پروین کی عمر چوبیس سال تھی، جبکہ ذوالفقار علی عرف زلفی کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔ وہ برسوں پہلے گاؤں چھوڑ کر جا چکا تھا، اور اس کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھیں۔ بس اڑتی اڑتی خبروں سے پتا چلتا تھا کہ زلفی نے جرم کی دنیا اختیار کر لی ہے۔ تین چار اضلاع کی پولیس اسے چوری، ڈکیتی، اور دیگر جرائم کے الزامات میں مطلوب تھی، اور کئی تھانوں میں اس کے خلاف مقدمات درج تھے۔
میں نے زلفی کے بارے میں چوہدری نظام دین، نرگس، اور ناصر سے کافی معلومات حاصل کر لی تھیں۔ ناصر علی نے جوش بھرے لہجے میں کہا، "تھانیدار صاحب، زلفی ایک بزدل اور کم ظرف انسان ہے۔ چھپ کر وار کرنا مردانگی نہیں۔ اس بدمعاش نے میری چاچی کو قتل کیا اور میری ہونے والی بیوی پروین کو اغوا کر کے میری غیرت کو للکارا ہے۔ اگر ابا جی نہ روکتے، تو میں اس کی تلاش میں کب کا نکل پڑتا۔"
میں نے سنجیدگی سے کہا، "ناصر، میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں، لیکن اس خط کی بنیاد پر ہم یہ قیاس کر رہے ہیں کہ زینب کے قتل اور پروین کے اغوا میں زلفی ملوث ہے۔ ہمارے پاس اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور اس دوہری واردات کے پیچھے ہو اور زلفی کی طرف توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہو۔"
چوہدری نظام دین نے ناصر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "بیٹا، تھانیدار صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ہم نے یہ معاملہ ان کے حوالے کر دیا ہے، تو انہیں اپنے طریقے سے کام کرنے دیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہیں۔ ظلم ہم پر ہوا ہے، اور زینب کے قاتل اور پروین کے اغواکار کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے ہمیں ان سے بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔"
ناصر کی بات سمجھ میں آئی یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا۔ بہرحال، میں نے اس کی تسلی کے لیے کہا، "میں پہلی فرصت میں اپنے ذرائع سے جھنگ، ساہیوال، سرگودھا، اور شیخوپورہ کے تھانوں سے زلفی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات حاصل کروں گا۔ اگر وہ اس واقعے میں ملوث ہے، تو وہ میرے ہاتھ سے نہیں بچ پائے گا۔ چاہے وہ پروین کو لے کر پاتال میں ہی کیوں نہ چھپا ہو، میں اسے پکڑ کر باہر نکالوں گا۔ بس تم تینوں میرے ایک سوال کا صاف جواب دو: کیا زلفی پروین سے شادی کرنا چاہتا تھا؟"
نظام دین نے معتدل لہجے میں جواب دیا، "جناب، ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں۔ اگر زلفی کے دل میں یہ خواہش ہوتی، تو وہ چھپ نہ سکتی۔ ہمیں نہ سہی، گاؤں میں کسی نہ کسی کو ضرور پتا ہوتا۔"
میں اپنی جگہ سے اٹھا، وہ مبینہ خط اپنی جیب میں ڈالا، اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ نظام دین، نرگس، اور ناصر مجھے دروازے تک رخصت کرنے آئے۔ میں نے گھر کے داخلی دروازے کا بغور معائنہ کیا۔ دروازے پر توڑ پھوڑ یا زبردستی کے کوئی نشانات نہ تھے۔ گھر کے سامنے والی دیوار تقریباً چھ فٹ اونچی تھی۔ غالب امکان یہی تھا کہ حملہ آوروں نے اپنے گھوڑوں کو گھر سے کچھ فاصلے پر کھڑا کیا، دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے، اندرونی کنڈی کھول کر اپنے ساتھیوں کے لیے راستہ بنایا، اور واردات کے بعد بیرونی دروازہ کھلا چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
اب دوپہر ہونے کو تھی، لیکن دھوپ کا نام و نشان نہ تھا۔ صبح کے مقابلے میں سردی کچھ کم ہوئی تھی، لیکن موسم اب بھی خوشگوار نہ تھا۔ تھانے پہنچتے ہی حوالدار جابر خان میرے کمرے میں آیا۔ میں نے اسے کہا، "افضل محمود کو میرے پاس بھیجو، اور کھوجی سردار حسین کو فوراً تھانے بلاو۔ میں نے اس کے لیے ایک کام نکالا ہے۔"
پانچ منٹ بعد کانسٹیبل افضل محمود میرے سامنے بیٹھا تھا۔ میں نے اسے تفصیلات سے آگاہ کیا اور اسے نئی ذمہ داری سونپ دی۔ اس نے کہا، "ملک صاحب، آپ نے جو کام مجھے دیا ہے، میں اسے پورا کرنے کے لیے اپنی جان لگا دوں گا۔"
میری تفتیش میں اب تک صرف ایک مشکوک نام سامنے آیا تھا: ذوالفقار علی عرف زلفی۔ لیکن افسوس کہ اس کے نام اور زینب و پروین سے اس کے رشتے کے علاوہ اس کی ذات کے بارے میں زیادہ معلومات نہ تھیں۔ اسی مقصد کے لیے میں نے افضل محمود کو اس کی چاچی نظیرہ سے ملنے بھیجا۔ نظیرہ گاؤں میں ماچن کی حیثیت سے کام کرتی تھی، اور اس کے تنور پر عورتوں اور بچوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ایسی جگہوں پر خبریں پھیلتی ہیں۔ چونکہ گاؤں میں قتل اور اغوا کی یہ واردات زیر بحث تھی، مجھے امید تھی کہ افضل وہاں سے کوئی اہم معلومات لے آئے گا۔ بظاہر وہ اپنی چاچی سے ملنے جا رہا تھا، لیکن درپردہ وہ پولیس کے مخبر کا کردار ادا کرے گا۔
افضل کے جانے کے بعد میں نے نماز ادا کی۔ اسی دوران جابر خان کھانا لے آیا۔ کھانے کے دوران ہم نے تفتیش پر بات کی۔ تبھی کانسٹیبل حامد علی، جسے میں نے زینب کی لاش کے ساتھ ضلعی ہسپتال بھیجا تھا، واپس آیا۔ اس نے بتایا، "ملک صاحب، ہسپتال کی لیبارٹری میں کچھ مسئلہ ہے، اس لیے پوسٹ مارٹم کل تک مکمل نہیں ہو سکے گا۔ پرسوں صبح وہ لاش اور ابتدائی رپورٹ ہمیں مل جائے گی۔ ہسپتال کا عملہ خود لاش یہاں پہنچا دے گا۔"
حامد کے جانے کے بعد میں اور جابر خان نے دوبارہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ جابر خان کو اس تھانے میں دس سال ہو گئے تھے۔ اچانک ذہن میں خیال آیا تو میں نے اس سے زلفی کے بارے میں پوچھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش رہا، پھر بولا:
"ملک صاحب، میری معلومات کے مطابق زلفی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ جب وہ بچہ تھا، اس کے والد قادر علی نے اس کی ماں حمیدہ کو طلاق دے دی تھی۔ قادر علی کو حمیدہ کے کردار پر شک تھا اور وہ زلفی کو اپنی جائز اولاد نہیں مانتا تھا۔ اس لیے اس نے حمیدہ اور زلفی کو مکمل طور پر الگ کر دیا۔ حمیدہ کو طلاق دینے کے بعد قادر علی نے دوبارہ شادی نہیں کی۔ اس کی فیملی صرف دو افراد پر مشتمل رہی: وہ خود اور اس کی بہن زینب۔ عمر کے آخری حصے میں قادر علی بیمار رہنے لگا۔ اس نے زینب کی شادی سلام دین سے کرائی، جو نظام دین کا چھوٹا بھائی تھا۔ سلام دین کا انتقال ہو چکا ہے۔ اب زینب اور اس کی بیٹی پروین، نظام دین کے گھر میں رہتی تھیں۔ پروین کی شادی ناصر سے ہونے والی تھی کہ یہ سانحہ پیش آ گیا۔"
جابر نے مزید بتایا، "جب میں اس تھانے میں آیا، قادر علی اور حمیدہ فوت ہو چکے تھے۔ زلفی تب بیس سال کے لگ بھگ تھا۔ وہ اوباش اور بدتمیز تھا، لیکن میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ اس نے گاؤں چھوڑ دیا۔ کہاں گیا، کوئی نہیں جانتا تھا۔ سالوں بعد سنا کہ اس نے جرم کی راہ اختیار کر لی۔ وہ چوری، ڈکیتی، اور قتل کے مقدمات میں مطلوب ہے، لیکن اس کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکتا۔"
جابر کی بات سن کر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے جھنگ بھیجا جائے، کیونکہ نظام دین کو ملنے والا دھمکی آمیز خط جھنگ کے ڈاکخانے سے بھیجا گیا تھا۔ میں نے خط نکال کر جابر کے سامنے رکھا۔ اس نے لفافہ الٹ پلٹ کر دیکھا اور بولا، "ملک صاحب، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس خط پر دو مہریں ہیں: ایک جھنگ کے ڈاکخانے کی اور دوسری لائل پور کے ڈاکخانے کی۔ یہ خط جھنگ سے نظام دین کے نام پر بھیجا گیا۔"
ہماری بات ختم ہوئی تو کھوجی سردار حسین ملنے آیا۔ میں نے اسے تازہ حالات سے آگاہ کیا اور کہا، "چاچا سردار، میں کانسٹیبل نظیر حسین کو تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ تم ابھی کام شروع کرو۔ شام تک ان گھڑسواروں کا جتنا سراغ لگا سکتے ہو، لگاؤ۔ باقی کام کل کر لینا۔ تم تجربہ کار کھوجی ہو اور اپنا کام جانتے ہو۔ مجھے نتیجہ چاہیے۔"
دس منٹ بعد سردار حسین اور نظیر حسین میرے بتائے مشن پر روانہ ہو گئے۔ سردار حسین کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔ وہ سنجیدہ اور بردبار شخص تھا۔ یہ میری اس سے دوسری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب میں نے تھانے کا چارج سنبھالا تھا۔ تب مجھے تھانے کے عملے اور کھوجیوں سے متعارف کرایا گیا تھا، جو محکمے کے باقاعدہ ملازم نہیں تھے لیکن کیس حل کرنے میں مدد دیتے تھے۔
جمعہ کی صبح جب میں تیار ہو کر تھانے پہنچا تو حوالدار جابر خان میرا منتظر تھا۔ میں نے اسے ضروری ہدایات دیں اور جھنگ روانہ کر دیا۔ ساتھ ہی، میں نے کانسٹیبل نظیر حسین کو اپنے کمرے میں بلایا۔ چونکہ میں نے اسے کھوجی سردار حسین کے ساتھ لگایا تھا، اس لیے معاملے کی مکمل رپورٹ لینا ضروری تھا۔ اسی دوران سردار حسین بھی کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے بتایا کہ گھوڑوں کے کھروں کے نشانات چوہدری نظام دین کے ڈیرے تک جا رہے تھے۔ چونکہ شام ہو گئی تھی، اس لیے اس نے کام روک دیا تھا۔
سردار حسین نے مزید کہا، "اگر گھڑسوار ڈیرے کے اندر داخل ہوئے ہیں، تو میرا کام یہاں ختم اور آپ کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ نہر کی طرف گئے ہیں، تو مجھے آج سارا دن سخت محنت کرنی پڑے گی۔ نہر کے کنارے ایک کچا راستہ مغرب کی طرف جاتا ہے، جو دو ڈھائی میل آگے جا کر ایک نیم پختہ سڑک سے ملتا ہے۔ اگر گھوڑوں کے کھر اس سڑک تک پہنچ گئے، تو پتا لگانا آسان ہوگا کہ وہ کس طرف گئے۔"
میں نے پوچھا، "آپ نے بار بار گھڑسواروں کا ذکر کیا۔ ان کی تعداد کتنی تھی؟"
سردار حسین نے گہری سنجیدگی سے جواب دیا، "میرے اندازے کے مطابق کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ چار۔ یہ اندازہ میں نے گھوڑوں کی پیٹھ پر لدے وزن سے لگایا، جس میں پروین کا وزن بھی شامل ہے۔ لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ صرف دو گھوڑوں کے کھروں کے نشانات ملے ہیں۔" اس نے فکرمندی سے کہا، "ملک صاحب، بس دعا کریں کہ بارش نہ ہو، ورنہ میری ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی۔ صبح سے آسمان گہرے بادلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔" یہ کہہ کر وہ اٹھا اور چلا گیا۔
بدقسمتی سے، تھوڑی دیر بعد بارش شروع ہو گئی۔ آسمان سے برستا پانی کھوجی کے کام پر سرخ جھنڈی لہرانے لگا۔ کھروں کے نشانات کا سراغ لگانا اب وقت کا ضیاع لگتا تھا۔ میری مایوسی وقتی تھی۔ جلد ہی میں نے خود کو سنبھالا اور تفتیش کا نیا زاویہ تلاش کرنے لگا جو مجھے حقائق تک لے جائے۔
دوپہر کے بعد سردار حسین اور نظیر حسین واپس آئے۔ سردار کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔ بارش نے اس کی محنت پر پانی پھیر دیا تھا۔ میں نے اس کی محنت کی قدر کی اور اسے حوصلہ دیا۔ اس کی آنکھوں میں تشکر کی چمک اور چہرے پر احترام کے آثار نمایاں ہوئے۔ وہ خاموشی سے سلام کر کے رخصت ہو گیا۔
12 دسمبر کی صبح تین سنسنی خیز اطلاعات کے ساتھ میرا پیشہ ورانہ دن شروع ہوا۔ یہ اطلاعات جابر خان، پوسٹ مارٹم، اور افضل محمود سے متعلق تھیں۔ صبح دس بجنے میں چند منٹ باقی تھے جب جابر خان جھنگ سے واپس آیا۔ آج موسم صاف تھا، آسمان کھلا ہوا تھا۔ کل کی بارش گویا صرف سردار حسین کے کام کو بگاڑنے آئی تھی۔ جابر خان نے رپورٹ پیش کی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ زلفی پچھلے آٹھ ماہ سے جھنگ صدر کی سینٹرل جیل میں بند ہے۔ اس پر نصف درجن مقدمات چل رہے ہیں، جن میں ایک قتل کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ اس لیے زلفی کا زینب کے قتل یا پروین کے اغوا میں ملوث ہونا ناممکن تھا۔
اسی دوران، ہسپتال سے زینب کی لاش اور پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ تھانے پہنچ گئی۔ میں نے لفافہ کھولا تو حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ رپورٹ کے مطابق، زینب کی موت 9 اور 10 دسمبر کی درمیانی رات 12 سے 2 بجے کے درمیان ہوئی تھی، اور یہ مکمل طور پر طبعی موت تھی۔ اس کی گردن پر زخم صبح 3 سے 4 بجے کے درمیان لگایا گیا تھا۔ گویا، جب اس کی گردن کاٹی گئی، وہ زندہ نہیں تھی۔ قاتل نے اسے گہری نیند میں سمجھ کر گلا کاٹا تھا۔ رپورٹ میں کچھ تکنیکی نکات بھی تھے جو موت اور زخم کے اوقات کی تصدیق کرتے تھے۔ مردہ زینب کی گردن پر چھری چلانے کا واقعہ مجھے جذباتی کر گیا۔ میں نے زینب کی لاش چوہدری نظام دین کے گھر پہنچانے کا بندوبست کیا۔
جابر خان کے جانے کے بعد افضل محمود تھانے پہنچا۔ میں نے اسے ایک خاص مشن پر اپنی چاچی نظیرہ کے پاس بھیجا تھا۔ اس کے چہرے پر مسرت کی چمک دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی اہم خبر لایا ہے۔ اس نے کہا، "ملک صاحب، چاچی نظیرہ کے تعاون سے میں نے ایسی معلومات اکٹھی کی ہیں جو اس کیس کو حل کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔"
افضل نے ایک انکشافی کہانی سنائی۔ قادر علی اور حمیدہ کی صرف ایک اولاد تھی—ذوالفقار علی عرف زلفی۔ لیکن قادر علی اسے اپنی اولاد تسلیم نہیں کرتا تھا، کیونکہ اسے حمیدہ کے کردار پر شک تھا۔ اس نے حمیدہ اور زلفی کو اپنی زندگی سے نکال دیا اور اپنی ساری زمین و جائیداد زینب کے نام کر دی۔ یہ قانونی دستاویزات کے ساتھ وفات سے کچھ عرصہ پہلے کیا گیا۔ اس دوران حمیدہ کا بھی انتقال ہو گیا، اور زلفی گاؤں چھوڑ کر نامعلوم مقام پر چلا گیا۔
جب زینب نے سلام دین سے شادی کی، تو اس کے حالات بگڑتے چلے گئے۔ سلام دین اصرار کرتا کہ زینب جائیداد اس کے نام کر دے، لیکن وہ تیار نہ تھی۔ پھر سلام دین کا انتقال ہو گیا۔ اب اس حویلی نما گھر میں صرف زینب اور پروین رہ گئی تھیں۔ چوہدری نظام دین، نرگس، اور ناصر ہمدردی کے بہانے ان کے گھر آنے جانے لگے، اور رفتہ رفتہ وہیں بس گئے۔ زینب نے فراخدلی دکھائی اور انہیں اپنے گھر میں جگہ دی۔ وہ جانتی تھی کہ جائیداد کے معاملات مرد بہتر سنبھالتے ہیں۔
نظام دین نے قادر علی کے ملازمین کو فارغ کر کے اپنے بھروسے کے لوگ رکھ لیے۔ پہلے اس کے پاس صرف پانچ ایکڑ زمین تھی، اور لوگ اسے "نظاموں" کہتے تھے۔ اب وہ 27 ایکڑ زمین اور ایک باغ کا مالک بن گیا تھا، اور "چوہدری نظام دین" کہلانے لگا۔ زینب کہتی تھی، "میں یہ جائیداد کسی کے نام نہیں کروں گی، لیکن میرے رشتہ دار یہاں رہنا چاہیں تو کوئی اعتراض نہیں۔" نظام دین نے اس دریا دلی کا فائدہ اٹھایا اور اپنے خاندان سمیت وہاں مستقل ٹھکانہ بنا لیا، گویا وہ زینب کی ہر شے کا مالک ہو۔
پروین اور ناصر کی شادی کے بارے میں دو متضاد باتیں تھیں۔ کچھ کہتے کہ زینب اس شادی سے خوش تھی، جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ وہ اس کے لیے تیار نہیں تھی اور کہتی تھی، "میری زندگی میں یہ شادی نہیں ہو سکتی۔"
افضل کی رپورٹ سننے کے بعد میں نے تازہ حالات پر غور کیا۔ اب تک کی تفتیش کا خلاصہ یہ تھا:
زینب کی گردن کاٹنے والے کو نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک لاش کی بے حرمتی کر رہا ہے۔
زینب پروین اور ناصر کی شادی کے حق میں نہیں تھی۔
نظام دین کی شان و شوکت زینب کی جائیداد کا مرہون منت تھی۔
زلفی اس واقعے میں ملوث نہیں تھا۔
یہ دوہری واردات کوئی اتفاق یا چوری ڈکیتی نہیں تھی، کیونکہ 9 اور 10 دسمبر کی رات نظام دین کے گھر سے کچھ چوری نہیں ہوا تھا۔ حملہ آور کو زینب کی موت کا علم تھا یا نہیں، یہ طے تھا کہ اس نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی۔ پروین کا اغوا اور زینب کی کٹی ہوئی گردن ایک ہی جانب اشارہ کر رہی تھیں—یہ قتل اور اغوا کا سانحہ تھا۔
افضل نے بتایا کہ نظام دین کے چھ ملازمین تھے۔ چار کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور شام کو اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ باقی دو، شوکت اور انور علی، ڈیرے پر مستقل رہتے تھے اور باغ و مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔
رات سونے سے پہلے میں اس دوہری واردات پر غور کر رہا تھا۔ اچانک خیال آیا کہ وہ دھمکی آمیز خط دوبارہ دیکھوں، جو نظام دین کے مطابق زلفی نے بھیجا تھا۔ خط پر مہروں کے مطابق، یہ 28 نومبر کو جھنگ سے روانہ ہوا اور 6 دسمبر کو لائل پور پہنچا، جبکہ سانحہ 9 اور 10 دسمبر کی رات پیش آیا۔ جب میں نے خط کی تحریر اور لفافے پر لکھے پتے کا موازنہ کیا، تو ایک چونکا دینے والا انکشاف ہوا—دونوں کی ہینڈ رائٹنگ مختلف تھیں۔ یہ فرق مجھے سوچوں کے ایک نئے جہان میں لے گیا۔ کیا یہ خط زلفی نے نہیں لکھا تھا؟ کیا کوئی اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟ اور اگر زلفی ملوث نہیں، تو اصل مجرم کون تھا؟
13 دسمبر، اتوار کا دن میرے لیے نہایت مصروف تھا۔ تھانے میں قدم رکھتے ہی میں نے کئی ہنگامی کام نمٹائے، جن میں چوہدری نظام دین کے کھیتوں اور باغ میں کام کرنے والے ملازمین کی تھانے میں طلبی اور کھوجی سردار حسین کو فوری بلانا شامل تھا۔ حوالدار جابر خان اس کارروائی میں پیش پیش تھا، اور ہم نے تھانے کے چاروں کانسٹیبلوں کو چوکس کر دیا تھا۔ وہ ہمارے اشاروں پر عمل پیرا تھے۔
میں نے ایک کانسٹیبل کو گاؤں بھیجا تاکہ نظام دین کے چھ ملازمین کو بیانات کے لیے تھانے بلائے۔ لیکن صرف وہ چار افراد آئے جو کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور شام کو اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ ان سے پوچھ گچھ میں کوئی خاص بات نہ ملی۔ جب زینب کا قتل اور پروین کا اغوا ہوا، وہ اپنے گھروں میں گہری نیند سو رہے تھے۔
ان کے جانے کے بعد سردار حسین آیا۔ میں نے کہا، "سردار، میں نے تمہیں ہنگامی طور پر اس لیے بلایا کہ آج اس کیس کو حل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ کیا تمہیں وہ دو گھوڑوں کے کھروں کے نشانات یاد ہیں جو نظام دین کی حویلی سے ڈیرے تک گئے تھے؟ میں نے اس ڈیرے کے دو ملازمین، شوکت اور انور، کو تھانے بلایا ہے۔ جب وہ آئیں، تم فوراً ڈیرے پر جاؤ۔ وہاں دو گھوڑے بندھے ہوں گے۔ ان کے کھروں کو اپنی یادداشت میں محفوظ نشانات سے ملاؤ۔ تم برآمدے میں انتظار کرو اور ان ملازمین کے آتے ہی بغیر اجازت اپنے مشن پر روانہ ہو جاؤ۔"
جب سردار حسین نے دو گھوڑوں کا ذکر کیا، میرے ذہن میں خیال آیا کہ زینب کو وراثت میں ملنے والی جائیداد میں دو گھوڑے بھی شامل تھے۔ کیا وہ اس دوہری واردات میں استعمال ہوئے؟ یہ جاننا ضروری تھا۔
دوپہر کے بعد شوکت اور انور تھانے پہنچے۔ دونوں صحت مند اور توانا تھے، لیکن ان کے چہرے پر عجیب سی بے چینی تھی۔ میں نے انہیں اپنے کمرے میں بلایا اور بیٹھنے کو کہا۔ ابھی پوچھ گچھ شروع ہی کرنا تھی کہ ایک کانسٹیبل آیا اور پراسرار لہجے میں بولا، "ملک صاحب، آپ کو باہر آنا ہوگا۔" اس کے لہجے میں ایسی گہرائی تھی کہ میں بغیر سوال کیے اٹھ کھڑا ہوا۔
میں نے جابر خان کو شوکت اور انور کے پاس چھوڑا اور کانسٹیبل کے ساتھ باہر نکلا۔ سردار حسین ایک گھوڑے کے پاس کھڑا تھا، جو درخت سے بندھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ قریب آیا اور سرگوشی میں بولا، "ملک صاحب، یہ وہی گھوڑا ہے جس کے کھروں کا سراغ میں نے نظام دین کی حویلی سے ڈیرے تک پایا تھا۔ یہ ان دو گھوڑوں میں سے ایک ہے۔ میں تانگے پر گاؤں جانے والا تھا کہ اس گھوڑے کے کھروں نے مجھے روک لیا۔"
میں نے کہا، "اب تمہیں گاؤں جانے کی ضرورت نہیں۔ اندر جا کر انتظار کرو۔" وہ سر ہلاتے ہوئے تھانے کے ایک کمرے میں چلا گیا۔
میں واپس اپنے کمرے میں آیا۔ شوکت اور انور کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ شوکت نے بیزاری سے کہا، "تھانیدار صاحب، ہم آپ کے بلاوے پر آئے کہ آپ بیان لے کر چھوڑ دیں گے، لیکن آپ دوسرے کاموں میں لگ گئے۔"
میں نے سخت لہجے میں کہا، "کرسیاں چھوڑو اور دیوار کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔" میرا بدلا ہوا تیور دیکھ کر وہ حیران ہوئے۔ "میں تم سے زیادہ مصروف ہوں۔ جو کہا ہے، فوراً کرو۔" وہ خاموشی سے دیوار کے پاس کھڑے ہو گئے۔
میں نے ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے غضبناک انداز میں پوچھا، "تم میں سے کس نے زینب کو ذبح کیا؟ کون پروین کو اٹھا کر لے گیا؟ یہ ظلم کس کے کہنے پر کیا؟ پروین اب کہاں ہے؟"
انور نے عجیب سے لہجے میں کہا، "آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم پر خواہ مخواہ شک کر رہے ہیں۔"
شوکت نے مکاری سے کہا، "زینب کو تو زلفی نے قتل کیا۔ آپ اس سے پوچھیں، ہمیں کیوں پریشان کر رہے ہیں؟"
میں نے جابر خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "یہ چوہدری کے خاص آدمی ہیں۔ انہیں ڈرائنگ روم میں لے جاؤ۔ ان کی خاطر تواضع ہم پر لازم ہے۔" جابر خان کے چہرے پر ایک درندے سی چمک ابھری۔ وہ دونوں کو ایسی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے شکار کو تول رہا ہو۔
ایک گھنٹے بعد شوکت اور انور دوبارہ میرے سامنے تھے، لیکن اس حال میں کہ وہ مشکل سے کھڑے ہو رہے تھے۔ ان کے جسم نیل پڑ چکے تھے، اور چہرے زخمی۔ جابر خان نے پر اعتماد لہجے میں کہا، "ملک صاحب، یہ دونوں بیک زبان ہو گئے ہیں۔ جو پوچھیں گے، بتائیں گے۔ ان کی زبان کے تالے کھول دیے ہیں۔"
اگلے آدھے گھنٹے میں شوکت اور انور کا حلفیہ بیان قلم بند ہو گیا۔ انہوں نے دوہری واردات کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ گھناؤنا منصوبہ چوہدری نظام دین کے حکم پر بنایا گیا تھا۔ نرگس اور ناصر کو اس کی خبر نہ تھی۔ لیکن ایک سوال اب بھی باقی تھا—پروین کہاں تھی؟ ان کے بیانات میں اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کیا نظام دین نے کوئی اور راز چھپایا تھا؟ اور وہ خط، جو زلفی کے نام پر آیا تھا، آخر کس نے لکھا تھا؟ یہ معمہ ابھی حل طلب تھا۔
شوکت اور انور کے بیانات نے ساری کہانی واضح کر دی تھی۔ وہ گھوڑوں پر سوار ہو کر چوہدری نظام دین کی حویلی پہنچے تھے۔ انہوں نے زینب کی گردن کاٹی اور پروین کو کلوروفارم میں ڈوبے رومال سے بے ہوش کر کے اٹھا لیا۔ پھر وہ رات کی تاریکی میں اپنے ڈیرے کی طرف لوٹ گئے۔ جب میں نے پروین کے ٹھکانے کے بارے میں پوچھا، تو شوکت نے ڈھٹائی سے کہا، "ہم نے اس کے لیے ایک پیڑ کے نیچے گہرا گڑھا کھود رکھا تھا۔ اسے بے ہوشی کی حالت میں اس میں ڈال کر مٹی سے ڈھانپ دیا۔ وہ بارش ہمارا کام خراب کر گئی، ورنہ ہم نہر کے کنارے نیم پختہ سڑک تک جا کر گھوڑوں کے نشانات کو گمراہ کر دیتے، تاکہ آپ زلفی کو موردِ الزام ٹھہرائیں اور یہ سمجھیں کہ وہ پروین کو لے کر شیخوپورہ یا لائل پور بھاگ گیا۔"
انور نے بے شرمی سے مزید کہا، "ہمارا منصوبہ کامل تھا، لیکن اس بارش نے سب کچھ برباد کر دیا۔" وہ بارش، جسے وہ بدبختی سمجھ رہے تھے، میرے لیے رحمت بن گئی۔ اگر سردار حسین گھوڑوں کے کھروں کا سراغ لے کر نیم پختہ سڑک تک پہنچ جاتا، تو میں شاید کبھی نظام دین کے ڈیرے پر توجہ نہ دیتا۔ قدرت کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ 11 دسمبر کی بارش اس کیس کو صحیح راہ پر لے آئی۔
چوہدری نظام دین کو بتائے بغیر، میں نے شوکت اور انور کی نشاندہی پر پروین کی لاش برآمد کر لی۔ اسے تین دن پہلے بے ہوشی کی حالت میں گڑھے میں دفن کیا گیا تھا۔ اس کا زندہ بچنا ناممکن تھا۔ میں نے فوراً پوسٹ مارٹم کے لیے لاش سرکاری ہسپتال بھیجنے کا بندوبست کیا۔
جب میں نے چوہدری نظام دین کو اس کے گھر سے گرفتار کیا، وہ حیران تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ شوکت اور انور حوالات میں ہیں اور ان کی نشاندہی پر پروین کی لاش برآمد ہو چکی ہے۔ یہ کارروائی میں نے اپنے عملے کے ساتھ رازداری سے کی تھی۔ اس وقت وہاں چار افراد موجود تھے: کانسٹیبل اکرام اللہ، کانسٹیبل حامد علی، نرگس، اور ناصر۔
نرگس نے احتجاجی لہجے میں پوچھا، "آپ نے چوہدری صاحب کو کس جرم میں گرفتار کیا؟"
ناصر تڑپ کر بولا، "ہمارے گھر پر قیامت ٹوٹی، اور آپ ابا جی کو پریشان کر رہے ہیں؟ یہ کیسا انصاف ہے؟"
میں نے نظام دین کی طرف نفرت بھرا اشارہ کرتے ہوئے کہا، "ناصر، شکر کرو کہ تم اور تمہاری ماں اس کے کالے کرتوتوں میں شامل نہیں، ورنہ تم بھی اب حوالات میں ہوتے۔" لمحاتی توقف کے بعد میں نے کہا، "خاموشی سے سنو، ساری کہانی سمجھ آ جائے گی۔"
میں نے نظام دین کا دیا ہوا لفافہ اسے دکھاتے ہوئے کہا، "اصل خط کہاں ہے؟ وہ زلفی والا خط جو تم نے مجھے دیا تھا؟"
اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا، "وہ تو آپ کے پاس ہوگا۔"
"بکواس بند کرو!" میں نے غضبناک انداز میں کہا۔ "زلفی مارچ سے جھنگ صدر کی جیل میں بند ہے۔ تم نے کسی اور کے لفافے میں اپنا لکھا خط رکھ کر زلفی پر الزام لگایا۔ لیکن تمہارے ملازم شوکت اور انور نے تمہارے خلاف بیان دے دیا ہے۔ پروین کی لاش تمہارے باغ سے برآمد ہو چکی ہے۔ تم عبرت ناک سزا سے نہیں بچ سکو گے۔"
نرگس اور ناصر کی حالت دیدنی تھی۔ وہ نظام دین کو حیرت اور بے چینی سے دیکھ رہے تھے۔ نظام دین، شکست خوردہ لہجے میں بولا، "زینب پروین اور ناصر کی شادی کے لیے راضی نہیں تھی۔ میں یہ شادی صرف اس لیے کرانا چاہتا تھا کہ زینب کے بعد جائیداد پر ہمارا قبضہ رہے۔ اس نے کوئی راستہ نہ چھوڑا۔ مجبوراً مجھے یہ سب کرنا پڑا۔"
میں نے انکشافی لہجے میں کہا، "چوہدری، تم بڑے بے صبرے نکلے۔ اگر چند گھنٹے انتظار کر لیتے، تو یہ سب کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ زینب اس کی گردن کاٹنے سے دو ڈھائی گھنٹے پہلے طبعی موت مر چکی تھی۔" میں نے پوسٹ مارٹم رپورٹ اس کے سامنے رکھ دی۔
نظام دین سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس دوہری واردات کا ملزم میرے سامنے تھا، اور کیس مکمل طور پر حل ہو چکا تھا۔ اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ نرگس اور ناصر روتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
