لاہور سے راولپنڈی جائیں تو راستے میں گجرات کے بعد کھاریاں سے پہلے ایک چھوٹا سا شہر پڑتا ہے۔ لالہ
موسیٰ۔ لالہ موسیٰ کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ وہاں بہت بڑی غلہ منڈی ہے۔ اس غلہ منڈی سے ہزاروں ٹن کے حساب سے اناج ٹرکوں میں بھر کر ملک کے طول و عرض میں پہنچایا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی چند سالوں میں کچھ عرصے کے لیے میں لالہ موسیٰ کے ایک تھانے میں متعین رہا۔ جو واقعہ آج میں اپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ اسی دور کا ہے۔
وہ سردیوں کے دن تھے۔ میں فجر کی نماز ادا کر کے فارغ ہوا ہی تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے شبینہ ڈیوٹی والا ایک کانسٹیبل کھڑا تھا۔ اس نے سیلوٹ کرنے کے بعد کہا: ملک صاحب ۔۔ادھر ریلوے لائن کے پاس ایک بندہ گاڑی کے نیچے آ گیا ہے۔
ادھر کدھر ؟
ادھر ریلوے اسٹیشن سے پہلے۔ کانسٹیبل نے بتایا۔ جہاں چنگڑوں نے اپنی جھگیاں ڈال رکھی ہیں۔
ریلوے اسٹیشن سے پہلے اور بعد میں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چنگڑوں۔ خانہ بدوشوں اور بنجاروں وغیرہ نے جھگیاں بنا رکھی تھیں۔ اس زمانے میں یہ شہر ابھی زیادہ پھیلا نہیں تھا اور ریلوے اسٹیشن کے آس پاس کا زیادہ تر ویران ہی تھا۔ میں نے کانسٹیبل سے پوچھا۔
اے ایس آئی احمد حسن تھانے ہی میں ہے ؟
جی سر ۔۔
میں نے کہا اسے کہو دو کانسٹیبلوں کے ساتھ فوراً موقع پر پہنچے۔ میں بھی تیار ہو کر آتا ہوں۔ چند منٹ بعد میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ حادثے کی جگہ پر اچھے خاصے لوگ جمع تھے جن میں زیادہ تعداد قریبی جھگیوں میں بسنے والے خانہ بدوشوں کی تھی۔ کچھ فاصلہ پر جا کر ٹرین بھی رک گئی تھی۔ اس کا انجن والا حصہ پلیٹ فارم میں داخل ہو چکا تھا۔
میں نے ٹرین کا شکار ہونے والے شخص کا جائزہ لیا۔۔ پہلی ہی نظر میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ مر چکا ہے۔ متوفی 24 25 سال کا ایک خوبرو اور صحت مند جوان تھا۔میں نے اس کی لاش کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو مجھے کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا لیکن وہ غیر معمولی بات فوری طور پر میری سمجھ میں نہ آ سکی۔۔ٹرین نے اس کے جسم کو بری طرح کچل دیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر وہاں زیادہ خون نظر نہیں آرہا تھا۔
میں نے اس بدقسمت شخص کی جامہ تلاشی لی تو اس کے جیبوں سے چند کاغذات برآمد ہوئے۔سامنے والی جیب سے ایک فیکٹری کارڈ بھی ملا۔۔ اس کارڈ پر چپساں تصویر سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کارڈ اسی۔ حادثے کا شکار ہونے والے شخص کا تھا ۔۔اس کارڈ پر اس کا نام جمیل اختر درج تھا۔۔فیکٹری کا نام ساجد الیکٹریکل انڈسٹریز اور ایڈریس جی ٹی روڈ گجرات کا تھا۔۔سائیڈ پاکٹ سے ملنے والے پرس میں تقریباً ساڑھےچار سو روپے کی رقم موجود تھی۔۔پرس کے خانے میں نیو خان بس سروس کا ایک ٹکٹ بھی موجود تھا جس کے مطابق جہلم سے لالہ موسی تک سفر کیا گیا تھا تاہم اس ٹکٹ پر کوئی تاریخ وغیرہ درج نہیں تھی۔۔ان تمام اشیاء میں قابل ذکر چیز وہ فیکٹری کارڈ تھا جس کے ذریعے متوفی کا کوئی سراغ مل سکتا تھا یعنی اس کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہو سکتی تھیں ۔۔
اے ایس ائی جائے وقوعہ کا نقشہ تیار کر چکا تو میں نے پوچھا احمد حسن حادثے کی اطلاع کس نے دی تھی؟
ایک خانہ بدوش تھا جناب! اے ایس ائی نے جواب دیا۔۔ ابھی یہاں کھڑا تھا۔۔ وہ ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے بولا۔۔
میں ہوں سرکار۔۔۔ مسکین سی صورت والے ایک شخص نے أگے بڑھ کر کہا ۔۔میرا نام خادم حسین ہے۔۔یہ میری جھگی ہے۔۔اس نے ایک نزدیکی جھگی کی جانب اشارہ کیا ۔۔متوفی جمیل اختر کی لاش اس جھگی کے قریب ہی پڑی ہوئی تھی ۔۔
اے ایس ائی نے کہا۔۔ ملک صاحب۔۔ خادم حسین تو یہیں رہے گا۔۔ اس کا بیان بعد میں لے لیں گے۔۔ پہلے آپ ٹرین کے ڈرائیور کا بیان لے لیں۔۔ ٹرین کافی دیر سے پلیٹ فارم پر رکی ہوئی ہے مسافر پریشان ہو رہے ہیں۔۔۔
کدھر ہے وہ ڈرائیور ۔۔میں نے پوچھا ۔۔
اے ایس ائی نے ایک شخص کو آگے کرتے ہوئے کہا ۔۔یہ رہا جناب ۔۔
اس نے اپنا نام نیاز علی بتایا پھر کہا تھانیدار صاحب ۔اس حادثےحادثے میں میرا کوئی قصور نہیں ہے ۔۔دھند اتنی تھی کہ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا۔
میں نے پوچھا ۔۔تم نے بتایا ہی کہ دھند کے سبب تمہیں یہ شخص نظر نہیں آیا تھا پھر اس حادثے کے بعد تم نے ٹرین کیوں روک دی۔۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ کوئی شخص ٹرین کے نیچے آ چکا ہے۔؟
میرے ساتھ بیٹھے ہوئے فائرمین نے میری توجہ اس طرف دلائی تھی ۔۔نیاز علی نے مضبوط لہجے میں جواب دیا ۔۔اس نے کسی چیز کو ٹرین سے ٹکرا کر سائیڈ میں گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔۔ اس نے ایک لمحہ رک کر گہری سانس لی پھر بولا۔۔ اس کے ساتھ ہی کسی مسافر نے ہنگامی زنجیر کھینچ دی تھی۔ مجھے مجبوراً ٹرین روکنا پڑی یعنی چند گز پہلے ہی روکنا پڑی ورنہ پلیٹ فارم پر پہنچ کر تو اسے رکنا ہی تھا۔۔
میں نے دو چار رسمی سوالات کے بعد اسے جانے کی اجازت دے دی اور اس مسافر کو بلا لیا جس نے ٹرین کی زنجیر کھینچی تھی ۔۔اس کا نام قمر علی تھا ۔۔اس نے بتایا کہ وہ دروازے میں کھڑا تھا۔۔ٹرین کی رفتار سست ہو چکی تھی ۔۔اگرچہ باہر ابھی اندھیرا تھا مگر ٹرین کے دروازے سے باہر کا دھندلا دھندلا نظارہ بڑا بھلا لگ رہا تھا۔۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ٹرین کے انجن سے کوئی گٹھڑی نما چیز ٹکرا کر دور اندھیرے میں جا گری ہے۔اس فوری خیال کے ردعمل میں اس نے زنجیر کھینچ دی تھی ۔۔
جب تم نے انجن سے کسی چیز کو ٹکرا کر اندھیرے میں گرتے دیکھا تو اس وقت تم کون سے دروازے میں کھڑے تھے۔۔؟
قمر علی نے بتایا میں اس وقت ٹرین کے بائیں دروازے میں کھڑا تھا۔۔
اس کے جواب میں وزن تھا ۔۔ہم اس وقت جہاں کھڑے تھے یعنی جہاں حادثہ پیش ایا تھا وہ ٹرین کے بائیں سمت ہی تھا۔۔ پھر ڈرائیور کی زبانی مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ فائز مین بھی بائیں جانب ہی بیٹھا ہوا تھا جس نے ڈرائیور کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی۔۔فائر مین کا بیان بھی یہی تھا جو قمر علی نے بتایا تھا ۔۔
میں نے ٹرین کی تاخیر کے ضمن میں مختصراً اس حادثے کے بارے میں تحریر کر کے دستخط کر دیے ۔۔گارڈ نے لاگ بک واپس لے کر میرا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چلا گیا۔۔کچھ ہی دیر کے بعد ٹرین اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔۔ اس کے بعد میں خادم حسین کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔
خادم حسین نے بیان دیتے ہوئے بتایا کہ وہ صبح بہت جلد بیدار ہو جاتا تھا حسب معمول آج جب وہ بیدار ہوا تو اس کے کانوں میں ٹرین کا وسل اور پھر اس کے گزرنے کا شور سنائی دیا ۔۔اس نے اس جانب کوئی خاص توجہ نہ دی۔۔ دوسرے ہی لمحے ایک غیر مانوس اواز نے اسے چونکنے پر مجبور کر دیا۔۔کوئی چیز دھب سے اس کی جھگی کے قریب آ کر گری تھی۔۔ٹرین کے شور میں بھی اس نے یہ آواز واضح طور پر سنی تھی۔۔ وہ جلدی سے اٹھ کر باہر آیا تو اس کی نظر گٹھڑی نما اس چیز پر پڑی جس کی آواز ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے جھگی میں سنی تھی۔۔تجسس سے مجبور ہو کر وہ اس پراسرار گٹھڑی کے نزدیک چلا گیا۔۔پھر ساری صورتحال اس پر واضح ہو گئی ۔۔اس وقت تک ٹرین جھگیوں کے پاس سے گزر چکی تھی۔۔ تھوڑے ہی فاصلے پر اسٹیشن تھا مگر خادم حسین کے بیان کے مطابق جب اس نے ٹرین کو پلیٹ فارم پر پہنچنے سے پہلے ہی رکتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ ٹرین والوں کو بھی اس حادثے کا پتہ چل چکا ہے۔تھانہ جھگیوں کے چونکہ نزدیک ہی تھا اس لیے وہ اس واقعے کی رپورٹ کرنے بھاگم بھاگ تھانے پہنچ گیا۔۔۔
خادم حسین اپنی وضع قطع سے ایک مسکین آدمی دکھائی دیتا تھا ۔۔مجھے اس کے بیان میں کوئی ہیر پھیر نظر نہ آیا تاہم اپنی تسلی کے لیے میں نے اس سے دو چار سوالات ضرور کیے ۔۔
میں نے پوچھا خادم حسین تم نے بتایا ہے کہ کسی چیز کے گرنے کی غیر معمولی اواز سن کر تم جھگی سے باہر آئے تھے۔۔ ذرا سوچ کر بتاؤ باہر آ کر تم نے سب سے پہلے کیا دیکھا تھا؟
وہ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولا۔۔ یہی دیکھا تھا جناب۔۔ اس نے متوفی جمیل اختر کی لاش کی جانب اشارہ کیا۔۔
شاید وہ میرا سوال پوری طرح نہیں سمجھا تھا ۔۔میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ۔۔اس کے علاوہ تم نے کیا دیکھا تھا ۔۔آس پاس کوئی آدمی یا کوئی غیر معمولی بات؟
دراصل بات یہ تھی کہ لاش کی حالت سے میں نے اندازہ لگایا تھا جمیل اختر پوری طرح گاڑی کے نیچے نہیں آیا تھا کیونکہ اس صورت میں اس کے وجود کا صحیح سلامت رہنا ممکن نہیں تھا۔۔ زیادہ نہیں تو اس کا جسم دو ٹکڑوں میں تو تقسیم ہو ہی جاتا۔۔ جبکہ متوفی کا جسم مختلف جگہ سے کچلے جاننے کے باوجود موجود تھا۔۔ اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ ٹرین سے اس کا جزوی ٹکراؤ ہوا تھا اور انجن نے ایک زوردار دھکے سے اسے دور پھینک دیا تھا۔۔ اس صورت میں ایک امکان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی نے دانستہ اسے دھکا دے کر ٹرین کے سامنے کر دیا ہو ۔۔یہی جاننے کے لیے میں نے خادم حسین سے یہ سوال کیا تھا۔
نہیں جناب میں نے کسی اور بندے کو یہاں نہیں دیکھا تھا۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔
میں نے پوچھا خادم حسین تم اس شخص کو پہچانتے ہو؟
اس نے نفی میں جواب دیا ۔۔میں نے یہی سوال وہاں پر موجود دوسرے افراد سے بھی باری باری کیا۔۔ سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔۔ کوئی بھی شخص متوفی سے واقف نہیں تھا ۔۔وہ سب کے لیے اجنبی تھا۔۔ اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوتی تھی کہ متوفی اس علاقے کا رہنے والا نہیں تھا۔۔
اگر یہ اتفاقی حادثہ نہیں تھا تو دوسرے امکانات کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا ۔۔یہ کسی چور اچکے یا اٹھائی گیرے کی حرکت بھی نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اس صورت میں متوفی کی کلائی پر نہ تو گھڑی موجود رہتی اور نہ ہی اس کے پرس سے نقدی برآمد ہوتی ۔ دوسرا امکان خودکشی کا تھا ۔۔پھر یہ بھی ہو سکتا تھا یہ سیدھا سیدھا قتل کا کیس ہو۔۔ابھی میں مکمل طور پر اندھیرے میں تھا ۔۔جب تک متوفی کی شناخت نہ ہو جاتی۔۔ میں کوئی واضح تفتیشی قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔۔
میں نے ضابطے کی کاروائی مکمل کرنے کے بعد متوفی جمیل اختر کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے مقامی اسپتال بھجوا دیا ۔۔۔
پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق متوفی جمیل اختر کی موت چار دسمبر کی رات 10 اور 11 بجے کے درمیان واقع ہوئی تھی۔۔ اسے گلا گھونٹ کر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔۔ اس کی گردن پر ایسے نشانات بھی پائے گئے تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ دو مضبوط ہاتھوں نے اس کی گردن خاصی دیر تک دبوچے رکھی ہوگی۔اس زمانے میں فنگر پرنٹس کا رواج عام نہیں ہوا تھا اور نہ ہی عدالت میں اس کو کوئی اہمیت دی جاتی تھی۔۔میڈیکل رپورٹ سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ متوفی کی موت دم گھٹنے سے واقع ہوئی تھی۔۔اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جمیل اختر کو قتل کیا گیا تھا اور ٹرین سے ٹکراؤ سے کوئی پانچ چھ گھنٹے کا وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا ۔۔جو کوئی بھی اس کا قاتل تھا اس نے اس واقعے پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے حادثے کا رنگ دیا تھا مگر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں اس کے فریب کی قلعی کھول دی تھی ۔۔واضح رہے کہ جائے وقوعہ کے کاروائی پانچ دسمبر کی صبح کو کی گئی تھی ۔۔
یہ معلوم ہونے کے بعد کہ یہ ایک قتل کی واردات تھی۔ میں نے مقتول کی شناخت کے لیے اس کی تصویریں دوسرے علاقے کے تھانوں کو بھجوا دیں اور ایک نامعلوم قاتل کے خلاف رپورٹ درج کر کے تفتیش کا اغاز کر دیا۔۔میرا پہلا ٹارگٹ وہ فیکٹری تھی جہاں مقتول کام کرتا تھا۔میں نے اپنے علاقے کے ایس پی کو پوری صورتحال سے اگاہ کیا اور اس کی اجازت سے گجرات پہنچ گیا ۔۔سب انسپیکٹر فضل کریم میرے ساتھ تھا۔۔
یہ فیکٹری مین جی ٹی روڈ پر تھی اور وہاں بجلی کی موٹریں اور پنکھے بنتے تھے۔۔ اس وقت دن کے ساڑھے 12 بجے تھے اور فیکٹری میں بڑے زور شور سے کام جاری تھا۔۔
دفتر میں میری ملاقات فیکٹری کے منیجر سے ہوئی ۔۔اس کا نام اشفاق بخاری تھا۔۔ وہ 40 42 سال کا ایک دبلا پتلا آدمی تھا۔۔ اپنی جسامت کی مناسبت کے بالعکس اس نے گھنی اور بڑی بڑی مونچھیں سے چھوڑی تھیں ۔۔اس وقت ہم سادہ لباس میں تھے اس لیے بات چیت سے پہلے میں نے اپنا تعارف کروانا ضروری سمجھا۔۔
میرا نام ملک صفدر حیات ہے۔۔ میں نے کہا میں لالا موسیٰ کے ایک تھانے کا انچارج ہوں۔۔ ہم ایک ضروری تفتیش کے سلسلے میں آپ کے پاس آئے ہیں۔۔
فرمائیے ملک صاحب! میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ اس نے کہا۔۔
میں نے اپنی جیب سے مقتول جمیل اختر کا فیکٹری کارڈ نکال کر اس کی جانب بڑھا دیا۔۔ اس نے کارڈ کو الٹ پلٹ کر دیکھا پھر سوالیہ نظروں سے مجھے تکنے لگا۔۔
میں نے پوچھا۔۔ یہ شخص آپ کی فیکٹری میں کام کرتا ہے؟
جی ہاں یہ ہماری ہی فیکٹری کا ملازم ہے۔۔ بہت اچھا موٹر فٹر ہے۔۔ اشفاق بخاری نے جواب دیا پھر الجھے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔۔ کیا بات ہے ملک صاحب خیریت تو ہے ؟
خیریت نہیں ہے بخاری صاحب! میں نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔ جمیل اختر کتنے دن سے فیکٹری نہیں آ رہا؟
وہ گڑ بڑھا کر بولا وہ بات دراصل یہ ہے کہ جناب میں گزشتہ روز فیکٹری نہیں آیا تھا۔۔ گھر میں میرے بیٹے کی شادی کا ہنگامہ چل رہا ہے اس لیے کئی روز سے فیکٹری کے معاملات بھی پوری طرح نہیں دیکھ پا رہا ہوں۔۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔۔ لیکن آپ فکر نہ کریں میں ابھی سب معلوم کر لیتا ہوں۔۔
بات ختم کرتے ہی اس نے منظورے کو حکم دیا ۔۔اوئے منظورے نس کے جا اور اندر سے مستری مجید کو بلا لا۔۔
مستری مجید دفتر کے اندر داخل ہوا۔۔وہ کام کے کپڑوں میں ملبوس تھا جن پر جا بجا تیل اور گریس کے دھبے نظر آرہے تھے۔۔ اس نے آتے ہی مینیجر اشفاق بخاری سے کہا باؤ جی آپ نے مجھے بلایا ہے؟
ہاں استاد مجید ۔۔اشفاق بخاری نے بوجھل لہجے میں کہا۔۔ یہ تھانےدار صاحب ہیں۔۔ لالہ موسیٰ سے ائے ہیں ۔۔اس نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا ۔۔لالا موسیٰ میں اتوار کی رات کسی نے جمیل اختر کو قتل کر دیا ہے۔۔
جمیل اختر کو کسی نے قتل کر دیا ہے ؟ اس نے اشفاق بخاری کا اخری جملہ دہرایا پھر خوفزدہ نظروں سے میری جانب دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔کس نے قتل کیا ہے اسے۔۔ اس کی تو کسی سے دشمنی وغیرہ بھی نہیں تھی؟ پھر وہ افسوسناک انداز میں سر ہلانے لگا۔۔
میں نے پوچھا ۔۔اس کا گھر کدھر ہے ؟
کیا گھر ہو گا اس کا ۔۔مستری مجید نے شکستہ لہجے میں کہا چھڑا چھانٹ تھا۔۔ نہ کوئی اگے نہ پیچھے۔۔ ادھر بھڑی گلی میں کسی کا کرایہ دار تھا۔
میں نے تعجب آمیز لہجے میں دریافت کیا ۔۔کیا مطلب ۔اس کے گھر والے کہاں ہیں ؟ کیا وہ اسی ضلع کا رہنے والا نہیں تھا ؟
اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی جناب! منیجر اشفاق بخاری نے بتایا۔۔ وہ چار پانچ سال سے ہمارے یہاں کام کر رہا تھا مگر اس نے کبھی اپنے بارے میں کھل کر نہیں بتایا ۔کچھ لوگوں نے اسے کریدنے کی کوشش بھی کی تو وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال جاتا تھا ۔۔
میں نے پوچھا ۔۔لالہ موسیٰ میں جمیل اختر کا کون رہتا تھا؟
اللہ ہی بہتر جانتا ہے جناب! اس نے جواب دیا ۔۔اس نے مجھ سے تو کبھی لالہ موسیٰ جانے کا تذکرہ نہیں کیا ۔۔
جہلم کی باتیں تو وہ کرتا رہتا ہوگا۔؟ میں نے اندھیرے میں ایک تیر چھوڑا۔
وہ باتیں کرتا ہی کہاں تھا جناب! مستری مجید نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔۔ بہت گم سم اور چپ چاپ رہنے والا شخص تھا وہ۔۔
اشفاق بخاری نے کہا ۔۔ملک صاحب ۔زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ اپ جمیل اختر کے مالک مکان سے مل لیں۔۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں سے آپ کو کوئی کارآمد بات ضرور معلوم ہو جائے گی۔
پھر اس نے مستری مجید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا استاد جی ادھر سے کسی لڑکے کو ملک ہوراں دے نال بھڑی گلی بھیج دیں۔اس کے بعد اس نے مجھ سے معزرت خواہانہ انداز میں کہا ۔۔جناب۔۔آپ خیال نہ کریں ۔۔لاہور سے ایک پارٹی کا ضروری فون آنے والا ہے ۔۔ورنہ میں آپ کے ساتھ خود وہاں جاتا۔۔
کوئی بات نہیں بخاری صاحب ۔۔میں نے کہا ۔۔آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ ۔۔
پھر میں اور اے ایس ائی فضل کریم فیکٹری کے ایک ورکر کے ساتھ بھڑی گلی پہنچ گئے ۔۔وہ ہمیں مطلوبہ مکان تک پہنچا کر واپس چلا گیا ۔۔اے ایس ائی نے دروازے پر دستک دی ۔۔
دستک کے جواب میں ایک باریش شخص برآمد ہوا ۔اس نے نحیف سی آواز میں پوچھا ۔۔
آپ لوگ کون ہیں ۔۔کس سے ملنا ہے ؟
اے ایس ائی نے کہا آپ ہی سے ملنے ائے ہیں بزرگو۔۔ عبدالستار آپ ہی کا نام ہے نا؟
مستری مجید کی زبانی ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ مقتول جمیل اختر کسی عبدالستار نامی عمر رسیدہ شخص کا کرائے دار تھا۔۔
میں عبدالستار ہی ہوں اس نے جواب دیا ۔۔
اس نے ہمیں اپنے مکان کی بیٹھک میں لے جا کر بٹھایا اس مکان میں عبدالستار اور اس کی بیوی عائشہ اکیلے رہتے تھے ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں ان سب کی شادیاں ہو چکی تھیں اور سب اپنے اپنے گھروں میں سب خوش تھے۔
عبدالستار اور اس کی بیوی نے مکان کو تین حصوں میں تقسیم کر کے دو کو کرائے پر اٹھا دیا تھا تیسرے حصے میں ان کی اپنی رہائش تھی۔۔ کرائے کی جو پیسے آتے تھے اسی سے یہ دونوں جیسے تیسے زندگی گزار رہے تھے۔عبدالستار کی بیوی عائشہ بھی وہیں بیٹھک میں چلی ائی تھی۔۔ میں نے انہیں مختصراً صورتحال سے اگاہ کیا تو ان کے چہرے اتر گئے۔ان کے چہرے پر چھائی ہوئی غم و اندوہ کی گہری گھٹا سے میں نے اندازہ لگایا کہ جمیل اختر کی موت سے انہیں ایسا صدمہ پہنچا تھا جیسے ان کا اپنا بیٹا قتل ہو گیا ہو۔۔ان کے حواس بحال ہوئے تو میں نے سلسلہ سوالات کا آغاز کیا میں نے عبدالستار سے پوچھا۔۔
جمیل اختر آپ کے پاس کب سے رہ رہا تھا ؟
اس نے جواب دیا ۔۔کوئی چار پانچ سال تو ہی گئے ہیں ۔۔
وہ کہاں کا رہنے والا تھا ۔؟
یہ تو ہمیں نہیں پتہ جناب ۔۔
میں نے کہا ۔۔ابھی آپ نے بتایا ہے اور فیکٹری سے بھی ہمیں یہی پتہ چلا ہے کہ وہ لگ بھگ پانچ سال سے آپ کا کرائے دار تھا۔۔ کسی کے بارے میں جاننے کے لیے تو پانچ۔۔۔۔۔ بلکہ پانچ دن بھی کافی ہوتے ہیں اور آپ کو پانچ سال میں بھی پتہ نہیں چل سکا۔۔
اس کی بیوی عائشہ نے کہا۔۔ نہ اس نے بتایا نہ ہم نے پوچھا۔۔۔۔
میں نے سوال کیا ۔۔آپ کے پاس قیام کے دوران میں وہ کہیں آتا جاتا بھی تھا۔؟
جی ہاں کبھی کبھی وہ لاہور گھومنے پھرنے جاتا تھا ۔۔عبدالستار نے بتایا ایک آدھ بار راولپنڈی بھی گیا تھا۔۔
وہ لاہور کسی رشتے دار کے پاس جاتا تھا یا۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور اس کے چہرے پر نظر گاڑ کر اپنے سوال کا رد عمل تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ اس نے کہا۔۔ جمیل نے اپنے کسی رشتہ دار کا تو کبھی ذکر نہیں کیا مگر۔۔۔۔۔۔۔ وہ بولتے بولتے اچانک رک گیا اور اپنی بیوی عائشہ کی طرف دیکھنے لگا ۔۔مجھے اس کی انکھوں میں تذبذب کے گہرے سائے لہراتے ہوئے نظر ائے تھے جیسے وہ عائشہ سے پوچھ رہا ہو کہ آگے بولنا چاہیے یا نہیں۔۔
میں نے جلدی سے پوچھا ۔۔مگر کیا عبدالستار ؟
پتہ نہیں وہ بات خاص ہے بھی یا نہیں ۔۔۔۔
تم اس کی فکر نہ کرو۔۔ میں نے نرمی سے کہا ۔۔بات کہ اہم یا غیر اہم ہونے کا فیصلہ میں خود کر لوں گا۔۔
اس نے جواب دینے سے پہلے ایک مرتبہ پھر الجھن آمیز نظروں سے عائشہ کو دیکھا پھر کہا تھانےدار صاحب بات دراصل یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک عورت جمیل کے ساتھ یہاں آئی تھی۔اس نے رک کر پریشان نگاہوں سے مجھے دیکھا پھر لجاجت سے بولا ۔۔اپ کوئی ایسا ویسا مطلب مت سمجھیں تھانے دار صاحب وہ عورت جمیل کے ساتھ اکیلی نہیں آئی تھی بلکہ اس کا گھر والا بھی ساتھ تھا۔۔ہمیں اس بات پر حیرت ہوئی تھی۔۔ وجہ یہ تھی کہ جمیل اتنے عرصے سے یہاں رہ رہا تھا مگر اس سے ملنے کوئی نہیں آیا تھا۔۔ نہ کوئی مرد ۔نہ عورت ۔۔ہم نے تو یہی سمجھ لیا تھا کہ وہ اس دنیا میں اکیلا ہے۔ کوئی اس کا عزیز یا رشتہ دار نہیں ہے۔۔ اس عورت اور مرد کو دیکھ کر میرے اندر تجسس کا مادہ بیدار ہوا۔۔ عائشہ اس معاملے میں مجھ سے چار ہاتھ اگے ہی ہے ۔۔ان دونوں کو جاننے کے بعد عائشہ نے جمیل سے ان کے بارے میں دریافت کیا۔۔ وہ کون تھے اور کس سلسلے میں اس کے پاس ائے تھے ؟جمیل نے جواباً بتایا کہ وہ اس کی خالہ اور خالو تھے۔۔بازار میں وہ اسے اتفاق مل گئے وہ انہیں اپنے ساتھ لے ایا تھا ہمیں حیرت تو بہت ہوئی تھی کہ اتنے عرصے بعد کوئی جمیل کا رشتہ دار سامنے آیا تھا مگر حسب سابق ہم نے اس سے ان رشتہ داروں کی تفصیلات نہیں پوچھی۔۔ وجہ وہی تھی کہ اس نے ہمیں اس موضوع پر بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔۔
میں نے پوچھا یہ کتنا عرصہ پہلے کی بات ہے ؟
کوئی چھ سات مہینے ہو گئے ہیں ۔۔عبدالستار نے جواب دیا ۔۔
میں تھوڑی دیر تک خاموش نظروں سے عبدالستار کو گھورتا رہا پھر اچانک کہا عبدالستار میں جمیل اختر کے کمرے کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں۔۔
بڑے شوق سے جناب ۔۔وہ بلا تامل بولا ۔۔پھر اپنی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا بھاگاں والی اے۔۔ چابی کہاں رکھی تھی تم نے۔۔؟
اس کی بیوی اندر سے جمیل کے کمرے کی چابی نکال کر لائی۔۔ عبدالستار نے خود اپنے ہاتھ سے کمرے کا تالا کھولا پھر ہمارے ساتھ ہی وہ دونوں میاں بیوی بھی کمرے میں داخل ہو گئے۔۔ ان کا انداز بہت محتاط اور محافظانہ تھا۔۔ جیسے خدشہ ہو کہ ہم وہاں سے کوئی چیز چرا کر نہ لے جائیں
مقتول جمیل اختر کا کمرا ویسا ہر گز نہیں تھا جیسا عام طور پر چھڑے چھانٹ لوگوں کا ہوتا ہے ۔۔وہ کمرا کسی درویش کی کٹیا کا منظر پیش کر رہا تھا ۔۔کمرے کی مغربی دیوار کے ساتھ زمین پر کھجور کی ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی جس پر ایک عام سا سرہانہ رکھا تھا۔۔میرے اشارے پر سب انسپیکٹر فضل کریم نے پہلے چٹائی کو اٹھا کر دیکھا پھر کھونٹیوں پر لٹکے کپڑوں کی تلاشی لی مگر کوئی قابل ذکر چیز برآمد نہ ہوئی۔اس کے بعد میں سوٹ کیس کی طرف متوجہ ہوا۔سوٹ کیس مقفل نہیں تھا ۔یہ اس اعتماد کی نشانی تھی جو مقتول اپنے مالک مکان پر کرتا تھا ۔۔میں نے عبدالستار کے سامنے اس سوٹ کیس کو کھول کر دیکھا ۔۔اندر دو جوڑے دھلے ہوئے کپڑے بڑے قرینے سے رکھے ہوئے تھے۔اس کے علاوہ ایک موٹے دانوں والی تسبیح ایک عطر کی شیشی مختلف وظائف کی چھوٹی چھوٹی چند کتابیں اور ایک ڈائری بھی ملی۔۔میں نے باقی چیزوں کا سرسری جائزہ لینے کے بعد سرخ جلد والی اس ڈائری کو کھول لیا۔۔
اس ڈائری میں جہلم کا ایک ایڈریس لکھا ہوا تھا ۔اس ایڈریس کے نتیجے واضح طور پر ماسی زیبن بھی لکھا ہوا نظر آ رہا تھا ۔۔
بس بن گیا کام۔۔۔بے خیالی میں میرے منہ سے نکلا ۔۔
فضل کریم نے پوچھا ۔۔ملک صاحب لگتا ہے کوئی سراغ مل گیا ہے ؟
میں نے وہ ڈائری اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔۔ یہ دیکھو مقتول کی جس ماسی کا عبدالستار نے ذکر کیا تھا یہ ایڈریس اس کا ہے۔ وہ جہلم میں رہتی ہے۔۔
یعنی مقتول لالہ موسیٰ آنے سے پہلے جہلم میں اپنی ماسی کے پاس تھا۔۔ فضل کریم نے ایڈریس پر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔۔
بالکل درست خیال ہے تمہارا۔۔ میں نے کہا ۔۔وہ ٹکٹ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ مقتول نے جہلم سے لالا موسیٰ تک سفر کیا تھا۔۔
میں نے جلدی جلدی پوری ڈائری دیکھ ڈالی مگر اس ایڈریس کے سوا مجھے مزید کوئی کارآمد معلومات حاصل نہ ہو سکیں۔۔ فی الحال یہی بہت تھا۔۔ نا امیدی کی سیاہ رات میں امید کی ایک کرن پھوٹی تھی۔۔ میں اسی ننھی سے کرن کی روشنی میں بہت دور تک دیکھ سکتا تھا۔۔ وہ ایڈریس جہلم کے مشین محلہ نمبر دو کا تھا ۔۔میں نے مکمل ایڈریس اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا ۔۔اس کے بعد سوٹ کیس کو واپس پرانی حالت میں اینٹوں پر رکھ کر بند کر دیا۔۔
ہم تقریباً ایک بجے جہلم پہنچنے تھے ۔سب سے پہلے میں نے ضلع ہیڈ کوارٹر جہلم کو اپنی امد کی غرض و غایت سے مطلع کیا پھر مشین محلہ نمبر دو کے متعلقہ تھانے میں تھوڑی دیر رک کر۔ مقتول کی خالہ زیبن کے دروازے پر پہنچ گیا۔۔بعد میں معلوم ہوا ۔۔زیبن کا اصل نام زیب النساء تھا۔۔اس کے شوہر کا نام طالب تھا۔۔مین بازار میں اس کی آٹو اسپیئر پارٹس کی دکان تھی ۔۔
ہم سے پہلے کوئی اور شخص زیب النساء کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔۔ہم اس کے قریب جا کر کھڑے ہو گئے تو اس نے سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
جی فرمائیں ۔۔!
میں نے کہا ہم زیب النساء نامی ایک عورت سے ملنے آئے ہیں وہ اسی گھر میں رہتی ہے نا؟
زیب النساء کے نام پر اس کی تیوری چڑھ گئی۔۔ سخت لہجے میں بولا ۔۔آپ کون ہیں۔۔ زیب النساء سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟
اب میں نے اپنا تعارف کروانا ضروری سمجھا میں نے کہا ہم لالہ موسیٰ سے ائے ہیں۔۔ میں وہاں کے ایک تھانے کا انچارج ہوں۔۔ ملک صفدر حیات میرا نام ہے اور یہ میرے ساتھ اسسٹنٹ سب انسپیکٹر احمد حسن ہے۔۔
جب اسے پتہ چلا کہ ہمارا تعلق پولیس کے محکمے سے ہے تو وہ قدرے نرم پڑ گیا مگر اس کے لہجے کا اوکھا پن پوری طرح زائل نہیں ہوا تھا ۔۔برہمی سے پوچھا اچھا تو تھانے دار صاحب آپ میری بیوی کو گرفتار کرنے آئے ہیں۔۔ کیا قصور کیا ہے اس نے۔؟
میں نے اس کے طنزیہ انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ۔۔ضرورت پڑی تو گرفتار بھی کر کے لے جائیں گے۔۔ فی الحال تو ہم ایک کیس کے سلسلے میں تھوڑی سی پوچھ گچھ کرنے آئے ہیں۔۔۔
کون سا کیس ۔۔کیسی پوچھ گچھ ؟اس نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا اس کی ساری تن فن غائب ہو چکی تھی۔۔ وہ راہ راست پر آگیا تھا۔۔
وہ ہراساں نظروں سے مجھے دیکھنے لگا ۔میں نے اس کی انکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا۔ ہفتہ تین تاریخ کو جمیل اختر یہاں آیا تھا۔۔۔؟
جی آیا تھا۔۔ اس نے جواب دیا پھر تفتیش ناک لہجے میں دریافت کیا ۔۔کیا ہوا اسے خدا نخواستہ کوئی حادثہ وغیرہ۔۔۔
میں نے اس کا جملہ قطع کرتے ہوئے بتایا ۔۔جمیل اختر کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔۔ اس کی لاش لالہ موسیٰ کے ریلوے اسٹیشن کے قریب سے ہمیں ملی ہے۔۔ ہم اسی سلسلے میں یہاں آئے ہیں۔۔
جب تک میں اپنی بات ختم کرتا وہ افسوس ناک انداز میں گردن ہلاتا رہا۔۔ میرے خاموش ہوتے ہی وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔۔ یہ تو ہونا ہی تھا جناب۔۔!
کیا مطلب ہے تمہارا ؟ میں نے چونک کر پوچھا کیا ہونا تھا۔۔؟
اس نے جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ گھر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی پھر ایک پٹ ذرا سا سرکا اور وہاں ایک عورت کی جھلک دکھائی دی۔۔ ہم پر نظر پڑتے ہی اس عورت کی آنکھوں میں حیرت کا تاثر ابھرا۔۔ اس نے دروازے کا پٹ پورا کھول دیا پھر کہا۔۔ کیا بات ہے طالب حسین ۔۔تم کن لوگوں سے بات کر رہے ہو۔۔؟
وہ یقیناً زیب النساء عرف زیبن ہی تھی۔۔ اس نے اپنے شوہر کو طالب حسین کہہ کر مخاطب کیا تھا۔۔
طالب حسین نے جھلا کر کہا ۔۔یہ پولیس والے ہیں ۔۔تمہارے بھانجے کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔۔ یہ لالہ موسیٰ سے تفتیش کرنے تمہارے پاس آئے ہیں۔۔
ہائے میں مر گئی ۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر بولی ۔جمیل اختر کو کسی نے قتل کر دیا؟
اور ۔۔۔اور دیکھ لیا تم نے ؟ طالب حسین نے دل کا غبار نکالتے ہوئے کہا۔۔ تم اسے جو پٹیاں پڑھا رہی تھیں اس کا نتیجہ تو یہی نکلنا تھا۔۔ میں نے تمہیں منع بھی کیا تھا ۔۔میں جانتا ہوں وہ نام نہاد چوہدری۔۔۔۔۔ نہیں وہ ۔ رانا نوازش علی کا کس قماش کا آدمی ہے۔۔ پر تمہاری تو مت ماری گئی تھی۔۔
تایا۔۔۔ سگے تایا نے معصوم بھتیجے کو قتل کر دیا۔۔ ہائے وے میرے ربا۔۔۔ وہ سینہ کوبی کرتے ہوئے بولی۔۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی۔۔ تھانے دار صاحب آپ نے رانا نوازش علی کو گرفتار کر لیا ہے نا ۔۔؟
یہ رانا نوازش علی کون ہے؟ میں نے طالب حسین سے دریافت کیا۔۔
اس نے جواب دینے سے پہلے گلی میں جمع ہونے والے افراد کو دیکھا ہماری اس گفتگو کے دوران میں ہمارے آس پاس کافی لوگ جمع ہو گئے تھے۔۔ طالب حسین نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ملک صاحب اندر بیٹھک میں آ جائیں۔۔ پھر اس نے زیب النساء کو دروازے میں سے اندر دھکیلتے ہوئے ہمیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔ توڑی ہی دیر بعد ہم طالب حسین کی بیٹھک میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔
تین گھنٹے کی طویل نشست میں میرے ترش و تلخ اور سخت و سنگین سوالات کے جواب میں مقتول جمیل اختر کی خالہ زیب النساء اور خالو طالب حسین نے جو تفصیلات مجھے بتائیں۔۔ اس میں سے غیر ضروری باتوں کو حذف کر کے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔۔
جمیل اختر یتیم پیدا ہوا تھا!
اس کی پیدائش سے دو ماہ قبل اس کا باپ چوہری امانت علی کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔۔ جمیل کے ساتھ ہی اس کی بدقسمتی بھی پیدا ہوئی تھی۔۔ ابھی اس کی عمر پورے چار سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کی والدہ سعیدہ خاتون بھی نمونیے کا شکار ہو کر اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی۔چوہدری امانت علی اور چوہدری نوازش علی صرف دو بھائی تھے۔۔ نوازش علی بڑا تھا ۔۔ان کے باپ یعنی مقتول جمیل اختر کے دادا نے مرنے سے پہلے پوری زمین و جائیداد دونوں بیٹوں میں مساوی تقسیم کر دی تھی اس لیے باپ کی موت کے بعد بیٹوں میں زمین و جائیداد کے بٹوارے پر سر پھٹول نہیں ہوئی۔
نوازش علی شروع ہی سے شہر زندگی کا خواہاں تھا مگر جب تک باپ زندہ تھا اسے یہ قدم اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔۔ مگر اب اس کے لیے راستہ صاف ہو چکا تھا۔۔ اس نے پہلی فرصت میں اپنے حصے کی زمین پیچی اور موضع کڑیانوالا کو خیر اباد کہہ کر لالہ موسیٰ اگیا۔اسے زراعت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔۔وہ کاروبار کرنا چاہتا تھا ۔لالا موسیٰ میں اس نے سب سے صاف ستھرے علاقے میں رہائش اختیار کی اور غلا منڈی میں دکان حاصل کر کے آڑھت کا کاروبار شروع کر دیا۔اب وہ چوہدری نوازش علی سے رانا نوازش علی بن گیا تھا ۔۔اس کی دکان پر بہت بڑا بورڈ اویزاں تھا جہاں جلی حروف میں رانا نوازش علی اینڈ سنز لکھا ہوا تھا۔نوازش علی کے دو بیٹے تھے۔۔ رانا فیاض احمد اور رانا ریاض احمد۔۔ یہ دونوں بھائی جمیل اختر سے بڑے تھے۔۔ جمیل کی پیدائش پر ریاض احمد ایک سال کا ہو چکا تھا اور بڑا بھائی فیاض احمد ریاض احمد سے تین سال بڑا تھا۔۔
کڑیانوالا میں جب امانت علی حادثاتی موت کا شکار ہوا تو نوازش علی نے اپنی بھابی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ اب تم تنہا ہو گئی ہو۔۔ میں ہوں نا۔ تمہیں فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ بلکہ میری مانو تو تم بھی شہر میں آ جاؤ۔۔ زمینیں کسی کو ٹھیکے پر دے دیتے ہیں۔۔ اب اس گاؤں میں رکھا ہی کیا ہے۔۔ جسے کھیتی باڈی کا شوق تھا وہ ہی نہیں رہا تو تم یہاں رہ کر کیا کرو گی۔۔
سعیدہ خاتون اپنے جیٹھ کی شاطرانہ ذہنیت کو بخوبی سمجھتی تھی۔۔ اس نے گاؤں چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔۔ بھائی صاحب اپ کی مخلصانہ پیشکش کا بہت بہت شکریہ مگر میں یہاں سے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔۔ امانت علی اپنی زمینوں کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔۔ میں ان کی اس خواہش کو ضرور پورا کروں گی۔۔ زراعت کا سارا کام میں اپنے نگرانی میں کرواؤں گی۔
نوازش علی اپنے چھوٹے بھائی کی زمینوں پر دانت لگائے بیٹھا تھا ۔۔پھر قدرت نے اسے اپنی کمینگی کا اظہار کا یہ موقع فراہم کر دیا ۔۔اچانک نمونیا کا شکار ہو کر سعیدہ چل بسی ۔۔اب جمیل اختر اس دنیا میں تنہا رہ گیا تھا ۔۔نوازش علی نے اسے موقع کو غنیمت جانا اور فورا کڑیانوالا پہنچ کر اپنی بھابی کی تدفین و تدفین کے بعد اس نے یتیم جمیل اختر کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔
دوسرے ہی روز نوازش علی نے اپنے مرحوم بھائی کی زمین اور جائیداد کے تمام کاغذ سمیٹے زمینوں کو ٹھیکے پر ایک مزارع کے حوالے کیا اور جمیل اختر کو لے کر لالہ موسیٰ اگیا۔وہ اپنے تایا زاد بھائیوں کے ساتھ پل بڑھ کر اور کھیل کود کر بڑا ہونے لگا۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری تھا۔۔ جس وقت جمیل کی والدہ کا انتقال ہوا تھا وہ زمین و جائیداد کے معاملات کا شعور نہیں رکھتا تھا ۔۔بعد ازاں رفتہ رفتہ اس کے معصوم ذہن میں سے یہ بات بٹھا دی گئی کہ گاؤں کے زمینیں وغیرہ سب کچھ نوازش علی کا ہے جو شہر آتے ہی اس نے اپنے چھوٹے بھائی امانت علی کو عارضی طور پر دے دیا تھا کیونکہ اس وقت اس کے حالات اچھے نہیں تھے۔۔جمیل ہر طرح سے اپنے تایا کا احسان مند تھا۔۔ یہ احسان مندی اس لیے بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ پختہ ہوتی جا رہی تھی کہ جمیل اختر کو حقیقت سے آگاہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔نوازش علی نے خاندان کے لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول نہیں رکھا تھا ویسے بھی جو چند رشتہ دار تھے وہ کڑیانوالا ہی میں تھے ۔۔نہ وہ خود کسی سے ملنے جاتا تھا اور نہ ہی دوسروں کو اپنے گھر آنا پسند کرتا تھا۔بس سال میں ایک بار مزارع کے پاس جاتا اور زمینوں سے ہونے والی آمدنی جیب میں بھر کر واپس آ جاتا۔
بہن کی وفات یہ بہت زیب النساء نے پوری کوشش کی تھی کہ معصوم بھانجے کو وہ اپنے پاس جہلم لے جائے مگر ایک تو نوازش علی نے رپھڑ ڈال دیا تھا کہ اپنے بھتیجے کی صحیح پرورش وہی کر سکتا ہے۔۔ اپنے بھائی کی اولاد پر سے صرف اور صرف اسی کا حق ہے۔۔ دوسرے زیب النساء کے شوہر طالب حسین نے بھی اس موقع پر اپنی بیوی کی حمایت کی بجائے مخالفت کی تھی۔
زیب النساء نے بعد میں اپنے بھانجے سے میل ملاپ رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔ اس غرض سے اس نے کئی پھیرے لالا موسیٰ کے بھی لگائے تھے۔۔ لیکن نوازش علی اور اس کے بیوی بچوں نے ایسا روکا پیکا رویہ اپنایا تھا کہ اس نے آنا جانا کم کر دیا تھا پھر یہ آمد و رفت وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہی ہو گئی۔ نوازش علی نے جمیل کے ذہن میں زیب النساء کے خلاف اس مقدار میں زہر ٹپکایا تھا ۔۔یہ بات زیب النساء نہیں جانتی تھی تاہم جب بھی جمیل سے اس کا آمنا سامنا ہوتا جمیل کے رویے میں ایک واضح سرد مہری اور نفرت کی آمیزش اسے محسوس ہوتی تھی۔ان دونوں میں کبھی اتنی تفصیلی بات نہیں ہوئی تھی کہ زیب النساء اسے نوازش علی کا اصلی چہرہ دکھا سکتی۔وہ اپنی خالہ سے بات کرنے کا بھی روادار نہیں تھا۔چنانچہ اس سے اس احساس موضوع پر کھل کر بات ہوسکتی ۔۔مایوس ہو کر زیب النساء ہمت ہار بیٹھی۔۔
جمیل اختر اپنے تایا زاد بھائیوں کو بڑے بھائی اور ان کی ماں ناہید بیگم کو اپنی ماں ہی سمجھتا تھا البتہ دوسری جانب معاملہ اس کی برعکس تھا ۔۔وہ لوگ اس کے ساتھ نوکروں جیسا سلوک کرتے تھے لیکن جمیل نے کبھی ان کے رویوں کو برا نہیں منایا تھا اور ہمیشہ ان کی ہر زیادتی کو ہنس کر ٹال دیتا تھا ۔۔ہاں یہ تھا کہ اس کا تایا نوازش علی اس کا بڑا خیال رکھتا تھا۔۔ اکثر تو وہ اپنے سگے بیٹوں کو بھی جمیل کی حمایت میں ڈانٹ دیتا تھا ۔۔جمیل کے لیے یہ صورتحال خاصی حوصلہ افزا تھی۔۔ تایا کا وجود اس گھر میں اس کے لیے غنیمت تھا ۔۔اس کی دانست میں تایا نے اسے انتہائی نازک وقت میں سہارا دے کر اس پر جو احسان کیا تھا وہ ساری عمر ان کی خدمت کر کے بھی نہیں اتار سکتا تھا۔۔ اپنی تائی اور تایا ذات بھائیوں کے رویے نے البتہ اس کے دل میں بل ڈال دیا تھا جو عین قدرتی بات تھی۔۔
جمیل میٹرک میں پہنچا تو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں کوئی ایسا طوفان بھی آ سکتا ہے کہ جس کے نتیجے میں اسے مجبور ہو کر گھر چھوڑنا پڑ جائے۔۔ یہ واقعہ ہی ایسا تھا اور خاص طور پر گھر کے افراد کا رد عمل اتنا شدید تھا کہ وہ دل برداشتہ ہو گیا تھا ۔۔اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ اتنا ضدی تھا۔۔ اس نے ایک بار فیصلہ کر لیا کہ اب اس گھر میں نہیں رہے گا۔۔ بس پھر آخری وقت تک وہ اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا۔۔
رانا فیاض احمد اور رانا ریاض احمد اس وقت کالج میں تھے۔۔ جمیل میٹرک میں تھا۔۔ اس کا اسکول گھر سے بہت قریب تھا۔۔ ایک روز خلاف معمول وہ اسکول سے جلدی گھر آگیا۔۔ اس وقت اس کا تایا نوازش علی بھی دکان پر ہوتا تھا۔۔ وہ گھر میں داخل ہو کر سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔۔اس کے کمرے سے پہلے تایا تائی کا کمرہ تھا ۔۔وہ اس کمرے کے پاس سے گزرا تو اچانک زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لیے۔۔ اندر سے سرگوشیوں میں بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔۔ ایک آواز تو اس کی تائی ناہید بیگم کی ہی تھی مگر دوسری آواز اس کے لیے نا مانوس تھی اور وہ کسی مرد کی آواز تھی ۔۔اس وقت بخار نے جمیل کا برا حال کر رکھا تھا مگر کمرے کے اسرار نے اس کی سماعت کو اپنی جانب کھینچ لیا۔
اجنبی مردانہ آواز ائی۔۔ یہ میرا وہم نہیں ہے ناہید ۔۔میں نے کسی کے قدموں کی واضح آواز سنی ہے۔۔ کوئی گھر میں داخل ہوا ہے۔۔ ایک لمحے کو رک کر اس نے پوچھا۔۔ تم نے بیرونی دروازہ بند نہیں کیا تھا۔؟
وہ تو میں کبھی بھی نہیں کرتی۔۔ ناہید بیگم نے جواب دیا۔۔ اس طرح خواہ مخواہ شک پڑ سکتا ہے۔۔ ویسے تم بے فکر رہو ۔۔کوئی بھی نہیں ہوگا ۔۔بچے دو بجے سے پہلے آتے ہی نہیں ہیں اور نوازش تو شام کو ہی آئے گا۔۔
میں بے فکر کیسے ہو جاؤں۔۔ میں نے خود کسی کے چلنے کی آواز سنی ہے۔۔
ناہید بیگم نے ناراضگی سے کہا ۔۔تم مرد ہو کر اس قدر خوفزدہ ہو ۔۔پریشان تو مجھے ہونا چاہی۔۔ے تم اس وقت میرے گھر میں ہو۔۔
بات مرد اور عورت ہونے کی نہیں ہے ناہید اور نہ ہی میں بزدل ہوں۔۔ اگر میں ڈرپوک ہوتا تو یوں دن دہاڑے تم سے ملنے نہ آتا۔بس میں ذرا محتاط رہنے کا عادی ہوں اور تمہیں بھی احتیاط کی تاکید کرتا ہوں۔۔
تم بھی ایک ضدی ہو۔۔ ناہید نے جھلا کر کہا۔۔ جب تک اپنی بات منوا نہیں لو گے۔۔ جان نہیں چھوڑو گے۔۔ لو میں دیکھ کر آتی ہوں۔۔ تم اس۔۔۔۔۔ اس کے بعد سرگوشی نما آواز معدوم ہو گئی۔۔ شاید جملے کا باقی حصہ اشاروں کی زبان میں ادا کیا گیا تھا۔۔
اس کی تائی باہر آرہی تھی۔۔ اس نے سوچا وہاں سے ہٹ جائے تاکہ تائی کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔۔ذہن میں پیدا ہونے والے دوسرے خیال نے پہلے خیال کی تردید کی۔۔ دوسرا خیال زیادہ مضبوط اور توانا تھا ۔۔میں نے ان کے ظلم و ستم بہت سہ لیے ہیں ۔۔یہی موقع ہے مجھے یہاں سے نہیں ہٹنا چاہیے۔۔ چور کو اس کے گھر تک چھوڑ کر آنا چاہیے۔۔ اگر تائی کی کمزوری میرے ہاتھ آ جائے گی تو میں بوقت ضرورت اسے دبا سکوں گا ۔۔وہ میرے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں کر سکے گی۔۔ یہ سب سوچ کر وہ جم کر کھڑا ہو گیا۔۔
کمرے کا دروازہ کھلا اور ناہید نے جھانک کر رادری میں دیکھا پھر جمیل پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹک گئی ۔اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا مگر دوسرے ہی لمحے اس نے خود کو سنبھالا اور کمرے سے باہر آکر دروازہ بند کرتے ہوئے بولی تم آج اتنی جلدی کیسے آ گئے ؟
جمیل نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا ۔کیا تایا اس وقت کمرے میں موجود ہیں ۔۔
جمیل نے بدستور اس کے چہرے پر نظریں جمائے جمائے کہا ۔۔میں نے آپ کے کمرے میں کسی کی آواز سنی ہے۔۔
تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے جمیل۔۔ وہ شرمندہ ہونے کی بجائے ڈانٹ ڈپٹ پر اتر آئی۔۔ تمہیں ہوش بھی ہے کیا کہہ رہے ہو؟
پوری طرح ہوش ہے ۔۔تائی جان۔۔
جمیل کا خیال تھا کہ رنگے ہاتھوں پکڑ جانے پر وہ بری طرح گھبرا جائے گی اور منت سماجت پر اتر ائے گی مگر ہوا اس کے الٹ۔۔۔ناہید نے غصے میں پاؤں پٹختے ہوئے کہا ۔۔
تو نے میرے کمرے میں کسی غیر مرد کی آواز سنی ہے ؟حرام زادے مجھ پر بہتان لگاتا ہے ۔۔میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔۔ پھر وہ جمیل کا منہ نوچنے کے لیے دونوں ہاتھوں سے حملہ آور ہوئی۔۔ وہ بلند آواز میں اس لیے بول رہی تھی کہ اندر موجود شخص باہر کی صورتحال سے آگاہ ہو جائے۔۔
جمیل نے اپنی جگہ سے دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا ۔۔میں نے جو کچھ سنا ہے وہ تایا جان کو بھی بتاؤں گا۔۔
مجھے دھمکی دیتا ہے سور کا تخم ۔۔وہ چیخ کر بولی۔۔ میں تیری بوٹی بوٹی کٹواؤں گی تیرے تایا سے ۔۔آج ہی دھکے دے کر گھر سے نہ نکلوایا تو میرا نام بھی ناہید نہیں ہے۔۔
جمیل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔۔مجھے اب اس گھر میں رہنے کا زیادہ شوق نہیں ہے جہاں بے غیرتی کے کھیل کھیلے جاتے ہوں۔۔
بے غیرت تو تیری ماں ہے۔۔وہ باقاعدہ کوسنوں پر اتر آئی۔۔
خبردار جو میری ماں کا نام لیا ۔۔جمیل نے در شت لہجے میں کہا۔۔ میں تمہاری زبان کھینچ لوں گا۔۔
وہ غصے میں لال پیلی ہوتے ہوئے گر جی۔۔ تیری یہ ہمت دو ٹکے کے انسان۔۔ ہمارے ٹکڑوں پر پلا اور ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہا ہے۔
میں نے اگر اس گھر کے ٹکڑے کھائے ہیں تو محنت بھی کی ہے ۔
تو احسان فراموش ہے۔۔ جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کر ڈالا ۔۔اس کا مصنوعی غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔
جمیل نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔ میں لاکھ احسان فراموش سہی مگر تمہاری طرح بے حیا نہیں ہوں۔۔ میں نے خود تمہیں کسی مرد کے ساتھ سرگوشیاں کرتے سنا ہے۔۔
وہ کوئی ۔۔۔۔تیری ماں کا خصم ہو گا ۔۔تیرا باپ ہوگا ۔۔وہ دونوں ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے چلائی پھر جمیل کو بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولی۔۔ جا۔۔ جا کر خود دیکھ لے کمرے کے اندر۔۔ کون ہے تیری ماں کا یار وہاں پر چھپا ہوا۔؟
جمیل نے اس موقع کو ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔۔ اس نے جو کچھ سنا تھا اسے اس پر کامل یقین تھا۔۔ پھر ناہید بیگم نے اس کی ماں کو اتنی گالیاں دے ڈالی تھیں کہ اس کے سینے میں تائی کے خلاف دلی نفرت کا طوفان اٹھنے لگا۔وہ بے دھڑک کمرے میں داخل ہو گیا پھر متلاشی نظروں سے ایک ایک جگہ وہ دیکھنے لگا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔۔نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔۔اس نے پلنگ کے نیچے اور الماری کے پیچھے بھی جھانک کر اچھی طرح دیکھ لیا مگر جس کی اسے تلاش تھی وہ نظر نہ آیا۔۔ اب ایک ہی امکان باقی تھا کہ تائی نے اسے دوسرے دروازے سے نکال دیا تھا۔۔ اس کمرے میں آنے جانے کے لیے دو دروازے موجود تھے۔۔
جمیل کی ناکامی پر ناہید شیرنی بن گئی اور اس نے جمیل کی سات پشتوں کو مغلظات میں تول دیا۔۔ابھی یہ ہنگامہ جاری ہی تھا کہ ریاض احمد اور فیاض احمد کالج سے لوٹ آئے۔۔پہلے تو ان کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ گھر میں کون سی قیامت برپا ہے۔۔پھر ناہید نے آنسو بہاتے ہوئے بیٹوں کو جمیل کے ۔۔کارنامے۔۔ سے آگاہ کیا۔وہ سنتے ہی جمیل پر ٹوٹ پڑے ۔۔
جمیل اگرچہ عمر میں ان سے چھوٹا تھا مگر صحت اور توانائی میں کہیں زیادہ تھا۔۔اس نے ہر لحاظ اور مروت کو بلائے طاق رکھ کر ان دونوں بھائیوں کی مرمت شروع کر دی۔۔ وہ دو تھے پھر اس وقت جمیل بخار میں بھی پھنک رہا تھا اس لیے اسے بھی خاصی چوٹیں آئیں مگر اس نے جواباً اپنے تایا زاد بھائیوں کی بڑی قابل دید اور قابل داد گت بنائی تھی۔پٹتے پٹتے چھوٹا بھائی موقع سے فرار ہو گیا وہ سیدھا نوازش علی کی دکان پر پہنچا اور باپ کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔۔
دوکان گھر سے زیادہ دور نہیں تھی ٹھیک 15 منٹ کے بعد رانا نوازش علی اپنے مضروب بیٹے کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ۔۔اس وقت تک جمیل نے مار مار کر فیاض احمد کا برا حال کر دیا تھا اور وہ فرش پر نیم بے ہوشی کی حالت میں کراہ رہا تھا۔۔ شوہر پر نظر پڑتے ہی ناہید بیگم نے ماتم کے انداز میں خود کو پیٹنا اور رونا شروع کر دیا۔۔ ریاض احمد مختصراً باپ کو بتا چکا تھا۔۔ اب ناہید بیگم نے ایک ایک کی چار بنا کر شوہر کے سامنے دکھڑا رویا تو نوازش علی کی غیرت کو ابال آگیا۔۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔۔ بے دریغ جمیل پر ٹوٹ پڑا۔۔
لاتوں گھونسوں اور تھپڑوں سے اس نے جمیل کی ہڈی پسلی ایک کر دی۔۔وہ خاموشی سے مار کھا رہا تھا مگر حیرت انگیز طور پر اس نے تایا کے سامنے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔۔ شاید اس کی وجہ ہی یہ رہی ہو کہ تایا نے ہمیشہ اس کی حمایت کی تھی۔۔ وہ تایا کے لیے اپنے دل میں نفرت کی بجائے محبت کے جذبات رکھتا تھا۔۔ جب نوازش علی مار مار کر تھک گیا اور بری طرح ہانپنے لگا تو اس نے ایک ٹھڈا رسید کرتے ہوئے جمیل سے کہا۔
نالائق چلو اٹھو ۔اور اپنی تائی سے معافی مانگو۔۔۔
ایک بد کردار عورت سے معافی مانگنا اس کی غیرت کو گوارا نہ ہوا۔۔ وہ تن کر کھڑا ہو گیا اور خوں خوار نظروں سے ناحید بیگم کو گھورنے لگا۔اس وقت اس کی آنکھوں سے نفرت کی چنگاریاں چھوٹ رہی تھیں وہ ایک ایسی عورت سے کس طرح معافی مانگ سکتا تھا جس کے کرتوت سے وہ واقف ہو گیا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس عورت نے اس کی ماں کو نہایت غلیظ گالیاں بھی دی تھیں۔۔
آپ دیکھ رہے ہیں۔۔ یہ کس طرح مجھے گھور رہا ہے۔ ناہید بیگم نے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔۔ اف اللہ مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔ میں اس کے ساتھ ایک گھر میں نہیں رہ سکتی۔۔ اب ہم دونوں میں سے کوئی ایک یہاں سے جائے گا۔۔
نوازش علی نے تو تحکمانہ انداز میں بھتیجے سے پوچھا۔۔ تم نے معافی نہیں مانگی ابھی تک؟
اب معافی کی کیا ضرورت رہی ہے۔۔ وہ خواب ناک لہجے میں بولا۔۔ فیصلہ تو ہو چکا تایا جان۔۔۔
کیسا فیصلہ؟
جمیل نے نوازش علی کی جانب دیکھتے ہوئے ٹھوس انداز میں کہا۔۔ یہی کہ اب اس گھر میں ہم دونوں میں سے کوئی ایک رہے گا۔ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔۔ اور ظاہر ہے مجھے ہی جانا ہوگا۔۔ آپ اپنی بیگم کو تو جانے نہیں دیں گے۔
تم بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔
نوازش علی نے کچھ کہنا چاہا تو جمیل نے اسے ٹوک دیا ۔۔کوئی فائدہ نہیں ہے تایا جان۔۔ اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔ میں آج تک اپ کا بہت احترام کرتا آیا ہوں مگر آپ نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔۔ مجھے آپ سے ایسی نا انصافی کی توقع نہیں تھی۔۔ کم از کم آپ میری بات تو سنتے۔۔ پھر کوئی فیصلہ کرتے۔۔ اگر میں قصور وار ہوتا تو آپ چاہے میری جان بھی لے لیتے مگر میں اف تک نہ کرتا لیکن اپ نے تو قصہ ہی ختم کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا خدا حافظ۔
پھر وہ واقعی وہاں سے چلا گیا۔۔ جس گھر میں اس کا بچپن گزرا تھا ۔وہ پل بڑھ کر جوان ہوا تھا ۔اس نے اپنی زندگی کے 11 12 سال وہاں گزارے تھے۔ جس گھر کے در و دیوار سے اسے محبت ہو گئی تھی۔ جو اس کے لیے زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں ایک مہربان سائبان ثابت ہوا تھا ۔جمیل نے اس گھر اور گھر کے مکینوں کو چھوڑ دیا۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔
مجھے یہ ساری باتیں خود جمیل اختر نے بتائی تھیں۔۔ زیب النساء نے تفصیلات کو سمیٹتے ہوئے کہا ۔۔کوئی سات ماہ قبل اچانک ہماری اس سے ملاقات ہو گئی تھی۔۔ اس وقت اسے اپنے تایا کا گھر چھوڑے سات سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔۔
میں نے باری باری دونوں میاں بیوی کو دیکھا پھر پوچھا آپ کو یقین ہے کہ جمیل اختر کا قتل رانا نوازش علی ہی نے کیا ہے ِ؟
مجھے تو پکا یقین ہے جناب۔۔ زیب النساء نے جلدی سے کہا۔۔
طالب حسین بولا ۔۔اگر اس نے خود قتل نہیں کیا تو کسی سے کروایا ضرور ہوگا۔۔ لالہ موسیٰ میں جمیل کا کوئی اور دشمن نہیں تھا۔۔
ٹھیک ہے میں نے کہا مقتول جمیل اختر کی لاش لالہ موسیٰ کے سرکاری ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھی ہے۔۔اگرچہ اس کا اصل وارث نوازش علی ہی ہے لیکن اگر وہ کسی طرح بھی اس قتل میں ملوث ثابت ہو جاتا ہے تو پھر لاش اس کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔۔اس صورت میں اپ زمین کی لاش حاصل کرنا چاہیں گے تو ہم اپنے طور پر۔۔۔۔۔
زیب النساء جلدی سے بولی۔۔ نہیں جناب آپ لاش ہمیں دیں گے۔۔ ہم یہاں اپنے قبرستان میں اسے دفن کریں گے۔۔
دو چار رسمی سوالات پوچھنے کے بعد ہم واپس لالہ موسیٰ آگئے۔۔
اگلے روز میں نے اے ایس ائی احمد حسن کو ساتھ لیا اور غلہ منڈی پہنچ گیا۔۔مجھے اس تھانے میں تعینات ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اس لیے جان پہچان بھی ابھی محدود تھی۔ نوازش علی کی دکان ڈھونڈنے میں مجھے زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔۔
دکان خاصی بڑی تھی جس کے سامنے والا حصہ دفتر کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔پچھلے حصے میں اناج کا گودام تھا جہاں فرش سے چھت تک بوریاں ایک دوسرے کے اوپر لدی ہوئی تھیں۔۔
ہم پر نظر پڑتے ہی نوازش علی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔ اس کی عمر کا اندازہ میں نے 50 کے لگ بھگ لگایا۔مگر مجموعی طور پر وہ چاک و چوبند اور فٹ نظر آتا تھا۔میں نے ایک بات خاص طور پر محسوس کی تھی کہ مجھ پر نظر پڑتے ہی پہلے وہ چونکا تھا پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔۔
آئیے آئیے تھانے دار صاحب۔۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا پھر اپنے سامنے خالی کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔ تشریف رکھیں جناب۔۔۔
میں نے کہا ہم تشریف رکھنے نہیں آئے رانا صاحب۔۔ پھر تنقیدی نظروں سے دفتر کا جائزہ لیا۔۔ ایک کونے میں کوئی منشی ٹائپ شخص میز پر مختلف قسم کی فائلیں سجائے حساب کتاب میں مصروف تھا جو ہمیں دیکھتے ہی کام چھوڑ کر بیٹھ گیا ۔۔رانا نوازش علی کی طرف مڑ کر کہا میں آپ سے چند ضروری باتیں کرنے آیا ہوں۔۔
حکم کریں آپ۔۔ میں کیا خدمت کر سکتا ہوں۔۔ وہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا ۔ آپ بیٹھیں تو سہی ۔
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔ وہ ضروری باتیں سب کے سامنے نہیں ہو سکتیں ۔۔
وہ میری بات کا مطلب سمجھ گیا۔۔ فورا بولا ۔۔اچھا اچھا ۔۔ٹھیک ہے۔ ہم اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔۔
دفتر سے ملحقہ ایک اور کمرہ تھا ۔۔میں نے اے ایس ائی کو دفتر میں ہی چھوڑا اور نوازش علی کے ساتھ اندرونی کمرے میں آگیا۔۔ہم صوفوں پر بیٹھ چکے تو نوازش علی نے پوچھا ملک صاحب پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ ٹھنڈا پئیں گے یا گرم۔۔
کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں نے سخت لہجے میں کہا۔۔ اس وقت میں آن ڈیوٹی ہوں۔۔
وہ بجھ کر رہ گیا پھر بولا۔۔ جیسے آپ کی مرضی۔۔ خیر آپ بتائیں۔۔ کس سلسلے میں میرے پاس تشریف لائے ہیں؟
میں نے کہا۔۔ آپ جمیل اختر کو تو جانتے ہوں گے؟
کون جمیل اختر ؟
اس کی آنکھوں میں ایک سایہ سا لہرا کر گزر گیا ۔میں نے کہا وہی جمیل اختر جو آپ کے چھوٹے بھائی امانت علی کی اکلوتی اولاد تھا اور آپ اسے کڑیانوالا سے لے کر اپنے گھر آئے تھے؟ کچھ یاد آیا؟
وہ سنبھل کر بیٹھ گیا پھر بولا ۔۔ہاں وہ میرا بھتیجا ہے لیکن بہت جذباتی اور بے وقوف ہے۔۔
میں نے سنا ہے۔۔ وہ کچھ عرصہ قبل گھر چھوڑ کر کہیں چلا گیا تھا؟
ہاں ہاں۔۔ میں نے اس کی تلاش کرنے کی بھی بہت اس کی مگر کوئی سراغ نہ ملا۔۔
اس کے لہجے کا کھوکھلا پن بتا رہا تھا کہ وہ صاف جھوٹ بول رہا تھا۔۔ میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔۔ آپ تو اس کی گمشدگی سے بہت پریشان ہوئے ہوں گے۔۔
کیا پوچھتے ہیں ملک صاحب۔۔ میں نے جمیل کو ڈھونڈنے کے لیے کون کون سا طریقہ اختیار نہیں کیا۔۔ پھر وہ افسوسناک انداز میں گردن ہلانے لگا۔۔
میں نے بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔۔ آپ نے مجھے جو کچھ بتایا ہے اس میں کوئی ہیر پھیر تو نہیں ہے؟
کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟۔۔ وہ ناگواری سے بولا۔۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں رانا صاحب ۔۔۔میں نے اس سے ٹٹولتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ گزشتہ اتوار چار دسمبر کو دوپہر کے بعد جمیل اختر آپ سے ملنے آیا تھا۔۔
وہ تیز لہجے میں بولا۔۔ آپ کو کسی نے غلط اطلاع دی ہے۔۔ میں نے تو جمیل کو آٹھ سال سے دیکھا بھی نہیں۔۔۔
میں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا اور۔۔۔۔ اسی رات یعنی چار دسمبر کو کسی نے جمیل اختر کو قتل کر کے ریلوے لائن کے پاس پھینک دیا تھا ۔۔۔اس وقت اس کی لاش سرکاری ہسپتال میں رکھی ہے۔۔
اس کے چہرے پر ہلکا سا رنگ آ کر چلا گیا پلکیں جھپکائے بغیر بولا۔۔ قاتل کو گرفتار کر لیا آپ نے؟
اسی لیے ہم آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں۔۔ میں نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔
جی میرا قاتل سے کیا تعلق واسطہ ؟
آپ سے زیادہ واسطہ اور کس کا ہو سکتا ہے رانا صاحب۔۔ میں نے کہا۔۔۔ آپ نے خود اسے قتل کیا ہے یا کسی اور سے کروایا ہے۔۔۔ یہ تو آپ ہی بتائیں گے۔۔
آپ مجھ پر قتل کا الزام لگا رہے ہیں۔۔۔؟
اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے میں نے بہت سا مواد جمع کر لیا ہے ۔۔۔آپ شرافت سے گرفتاری دے رہے ہیں یا ہمیں اپنا طریقہ اپنانا پڑے گا۔۔
کیا ثبوت ہے آپ کے پاس؟ وہ غصے سے بولا۔۔ آپ کو کسی نے میرے خلاف غلط اطلاع دی ہے؟
میں نے کہا حقیقت آپ کو بھی معلوم ہےاور میں بھی اپنی تفتیش سے سمجھ چکا ہوں ۔بس چند کڑیاں باقی ہیں ۔۔وہ آپ ملا دیں ۔۔اپ کی اطلاع کے لیے بتا دوں کہ زیب النساء نے مجھے سارے حالات سے آگاہ کر دیا ہے۔۔ میں کل ہی جہلم اس سے مل کر آیا ہوں۔۔
اچھا وہ لالچی عورت۔۔ اس نے حقارت سے ایک طرف تھوک دیا اس نے آپ کو میرے خلاف بھڑکایا ہے؟
میں کسی کے بھڑکانے میں نہیں آتا ہوں۔۔ میں نے ٹھوس لہجے میں کہا۔۔اپنی تفتیش پر بھروسہ کرتا ہوں اور میری تفتیش مجھے سمجھا رہی ہے کہ قاتل آپ کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔۔
پھر میں نے اے ایس آئی کو اندر بلا لیا وہ اندر آیا تو میں نے پوچھا ۔۔باہر کیا پوزیشن ہے احمد حسن ؟
تھوڑی ہلچل ہے ملک صاحب ۔۔
میں نے اسے ہلچل کی وضاحت کرنے کو کہا ۔۔اس نے بتایا ملک صاحب آپ کے اندر آتے ہی وہ منشی ٹائپ شخص اٹھ کر باہر چلا گیا تھا پھر اس نے ٹرکوں کے پاس کھڑے ایک تند و مند شخص کے کان میں کچھ کہا۔۔ بات سننے کے بعد اس شخص نے مشکوک نظروں سے اندر دفتر میں مجھے دیکھا۔پھر وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔ منشی واپس آیا اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر کام میں مصروف ہو گیا۔۔ کچھ دیر بعد باقی دو افراد بھی اٹھ کر دفتر سے نکل گئے ان کا اندازہ ایسا تھا جیسے کہی نزدیک ہی ٹہلنے گئے ہوں۔
اس کی بات ختم ہوئی تو میں نے کہا۔۔ یہ اپنے رانا صاحب تعاون کے لیے تیار نہیں ہیں۔۔ ان کو تھانے لے جانا پڑے گا۔۔
پھر اس نے مجھے ایک تگڑی رشوت کی پیشکش کی۔۔ میرا شک یقین میں بدل گیا کہ جمیل اختر کو اسی نے قتل کروایا تھا۔۔ میں نے اے ایس آئی کو حکم دیا۔۔ گرفتار کر لو اسے۔۔
اے ایس آئی ہتھکڑی لے کر نوازش علی کی جانب بڑھا تو اس نے رشوت کی رقم دگنی کرتے ہوئے کہا ۔اگر یہ بھی کم ہو تو میں۔۔۔۔۔۔
میں نے کڑک کر کہا تم نے سنا نہیں احمد حسن فورا گرفتار کر لو اسے۔۔
نوازش علی کو اپنی دولت پر بڑا مان تھا۔۔ میرے لہجے کی سختی برقرار رہی تو اس کا سارا مان خاک میں مل گیا۔اس کے چہرے پر شدت توہین کی سرخی نمودار ہوئی۔پھر وہ مجھ پر اپنے تعلقات کا روپ جمانے کے لیے اونچی اونچی باتیں کرنے لگا۔
اے ایس آئی نے میرے حکم کی تعمیل میں نوازش علی کو آہنی زیور پہنا دیا تو پہلی مرتبہ مجھے اس کے چہرے پر فکر کے سائے نظر ائے۔۔وہ میرے گھٹنوں کو چھو کر رو دینے والے انداز میں بولا ملک صاحب اس غلہ منڈی میں میری بڑی عزت ہے۔لوگ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی دیکھ کر کیا سوچیں گے۔میں تو جیتے جی مارا جاؤں گا۔۔ نہ مر سکا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا ۔میں آپ کے ساتھ تھانے چلنے کو تیار ہوں مگر ہتھکڑی کھول دیں۔۔ بس میرا آپ سے اتنا سا سوال ہے۔۔
اے ایس آئی میرے اشارے پر منشی کو گرفتار کرنے بیرونی دفتر میں جا چکا تھا۔۔ منشی کی ذات بھی شک سے پاک نہیں رہی تھی۔۔ اے ایس آئی نے اس کی جس حرکت کا ذکر کیا تھا میری نظر میں اس کی بڑی اہمیت تھی۔۔رانا نوازش علی کی حالت سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس وقت اگر اس کے سامنے مناسب چارہ پھینکا جائے تو وہ بہ آسانی نگل لے گا۔۔اور بہت سی کام کی باتیں اگل دے گا۔میں نے ایک آزمودہ حربہ استعمال کرتے ہوئے کہا رانا صاحب میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ جمیل اختر آپ کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا۔۔اس لیے اب بھی آپ کے پاس وقت ہے۔۔ آپ مجھے حقیقت سے اگاہ کر کے اپنی پوزیشن صاف کر سکتے ہیں۔۔۔
وہ کیسے ؟ اس نے چونک کر حوصلہ افزا نظروں سے مجھے دیکھا ۔۔
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ اصل قاتل کی نشاندہی کر کے اپنے لیے سلطانی گواہ بننے کی راہ تو ہموار کر سکتے ہیں۔۔
خدا کی قسم آپ یقین کریں۔۔ میں قاتل کے بارے میں کچھ نہیں۔۔۔۔۔
میں نے اسے ٹوک دیا ۔۔شکار چارے پر منہ مارنے کو تیار تھا اس لیے میں نے ڈھیل دیتے ہوئے کہا مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ جمیل اختر کے قاتل سے واقف نہیں ہیں۔۔ میں نے دانستہ جھوٹ بول کر اس کا اعتماد حاصل کرنے اور اسے مزید گھسنے کی کوشش کی۔۔ لیکن آپ مجھے یہ تو بتا سکتے ہیں کہ چار دسمبر کو بعد از دوپہر کیا واقعات پیش آئے تھے؟
میں نے باہر دفتر میں آ کر اے ایس آئی سے کہا کہ وہ منشی کو لے کر تھانے چلا جائے۔۔ مجھے ابھی تھوڑی دیر یہاں رکنا پڑے گا اے ایس آئی فورآ وہاں سے روانہ ہو گیا۔۔ میں اندر آ کر رانا کے پاس بیٹھ گیا۔۔
اس نے آنکھیں کھول کر اداس نظروں سے مجھے دیکھا میں نے کہا شروع ہو جائیں رانا صاحب۔۔ وقت بہت کم ہے ۔۔میں تھانے میں بہت ضروری کام چھوڑ کر آیا ہوں۔۔ ایک لمحے کے توقف سے میں نے کہا میرا تو خیال ہے تھانے ہی چلتے ہیں۔۔ وہاں زیادہ مناسب طور پر بات ہو سکے گی۔۔
نہیں نہیں۔۔ میں آپ کو سب کچھ یہیں بتا دوں گا۔۔ وہ پہلو بدل کر ہتھکڑی کی طرف اشارہ کر کے بولا۔۔ آپ اسے تو کھول دیں ملک صاحب ۔۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی بات نہیں چھپاؤں گا۔۔
میں نے اپنی ذمہ داری پر اس کی فرمائش پوری کر دی۔وہ کلائیوں کو اچھی طرح مسلنے لگا ۔۔
چار دسمبر کو اتوار تھا۔۔ اتوار کو ہم چھٹی کرتے ہیں اس لیے دکان بند ہوتی ہے۔۔ نواز علی نے معلومات اگلتے ہوئے بتایا حسب معمول اس روز بھی دکان بند تھی لیکن دوپہر کے بعد مجھے مجبوراً دکان کھولنا پڑی۔۔کوٹلی آزاد کشمیر سے ایک پارٹی کا فون آیا تھا کہ انہیں فوری طور پر دو ٹرک گندم چاہیے۔۔اس نے سانس لینے کے لیے ایک مختصر وقفہ کیا پھر بات جاری رکھی کوئی ساڑھے تین بجے کے قریب جمیل اختر کو میں اپنی دکان پر دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔میں تقریباً اسے آٹھ سال بعد دیکھ رہا تھا۔اس نے مجھے وہ تمام باتیں بتائیں جو اس کی خالہ زیب النساء نے میرے خلاف اس کے ذہن میں بھر دی تھیں ۔۔بلکہ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر میں سیدھے اور شریفانہ طریقے سے اس کا حق اس کے حوالے نہیں کروں گا تو وہ عدالت سے رجوع کرے گا۔۔
میں نے اس پر بھی سخت رویہ اختیار نہیں کیا اور کہا لگتا ہے تمہاری ماسی کوئی گہری سازش کر رہی ہے اور گاؤں والوں کو بھی اس نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔۔
اتنے سارے لوگ جھوٹ نہیں بول سکتے وہ پاؤں پٹخ کر بولا میں اب یہاں سے سیدھا پٹواری کے پاس جاؤں گا پھر تحصیلدار کے پاس۔۔۔ اور جہاں جہاں بھی ضروری ہوا جاؤں گا مگر آپ کی باتوں میں نہیں آؤں گا۔۔ اب یہ تو مجھے پتہ چل گیا ہے کہ آپ سیدھے طریقے سے میرا حق واپس نہیں کریں گے۔۔
اتنا کہہ کر وہ جانے لگا تو میں نے آواز دے کر اسے روک لیا اور کہا تم ایک پڑھے لکھے اور سمجھدار انسان ہو۔میں اپنی بات کی سچائی کے لیے تمہیں وہ تمام کاغذات اور دستاویزات دکھا سکتا ہوں جو مجھے کڑیانوالا کی زمینوں کا مالک ثابت کرتی ہیں ۔۔پھر تو تمہارا شک دور ہو جائے گا نا؟
وہ سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا ہاں دکھائیں مجھے وہ دستاویزات ۔۔ وہ دیکھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کروں گا۔۔
میں نے کہا تم آرام سے دفتر میں بیٹھو۔۔ ذرا یہ کام ختم ہو جائے پھر میں تمہیں اپنے سات گھر لے چلوں گا اور تمام دستاویزات نکال کر تمہارے سامنے رکھ دوں گا۔۔
میں اس گھر میں ہرگز قدم نہیں رکھوں گا۔۔ وہ بھڑک کر بولا آپ شاید بھول گئے ہوں مگر میں ماضی کا وہ شرمناک واقعہ نہیں بھول سکتا۔۔ نہیں بھول سکتا میں وہ دن۔۔۔
وہ خاصا جذباتی ہو رہا تھا۔۔ میں نے بات بڑھانا مناسب نہیں سمجھا اور نرم لہجے میں کہا ٹھیک ہے۔ تم وہاں نہیں جانا مگر یہاں دفتر میں تو آرام سے بیٹھو۔۔ ٹرک روانہ ہو جائیں تو میں گھر جا کر وہ کاغذات لے آؤں گا۔ اب تو خوش ہو؟
اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔میں باہر جا کر کام کی نگرانی کرنے لگا ۔۔مغرب کی آذان تک ہم کام سے فارغ ہو گئے تو میں کاغذات وغیرہ لینے گھر چلا گیا مگر جب میں واپس آیا تو جمیل اختر وہاں سے جا چکا تھا۔۔میرے بیٹے فیاض احمد نے بتایا کہ وہ دھمکی دے کر گیا ہے کہ عدالت ہی سے رجوع کرے گا۔۔
رانا نوازش علی بات ختم کر چکا تو میں نے کہا جب وہ دستاویزات دیکھنے پر آمادہ ہو گیا تھا تو پھر چلا کیوں گیا؟
رب جانے ملک صاحب! نوازش علی نے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔۔لگتا ہے زیب النساء نے اسے میرے خلاف کرنے کے لیے کوئی ایسا تعویز کھول کر پلا دیا تھا کہ اس کا دماغ ہی الٹ گیا تھا ۔۔مجھے تو وہ کوئی پاگل ہی نظر آرہا تھا۔۔
مجھے دال میں کچھ کالا محسوس ہوا۔۔ میں نے پوچھا رانا صاحب جب آپ کاغذات لینے گھر گئے تو دکان میں کون کون تھا؟
اللہ آپ کا بھلا کرے۔۔ ایک تو میرا بڑا بیٹا فیاض احمد تھا اور منشی تھا۔۔۔۔۔۔ اور دو چار پلے دار مزدور تھے۔۔
میں نے کہا رانا صاحب وہ چھٹی کا دن تھا اور اپ نے ہنگامی حالات کے تحت دکان کھولی تھی۔۔ منشی اس دن کیسے وہاں پہنچ گیا؟
منشی کا گھر ادھر منڈی کے نزدیک ہی ہے۔۔ نوازش علی نے بتایا میں نے آتے ہوئے راستے میں اسے بھی لے لیا تھا ۔۔بانڈی وغیرہ تو ادھر منڈی میں ہی پھٹوں پر بیٹھے مل جاتے ہیں ۔۔ویسے میں نے احتیاطاً اپنے گھریلو ملازم شیرو کو بھی ساتھ لے لیا تھا تاکہ کوئی دشواری پیش نہ ائے۔۔
میں نے پوچھا شیرو آپ کے گھر میں کس قسم کی ملازمت کرتا ہے ؟
وہ جی میرا ڈرائیور ہے۔۔ اس کے علاوہ فارغ وقت میں گھر کے اوپری کام بھی کر دیتا ہے۔۔
رانا صاحب۔ آپ نے بتایا ہے کہ جب آپ دستاویزات وغیرہ لے کر واپس دکان پر پہنچے تو جمیل وہاں سے جا چکا تھا۔۔ اس وقت دکان میں اور کون کون تھا۔؟
یہ سوال آپ پہلے بھی پوچھ چکے ہیں۔۔ نوازش علی نے پہلو بدلتے ہوئے جواب دیا۔۔ آپ کو جواب دینے میں کوئی اعتراض ہے؟
اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔ میں نے کہا پہلے والے سوال اور اس سوال میں تھوڑا فرق ہے۔۔ پہلے میں نے پوچھا تھا گھر جاتے وقت دکان میں کون کون تھا ۔۔اب پوچھ رہا ہوں جب آپ کی واپسی ہوئی تو دکان میں کون موجود تھا۔۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے جواب دیا پانڈی تو اس وقت تک رخصت ہو چکے تھے ۔۔البتہ فیاض احمد۔۔ منشی اور شیرو وہیں پر موجود تھے ۔۔۔
میں نے پوچھا منشی تو اس وقت تھانے میں ہیں ۔۔آپ یہ بتائیں کہ چار دسمبر کو لوڈنگ کرنے والے مزدوروں اور آپ کے ڈرائیور شیرو سے ابھی میں مل سکتا ہوں ۔۔۔۔اور وہ آپ کا صاحبزادہ فیاض احمد کدھر ہے؟
لوڈنگ والے بندے تو ہم نے اپنے کام چلانے کے لیے ادھر ادھر سے پکڑے تھے۔۔ وہ ہمارے باقاعدہ ملازم نہیں تھے۔اس لیے ان سے ملاقات تو ممکن نہیں ہو سکتی اور فیاض احمد اس وقت گھر پر ہوگا۔وہ کل ہی لاہور سے آیا ہے دونوں بھائی ادھر بڑے کالج میں پڑھتے ہیں اور ہوسٹل میں رہتے ہیں ۔۔ایک لمحے کو رک کر اس نے دفتر کے دروازے سے باہر جھانکا پھر بولا شیرو ابھی تھوڑی دیر پہلے تو یہیں تھا۔۔ اب نظر نہیں آرہا اپ ٹھہریں میں اسے ڈھونڈواتا ہوں۔
اپنی بات ختم کر کے اس نے دفتر کے باہر جا کر ایک مزدور کو کچھ ہدایات دیں پھر اندر آگیا۔۔ اس نے مذکورہ مزدور سے جو بات کی تھی وہ میں نے بھی سنی تھی۔۔ اس نے واقعی شیرو کو تلاش کرنے کی بات کی تھی۔۔ تھوڑی دیر میں اس مزدور نے آ کر بتایا کہ شیرو آس پاس کہیں بھی نہیں ہے۔۔
ہو سکتا ہے گھر کی طرف چلا گیا ہو! نوازش علی نے قیاس آرائی کی۔۔
نوازش کے بیان کے مطابق جمیل اختر اس کا انتظار کیے بغیر وہاں سے چلا گیا تھا تو اس وقت دکان پر اہم افراد میں منشی شیرو اور نوازش کا بیٹا فیاض احمد موجود تھے۔مجھے یقین تھا کہ یہ تینوں افراد جمیل اختر کے قتل کا معمہ حل کرنے میں بہت کام کے بندے ثابت ہو سکتے تھے اور اس کیس میں خاص روشنی ڈال سکتے تھے۔۔میں نے تینوں کو مشتبہ افراد کی فہرست میں سب سے اوپر رکھ لیا اور رانا نوازش علی سے کہا۔۔
رانا صاحب زمینوں کی وہ مالکانہ دستاویزات میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔۔
اس نے کہا ۔۔وہ کاغذات یہاں نہیں ہیں ۔۔گھر پر رکھے ہوئے ہیں ۔ اپ تو جانتے ہیں ایسی اہم چیزوں کو تو دفتروں میں نہیں رکھا جا سکتا نا۔۔ یہاں تو ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔۔
کوئی بات نہیں۔۔ میں آپ کے ساتھ گھر چلتا ہوں۔۔ میں نے کہا اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔۔۔۔۔؟
مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے جناب ۔۔چلیں ابھی چلتے ہیں۔۔ پھر وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔
زمین کی ملکیت کے کاغذات دیکھنے کی بات میں نے ایسے ہی کر دی تھی۔۔ دراصل میں اس کے گھر اس لیے جانا چاہتا تھا کہ شیرو وہیں مل سکتا تھا اور نوازش علی یہ تو بتا ہی چکا تھا کہ اس کا بیٹا فیاض احمد لاہور سے آیا ہوا ہے اور اس وقت گھر پر ہی ہے۔۔ایک مشکوک فرد منشی اس وقت تھانے میں تھا ۔۔باقی دونوں افراد کی ضرورت تھی اور یہی ضرورت مجھے رانا نوازش علی کے گھر جانے پر اکسا رہی تھی۔۔
ہم پیدل ہی اس کے گھر پہنچ گئے اور اس نے ایک فائل میری طرف بڑھا دی ۔۔میں نے فائل کھول کر دیکھنا شروع کر دیا
میں نے فائل واپس کرتے ہوئے نوازش علی کو ایسا تاثر دیا جیسے میں اس کی طرف سے مطمئن ہو گیا ہوں۔۔یہ بہت ضروری تھا کیونکہ ابھی مجھے اس کے فرزند ارجمند پر ہاتھ ڈالنا تھا۔میں دوستانہ لہجے میں بولا ۔۔رانا صاحب آپ نے بتایا تھا کہ آپ کا بیٹا فیاض احمد اج کل آیا ہوا ہے۔۔وہ ابھی تک نظر نہیں آیا ۔۔کیا گھر میں نہیں ہے ؟
نظر تو مجھے بھی نہیں آیا۔۔ اس نے کہا ۔۔ٹھہریں میں اس کی ماں سے پوچھتا ہوں۔۔؟
وہ اٹھ کر گھر کے اندرونی حصے میں گیا ۔تھوڑی دیر بعد واپس آ کر بتایا وہ کچھ دیر پہلے لاہور چلا گیا ہے۔۔۔
مجھے اچانک خطرے کی بو محسوس ہوئی۔۔ میں نے تیز لہجے میں پوچھا۔۔ آپ نے تو بتایا تھا کہ وہ کل ہی لاہور سے آیا ہے پھر اتنی جلدی واپس کیسے چلا گیا اور وہ بھی آپ کو بتائے بغیر بات کچھ میری سمجھ میں نہیں آئی ۔۔۔۔۔
بات تو میری سمجھ میں بھی نہیں آئی ملک صاحب۔۔ وہ مضطرب نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔۔ میری بیوی نے بتایا ہے کہ کوئی ضروری فون لاہور سے آیا تھا اس لیے اسے جانا پڑ گیا۔۔
میں سمجھ گیا کہ کوئی گڑ بڑ ہو چکی ہے میرا ذہن بہت تیزی سے سوچ رہا تھا۔۔ میں نے اچانک پوچھا۔۔ فیاض احمد لاہور میں کس کالج میں پڑھتا ہے۔۔۔؟
نوازش علی نے مجھے اس کے کالج کا نام اور کلاس وغیرہ کے بارے میں بتایا۔۔میں نے پوچھا۔۔ آپ کا ڈرائیور شیرو کدھر ہے؟
ابھی ادھر صحن میں تھا۔۔۔
میں اسے تھانے لے کر جا رہا ہوں میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔ اس کا بیان بھی بہت ضروری ہے۔۔ بلائیں اسے
نوازش علی نے پوچھا۔۔ اس کے بیان کی کیا ضرورت ہے۔؟
بڑی سخت ضرورت ہے رانا صاحب !میں نے قطعیت سے کہا۔منشی کے ساتھ ساتھ اس سے بھی پوچھ گچھ ہوگی۔۔ ان لوگوں نے آخری مرتبہ مقتول کو زندہ دیکھا تھا۔۔ ویسے آپ پریشان نہ ہوں۔۔ اگر انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تو ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔۔ بس معمول کے چند سوالات کرنا ہیں جیسا کہ آپ سے کیے ہیں ۔
میں نے شیرو کو ساتھ لیا اور تھانے واپس آ گیا ۔۔اسے میں نے گرفتار نہیں کیا تھا اس لیے وہ خاصا مطمئن نظر نظر آ رہا تھا ۔اس کے اطمینان کی ایک وجہ رانا نوازش علی کی وہ تسلیاں بھی تھیں جو اس نے وقت رخصت اسے دی تھیں ۔۔تھانے پہنچتے ہی میں نے شیرو کو ایک خوفناک حوالدار کے حوالے کرتے ہوئے کہا ۔۔
بہادر علی اسے ذرا تھانے کے آداب تو سکھاؤ۔۔۔۔
شیرو نے تھوڑا پس و پیش کیا مگر بہادر علی اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گیا ۔۔اس کے جانے ہی میں نے ایک کانسٹیبل کو بھیج کر منشی کو اپنے کمرے میں بلا لیا ۔۔منشی کمرے میں داخل ہوا تو اس کے پیچھے پیچھے اے ایس آئی احمد حسن بھی آ گیا ۔۔منشی کی حالت کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ اب تک اس کی خاصی خاطر مدارات ہو چکی تھی ۔۔۔
وہ سر جھکا کر میرے سامنے کھڑا ہو گیا تو میں نے اے ایس آئی سے پوچھا احمد حسن تم نے اس کو ہاتھ تو نہیں لگایا ۔۔
نہ ملک صاحب! میں نے تو اس سے بات تک نہیں کی۔کوئی سوال نہیں پوچھا وہ منشی کی جانب دیکھتے ہوئے بولا ۔۔آپ تصدیق کر لیں جناب!
منشی نے اے ایس آئی کے جواب پر شکایتی نظروں سے مجھے دیکھا اور رونا شروع کر دیا ۔۔روتے ہوئے اس نے مجھے بتایا ۔۔تھانے دار صاحب انھوں نے مجھے بہت مارا ہے ۔۔
میں نے تھانے دارانہ لہجے میں پوچھا صبح دکان پر تم نے شیرو کے کان میں کیا بات کہی تھی؟
شیرو کا نام سن کر وہ چونکا۔۔ اوہ جناب وہ تو۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔۔
اے ایس ائی نے اس کے کمر پر لات رسید کی اوئے کیا وہ تو ۔وہ تو لگا رکھی ہے۔۔۔ تم نے سنا نہیں ملک صاحب کیا پوچھ رہے۔ ہیں۔۔
ملک صاحب! وہ گڑگڑاتے ہوئے بولا۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔میں بے قصور ہوں۔
اے ایس ائی نے خوں خوار نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔ملک صاحب یہ ایسے کچھ نہیں بتائے گا۔۔ اسے میرے حوالے کر دیں۔۔ میں اس کی زبان خود کھلواؤں گا۔۔
چھوٹے رانا صاحب مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔ انہوں نے سختی سے منع کر رکھا تھا ۔۔وہ منت آمیز لہجے میں بولا۔۔
اوئے کون چھوٹے رانا صاحب ۔میں نے سخت لہجے میں پوچھا۔ انہوں نے کس بات سے تمہیں منع کر رکھا ہے؟
وہ میری آنکھوں میں تشدد کے لہراتے شاید دیکھ کر لرز کر رہ گیا۔۔میری جان کا سوال ہے جناب ۔۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔
بچے تمہارے تو اب یتیم ہو کر ہی رہیں گے منشی ۔۔اے ایس آئی نے قاتلانہ انداز میں اسے گھورا یہاں سے زندہ جاؤ تو رانا کے ہتھے چڑھو گے نا۔۔ہم تو مار کر یہیں تھانے کے احاطے میں دفن کر دیں گے۔۔نہ کوئی قبر بنے گی نہ پتہ نشان۔۔۔
ہائے وے میریا سونیا ربا۔۔میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔وہ چھت کی جانب دیکھتے ہوئے فریاد کناں ہوا۔
میں نے ایک فوری خیال کے تحت اے ایس آئی کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔۔ جب وہ کمرے سے نکل گیا تو میں نے منشی سے کہا بیٹھ جاؤ۔۔۔
وہ میرے بدلتے ہوئے روے یہ پر ہکا بکا ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔میں نے اگے کو جھکتے ہوئے ٹھوس لہجے میں کہا۔۔ منشی میں جانتا ہوں تم ایک شریف آدمی ہو اور تم نے کوئی جرم نہیں کیا مگر جرم کی پردہ پوشی کرنا بھی ایک سنگین جرم ہوتا ہے۔۔میں نے ایک لمحے کو توقف کر کے اس کی آنکھوں میں اپنی بات کا رد عمل تلاش کرنے کی کوشش کی پھر اندھیرے میں ایک تیر چلا دیا۔منشی میں نے ایک پولیس پارٹی رانا فیاض احمد کی گرفتاری کے لیے لاہور روانہ کر دی ہے اور شیرو بھی اس وقت حوالات میں بند ہے ۔۔شیرو نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے کہ چار دسمبر اتوار کی شام دکان میں کیا واقعات پیش آئے تھے۔۔ اب تم مزید جھوٹ بولو گے تو خود کو جیل جانے سے نہیں بچا سکو گے۔۔اور رانا صاحب کی دھمکی کی تم پرواہ نہ کرو۔۔ میں اسے تمہارے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گا۔۔ سارا الزام شیرو پر ڈال دوں گا۔۔ اب سوچ لو سچ بول کر جان چھڑانا چاہتے ہو یا ساری عمر جیل کی اصلاحوں کے پیچھے سڑنا چاہتے ہو؟
اپنی بات ختم کر کے میں اسے گھورنے لگا۔۔ میرا تیر نشانے پر لگا تھا۔۔ وہ میرے جھانسے میں آگیا۔۔ پھر تھوک نگل کر بولا ۔۔جب شیرو نے سب کچھ اگل دیا ہے تو باقی کیا بچا ہے۔۔
اس نے ٹھہر ٹھہر کر ساری کتھا سنا دی ۔۔۔
میں نے حوالدار کو اپنے کمرے میں بلا کر کہا منشی کو شیرو والے حوالات میں بند کر دو اور شیرو کو میرے پاس لے اؤ۔۔حوالدار اسے لے کر جانے لگا تو میں نے پیچھے سے کہا ۔۔منشی کو اب بالکل ہاتھ نہیں لگانا۔۔ منشی مطمئن ہو کر اس کے ساتھ چلا گیا۔۔
تھوڑی دیر بعد حوالدار شیرو کو لے کر آگیا۔۔ اس کے ساتھ ہی اے ایس آئی احمد حسن بھی آگیا۔۔ شیرو کا حلیہ بتا رہا تھا کہ اس کی خاصی۔۔۔۔۔۔ گت بنائی گئی تھی۔۔وہ میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔۔ اس کے ایک طرف حوالدار بہادر علی اور دوسری جانب احمد حسن جم کر کھڑے ہو گئے۔۔ میں کچھ دیر تک خاموش نظروں سے شیروں کو گھورتا رہا۔۔میں نے حوالدار اور اے ایس آئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔
میں آپ لوگوں کو ایک مختصر سی کہانی سناتا ہوں جس کا انجام آپ شیرو کی زبانی سنیں گے۔۔۔
وہ دونوں ہمہ تن گوش ہو گئے مگر شیرو بے چینی سے میری طرف دیکھنے لگا۔۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔میں نے منشی کی سنائی ہوئی کہانی کی روشنی میں کہنا شروع کیا۔۔۔
چار دسمبر بروز اتوار چھٹی کا دن غروب آفتاب کے بعد گلہ منڈی کی ایک دکان پر چار افراد ایک شخص کا انتظار کر رہے تھے جو کسی قسم کی کوئی دستاویزات گھر سے لانے کے لیے گیا تھا۔۔۔شاید میں نے کچھ غلط کہہ دیا۔۔۔دراصل ایک شخص مہو انتظار تھا جو مذکورہ دن سہہ پہر کو وہاں پہنچا تھا۔۔پھر اچانک منتظر شخص اور دکان کے مالک کے بیٹے میں کسی بات پر تلخ کلامی شروع ہو گئی جو ہاتھا پائی تک جا پہنچی ۔۔واضح رہے کہ وہاں موجود چار افراد میں ایک شخص یہی دکاندار کا بیٹا تھا اور جس سے اس کی لڑائی ہو رہی تھی وہ کسی دوسرے شہر سے وہاں پہنچا تھا ۔۔ان کی گالم گفتار سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی درینہ چپقلش تھی۔باقی دو افراد میں سے ایک دکان کا منشی اور دوسرا مالک دکان کا ملازم خاص تھا۔۔۔
میں نے لمحات تھی توقف کر کے شیرو کے چہرے کا جائزہ لیا۔۔وہاں مجھے تکفر کی گہری گھٹا چھائی ہوئی نظر ائی۔میں نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا پھر ایک موقع پر بیرون شہر سے آنے والا شخص دکاندار کے بیٹے پر بھاری پڑنے لگا۔۔اس صورتحال کو دیکھ کر ہٹے کٹے ملازم خاص کے حق نمک نے جوش مارا اور وہ اپنے مالک کی مدد کو لپکا۔۔۔اس نے اپنے مالک کے اوپر چھائے ہوئے شخص کی گردن اپنے دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر دبانا شروع کر دی۔۔شاید کوئی احساس رگ دب گئی کہ اس شخص کی گردن ایک جانب کو ڈھلک گئی۔۔بظاہر تو یہی لگتا تھا کہ وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ابھی تک مالک دکان واپس نہیں آیا تھا۔ان تینوں افراد نے کسی نہ کسی طرح بے ہوش ہونے والے شخص کو گھسیٹ کر گودام میں رکھی ہوئی اناج کی بوریوں کے پیچھے چھپا دیا ۔۔جب وہ اس کام سے فارغ ہو گئے تو مالک دکان بھی وہاں پہنچ گیا۔۔ اتنی دیر میں دکاندار کا بیٹا ان دونوں کو اپنی مرضی کا بیان رٹوا چکا تھا۔۔اور دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے اس کی مرضی کے خلاف ایک لفظ بھی زبان سے نکالا تو ان کی خیر نہیں ہوگی۔۔
میں نے بات ختم کر کے شیرو کی جانب انگلی اٹھاتے ہوئے کہا باقی کی کہانی یہ سنائے گا۔
میں۔۔۔۔۔ میں مجھے کچھ پتہ نہیں میں کچھ نہیں جانتا۔۔ وہ قسطوں میں ہلکاتے ہوئے بولا ۔۔خوف نے اس کے پورے وجود کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔۔ اس کا انگ انگ خزاں رسیدہ پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔۔
اس کو چیرا لگاتے ہیں جنابِ۔۔ حوالدار بہادر علی نے خوفناک انداز میں کہا۔۔ پھر اس کا ایک ایک اعضا پکار اٹھے گا ۔۔ہمیں کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔۔
وہ خدا اور رسول کی قسمیں کھانے لگا اور رو رو کر مجھے یقین دلانے کی کوشش کرنے لگا کہ اسے کچھ معلوم نہیں تھا ۔۔میں نے اس کے مگرمچھ کے آنسوؤں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سرسراتی ہوئی آواز میں کہا۔حرام کے تخم ۔مجھے سب پتہ چل چکا ہے۔تمہارے باپ منشی نے ہمیں سارا واقعہ سنا دیا ہے میں نے تمہاری ماں کے یار رانا فیاض کی گرفتاری کے لیے پولیس پارٹی بھی روانہ کر دی ہے۔۔اب تم سیدھے سیدھے پھانسی کے تختے پر جاؤ گے ۔۔اب بھی وقت ہے مجھے بتا دو۔۔ بے ہوش ہونے کے بعد جمیل اختر کے ساتھ کیا کیا گیا تھا اور وہ ادھر ریلوے لائن کے پاس کس طرح پہنچا؟ پھر میں نے قدر نرم لہجے میں کہا تم پولیس کے رگڑے میں آ چکے ہو۔۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم نے سچ بولا تو میں تمہیں بچانے کی پوری کوشش کروں گا۔۔
وہ عجیب لہجے میں بولا۔۔ آپ مجھے سوچنے کا موقع دیں۔۔
اوئے سوچنا کیا ہے لکڑی کے باندر۔۔ جو سچ ہے ابھی بتا دو۔۔ میں نے اسے جھڑکا۔۔
حوالدار نے کہا ملک صاحب لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔۔ یہ سوچنے کی مہلت حاصل کر کے کوئی نئی کہانی گھڑنا چاہتا ہے۔۔ شاید اسے اپنے ولی نعمت کا انتظار ہے۔۔ میں تو کہتا ہوں آپ اسے میرے حوالے کر دیں۔۔ پھر دیکھیں کس طرح فر فر آپ کی سوالوں کے جواب دے گا۔۔
منشی مجھے بے قصور نظر آرہا تھا ۔۔میں یہ بھی سمجھ چکا تھا کہ رانا نوازش علی قتل کی اس واردات سے آگاہ نہیں تھا ورنہ وہ میرے سوالات کی پکڑ میں آ جاتا منشی کی زبانی مجھے جو حالات معلوم ہوئے تھے وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ رانا نوازش علی کو اس معاملے کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی تھی۔قاتل دونوں میں سے کوئی ایک تھا رانا فیاض احمد یا شیرو۔۔۔پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق مقتول جمیل احمد کی موت رات 10 اور 11 بجے کے درمیان ہوئی تھی جبکہ رونہ فیاض اور جمیل کے درمیان جھگڑا شام چھ بجے کے قریب ہوا تھا۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جمیل کو بے ہوش کرنے کے بعد اناج کی بوریوں کے پیچھے چھپایا گیا تھا تو اس وقت وہ زندہ تھا۔۔
میں نے شیرو کو سوچنے کی مہلت دینے کی بجائے حوالدار بہادر علی کے حوالے کر دیا۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد پوچھ گچھ کے کمرے کی طرف سے مجھے شیرو کے بلبلانے کی آوازیں آنے لگیں ۔۔10 منٹ بعد ادھر سے آواز آنا بند ہو گئی اس کے ایک منٹ بعد حوالدار نے آ کر مجھے بتایا ملزم ہر قسم کے۔۔ تعاون ۔۔کے لیے ۔۔تیار ۔۔ہو چکا ہے۔۔ آپ کا حکم ہو تو حاضر کروں۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔لے آؤ اسے ۔۔میں نے کہا ۔۔
پلک جھپکتے میں حوالدار نے شیرو کو پیش کر دیا۔۔اس کی حالت خاصی قابل رحم نظر آرہی تھی۔۔میں نے کڑے تیوروں سے اس کو گھورتے ہوئے غضب ناک لہجے میں پوچھا۔۔ کیوں اوئے بے دم کے شیر۔۔ کوئی کسر باقی ہے ابھی یا سچ بتانے کا ارادہ کر لیا ہے تم نے ؟ اب بتاؤ کہ چار دسمبر کی شام جب تم اور تمہارے مالک رانا فیاض احمد نے بے ہوش جمیل اختر کو گودام کی بوریوں کے پیچھے چھپا دیا تھا تو اس کے بعد کیا ہوا تھا۔۔؟
اس کے بعد ہم دکان بند کر کے بڑے رانا صاحب کے ساتھ گھر چلے گئے تھے۔حوالدار کی دعوے کے مطابق شیرو ریکارڈ کی طرح بجنے لگا۔۔ پھر جب سب لوگ سو گئے تو رانا فیاض نے مجھے ساتھ لیا اور ہم دکان پر اگئے۔اس وقت رات کے 10 بج چکے تھے اور چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔۔اتنی خاموشی اور سناٹا تھا کہ ہم گاڑی لے کر گھر سے نکلے تو کسی کو خبر ہی نہ ہو سکی۔۔ہم نے دکان کھولی۔۔جمیل اختر کو حسب معمول گھسیٹ کر بوریوں کے نیچے سے باہر نکالا اور گاڑی کی ڈکی میں ڈال کر ریلوے لائن کی جانب روانہ ہو گئے۔۔گلیاں سنسان تھیں اور ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔۔ریلوے لائن کے قریب پہنچ کر ہم نے گاڑی روکی اور جمیل اختر کو ڈکی سے باہر نکال لیا۔۔اس وقت جمیل کے جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔۔ وہ ابھی زندہ تھا ۔رانا صاحب نے تفشیش ناک نظروں سے مجھے دیکھا اور حکم دیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر میں نے اپنے مالک کے حکم پر خاصی دیر تک پوری قوت سے جمیل اختر کا گلا دبائے رکھا اور اس وقت چھوڑا جب وہ ٹھنڈا ٹھار ہو چکا تھا۔۔پھر ہم اسے ریلوے کی پٹری پر ڈال کر واپس اگئے۔رانا صاحب کا خیال تھا کہ سب یہی سمجھیں گے کہ وہ ٹرین کے حادثے میں ہلاک ہوا ہے ۔۔۔
شیرو اقبال جرم کر چکا تھا۔۔ اب کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں تھی۔پیر کے روز میں نے عدالت سے جا کر رانا فیاض احمد کا وارنٹ گرفتاری حاصل کیا اور اے ایس آئی احمد حسن کی زیر نگرانی ایک پولیس پارٹی متعلقہ لاہور کے بڑے کالج روانہ کر دی۔۔شام تک رانا فیاض گرفتار ہو کر میرے پاس پہنچ چکا تھا۔۔رانا نوازش علی اس سے پہلے بھی تھانے کے کئی چکر لگا چکا تھا۔بیٹے کی گرفتاری کے بعد تو وہ تھانے میں دھرنا دے کر بیٹھ گیا ۔۔
اس مرتبہ اس نے مجھے اپنے تعلقات کی دھمکیاں نہیں دیں۔نہ ہی میری پیٹی اتروانے کا دعوی کیا۔۔پوری صورتحال اس پر عیاں ہو چکی تھی۔۔ وہ اپنی کمزور پوزیشن سے بھی واقف تھا اور میری سخت گیری سے بھی۔۔پھر اس کے ناز و نعم میں پلے ہوئے صاحبزادے نے محض لاتوں گھونسوں اور طمانچوں کے طفیل ہی سب کچھ قبول کر لیا تھا اس لیے رانا نوازش کوئی ایسی راہ نکالنا چاہتا تھا کہ میں کمزور کیس بناؤں تاکہ اس کے لاڈلے کو کم سے کم سزا ہو۔۔اس سلسلے میں اس نے مجھے انتہائی ادب و احترام کے ساتھ رشوت دینے کی کوشش کی مگر میں نے نہایت سختی کے ساتھ اس کی پیشکش ٹھکرا دی۔
میں نے حقارت سے نوازش علی کو دیکھتے ہوئے کہا رانا تم ایک ظالم اور غاصب شخص ہو۔جس معصوم اور یتیم بھتیجے کی زمین و جائیداد کو تم نے اپنے ہتھکنڈوں سے ہڑپ کر لیا۔ آج وہ دولت تمہارے کسی کام نہیں آئے گی۔تم اپنی دولت و جائیداد کو بھی داؤ پر لگا دو تو پھر بھی تمہارا بیٹا بچ نہیں سکے گا۔بے گناہ جمیل اختر کا خون رنگ لا کر رہے گا۔۔
اپ یقین نہیں کریں گے مگر خدا گواہ ہے اس کے بعد رانا نوازش علی باقاعدہ میرے قدموں میں بیٹھ گیا اور آنسوؤں سے روتے ہوئے میری منت سماجت کرنے لگا اگر میرے پایہ استقامت میں ذرا سی بھی جنبش پیدا نہ ہوئی۔۔میں نے رانا فیاض احمد اور اس کے نمک خوار شیرو کے خلاف قتل عمد کا پرچہ کاٹ کر انہیں حوالہ عدالت کر دیا۔۔
ظلم اور شرک اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔۔ ظالموں اور مشرکوں کے لیے اللہ کا دردناک عذاب ہے۔۔ اللہ کی رسی اگر دراز ہے تو لاٹھی بے آواز ۔۔اس لاٹھی کے حرکت میں انے سے پہلے ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور حسب توفیق محاسبہ بھی کرنا چاہیے۔۔
.jpg)