ہمارے گھر کے سامنے وحید میاں کا مکان تھا، جنہیں سب چاچا ویدو کہتے تھے۔ وہ کافی عرصے سے بے روزگار تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے گھر کی بیٹھک کو دکان میں تبدیل کرکے کریانہ کا سامان رکھ دیا اور بے روزگاری کا حل نکالا۔ شروع میں ان کی دکان پر کم ہی گاہک آتے تھے۔ وہ ذرا خشک مزاج تھے اور محلے والوں سے بن کر نہیں رکھتے تھے، اسی وجہ سے کوئی ان کی دکان کا رخ نہیں کرتا تھا۔ لڑکے کا نام رشید تھا، جسے پیار سے شیدا کہتے تھے۔ اس نے میٹرک کر لیا تو ویدو چاچا نے دکان اس کے سپرد کر دی تاکہ گلیوں میں آوارہ پھرنے کی بجائے آنکھوں کے سامنے رہے۔ یار باشی سے بہتر تھا کہ دکان کے کھونٹے سے بندھ جائے۔ باپ کی نسبت شیدا زیادہ خوش مزاج اور ملنسار تھا۔ وہ گاہکوں کے ساتھ عزت سے بات کرتا اور پڑوسیوں سے رعایت بھی لے لیتا، جبکہ ویدو چاچا پائی پائی کو دانتوں سے پکڑنا دانشمندی جانتے تھے۔ کسی سے ایک دھیلے کی رعایت کے بھی روادار نہ تھے۔
دکان پر ایک بورڈ بھی لگا تھا: سودا نقد اور ادھار پیار کا دشمن۔ عقل کا اندھا تو شیدا بھی نہ تھا، لیکن وہ عمر کے اس دور میں تھا جب انسان کو خود پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے محلے کے کچھ غریب گھرانوں کے اپنے پاس کھاتے بھی کھول لیے تھے۔ اسی وجہ سے سارا محلہ شیدا کی دکان سے سودا لینے لگا۔ ہمارے محلے میں کچھ معمولی تنخواہ دار سرکاری ملازم بھی رہتے تھے، جو پورے ماہ سودا ادھار پر لیتے اور جب تنخواہ آتی تو پچھلا کھاتا چکتا کر دیتے۔ یوں شیدے نے رفتہ رفتہ گاہک پکے کر لیے۔ یہ ایک کاروباری نکتہ تھا جس پر شیدے کی کامیابی کا دارومدار تھا۔ باپ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے اس نکتے کو نہیں سمجھتے تھے۔ وہ شیدے کو ٹوکتا رہتا کہ میاں، اس طرح تو تم ایک دن دکان کا بھٹہ بٹھا دو گے۔ یہ کھاتے داری کا سلسلہ بند کرو، ورنہ دکان بند کردو۔ شیدے نے جواب دیا کہ ابا، آپ نے دکان میرے سپرد کی ہے تو مجھ پر اعتماد بھی کریں۔ میں آپ کو کما کر دکھاؤں گا، بشرطیکہ مداخلت نہ کریں اور آرام سے گھر میں لیٹ کر حقہ گڑگڑاتے رہیں، ورنہ خود چلائیں اپنی دکان میں۔
دکان چلانا چاچا ویدو کے بس کی بات نہیں تھی۔ انہوں نے صبر کا گھونٹ پی کر معاملات بیٹے کے حوالے کر دیے۔ تنخواہ دار طبقے کے علاوہ تازہ والے بھی شیدے کے دکان کے متوالے تھے۔ جب ادھار کی سہولت مانگتے، رشید انکار نہ کرتا۔ یوں وہ سارے علاقے میں مقبول ہوتا گیا۔اردگرد کی چھوٹی دکانوں والوں کا کاروبار اس کے آگے ماند پڑنے لگا۔ چند ہی دنوں میں شیدے کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس کی دکان کی مقبولیت بھی بڑھنے لگی۔ دکان چمک اٹھی اور کمائی میں اضافہ ہوا۔ دولت نے اس کی طرف لپکنا شروع کر دیا۔ ہم تازہ والے تھے۔ ابا کبھی کام پر جاتے، کبھی گھر بیٹھے رہتے۔ ماں محلے کے کپڑے سلائی کرتیں اور اجرت ہفتے بعد ملتی، وہ بھی یکمشت نہیں۔ ساجد بھائی ورکشاپ پر جاتے اور مالک روز شام کو چند روپے ہتھیلی پر رکھ دیتا۔ آمدنی کی یہ صورت تھی تو مہینہ بھر کا زیادہ سودا کیسے خریدا جا سکتا تھا؟ماں روز تھوڑا تھوڑا سودا لینے مجھے شیدے کی دکان پر بھیجتی تھیں۔
دکان چلانا چاچا ویدو کے بس کی بات نہیں تھی۔ انہوں نے صبر کا گھونٹ پی کر معاملات بیٹے کے حوالے کر دیے۔ تنخواہ دار طبقے کے علاوہ تازہ والے بھی شیدے کے دکان کے متوالے تھے۔ جب ادھار کی سہولت مانگتے، رشید انکار نہ کرتا۔ یوں وہ سارے علاقے میں مقبول ہوتا گیا۔اردگرد کی چھوٹی دکانوں والوں کا کاروبار اس کے آگے ماند پڑنے لگا۔ چند ہی دنوں میں شیدے کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس کی دکان کی مقبولیت بھی بڑھنے لگی۔ دکان چمک اٹھی اور کمائی میں اضافہ ہوا۔ دولت نے اس کی طرف لپکنا شروع کر دیا۔ ہم تازہ والے تھے۔ ابا کبھی کام پر جاتے، کبھی گھر بیٹھے رہتے۔ ماں محلے کے کپڑے سلائی کرتیں اور اجرت ہفتے بعد ملتی، وہ بھی یکمشت نہیں۔ ساجد بھائی ورکشاپ پر جاتے اور مالک روز شام کو چند روپے ہتھیلی پر رکھ دیتا۔ آمدنی کی یہ صورت تھی تو مہینہ بھر کا زیادہ سودا کیسے خریدا جا سکتا تھا؟ماں روز تھوڑا تھوڑا سودا لینے مجھے شیدے کی دکان پر بھیجتی تھیں۔
دکان ہمارے گھر کے سامنے تھی۔ میں دوڑتی جاتی اور جس چیز کی ضرورت ہوتی لے آتی۔ سودے کے لیے میرے دن میں چار پانچ پھیرے لگ جاتے تھے۔ شیدا بہت نرم لہجے میں بات کرتا۔ مجھے اس کا یہ لہجہ اچھا لگتا تھا۔ کبھی دکان پر گاہک نہ ہوتا تو ادھر ادھر کی باتیں بھی کر لیتا۔ میٹھے چنے اور گڑ کے لڈو مفت دے دیتا۔ ان عنایتوں کی وجہ سے میں اس کی گرویدہ ہوگئی تھی۔ میٹھے چنے منہ میں ڈال کر منہ صاف کر لیتی، گھر کی ڈیوڑھی تک جاتے جاتے وہ منہ میں گھل جاتے اور میں ایسا منہ بنا لیتی جیسے کچھ کھایا ہی نہ ہو۔ ذرا باشعور ہو گئی تو اوڑھنی لپیٹ کر جانے لگی۔
بچپن سے مانوس تھی، اس لیے شیدے کا ہنسی مذاق برا نہیں لگتا تھا۔ اب وہ پہلے سے زیادہ خوش اخلاق اور باتونی ہو گیا تھا۔ ہنس ہنس کر باتیں کرتا اور سودا بھی اچھا دیتا۔ کبھی دکان بند ہوتی تو ماں دوسری کسی قریبی دکان سے سودا منگوا لیتی، کیونکہ چولہا جلتے جلتے اچانک مٹی کا تیل ختم ہو جاتا۔ شیدے کی دکان کے کھلنے کا انتظار کرنا بڑا سکون ملتا تھا۔ اماں کو خوشی ہوتی کہ وہ امیری یا غربت کے فرق کے بغیر سب کو اپنوں کی طرح عزت دیتا تھا۔ خالہ جی کہہ کر سب کو احترام دیتا اور برے وقت کام آجاتا۔ ماں شیدے کے گھر آنے کا مطلب نہیں سمجھتیں، مگر میں جانتی تھی کہ وہ اسی وقت آتا جب ابا اور ساجد بھائی گھر پر نہ ہوتے۔ دکان پر کسی دوست کو بٹھا کر دس پندرہ منٹ کو آجاتا اور کہتا کہ تمہارے ہاتھ کی چائے پینے آیا ہوں، خالہ جی جیسی چائے تم بناتی ہو، اماں نہیں بنا سکتیں۔چائے کا مزہ الگ تھا۔ ایک پیالی پی کر دن بھر تازہ دم رہتا۔ میری بھولی اماں جلدی جلدی کیتلی میں پانی ڈال کر چولہے پر رکھ دیتیں۔ آج ہی دودھ ختم ہو گیا تھا۔ منی، جا بھاگ کر رابو خالہ سے آدھ پیالی دودھ تو لے آ، کہنا مہمان آیا ہے۔ارے خالہ، رہنے دو، مت جاؤ۔میں پیالی لینے گئی تو اماں دودھ دینے نہیں آئیں، تب میں رابو خالہ سے لے آئی۔ اس دوران شیدا مجھ سے دوچار باتیں کر لیتا۔ اب تم دکان پر نہیں آتی ہو، اتنی بڑی ہو گئی ہو کیا؟ پھر مذاق میں کوئی بات کہتا کہ میں اس کا منہ تکتی رہ جاتی۔
رفتہ رفتہ اس کی ذو معنی باتیں میرے دل میں پھول کھلانے لگیں۔ وہ قسم دے کر جاتا کہ آج دو منٹ کے لیے دکان پر آجانا، تیرے لیے باداموں والے گڑ کے لڈو رکھے ہیں۔ گڑ کے لڈو کا بہانہ تھا، میں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا ہے۔ لیکن دکان پر بھی تنہائی کہاں تھی؟ گاہک آتے جاتے رہتے۔ دوپہر کو اماں سوجاتیں تو میں دروازے سے پردہ ہٹا کر جھانکتی۔ جونہی اس کے سامنے پہنچتی، دروازے کی اوٹ میں بٹھا دیتا تاکہ گلی سے گزرنے والوں کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔ ایک روز چھت پر جا رہی تھی کہ پاؤں پھسل گیا اور سیڑھی سے گر پڑی۔ ٹانگ میں سخت چوٹ آئی۔ درد سے ایک لمحے کے لیے بھی آرام نہ تھا، بستر سے نہ اٹھ سکتی تھی۔ منی سودا لینے گئی تو شیدا نے میرے بارے میں پوچھا، اور منی نے بتایا کہ آپا کے سیڑھی سے گرنے سے بہت چوٹ آئی ہے، وہ اٹھ نہیں سکتیں۔
رفتہ رفتہ اس کی ذو معنی باتیں میرے دل میں پھول کھلانے لگیں۔ وہ قسم دے کر جاتا کہ آج دو منٹ کے لیے دکان پر آجانا، تیرے لیے باداموں والے گڑ کے لڈو رکھے ہیں۔ گڑ کے لڈو کا بہانہ تھا، میں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا ہے۔ لیکن دکان پر بھی تنہائی کہاں تھی؟ گاہک آتے جاتے رہتے۔ دوپہر کو اماں سوجاتیں تو میں دروازے سے پردہ ہٹا کر جھانکتی۔ جونہی اس کے سامنے پہنچتی، دروازے کی اوٹ میں بٹھا دیتا تاکہ گلی سے گزرنے والوں کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔ ایک روز چھت پر جا رہی تھی کہ پاؤں پھسل گیا اور سیڑھی سے گر پڑی۔ ٹانگ میں سخت چوٹ آئی۔ درد سے ایک لمحے کے لیے بھی آرام نہ تھا، بستر سے نہ اٹھ سکتی تھی۔ منی سودا لینے گئی تو شیدا نے میرے بارے میں پوچھا، اور منی نے بتایا کہ آپا کے سیڑھی سے گرنے سے بہت چوٹ آئی ہے، وہ اٹھ نہیں سکتیں۔
اگلے دن وہ کسی بہانے سے ہمارے گھر آگیا۔ میں کھاٹ پر پڑی تھی، ٹانگ کو دوپٹے سے پٹی باندھی ہوئی تھی اور درد سے کراہ رہی تھی۔ اگلے روز ساجد ورکشاپ سے گاڑی لے آیا اور مجھے اسپتال لے گیا۔ بڑی میں فریکچر آیا تھا۔ پلستر لگا، دو ماہ بستر پر پڑی رہی۔ علاج کا سارا خرچہ چپکے چپکے رشید ہی اماں کو دیتا رہا۔ اماں نے جتنے پیسے اُدھار مانگے، اس نے دیے۔ سب علاج پر خرچ ہو گئے۔ مجھے یقین آگیا کہ رشید کو واقعی مجھ سے محبت ہے، ورنہ کون کسی کے لیے اتنی پریشانی اٹھاتا ہے۔ جی چاہتا تھا کہ اپنا آپ بھی شیدے پر قربان کر دوں۔ اسے خبر تھی ہم غریب اُدھار لوٹانے کے لائق نہیں، پھر بھی انکار نہیں کیا۔ایک دن اماں گھر پر نہ تھیں۔ منّی بھی ان کے ساتھ تھی۔ ابا کام پر اور ساجد ورکشاپ گیا ہوا تھا کہ شیدا آگیا۔ آج اس کو بلا خوف مجھ سے ملاقات کرنے کا موقع مل گیا۔
میں بھی احسان مندی سے مری جاتی تھی۔ ساری پریشانیاں تم مجھے دے دو، عارفہ۔ میں کس لیے ہوں؟ اب تم مجھے شکریہ نہ کہنا۔ چاہنے والوں کو شکریے کی نہیں، چاہت کے بدلے چاہت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اگر تمہاری ماں سے رشتے کا کہوں تو تم منع تو نہیں کر دو گی؟میری کیا مجال جو بڑوں کے بیچ بولوں، لیکن ایک بات ہے۔وہ کیا… بتاؤ مجھے؟وہ یہ کہ میں ابھی ٹھیک طرح چل نہیں سکتی، لنگڑا کر چلتی ہوں۔ فرض کرو کہ ٹانگ ٹھیک نہ ہوئی اور میں اسی طرح لنگڑا کر چلی تو کیا کرو گے؟ کیا پھر بھی تم مجھ سے شادی کر لو گے؟ہاں کیوں نہیں… چاہت میں ایسی باتیں نہیں دیکھی جاتیں۔ ہماری شادی ہو گئی تو میں تمہارا علاج کراؤں گا، چاہے کسی بڑے شہر سے کیوں نہ کرانا پڑے۔ میرا دل اس پر نچھاور ہو گیا۔ لگا اس ملاقات نے میری ساری پریشانیاں ختم کر دی ہیں۔ یہ میری خام خیالی تھی۔ یہ ملاقات باعثِ راحت نہیں، میرے لیے عمر بھر کی پریشانی کا سبب بن گئی اور تنہائی کا ثمر میرے لیے موت کا پروانہ بن گیا۔
ماں کو پتا چلا تو اس نے شیدے کو آڑے ہاتھوں لیا کہ کیا اسی دن کے لیے تم ہم پر عنایتیں کر رہے تھے؟ وہ بولا، خالہ مجھے مہلت دیں۔ میں جھوٹا آدمی نہیں ہوں، ثابت قدم اور سچا ہوں۔ ماں نے کہا، اب مہلت کا وقت نہیں ہے۔وہ بولا، میں آج، ابھی اور اسی وقت عارفہ سے شادی کرنے کو تیار ہوں۔ آپ اپنے شوہر اور بیٹے کو منا لیں۔ میں اپنے کہے سے پیچھے قدم نہ ہٹاؤں گا مگر میرے والدین نکاح میں نہیں بیٹھیں گے۔اماں نے دبے لفظوں ابا سے بات کی کہ شیدا ہمارے گھر سے رشتہ لینے کا آرزومند ہے۔ابا نے کہا، رشید سے رشتہ قبول نہیں۔ میں عارفہ کی شادی اپنے بھائی کے لڑکے سے کروں گا۔ تم جانتی ہو کہ بڑے بھائی کو زبان دے چکا ہوں۔ اب بھائی کو چھوڑ کر غیروں میں رشتہ کریں؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے؟ماں روتی تھی اور مجھے پیٹتی بھی تھی۔ میں نے سوچا کہ اب اپنے کیے کی سزا خود بھگتنی ہے، حل بھی مجھے ہی نکالنا ہے۔
ماں کو پتا چلا تو اس نے شیدے کو آڑے ہاتھوں لیا کہ کیا اسی دن کے لیے تم ہم پر عنایتیں کر رہے تھے؟ وہ بولا، خالہ مجھے مہلت دیں۔ میں جھوٹا آدمی نہیں ہوں، ثابت قدم اور سچا ہوں۔ ماں نے کہا، اب مہلت کا وقت نہیں ہے۔وہ بولا، میں آج، ابھی اور اسی وقت عارفہ سے شادی کرنے کو تیار ہوں۔ آپ اپنے شوہر اور بیٹے کو منا لیں۔ میں اپنے کہے سے پیچھے قدم نہ ہٹاؤں گا مگر میرے والدین نکاح میں نہیں بیٹھیں گے۔اماں نے دبے لفظوں ابا سے بات کی کہ شیدا ہمارے گھر سے رشتہ لینے کا آرزومند ہے۔ابا نے کہا، رشید سے رشتہ قبول نہیں۔ میں عارفہ کی شادی اپنے بھائی کے لڑکے سے کروں گا۔ تم جانتی ہو کہ بڑے بھائی کو زبان دے چکا ہوں۔ اب بھائی کو چھوڑ کر غیروں میں رشتہ کریں؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے؟ماں روتی تھی اور مجھے پیٹتی بھی تھی۔ میں نے سوچا کہ اب اپنے کیے کی سزا خود بھگتنی ہے، حل بھی مجھے ہی نکالنا ہے۔
رشید کی دکان پر جا کر بتا دیا کہ ابا اور بھائی جان مار ڈالیں گے، جو دوبارہ ہمارے گھر میں تمہارا نام لیا۔ تم مجھ سے چھپے چوری نکاح کر لو۔ اسی میں عافیت ہے۔ بعد کو جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔اس وقت تو وہ گھبرا گیا تھا۔ بہرحال اس نے نکاح نامہ بنوا لیا اور مجھ سے دستخط کروا کر لے گیا۔ اگلے دن مجھے دکان پر بلایا۔ دکان کا دروازہ بند کر دیا۔ وہاں ایک مولوی صاحب اور اس کے دو تین لوگ موجود تھے۔ یوں میرا ایجاب و قبول کروا کر نکاح نامے کی کاپی مجھے دے دی اور کہا، اب اگر تمہارے ابا انکار کریں تو یہ کاغذ ان کو دکھا دینا، اور جو مار پڑنی ہے کھا لینا۔ میں نکاح نامہ اپنے باپ کو اسی وقت دکھاؤں گا جب تم اپنے باپ کو دکھا دو گی۔ یہ محبت نہ تھی، میری آزمائش تھی۔
اس واقعے کو ایک ماہ گزرا تھا کہ ابا نے میری ماں سے کہا کہ کل بڑے بھائی آئیں گے۔ مٹھائی لے کر میں عارفہ کا نکاح راول سے کر رہا ہوں۔ تم راضی ہو کہ نہیں، مجھے پرواہ نہیں ہے۔ نکاح ابھی ہوگا، رخصتی سال بعد ہوگی۔ ماں بے چاری گنگ رہ گئی لیکن اب میں چپ نہ رہ سکتی تھی۔ منی سے کہا کہ یہ کاغذ ابا کو دکھا دو۔ وہ نکاح نامہ لے کر ان کے پاس گئی۔ انہوں نے دیکھتے ہی اس کے پرزے کر ڈالے اور جوتا اٹھا کر مجھ پر لپکنے لگے، تبھی ساجد آ گیا۔ مجھے مارتے دیکھا تو ان کا ہاتھ پکڑ کر روک دیا اور پوچھا، کیا ہوا ہے ابا، کیوں اسے مار رہے ہیں۔ وہ بولے، اس نے کاغذ مجھے دیا ہے کہ دیکھو میں نے مرضی کا نکاح کر لیا ہے۔ تو کیا اب بھی نہ ماروں۔ ساجد نے بھی جوتا اٹھا لیا اور ابا کے مارنے سے پہلے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ خوب مارا کہ نیم جان ہو گئی، تب اماں مجھ پر گر پڑیں۔ بس کرو، کیا مار ہی ڈالیں گے۔ بھائی مجھے دھکے دینے لگا کہ جا نکل جا یہاں سے اور چلی جا اس کے پاس جس سے نکاح کیا ہے۔
اس واقعے کو ایک ماہ گزرا تھا کہ ابا نے میری ماں سے کہا کہ کل بڑے بھائی آئیں گے۔ مٹھائی لے کر میں عارفہ کا نکاح راول سے کر رہا ہوں۔ تم راضی ہو کہ نہیں، مجھے پرواہ نہیں ہے۔ نکاح ابھی ہوگا، رخصتی سال بعد ہوگی۔ ماں بے چاری گنگ رہ گئی لیکن اب میں چپ نہ رہ سکتی تھی۔ منی سے کہا کہ یہ کاغذ ابا کو دکھا دو۔ وہ نکاح نامہ لے کر ان کے پاس گئی۔ انہوں نے دیکھتے ہی اس کے پرزے کر ڈالے اور جوتا اٹھا کر مجھ پر لپکنے لگے، تبھی ساجد آ گیا۔ مجھے مارتے دیکھا تو ان کا ہاتھ پکڑ کر روک دیا اور پوچھا، کیا ہوا ہے ابا، کیوں اسے مار رہے ہیں۔ وہ بولے، اس نے کاغذ مجھے دیا ہے کہ دیکھو میں نے مرضی کا نکاح کر لیا ہے۔ تو کیا اب بھی نہ ماروں۔ ساجد نے بھی جوتا اٹھا لیا اور ابا کے مارنے سے پہلے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ خوب مارا کہ نیم جان ہو گئی، تب اماں مجھ پر گر پڑیں۔ بس کرو، کیا مار ہی ڈالیں گے۔ بھائی مجھے دھکے دینے لگا کہ جا نکل جا یہاں سے اور چلی جا اس کے پاس جس سے نکاح کیا ہے۔
تیرے لیے اب اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں روتی ہوئی خالہ رابو کے گھر چلی گئی۔ ساجد بھی اس کے بعد گھر سے نکل گیا۔ غالباً شور کی آواز سن کر شیدا دکان بند کر کے کہیں روپوش ہوگیا تھا۔ اس واقعے کے بعد وہ نظر نہیں آیا۔ تین دن اس کی دکان بند رہی۔ ساجد اس دن کا گیا واپس گھر نہ لوٹا۔ ابا نے تایا سے احوال بتایا۔ انہوں نے کہا کہ فوراً یہ گھر بیچو اور ادھر سے کوچ کرو۔ ساجد سرپھرا ہے، کہیں کسی کی جان نہ لے لے۔ لڑکی نے اگر نکاح کر لیا ہے تو اس کو اس کی کرنی بھگتنے دو۔ تم غریب آدمی ہو۔ جرم جو بھی کرے گا، سولی پر تم ہی چڑھو گے کیونکہ غریب کی گردن پتلی ہوتی ہے۔ تایا اسی وقت آبا، منی اور اماں کو اپنے گھر لے گئے۔ مکان کو تالا لگا دیا۔ پھر ساجد کی ورکشاپ پر گئے، وہ وہاں مل گیا۔ اسے سمجھایا، بجھایا اور اسے بھی گھر لے گئے۔
بعد میں اسے سعودی عرب بھجوا دیا۔ اب میں رابو خالہ کے رحم و کرم پر رہ گئی۔ وہ کب تک مجھے رکھتیں۔ انہوں نے جا کر رشید کے ماں باپ سے بات کی اور کہا کہ تمہارے بیٹے کے کرتوت دیکھو کہ میرے بھانجے کا دوست بن کر اس کو دھوکا دیا اور گھر کا بھیدی بن کر دشمن ہوگیا۔ اب اگر نکاح کیا ہے تو آپ کے علم میں بھی ہوگا۔ عارفہ میرے پاس ہے، اس کو بہو بنا کر لے جاؤ، اس کے ماں باپ اسے میرے پاس چھوڑ گئے ہیں۔ ویدو چاچا یہ سن کر برافروختہ ہو گئے۔ بولے، یہ کیا خرافات ہیں۔ شیدا لابور دکان کا سامان لینے گیا ہوا ہے، اسے آنے دو، پھر بات کروں گا۔ ابھی واویلا نہ مچاؤ۔ بچاری رابو خالہ بیٹے کے پاس رہتی تھیں۔ وہ بیٹے اور بہو سے ڈرتی تھیں، تاہم خالو نے عقل مندی سے کام لیا اور سب گھر والوں سے کہا کہ عارفہ اب ہماری پناہ میں آ گئی ہے تو اس کو پریشان مت کرو۔ غلطی انسان سے ہو جاتی ہے۔ تم لوگوں کو فرعون بننے کی ضرورت نہیں۔ رشید کو آ جانے دو۔ میں خود اس سے بات کروں گا۔ چند روز بعد رشید آ گیا۔ اسے معلوم ہوگیا تھا کہ میرے ماں باپ گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ خالو نے بات کی۔
بعد میں اسے سعودی عرب بھجوا دیا۔ اب میں رابو خالہ کے رحم و کرم پر رہ گئی۔ وہ کب تک مجھے رکھتیں۔ انہوں نے جا کر رشید کے ماں باپ سے بات کی اور کہا کہ تمہارے بیٹے کے کرتوت دیکھو کہ میرے بھانجے کا دوست بن کر اس کو دھوکا دیا اور گھر کا بھیدی بن کر دشمن ہوگیا۔ اب اگر نکاح کیا ہے تو آپ کے علم میں بھی ہوگا۔ عارفہ میرے پاس ہے، اس کو بہو بنا کر لے جاؤ، اس کے ماں باپ اسے میرے پاس چھوڑ گئے ہیں۔ ویدو چاچا یہ سن کر برافروختہ ہو گئے۔ بولے، یہ کیا خرافات ہیں۔ شیدا لابور دکان کا سامان لینے گیا ہوا ہے، اسے آنے دو، پھر بات کروں گا۔ ابھی واویلا نہ مچاؤ۔ بچاری رابو خالہ بیٹے کے پاس رہتی تھیں۔ وہ بیٹے اور بہو سے ڈرتی تھیں، تاہم خالو نے عقل مندی سے کام لیا اور سب گھر والوں سے کہا کہ عارفہ اب ہماری پناہ میں آ گئی ہے تو اس کو پریشان مت کرو۔ غلطی انسان سے ہو جاتی ہے۔ تم لوگوں کو فرعون بننے کی ضرورت نہیں۔ رشید کو آ جانے دو۔ میں خود اس سے بات کروں گا۔ چند روز بعد رشید آ گیا۔ اسے معلوم ہوگیا تھا کہ میرے ماں باپ گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ خالو نے بات کی۔
اس نے نکاح نامے کی دوسری کاپی انہیں دے دی اور کہا کہ میں اس نکاح سے انکاری نہیں، مگر ابا سخت مزاج ہیں۔ ان کو منانے میں کچھ وقت لگے گا۔ آپ جو چاہیں گے تسلی کردوں گا۔ کورٹ بھی چل کر نکاح کنفرم کرا لیں گے۔ فی الحال میرے ماں باپ عارفہ کو گھر نہ لانے دیں گے۔ میں سال بھر رابو خالہ کے گھر رہی۔ خالو ولی بنے اور کورٹ سے نکاح کنفرم کر لیا۔ لیکن ساس سسر نے مجھے گھر میں گھسنے نہ دیا اور نہ والدین نے قبول کیا۔ وہ گھر فروخت کر کے کسی اور محلے میں جا بسے، البتہ شیدا مجھے خرچہ بھجواتا رہا۔ ایک سال بعد خالو کا انتقال ہوگیا۔ رابو خالہ نے اماں سے رابطہ کیا کہ اپنی بیٹی کو لے جاؤ۔ بہو اور بیٹا اس کو اب رکھنے پر راضی نہیں ہیں۔ میرا زور شوہر تک تھا، وہ چل بسے۔ میں بیٹے کی محتاج ہوں۔ ساجد سعودیہ میں تھا۔ اماں نے کسی طور ابا کو سمجھا بجھا لیا کیونکہ میں ایک بچی کی ماں بن چکی تھی۔ وہ مجھے آ کر لے گئے، مگر اس شرط پر کہ رشید کبھی ان کے گھر میں قدم نہ رکھے گا۔ رشید کی شادی اس کے والد نے اپنی بھانجی سے کردی تھی۔ پندرہ برس اسی طرح گزر گئے۔
ابا اللہ کو پیارے ہوگئے۔ تایا نے میری جگہ منی کو اپنی بہو بنالیا۔ ابا کی وفات کے بعد اماں نے میرا ساتھ نہ چھوڑا، محنت مزدوری کرکے میری بچی کو پروان چڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ پندرہ برس کی ہوگئی، تب ایک روز رشید کی ماں محلے کی دو عورتوں کے ہمراہ ہمارے گھر آئی اور نکاح نامہ دکھا کر بولی کہ بے شک میرے بیٹے نے عارفہ سے نکاح کیا تھا اور یہ نکاح نامہ موجود ہے۔ اب میں اپنی پوتی کو لینے آئی ہوں۔ رشید کی شادی کی تھی، اس کی بیوی بانجھ نکلی۔ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ میری بہو اور پوتی کو میرے ساتھ بھیج دیں۔ ماں نے کہا، اس وقت تم نے ہم کو دھتکار دیا تھا، اب ہم تم کو دھتکارتے ہیں۔ ہاں، رشید کو بھیج دینا تو بات کر لوں گی۔ اگلے دن شیدا آگیا۔ کہا کہ خالہ مجھے معاف کردو اور میری بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو تاکہ میں اس کو باپ کا نام دے سکوں۔
ابا اللہ کو پیارے ہوگئے۔ تایا نے میری جگہ منی کو اپنی بہو بنالیا۔ ابا کی وفات کے بعد اماں نے میرا ساتھ نہ چھوڑا، محنت مزدوری کرکے میری بچی کو پروان چڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ پندرہ برس کی ہوگئی، تب ایک روز رشید کی ماں محلے کی دو عورتوں کے ہمراہ ہمارے گھر آئی اور نکاح نامہ دکھا کر بولی کہ بے شک میرے بیٹے نے عارفہ سے نکاح کیا تھا اور یہ نکاح نامہ موجود ہے۔ اب میں اپنی پوتی کو لینے آئی ہوں۔ رشید کی شادی کی تھی، اس کی بیوی بانجھ نکلی۔ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ میری بہو اور پوتی کو میرے ساتھ بھیج دیں۔ ماں نے کہا، اس وقت تم نے ہم کو دھتکار دیا تھا، اب ہم تم کو دھتکارتے ہیں۔ ہاں، رشید کو بھیج دینا تو بات کر لوں گی۔ اگلے دن شیدا آگیا۔ کہا کہ خالہ مجھے معاف کردو اور میری بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو تاکہ میں اس کو باپ کا نام دے سکوں۔
ماں نے میری نور کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا کہ اسی لیے تم کو بلایا تھا۔ ہم غریب لوگ ہیں، جو تم نے کیا، نہیں چاہتے وہی تمہاری بیٹی کے ساتھ ہو۔ تم اس کو لے جاؤ، مگر میں اب اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں نہ دوں گی۔ تم نے چھپ کر نکاح کیا اور پھر عارفہ کو قبول نہ کیا، بے آسرا چھوڑ دیا، اتنے برس بعد اب اس کی یاد آئی ہے۔ اب کیا لینے آئے ہو؟ مجھے بھی کہا کہ عارفہ اگر تو میری بیٹی ہے تو ہرگز مجھے چھوڑ کر اس کے ساتھ مت جانا۔ جب میں نے مشکل وقت میں تمہیں نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ میرا بیٹا مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے، اب تم مجھے بڑھاپے میں اکیلا کرکے جاؤ گی۔ جانتی ہوں، یہ لوگ صرف نور کو لینا چاہتے ہیں، تمہیں نہیں۔ اس نے تم سے بے وفائی کی، ہم سے بھی دھوکا کیا۔ اگر تم ان کے ساتھ چلی گئیں تو یاد رکھنا یہ تم کو بہت دکھ دیں گے۔
میں نے ماں کی بات مان لی، دل پر پتھر رکھ کر بیٹی شیدے کو سونپ دی۔ میرا دل بھی نہ چاہتا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ جاؤں، جنہوں نے اس وقت مجھے ٹھکرا دیا تھا جب میرے ماں باپ کی عزت دائو پر لگی ہوئی تھی۔ آج نہ ماں اس دنیا میں ہے اور نہ شیدا اور اس کے ماں باپ رہے۔ وفات سے قبل رشید نے اپنی بیٹی کی شادی ایک اچھے گھرانے میں کر دی تھی۔ اب یہی بچی ہی میرے بڑھاپے کا سہارا ہے، جو اماں کی وفات کے بعد مجھے منت سماجت کر کے اپنے ساتھ لے آئی ہے۔ داماد بیٹے ایسا ہے کہ ماں جیسی عزت دیتا ہے۔ وہ ایک غیر شخص تھا مگر اپنوں سے بڑھ کر ہے، اور بڑھاپے میں دربدر ہونے سے بچایا۔ اللہ تعالیٰ نے عمر کی اس آخری منزل میں نیک داماد کی صورت میں میرے صبر کا انعام دے دیا۔
(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ

