جیب میں ڈالا، اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ نظام دین، نرگس، اور ناصر مجھے دروازے تک رخصت کرنے آئے۔ میں نے گھر کے داخلی دروازے کا بغور معائنہ کیا۔ دروازے پر توڑ پھوڑ یا زبردستی کے کوئی نشانات نہ تھے۔ گھر کے سامنے والی دیوار تقریباً چھ فٹ اونچی تھی۔ غالب امکان یہی تھا کہ حملہ آوروں نے اپنے گھوڑوں کو گھر سے کچھ فاصلے پر کھڑا کیا، دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے، اندرونی کنڈی کھول کر اپنے ساتھیوں کے لیے راستہ بنایا، اور واردات کے بعد بیرونی دروازہ کھلا چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

اب دوپہر ہونے کو تھی، لیکن دھوپ کا نام و نشان نہ تھا۔ صبح کے مقابلے میں سردی کچھ کم ہوئی تھی، لیکن موسم اب بھی خوشگوار نہ تھا۔ تھانے پہنچتے ہی حوالدار جابر خان میرے کمرے میں آیا۔ میں نے اسے کہا، "افضل محمود کو میرے پاس بھیجو، اور کھوجی سردار حسین کو فوراً تھانے بلاو۔ میں نے اس کے لیے ایک کام نکالا ہے۔"

پانچ منٹ بعد کانسٹیبل افضل محمود میرے سامنے بیٹھا تھا۔ میں نے اسے تفصیلات سے آگاہ کیا اور اسے نئی ذمہ داری سونپ دی۔ اس نے کہا، "ملک صاحب، آپ نے جو کام مجھے دیا ہے، میں اسے پورا کرنے کے لیے اپنی جان لگا دوں گا۔"

میری تفتیش میں اب تک صرف ایک مشکوک نام سامنے آیا تھا: ذوالفقار علی عرف زلفی۔ لیکن افسوس کہ اس کے نام اور زینب و پروین سے اس کے رشتے کے علاوہ اس کی ذات کے بارے میں زیادہ معلومات نہ تھیں۔ اسی مقصد کے لیے میں نے افضل محمود کو اس کی چاچی نظیرہ سے ملنے بھیجا۔ نظیرہ گاؤں میں ماچن کی حیثیت سے کام کرتی تھی، اور اس کے تنور پر عورتوں اور بچوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ایسی جگہوں پر خبریں پھیلتی ہیں۔ چونکہ گاؤں میں قتل اور اغوا کی یہ واردات زیر بحث تھی، مجھے امید تھی کہ افضل وہاں سے کوئی اہم معلومات لے آئے گا۔ بظاہر وہ اپنی چاچی سے ملنے جا رہا تھا، لیکن درپردہ وہ پولیس کے مخبر کا کردار ادا کرے گا۔

افضل کے جانے کے بعد میں نے نماز ادا کی۔ اسی دوران جابر خان کھانا لے آیا۔ کھانے کے دوران ہم نے تفتیش پر بات کی۔ تبھی کانسٹیبل حامد علی، جسے میں نے زینب کی لاش کے ساتھ ضلعی ہسپتال بھیجا تھا، واپس آیا۔ اس نے بتایا، "ملک صاحب، ہسپتال کی لیبارٹری میں کچھ مسئلہ ہے، اس لیے پوسٹ مارٹم کل تک مکمل نہیں ہو سکے گا۔ پرسوں صبح وہ لاش اور ابتدائی رپورٹ ہمیں مل جائے گی۔ ہسپتال کا عملہ خود لاش یہاں پہنچا دے گا۔"

حامد کے جانے کے بعد میں اور جابر خان نے دوبارہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ جابر خان کو اس تھانے میں دس سال ہو گئے تھے۔ اچانک ذہن میں خیال آیا تو میں نے اس سے زلفی کے بارے میں پوچھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش رہا، پھر بولا:

"ملک صاحب، میری معلومات کے مطابق زلفی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ جب وہ بچہ تھا، اس کے والد قادر علی نے اس کی ماں حمیدہ کو طلاق دے دی تھی۔ قادر علی کو حمیدہ کے کردار پر شک تھا اور وہ زلفی کو اپنی جائز اولاد نہیں مانتا تھا۔ اس لیے اس نے حمیدہ اور زلفی کو مکمل طور پر الگ کر دیا۔ حمیدہ کو طلاق دینے کے بعد قادر علی نے دوبارہ شادی نہیں کی۔ اس کی فیملی صرف دو افراد پر مشتمل رہی: وہ خود اور اس کی بہن زینب۔ عمر کے آخری حصے میں قادر علی بیمار رہنے لگا۔ اس نے زینب کی شادی سلام دین سے کرائی، جو نظام دین کا چھوٹا بھائی تھا۔ سلام دین کا انتقال ہو چکا ہے۔ اب زینب اور اس کی بیٹی پروین، نظام دین کے گھر میں رہتی تھیں۔ پروین کی شادی ناصر سے ہونے والی تھی کہ یہ سانحہ پیش آ گیا۔"

جابر نے مزید بتایا، "جب میں اس تھانے میں آیا، قادر علی اور حمیدہ فوت ہو چکے تھے۔ زلفی تب بیس سال کے لگ بھگ تھا۔ وہ اوباش اور بدتمیز تھا، لیکن میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ اس نے گاؤں چھوڑ دیا۔ کہاں گیا، کوئی نہیں جانتا تھا۔ سالوں بعد سنا کہ اس نے جرم کی راہ اختیار کر لی۔ وہ چوری، ڈکیتی، اور قتل کے مقدمات میں مطلوب ہے، لیکن اس کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکتا۔"

جابر کی بات سن کر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے جھنگ بھیجا جائے، کیونکہ نظام دین کو ملنے والا دھمکی آمیز خط جھنگ کے ڈاکخانے سے بھیجا گیا تھا۔ میں نے خط نکال کر جابر کے سامنے رکھا۔ اس نے لفافہ الٹ پلٹ کر دیکھا اور بولا، "ملک صاحب، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس خط پر دو مہریں ہیں: ایک جھنگ کے ڈاکخانے کی اور دوسری لائل پور کے ڈاکخانے کی۔ یہ خط جھنگ سے نظام دین کے نام پر بھیجا گیا۔"

ہماری بات ختم ہوئی تو کھوجی سردار حسین ملنے آیا۔ میں نے اسے تازہ حالات سے آگاہ کیا اور کہا، "چاچا سردار، میں کانسٹیبل نظیر حسین کو تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ تم ابھی کام شروع کرو۔ شام تک ان گھڑسواروں کا جتنا سراغ لگا سکتے ہو، لگاؤ۔ باقی کام کل کر لینا۔ تم تجربہ کار کھوجی ہو اور اپنا کام جانتے ہو۔ مجھے نتیجہ چاہیے۔"

دس منٹ بعد سردار حسین اور نظیر حسین میرے بتائے مشن پر روانہ ہو گئے۔ سردار حسین کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔ وہ سنجیدہ اور بردبار شخص تھا۔ یہ میری اس سے دوسری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب میں نے تھانے کا چارج سنبھالا تھا۔ تب مجھے تھانے کے عملے اور کھوجیوں سے متعارف کرایا گیا تھا، جو محکمے کے باقاعدہ ملازم نہیں تھے لیکن کیس حل کرنے میں مدد دیتے تھے۔