مفرور جوڑا

Sublimegate Urdu Stories
 
 میں تھانہ مرید کے میں تعینات تھا۔ دو ماہ کا عرصہ بیت چکا تھا اور امن و امان کے صورتحال بحال تھی لیکن ایک صبح حسب معمول تیار ہو کر تھانے پہنچا تو پتہ چلا کہ رات سے ایک جوڑا حوالات میں بند ہے۔ رات کو جب میں تھانے سے اٹھ کر اپنے کوارٹر کی طرف گیا تو حوالات خالی تھی۔
 
اس کا مطلب تھا کہ یہ کارنامہ رات کی ڈیوٹی دینے والے عملے نے انجام دیا تھا میں نے اطلاع دینے والے کانسٹیبل سے کہا کہ وہ اے ایس آی کو میرے پاس بھیجے۔ کانسٹیبل جی اچھا کہتے ہوے میرے کمرے سے نکل گیا اے ایس آی آجکل رات کی ڈیوٹی کر رہا تھا وہی مجھے صیح طریقے سے بتا سکتا تھا کہ اس جوڑے کا کیا قصور تھا جسے رات سے انھوں نے تھانے کی حوالات میں بند کر رکھا تھا تھوڑی دیر کے بعد اے ایس آی کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے حسب دستور مجھے سلوٹ کیا اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول پڑا !
جناب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے ہی والا تھا اور آپ نے خود ہی بلا لیا میں نے اے ایس آی کو بیٹھنے کے لیے کہا اور پوچھا مجھے پتہ چلا ہے کہ تم لوگوں نے رات کسی جوڑے کو پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا ہے ؟ اے ایس آی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوے بولا جناب ہم نے اس جوڑے کو سرعام فحش حرکتیں کرتے ہوے رنگے ھاتھوں پکڑا ہے۔
 
میں نے چونک کر اے ایس آی کی طرف دیکھا اور کہا یہ کب کا واقعہ ہے ؟ اور تم لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا ؟ اے ایس آی نے کہا جناب جب ہم اس جوڑے کو گرفتار کر کے لاے اس وقت آدھی رات گزر چکی تھی اس لیے میں نے آپ کو بے آرام کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے پوچھا یہ ہیں کون لوگ ؟ اور آدھی رات کو کس قسم کی فحش حرکتیں کر رہے تھے ؟ جو مجبورأ تم کو انھیں گرفتار کر کے تھانے میں بند کرنا پڑا ؟ اے ایس آی نے کہا جناب ان کا تعلق ہمارے علاقے سے نہیں ہے یہ لوگ کہیں اور سے اس علاقے میں آے ہیں کیونکہ جب میں نے انھیں گرفتار کیا تو کانسٹیبل حفیظ بھی میرے ساتھ تھا اور آپ تو جانتے ہیں کہ حفیظ اسی علاقے کا رہنے والا ہے اور یہاں کے بچے بچے کو اچھی طرح جانتا ہے۔ حفیظ نے ہی مجھے بتایا کہ ان لوگوں کا مرید کے سے کوی تعلق نہیں۔ میں نے اے ایس آی سے پوچھا اور یہ لوگ خود اپنے بارے میں کیا بتاتے ہیں ؟ اے ایس آی نے کہا ان دونوں کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ میاں بیوی ہیں۔
 
میں نے کہا مگر یہ دونوں میاں بیوی آخر آئے کہاں سے ہیں اگر وہ دونوں اس علاقے کے نہیں ہیں تو انھوں نے فحش حرکات کرنے کے لیے اس علاقے کا انتخاب ہی کیوں کیا ؟ اے ایس آی نے مجھے بتایا کہ میں نے ان سے پوچھ گچھ کی ہے ان لوگوں کا تعلق اس علاقے سے آٹھ نو میل کے ایک گاوں سے ہے اور وہ دو دن پہلے مرید کے آئے ہیں۔ اور یہاں ایک بیوہ نعمت بی بی کے گھر کا ایک کمرہ کراے پر حاصل کر کے وھاں رہ رہے ہیں
اے ایس آی کی پیش کردہ وضاحت مجھے ہضم نہ ہوی اور میں نے کہا تم فورأ اس جوڑے کو میرے پاس لے کر آؤ۔ اے ایس آی نے فورأ میرے حکم کی تعمیل کر دی اور چند لمہات کے بعد وہ دونوں میرے سامنے حاضر تھے
میں نے بغور ان کا جاٸزہ لیا مرد کی عمر پچیس چھبیس سال رہی ہو گی اور وہ ایک خوش شکل اور دراز قامت شخص تھا اور عورت ! بلکہ اسے لڑکی کہنا زیادہ مناسب ہو گا اس کی عمر اٹھارہ انیس سال کے درمیان نظر آتی تھی وہ ایک حسین و جمیل اور تیز طرار لڑکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بڑی مقناطیسی کشش تھی وہ خاموشی کی حالت میں بھی آنکھوں سے باتیں کرتی ہوی محسوس ہوتی تھی۔
 
ان دونوں کو دیکھ کر میرے زہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ یقینأ یہ مرد اس لڑکی کو بھگا کر لایا ہو گا دونوں میرے سامنے مجرموں کی طرح کھڑے تھے۔ میں نے مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا نام کیا ہے تمہارا ؟ وہ تھوک نگلتے ہوے بولا جی میرا نام فرید ہے۔ پھر میں نے لڑکی کی طرف دیکھ کر اس سے پوچھا تمہارا کیا نام ہے وہ کچھ اعتماد کے ساتھ بولی نرگس۔ میں نے کہا تم دونوں کا کہنا یہ ہے کہ تم یہاں سے آٹھ نو میل کے کسی گاوں کے رہنے والے ہو اور تم دونوں میاں بیوی ہو۔ فرید نے فریادی لہجے میں وضاحت کرتے ہوے بتایا کہ ان کی شادی کو لگ بھگ ایک سال ہو گیا ہے اس کے گاؤں میں اس کے لیے کوی ڈھنگ کا کام نہیں تھا اور کھیتی باڑی وہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے اپنی بیوی کو لے کر وہ مرید کے آ گیا وہ تھوڑا بہت پڑھا لکھا تھا اسے یقین تھا کہ یہاں اسے کوی چھوٹی موٹی مناسب نوکری مل جاے گی۔ پھر اس کا یہ خیال درست ثابت ہوا اور ایک آڑھتی برکت علی نے منڈی مرید کے میں اسے اپنی دوکان پر منشی رکھ لیا چنانچہ وہ کسی نعمت بی بی سے ایک کمرہ کراے پر لے کر یہاں رہنے لگے وغیرہ وغیرہ۔
 
فرید کی یہ وضاحت مجھے متاثر نہ کر سکی عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ گاوں دیہات سے جو مرد کمانے کے واسطے شہروں کا رخ کرتے ہیں وہ اپنے ساتھ بیوی بچوں کو اٹھائے نہیں پھرتے تھے۔ اگرچہ ان دونوں کی ابھی کوی اولاد نہیں تھی پھر بھی دونوں کی مرید کے آمد سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی اس لیے میں نے ان سے کہا کہ میں ابھی اپنے عملے کے ایک بندے کو بھیج کر تمہارے بیان کی تصدیق کراوں گا
اور وہ بندہ پہلے نعمت بی بی سے جا کر ملے گا اس کے بعد منڈی جا کر برکت علی آڑھتی سے ملے گا اور ان سے تمہارے بارے میں پوچھ تاچھ کرے گا۔ نرگس نے کہا جی ضرور آپ تصدیق کروا لیں لیکن ہمیں گھر جانے کی اجازت دے دیں رات ہم نے بڑی مشکل سے حوالات میں گزاری ہے ایک تو قیامت کی گرمی اور اوپر سے اتنے بڑے ساٸز کے مچھروں نے ایک لمہے کے لیے چین نہیں لینے دیا۔ میں نے کہا تم دونوں کو جانے کی اجازت تو مل جائے گی لیکن تصدیق ہونے کے بعد۔! فرید بولا جناب آخر ہم دونوں کا قصور کیا ہے ہم نے کونسا جرم کیا ہے میں نے فرید کو گھورتے ہوئے کہا تم دونوں کو میرے عملے نے جس نازیبا حالت میں گرفتار کیا ہے وہ تو میاں بیوی کو بھی یوں سرعام زیب نہیں دیتی اور پھر ابھی تک یہ بھی فیصلہ نہیں ہوا کہ تم دونوں میاں بیوی ہو بھی کہ نہیں ! 

اے ایس آئی نے مجھے بتایا تھا کہ بیوہ نعمت بی بی کے گھر کے باہر گلی میں ایک چھوٹا سا چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں سے اس جوڑے کو گرفتار کیا گیا تھا اے ایس آئی کے بیان کے مطابق فرید ٹانگیں لٹکاے چبوترے پر اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ نرگس اس کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی۔ اور فرید نرگس کے چہرے پر جھکا ہوا بوس وکنار میں مصروف تھا۔ پولیس کی آمد پر وہ ہڑبڑا کر ایک دوسرے سےالگ ہو گئے تھے۔ اے ایس آئی کے بیان کی تصدیق کے لیے جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ باہر گلی میں کیوں بیٹھے تھے۔ نرگس نے اضطراری لہجے میں کہا آپ ہم سے بڑی سے بڑی قسم لے لیں ہم اصلی میاں بیوی ہیں ایک سال پہلے ہماری شادی ہوی تھی
میں نے کہا یہ معاملہ قسم دینے یا لینے سے حل نہیں ہو گا تصدیق بہت ضروری ہے جہاں تم لوگوں نے آدھی رات حوالات میں گزاری دی ہے ایک دو گھنٹے اور صبر کر لو۔ فرید مزید اپنی پوزیشن صاف کرنے کی غرض سے بولا تھانیدار صاحب آپ نے آجکل موسم دیکھا ہے نا کتنی زبردست گرمی پڑ رہی ہے نعمت بی بی نے ہمیں اپنی جو بیٹھک کراے پر دی ہے اس کی تو دیواروں سے آگ نکلتی ہے سارا دن اس پر دھوپ پڑتی ہے اور رات کو وہ بیٹھک تندور بن جاتی ہے۔ بس اسی گرمی سے گھبرا کر ہم باہر چبوترے پر آ بیٹھے تھے بس اتنی سی بات ہے
میں نے فرید کو دبکا مارتے ہوے کہا یہ اتنی سی بات نہیں ہے گھر کے باہر چبوترے پر بیٹھنے سے تم لوگوں کو کس نے روکا ہے تمہاری گرفتاری تو اس خطرناک حرکت کا نتیجہ ہے جو فحاشی کے زمرے میں آتی ہے۔
نرگس اور فرید مجھے پریشان نظروں سے تکنے لگے میں نے انہیں کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد ایک ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نے اے ایس آئی کو اشارے سے چلے جانے کے لیے کہا میرا اشارہ پاتے ہی اے ایس آئی کمرے سے باہر نکل گیا۔
 
اب کمرے میں میرے ساتھ صرف زیرحراست جوڑا رہ گیا تو میں نے فرید سے کہا جب تک تم دونوں کے بیانات کی تصدیق نہیں ہو جاتی تم ادھر میرے سامنے ہی بیٹھو گے لہذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔! میری بات سن کر ان کی جان میں جان آئی ظاہر ہے حوالات کی نسبت میرا کمرہ بہتر تھا تاہم پھر بھی تھانے کے مخصوص ماحول کی اپنی ایک دہشت اور وحشت ہوتی ہے جو ان کی آنکھوں اور چہروں سے جھلک رہی تھی۔ ان کے میاں بیوی والے رشتے کے حوالے سے ابھی تک میرا زہن مطمن نہیں ہوا تھا اپنی تسلی کی خاطر میں نے ان سے ہلکی پھلکی پوچھ گچھ شروع کر دی۔ میں نے کہا تم لوگوں کے سب عزیز رشتےدار تو گاؤں میں ہی رہتے ہوں گے یا ادھر مرید کے میں بھی کوئی جان پہچان والا ہے ؟ نرگس نے کہا جی جی ہمارے سارے رشتے دار اور برادری والے گاوں میں ہی رہتے ہیں۔ ایک بات میں نے خاص طور پر نوٹ کی تھی کہ نرگس جواب دینے میں پہل کرنے کی کوشش کر رہی تھی جیسے اسے خدشہ ہو کہ کہیں فرید کوئی الٹی سیدھی بات نہ کہہ دے
نرگس کا یہ احتیاط بھرا انداز بھی میرے شک کو پختہ کرتا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ میں نے نرگس سے پوچھا تمہارے ماں باپ کا کیا نام ہے ؟ اس نے بتایا کہ میرے باپ کا نام ایوب اور ماں کا نام عاٸشہ بی بی ہے میں نے فرید کی طرف دیکھ کر اس سے پوچھا اور تمارے ماں باپ کا کیا نام ہے ؟ فرید نے کہا نصیب بی بی اور کرم دین
میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوے پوچھا ایک سال پہلے تم دونوں کا نکاح کس نے پڑھایا تھا۔ فرید نے الجھے ہوے انداز میں نرگس کی طرف دیکھا تو نرگس جلدی سے بولی جی ان کا نام مولوی شرافت علی ہے۔ میں نے گھور کر فرید کی طرف دیکھا اور کہا کیا تمہیں یہ نام معلوم نہیں تھا وہ تھوک نگلتے ہوے بولا، پتہ تھا جناب ! ہمارے گاوں میں ایک ہی تو مولوی صاحب ہیں جو پانچوں وقت کی نماز بھی پڑھاتے ہیں اور ہمارا نکاح بھی انھوں نے ہی پڑھایا تھا۔
 
میں نے کڑے لہجے میں کہا پھر تم میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے نرگس کی جانب کیوں دیکھنے لگے تھے وہ ہکلاتے ہوے بولا وہ جی دراصل میں ڈر گیا تھا۔ میں نے کہا کیا مطلب ڈر گئے تھے کس سے ڈر گئے تھے ؟ اس نے سہمے ہوے انداز میں کہا مجھے یوں لگا تھا کہ آپ یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنے کسی بندے کو ہمارے گاؤں بھیجیں گے اور وہاں سے بھی آپ ہمارے بارے میں تصدیق کریں گے۔ میں نے کہا بلکل تمہارا یہ اندازہ بلکل درست ہے وہاں سے بھی میں تصدیق ضرور کروں گا لیکن اس میں تمہارے خوف زدہ ہونے کا سبب میری سمجھ میں نہیں آیا اگر تم دونوں میاں بیوی ہو تو پھر پریشانی والی کون سی بات ہے اور ڈر کس چیز کا ہے ؟ فرید بولا جناب آپ کا جو آدمی بھی ہمارے گاؤں میں جا کر ہمارے بارے میں پوچھ پڑتال کرے گا وہ ہمارے گاؤں والوں کو یہ بھی بتائے گا کہ ہمیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ میں نے گردن ہلاتے ہوئے کہا اچھا تو تمہاری پریشانی کا سبب یہ ہے اگر تمہیں اپنی عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو اس قسم کی حرکت کیوں کی تھی؟ فرید بولا بس جناب غلطی ہو گٸ آپ ہمیں معاف کر دیں۔ میں نے کہا اچھی بات ہے تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اس لیے میں نے تمہیں معاف کیا۔ لیکن پھر بھی تمہارے بیان کی تصدیق ضروری ہے میں نے اسے تسلی دیتے ہوے کہا تمہیں اس حوالے سے بھی بے فکر رہنا چاہیے کہ تمارے گاؤں میں بھی تمہارے کرتوتوں کا بھانڈا نہیں پھوڑا جائے گا۔
 
میری بات سن کر ان دونوں کے چہروں پر اطمنان چھلکنے لگا اور وہ مطمن ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے میں باری باری گھما پھرا کر ان سے مختلف سوالات کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بندہ واپس آ گیا جسے میں نے فرید اور نرگس کے بیانات کی تصدیق کے لیے نعمت بی بی اور برکت علی آڑھتی کے پاس بھیجا تھا
اس کی رپورٹ کے مطابق فرید اور نرگس کے بیانات صیح ثابت ہو گیے لہذا میں نے انہیں جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ یہ ہدایت بھی کر دی کہ تم لوگ یہ نہیں سمجھنا کہ میں تمہاری طرف سے مطمن ہو گیا ہوں
ابھی تمہارے گاؤں سے تصدیق کرنا باقی ہے اس دوران میں تم دونوں اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں جانے کی کوشش نہیں کرو گے اور اگر کہیں آنا جانا بہت ضروری ہو تو پہلے تم تھانے میں اطلاع کرو گے۔ اس کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاؤ گے میں ایک سادہ لباس اہلکار کو تم دونوں کی خفیہ نگرانی پر مامور کر رہا ہوں اس لیے زیادہ چالاک اور ہوشیار بننے کی کوشش نہ کرنا۔ انھوں نے یک زبان ہو کر کہا جی بہتر تھانےدار صاحب ! پھر میں نے انہیں تھانے سے رخصت کر دیا۔

خفیہ نگرانی والی بات میں نے محض انہیں ڈرانے کے لیے کہی تھی ورنہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ان کے جانے کے بعد میں نے خصوصی ہدایت دے کر اس اہلکار کو فرید اور نرگس کے گاؤں روانہ کر دیا جو اس سے پہلے نعمت بی بی اور برکت علی آڑھتی سے مل کر آیا تھا۔ اس اہلکار ایک خالہ فرید اور نرگس کے گاؤں میں رہتی تھی اہکار نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ وہ آج رات اپنی خالہ کے گھر گزار کر صبح واپس آئے گا اور میں نے اہکار کی یہ درخواست قبول کر لی۔ گزشتہ رات گرج چمک کے ساتھ وقفے وقفے سے ہلکی بارش ہوتی رہی تھی وہ ساون کے آخری ایام چل رہے تھے میں ناشتے سے فارغ ہو کر جب تھانے میں پہنچا تو ایک سنسنی خیز بری خبر میری منتظر تھی۔ پچھلی رات کسی نے فرید پردیسی کو قتل کر دیا تھا جی ہاں میں اسی فرید کی بات کر رہا ہوں جس کا روزگار اسے اس کے گاؤں سے کھینچ کر مرید کے لے آیا تھا اور اس کی بیوی نرگس اس کے ساتھ تھی۔ میں نے ایک اہکار کو ساتھ لیا اور جائے وقوعہ پر پہنچ گیا ۔ نعمت بی بی کا گھر میرے تھانے سے زیادہ دور نہیں تھا میں مختلف گلیوں سے گزر کر جب اس کے دروازے پر پہنچا تو وھاں اچھے خاصے لوگ جمع تھے۔
 
میں نعمت بی بی کے گھر میں داخل ہونے کے بعد بیٹھک میں آ گیا کیونکہ فرید کی لاش اسی بیٹھک میں پڑی ہوئی تھی میں فورأ لاش کے معاٸنے میں مصروف ہو گیا۔ پہلی نظر میں یہی محسوس ہوا کہ فرید کو سوتے میں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ وہ ایک چارپائی پر چت پڑا تھا۔ اس طرح کہ ایک خطرناک خنجر دستے تک اس کے سینے میں پیوست دکھائی دے رہا تھا۔ اور بلا شک و شبہ یہی خنجر فرید کی موت کا سبب بنا تھا جائے وقوعہ پر ضروری کاروائی کے دوران میں مجھے دو چیزوں نے بری طرح چونکایا تھا۔ ایک لاش کی پوزیشن دوسرا نرگس کی غیر موجودگی۔! جب کسی شخص کے سینے میں خنجر گھونپ کر اسے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے تو وہ بڑی شرافت کے ساتھ چپ چاپ لیٹ کر قتل نہیں ہو جاتا۔! بلکہ زندگی کی آخری سانسوں تک اس کا جسم تڑپتا پھڑکتا ہے مگر چارپای پر پڑی مقتول کی لاش کو دیکھ کر ایسا کوئی تاثر نہیں ابھرتا تھا۔ مقتول کی بیوی بھی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے موقعہ کی کاروائی مکمل کی پھر لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھجوانے کے بعد وہاں موجود افراد کے بیانات قلم بند کرنے لگا لیکن ان افراد کے بیانات سے مجھے کوئی خاص کامیابی نہ ملی میں نے تمام لوگوں کو گھر سے باہر نکالا اور گھر کی مالکن نعمت بی بی کو لے کر برآمدے میں بیٹھ گیا۔ بیوہ نعمت بی بی کی عمر پچپن ساٹھ کے قریب تھی میں نے اس کے چہرے کا جاٸزہ لینے کے بعد اس سے پوچھا یہ واقعہ کب اور کیسے ہوا ؟ وہ ڈرے سہمے انداز میں بولی میری تو خود کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا رات کو یہ دونوں میاں بیوی ٹھیک ٹھاک سوئے تھے۔
 
میں نے کہا لیکن اب ان دونوں میں سے ایک قتل ہو چکا ہے اور دوسری منظر سے غاٸب ہے۔ کیا تم مجھے مقتول کی بیوی کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہو ؟ وہ بولی تھانےدار پتر ! میں نے آپ کو بتایا ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی رات کو بیٹھک میں سوئے تھے۔ پچھلے دن آپ نے تھانے میں انہیں خوب ڈانٹا تھا ان دونوں نے مجھے رات کو ساری کہانی سنا دی تھی اور وہ دونوں بہت پریشان نظر آتے تھے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ صبح اٹھوں گی تو یہ حادثہ پیش آ چکا ہو گا۔ میں نے پوچھا تمہیں اس واقعے کا کب پتہ چلا ؟ نعمت بی بی نے بتایا مجھے تو صبح جب میں اٹھی تو تب پتہ چلا میں نے تیز لہجے میں پوچھا تمہیں کس طرح پتہ چلا میرا مطلب ہے کیا تم بیٹھک کے اندر گئی تھی؟ نعمت بی بی نے کہا جی ہاں ! میں بیٹھک کے اندر گئی تھی بلکہ مجھے اندر جانا پڑ گیا تھا
میں نے چونک کر نعمت بی بی کی طرف دیکھا اور پوچھا کیوں جانا پڑ گیا تھا ؟ وہ بولی وہ جی دراصل بات یہ ہے کہ میں صبح جلدی اٹھ جاتی ہوں اور تھوڑی دیر بعد نرگس بھی بیٹھک سے باہر نکل آتی تھی کیونکہ اس کے گھر والے کو منڈی جانا ہوتا تھا اور وہ فرید کے لیے ناشتہ وغیرہ میرے گھر کے کچن میں ہی بناتی تھی پچھلے تین چار روز سے یہی روٹین تھی۔ فرید کے ناشتےکا وقت ہو گیا تھا اور نرگس ابھی تک بیٹھک سے باہر نہیں آئی تھی۔ تو مجھے تشویش ہوی میں نے سوچا جا کر پوچھوں تو سہی کہ ان لوگوں کا کیا پروگرام ہے بیٹھک کا ایک دروازہ باہر گلی میں کھلتا ہے اور ایک دروازہ گھر کے صحن میں کھلتا ہے میں نے اندرونی دروازے پر دستک دی اور ساتھ ہی نرگس کو آواز بھی دی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ شاید آج ان کی آنکھ نہیں کھلی ہو گی میرے دروازہ بجانے پر اندر سے کوئی جواب نہ آیا اورہاتھ کا دباو پڑتے ہی دروازہ کھل گیا۔
 
حالانکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رات کو انہوں نے دروازے کو اندر سے کنڈی لگا لی تھی دروازہ کھلا دیکھ کر میں اندر چلی گئی۔ اندر جا کردیکھا تو فرید چارپای پر مردہ پڑا ہے اور نرگس کہیں نظر نہیں آ رہی تھی
میں نے پوچھا گھر کے داخلی دروازے کی کیا پوزیشن تھی وہ لکنت زدہ آواز میں بولی وہ بھی کھلا ہوا تھا۔ میرا مطلب ہے دروازہ بھڑا ہوا تھا لیکن کنڈی کھلی ہوی تھی۔ جبکہ رات کو سوتے وقت میں نے خود باہر کا دروازہ اچھی طرح بند کیا تھا اور کنڈی بھی لگائی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہو ے کہا: جب تم بیٹھک میں داخل ہوئی تو فرید چارپائی پر مردہ پڑا تھا۔ اپنے کراے دار کی لاش دیکھنے کے بعد تم نے کیا کیا تھا وہ بولی کرنا کیا تھا۔ میں گھر سے باہر نکل آئی تھی اور آس پڑوس والوں کو اس واقعے کے بارے میں بتایا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگ جمع ہو گئے انہی میں سے کسی نے تھانے جا کر اطلاع کر دی اور آپ تفتیش کرنے میرے گھر آ گئے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتی ہوں۔

میں نے نعمت بی بی سے کہا دیکھو بی بی معاملہ خاصا الجھا ہوا ہے۔ کیا تم نرگس کی پراسرار گمشدگی کے بارے میں کوئی اندازہ لگا سکتی ہو ؟ وہ نفی میں گردن ہلا کر رہ گئی۔ میں نے پوچھا فرید کے قتل کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے تمہاری نظر میں یہ کس کا کام ہو سکتا ہے ؟ وہ بے چارگی سے بولی میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتی ان لوگوں کو اس علاقے میں آئے ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا تھا۔ یہاں ان کا کون دشمن ہو سکتا ہے یہ میں کیسے بتا سکتی ہوں ۔ میں نے کہا نرگس کی پراسرار گمشدگی دو راستوں کی جانب اشارہ کرتی ہے نمبر ایک وہ فرید کو قتل کر کے کہیں فرار ہوگٸی ہے۔ نمبر دو فرید کا قاتل جو کوئی بھی ہے وہ نرگس کو اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ ساتھ لے جانے والے معاملے پر بھی دو راہیں کھلتی ہیں یا تو قاتل زبردستی نرگس کو اپنے ساتھ لے گیا ہے یا پھر نرگس اپنی مرضی سے اس کے ساتھ چلی گٸی ہے۔ اگر مرضی والی بات پر غور کیا جائے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نرگس قاتل کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
 
میری بات سن کر نعمت بی بی الجھن زدہ انداز میں بولی نہیں تھانیدار صاحب مجھے نہیں لگتا کہ نرگس نے کسی کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو قتل کیا ہو گا۔ میں نے کہا تمہیں کس بنا پر ایسا نہیں لگتا ؟ وہ وضاحت کرتے ہوئے بولی تھانیدار جی ! ابھی ان کی شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا وہ دونوں روزی روٹی کے چکر میں اپنے گاؤں سے یہاں آئے تھے میں نے پچھلے تین چار دنوں میں انہیں بڑے پیار اور اتفاق سے رہتے ہوئے دیکھا ہے میں نہیں سوچ سکتی کہ نرگس نے فرید کو قتل کیا یا کسی سے کرایا ہو گا۔ میں نے کہا نرگس نے اپنے شوہر کو قتل کیا ہے نہیں میں بہت جلد اس حقیقت کا کھوج لگا لوں گا تم ان میاں بیوی کے بارے میں جو کچھ جانتی ہو وہ مجھے بتاؤ
وہ بولی میں تو جی بس ان کے بارے میں اتنا ہی جانتی ہوں جتنا نرگس نے مجھے اپنے بارے میں بتایا تھا
میں نے کہا میں بھی وہی پوچھ رہا ہوں پھر نعمت بی بی نے مجھے ان کے متعلق جو تفصیل بتائی وہ بلکل وہی تھی جو گزشتہ روز تھانے میں مجھے نرگس اور فرید نے سنائی تھی لیکن سچی بات تو یہ تھی کہ مجھے ان کے بیان پر بلکل یقین نہیں آیا تھا۔
 
اس لیے میں کل ہی اپنے ایک اہلکار کو ان کے بتائے ہوئے گاؤں روانہ کر دیا تھا تاکہ سچ اور جھوٹ کا اندازہ ہو سکے اور وہ بندہ آج کسی بھی وقت واپس آ جائے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔ تم یہ بتاو کہ ان تین چار دنوں میں کوئی ان سے ملنے بھی آیا تھا خاص طور پر پچھلی رات کو ؟ نعمت بی بی نے کہا نہیں جی کوئی نہیں آیا۔ میں نے نعمت بی بی کو دیکھتے ہوئے پوچھا فرید کو جس طرح سینے میں خنجر اتار کر موت کی نیند سلایا گیا ہے وہ نظر انداز کر دینے والی بات نہیں ہے۔ یہ کام چپ چاپ خاموشی سے نہیں ہوا گا۔ فرید نے زندگی کی بازی ہارنے سے پہلے بھر پور مزاحمت کی ہو گی۔ کیا پچھلی رات تم نے ایسی کوئی آوازیں سنی تھیں جن سے اندازہ ہو کہ بیٹھک میں کچھ گڑبڑ ہے ؟ وہ سادہ لہجے میں بولی نہیں جناب مجھے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی میں نے کوئی آواز سنی تھی۔ جب رات کو سوئی تو پھر صبح ہی میری آنکھ کھلی تھی بیٹھک میں رات کیا واقعہ پیش آیا اس بارے میں میں بلکل نہیں جانتی۔ ! میں نے کہا تم مجھے ایک بات بتاؤ کیا تم نے اس جوڑے کو آنکھیں بند کر کے اپنی بیٹھک کرائے پر دے دی تھی یا ان کے بارے میں کچھ پوچھ پڑتال بھی کی تھی
وہ بے بسی سے بولی پوچھ پڑتال کہاں سے کرتی جناب۔! ان لوگوں کو یہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں کس کے پاس جا کر ان کی تصدیق کرتی یا کس کی ضمانت پر انہیں بیٹھک کرائے پر دیتی ؟ بس یوں سمجھیں کہ ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی اس لیے میں نے بیٹھک انہیں کرائے پر دے دی تھی ۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے مزید بولی سیدھی بات ہے جناب انہیں بیٹھک کی ضرورت تھی اور مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔ نعمت بی بی سے اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ میں نعمت بی بی کے گھر سے واپس آنے لگا تو اس نے پوچھا اگر آپ اجازت دیں میں بیٹھک سے خون وغیرہ صاف کر دوں ؟
 

میں نے کہا، ”ابھی نہیں۔ جب تک لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں ہو جاتا، اس کمرے کی ہر چیز جوں کی توں رہے گی۔“ میں اسے ضروری ہدایات دے کر اس کے گھر سے نکل آیا۔

جب میں تھانے پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ برکت علی آڑھتی میرے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے فوراً اسے اپنے دفتر میں بلا لیا۔

وہ آتے ہی پریشانی کے عالم میں بولا، ”تھانے دار صاحب، سنا ہے کہ فرید کو کسی نے قتل کر دیا ہے؟“ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ”آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے۔ میں ابھی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھجواکر آیا ہوں۔“

اس نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا، ”یہ سب کیسے ہو گیا، جناب؟“

میں نے کہا، ”میں بھی یہی پتہ لگانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر آپ اس سلسلے میں کچھ جانتے ہیں تو مجھے بتائیں۔“ وہ بے بسی سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا، ”مجھے تو کچھ بھی معلوم نہیں، جناب! ابھی تو فرید کو میرے پاس کام کرتے ہوئے تین چار دن ہی گزرے تھے، اور مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس کی بیوی بھی غائب ہے۔“

میں نے کہا، ”آپ کو بالکل درست پتہ چلا ہے، اور مقتول کی بیوی کی گمشدگی نے اس کیس کو بہت تشویش ناک بنا دیا ہے۔“ وہ خوف زدہ لہجے میں بولا، ”کہیں یہ قتل اور اغوا کی سنگین واردات تو نہیں؟“

میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ”ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔“ برکت علی الجھن زدہ لہجے میں بولا، ”جناب، آپ کی اس دوہری بات کا کیا مطلب ہے؟“

میں نے کہا، ”بہت سیدھا سا مطلب ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ قتل اور اغوا کی واردات ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نرگس نے خود ہی اپنے شوہر کو قتل کیا ہو اور راتوں رات کہیں فرار ہو گئی ہو۔“

وہ حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، ”مگر وہ ایسا کیوں کرے گی، جناب! ان کی شادی کو تو ابھی بمشکل ایک ہی سال ہوا ہے۔ وہ رزق اور روزگار کے سلسلے میں یہاں آئے تھے، اور پھر فرید نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی بیوی بڑی محبت کرنے والی عورت ہے۔“

میں نے برکت علی آڑھتی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، ”آپ کے سوال کے مطابق نرگس نے فرید کو کیوں قتل کیا ہوگا، یہ تو میں اس وقت اس سے پوچھوں گا جب وہ میرے ہاتھ چڑھے گی۔ اور جہاں تک ان کی شادی کی عمر کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کوئی فارمولا لاگو نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شخص اپنے شریکِ حیات کو شادی کے صرف ایک سال بعد قتل نہیں کر سکتا، یا پھر قتل کرنے کے لیے پانچ دس سال ساتھ گزارنا ضروری ہے۔“

میں نے برکت علی آڑھتی سے کہا، ”ابھی مجھے آپ سے بھی بہت ضروری معلومات حاصل کرنی ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ آپ خود ہی تھانے آ گئے، ورنہ بندہ بھیج کر آپ کو یہاں بلوانا پڑتا۔“

برکت علی بے چینی سے بولا، ”کیسی معلومات، جناب؟“ میں نے کہا، ”کیا آپ فرید کو پہلے سے جانتے تھے؟“

وہ قطعی انداز میں بولا، ”جی نہیں، بالکل بھی نہیں، جناب!“

میں نے کہا، ”تو پھر آپ نے ایک اجنبی شخص کو اپنے پاس ملازم رکھنے سے پہلے اس کے بارے میں چھان بین تو ضرور کی ہوگی؟“

وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا، ”نہیں، جناب! میں نے بس فرید کی زبان پر بھروسہ کر کے اسے نوکری دے دی تھی۔“

میں نے کہا، ”مقتول فرید نے آپ کو اپنے بارے میں کیا بتایا تھا؟“

برکت علی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ”یہی کہ فرید گاؤں کی زندگی میں خود کو زیادہ فٹ محسوس نہیں کرتا، اور اس کی شادی کو لگ بھگ ایک سال ہوا ہے، اس لیے وہ روزگار کے سلسلے میں مریدکے آیا ہے، اور وہ لکھنا پڑھنا بھی جانتا ہے۔ تو بس میں نے اسے اپنے پاس منشی رکھ لیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس وقت اپنے کاروبار کے لیے ایک منشی کی اشد ضرورت بھی تھی، اور دوسری طرف فرید بھی مجھے ضرورت مند نظر آتا تھا۔ لہٰذا کسی بھی جانچ پڑتال کے بغیر میں نے اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا تھا۔“

میں نے سوالات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ”فرید کم و بیش تین سے چار دن تک آپ کے پاس کام کرتا رہا۔ کیا اس دوران آپ نے اس کے ساتھ کوئی غیر معمولی معاملہ دیکھا تھا؟“

برکت علی سوچتے ہوئے بولا، ”جناب، پرسوں رات آپ کے تھانے کے بندے ان دونوں میاں بیوی کو پکڑ کر تھانے لے گئے تھے، اور اگلی صبح آپ نے اپنے ایک اہلکار کو میرے پاس ان کے بیان کی تصدیق کے لیے بھیجا تھا۔“

میں نے کہا، ”اس کے علاوہ کوئی اور واقعہ، اور خاص طور پر کل دن میں، آپ نے کوئی ایسی بات نوٹ کی ہو جسے خلافِ معمول کہا جا سکے؟“

وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا، ”نہیں جی، ایسی کوئی بات میرے علم میں نہیں ہے۔“ جب برکت علی نے میرے اس سوال کا جواب بھی نفی میں دیا تو میں نے اس سے مزید کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور اس ہدایت کے ساتھ اسے رخصت کر دیا کہ وہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے، اور مقتول کے بارے میں اگر کوئی بھی چھوٹی بڑی بات اس کے علم میں آئے تو فوراً تھانے اطلاع کرے۔

اس نے میری ہدایت پر عمل کرنے کا وعدہ کیا اور پھر تھانے سے نکل گیا۔ میں اس عجیب و غریب قتل کی واردات کے بارے میں سوچنے لگا۔

اس واردات میں بہت سی باتیں میرے لیے الجھن کا باعث تھیں۔ پہلے تو مجھے ان کے میاں بیوی ہونے پر ہی یقین نہیں تھا؛ میرے اندازے کے مطابق فرید نرگس کو بھگا کر لایا تھا۔ ایک بات یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ فرید قتل ہو گیا تھا اور نرگس موقع سے غائب کیوں تھی۔ ان حالات میں دھیان خود بخود اس طرف جاتا تھا کہ ہو نہ ہو، نرگس نے ہی فرید کو قتل کر دیا اور پھر کہیں فرار ہو گئی۔ لیکن کہاں؟

اس ”کہاں“ کا جواب حاصل کرنے کے لیے میرے پاس ایک ترکیب تھی، لیکن مشکل یہ تھی کہ موجودہ حالات اس ترکیب کو آزمانے کی اجازت نہیں دیتے تھے کیونکہ گزشتہ رات ہونے والی بارش اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ بارش کی وجہ سے اتنا پانی کھڑا ہو گیا تھا کہ کسی کھوجی کی خدمات حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔

ایک اور بات بھی میرے دل میں کھٹک رہی تھی، اور وہ یہ تھی کہ نعمت بی بی کے بیان کے مطابق جب وہ صبح نرگس کو اٹھانے گئی تو گھر کے داخلی دروازے کی کنڈی کھلی ہوئی تھی، جبکہ نعمت بی بی کو اچھی طرح یاد تھا کہ رات کو سوتے وقت اس نے بیرونی دروازے کی کنڈی لگا لی تھی۔ یہ بات بھی اس کی یادداشت میں محفوظ تھی کہ نرگس نے بیٹھک کی کنڈی اندر سے لگا لی تھی۔

ان تمام سوالوں کے علاوہ ایک اور اہم پہلو یہ بھی میری نظر میں تھا کہ فرید کو سینے میں خنجر گھونپ کر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ اس صورت میں فرید کی جانب سے شدید ترین مزاحمت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملنا چاہیے تھا، جو کہ جائے وقوعہ پر کہیں نظر نہیں آیا تھا۔ حالانکہ سینے میں خنجر کھانے والا شخص بڑا تڑپتا پھڑکتا ہے، آسانی سے اس کی جان نہیں نکلتی۔ وہ چیختا چلاتا ہے اور لوگوں کو مدد کے لیے پکارتا ہے۔ مگر گزشتہ رات ایسا کچھ نہیں ہوا تھا؛ نعمت بی بی کی سماعت تک ایسی کوئی آواز نہیں پہنچی تھی جس سے اندازہ ہوتا کہ بیٹھک میں کوئی گڑ بڑ ہے۔

اب اس پراسرار اور خاموش قتل کا ایک ہی سبب سمجھ میں آتا تھا کہ فرید کو موت کے گھاٹ اتارنے سے پہلے یقیناً اس کے معدے میں کوئی خواب آور چیز اتاری گئی تھی۔ اگر واقعی ایسا کچھ تھا تو وہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں ضرور واضح ہو جانا تھا۔

میں نے گھوم پھر کر جائے وقوعہ کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔ بیٹھک نامی اس کمرے میں دو دروازے اور ایک کھڑکی تھی۔ کھڑکی اندرونی دیوار میں تھی جو صحن میں کھلتی تھی، اور وہ کھلی ہوئی تھی۔ شدید ترین گرمی کے اس موسم میں دونوں دروازے بند کر کے سونے کا راز یہی کھڑکی تھی؛ وہ لوگ اس کھڑکی کو کھلا چھوڑ دیتے تھے۔ پھر گزشتہ رات تو وقفے وقفے سے بارش بھی ہوتی رہی تھی۔

یہ کیس اور اس کی تفتیش ایک خاص مقام پر آ کر رک گئی تھی۔ مجھے اس وقت نرگس اور فرید کے گاؤں جانے والے اہلکار کی واپسی کا شدت سے انتظار تھا۔

اہلکار کی روانگی سے لے کر اب تک صورتِ حال خاصی بدل چکی تھی۔ وہ جس فرید کے بیان کی جانچ پڑتال کے لیے اس کے گاؤں گیا تھا، وہ فرید اب ایک لاش کی صورت میں پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھجوایا جا چکا تھا۔ اور اب اس کے قتل کی اطلاع اس کے گاؤں پہنچانا بہت ضروری تھی، لیکن اہلکار کی واپسی سے پہلے کوئی بھی عملی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا تھا کیونکہ یہ بات تو مجھے فرید اور نرگس نے بتائی تھی کہ وہ فلاں گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہو سکتا تھا انہوں نے مجھ سے جھوٹ بولا ہو اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ کسی اور علاقے سے یہاں آئے ہوں۔ چنانچہ جب تک اہلکار واپس آ کر ان کے بیان کی تصدیق یا تردید نہ کر دیتا، اس وقت تک ان کے بتائے ہوئے گاؤں میں اطلاع دینا حماقت کے سوا کچھ نہیں تھا۔

میں بے چینی سے اہلکار کا انتظار کرنے لگا۔ اہلکار دوپہر کے وقت تھانے پہنچا تو وہ اکیلا نہیں تھا؛ وہ باش کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس کی آمد سے چند منٹ پہلے ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی اور وہ جیسے ہی تھانے کی حدود میں داخل ہوا، بارش نے زور پکڑ لیا۔ میرے کمرے تک پہنچتے پہنچتے وہ اچھا خاصا بھیگ چکا تھا۔

اس نے میرے پاس آ کر سلام کیا اور ایک کرسی کھینچ کر میرے سامنے بیٹھ گیا۔ میں اس کی بات سننے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا۔ اس نے بھی مجھے انتظار نہ کروایا اور بتانا شروع کیا۔ اس نے کہا، ”جناب، میں فرید اور نرگس کے گاؤں سے بڑی سنسنی خیز خبریں لایا ہوں۔ آپ سنیں گے تو دنگ رہ جائیں گے۔“

میں نے اہلکار سے کہا، ”یقیناً تمہارے پاس بھی سنسنی خیز خبریں ہوں گی، لیکن تمہارے جانے کے بعد یہاں بھی کچھ کم سنسنی نہیں پھیلی۔“ وہ بولا، ”ہاں جناب، ابھی مجھے راستے میں آتے آتے کچھ لوگوں کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ فرید کو کسی نے قتل کر دیا ہے اور نرگس غائب ہے۔“

میں نے کہا، ”تمہیں بالکل درست پتہ چلا ہے کہ فرید کو کسی نے قتل کر دیا ہے، لیکن اس موضوع پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ پہلے تم مجھے یہ بتاؤ، وہاں کی کیا خبریں ہیں؟“

اہلکار نے کہا، ”جناب، وہاں کی رپورٹ تسلی بخش نہیں ہے۔ ان دونوں، یعنی فرید اور نرگس نے ہمارے ساتھ بہت جھوٹ بولے ہیں۔“

میں نے کہا، ”مثلاً! ان لوگوں نے کس قسم کی دروغ گوئی کی تھی؟“ اہلکار نے کہا، ”ان کا بیان صرف اس حد تک درست تھا کہ وہ اس گاؤں کے ہیں جس کا انہوں نے بتایا تھا، یا پھر یہ کہ ان کے والدین کے نام درست بتائے تھے۔ باقی سب گھپلا ہی گھپلا ہے، جناب!“

میں نے کہا، ”کہیں تم یہ تو نہیں کہنا چاہ رہے کہ وہ دونوں میاں بیوی نہیں تھے؟“ اہلکار نے میری توقع کے عین مطابق سر ہلاتے ہوئے کہا، ”آپ ٹھیک سمجھ رہے ہیں، جناب! ان کی شادی ہوئی ہی نہیں تھی۔ اس گاؤں میں مولوی شرافت علی نامی ایک پیش امام بھی موجود ہے، تاہم اس نے فرید اور نرگس کا نکاح نہیں پڑھایا تھا۔“

میں نے اہلکار سے پوچھا، ”یہ تمام تر معلومات تم نے گاؤں کے لوگوں سے حاصل کی ہیں یا کوئی اور ذریعہ استعمال کیا تھا؟“ وہ جلدی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا، ”بالکل نہیں، جناب! میں نے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا تھا کہ کسی کو اس گاؤں میں میری آمد کے مقصد کا پتہ نہ چلے۔ اسی لیے میں نے یہ ساری معلومات اپنی خالہ کے ذریعے حاصل کی ہیں۔“

میں نے سراہنے والے انداز میں کہا، ”شاباش! یہ تم نے عقل مندی کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے تم سے یہی امید تھی۔ اب ذرا جلدی سے مجھے بتا دو کہ تمہاری خالہ نے تمہیں کس قسم کی سنسنی خیز خبریں دی ہیں۔“

اہلکار مجھے بتاتے ہوئے بولا، ”جناب، فرید دو اگست کو اپنے گاؤں سے روانہ ہوا تھا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا تھا کہ وہ ہفتے دس دن کے لیے لاہور جا رہا ہے۔ لاہور میں عرفان نامی اس کا ایک دوست رہتا ہے، وہ اسی کے پاس جا رہا ہے۔“ میں نے پوچھا، ”تو پھر اس نرگس کی کیا کہانی ہے؟“

اہلکار نے کہا، ”جناب، نرگس ایک منگنی شدہ لڑکی ہے۔ گاؤں کے ہی ایک شخص جاوید سے اس کی منگنی ہو چکی ہے اور عنقریب ان کی شادی بھی ہونے والی تھی کہ چار اگست کی صبح وہ اچانک گاؤں سے غائب ہو گئی۔ اور ابھی تک وہ گاؤں میں واپس نہیں پہنچی۔ وہ چھوٹا سا ایک گاؤں ہے، اس لیے نرگس کی گمشدگی کی خبر چند گھنٹوں سے زیادہ چھپی نہیں رہی۔ اس وقت گاؤں کا بچہ بچہ نرگس کی گمشدگی سے واقف ہے اور پورے گاؤں میں مشہور ہو چکا ہے کہ نرگس کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اور اس وقت اس گاؤں کا صرف ایک بندہ گاؤں سے باہر ہے اور وہ ہے فرید۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نرگس فرید کے ساتھ کہیں بھاگ گئی ہے۔“

”لیکن جناب، فرید کا باپ کرم دین اس الزام کی پرزور تردید کر رہا ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ فرید تو نرگس کی گمشدگی سے دو دن پہلے اپنے دوست سے ملنے لاہور چلا گیا تھا۔ وہ نرگس کو کس طرح بھگا سکتا ہے؟ یہ ہے جناب، اس گاؤں کی ساری صورتِ حال!“

میں نے کہا، ”خاصی دلچسپ اور سنسنی خیز صورتِ حال ہے۔“

اہلکار نے کہا، ”دو تین دن تو دونوں پارٹیوں نے بحث مباحثے میں گزار دیے ہیں اور تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ کل کسی وقت فرید کا باپ کرم دین لاہور جائے گا تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ فرید اپنے دوست عرفان کے پاس ہی موجود ہے یا وہاں سے کہیں اور چلا گیا ہے۔ نرگس کے گھر والے بھی نرگس کو مختلف رشتے داروں کے ہاں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

میں نے اہلکار سے پوچھا، ”ان سب حالات کے بیچ میں نرگس کے منگیتر جاوید کے کیا تاثرات ہیں؟“

اہلکار نے کہا، ”وہ تو ٹھنڈا ٹھار اور سکون سے بیٹھا ہوا ہے۔“

میں نے کہا، ”کیا مطلب؟ نرگس کی تو جاوید کے ساتھ شادی والی تھی اور پھر بھی وہ نرگس کی گمشدگی پر خاموش کیوں بیٹھا ہوا ہے؟“

اہلکار نے بتایا، ”جناب، دراصل بات یہ ہے کہ جاوید نے اپنے باپ کے زور دینے پر نرگس سے شادی کی ہامی بھری تھی، ورنہ تو وہ اس رشتے کے لیے تیار نہیں تھا۔ جاوید کے باپ اور نرگس کے باپ میں بڑی گہری دوستی ہے۔ اسی دوستی کے رہتے ہوئے جاوید کا باپ جاوید کی شادی اپنے دوست کی بیٹی نرگس سے کرنا چاہتا تھا، جبکہ جاوید اور اس کی ماں نرگس کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ جاوید کی ماں اپنے بیٹے کی شادی اپنی بھانجی سے کرنا چاہتی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید کا باپ اپنی سالی کو پسند نہیں کرتا، اس لیے وہ اپنی سالی کی بیٹی کو کسی بھی قیمت پر اپنی بہو بنانے پر تیار نہیں تھا۔“

میں نے اہلکار سے پوچھا، ”تمہاری خالہ کیا کہتی ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں جاوید خوش ہے یا ناخوش؟“

اہلکار نے کہا، ”جناب، میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ جاوید عجیب مست مولا بندہ ہے۔ نہ تو وہ نرگس سے منگنی پر خوش تھا اور نہ ہی اس کی گمشدگی پر پریشان! ایسا لگتا ہے اس واقعے کا اس کی صحت پر کوئی اثر ہی نہیں پڑا۔“

میں نے کہا، ”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ دنیا میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔ کسی کے دل کا بھید جاننا بہت مشکل ہے۔“

میں نے اہلکار سے کہا، ”تم نے مجھے بتایا ہے کہ فرید کا باپ کرم دین کل لاہور جائے گا۔“

اہلکار نے کہا، ”جی ہاں، وہ کہہ تو یہی رہا تھا، لیکن مجھے لگتا نہیں ہے کہ اس کا لاہور جانے کا کوئی ارادہ بھی ہو۔ ہو سکتا ہے کرم دین نے دوسری پارٹی کا منہ بند کرنے کے لیے ایسی بات کہہ دی ہو۔ اور پھر اب تو اس کے لاہور جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب اسے پتہ چلے گا کہ فرید کو مریدکے میں قتل کر دیا گیا تو وہ سیدھا اسی طرف آئے گا، لاہور نہیں جائے گا۔“

میں نے کہا، ”اب کرم دین کو اس حادثے کی اطلاع بھی تم ہی دو گے۔ تم سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہہ رہا ہوں؟“

وہ سر ہلاتے ہوئے بولا، ”بڑی اچھی طرح سمجھ رہا ہوں، جناب۔ ایک مرتبہ پھر مجھے فرید کے گاؤں کا رخ کرنا ہو گا۔“

میں نے کہا، ”تم بالکل ٹھیک سمجھے ہو، لیکن بارش تھم جانے کے بعد۔ اگر تم بار بار بارش میں بھیگتے رہے تو بیمار پڑ جاؤ گے۔“

شام کے بعد بارش ذرا تھمی تو میں نے اہلکار کو فرید کے گاؤں روانہ کر دیا۔ میں امید کر رہا تھا کہ یہ اہلکار دو ڈھائی گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے تک واپس آ جائے گا، لیکن عشا کی اذان تک بھی جب اس کی واپسی نہ ہوئی تو میں نے رات کی ڈیوٹی والے اے ایس آئی کو خاص طور پر ہدایت کر دی کہ جیسے ہی فرید کے گاؤں جانے والا اہلکار واپس آئے تو مجھے فوراً میرے کوارٹر سے بلا لیا جائے۔

میری رہائش تھانے کے عقب میں واقع بنے ہوئے کوارٹروں میں سے ایک کوارٹر میں تھی۔ میں اپنے کوارٹر کے برآمدے میں کرسی پر بیٹھا فرید اور نرگس کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ اہلکار کی زبانی جو حالات مجھ تک پہنچے تھے، ان کی روشنی میں میرا ذہن ایک خاص زاویے پر سوچ رہا تھا۔ نرگس جاوید کی منگیتر تھی، لیکن جاوید کو اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں تھی کہ اس کی منگیتر کہاں چلی گئی ہے۔ جبکہ میرے سامنے تھانے میں اور نعمت بی بی اور برکت علی آڑھتی کو بھی فرید نے یہی بتایا تھا کہ نرگس اس کی بیوی ہے اور ان کی شادی ایک سال پہلے ہوئی تھی۔

یہ ایک کھلا جھوٹ تھا۔ اس صورتِ حال میں تو یہی کہا جا سکتا تھا کہ نرگس جاوید کو پسند نہیں کرتی تھی۔ نرگس اور فرید میں پسندیدگی کا کوئی نہ کوئی رشتہ استوار تھا، تبھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ یہ بات بھی سچ معلوم ہو رہی تھی کہ چار اگست کی صبح نرگس نے فرید ہی کی خاطر اپنے گاؤں کو خیر آباد کہا تھا، جبکہ فرید دو دن پہلے ہی اپنے گاؤں سے نکل چکا تھا۔

ان دونوں کے درمیان کس قسم کی منصوبہ بندی ہوئی تھی، دونوں کہاں پر ملے تھے اور کیا سوچ کر انہوں نے مریدکے کا رخ کیا تھا؟ یہ تمام تر سوالات غور طلب تھے اور ان سب میں زیادہ تشویش ناک ایک سوال یہ تھا کہ آیا انہوں نے آپس میں شادی کر لی تھی یا بغیر نکاح کے ایک چھت کے نیچے میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے تھے؟

میں جیسے جیسے اس کیس پر سوچ رہا تھا، میرا ذہن الجھتا جا رہا تھا۔ جب رات کے گیارہ بجے تک بھی اہلکار کی واپسی نہ ہوئی تو میں سونے کے لیے لیٹ گیا۔

اگلی صبح بڑی روشن اور خوش گوار تھی۔ آسمان پر کہیں کہیں بادل کے ٹکڑے تھے اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔

میں حسبِ معمول تیار ہو کر تھانے پہنچا تو دس منٹ بعد مجھے اہلکار کی آمد کی اطلاع مل گئی۔ اہلکار اپنے ساتھ دو افراد کو بھی لایا تھا جن میں ایک مقتول فرید کا باپ کرم دین اور دوسرا فرد نرگس کی ماں عائشہ بی بی تھی۔ میں نے فوراً ان لوگوں کو اپنے پاس بلا لیا۔ کرم دین کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی۔ وہ گہرے سانولے رنگ کا ایک دراز قامت شخص تھا، اس کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ جبکہ عائشہ بی بی پچپن کے پیٹے میں دکھائی دیتی تھی۔ وہ شکل سے تیز طرار اور ہوشیار لگتی تھی۔ میں نے اہلکار کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور کرم دین اور عائشہ بی بی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

کرسی پر بیٹھتے ہی کرم دین امداد طلب نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے نہایت مختصر اور جامع الفاظ میں انہیں مقتول فرید اور نرگس کی مریدکے آمد اور رہائش اور فرید کے اندھے قتل کے بارے میں بتایا۔

ادھر میری بات ختم ہوئی، ادھر کرم دین پھٹ پڑا۔ وہ رواں سی آواز میں بولا، ”تھانیدار صاحب، یہ کیا غضب ہو گیا؟ ایک ہفتہ پہلے تو فرید اچھا بھلا لاہور گیا تھا اور اسے تقدیر یہاں مریدکے کیسے کھینچ لائی اور کس بدبخت نے میرے بچے کا خون کیا ہے؟“

میں نے بڑے تحمل سے اس کی بات سنی اور اس کے خاموش ہونے پر کہا، ”میں بھی اسی بدبخت کی تلاش میں ہوں جس نے تمہارے بیٹے کی جان لی ہے اور اس سلسلے میں مجھے آپ دونوں کے بھرپور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔“ عائشہ بی بی بولی، ”میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ نرگس نے گھر کیوں چھوڑا۔ اس کی تو منگنی ہو چکی تھی اور دو تین ماہ بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ پتہ نہیں وہ کس طرح فرید کے بہکاوے میں آ گئی۔“ کرم دین نے فوراً عائشہ بی بی کی بات کاٹتے ہوئے تیز لہجے میں کہا، ”میرے بیٹے نے کسی کو نہیں بہکایا۔ پورا گاؤں جانتا ہے کہ میرا بیٹا دو تاریخ کو لاہور گیا تھا اور تمہاری بیٹی چار اگست کو گھر سے غائب ہوئی تھی۔ تم خوامخواہ میرے بیٹے پر الزام لگانے کی کوشش نہ کرو۔“

عائشہ بی بی نے کرم دین کو گھورتے ہوئے کہا، ”میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہی ہوں، کرم دین! تم نے سنا نہیں، تھوڑی دیر پہلے ان دونوں کے بارے میں تھانیدار صاحب نے کیا بتایا تھا؟ وہ دونوں میاں بیوی بن کر یہاں رہ رہے تھے۔ ان کا ایک ساتھ پائے جانے کا مطلب یہی ہے کہ وہ باقاعدہ کسی منصوبہ بندی کے تحت آگے پیچھے گاؤں سے نکلے تھے۔“ پھر وہ اپنا سینہ پیٹتے ہوئے بولی، ”ہائے اللہ، میں کیا کروں؟ پتہ نہیں اس مردود نے میری بچی کے ساتھ نکاح بھی کیا تھا یا نہیں!“

کرم دین غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا، ”خبردار جو میرے مرحوم بیٹے کو مردود کہا! ان دونوں نے نکاح کیا تھا یا نہیں، اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ یہ ہے کہ میرے بیٹے کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے اور تمہاری بیٹی جائے وقوعہ سے غائب ہے۔ اور مجھے تو نرگس پر ہی شک ہے۔“

میں نے کڑک کر کہا، ”بس کرو! تم لوگوں نے یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے؟ یہ تھانہ ہے، تمہاری خالہ کا گھر نہیں ہے۔“

میرے ڈانٹنے سے وہ دونوں خاموش ہو گئے اور سہمی ہوئی نظروں سے مجھے تکنے لگے۔ میں نے ہمدردی بھرے لہجے میں کرم دین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”تمہارے بیٹے کی موت کا مجھے بھی گہرا صدمہ ہے اور میں پہلی فرصت میں اس کے قاتل تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تم لوگوں کو بھی اسی سلسلے میں یہاں بلایا ہے۔ اس کیس کو حل کرنے میں تم لوگ میری مدد کرو، مگر مجھ سے تعاون کرنا تو دور کی بات، تم تو الٹا آپس میں ہی جھگڑا کرنے لگے ہو۔ یہ تو میرے کام کو بگاڑنے والی بات ہے نا!“

”تم دونوں بالکل خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔ جب میں تم دونوں میں سے ایک سے بات کروں تو دوسرا بالکل خاموش بیٹھے گا۔“

انہوں نے بڑی شرافت سے سر ہلا دیے تو میں کرم دین کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس سے پوچھا، ”کیا یہ سچ ہے کہ تمہارا بیٹا فرید دو اگست کو یہ بتا کر گھر سے نکلا تھا کہ وہ ہفتہ دس دن کے لیے اپنے کسی دوست کے پاس لاہور جا رہا ہے؟“

کرم دین نے کہا، ”جی ہاں، حقیقت یہی ہے۔“ میں نے پوچھا، ”اور پھر اس کے بعد تمہیں اپنے بیٹے کی کوئی خیر خبر نہیں تھی؟“ کرم دین تأییدی انداز میں سر ہلاتے ہوئے بولا، ”جی جناب، آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔ جب آپ کے اہلکار نے گاؤں میں آ کر مجھے میرے بیٹے کی موت کی اطلاع دی تو میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ فرید کی موت کی خبر سن کر میری کیا حالت ہو گئی تھی۔ فرید کی ماں تو ابھی تک رو رہی ہو گی۔“

میں نے پھر ہمدردانہ انداز میں کرم دین سے پوچھا، ”فرید لاہور میں اپنے جس دوست کے پاس گیا تھا، اس کا عارف ہے؟“ میں نے جان بوجھ کر مقتول کے لاہوری دوست کا نام غلط بتایا تھا۔

لیکن کرم دین جلدی سے بولا، ”نہیں جناب، اس کا نام عارف نہیں بلکہ عرفان ہے۔“ میں نے کرم دین کو مزید کھریدتے ہوئے پوچھا، ”فرید کی عرفان سے کب اور کس طرح دوستی ہوئی تھی؟“

کرم دین افسردہ لہجے میں بولا، ”ان کی دوستی تو بہت پرانی ہے، بلکہ پرانی تھی۔ عرفان بھی ہمارے گاؤں کا ہی رہنے والا ہے۔ وہ پچھلے دو سال سے اپنے روزگار کے سلسلے میں لاہور میں شفٹ ہے اور مہینے دو مہینے میں وہ ایک آدھ بار گاؤں کا چکر لگا لیتا ہے۔“

میں نے پوچھا، ”عرفان لاہور میں کیا کام کرتا ہے اور اس نے رہائش وغیرہ کہاں رکھی ہوئی ہے؟“ کرم دین نے مجھے بتایا کہ عرفان لاہور میں ڈبل روٹی بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے اور ادھر ہی قریب کسی آبادی میں اس نے کرائے پر مکان لے رکھا ہے۔

میں نے کہا، ”کرم دین، بس ایک آخری سوال کا جواب بہت سوچ سمجھ کر دے دو۔ تمہاری غلط بیانی بعد میں کوئی بہت بڑی مصیبت بھی کھڑی کر سکتی ہے۔“

کرم دین چوکننے نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، ”جی پوچھیں۔ ویسے میں نے اب تک آپ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی آگے کوئی جھوٹ بولوں گا۔“

میں نے کہا، ”یہ بتاؤ کہ تمہارے بیٹے فرید اور نرگس میں کوئی عشق محبت کی کہانی چل رہی تھی؟“

میرا سوال سن کر کرم دین سے پہلے عائشہ بی بی بول پڑی، ”تھانیدار صاحب، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!“

میں نے گھور کر عائشہ بی بی کو دیکھا اور کہا، ”میں نے تم سے نہیں پوچھا، اور یہ بھی کہا تھا کہ جب میں ایک سے بات کروں تو دوسرا بالکل خاموش رہے گا۔“

میں نے غرات آمیز لہجے میں بولا، ”جب تک میں خود تم سے کچھ نہ پوچھوں، تم اپنی طرف سے کچھ نہیں بولو گی۔“ عائشہ بی بی برا سا منہ بنا کر بولی، ”ٹھیک ہے، میں اب کچھ نہیں بولوں گی۔“

وہ چپ چاپ بیٹھ گئی تو میں نے دوبارہ کرم دین کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا، ”کرم دین، تم میرے سوال کا جواب دو۔“ کرم دین تھوک نگلتے ہوئے بولا، ”جناب، میرا خیال ہے کہ فرید نرگس کو پسند کرتا تھا۔“

میں نے کہا، ”کیا فرید نے اپنی اس پسند کے بارے میں تمہیں کچھ بتایا تھا؟“ کرم دین بولا، ”مجھے تو نہیں بتایا، لیکن اس سلسلے میں اس نے اپنی ماں سے ذکر کیا تھا اور مجھے یہ بات فرید کی ماں نے بتائی تھی۔“

میں نے پوچھا، ”کیا نرگس بھی فرید کو پسند کرتی تھی؟“

کرم دین نے کہا، ”اس بارے میں میں کچھ نہیں جانتا، جناب!“

میں نے کہا، ”کیا تم اپنے بیٹے کے کسی دشمن کے بارے میں جانتے ہو؟“

وہ جلدی سے بولا، ”نہیں جناب، اس کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ وہ تو سب کو دوست بنا کر رکھتا تھا۔ بہت ملنسار اور محبت کرنے والا تھا۔“

میں نے کہا، ”کرم دین، جہاں انسان کے دس دوست ہوتے ہیں، انہی خیرخواہوں میں کہیں ایک آدھ دشمن بھی چھپا ہوتا ہے۔ تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ اس کا کوئی دشمن نہیں؟“

وہ بے بسی سے بولا، ”جناب، میں جو جانتا تھا، وہ آپ کو بتا دیا ہے۔“

میں نے کہا، ”اس کا مطلب ہے کہ تمہارے خیال میں فرید کو اس کے کسی دوست نے موت کے گھاٹ اتارا ہوگا۔“

وہ بولا، ”جناب، آپ ہی نے بتایا ہے کہ فرید اور نرگس یہاں میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ میرا بیٹا قتل اور نرگس غائب ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ...“ وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر عائشہ بی بی کی طرف دیکھنے لگا۔ عائشہ بی بی چپ نہ رہ سکی اور شکایت بھرے لہجے میں بولی، ”دیکھ لیں تھانیدار صاحب، یہ کرم دین تو ہاتھ دھو کر میری بچی کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ یہ نرگس کو فرید کا قاتل سمجھ رہا ہے۔“

میں نے عائشہ بی بی سے کہا، ”کرم دین نے ایسی کوئی بات نہیں کی، بلکہ مجھے بھی شک ہے کہ فرید کی موت میں کسی نہ کسی طرح نرگس ضرور ملوث ہے یا کم از کم وہ قتل کی اس واردات کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم دونوں کا ایک جگہ موجود رہنا ٹھیک نہیں، اس لیے کرم دین، تم باہر برآمدے میں جا کر بیٹھو۔ اگر تمہاری ضرورت محسوس ہوئی تو میں تمہیں اندر بلا لوں گا۔“ کرم دین فوراً اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

اور میں عائشہ بی بی کی طرف متوجہ ہو گیا اور گہری سنجیدگی سے کہا، ”دیکھو عائشہ بی بی! اس حقیقت کو تو دنیا کی کوئی طاقت جھٹلا نہیں سکتی کہ پچھلے تین چار دن تمہاری بیٹی نرگس یہاں مقتول فرید کے ساتھ اس کی بیوی کی حیثیت سے رہ رہی تھی۔ اور اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ فرید اسے اغوا کر کے اپنے ساتھ نہیں لایا تھا، بلکہ اس کام میں نرگس کی مرضی بھی پوری طرح شامل رہی تھی۔ اور اس مرضی کا میں بھی چشم دید گواہ ہوں۔“

عائشہ بی بی میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بول اٹھی، ”کیوں؟ تھانیدار صاحب، آپ نے ایسا کیا دیکھ لیا تھا؟“

میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا، ”دو روز پہلے ایک رات جب انہیں سرعام نازیبا حرکات کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے تھانے لایا گیا تھا تو میں نے ان دونوں کا تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ تب ہی مجھے پتہ چلا تھا کہ وہ دونوں اپنی مرضی اور خواہش سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ وہ میاں بیوی تھے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس لیے یہ خیال تو ذہن سے نکال ہی دو کہ نرگس کو اس کی مرضی کے خلاف اغوا کیا گیا تھا۔“

”اب ہم فرید کے قتل کی طرف آتے ہیں۔ وقوعہ کی رات حسبِ معمول مقتول فرید اور نرگس اپنے کمرے میں سونے کے لیے گئے، لیکن اگلی صبح اس کمرے میں فرید کی لاش پائی گئی اور تمہاری بیٹی جائے وقوعہ سے غائب تھی۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی دھیان نرگس کی طرف ہی جاتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس قتل کے راز میں ضرور شریک ہے۔ اب تم ہی بتاؤ، تمہاری عقل اس معاملے میں کیا کہتی ہے؟“

وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی، ”تھانیدار صاحب، میری عقل تو کام کرنا ہی چھوڑ چکی ہے۔ بس ایک بار نرگس مل جائے تو اسی سے پوچھوں گی کہ یہ سارا چکر کیا ہے اور کس طرح پیش آیا۔“

میں نے کہا، ”مجھے بھی اسی لیے صرف اور صرف نرگس کی تلاش ہے۔ مقتول فرید تو اس دنیا سے جا چکا ہے، وہ واپس آ کر میرے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دے گا۔ اس لیے میری ساری امیدیں اب تمہاری بیٹی نرگس سے ہی وابستہ ہیں۔ اور تم مجھے یہ بتاؤ، اس سلسلے میں تم میری کیا مدد کر سکتی ہو؟“ عائشہ بی بی رواں سی آواز میں بولی، ”میں خود بھی یہی چاہتی ہوں کہ نرگس جلد از جلد مل جائے، لیکن خدا گواہ ہے کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔“

میں نے کہا، ”نرگس کا باپ خود تھانے کیوں نہیں آیا؟ اس نے تمہیں کیوں بھیج دیا؟“

وہ افسردہ لہجے میں بولی، ”جب سے نرگس گم ہوئی ہے، اس کا باپ گہرے صدمے میں ہے۔ ہر وقت یہی بات دہراتا رہتا ہے کہ نرگس نے گھر سے باہر قدم نکال کر اس کی ناک کٹوا دی ہے۔ اس نے اپنے دوست کو جو زبان دے رکھی ہے، اس کا کیا بنے گا؟“

میں نے پوچھا، ”یہ بتاؤ، جہاں تمہاری بیٹی کی منگنی ہو چکی تھی، نرگس کے غائب ہونے پر نرگس کے منگیتر اور اس کے گھر والوں کا کیا تاثر تھا؟“

وہ غصے سے بولی، ”تھانیدار صاحب، آپ یقین نہیں کریں گے اور سن کر حیرت کا اظہار کریں گے کہ نرگس کے گھر سے چلے جانے کے بعد نرگس کے منگیتر کی ماں نے سکھ کا سانس لیا تھا اور اس نے خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ چلو بلا ٹلی! اب وہ اپنی مرضی سے اپنے بیٹے کی شادی اپنی بہن کی بیٹی سے کر سکے گی۔ نرگس اور جاوید کا رشتہ چونکہ جاوید کے اور نرگس کے باپ کی دوستی کے نتیجے میں ہوا تھا، اس لیے نرگس کی گمشدگی کا سب سے زیادہ دکھ بھی انہی دونوں باپوں کو ہوا تھا۔ اوپر سے جاوید کی ماں نے جاوید کے باپ کو طعنے دے دے کر اس کی زندگی اور بھی عذاب بنا دی تھی۔“

میں نے عائشہ بی بی سے پوچھا، ”اس سلسلے میں جاوید کا ردعمل کیا رہا تھا؟“

عائشہ بی بی نے کہا، ”وہ تو بے پرواہ ہو کر پھر رہا ہے۔ اسے اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں کہ نرگس کہاں چلی گئی ہے۔ حالانکہ اس موقع پر تو سب سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ اسی کو کرنا چاہیے تھا۔ آخر نرگس اس کی منگیتر تھی۔ اب جاوید اور اس کی ماں لوگوں کو یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ان کی طرف سے یہ رشتہ ختم ہی سمجھا جائے کیونکہ جو لڑکی گھر سے بھاگ جائے، اسے کون اپنے گھر کی عزت بنا سکتا ہے۔“

عائشہ بی بی کی بات ختم ہوئی تو میں نے اس سے کہا، ”جب ہم نرگس کے گھر سے بھاگ جانے کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ بھاگی ہوگی۔ حالات و واقعات تو چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ فرید کے ساتھ تھی، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان دونوں میں پہلے سے ہی کوئی معاملہ چل رہا تھا۔ لیکن تم کہتی ہو کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یہ بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آ رہی!“

عائشہ بی بی کندھے اچکاتے ہوئے بولی، ”میں تو یہی جانتی ہوں کہ نرگس کا فرید کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں تھا۔ باقی دلوں کے حال تو خدا ہی جانتا ہے۔“

میں نے کہا، ”ابھی کچھ دیر پہلے کرم دین نے تمہارے سامنے کہا ہے کہ اس کا بیٹا فرید تمہاری بیٹی نرگس کو پسند کرتا تھا اور اس پسندیدگی کا اظہار اس نے اپنی ماں سے بھی کیا تھا۔ اور تم بالکل ہی انجان بن رہی ہو۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی!“

عائشہ بی بی اکتاہٹ بھرے انداز میں بولی، ”تھانیدار صاحب، جو سچ تھا وہ میں نے آپ کو بتا دیا ہے۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں، یہ آپ کی مرضی ہے۔“ میں نے مزید دو چار سوالات کے بعد عائشہ بی بی کو فارغ کر دیا اور اسے باہر بھیج کر کرم دین کو اندر بلا لیا۔

وہ میرے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور امداد طلب نظر سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ”کرم دین، میں بھی تمہارے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔ میں تمہارے بیٹے کو تو واپس نہیں لا سکتا، البتہ میرا تم سے وعدہ ہے کہ تمہارے بیٹے کے قاتل کو جلد ہی گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں تک ضرور پہنچاؤں گا۔“

کرم دین نے زخمی لہجے میں پوچھا، ”کیا آپ کو فرید کے قاتل کے بارے میں کچھ پتہ چلا کہ کس بدبخت نے اسے موت کے گھاٹ اتارا ہے؟“

میں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ”سچی بات تو یہ ہے کہ میں ابھی تک کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا، لیکن مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر میں قاتل کی گردن ناپنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ بس ایک بار مجھے نرگس کا کوئی سراغ مل جائے تو پھر آگے کا کام بہت آسان ہو جائے گا۔ اور تم بھی ادھر ادھر سے نرگس کی کھوج لگانے کی کوشش کرو۔ قاتل کی تلاش کے سلسلے میں بھی مجھے تمہارے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس دوران تمہیں کوئی خاص بات پتہ چلے تو مجھے ضرور بتانا!“

کرم دین بڑی فرمانبرداری سے بولا، ”جی ضرور جناب، میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔“ پھر کرم دین نے مجھ سے پوچھا، ”میرے بیٹے کی لاش کب تک ہسپتال سے واپس آ جائے گی؟ میں لاش وصول کرنے کب آپ کے پاس آؤں؟ کیونکہ مجھے اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی تو کرنا ہے۔“ آخری جملہ ادا کرتے ہوئے اس کی آواز بھر آئی۔

میں نے ہمدردانہ لہجے میں کہا، ”کرم دین، تمہیں اس سلسلے میں فکر نہیں کرنی چاہیے۔ جیسے ہی لاش ہسپتال سے یہاں پہنچے گی، میں خود ہی تمہارے گاؤں بھجوانے کا انتظام کر دوں گا۔ تم گاؤں میں جا کر تدفین کے دیگر امور کو دیکھو۔ تمہیں لاش وصول کرنے کے لیے تھانے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنی نگرانی میں لاش تمہارے گاؤں بھجوا دوں گا۔“ پھر میں نے عائشہ بی بی اور کرم دین کو جانے کی اجازت دے دی۔

اگلے روز دوپہر سے پہلے ہی مقتول فرید کی لاش ہسپتال سے واپس آ گئی۔ لاش کے ساتھ ہی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی موجود تھی۔ میں نے کاغذی کارروائی مکمل کر کے لاش وصول کر لی اور اپنے کمرے میں بیٹھ کر پوسٹ مارٹم رپورٹ کا مطالعہ کرنے لگا۔ اس رپورٹ کے مطابق مقتول فرید کی موت سات اور آٹھ اگست کی درمیانی رات ایک اور دو بجے کے درمیان واقع ہوئی تھی۔ رپورٹ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا تھا کہ موت کے وقت مقتول گہری بے ہوشی کی حالت میں تھا، اس میں کسی قسم کی مزاحمت کرنے کی سکت باقی نہیں تھی۔ تاہم موت کا صحیح سبب وہی خطرناک خنجر ہی تھا جو اس کے سینے میں پیوست ملا تھا۔ مقتول کے معدے سے حاصل کیے گئے نمونے میں بے ہوشی کی دوا کے آثار ملے تھے۔ یعنی وقوعہ کی رات اسے کھانے میں بے ہوشی کی دوا دی گئی تھی، جس کے زیرِ اثر فرید بے خبری اور گہری نیند میں چلا گیا تھا۔ لہٰذا جب قاتل نے بے رحمی سے اس کے سینے میں خنجر اتارا تو وہ اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں کو حرکت میں نہ لا سکا اور بغیر تڑپے پھڑکے اس نے موت کو گلے لگا لیا۔

پوسٹ مارٹم کی اس رپورٹ نے میرے بہت سے خدشات کی تسکین کر دی تھی۔ اب میں پورے یقین کے ساتھ یہ جان چکا تھا کہ فرید نے قتل ہوتے وقت کسی قسم کی مزاحمت کیوں نہیں کی تھی۔ نعمت بی بی کے تفصیلی بیان کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وقوعہ کی رات نرگس اپنا اور مقتول کا کھانا بیٹھک میں لے کر گئی تھی۔ دونوں میاں بیوی نے رات کا کھانا ایک ساتھ بیٹھک میں بیٹھ کر کھایا تھا اور پھر اندر سے کنڈی لگا کر سو گئے تھے۔

ان حالات میں ذہن اسی نتیجے پر پہنچتا تھا کہ نرگس نے رات کے کھانے میں کوئی نشہ آور دوا ملا کر مقتول کو کھلا دی تھی۔ آدھی رات کے بعد جب اس نے دیکھا کہ مقتول بے خبری کی نیند میں پہنچ چکا ہے تو اس نے نہایت سنگ دلی سے ایک خوفناک خنجر مقتول کے سینے میں اتارا اور وہاں سے غائب ہو گئی۔

ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا تھا کہ اگر نرگس مقتول کو پسند کرتی تھی اور اس کی خاطر اپنا گھر چھوڑ کر آئی تھی تو پھر وہ اسے قتل کیوں کرے گی؟ میں نے اپنی سوچ کے زاویے کو تھوڑا تبدیل کر کے سوچا کہ کیا اس سارے کھیل میں کوئی تیسرا شخص ملوث ہو سکتا ہے؟ اگر ہو سکتا ہے تو وہ کون ہو سکتا ہے اور کیا اس نامعلوم شخص کی مدد سے نرگس نے، یا اس نامعلوم شخص نے نرگس کی مدد سے فرید کو ٹھکانے لگا دیا تھا؟ اگر مذکورہ نامعلوم شخص اور نرگس اندر سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے تو پھر یہ دونوں اب کہاں تھے؟

یہ تمام تر اور اس سے ملتے جلتے بہت سے سوالات نے میرے ذہن کو بری طرح الجھا دیا تھا اور سرِدست میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ جب تک نرگس ہاتھ نہیں آئے گی، یہ کیس یونہی ادھورا رہے گا۔ لیکن پھر یہ سوال مجھے بند گلی میں لا کھڑا کرتا تھا کہ میں نرگس کو کہاں تلاش کروں؟

یہ بات سامنے آ چکی تھی کہ مقتول فرید اپنے گھر سے دو اگست کو یہ بتا کر نکلا تھا کہ وہ اپنے ایک دوست عرفان کے پاس لاہور جا رہا ہے۔ وہ پہلے بھی عرفان سے ملنے جاتا رہتا تھا۔ مقتول گھر سے دو اگست کو نکلا تھا مگر وہ مریدکے چار اگست کو نرگس کے ساتھ پہنچا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ فرید نے دو اور تین اگست کے دونوں دن عرفان کے پاس لاہور میں گزارے ہوں گے۔ میں نے فوری طور پر لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔

مجھے یقین تھا کہ عرفان سے ایک تفصیلی ملاقات اس کیس کے سلسلے میں سودمند ثابت ہو گی۔ ہو سکتا تھا کہ وہاں سے کوئی ایسا اشارہ مل جاتا جو مقتول کی پراسرار موت اور نرگس کی گمشدگی پر روشنی ڈال سکتا۔ میں نے پہلے مقتول فرید کی لاش کو اس کے گاؤں بھجوانے کا انتظام کروایا اور پھر سرسری تیاری کر کے لاہور روانہ ہو گیا۔ عرفان لاہور میں ایک ڈبل روٹی بنانے والی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔

اس وقت دن کے ڈھائی بجے تھے۔ مریدکے سے لاہور کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا۔ مجھے مذکورہ فیکٹری تک پہنچنے میں لگ بھگ گھنٹہ سوا گھنٹہ لگا ہوگا۔ میں اس وقت عوامی لباس میں تھا۔ میں فیکٹری کے دفتری حصے میں داخل ہوا اور وہاں موجود انتظامیہ کے ایک سینئر آدمی سے ملاقات کی۔ اس کا نام سلیمان تھا۔ وہ فیکٹری میں مینیجر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ میں نے نہایت مختصر الفاظ میں اپنا تعارف کروایا اور اسے بتایا کہ میں ایک ضروری کام سے آپ کے پاس آیا ہوں۔ امید ہے کہ مجھ سے پورا پورا تعاون کریں گے۔ یہ جان کر کہ میں ایک تھانہ انچارج ہوں، سلیمان اٹھ کھڑا ہوا اور دوبارہ گرم جوشی سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا۔

ہاتھ ملانے کے بعد اس نے مجھے بڑے احترام سے کہا، ”آپ بیٹھیں جناب۔ میرے لائق جو بھی خدمت ہو، آپ حکم کریں۔ میں حاضر ہوں۔ اور اس حکم سے پہلے آپ یہ فرمائیں کہ آپ کے لیے ٹھنڈا منگواؤں یا گرم چلے گا؟“

میں نے کہا، ”سلیمان صاحب، کسی بھی تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ مجھ سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، یہی کافی ہے۔“

وہ پرخلوص انداز میں بولا، ”یہ کافی نہیں ہے جناب۔ کام اور کھانا پینا ایک ساتھ ہونا چاہیے۔“ مجھے اس کی مخلصانہ پیش کش کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور میں نے کہا، ”ٹھیک ہے، پھر آپ موسم کی مناسبت سے جو دل چاہے، وہ منگوا لیں۔“

سلیمان نے ایک ملازم کو بلا کر کھانے پینے کی چند چیزیں لانے کو کہا، پھر مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا، ”جی جناب، اب آپ فرمائیں، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“ میں نے گہری سنجیدگی سے کہا، ”آپ کی فیکٹری میں عرفان نامی ایک بندہ کام کرتا ہے۔ وہ مریدکے کے نواحی گاؤں کا رہنے والا ہے اور یہاں قریب ہی کسی بستی میں اس نے رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ اور وہ پچھلے دو سال سے اس فیکٹری میں ملازم ہے۔“

سلیمان نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ”ہاں، میں عرفان کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ فیکٹری سے تھوڑے فاصلے پر واقع کچی آبادی نامی ایک بستی میں رہتا ہے۔“

میں نے کہا، ”مجھے اسی عرفان سے کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے۔ آپ اسے ادھر ہی بلا لیں۔“

وہ تشویش بھرے انداز میں بولا، ”میں ابھی اسے بلاتا ہوں، لیکن آپ مجھے یہ تو بتائیں کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ادھر مریدکے میں کوئی بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔“

میں نے کہا، ”آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔“ پھر میں نے نہایت مختصر الفاظ میں اسے حالات کی سنگینی سے آگاہ کر دیا۔ اس نے ایک گہری سانس لے کر کہا، ”معاملہ تو خاصا خطرناک ہے۔“ پھر وہ اپنی کرسی چھوڑتے ہوئے بولا، ”آپ یہاں آرام سے بیٹھیں، میں خود اسے لے کر آپ کے پاس آتا ہوں۔“ پھر وہ چلا گیا۔ سلیمان کی واپسی لگ بھگ پانچ منٹ بعد ہوئی اور وہ خالی ہاتھ آیا تھا۔

وہ اپنی کرسی پر بیٹھ چکا تو میں نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا، ”جناب، عرفان تو ابھی تھوڑی دیر پہلے چھٹی لے کر اپنے گھر چلا گیا ہے۔“

میں نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا، ”کیا آپ کی فیکٹری میں اتنی جلدی چھٹی ہو جاتی ہے؟“

سلیمان نے کہا، ”نہیں جناب، چھٹی ہونے میں تو ابھی دو گھنٹے باقی ہیں۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک بندے نے بتایا ہے کہ عرفان بتا رہا تھا کہ گاؤں سے اس کا کوئی دوست ملنے آیا ہے، اس لیے آج وہ جلدی چھٹی کر کے گھر جا رہا ہے۔“ میں نے چونکتے ہوئے کہا، ”اس کا کوئی دوست گاؤں سے آیا ہے؟“ میں نے فوراً کرسی چھوڑتے ہوئے کہا، ”میں ابھی عرفان کے گھر جانا چاہتا ہوں۔ کیا آپ میرے ساتھ کسی ایسے بندے کو بھیج سکتے ہیں جس نے عرفان کا گھر دیکھ رکھا ہو؟“

سلیمان نے کہا، ”جناب، آپ فکر نہ کریں۔ میں خود آپ کو عرفان کے گھر لے چلتا ہوں، لیکن اس سے پہلے آپ کچھ کھا پی لیں۔ میں نے آپ کے لیے گرم چائے کے ساتھ گرما گرم سموسے منگوائے ہیں۔“

میں نے کہا، ”یہ تمام چیزیں میں بعد میں اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں گا۔ پہلے عرفان کی طرف جانا ضروری ہے۔“ وہ گہری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، ”میں آپ کی فرض شناسی کو سمجھ سکتا ہوں۔ آپ بس ایک منٹ رکیں، میں قدیر کو ساتھ لے لوں۔“

میں نے کہا، ”کون قدیر؟“

وہ بولا، ”جناب، قدیر بھی اسی فیکٹری میں کام کرتا ہے اور قدیر نے عرفان کا گھر دیکھ رکھا ہے۔ میں اپنی کار میں آپ کو وہاں لے جاؤں گا، قدیر ہماری رہنمائی کرے گا۔“

میں نے کہا، ”ٹھیک ہے، بس آپ جلدی کریں۔“ کچھ منٹ بعد ہم تینوں سلیمان کی کار میں بیٹھ کر عرفان کے گھر کی طرف جا رہے تھے کہ قدیر نے اچانک کہا، ”باو جی، باو جی! کار روک دیں۔“ قدیر یقیناً سلیمان کو کہہ رہا تھا۔

سلیمان نے الجھن زدہ انداز میں قدیر سے پوچھا، ”کیا ہوا قدیر، کیا بات ہے؟“

قدیر نے کہا، ”باو جی، مجھے لگتا ہے کہ وہ عرفان جا رہا ہے۔“ بات ختم کرتے ہی اس نے ایک جانب اشارہ بھی کر دیا۔

میں نے فوراً گردن گھما کر اشارے کی سمت دیکھا۔ وہاں سڑک پر ایک جوڑا چلا جا رہا تھا۔ ان کی پشت ہماری طرف تھی۔ میں نے قدیر سے پوچھا، ”تم اس جوڑے کی بات کر رہے ہو؟“

وہ بولا، ”جی ہاں۔ جب باو جی کار موڑی تھی تو میں نے عرفان کی ایک جھلک دیکھ لی تھی۔“ میں چونکہ سلیمان کو سارا قصہ سنا چکا تھا، اس نے مجھ سے پوچھا، ”اب بتائیں جناب، کیا کرنا ہے؟“ میں نے کہا، ”آپ اپنی کار کو اسی سمت لے چلیں جدھر وہ جا رہے ہیں اور ان سے تھوڑا آگے جا کر رک جائیں۔ میں اس لڑکی کا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔“

سلیمان نے کہا، ”جناب، یہ رانگ سائیڈ ہے۔ ان کے پیچھے جانے کے لیے ہمیں کافی دور سے گاڑی موڑ کر لانی پڑے گی۔ اگر آپ کہیں تو یہیں سے گاڑی گھما لیتا ہوں۔“

میں نے کہا، ”میں آپ کو قانون شکنی کا حکم نہیں دوں گا۔ آپ مجھے یہیں اتار دیں اور اگلے کٹ سے گاڑی گھما کر واپس آ جائیں۔ میں جب تک پیدل ہی ان کا تعاقب کرتا ہوں۔“ سلیمان نے کوئی سوال کیے بغیر مجھے وہیں اتار دیا اور گاڑی کو آگے لے گیا۔ میں تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس جوڑے کے پیچھے چل پڑا جس کے بارے میں قدیر نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ عرفان کسی عورت کے ساتھ جا رہا ہے۔

میں نے اس سے پہلے عرفان کو نہیں دیکھا تھا، البتہ نرگس سے میری ایک بھرپور ملاقات ہو چکی تھی۔ میں اس کا چہرہ دیکھتے ہی پہچان جاتا۔ اگر یہ عورت نرگس ہی تھی تو پھر کیس حل ہونے میں منٹ نہیں، صرف چند سیکنڈ ہی باقی تھے۔ میرے حواس پوری طرح بیدار ہو گئے اور میں دل و جان سے کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کے لیے پوری طرح تیار ہو گیا۔ میں نہایت مہارت کے ساتھ دبے قدموں ان کے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ جب ہمارے بیچ محض دس فٹ کا فاصلہ رہ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں دائیں جانب مڑ گئے۔ اس طرف سڑک کنارے ایک سینما بنا ہوا تھا۔ گویا وہ دونوں فلم دیکھنے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ جب وہ سینما کے گیٹ کی طرف مڑے تو میں لڑکی کے چہرے کی ایک جھلک دیکھنے میں کامیاب ہو گیا۔

اس عورت کو دیکھ کر میرے اعصاب تن گئے کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ نرگس ہی تھی۔ وہی نرگس جس کی تلاش نے مجھے بری طرح بے چین کر رکھا تھا۔ میں ان کے پیچھے لپکا اور بہ آوازِ بلند پکارا، ”نرگس!“

وہ دونوں ٹھٹک کر رک گئے، پھر انہوں نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ مجھے ان کی آنکھوں میں حیرت کے تاثرات نظر آئے۔ مجھے دیکھتے ہی نرگس کا چہرہ خوف سے پیلا ہو گیا۔ نرگس نے ایک طرف بھاگنے کی کوشش کی تو میں نے کسی عقاب کی طرح جھپٹ کر اسے قابو کر لیا اور اس کی کلائی کو ایسا مروڑا دیا کہ وہ حلق پھاڑ کر چیخنے پر مجبور ہو گئی۔ میں نے دھاڑتے ہوئے کہا، ”تم ایک بار گھر سے بھاگ چکی ہو، یہی کافی ہے۔ اب میں تمہیں اور کہیں نہیں بھاگنے دوں گا۔ تم یہاں سے سیدھی جیل جاؤ گی۔“

اس ناگہانی صورتِ حال نے عرفان کو بوکھلا دیا اور اسی بوکھلاہٹ میں اس نے ایک طرف دوڑ لگا دی۔ میں نے فوراً اپنا سروس ریوالور نکال لیا، لیکن اس سے پہلے کہ میں اسے دھمکانے کے لیے ہوائی فائر کرتا، سلیمان موقع پر پہنچ گیا۔ سلیمان نے دور سے مجھے دیکھ لیا اور بڑی تیزی سے اپنی کار ہماری جانب بڑھا دی تھی۔ اتفاق سے عرفان نے بھی اسی سمت فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ عرفان تیزی سے دوڑتا ہوا سلیمان کی کار سے ٹکرایا اور پھر وہیں زمین پر گر کر کراہنے لگا۔ اس کے گھٹنوں پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔ سلیمان اور قدیر کار سے باہر نکل آئے اور انہوں نے بڑی آسانی سے عرفان کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ اس افراتفری کو دیکھ کر بہت سے لوگ وہاں جمع ہو گئے۔

جب کوئی مجرم کسی ٹھوس ثبوت کے ساتھ پولیس کے ہاتھ آ جاتا ہے تو پھر اس کی زبان کھلوانا مشکل نہیں ہوتا۔ اسی شام میں سلیمان کی کار میں بیٹھا کر نرگس اور عرفان کو تھانہ مریدکے لے آیا۔ تھانے پہنچ کر میں نے نرگس اور عرفان کو اپنے سامنے کھڑا کر کے دھمکی آمیز لہجے میں کہا، ”تم لوگ سیدھی طرح سچ سے پردہ اٹھاؤ گے یا میں تمہاری زبانیں کھلوانے کے لیے تفتیش کا وہی پولیس والا روایتی طریقہ اختیار کروں؟“

میں نے انہیں ایک موقع فراہم کیا تھا تاکہ وہ سلامت ہڈی پسلی کے ساتھ جیل کی ہوا کھا سکیں، لیکن میری بات ان کی سمجھ میں نہیں آ سکی اور وہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود مجھے الٹی سیدھی کہانیاں سنانے لگے۔ ان کی ان نامعقول حرکتوں پر مجھے سخت غصہ آیا اور میں نے انہیں ایک گھنٹے کے لیے اپنے ایک جلاد صورت حوالدار کے حوالے کر دیا۔

ایک گھنٹے سے بھی پہلے حوالدار کی محنت رنگ لے آئی اور وہ دونوں ملزمان کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے میرے کمرے میں لے آیا۔ میں نے سوالیہ نظر سے حوالدار کی طرف دیکھا تو وہ بولا، ”یہ لیجیے جناب، میں نے ان دونوں کے پرزے سیٹ کر دیے ہیں۔ اب ان کی زبانیں رواں ہو چکی ہیں۔ ایک لمحے کے لیے بھی کہیں نہیں رکیں گی۔ آپ جو پوچھیں گے، یہ فر فر جواب دیں گے۔“

میں نے حوالدار کو کمرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا اور ملزمان کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وہ گردنیں جھکائے کھڑے تھے۔ میں نے ان کے چہروں کا جائزہ لینے کے بعد طنزیہ لہجے میں کہا، ”اگر تم لوگ شرافت سے میری بات مان کر سب کچھ مجھے سچ سچ بتا دیتے تو تمہیں ایسی تکلیف دہ صورتِ حال سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ بہرحال مجھے امید ہے کہ اب تم میرے کسی سوال کے جواب میں اٹکو گے نہیں!“

آئندہ ایک گھنٹے میں میری پوچھ گچھ کے جواب میں انہوں نے بڑی دیانت داری کے ساتھ جو کہانی سنائی، اس کہانی کے مطابق نرگس اور عرفان میں بڑی ہی خفیہ سیٹنگ چل رہی تھی اور اسی دوران فرید بھی نرگس میں دلچسپی لینے لگا۔ فرید اور عرفان میں اچھے تعلقات تھے، لیکن عرفان کے مطابق اس نے کبھی فرید کو اپنا جگری یار نہیں سمجھا تھا۔ اس لیے عرفان نے فرید کو اپنے اور نرگس کے تعلقات کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔ لیکن جب نرگس کی زبانی عرفان کو پتہ چلا کہ فرید بڑی تیزی سے نرگس کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ تشویش میں مبتلا ہو گیا۔ وہ کھلم کھلا فرید کو اس تعلق سے منع نہیں کر سکتا تھا کیونکہ پھر اسے فرید کو منع کرنے کی وجوہات بھی بتانی پڑتیں!

ابھی یہ الجھن چل ہی رہی تھی کہ نرگس کے باپ نے نرگس کی منگنی اپنے دوست کے بیٹے جاوید سے کر دی، جبکہ نرگس اس شادی کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ چنانچہ اس صورتِ حال نے نرگس کے ساتھ ساتھ عرفان کو بھی بری طرح بوکھلا کر رکھ دیا۔ عرفان کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ کھلے عام نرگس کو اپنانے کے لیے کوشش نہیں کر سکتا تھا کیونکہ دونوں کے خاندانوں میں دیرینہ دشمنی چلی آ رہی تھی۔ عرفان مسلسل اس الجھن کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر اس کے ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ آ ہی گیا۔

اس نے نرگس کو اعتماد میں لے کر اپنے منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کر دیا۔ نرگس عرفان پر اندھا بھروسہ کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی، اس لیے عرفان کی بتائی ہوئی ترکیب پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتی چلی گئی۔ وہ گھر سے بھاگ کر مریدکے پہنچی جہاں وہ عرفان کی ہدایت پر چند روز کے لیے فرید کے ساتھ بیوی کی حیثیت سے رہنے کے لیے تیار ہو گئی۔ عرفان نے نرگس کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ اس کے کہنے پر من و عن عمل کرتی رہی تو ہفتے دس کے بعد وہ اس کے پاس ہوگی اور پھر وہ شادی کر کے لاہور میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لیں گے۔ عرفان نے نرگس کو سختی سے یہ تاکید کی تھی کہ اندر کی بات کا فرید کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ نرگس نے اس کی ہدایت پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

دوسری جانب عرفان فرید کو کوئی اور ہی پٹی پڑھا رہا تھا۔ اس نے فرید سے کہا کہ اگر وہ اس کی بات مانے گا تو وہ نرگس کو اس کی طرف نہ صرف مائل کرے گا بلکہ ایک دن وہ اسے فرید کی بیوی بھی بنا دے گا۔ عرفان ہی کے کہنے پر فرید دو دن پہلے گھر سے نکلا تھا تاکہ نرگس کے غائب ہونے کا اس پر شک نہ ہو۔ عرفان نے نرگس کو سمجھا دیا تھا کہ اسے ہفتہ دس دن فرید کی بیوی کا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اس طرح وہ خود کو بھی محفوظ رکھے گی اور پھر کوئی مناسب موقع دیکھ کر وہ نرگس کو اپنے ساتھ لاہور لے جائے گا۔ نرگس چونکہ عرفان پر اندھا اعتماد کرتی تھی، اس اللہ کی بندی نے ایک بار بھی عرفان سے یہ سوال نہیں کیا کہ اسے عرفان کی بیوی بننے کے لیے اس گھما گھری کی کیا ضرورت ہے۔ شاید اس کی عقل پر پتھر پڑ گئے تھے۔

سب کچھ عرفان کی پلاننگ کے عین مطابق عمل میں آ گیا تھا۔ دوسری طرف فرید نرگس کو پا کر بہت خوش تھا اور خود کو عرفان کا بہت زیادہ احسان مند سمجھ رہا تھا۔ اس بے چارے کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کا دوست کون سی چال چل رہا ہے۔ فرید چونکہ نرگس کے ساتھ رہا تھا، اس لیے وہ حد سے گزرنے کی کوشش بھی کر رہا تھا، لیکن نرگس اسے یہ کہہ کر ٹال رہی تھی کہ نکاح سے پہلے کچھ نہیں ہو گا۔ البتہ ہلکی پھلکی دست درازی کی اسے اجازت دے رکھی تھی۔ وہ بھی ایسا ہی ایک موقع تھا جس رات اے ایس آئی نے انہیں فحش حرکات کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

پروگرام کے مطابق ایک رات نرگس نے کھانے میں خواب آور دوا ملا کر فرید کو بے ہوش کرنا تھا، جس کے بعد وہ عرفان کے ساتھ لاہور چلی جاتی! یہ خواب آور دوا بھی عرفان نے ہی نرگس کو لا کر دی تھی۔ جس رات وہ دوا نرگس نے کھانے میں ملا کر فرید کو دی، اس رات عرفان آدھی رات کے بعد نعمت بی بی کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے بیٹھک کے بیرونی دروازے پر مخصوص دستک دی تو نرگس دروازہ کھول کر باہر گلی میں آ گئی۔ عرفان نے اسے باہر ہی رکنے کو کہا اور خود بیٹھک میں داخل ہو گیا۔ اندر آ کر اس نے بیٹھک کے دروازے کو کنڈی لگا لی، بے سدھ پڑے فرید کے سینے میں خطرناک خنجر اتارا، بیٹھک کے اندرونی دروازے سے گزر کر صحن میں پہنچا اور پھر گھر کا داخلی دروازہ کھول کر باہر گلی میں آ گیا جہاں نرگس اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ پھر وہ دونوں لاہور روانہ ہو گئے۔ اس موقع پر بھی نرگس نے عرفان سے کوئی سوال نہ کیا اور یہ بات بھی اس کے علم میں نہیں تھی کہ عرفان نے فرید کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہے۔

وہ دونوں لاہور پہنچے اور مزے سے کچی آبادی والے گھر میں رہنے لگے۔ مجرموں کے اقبالی بیان کے بعد یہ کیس ہر زاویے سے حل ہو گیا تھا۔ تاہم اس کیس کا ایک پہلو کانٹے کی طرح میرے ذہن میں کھٹک رہا تھا۔ میں نے اپنی خلش مٹانے کے لیے عرفان سے پوچھا، ”جب تمہارا منصوبہ سو فیصد کامیاب ہو چکا تھا تو پھر تم نے اس بد نصیب فرید کی جان کیوں لی؟“

عرفان ندامت آمیز لہجے میں بولا، ”میرے اس فعل کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ جب صبح فرید اٹھے گا تو نرگس کو غائب پا کر وہ سیدھا میرے پاس لاہور آئے گا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ کسی صورت نرگس کو میرے پاس دیکھے، اس لیے میں نے اس کا قصہ ہی پاک کر دیا۔ اور فرید کو قتل کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ میں اس طرح پولیس کی تفتیش کا رخ بدلنا چاہتا تھا۔ جب نرگس کی گمشدگی کی اطلاع تھانے پہنچتی تو تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آتی کہ فرید کو قتل کر دیا گیا ہے تو پولیس کا دھیان نرگس کے منگیتر جاوید کی طرف جاتا کہ جاوید نے غیرت میں آ کر فرید کو قتل کر دیا ہے۔“

میں نے اس کا بیان سن کر کہا، ”عرفان، میں سمجھا تھا تم ایک چالاک اور ہوشیار شخص ہو، مگر تم تو انتہائی بزدل انسان ہو۔“

عرفان حیرت بھری نظر سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، ”بزدل کیوں جی؟“

میں نے کہا، ”اگر تم جری ہوتے تو نرگس کو حاصل کرنے کے لیے اتنا لمبا چوڑا چکر نہ چلاتے کہ جس میں ہر لمحے نرگس بے چاری کی زندگی اور عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ تم اگر مرد کے بچے بنتے اور نرگس کو اپنے زورِ بازو پر بھگا لے جاتے! مگر تم نے جس کردار کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے تو مجھے تمہاری مردانگی پر ہی شک ہونے لگا ہے۔“ عرفان کچھ نہیں بولا اور گردن جھکا دی۔

نرگس نے نفرت بھرے انداز سے عرفان کو گھورا اور غرات آمیز لہجے میں بولی، ”اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم اندر سے اتنے بزدل اور کمینے ہو تو میں تمہاری باتوں میں کبھی نہ آتی۔ اب میں تمہارے ساتھ ایک پل بھی نہیں رہوں گی۔“

میں نے تلخ لہجے میں کہا، ”ساتھ رہنے کی نوبت آئے گی تو ساتھ رہو گی۔ یہ تمہارا عاشق تو یہاں سے سیدھا جیل جائے گا۔“

نرگس پھٹی ہوئی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی اور میں رات کے اس قصے کو سمیٹنے کی تیاری میں لگ گیا۔

(ختم شد)
romantic stories 
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ