پروین کی عمر چوبیس سال تھی، جبکہ ذوالفقار علی عرف زلفی کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔ وہ برسوں پہلے گاؤں چھوڑ کر جا چکا تھا، اور اس کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھیں۔ بس اڑتی اڑتی خبروں سے پتا چلتا تھا کہ زلفی نے جرم کی دنیا اختیار کر لی ہے۔ تین چار اضلاع کی پولیس اسے چوری، ڈکیتی، اور دیگر جرائم کے الزامات میں مطلوب تھی، اور کئی تھانوں میں اس کے خلاف مقدمات درج تھے۔
میں نے زلفی کے بارے میں چوہدری نظام دین، نرگس، اور ناصر سے کافی معلومات حاصل کر لی تھیں۔ ناصر علی نے جوش بھرے لہجے میں کہا، "تھانیدار صاحب، زلفی ایک بزدل اور کم ظرف انسان ہے۔ چھپ کر وار کرنا مردانگی نہیں۔ اس بدمعاش نے میری چاچی کو قتل کیا اور میری ہونے والی بیوی پروین کو اغوا کر کے میری غیرت کو للکارا ہے۔ اگر ابا جی نہ روکتے، تو میں اس کی تلاش میں کب کا نکل پڑتا۔"
میں نے سنجیدگی سے کہا، "ناصر، میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں، لیکن اس خط کی بنیاد پر ہم یہ قیاس کر رہے ہیں کہ زینب کے قتل اور پروین کے اغوا میں زلفی ملوث ہے۔ ہمارے پاس اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور اس دوہری واردات کے پیچھے ہو اور زلفی کی طرف توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہو۔"
چوہدری نظام دین نے ناصر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "بیٹا، تھانیدار صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ہم نے یہ معاملہ ان کے حوالے کر دیا ہے، تو انہیں اپنے طریقے سے کام کرنے دیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہیں۔ ظلم ہم پر ہوا ہے، اور زینب کے قاتل اور پروین کے اغواکار کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے ہمیں ان سے بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔"
ناصر کی بات سمجھ میں آئی یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا۔ بہرحال، میں نے اس کی تسلی کے لیے کہا، "میں پہلی فرصت میں اپنے ذرائع سے جھنگ، ساہیوال، سرگودھا، اور شیخوپورہ کے تھانوں سے زلفی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات حاصل کروں گا۔ اگر وہ اس واقعے میں ملوث ہے، تو وہ میرے ہاتھ سے نہیں بچ پائے گا۔ چاہے وہ پروین کو لے کر پاتال میں ہی کیوں نہ چھپا ہو، میں اسے پکڑ کر باہر نکالوں گا۔ بس تم تینوں میرے ایک سوال کا صاف جواب دو: کیا زلفی پروین سے شادی کرنا چاہتا تھا؟"
نظام دین نے معتدل لہجے میں جواب دیا، "جناب، ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں۔ اگر زلفی کے دل میں یہ خواہش ہوتی، تو وہ چھپ نہ سکتی۔ ہمیں نہ سہی، گاؤں میں کسی نہ کسی کو ضرور پتا ہوتا۔"
میں اپنی جگہ سے اٹھا، وہ مبینہ خط اپنی جیب میں ڈالا، اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ نظام دین، نرگس، اور ناصر مجھے دروازے تک رخصت کرنے آئے۔ میں نے گھر کے داخلی دروازے کا بغور معائنہ کیا۔ دروازے پر توڑ پھوڑ یا زبردستی کے کوئی نشانات نہ تھے۔ گھر کے سامنے والی دیوار تقریباً چھ فٹ اونچی تھی۔ غالب امکان یہی تھا کہ حملہ آوروں نے اپنے گھوڑوں کو گھر سے کچھ فاصلے پر کھڑا کیا، دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے، اندرونی کنڈی کھول کر اپنے ساتھیوں کے لیے راستہ بنایا، اور واردات کے بعد بیرونی دروازہ کھلا چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
اب دوپہر ہونے کو تھی، لیکن دھوپ کا نام و نشان نہ تھا۔ صبح کے مقابلے میں سردی کچھ کم ہوئی تھی، لیکن موسم اب بھی خوشگوار نہ تھا۔ تھانے پہنچتے ہی حوالدار جابر خان میرے کمرے میں آیا۔ میں نے اسے کہا، "افضل محمود کو میرے پاس بھیجو، اور کھوجی سردار حسین کو فوراً تھانے بلاو۔ میں نے اس کے لیے ایک کام نکالا ہے۔"
پانچ منٹ بعد کانسٹیبل افضل محمود میرے سامنے بیٹھا تھا۔ میں نے اسے تفصیلات سے آگاہ کیا اور اسے نئی ذمہ داری سونپ دی۔ اس نے کہا، "ملک صاحب، آپ نے جو کام مجھے دیا ہے، میں اسے پورا کرنے کے لیے اپنی جان لگا دوں گا۔"
میری تفتیش میں اب تک صرف ایک مشکوک نام سامنے آیا تھا: ذوالفقار علی عرف زلفی۔ لیکن افسوس کہ اس کے نام اور زینب و پروین سے اس کے رشتے کے علاوہ اس کی ذات کے بارے میں زیادہ معلومات نہ تھیں۔ اسی مقصد کے لیے میں نے افضل محمود کو اس کی چاچی نظیرہ سے ملنے بھیجا۔ نظیرہ گاؤں میں ماچن کی حیثیت سے کام کرتی تھی، اور اس کے تنور پر عورتوں اور بچوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ایسی جگہوں پر خبریں پھیلتی ہیں۔ چونکہ گاؤں میں قتل اور اغوا کی یہ واردات زیر بحث تھی، مجھے امید تھی کہ افضل وہاں سے کوئی اہم معلومات لے آئے گا۔ بظاہر وہ اپنی چاچی سے ملنے جا رہا تھا، لیکن درپردہ وہ پولیس کے مخبر کا کردار ادا کرے گا۔
افضل کے جانے کے بعد میں نے نماز ادا کی۔ اسی دوران جابر خان کھانا لے آیا۔ کھانے کے دوران ہم نے تفتیش پر بات کی۔ تبھی کانسٹیبل حامد علی، جسے میں نے زینب کی لاش کے ساتھ ضلعی ہسپتال بھیجا تھا، واپس آیا۔ اس نے بتایا، "ملک صاحب، ہسپتال کی لیبارٹری میں کچھ مسئلہ ہے، اس لیے پوسٹ مارٹم کل تک مکمل نہیں ہو سکے گا۔ پرسوں صبح وہ لاش اور ابتدائی رپورٹ ہمیں مل جائے گی۔ ہسپتال کا عملہ خود لاش یہاں پہنچا دے گا۔"
حامد کے جانے کے بعد میں اور جابر خان نے دوبارہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ جابر خان کو اس تھانے میں دس سال ہو گئے تھے۔ اچانک ذہن میں خیال آیا تو میں نے اس سے زلفی کے بارے میں پوچھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش رہا، پھر بولا:
"ملک صاحب، میری معلومات کے مطابق زلفی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ جب وہ بچہ تھا، اس کے والد قادر علی نے اس کی ماں حمیدہ کو طلاق دے دی تھی۔ قادر علی کو حمیدہ کے کردار پر شک تھا اور وہ زلفی کو اپنی جائز اولاد نہیں مانتا تھا۔ اس لیے اس نے حمیدہ اور زلفی کو مکمل طور پر الگ کر دیا۔ حمیدہ کو طلاق دینے کے بعد قادر علی نے دوبارہ شادی نہیں کی۔ اس کی فیملی صرف دو افراد پر مشتمل رہی: وہ خود اور اس کی بہن زینب۔ عمر کے آخری حصے میں قادر علی بیمار رہنے لگا۔ اس نے زینب کی شادی سلام دین سے کرائی، جو نظام دین کا چھوٹا بھائی تھا۔ سلام دین کا انتقال ہو چکا ہے۔ اب زینب اور اس کی بیٹی پروین، نظام دین کے گھر میں رہتی تھیں۔ پروین کی شادی ناصر سے ہونے والی تھی کہ یہ سانحہ پیش آ گیا۔"
جابر نے مزید بتایا، "جب میں اس تھانے میں آیا، قادر علی اور حمیدہ فوت ہو چکے تھے۔ زلفی تب بیس سال کے لگ بھگ تھا۔ وہ اوباش اور بدتمیز تھا، لیکن میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ اس نے گاؤں چھوڑ دیا۔ کہاں گیا، کوئی نہیں جانتا تھا۔ سالوں بعد سنا کہ اس نے جرم کی راہ اختیار کر لی۔ وہ چوری، ڈکیتی، اور قتل کے مقدمات میں مطلوب ہے، لیکن اس کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکتا۔"
جابر کی بات سن کر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے جھنگ بھیجا جائے، کیونکہ نظام دین کو ملنے والا دھمکی آمیز خط جھنگ کے ڈاکخانے سے بھیجا گیا تھا۔ میں نے خط نکال کر جابر کے سامنے رکھا۔ اس نے لفافہ الٹ پلٹ کر دیکھا اور بولا، "ملک صاحب، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس خط پر دو مہریں ہیں: ایک جھنگ کے ڈاکخانے کی اور دوسری لائل پور کے ڈاکخانے کی۔ یہ خط جھنگ سے نظام دین کے نام پر بھیجا گیا۔"
ہماری بات ختم ہوئی تو کھوجی سردار حسین ملنے آیا۔ میں نے اسے تازہ حالات سے آگاہ کیا اور کہا، "چاچا سردار، میں کانسٹیبل نظیر حسین کو تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ تم ابھی کام شروع کرو۔ شام تک ان گھڑسواروں کا جتنا سراغ لگا سکتے ہو، لگاؤ۔ باقی کام کل کر لینا۔ تم تجربہ کار کھوجی ہو اور اپنا کام جانتے ہو۔ مجھے نتیجہ چاہیے۔"
دس منٹ بعد سردار حسین اور نظیر حسین میرے بتائے مشن پر روانہ ہو گئے۔ سردار حسین کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔ وہ سنجیدہ اور بردبار شخص تھا۔ یہ میری اس سے دوسری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب میں نے تھانے کا چارج سنبھالا تھا۔ تب مجھے تھانے کے عملے اور کھوجیوں سے متعارف کرایا گیا تھا، جو محکمے کے باقاعدہ ملازم نہیں تھے لیکن کیس حل کرنے میں مدد دیتے تھے۔