شیطان کا مسکن

Sublimegate Urdu Stories

کچھ دنوں سے اسے ایک چپ سی لگ گئی تھی۔ نہ وہ گھر کے کام کاج میں دلچسپی لیتی تھی اور نہ اپنے معصوم بچے کو دیکھتی تھی۔ گھر کے سامان کو چھوتی تک نہ تھی، بس گھبرا گھبرا کر چاروں طرف دیکھتی، پھر رونے لگتی۔ روتے روتے آنکھیں سرخ ہو گئیں اور سیاہ حلقے پڑ گئے۔ ڈاکٹروں کی سمجھ میں اس کا مرض نہ آیا۔ ایک پیر صاحب نے انکشاف کیا کہ اس پر کچھ اثر ہو گیا ہے۔ گھر والے یہ سن کر سہم گئے۔ ساجدہ نیک عورت تھی، شوہر کی اطاعت گزار، چار بچوں کی شفیق ماں۔ شادی کو چھ برس گزر چکے تھے۔ معصوم بچوں کو سنبھالنا اور گھر کا کام ایک عورت کو تمام دن مصروف رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ سارا دن وہ اپنے کاموں میں لگی رہتی۔ شروع میں حالات ایسے رہے کہ گزر بسر بمشکل ہوتی تھی، پھر اللہ نے کرم کیا اور منصور نے اتنا کما لیا کہ ایک چھوٹا سا گھر بنانے کا خواب بھی پورا ہو گیا۔
 
 یوں یہ لوگ پرانے مکان سے نئے گھر میں منتقل ہو گئے۔ جس آبادی میں یہ شفٹ ہوئے اس کے ایک طرف ہزار گز کے بنگلے تھے، تو سامنے تین کمروں کے چھوٹے مکان۔ بنگلوں میں کاریں، مالی، باورچی، چوکیدار، خوبصورت لان اور ان میں کھیلتے پیارے پیارے بچے جو خوبصورت لباس پہنے کسی اور دنیا کی مخلوق لگتے اور سامنے رہنے والے بچوں کو ان کی کم مائیگی کا احساس دلاتے۔ کچھ لوگ اس تضاد پر کڑھنے کی بجائے اپنی قسمت پر شاکر ہو کر گزارہ کرتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے سے بہتر حال میں زندگی بسر کرنے والوں کی حرص میں بے حال ہو جاتے ہیں۔ بس یہی سب کچھ ساجدہ کے ساتھ ہوا۔ایک دن وہ اپنے گھر کا دروازہ بند کرنے آئی تو سامنے والی بیگم صاحبہ نے بڑی محبت سے پوچھا: کیسی ہو؟ کبھی آ جایا کرو، میں بچوں کے جانے کے بعد اکیلی ہو جاتی ہوں، کسی دن وقت نکال کر ضرور آنا۔

بڑے بنگلے والی نے جو چھوٹے مکان والی کے ساتھ ہنس کر بات کر لی تو یہ پھولی نہ سمائی اور ادھر اس سے رسم و راہ بڑھانے کی ترکیبیں سوچنے لگی۔ ایک دن خیال آیا کہ ان بیگم کے ہاں ٹیلیفون تو ہوگا، پھر کیوں نہ جا کر ذرا اپنے میاں کو فون کر آؤں۔ پتا بھی چل جائے گا کہ یہ واقعی اخلاق والی ہیں بھی یا نہیں۔ ساجدہ جرأت کر کے سامنے والی بیگم کے گیٹ پر پہنچی۔ بیل بجائی تو چوکیدار نے دروازہ کھولا۔ ساجدہ نے بتایا کہ ہم سامنے والے مکان میں رہتے ہیں۔ پڑوسی ہونے کی وجہ سے چوکیدار نے اندر جانے دیا۔ بیگم صاحبہ نے جو اسے دیکھا تو بڑی خوش ہوئیں۔ وہ واقعی اچھے اخلاق والی تھیں۔ انہوں نے اس کی ایسی خاطر مدارت کی کہ وہ خوش ہو گئی اور اس کا مرجھایا ہوا دل پھول کی طرح کھل اٹھا۔ 
 
جب سے وہ نئے مکان میں آئی تھی، پاس پڑوس میں کسی سے زیادہ دوستانہ نہیں ہوا تھا۔ اکثر وہ خود کو تنہا محسوس کرتی، جب کہ پرانے محلے میں تو سب ہی عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے، دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ وہاں پڑوسنیں بہنوں کی طرح لگتی تھیں۔مسز اکمل نے ساجدہ کو پہلی ملاقات میں وہ چاہت دی کہ وہ ان کی دیوانی ہو گئی۔ آہستہ آہستہ دونوں میں دوستی بڑھنے لگی اور وہ بیگم صاحبہ کے رنگ ڈھنگ اپنے دل و دماغ میں بساتی چلی گئی۔ اب بیگم صاحبہ بھی کبھی کبھی اس کے چھوٹے سے مکان میں آ جاتیں اور دونوں گپ شپ کرتیں۔ ان میں کوئی فرق نہ رہا۔ دو ایک بار مسز اکمل نے ساجدہ سے کہا بھی کہ مجھے مختلف تقریبات کے دعوت نامے ملتے رہتے ہیں، کبھی تم بھی چلو۔ میں میاں سے پوچھ کر بتاؤں گی۔ ساجدہ نے منصور سے پوچھا تو وہ بولے کہ تمہاری مرضی ہے، چلی جانا۔ گھر پر تمام دن بور ہوتی ہو، کبھی کبھی سیر و تفریح اور گھومنا پھرنا بھی اچھا ہوتا ہے۔

اجازت ملی تو ساجدہ نے مسز اکمل کو آگاہ کیا اور کہا کہ اب کی بار اگر کوئی دعوت نامہ آئے تو مجھے بھی لے چلنا۔ ہمارے کلب میں مینا بازار ہونے والا ہے، میں تمہیں لے چلوں گی۔ جس روز مینا بازار جانا تھا، ساجدہ نے برقعہ چھوڑ کر چادر اوڑھی، اچھی تراش خراش کے کپڑے سلوائے۔ اس کو مسز اکمل کے کٹے ہوئے بال، جو شانوں پر بکھرے ہوتے تھے، بہت اچھے لگتے تھے۔ جب وہ ہنس ہنس کر لان میں صاحب اور ان کے دوستوں سے باتیں کرتیں تو بڑی دلکش اور گریس فل نظر آتی تھیں۔ ساجدہ سمجھنے لگی کہ بڑے لوگوں کی یہی نشانیاں ہیں۔ اس نے بھی مینا بازار جانے کی خاطر تھوڑے سے بال ترشوا لیے، پھر تیار ہو کر ان کے ساتھ گاڑی میں مینا بازار پہنچ گئی۔ واپس آئی تو دماغ ہلکا پھلکا اور دل خوشگوار احساس سے لبریز تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ عورت کی اصل زندگی یہ نہیں کہ تمام دن گھر کے کاموں میں ہی کھپی رہے۔ کبھی کبھی گھر کے باہر کی تازہ ہوا اس کو تازگی بخشتی ہے اور زندہ رہنے کا احساس دلاتی ہے۔ سوچا کہ اب اکثر تقریبات میں ان کے ساتھ جایا کروں گی۔ مسز اکمل اس کو اپنی ساڑھی پر گوٹ لگانے کو دے گئی تھیں۔
 
 ساجدہ نے بڑی محبت سے رات بھر جاگ کر گوٹ لگائی اور اگلے دن شام کو صاف ستھرا لباس پہن کر خود ان کو ساڑھی دینے کو گئی۔ اتفاق سے اس روز بنگلے کے مالک نے نشہ کیا ہوا تھا۔ گیٹ کھلا تھا، وہ بے دھڑک اندر چلی گئی۔ اکمل صاحب لان میں کسی سوچ میں بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے جام دھرا تھا۔ وہ آگے بڑھی اور سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گئی۔ صاحب نے ایک نظر اس پر ڈالی۔ ساجدہ آج ان کو بے حد خوبصورت دکھائی دی۔ ان کے حواسوں پر بجلی سی گر گئی۔ وہ چہرے کا رنگ چھپا کر بولے کہ تمہاری بیگم صاحبہ برابر میں گئی ہوئی ہیں، ابھی فون کرکے بلاتا ہوں۔ وہ بے خبر تھی، نہیں جانتی تھی کہ ان صاحب کی شہرت علاقے میں خراب ہے اور وہ اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے۔ساجدہ ابھی تک وہیں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اکمل صاحب آکر بولے کہ بیگم آپ سے فون پر بات کرنا چاہتی ہیں، آؤ ان سے بات کر لو۔اس کے ذہن میں یہ بات نہ آئی کہ اکیلے گھر میں اندر جاکر بات کروں یا نہیں۔ وہ بے دھڑک اندر چلی گئی۔ کھڑکیوں پر دبیز پردے پڑے تھے جن میں سے ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ اے سی چل رہا تھا، کمرہ بڑا ٹھنڈا تھا۔ فون کہاں رکھا تھا، اسے کچھ نظر نہیں آیا، البتہ اس نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی اور جو نظر آیا وہ اس شیطان کا چہرہ تھا۔ دخترِ زر اس کے سر چڑھ چکی تھی، وہ اپنے آپے میں نہ رہا تھا۔ گھر پر کوئی تھا یا نہیں، خدا جانے، بہرحال یہ کمرہ بہت دور تھا اور دروازہ بند تھا۔ اس کی چیخ پکار کوئی نہ سن سکا اور وہ برباد ہو گئی۔ وہ غربت میں ضرور پلی بڑھی تھی مگر اپنی شرم و حیا کی حفاظت کرنے والی۔ یوں لٹنے کے بعد ایک لفظ بھی کسی سے نہ کہہ سکی۔ اکمل صاحب نے دھمکی دی کہ اگر کسی سے ذکر کیا تو تمہاری دوست بھی تم سے نفرت کرے گی۔ وہ کچھ نہ بولی، درد کو دل سے لگائے خاموش گھر آ گئی۔ سامنے قرآنِ پاک رکھا تھا۔ شوہر مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا، بچے بھوکے تھے، مگر وہ آکر بستر پر گر گئی۔ شوہر نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ وہ کیا کہتی، احساسِ گناہ نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ کاش یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ اسی وقت اس کے شوہر کو دوست نے آواز دی تو وہ اس کے ساتھ گھر سے چلا گیا۔ 
 
ساجدہ اس ناگہانی واقعے سے اس بری طرح متاثر ہوئی کہ ایک خاموش چیخ بن کر رہ گئی۔ یہ حال اس کا چھ روز تک رہا۔ کھانا پینا، بن سنورنا، بولنا سب چھوٹ گیا، یہاں تک کہ اسے اسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ سب بار بار پوچھتے کہ بات کرو، کچھ بولو، مگر صدمے سے زبان گنگ تھی، بول نہ سکتی تھی۔ تب اسے اسپتال سے گھر لے آئے۔ رفتہ رفتہ ذہن نے حقیقت کو تسلیم کر لیا۔ شوہر سے پہلی بات یہ کی کہ تم اس مکان کو فروخت کر دو۔ ہم اس گھر میں اب نہیں رہیں گے، مجھے یہاں ڈر لگتا ہے۔ کبھی کبھی ڈراؤنے سائے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ منصور نے بہت محنت اور محبت سے یہ مکان بنوایا تھا، وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر مکان جلد فروخت بھی نہیں ہوتے، اچھی قیمت کے لیے انتظار کرنا لازمی تھا۔ جب کہ ساجدہ کہتی تھی کہ میں ایک دن بھی یہاں رہنا نہیں چاہتی۔ اگر میری زندگی عزیز ہے تو تم ہر صورت جلد از جلد اسے بیچو۔ چاہے آدھے پیسے ملیں، لے لو، مگر اب یہاں نہیں رہوں گی۔ بے شک کسی جھونپڑی میں رہ لوں گی۔ منصور یہی سمجھا کہ اس پر کسی جن بھوت کا اثر ہو گیا ہے۔ وہ اسے ایک پیر کے پاس لے گیا۔ انہوں نے ساجدہ کو دیکھ کر مشورہ دیا کہ فوری طور پر مکان فروخت کر دو۔ جس جگہ تم نے مکان بنوایا ہے، یہاں پہلے بھوتوں پریتوں کا مسکن تھا، اسی لیے وہ تنگ کر رہے ہیں۔ تمہاری بیوی اسی وقت اچھی ہو گی، جب تم اسے اس جگہ سے دور لے جاؤ گے، ورنہ اس کی جان چلی جائے گی۔یہ سن کر بیچارہ منصور گھبرا گیا۔ اس نے اسٹیٹ ایجنسیوں سے رابطہ کیا اور بھاگ دوڑ شروع کر دی، یہاں تک کہ مکان اونے پونے داموں بک گیا۔ رقم گرہ میں باندھ کر یہ لوگ ایک چھوٹی آبادی میں چلے گئے۔ اس جگہ آئے سے ساجدہ کو قدرے سکون ملا، کیونکہ اب وہ اس شیطان کے مسکن سے دور آگئی تھی۔ کم از کم سامنے وہ بنگلہ تو نہ تھا جس کے مکین کے تصور سے اسے خود اپنے آپ سے بھی نفرت محسوس ہوتی تھی۔ وہ سوچتی کہ ان بڑے لوگوں کی چاہ میں اس نے اپنا آپ گنوا دیا اور ایک ڈاکو کا سامنا ہو گیا، جس کے خلاف کوئی عدالت نہیں جو انصاف کر سکے۔ قاتل کو تو پھانسی ہوجاتی ہے، مگر ایسے مجرموں کا کوئی گواہ نہیں ہوتا۔
 
romantic stories 

(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ