ان دنوں میں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی کہ ایک روز، جب اسکول جانے کی تیاری کر رہی تھی، ہمارے محلے کی مسجد سے ایک اعلان سنائی دیا کہ ایک بچی کھجور کی ٹوکری میں لپٹی ہوئی ملی ہے۔ اگر اس کا کوئی وارث ہو تو فوراً رابطہ کرے۔قصہ کچھ یوں تھا کہ مسجد کے سامنے ایک پھل فروش دن بھر پھل فروخت کرتا تھا۔ وہ چند خالی لکڑی کے کھوکھوں پر کھجور کے ٹوکرے رکھ کر ان میں پھل سجا دیتا۔ گزرنے والے لوگ وہاں ٹھہرتے، اپنی ضرورت کے مطابق پھل خریدتے اور آگے بڑھ جاتے۔ مغرب کے وقت وہ اپنا کام سمیٹتا، بچے ہوئے پھل ریڑھی پر رکھ کر گھر لے جاتا، مگر کھجور کے بنے ٹوکرے وہیں چھوڑ دیتا۔ ان پر پلاسٹک کی چادر ڈال دیتا اور نیچے سے لکڑیوں سے باندھ کر چلا جاتا۔
اس روز فجر کی نماز کے لیے آنے والے ایک نمازی کی نظر پھل فروش کے ٹھیے پر پڑی۔ اچانک کھجور کے ٹوکروں کے پاس سے کسی ننھی بچی کے رونے کی آواز آئی۔ وہ متوجہ ہوا، جھک کر دیکھا تو ایک نوزائیدہ بچی تولیے میں لپٹی ہوئی تھی، جو غالباً بھوک کی شدت سے رو رہی تھی۔ نمازی فوراً دوڑ کر امام صاحب کے پاس پہنچا اور اطلاع دی۔ امام صاحب نے مسجد کے لاوڈ اسپیکر پر اعلان کروا دیا کہ اگر بچی کا کوئی وارث موجود ہے تو آ کر لے جائے۔ لیکن کوئی وارث نہیں آیا۔ شاید حقیقی وارث خود ہی اسے اس حالت میں چھوڑ گئے تھے۔یہ اعلان سن کر محلے کے کئی لوگ مسجد کے باہر جمع ہو گئے۔ انہی میں ہمارے پڑوسی ملک صاحب بھی تھے، جن کی بیوی نرم دل اور رحم دل مزاج کی مالک تھیں۔ جس صاحب کو بچی ملی، وہ بھی مسجد کے سامنے ہی رہتے تھے۔ ان کا نام اسد تھا۔
ملک صاحب کی بیوی نے فوراً اسد صاحب کو پیغام بھجوایا کہ اگر بچی لاوارث ہے اور وہ اسے نہ رکھ سکیں تو یہ معصوم ہمیں دے دیں، ہم اسے اپنی اولاد کی طرح پالیں گے۔ جب سب نے بچی کو دیکھا تو ہر ایک کا دل پگھل گیا۔ وہ دو یا تین دن کی لگتی تھی، خوبصورت سی فراک پہنے، صاف ستھرے تولیے میں لپٹی ہوئی۔ امام صاحب سے اسد صاحب نے درخواست کی کہ یہ بچی مجھے راستے میں ملی ہے، اس لیے اعلان کروایا کہ اگر کوئی قریبی وارث ہو تو پہنچ جائے۔ لیکن اگر کوئی نہ آیا، تو یہ بچی مجھے دے دی جائے۔ میری ایک ہی بیٹی ہے اور بیوی کی طبیعت کی خرابی کے سبب مزید اولاد ممکن نہیں۔ اگر اللہ نے ہمیں یہ نعمت دے دی ہے تو ہم اسے اپنی دوسری بیٹی سمجھ کر پالیں گے۔
تھانے میں رپورٹ درج کروا دی گئی، مگر کئی دن گزرنے کے باوجود کوئی بچی کو لینے نہ آیا۔ایک روز ملک صاحب کی بیوی خود اسد صاحب کے گھر گئیں اور ان کی اہلیہ سے بچی کو گود لینے کی درخواست کی، لیکن اسد صاحب کی بیوی نے انکار کر دیا۔ کئی روز تک اس واقعے کا ذکر اڑوس پڑوس میں ہوتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ اس قصے کو بھول گئے، لیکن وہ بچی، جس کا نام مہوش رکھ دیا گیا تھا، اسد صاحب ہی کے گھر پرورش پاتی رہی۔ اسد صاحب کی بیوی نے اس بچی سے بے حد محبت کی، اپنی سگی بیٹی سے بڑھ کر اس کا خیال رکھا۔ ان کے طرزِ عمل سے اکثر لوگوں کو یہی گمان ہوا کہ یہ بچی واقعی ان ہی کی ہے۔ سوائے چند قریبی پڑوسیوں کے، باقی سب یہی سمجھتے رہے کہ اسد صاحب کی دو بیٹیاں ہیں۔
اسد صاحب شہر میں ایک معزز مقام رکھتے تھے۔ شاید اسی لیے بھی لوگوں نے اس لاوارث بچی کے بارے میں باتیں کرنا مناسب نہ سمجھا۔دولت مند کی نیکی جلد عظمت کی بلندیوں کو چھو لیتی ہے۔ کسی بے سہارا بچی کو اپنی ولدیت دینا، جسے سڑک کنارے لاوارث چھوڑ دیا گیا ہو، واقعی بڑا دل اور عظیم ظرف مانگتا ہے۔اسد صاحب نے کسی کی پروا نہ کی۔ اگرچہ معاشرے میں ایسے بچوں کو اپنانا باعثِ عار سمجھا جاتا ہے، مگر اسد اور ان کی اہلیہ نے ماہ وش کو دل سے اپنایا۔جب وہ پانچ برس کی ہوئی، تو اسے اسکول میں داخل کرواتے وقت، داخلہ فارم میں ولدیت کے خانے میں اسد صاحب نے اپنا نام درج کروایا۔
مہوش بے حد خوبصورت، ہوشیار اور بے حد ذہین نکلی تھی۔ جو بھی اسے دیکھتا، بے اختیار اس سے محبت کرنے لگتا۔ جب سے اسد صاحب اور ان کی زوجہ نے اسے گود لیا تھا، ان کے گھر میں دھن دولت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی ماہ رخ اب تیرہ برس کی تھی اور وہ بھی مہوش سے بہت پیار کرتی تھی۔ یہ مہوش کی خوش نصیبی تھی کہ ایسے حالات میں اسے گود لینے والوں کا حقیقی والدین جیسا پیار ملا۔ اب وہ لاوارث نہیں رہی تھی بلکہ معاشرے میں اس کا ایک باعزت مقام تھا ۔بیگم اسد اس معاملے میں بہت چوکنّا رہتی تھیں کہ کبھی کوئی مہوش کو اس کے ماضی کے بارے میں نہ بتا دے۔ اسی لیے وہ اسے پاس پڑوس میں اکیلے جانے نہیں دیتیں، جہاں جاتی وہ اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ رشتہ داروں کو بھی سختی سے منع کر دیا تھا کہ وہ کبھی بھول کر بھی اس بات کا ذکر نہ کریں کہ مہوش ان کی اصل اولاد نہیں بلکہ لے پالک ہے۔
ماہ رخ نے میٹرک پاس کرتے ہی شادی کر لی، اور جب مہوش نے اسکول کی تعلیم مکمل کی تو اسد اور ان کی بیوی اس کی شادی کی فکر میں مبتلا ہو گئے۔ مہوش نے کالج میں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو اسد صاحب نے سوچا کہ ہم نے تو اسے اپنی اولاد کی طرح پالا ہے، لیکن زمانہ کب کسی کو معاف کرتا ہے۔ آج ہم زندہ ہیں، کل نہ رہیں اور کوئی بدخواہ بچی کو اس کے لاوارث ہونے کی داستان سنا دے تو ہماری ساری محنت رائیگاں ہو جائے گی۔ بہتر ہے ہماری زندگی میں ہی اس کی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ مکمل ہو جائے۔ جس شہر میں وہ رہتے تھے وہاں لڑکیوں کے لیے علیحدہ کالج نہیں تھا، اس لیے جو والدین اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے، وہ اپنی بچیوں کو لڑکوں کے کالج میں داخل کراتے تھے۔
اسد صاحب کومہوش کو لڑکوں کے کالج میں داخل کرانے میں خوف سا تھا، مگر ان کی بیوی نے حوصلہ دیا اور مہوش کو داخلہ دلوادیا گیا۔ مہوش ایک لائق طالبہ تھی۔ کلاس میں ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کرتی تھی۔ تاہم، وہ کچھ الگ تھلگ رہنے والی لڑکی تھی، بلا ضرورت کسی سے بات نہ کرتی تھی، اور یہی وجہ تھی کہ اسے مغرور سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تربیت میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں تھی، لہٰذا وہ اپنے والدین کی عزت کا خیال رکھتی تھی جو اس کی ہر خواہش کو پورا کرتے تھے۔ایان اس کا کلاس فیلو تھا۔ لڑکیوں میں اگر مہوش کو سب سے زیادہ امتیاز حاصل تھا تو لڑکوں میں ایان قابلِ قدر تھا۔ وہ نہ صرف خوبرو اور پرکشش تھا بلکہ ہمیشہ اول پوزیشن لینے والا طالب علم بھی تھا۔ جہاں ساری کلاس ایان سے دوستی کی خواہاں تھی، وہیں مہوش اس سے حسد بھی کرتی تھی۔ وہ سوچتی اگر ایان کلاس میں نہ ہوتا تو وہ ہمیشہ اول پوزیشن پر رہتی۔
اس لیے وہ اس سے زیادہ محنت کرتی تھی۔ دونوں کی شخصیت میں کچھ خوبیوں کا میل تھا۔ دونوں کم گو، پڑھائی میں دھیان دینے والے اور الگ تھلگ رہنے والے تھے، اسی لیے انہیں مغرور سمجھا جاتا تھا۔ کچھ دنوں سے مہوش کو ریاضی میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ ضرورتاً وہ ایک دو بار ایان سے سوالات پوچھنے لگی اور ایان نے اسے چند مشکل فارمولے آسان طریقے سے سمجھا دیے۔ اس طرح دونوں کے درمیان مقابلے کا کھنچاؤ کم ہوا۔ پھر کسی طرح چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ مقابلے اور نیچا دکھانے کی خواہش نے ان میں پسندیدگی کے جذبات کو جنم دیا۔ کلاس نے نوٹ کر لیا کہ ایان مہوش کا بہت خیال رکھنے لگا ہے۔ اب وہ جان بوجھ کر ایک دو سوال غلط کر دیتا تاکہ مہوش اول پوزیشن پر آجائے اور وہ سیکنڈ پوزیشن لے لے۔ایان ہر بار ماہ وش کے مقابلے میں ہار کر خوشی محسوس کرتا تھا۔ پہلے وہ ایک دوسرے سے بات تک نہ کرتے تھے، اب بات کرنے کے بہانے تلاش کرنے لگے تھے۔ چند دوستوں نے مذاق بھی کیا تو ایان نے کہہ دیا کہ مہوش اس کی قریبی رشتہ دار ہے۔ کلاس میں تو دونوں قدرے محتاط تھے، لیکن دلوں میں محبت کا جذبہ پروان چڑھ رہا تھا۔دونوں اساتذہ کے چہیتے شاگرد تھے کیونکہ شاندار تعلیمی ریکارڈ رکھنے والے طالب علموں کی عزت اساتذہ اور کلاس میں ہوتی ہے۔
دونوں محنت سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھے اور کسی کے دل میں انہیں بدنام کرنے کی جرات نہ تھی۔اب تعلیم کا آخری سال تھا اور دونوں کے سامنے مستقبل کا سوال تھا۔ مہوش کے دل میں خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ ایان اس کا جیون ساتھی بنے۔ اسے یقین تھا کہ ایان نہ صرف ایک لائق لڑکا ہے بلکہ بہترین جیون ساتھی بھی ثابت ہوگا۔ ایان بھی مہوش کے بارے میں یہی جذبات رکھتا تھا، لیکن دونوں کو اپنی پسند کے بارے میں والدین کو بر وقت آگاہ کرنا ضروری تھا تاکہ ان کی خوشیوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ایان کے والدین کئی بار کہہ چکے تھے کہ وہ وہی دلہن لائیں گے جسے وہ پسند کرے گا۔ رزلٹ آ گیا۔ مہوش اور ایان دونوں نے امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ اب اصل مراحل طے کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ مہوش نے اپنی والدہ کو اور ایان نے اپنے گھر والوں کو بتا دیا کہ وہ کس سے شادی کے خواہاں ہیں۔
ایان کے والدین ایک خوشحال زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اسے ملازمت کی فکر نہیں تھی کیونکہ خدا نے اسے بہت کچھ دیا تھا اور دولت کی کمی نہ تھی۔ ماں جلد از جلد گھر میں اس کی دلہن لانا چاہتی تھی اور رشتوں کی کمی نہ تھی۔ اس نے خاندان کی بہت سی لڑکیوں کے نام لیے مگر ایان نے سب کو رد کر دیا۔ ماں نے کہا پھر تم ہی وہ لڑکی کا نام بتاؤ جس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو۔ ایان نے مہوش کے والدین کا نام بتایا کہ ان کے گھر سے رشتہ طلب کیا جائے تو وہ شادی کرے گا۔ پتہ معلوم ہو گیا تو ایان کی والدہ راشدہ سوچ میں پڑ گئیں، کیونکہ یہ تو ان کے میکے کے محلے ہی کا پتہ تھا جہاں مہوش کے والدین رہتے تھے۔ وہ اس محلے کے تمام قدیمی گھرانوں کو جانتی تھیں۔اگرچہ ایان کے والدین نے شادی سے ایک سال قبل ہی اس محلے سے مکان فروخت کر کے نقل مکانی کر لی تھی اور تب سے وہ وہاں نہیں گئی تھیں، لیکن انہوں نے سوچا کہ ممکن ہے وہ مہوش کے گھرانے کو جانتی ہوں۔ اگر خود جا کر دیکھ لوں تو شاید چھان بین کی ضرورت بھی نہ پڑے۔
ایک روز وہ بغیر ایان کو بتائے مہوش کے محلے گئیں۔ وہاں کے کچھ پرانے رہائشی ایان کے نانا اور نانی کو بخوبی جانتے تھے۔ انہوں نے راشدہ کو پہچان لیا۔ راشدہ نے بتایا کہ وہ اسد صاحب کی بیٹی، مہوش کو بہو بنانا چاہتی ہیں، اور اسی سلسلے میں معلومات لینے آئی ہیں۔ ابھی وہ اسد صاحب کے گھر نہیں گئی تھیں۔ملک صاحب کی بیوی نے کہا:ہاں، لڑکی تو بہت اچھی ہے راشدہ، لیکن ایک بات تم سے چھپانا بددیانتی ہو گی۔ تم مہوش کے بارے میں جاننے آئی ہو، اور جب رشتہ کرنے کی بات ہو تو سچائی جاننا ضروری ہوتا ہے۔ میرا فرض ہے کہ تم سے کچھ نہ چھپاؤں۔ لڑکی بہت نیک، لائق، خوبصورت اور بااخلاق ہے۔ قسمت والوں کو ہی ایسی بہو ملتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اسد صاحب کی حقیقی بیٹی نہیں بلکہ لے پالک ہے۔
یہ بات وہ خود تمہیں کبھی نہیں بتائیں گے، شاید یہاں کا کوئی بھی نہ بتائے، لیکن چونکہ ہمارے والدین کے تعلقات پرانے اور خالص تھے، اس لیے میں ضروری سمجھتی ہوں کہ تمہیں اس حقیقت سے آگاہ کر دوں۔ راشدہ حیرت سے پوچھنے لگیں:مگر اسد صاحب کی تو اپنی ایک بیٹی ہے، پھر انہیں لے پالک بچی کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اور یہ لڑکی انہیں کہاں سے ملی؟ملک صاحب کی بیوی نے جواب دیا:کیا تمہیں یاد نہیں، برسوں پہلے ہمارے محلے کی مسجد میں اعلان ہوا تھا کہ ایک لاوارث بچی ملی ہے؟راشدہ بولیں:نہیں، اُس وقت میں خالہ کے گھر تھی۔ ملک صاحب کی بیوی نے کہا:یہ بچی اسد صاحب کو ایک پھل فروش کے ٹھیلے پر ملی تھی۔ ایک صبح جب وہ فجر کی نماز کے لیے جا رہے تھے تو بچی کے رونے کی آواز سن کر رُک گئے۔ دیکھا کہ ایک نومولود بچی کو پھلوں کے ٹوکرے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ انہوں نے بچی کو اٹھایا، پولیس کے ذریعے کارروائی مکمل کی، اور پھر اسے قانونی طور پر گود لے لیا۔
تب سے وہی اسد صاحب کی بیٹی ہے۔ہم نے بھی مہوش کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگا تھا، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ خیر، لے پالک ہونے یا لاوارث ہونے میں بچی کا کیا قصور؟ گناہ تو اُس کے والدین کا ہے، وہ خود تو معصوم اور نیک ہے۔ ملک صاحب کی بیوی نے سچ بیان کر کے دوستی اور خیر خواہی کا حق ادا کیا، مگر راشدہ یہ سب سن کر سکتے میں آ گئیں۔ جب وہ گھر لوٹیں تو بہت پریشان تھیں۔ ایان نے پوچھا:کیا ماں، لڑکی پسند نہیں آئی؟ یا گھرانہ؟راشدہ نے کہا:بیٹے، مجھے لڑکی کے گھر جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ میرے والدین برسوں ان کے پڑوس میں رہے ہیں، اور میں ان لوگوں کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ شادی کے بعد مجھے پرانے محلے میں جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ آج تمہاری خاطر گئی تھی، مگر میرا دل نہیں مانتا کہ وہ لڑکی تمہارے لیے مناسب ہے۔ایان چونک گیا:
کیوں ماں؟ آخر اس میں کیا کمی ہے؟ کیا وہ بدصورت ہے، بدتمیز ہے یا غیر تعلیم یافتہ؟ اس کے والدین تو علاقے کے سب سے عزت دار اور خوشحال لوگ ہیں، پھر انکار کیوں؟راشدہ بولیں:اس لیے کہ اس کا ماضی ایک داغ کی طرح ہے۔ تمہیں نہیں معلوم، یہ لڑکی کسی اور کی خطا کا نتیجہ ہے۔ ایان بولا:ماں، یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ وضاحت سے بات کریں۔ راشدہ نے کہا:یہ ایک لاوارث بچی تھی، بیٹا۔ تین دن کی تھی جب کسی نے اسے پھل فروش کے خالی ٹوکرے میں ڈال دیا۔ اسد صاحب کو یہ بچی ملی تو انہوں نے گود لے لیا۔ اب سوچو، ایسی لڑکی کو ہم اپنی عزت کا حصہ کیسے بنا سکتے ہیں جس کے والدین کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ ایان کا لہجہ سخت ہو گیا:اگر آپ اسے بہو نہیں بنا سکتیں، تو میں اسے اپنی بیوی ضرور بناؤں گا۔ مجھے اس کے ماضی یا اس کے ماں باپ سے کوئی غرض نہیں۔ وہ ایک نیک، محنتی اور تعلیم یافتہ لڑکی ہے، جس نے ایک شریف اور باعزت گھرانے میں پرورش پائی ہے۔ کیا یہ سب کچھ کافی نہیں؟بیٹے کے مضبوط لہجے پر ماں خاموش ہو گئی، لیکن اندر ہی اندر سلگنے لگی۔
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ بیٹے کو اس رشتے سے کیسے روکا جائے۔ادھر مہوش کے لیے رشتے آ رہے تھے، مگر اس کی ماں شش و پنج میں مبتلا تھی۔ مہوش کہہ چکی تھی کہ ایان اپنی والدہ کو جلد رشتے کے لیے لانے والا ہے، اس لیے انتظار کر لیا جائے۔مہوش تو ایان کے والدین کے آنے کی منتظر تھی، اسی لیے اُس نے ماں سے ایسا کہا، مگر یہ لوگ آ ہی نہیں رہے تھے۔ایان کے والد کو کسی قسم کا اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ ہم پلہ تھے، مگر راشدہ اڑ گئی تھیں کہ یہ رشتہ نہیں کرنا۔ ایان نے ماں سے باقاعدہ ضد اور لڑائی تک کر لی۔ والد غیر جانبدار رہے، مگر ماں اور بیٹے میں خوب تکرار ہوئی۔ ایان نے ماں کے پاؤں تک چوم لیے، منتیں کیں، مگر محبت کرنے والی ماں ٹس سے مس نہ ہوئی۔ایک طرف بیٹے کی بے چینی بڑھ رہی تھی، تو دوسری طرف ماں کی ضد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ جس ماں کا پیار ناقابلِ شکست تھا، وہی بیٹے کی خوشیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی تھی۔
شوہر نے بھی بہت سمجھایا کہ بیٹے کی خوشی کا خیال کرو اور ضد چھوڑ دو، مگر راشدہ بیگم کا جواب وہی تھا جہاں کہو، وہاں ایان کی شادی کر دوں گی، مگر اس لڑکی سے نہیں۔ میں نے اس کے بارے میں معلوم کر لیا ہے، یہ لڑکی ہمارے لیے مناسب نہیں۔ شوہر بالآخر خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ وہ بیوی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے، البتہ بیٹے سے کہہ دیا کہ تم چاہو تو خود جا کر شادی کر لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ایان، ماں کے رویے سے مایوس ہو کر بالآخر خود ہی مہوش کے والدین کے پاس چلا گیا اور ان سے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگنے ان کے گھر جا پہنچا۔ مگر اسد صاحب نے نرمی سے انکار کر دیا۔ کہنے لگے کہ بیٹا، تم اکیلے آئے ہو۔ بغیر والدین کے ہم تمہیں بیٹی کا رشتہ دینا مناسب نہیں سمجھتے۔ اپنے والدین کو راضی کر کے لاؤ، تب بات کریں گے۔ایان نے دوبارہ اپنے والد سے التجا کی کہ ابا، اماں تو ماننے والی نہیں۔ آپ میرے ساتھ چلیں، ان کو ہم بعد میں منا لیں گے۔باپ نے بیٹے کی محبت سے مجبور ہو کر ہامی بھر لی۔
وہ ایان کے ساتھ اسد صاحب کے گھر رشتہ طے کرنے چلے گئے۔ خوش قسمتی سے اسد صاحب سے ان کی پرانی جان پہچان نکل آئی۔ وہ رشتہ دینے پر آمادہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ عورتوں کا معاملہ بعد میں سنبھال لیں گے، ابھی خاموشی سے لڑکے اور لڑکی کا نکاح کر لیتے ہیں۔اسد صاحب بھی اس بات کے قائل تھے کہ نکاح سادگی سے ہو۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مہوش کے لاوارث ہونے کی پرانی باتیں دوبارہ لوگوں کی زبان پر آ جائیں۔ کیا خبر کہ شادی کی چہل پہل میں برسوں پرانا کوئی واقعہ کسی کو یاد آ جائے اور ان کی بیٹی کا سکون برباد ہو جائے۔ نکاح کی تاریخ دونوں والدین کے باہمی مشورے سے طے ہو گئی۔ لیکن ایان کے والد نے اپنے دونوں بھائیوں کو ضرور اطلاع دی تاکہ وہ نکاح میں شریک ہو سکیں۔
انہی دیورانیوں کے ذریعے یہ خبر راشدہ تک بھی پہنچ گئی کہ اس کے شوہر، اس کے علم کے بغیر، ایان کی مہوش سے شادی کرنے جا رہے ہیں۔راشدہ گھبرا گئیں، اور انہیں کوئی چارہ نہ سوجھا۔ وہ سیدھی میری خالہ کے پاس چلی آئیں۔ راشدہ اور خالہ بچپن کی سہیلیاں تھیں اور پانچویں جماعت سے دسویں تک کی کلاس فیلوز بھی۔ ان کے درمیان کوئی راز نہیں تھا۔ یہ بات بھی خالہ کو معلوم تھی کہ جب راشدہ دسویں جماعت میں تھی، اسے ایک نوجوان سے محبت ہو گئی تھی، جو اس کے ماموں کے پڑوس میں رہتا تھا۔ نادانی میں ایک ایسی خطا سرزد ہو گئی کہ راشدہ کو اپنی والدہ کو سب کچھ بتانا پڑا۔ راشدہ کی ماں اپنے شوہر سے سخت ڈرتی تھیں۔ انہوں نے راشدہ کو اپنی بہن کے گھر بھیج دیا۔ جب راشدہ نے ایک بے نام باپ کی بچی کو جنم دیا تو اس کی ماں نے رات کے تین بجے بچی کو ایک پھل فروش کے ٹھیلے پر رکھ کر اس پر چادر ڈال دی۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر اللہ کو اس بچی کی زندگی منظور ہوئی، تو وہی اس کے لیے کوئی سبیل پیدا کرے گا۔اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ان لوگوں نے وہ محلہ چھوڑ دیا اور اپنا گھر بیچ کر کہیں اور جا بسے۔
یوں وہ ایک بڑی رسوائی سے بچ تو گئے، مگر راشدہ کے دل کا داغ کبھی نہ مٹ سکا۔ اس کی بعد میں شادی ہو گئی۔اب بیٹے ایان کی محبت اس کے لیے ایک بڑی آزمائش بن چکی تھی۔ راشدہ نے خالہ سے کہا کہ اب تم ہی بتاؤ، میں اپنے بیٹے کو کیا کہہ کر روکو؟ اور اپنے شوہر کو اپنی زندگی کی وہ بھیانک حقیقت کیسے بتاؤں، جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گی؟خالہ نے کہا کہ تم خاموش رہو۔ شوہر کو اس عمر میں یہ صدمہ نہ دو۔ میں تمہارے بیٹے کو بلا کر سب کچھ سمجھا دوں گی۔خالہ نے ایان کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ بیٹا، انسان خطا کا پتلا ہے۔ تمہاری ماں کے ساتھ دھوکہ ہوا تھا، جس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی۔ بس یہ جان لو کہ تم مہوش سے نکاح نہیں کر سکتے۔ اگر ماں کی بات مان لیتے تو شاید یہ بات کبھی تم تک نہ پہنچتی۔ لیکن اب مجبوری ہے۔ تم یہ رشتہ یہیں ختم کر دو۔ اپنی ماں کو معاف کر دو۔ وہ بھی ایک انسان ہے، اور کوئی انسان فرشتہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے بہت صبر و برداشت سے تمہیں پالا ہے۔ایان کا چہرہ غم اور صدمے سے بجھ سا گیا۔ وہ کچھ کہے بغیر خالہ کے سامنے سے اٹھ کر چلا گیا۔
بعد میں خالہ نے میری امی سے کہا کہ مجھے معلوم تھا کہ یہ راز جان کر ایان کے دل میں ماں کا مقام متاثر ہوگا، لیکن میں مجبور تھی۔ راشدہ خود اپنے بیٹے کو یہ سچ نہ بتا سکی، تو مجھے یہ ناگوار فریضہ نبھانا پڑا۔ایان اس راز کو جاننے کے بعد اپنے گھر واپس نہیں گیا۔ وہ ایک دوست کے گھر چلا گیا اور پھر کسی کو معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں گیا۔ یہاں تک کہ راشدہ، بیٹے کے صدمے اور جدائی کے غم کو دل سے لگا کر صرف تین برس جی سکیں، اور اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی وفات کے ایک سال بعد ایان نے باپ سے رابطہ کیا۔ اس وقت تک وہ کینیڈا میں مقیم تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اپنے والد کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ یوں یہ راز، ایک موڑ پر آ کر، دوبارہ ہمارے سینوں میں دفن ہو گیا اور ہمیشہ کے لیے دفن ہی رہا۔
مہوش اور اس کے گھر والے کبھی نہ جان سکے کہ ایان کہاں چلا گیا اور کیوں واپس نہ آیا؟ انہیں کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ راشدہ یا ایان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ دنیا واقعی ایک نگار خانہ ہے، یہاں کیسے کیسے راز اور واقعات پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔ خدا ہر کسی کو ایسے صدمات سے محفوظ رکھے جن کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔
.jpg)