سوتن کی موت

Sublimegate Urdu Stories

واحد بخش مہرو کا چچازاد تھا۔ دیہات میں رشتے کم سنی ہی میں طے کر دیے جاتے ہیں، سو اُن کی نسبت بھی بچپن سے طے تھی۔ جوانی آئی تو بچپن کا ساتھ رنگ لایا اور نوعمری کے خوابوں میں شوخ رنگ بھرے جانے لگےمنگنی سے شادی کے دن تک دونوں گھرانوں میں محبت قائم رہی۔ اُن کو زمانے سے بھی ٹکر نہ لینی پڑی اور شادی دھوم دھام سے ہو گئی۔ شادی کے بعد مہرو کی زندگی کے دن نہایت سہانے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ ساری دنیا کی خوشیاں اُس کے قدموں میں بکھری ہوں۔ واحد بخش اب رفیقِ زندگی بن چکا تھا اور اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ وہ مہرو کی ذرا سی تکلیف برداشت نہ کرتا تھا۔ اگر وہ ایک پھول کی چاہ کرتی، واحد اُس کے لیے پورا باغ خریدنے کو تیار ہو جاتا۔ کہتا تھا:مہرو! تیرے بغیر زندگی ایسی ہے جیسے نور کے بغیر آنکھیں ۔ انسان جب ایسی باتیں کرتا ہے تو تقدیر کو ہنسی آتی ہے۔ نجانے مہرو سے کون سی بھول ہوگئی کہ خوشیوں کے چند برس بعد اچانک اُس کی پھولوں بھری زندگی میں انگاروں کا ایسا طوفان آیا کہ سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔
 
 ایک روز وہ کھیتوں میں گھاس لینے گئی تو ایک عورت نے اسے کہا:مہرو! سنا ہے تیرا واحد کسی البیلی کے چکر میں ہے اُسے یقین نہ آیا کہ اس کی محبت کا بٹوارا بھی ہوسکتا ہے۔ اُس نے پوچھا: یہ بات تم نے کس سے سنی ہے؟ عورت بولی: اپنے گھر والے سے۔ چرچے تو سارے گاؤں میں ہیں، ایک تو ہی بے خبر ہے- مہرو نے پورے یقین سے کہا: کیا مجھ جیسی عورت کوئی ناگن بن کر میری دولت کے اس خزانے کو لوٹ سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! مگر جب اُس ناگن کا زہر آہستہ آہستہ اُس کی ہنستی بستی زندگی کو نیلا کرنے لگا تو وہ تھٹھّر کر رہ گئی۔ آہ… یہ سچ تھا۔ اُس کا عزیز از جان رفیقِ حیات ایک دوسری دوشیزہ کے دامِ الفت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ مرجانا بھی اُس کے اختیار میں نہ رہا۔ وہ تین بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی۔ جب شوہر منہ نہ لگاتا تو جینے کو جی کیونکر چاہتا؟ کہاوت تھی کہ محبت سے دل جیتے جاتے ہیں، مگر یہاں تو اپنا آپ مٹا کر بھی وہ واحد بخش کو واپس نہ لا سکی تھی۔ وہ اسے پکارتی، آوازیں دیتی، مگر اُس شخص کو مہرو کی کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔ اسے سمجھ نہ آتی کہ کس جادوگرنی نے اُس کے شوہر پر جادو کر دیا ہے۔ بالآخر وہ دن بھی آیا کہ رفتہ رفتہ اُس کا محب اُس سے کوسوں دور جا چکا تھا۔ واحد بخش کی نئی محبت کی کشتی دنیا کے پرلے کنارے جا لگی۔

اب وہ اس گھر میں چچا اور چچی کے سہارے رہ رہی تھی جو کہا کرتے تھے: تو ہی ہماری بہو ہے، اسی گھر کی مالک ہے، ہماری تین پوتیوں کی ماں ہے۔ ہم کسی اور عورت کو تیری جگہ قبول نہیں کریں گے۔وہ اپنے بیٹے کی مہرو سے بے رخی بھی دیکھ رہے تھے اور مہرو کا صبر بھی۔ اُس نے شوہر کی بے رخی کے طمانچے، اُس کی بیزاری کے تیر اور اُس کی بےوفائی کے گھاؤ سب دل پر سہے، مگر اپنی محبت اور خدمت میں کبھی کمی نہ آنے دی۔ نہ ہی ساس سسر کو رنجش کا کوئی موقع دیا۔ آخرکار وہ تھک ہار کر بالکل خاموش ہو گئی۔اب نہ شکایت کرتی، نہ کوئی فرمائش۔ جیون ساتھی پھر بھی خفا رہتا۔وہ گرم گرم کھانا اس کے سامنے رکھتی، وہ دھتکار دیتا۔وہ ہاتھ جوڑ کر کہتی: کھانا تو کھا لو… وہ بات ہی جھٹک دیتا۔شادی کے پہلے دن کی محبت کا واسطہ دے کر کہتی کہ اگر کسی عورت سے دل لگا لیا ہے تو صاف کہہ دوتب وہ اسے مارنے پیٹنے لگتا۔
 
وہ اتنا روتی کہ اُس کے آنسوؤں سے واحد بخش کے پاؤں بھیگ جاتے مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ وہ مہرو کو دھکا دے کر گھر سے نکل جاتا- ساس سسر بیٹے کی اس سنگ دلی پر دم بخود تھے۔ اُن کا واحد کبھی ایسا سفّاک نہ تھا، اور مہرو کے معاملے میں تو اس کا دل ریشم کی طرح نرم ہوا کرتا تھا۔ ماں باپ کے سمجھانے پر اس نے ان سے بھی بات چیت ختم کر دی۔ اسی اثنا میں اللہ نے مہرو کو ایک بیٹا بھی دے دیا، مگر واحد نے نہ بیٹے کی صورت دیکھی نہ اسے گود میں لیا۔ وہ صاحباں کو بیاہ کر گھر لانا چاہتا تھا، جبکہ باپ اس کی اجازت نہ دیتا تھا۔ اس خاموش اور سرد جنگ سے تنگ آکر بالآخر غم کے مارے بوڑھے باپ کا انتقال ہو گیا۔باپ کے مرنے کے بعد واحد بخش کا رہا سہا لحاظ بھی جاتا رہا، اور وہ ماں کی خفگی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی البیلی کو بیاہ کر گھر لے آیا۔ جس روز شوہر دوسری عورت کے ساتھ گھر میں داخل ہوا، مہرو کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ کئی دن تک وہ کونوں کھدروں میں منہ چھپا چھپا کر روتی رہی۔

ایک روز روتے روتے بے ہوش ہو گئی تو ساس نے اسے چند دن کے لیے میکے بھیج دیا۔ مہرو نے بھی سوچا کہ اچھا ہے، ان سے دور ہو جاؤں تاکہ وہ کھل کر اپنی نئی دلہن سے ہنس بول سکے۔ شاید اس طرح انہیں بھی اور خود اسے بھی کچھ سکون مل جائے۔ مگر سکون کہاں ملتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ انسان اپنے جسم کے دو ٹکڑے ہونا تو گوارا کر لیتا ہے، مگر اپنی محبت کے دو حصّے ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔میکے میں بھی مہرو کو چین نہ ملا۔ یہاں واحد بخش کی بہن اس کی بھابی تھی، جو اوپر اوپر سے ہمدردی کرتی مگر دل سے خوش تھی کہ اس کا بھائی نئی نویلی دلہن بیاہ لایا ہے۔ 
 
مہرو رات کو سوتے سوتے اٹھ بیٹھتی اور واحد کا نام پکارنے لگتی۔ ماں اور بھائی اسے منع کرتے کہ اب اُس بےوفا کا نام اپنے لبوں پر نہ لایا کرو، مگر یہ اس کے اختیار کی بات نہ تھی۔ بچپن سے لے کر آج تک واحد بخش کی محبت اس کے دل میں یوں گڑی تھی جیسے زمین کے سینے میں پہاڑ پیوست ہوتا ہے۔مہرو کو پورے سال تک بھائی نے واپس سسرال نہ جانے دیا۔ اس دوران اس کی سوتن ایک بیٹے کی ماں بن گئی اور گھر کی بہو تسلیم کر لی گئی۔ مہرو کی بھابی اسے مبارک باد دینے گئی اور ساس نے بھی دوسری بیوی کے بیٹے کو دل سے لگا لیا۔ ادھر مہرو اپنی بچیوں کے لیے دن رات پریشان رہتی تھی۔ آخرکار ایک روز اس نے ساس کو پیغام بھیجا کہ آ کر مجھے لے جاؤ۔ میرا واحد بخش سے کوئی واسطہ نہ سہی، کم از کم اپنی بیٹیوں کے پاس تو رہوں گی۔
 
ساس خود بھی یہی چاہتی تھی کہ مہرو آجائے، وہ بڑھاپے میں اس کی بچیوں کو نہیں سنبھال سکتی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کو بلا کر کہا کہ تم شوہر کو سمجھاؤ کہ وہ مہرو کو نہ روکے۔ اگر وہ گھر آنا چاہتی ہے تو آنے دے۔ حضور بخش نے کیوں اسے زبردستی روک رکھا ہے؟ واحد بخش اپنی بچیاں نہیں دے گا، اور مہرو ساری عمر جدائی کا ماتم کرتی رہے گی۔بھابی نے ماں کے کہنے پر اپنے شوہر، یعنی مہرو کے بھائی، کو بہت سمجھایا اور آخرکار اسے راضی کرلیا کہ وہ بہن کو دوبارہ اس کے شوہر کے گھر چھوڑ آئے۔ حضور بخش نے کہا: مہرو جانا چاہتی ہے تو بے شک جائے۔ میں چھوڑنے نہیں جاؤں گا۔ جانتا ہوں وہاں اس کی مٹی پلید ہو جائے گی۔ اگر تمہاری ماں آکر لے جائے تو بے شک لے جائے، میں نہ روکوں گا۔بیٹی کا پیغام ملا۔ ساس مہرو کو لینے آگئی۔ ماں نے بھی سمجھایا کہ اب وہاں جاکر خوش خوش رہنا۔ مرد اور شادیاں کرتے ہی ہیں۔ عورت کو اپنے گھر کی چار دیواری اور اپنی اولاد کی فکر کرنی چاہئے، مرد کی نہیں۔ مہرو نے شوہر سے دستبرداری کا سمجھوتہ کرلیا۔ وہ خاموشی سے سارے گھر کا کام کرتی اور کسی سے بھی کلام نہ کرتی۔ واحد بخش تو اب اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔ گویا اس کا وجود اب اس گھر میں موجود ہی نہ تھا۔

وقت گزرنے لگا۔ سوتن کا بیٹا چھ برس کا ہوگیا۔ وہ مہرو کے بیٹے کو مارتا، پیٹتا اور وہ اف نہ کر سکتی۔ جاڑے کے دنوں میں واحد بخش کے چھوٹے لڑکے کو بخار ہوگیا۔ وہ پریشان حال اس کو ڈاکٹر کے پاس لئے پھرا۔ کچھ دنوں کے بعد مہرو کے بچوں کو بھی بخار نے آلیا۔ اس نے ساس سے کہا کہ واحد بخش سے کہو ان کو بھی ڈاکٹر کو دکھا دے۔ یہ سن کر وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ مہرو کے منہ پر تھپڑ مار کر کہا۔ کیا تو یہ چاہتی ہے کہ بیٹیوں کو ڈاکٹر کو دکھانے جائوں، یہاں گائوں میں بے غیرت لڑکیوں کو اسپتال لے جاتے ہیں؟ بخار کی گولیاں کھلا دو خود بی ٹھیک ہوجائیں گی۔ آئندہ لڑکیوں کو گھر سےباہر لے جانے کی بات نہ کرنا ورنہ جان سے مار دوں گا۔ اگلے دن منجھلی لڑکی کی حالت خراب ہوگئی۔ ممتا سے مجبور ہوکر وہ سوتن کے کمرے میں چلی گئی اور واحد بخش سے منت سماجت کرنے لگی کہ لڑکی کو بہت تیز بخار ہے۔
 
 خدارا اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جائو۔ ایسا نہ ہو کہ بخار اس کے سر پر چڑھ جائے اور لڑکی جان سے جائے۔ واحد بخش خاموش لیتا رہا، کوئی جواب نہ دیا تو مہرو نے آگے بڑھ کر اسکے پیر پکڑ لئے تبھی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور مہرو کو اتنے زور کا دھکا دیا کہ اس کا سر صندوق سے جا ٹکرایا۔ سر سے خون بہہ نکلا۔ روتی ہوئی باہر آ گئی۔ بیٹی بخار سے بے ہوش پڑی تھی۔ اس نے پڑوسن کو بھیج کر بھائی کو بلوایا اور کہا کہ تم ہی میری بچی کو اسپتال لے جائو ورنہ یہ مر جائے گی۔ بھائی نے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی رو مت میری بہن! زندگی اور موت الله کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ٹھیک ہوجائے گی۔ اگر میں تیری لڑکی کو اسپتال لے گیا، واحد بخش فساد کرے گا۔ بہتر ہے کہ تم ہی میرے ہمراہ چلی چلو اور بچیوں کو ان کے باپ کے پاس رہنے دے۔ مہرو ماں کا دل رکھتی تھی، اس نے بھائی کی بات نہ مانی۔ وہ واپس لوٹ گیا۔ اگلے دن بچی کا انتقال ہوگیا۔اب مہرو کے دل کی دنیا لٹ گئی، وہ بین کرنے لگی تب شوہر نے سالے کو بلایا اور کہا۔ اپنی بہن کو ساتھ لے جائو یہ روز بین کرکے ہمارا سکون خراب کرے گی۔ بچی میری بھی تھی، اس کے مرنے کا دکھ مجھے بھی ہے مگر خدا کی مرضی اس کی زندگی ہی اتنی تھی۔ صبر تو کرنا پڑتا ہے مگر تمہاری بہن نے تو بیٹی کو مرنے کو تماشا بنا لیا ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ اب مہرو کو رکھنا نہ چاہتا تھا اور اپنی بہن کی وجہ سے اس کو گھر سے نکال بھی نہ سکتا تھا۔ صاحباں کہتی کہ مہرو چلی گئی تو میں پال لوں گی تمہاری بچیوں کو۔ یوں بھی ان کو مہرو کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ہوں نا ان کی ماں …!جب حضور بخش نے بہن کے سر میں خون لگا دیکھا۔ پوچھا۔ یہ کیا ہوا، کیسے چوٹ لگی ہے؟ وہ شوہر کا پردہ رکھ گئی۔ کہا کہ صندوق سے لحاف نکال رہی تھی، اس کا ڈھکن سر پر آ لگا تبھی چوٹ لگ گئی۔ یہ سن کر واحد بخش کمرے سے نکلا اور کہا۔ یہ جھوٹ کہتی ہے۔ اسے ڈھکن لگنے سے چوٹ نہیں آئی بلکہ میں نے مارا ہے اسے … تم اپنی بہن کو گھر لے جائو ورنہ میں یونہی مار مار کر اس کو ختم کردوں گا، تبھی حضور بخش کو بھی غصہ آگیا۔ کہنے لگا۔ مجھے اگر اپنے بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں بھی تمہاری بہن کو دروازے پر پہنچا دیتا۔ مہرو سے کہا کہ کیا اب بھی ادھر رہو گی؟ چلو میرے ساتھ ورنہ میں بھی تم ہی کو ماروں گا۔ 
 
وہ زبردستی مہرو کو اپنے ساتھ گھر لے آیا۔ باپ فالج زده تها اور ماں بے چاری کیا کرسکتی تھی۔ مہرو نے بھائی کا مان رکھ لیا اور واپس شوہر کے گھر نہ گئی۔ بچیوں کی جدائی اس کو ستاتی تھی تب مہرو کی چاچی کسی بہانے ان کو ماں سے ملانے لے آتی۔ مہرو کے لئے وقت ساکت شے تھا کہ وہ جامد ہوکر رہ گیا تھا جیسے کہ دبے قدموں گزرنا بھی بھول گیا ہو۔ اس کو دن کے رات میں اور رات کے دن میں بدلنے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اس کی سانس چلتی تھی مگر جینے کا احساس باقی نہ رہا تها البتہ بچیاں جب یاد آتیں تو اس خاموش پتھر کی مورتی کی آنکھوں سے آنسو ضرور بہہ نکلتے تھے۔بیٹا پاس تھا شاید کہ اسی کی خاطر سانس چلتی تھی ورنہ اس کو خود اپنا وجود فاضل اور بیکار لگتا۔

سوچتی تھی نجانے کیوں زندہ ہے، کس لئے جی رہی ہے۔ جی بھی رہی ہے یا نہیں؟بیٹا دس برس کا ہوگیا۔ وہ جب چاہتا باپ سے مل سکتا تھا لیکن بیٹیاں واحد کی اجازت کے بغیر اپنی پھوپی کے گھر بھی نہیں جاسکتی تھیں کہ جہاں سگی ماں رہتی تھی البتہ حضور بخش کی بیوی جب مہرو کو بہت زیادہ اداس دیکھتی تو اس کا دل پسیج جاتا تب کسی بہانے ماں کو کہلواتی۔ یوں بچیاں دادی کے ہمراہ پھوپی کے گھر آجاتیں اور مہرو سے مل جاتیں۔ کہتے ہیں مالک کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اس بات میں شک نہیں۔ایک دن واحد بخش رنجیده صورت مہرو کو لینے آگیا۔ اس نے کہا۔ صاحباں کے تینوں بچے بن ماں کے ہوگئے ہیں، وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر چلی گئی ہے اور ان معصوموں کو ماں کی ضرورت ہے تبھی میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ 
مہرو گھر چلو۔ وہ اک بے جان مورتی کی مانند اپنے محبوب شوہر کا منہ تکنے لگی۔ اس کا چہرہ اداس اور اجڑا ہوا دیکھ کر مہرو کا دل پھٹنے لگا، تبھی بے ساختہ بول پڑی۔ کیا ہوا ہے تیری صاحباں کو ؟ مجھے بتا تو سہی۔ میں جاکر اس کو منا لاتی ہوں۔ میں تجھے اداس نہیں دیکھ سکتی واحد بخش خاموش رہا زیاده دیر مت کر، چادر اٹھا اور اب چل- بھائی سے تو پوچھ لوں، اس سے اجازت لینے دے اور ابا … ان سب کو چهوڑ صاحباں کا انتقال ہوگیا ہے۔ انتقال ہوگیا ہے۔ اچانک سے… کیسے، كب؟ حیرت زدہ ہوگئی تھی کہ واحد جھوٹ کہہ رہا ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت واحد نے مختصراً جواب دیا۔ اور بچہ … بچہ حیات ہے؟ خیریت سے ہے اماں کے پاس ہے مگر وہ نہیں سنبھال سکتی تبھی اس نے مہرو کی ماں سے کہا۔تائی میں مہرو کو لئے جارہا ہوں، جلدی میں ہوں۔ گھر پر صاحباں کی میت تیار ہے، قبرستان لے جانا ہے اسے! آپ زہرا بہن کو لے کر آنے کی كرو.باہر موٹر سائیکل کھڑی تھی۔ واحد نے مہرو کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور گھر لوٹ آیا۔ گھر کے باہر دری بچھی تھی۔ 
 
کچھ لوگ چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایسا سوگ کا عالم تھا کہ اس کا کلیجہ باہر آنے لگا۔ اس کی سوتن کی وفات ہوگئی تھی۔ گھر کی دہلیز پار کرتے ہی وہ دوڑی ہوئی اندر گئی۔عورتوں کے مجمع کو چیرتی ہوئی اس نے صاحباں کے روتے ہوئے بچوں کو بانہوں میں بھر لیا اور ان کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے سوتن نہیں، وہ خود مر گئی ہو۔ کوئی عورت سوتن کے مرنے پر بھی روتی ہوگی لیکن مہرو عجیب عورت تھی۔ وہ سوتن کے مر جانے پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ دراصل اس کو یہ محسوس ہورہا تھا کہجیسے صاحباں نہیں مری آج وہ خود حقیقی معنوں میں مر گئی ہے۔

(ختم شد)
romantic stories 
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ