بربادی کا راستہ

Sublimegate Urdu Stories

ائیر ہوسٹس کی نوکری نے مجھے بہت بدل دیا میں کچھ زیادہ ہی ماڈرن ہو گئی، لیکن بدقسمتی سے لندن کی ایک لڑکی سے دوستی ہو گئی اس نے مجھے نشے کا عادی بنا دیا اور سمگلنگ کروانے لگی۔ میں مجبور تھی لیکن ڈرتی بھی تھی۔ آخر ایک مسیحا مل گیا اس نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ان سے بچا لے گا، لیکن وہ بھی کمنیہ نکلا اور ایک رات میرا سب لوٹ لیا، نہ جوانی رہی نا امید، شادی کے چکر میں وہ مجھے برباد کر گیا۔ آخر میں نے ایک اٹل فیصلہ کر لیا۔
👇👇
جب ملازمت کی تلاش میں دربدر بھٹکنے لگی تو ابو بہت یاد آئے۔ وہ نیک اور محنتی انسان تھے۔ ہمیشہ ہمیں رزقِ حلال کھلایا کرتے تھے۔ معاشرے میں ان کی عزت تھی۔ میں ان کی بڑی بیٹی تھی، میرے مستقبل کے بارے میں ان کے بڑے خواب تھے۔ زندگی کی مدت پوری ہوجائے تو پھر سانسوں کی مہلت نہیں ملتی۔ وہ میری خوشیاں دیکھنے سے پہلے ہی چل بسے۔ یہ دکھ ایسا ہے کہ میں بھلا نہیں سکتی۔ ملازمت کے لیے سفارش کی خاطر والد کے واقف کار کے در پر دستک دی۔ جگہ جگہ ماری ماری پھر رہی تھی، مگر کسی کی سفارش کام نہ آئی۔ ایک دن میری کلاس فیلو لبنی نے فون کیا کہ وہ ایک ہوائی کمپنی میں درخواست دے رہی ہے، میں بھی دے دوں۔ اس ملازمت کے بارے میں اس نے اخبار میں ایک اشتہار پڑھا تھا۔ میں اس کے گھر چلی گئی۔

 ہم نے اکٹھے درخواست فارم بھرا اور انٹرویو کی کال آگئی۔ میں خوش شکل، باسلیقہ اور اچھی گفتگو کرنے والی تھی، اس لیے مجھے منتخب کرلیا گیا۔ ابتدائی تربیت کے بعد میں نے خود کو اس ملازمت میں بُری طرح ضم کرلیا۔ دورانِ ملازمت مختلف ملکوں میں جانے کا موقع ملا۔ زمانے کے رنگ ڈھنگ دیکھے، سوچ کا انداز بدلا۔ہاؔسٹل میں رہنے لگی، پھر ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا کیونکہ جہاں ہمارا گھر تھا، وہ جگہ ایئرپورٹ سے کافی دور تھی۔ امی اور چھوٹی بہنوں کو ہر ماہ رقم بھجوا دیا کرتی۔ گھر کبھی کبھار چھٹیوں پر جانا ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ گھر سے رابطہ کم ہونے لگا۔ اب میں چھوٹے شہر کی سادہ مزاج لڑکی نہیں رہی تھی، کافی ماڈرن ہوگئی تھی۔

اپنے شہر جاتی تو محلے والے مجھے حیرت سے دیکھتے۔ میں خود کو اپنے محلے کے ماحول میں سمجھ نہیں پاتی تھی۔ اس دقیانوسی رہن سہن سے میری ذہنی مطابقت باقی نہ رہی تھی۔ ایک بار لندن کی فلائٹ کے دوران ایک خوبصورت مسافر لڑکی سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے اپنا کارڈ دیا اور اصرار کیا کہ جب بھی میری لندن کی فلائٹ ہو، میں ضرور اس سے ملوں۔ تم مجھے بہت اچھی لگی ہو، کیتھرین نے کہا تھا، تمہاری ہنستی مسکراتی صورت میرے دل میں نقش ہوگئی ہے۔ اگلی بار جب میں لندن گئی تو ڈیوٹی کے بعد ایک دن کا وقفہ مل گیا، کیونکہ موسم خراب تھا۔ میں نے ایئرپورٹ سے کیتھرین کو فون کیا۔ وہ مجھے لینے آگئی۔ بولی: آج میرے ساتھ لنچ کرو، تھوڑا وقت اکٹھے گزارتے ہیں۔ اس کا خلوص اور گرمجوشی دیکھ کر میں نے اس کی پیشکش قبول کرلی۔ ہم نے صبح سے شام تک اکٹھے وقت گزارا، مجھے بہت اچھا لگا۔ یوں میری اس سے دوستی ہوگئی۔

 اب جب لندن جانا ہوتا، اسے فون کرتی، وہ ملنے ایئرپورٹ آجاتی۔ ممکن ہوتا تو اپنے گھر بھی لے جاتی۔ ان ملاقاتوں میں ہم نے ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرلیا تھا- ایک بار لندن میں دو دن قیام کا موقع مل گیا۔ وہ مجھے اپنے دوستوں کی محفل میں لے گئی۔ وہاں خوب ہلا گلا تھا۔ اس نے پہلی بار مجھے تھوڑی سی نشہ آور چیز کھلائی۔ دوستی کی مروّت میں انکار نہ کیا۔ یہ ’’سوئٹ‘‘ کھانے سے بےحد سکون ملا، ساری تھکن کافور ہوگئی۔ اس کے بعد جب بھی کیتھرین سے ملاقات ہوتی، وہ مجھے وہی سوئٹ دیتی۔ میں اسے منہ میں رکھ لیتی۔ تھکی ہوئی یا اعصابی تناؤ میں ہوتی تو یہ سوئٹ کھا کر بےحد سکون ملتا۔ رفتہ رفتہ مجھے اس چیز کی طلب ہونے لگی۔ اس نے مجھے ڈھیروں ٹیبلٹس دے دیں۔ جب ڈیوٹی کے بعد تھکن محسوس ہوتی، ایک گولی منہ میں رکھ لیتی۔ ایسے جیسے کچھ لوگ چھالیہ یا پان کھا کر اعصابی دباؤ کم کرتے ہیں۔ خبر نہ تھی کہ جس چیز کو بےضرر سمجھ کر میں کھا رہی ہوں، اس میں نشہ آور جزو شامل ہے۔ کیتھرین نے مجھے اس کا عادی بنا کر اپنا محتاج کرلیا تھا۔ اب جب بھی ہمارا جہاز لندن ایئرپورٹ پر لینڈ کرتا، میں اسے فون کرتی اور وہ خاص سوئٹ لاتی۔ اس بار جب وہ ملنے آئی تو اپنے ساتھ سوئٹ کے علاوہ ایک پیکٹ بھی لائی۔ کہا: یہ ایئرپورٹ پر میرے ایک دوست کو پہنچا دینا، احتیاط سے لے جانا، کسی کے ہاتھ نہ لگے۔

وہ میری اچھی دوست تھی، مجھے اس پر اعتماد تھا، سو میں نے جواب دیا بےفکر رہو، میں احتیاط کروں گی اور اسے تمہارے ہی دوست کو پہنچاؤں گی۔ ہمارا سامان حفاظت سے ہی جاتا ہے۔ میں تو سمجھی تھی کہ ایک بار ہی یہ تحفہ اپنے خاص دوست کو بھجوا رہی ہے، لیکن اس نے تو اسے معمول بنا لیا تو مجھے کھٹکا ہوا۔ اس کے مختلف ملکوں میں نمائندے تھے اور وہ نشہ آور پیکٹ میرے ذریعے انہیں بھجوا رہی تھی۔ اسے تو کافی مالی فائدہ ہورہا تھا مگر یہ ایک خطرناک کام تھا، جو دوستی کی آڑ میں وہ مجھ سے کروا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی جو ’’سوئٹ‘‘ وہ مجھے مشغلے کے طور پر دیا کرتی تھی، اب اس میں نشے کی مقدار بڑھا دی تھی جس سے میرے اعصاب شل رہنے لگے تھے۔ مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ میں کوئی کام اب حاضر دماغی، محنت اور خوش اسلوبی سے انجام نہیں دے سکتی۔ میں اب اس کی دی ہوئی یہ سوئٹ کھانا نہیں چاہتی تھی لیکن اسے کھائے بغیر رہ بھی نہیں سکتی تھی۔

سوچا کہ جب کام کے قابل نہ رہی تو نوکری چھوڑ دوں گی، لیکن تھکن اتارنے کو سکون کی کوئی شے کھانا میرے لیے ضروری ہوگیا تھا۔ میں نے اس گولی کو منہ میں رکھنا ترک نہ کیا۔ ہاں، اپنا بینک بیلنس بڑھانے کی سعی کرنے لگی تاکہ اگر ملازمت چھوڑ دوں تو بعد میں تکلیف نہ ہو۔ تاہم اب میری چھٹی حس خبردار کرنے لگی کہ اگر میں کیتھرین کے ان پیکٹوں سے جان نہ چھڑاتی تو ضرور کوئی مصیبت مجھ پر ٹوٹ پڑتی۔ اپنی حالت کا بخوبی اندازہ ہوچکا تھا۔ میں زیادہ محنت نہیں کر سکتی تھی۔ جسم کے رگ و پے میں غنودگی گھلنے لگی تھی اور خطرے کی گھنٹیاں میرے سارے وجود میں بجنے لگیں۔ اپنی ڈیوٹی بھی خوش اسلوبی سے انجام نہ دے پا رہی تھی۔

آخر مجھے کیتھرین سے معذرت کرنی پڑی کہ میں اب مزید اس کے کام نہیں آسکتی کیونکہ مجھ میں وہ پہلی جیسی ہوشیاری نہیں رہی ہے۔ میرا جسم ٹوٹا ٹوٹا سا رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دن مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے، تب نوکری بھی جائے گی اور عزت بھی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ میری دوست میری معذرت کو سنجیدگی سے لے گی، مگر اس نے میری بات کو سنجیدگی سے نہ لیا اور اصرار کرنے لگی کہ تمہیں ہر صورت میرا یہ کام کرنا ہوگا۔ میں نے پیکٹ لے جانے سے صاف انکار کردیا تو اس نے دھمکی دی کہ اگر تم نے میرا کام نہ کیا تو حکام کے سامنے تمہاری شکایت کردوں گی اور تم پھنس جاؤ گی، لہٰذا کچھ عرصہ اور تم میرا کام جاری رکھو۔ میری بھی بقا کا مسئلہ تھا۔ اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ دوست نہیں ہے، دوستی کی آڑ میں کچھ اسمگل کروا کر مالی فائدہ حاصل کر رہی ہے۔ اس نے زیادہ سامان لے جانے پر مجھے بھی پرکشش مالی منافعت کی پیشکش کی۔ میں نہ مانی کیونکہ مجھے ملازمت کے ساتھ اپنی عزت بھی عزیز تھی۔ کوئی حل نہ سوجھا۔ سوچا کہ چند دن اور اس کا کام کر دوں، اس دوران کسی سے مدد کے لیے سعی کروں گی تو ہی اس شاطر عورت سے جان چھوٹے گی۔پریشان رہنے کی وجہ سے اب مجھ سے غلطیاں سرزد ہونے لگیں۔

 مسافر میری شکایت کرنے لگے، ساتھی لڑکیاں اور لڑکے بھی میرے رویے میں غیر معمولی تبدیلی محسوس کرنے لگے تھے۔ بہت کوشش کرتی کہ پہلے جیسی خوش اخلاقی اور تندہی سے اپنا کام سرانجام دے سکوں، مگر کوئی کام میرے بس میں نہیں رہتا تھا۔ ساری توانائی ریزہ ریزہ ہورہی تھی۔ دعا کرتی کہ کوئی ایسا ساتھی مل جائے جو مجھے تحفظ اور سہارا دے اور ان عذابوں سے نجات دلا دے۔ ایک فلائٹ پر احسن نامی ایک مسافر نے مجھے پُرشوق نگاہوں سے دیکھا۔ مجھے بھی اس میں کشش محسوس ہوئی۔ وہ پہلا مسافر تھا جس نے اپنا کارڈ دے کر بعد میں رابطہ کرنے کو کہا تو میں نے ہامی بھر لی۔
جب آف ڈے آیا تو احسن کو فون کیا اور ہم ملے۔ دو چار ملاقاتوں میں اس نے مجھے گرویدہ کرلیا، اپنا اعتبار میرے دل میں بٹھا دیا تو میں نے اسے اپنا مسئلہ بیان کردیا کہ دراصل میں ایک عذاب سے نکلنے کی خاطر کسی اچھے ساتھی کی آرزو لیے بیٹھی تھی، تم مل گئے۔ تم ہی پہلے شخص ہو جسے میں نے لفٹ دی ہے کیونکہ تم اچھے انسان لگتے ہو۔ اس نے کہا: ربیعہ! تم مجھ پر بھروسا کر سکتی ہو۔ میں تمہیں ہر مشکل سے نجات دلاؤں گا اور ثابت قدم رہوں گا، بشرطیکہ تم بھی میرے ساتھ ہر بات میں ثابت قدم رہنا۔ یوں میں نے عہد و پیمان اور یہاں تک کہ شادی کا وعدہ بھی کرلیا۔ میں نے تو احسن کا ہاتھ اس وقت تھاما تھا جب میں ایک نجات دہندہ کی تلاش میں تھی۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہورہی تھیں۔ نہیں جانتی تھی کہ انسان باہر سے کچھ نظر آتے ہیں، اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں۔ ایسے شخص پر بھروسا کر لیا جو کیتھرین سے بھی زیادہ گیا گزرا اور لالچی نکلا۔ میں نے کہا: احسن! اب میں ملازمت سے تھک گئی ہوں۔ چاہتی ہوں کہ گراؤنڈ ہوجاؤں، پھر ہم شادی کرلیں۔ وہ اصرار کرنے لگا کہ تم نوکری جاری رکھو۔ تم نے غیروں کے لیے کام کرکے انہیں مالا مال کیا ہے، تو کیوں نہ ہم دونوں مل کر اپنے لیے کچھ عرصہ یہ کام کر کے مالا مال ہوجائیں۔ اس کے بعد چاہے نوکری چھوڑ دینا۔ 

میں نے اسے سمجھایا کہ یہ غلط کام ہے۔ میں یہ نہیں کر سکتی اور نہ میرا ضمیر اجازت دیتا ہے۔ مجھے تمہاری مضبوط پناہ کی ضرورت تھی، اسی سبب تمہاری طرف قدم بڑھایا ہے، نہ کہ مزید اس دلدل میں پھنسنے کے لیے۔ جس دن سے مجھے پتا چلا کہ مجھ سے غلط کام لیا جارہا ہے، اس دن سے میری روح انگاروں پر ہے۔ میں استعفیٰ دے دوں گی اگر تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو… اور پھر میں نے ایسا ہی کیا۔ نوکری سے استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ گئی۔ میں سمجھی کہ اس طرح میرا احسن سے بھی پیچھا چھوٹ جائے گا اور کیتھرین سے بھی۔ کیتھرین سے تو پیچھا چھوٹ گیا کہ اس نے اس کے بعد نہ میرا تعاقب کیا اور نہ واسطہ رکھا، لیکن احسن… اس نے تو گھر تک میرا پیچھا کیا۔
اس نے مجھے تنگ کرنا شروع کردیا اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا۔ جس تحفظ کا میں نے خواب دیکھا تھا، وہ چکنا چور ہو گیا۔ وہ مجھے بلیک میل کرنے کی دھمکیاں دینے لگا کہ جو معاملہ میں نے اسے بتایا ہے، وہ حکامِ بالا کو بتا کر مجھے خوار کر دے گا۔ دن رات کی اذیت نے مجھے پاگل کر دیا۔ میں نے گھر کا فون کٹوا دیا، اور جب اس نے پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا تو تنگ آکر خود اپنے ایک اعلیٰ آفیسر کے پاس چلی گئی۔ انہیں اپنے استعفیٰ دینے کی وجہ بتا کر استدعا کی کہ انجانے میں مجھ سے چند بار یہ غلطی ہوئی کہ ایک دوست سمجھ کر پیکٹ کی صورت میں اس کے تحفے اس کے دوست کو پہنچائے، مگر جب غلطی کا احساس ہوا تو نوکری چھوڑ دی۔ احسن کے بارے میں بھی بتایا کہ اس کا سہارا لینا چاہا مگر وہ میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ میں نے کہا: سر! اگر آپ مجھے مجرم سمجھتے ہیں تو جو سزا ہے، دے دیجئے۔ مگر اب میں یہ اذیت برداشت نہیں کرسکتی اور نہ کسی کے ہاتھوں میں کھلونا بنوں گی۔ میرے والد نے رزقِ حلال کمایا اور ہم نے بھی رزقِ حلال ہی کھایا ہے۔ میں رو رہی تھی۔آفیسر نے کہا: تم نے استعفیٰ دے کر غلطی کی۔ پہلے ہی مجھے حالات سے آگاہ کرنا تھا۔ بہرحال، تم مجرم نہیں ہو، اس لیے سزا تمہیں نہیں ملے گی، اصل مجرموں کو ہی ملے گی۔ تم سکون سے گھر بیٹھو، میں خود ان لوگوں سے نمٹ لوں گا۔

 خدا ان صاحب کا بھلا کرے۔ اب تو ان کا انتقال ہوچکا ہے اور میں بھی 40 برس کی ہوگئی ہوں۔ انہوں نے جو مناسب سمجھا، کیا، اور اس کے بعد مجھے کسی نے تنگ نہ کیا۔ میرے بعد والی بہن نے تعلیم مکمل کرلی تھی، وہ لیکچرار ہوگئی، اور اس کے بعد والی بہن کی بھی شادی ہوگئی۔ میرے دونوں بہنوئی اچھے اور صاحبِ حیثیت تھے۔ انہوں نے مجھے سہارا دیا۔ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ میں نے شادی نہ کی کیونکہ میرا اعتماد ہر کسی سے اٹھ گیا تھا۔ آج کل مریضہ ہوں، دعا کرتی ہوں کہ خاتمہ بالخیر ہو۔

(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ