نکاح ثانی کا راز

Sublimegate Urdu Stories

 عالیہ چار بچوں کی ماں بن چکی ہے۔ اس پر سوکن ڈالنا کسی طور مناسب نہیں۔ سسر نے بھی سمجھایا کہ بیگم ہماری تمہاری زندگی تھوڑی ره گئی ہے۔ اپنی مت سوچو، اپنے پوتوں اور پوتیوں کے بارے میں سوچو مگر اماں نے ہر دلیل کو مسترد کر دیا۔ فرزانہ کا ہاتھ شاداب کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ یہ میری آخری خواہش ہے کہ تم اسی سے نکاح ثانی کرو گے۔ یہ نکاح خفیہ ہو گیا۔ ہم لوگوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
👇👇 
مجھے ہم عمر لڑکیوں کی طرح شادی کی خواہش نہ تھی۔ اپنی کتابوں کو سہیلیاں سمجھتی اور انہی سے محبت تھی۔ بی اے کا آخری سال تھا اور یونیورسٹی میں پڑھنے کے خواب دیکھ رہی تھی کہ والدہ کو میرے لئے ایک رشتہ پسند آ گیا۔ مجھ میں حسن کی کمی نہ تھی مگر دولت میں ہم ان لوگوں سے کم تھے۔ کچھ رشتے داروں نے کہا۔ یہ بے مروت قسم کے لوگ ہیں، یہاں رشتہ نہ کرو۔ لیکن ماں نے ان کی باتوں کو نظر انداز کردیا۔ کہا کہ قیصر بیمار رہتے ہیں، تبھی وقت سے عالیہ کے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے ہیں۔ جبکہ والد اتنے بیمار نہ تھے بلکہ زبان خلق کو نظر انداز کرنے میں لڑکے کی خوبصورت اور کچھ اس کی دولت بھی ایک وجہ تھی۔ میں اپنی شادی پر خوش نہ تھی۔ ایم اے کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ماں باپ کو رنجیده بھی نہ کرنا چاہتی تھی، تبھی انکار کیا اور نہ ضد پر اڑی۔ ان کے فیصلے پہ سر تسلیم خم کر دیا۔ 
 
یوں بی اے کا نتیجہ آنے سے پہلے میری شادی دھوم دھام سے شاداب صاحب سے ہو گئی۔ پہلے ہی روز دولها اچھا لگا۔ خوبصورت بنس مکھ اور شگفتہ مزاج، بات بات پر ہنسانے والا۔ سسرال میں بھی خوب آئو بھگت ہوئی۔ میرا من ان لوگوں کا ہوگیا۔ سوچا شادی تو بونی ہی تھی، اچھا ہے وقت پر ہو گئی۔ مجھ سے چھوٹی تین بہنیں تھیں۔ ان کی بھی شادیاں ہوئی تھیں، یہی سوچ کر یونیورسٹی نہ جا سکنے کے خواب کو دل کے صندوق میں بند کردیا۔شادی کو بہ مشکل سال گزرا تھا کہ اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا۔ میں بچی کی پرورش میں لگ گئی۔ ساس نے موڈ خراب کرلیا۔ حالانکہ ملازمہ نوکر سب موجود تھے مگر وہ ہر وقت شاداب کے کان کھاتیں کہ یہ کام نہیں کرتی۔ گھر کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ سبھی جانتے ہیں کہ پہلوٹی کا بچہ پالنا مشکل ہوتا ہے۔ میکے یا سسرال سے کسی نہ کسی کی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیبا کی پرورش میں امی جان اور بہنیں تعاون کرتیں تو میکے چلی جاتی تھی، اس پر شاداب کی امی اور بہنیں برا مناتیں بالآخر میکے جانا چھوڑ دیا تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔ امی ابو بھائی اور بہنیں سب پوچھتے۔ فون کرتے کہ کیوں نہیں آتی ہو۔ کیا بتاتی کہ یہاں سب برا مناتے ہیں تبھی شوہر نے منع کر دیا ہے کہ میکے نہیں جانا ہے۔ ان سے کہتی کہ اپنے گھر سکون سے ہوں۔ حالانکہ یہ بات درست نہ تھی۔ اپنے گھر سکون سے نہ تھی۔
 
 اس گھر کا ہر فرد یہ احساس دلاتا کہ میں غریب گھرانے سے ہوں اور امیر لوگوں نے بہو بنا کر احسان کیا ہے۔ تو اب مجھ کو ان کا یہ احسان بھولنا نہ چاہئے۔ چاہے کوئی سونے کا نوالہ کھلائے اور کسی نہ کسی بہانے ابانت بھی کرتا رہے۔ انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے تب پھولوں کی سیج کانٹوں کا گہوارہ بن جاتی ہے۔یہاں کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے کی کمی نہ تھی۔ گہنے ہار سنگھار کا سامان سبهی کچه تها لیکن سسرال والے جن نظروں سے دیکھتے ان میں مجھ کو کمتر سمجھنے کا ایک احساس پوشیده ہوتا تھا۔ اسی احساس کی لو پر میرا دل ہر لمحہ سلگتا اور پگھلتا رہتا۔ گلابی رنگت میں زردی گھلنے لگی اور میں ساعتوں کی تپش میں نرم و نازک پھول کی طرح مرجھانے لگی۔ امی ابو ملنے آتے، حیرت سے میرے چہرے کو تکتے۔ بہنیں سوال کرتیں۔ آپی تمہیں کیا ہوا ہے۔ کچھ نہیں ہوا۔ چھوٹی بچی جگاتی ہے نیند پوری نہیں ہوتی اور بس۔ پھر یہ ہوا کہ میرا میکے جانا بالکل ختم ہوگیا۔

امی کے پڑوس میں شگفتہ رہتی تھی جو میری ہم عمر تھی۔ اتفاق سے اس کی شادی ہمارے ساتھ والے گھر میں ہوگئی۔ بیاہ کر آئی تو میرے پاس آنا جانا شروع کر دیا۔ یوں شگفتہ کی زبانی امی کو میرے بارے میں باتیں پتا چلیں۔ حیران تھیں کہ عالیہ کس مٹی کی بنی ہے اتنا کچھ سہہ کر بھی میکے میں شکوہ نہیں کرتی۔ شاداب زیادہ تر اپنے کاروبار کے سلسلے میں باہر رہتے، رات کو آتے جو ماں رپورٹ دیتی اس کے مطابق ان کا رویہ میرے ساتھ ہوتا۔ شریف گھرانے کی لڑکیاں ہر دکھ سہتی ہیں مگر اس وجہ سے اپنا گھر نہیں چھوڑتیں کہ ماں باپ کو تکلیف نہ ہو۔ میں نے بھی خاموشی سے تلخ رویے برداشت کئے۔ والدین سے شوہر اور ان کے گھر والوں کی شکایت نہ کی۔ شیبا بمشکل دو برس کی تھی کہ دوسری بیٹی ہوگئی دو ننھی منی بچیوں کی پرورش میں سب کچھ بھلا دیا۔ انہی دنوں ساس بیمار پڑ گئیں۔ ان کی خدمت گزاری کو شاداب نے ایک نرس کا انتظام کردیا۔ یہ لڑکی فرزانہ سولہ برس کی تھی۔ اس نے ہماری ساس کی بہت تندہی سے دیکھ بھال کی۔ ایسی خدمت کی کہ سگی بیٹیاں بھی شاید نہ کریں۔ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھیں۔
 
 پانی تک خود نہ پی سکتی تھیں۔ یہ لڑکی ہی ان کو نہلاتی، کپڑے تبدیل کراتی، باتھ روم لے جاتی، وقت پر کھانا کھلاتی دوا ديتي غرض جس خلوص سے فرزانہ نے اپنی ڈیوٹی سر انجام دی کہ افراد خانہ اس کا شکریہ ادا کرتے نہ تھکتے تھے۔ فرزانہ ان کی مستقل ضرورت بن گئی تھی۔ ساس نے دونوں چھوٹی بیٹیوں کی شادیاں کردیں۔ گھر میں، میں اور فرزانہ رہ گئی تھی۔ فرزانہ کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔ وہ اپنی بڑی بہن کے گھر رہا کرتی تھی جو شادی شدہ تھی۔ اس خاتون کا نام جمیلہ تھا اور یہ شاداب کے آفس میں کام کرتی تھی۔ان دنوں میں تیسری بار ماں بننے کے مرحلے سے گزرنے والی تھی۔ اماں جان کی خدمت کرنے سے معذور تھی سوچتی تھی اگر فرزانہ نہ ملتی تو نجانے ہمارے گھر کا نظام کیسے چلتا۔ میں تو اپنے بچوں اور ان کے مسئلوں میں پوری ہو گئی تھی۔ایک روز فرزانہ کو بخار نے آلیا۔ وہ اتنی بیمار پڑی کہ اٹھنا محال ہوگیا۔ شاداب نے اس کی بہن کو فون کیا۔ جمیلہ آکر اس کو لے گئی۔ فرزانہ کے جاتے ہی ہمارے گھر کا سبھی کچھ اوندھا ہو گیا۔ شاداب کام چھوڑ کر ماں کے سرہانے بیٹھے رہنے پر مجبور ہو گئے۔ نندیں باری باری چند دن آکر رہتیں، ان کے شوہر اصرار کرتے کہ گھر چلو۔

سسر بیچارے اکثر باہر سے کھانا منگوا کر کھانے لگے۔ جب بچوں سے وقت ملتا، میں کچن میں جاتی کہ جو ہو سکتا کر دیتی۔ اماں جان مجھ پر چلاتیں کہ کیسی بہو ملی ہے، جو کسی کام کی نہیں ہے۔ بیمار ساس کا کھانا الگ سے بنانا ہوتا تھا اور سسر شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ ان کے لئے علیحدہ کھانا تیار کرنا پڑتا تھا۔ فرزانہ یہ سب خوش اسلوبی سے کرتی مگر مجھ سے نہ ہوپاتا۔ ایک روز شاداب نے اماں جان کے لئے کھانا بنانے کو کہا۔ میری طبیعت ٹھیک نہ تھی کچن میں گئی چکر آنے لگے۔ گرمی بہت تھی۔ بمشکل ان کا پرہیزی کھانا بنایا مگر یخنی پتلی رہ گئی اور دلیہ بھی سخت سا ہو گیا۔ جب شاداب نے کھانا اماں کو کھلانا چاہا انہوں نے منہ سے نکال کر تھوک دیا۔ کہا کیا یہ کھانا کھانے کے لائق ہے؟ شاداب نے ایک چمچہ بھر دلیہ منہ میں رکھا۔ بد قسمتی سے ننھا سا کنکر ان کے دانت تلے آگیا۔ حالانکہ میں نے دلیہ صاف کیا تھا لیکن کوئی ایک کنکر چوک گیاتھا۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو ، چار چوٹ کی مار دینے کے درپے ہوگئے۔
 
 دو چار جهانپڑ دیئے ہی تھے کہ امی بھائی کے ہمراہ آگئیں۔ چلانے لگیں۔ شاداب بیٹا یہ کیا کر رہے ہو، ایسی حالت میں جبکہ بچے کی پیدائش میں چند ہی دن باقی رہتے ہیں تم نے عالیہ کو اس بیدردی سے مارا ہے یہ تو مر جائے گی۔ مجھ سے کہا کہ چلو میرے ساتھ ورنہ یہ تمہاری جان لے لیں گے۔ شاداب بولے۔ ہاں خالہ جی آپ لے جایئے اپنی لاڈلی بیٹی کو ابھی اور اسی وقت ایسا نہ ہو کہ کچھ کا کچھ ہو جائے۔امی نے غنیمت جانا مجھے اپنے ہمراہ لے آئیں۔ میکے آئے چار دن ہوئے تھے کہ اللہ نے بہ خیریت دو بیٹوں سے سرفراز کیا۔ فون پر ابو نے شاداب کو جڑواں بچوں کے ہونے کی خوشخبری سنائی مگر وہ نہ آئے۔ ان کی والدہ کی طبیعت خراب تھی۔ کہا کہ جب امی جان کو افاقہ ہوگا، آجائوں گا۔ وہی فرزانہ کو لینے جمیلہ کے گھر پہنچے۔ وہ اب ٹھیک ہو گئی تھی۔ جمیلہ سے درخواست کی کہ اپنی بہن کو بھیج دو۔ میری بیوی میکے میں ہے۔ اماں کو دیکھنے والا گھر میں کوئی نہیں ہے۔ میں کب تک کاروبار چھوڑ کر بیٹها رہوں گا۔ جمیلہ نے مہربانی کی اور فرزانہ دوبارہ ہمارے گھر آگئی۔ گھر پھر سے سنبھل گیا۔ اماں جان مرتے مرتے جی اٹھیں۔ اب بیٹے کے سر ہو گئیں کہ تم فرزانہ سے نکاح کرلو۔ 
 
مجھے ایسی ہی بہو چاہئے تھی۔ میری بدبختی کہ صورت پر مر مٹی اور کابل کام چور پھوہڑ عالیہ کو بہو بنا کر لے آئی۔ سبھی نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اب تو عالیہ چار بچوں کی ماں بن چکی ہے۔ اس پر سوکن ڈالنا کسی طور مناسب نہیں۔ ہمارے سسر نے بھی سمجھایا کہ ہماری تمہاری زندگی تھوڑی ره گئی ہے۔ اپنی مت سوچو، اپنے پوتوں اور پوتیوں کے بارے میں سوچو مگر اماں نے ہر دلیل کو مسترد کر دیا۔ فرزانہ کا ہاتھ شاداب کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ یہ میری آخری خواہش ہے کہ تم اسی سے نکاح ثانی کرو گے۔ دیکھ لینا تم کو راحت اور سکون اسی سے ملے گا۔ غرض ہماری ساس نے ضد کر کے فرزانہ کا نکاح شاداب سے کروا دیا۔ فرزانہ ایسا نہ چاہتی تھی مگر جمیلہ لالچ میں آگئی کیونکہ شاداب نے کافی روپیہ پیسہ اس کو دیا اور ایک گھر فرزانہ کے نام کرنے کا اقرار کیا۔ بہرحال یہ نکاح خفیہ ہو گیا۔ ہم لوگوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

اس کے بعد شاداب مجھے لینے آئے اور نہ اپنے بچوں کو دیکھنے آئے۔ میرے بچوں کی پرورش ننھیال میں ہونے لگی۔ سب کہتے کہ ان کے سسرال والوں نے تو گویا بہو کو بھلا دیا ہے۔ایک دن میری دونوں بیٹیاں اسکول گئیں تو چھٹی سے ذرا پہلے شاداب وہاں پہنچ گئے اور بچیوں کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ ان کے جانے کے پانچ منٹ بعد حسب معمول میرا بھائی ان کو لینے جب اسکول پہنچا، پتا چلا کہ بچیوں کو والد لے گئے ہیں۔ میں زیادہ پریشان نہ ہوئی کہ باپ لے گیا ہے۔ ایک دن میں بھی اپنے گھر چلی ہی جائوں گی۔والد صاحب نے شاداب کو فون کر کے پوچھا کہ بچیوں کو تم اسکول سے لے گئے ہو۔ جواب دیا۔ ہاں… میں لے آیا ہوں، امی جان ملنا چاہتی تھیں۔ بیٹا اطلاع تو کی ہوتی ہم پریشان ہوگئے تھے۔ اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے۔ اب اطلاع ہو گئی ہے نا آپ کو فکر نہ کریں میری اولاد میرے پاس ہے۔ ایک دن شگفتہ کی امی آئیں اور بتایا کہ تمہارے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے۔ کیا تم کو خبر ہے۔ ہاں خبر ہے۔ کرلی ہے تو کوئی بات نہیں۔ اس گھر کو فرزانہ کی ضرورت تھی وہ اچھی لڑکی ہے۔ میں نے تحمل سے جواب دیا۔ کیسی بات کی ہے تم نے عالیہ ؟ تم پر سوتن پڑ گئی ہے اور تم یہ بات اتنی آسانی سے مان رہی ہو۔ تو پھر کیا کروں۔ 
جب میں ساس کی خدمت نہیں کر سکتی، ان کو اور گھر کو آسانی سے نہیں سنبھال سکتی تب کسی کو تو سنبھالنا ہے۔ سال ہونے کو آیا ہے ، تم گھر کیوں نہیں چلی جاتی ہو۔ میکے میں کیوں پڑی ہو آخر کب تک یہاں رہو گی۔ چار بچے ہیں تمہارے۔ یہ سوچا ہے تم نے۔ہم تو اس انتظار میں تھے کہ شاداب خود آکر لے جائے گا۔ کیا خبر تھی کہ وہاں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ میرے بجائے امی نے جواب دیا اور رونے لگیں۔ رو تو میں بھی رہی تھی لیکن میرے آنسو دل میں گر رہے تھے۔ اور یہ سچ ہے کہ جو آنسو آنکھوں کی بجائے دل میں گرتے ہیں وہ پانی کے قطرے نہیں ہوتے وہ دہکتے ہوئے انگارے ہوتے ہیں جو وجود کو داغتے رہتے ہیں۔ ابو نے شاداب کو فون کیا۔ انہوں نے فون نہ اٹھایا۔ بچوں کی جدائی میں جان پر بنی تھی۔ شگفتہ ماں کے گھر آئی، میرے پاس بھی آئی بتایا۔ فرزانہ نے بچوں کو بہت پیار سے رکھا ہوا ہے۔ فکر مت کرو، تمہاری بچیاں ٹھیک ہیں۔

وہ اب کسی اور اسکول جاتی ہیں۔ فرزانہ ان کو تیار کرتی ہے۔ ناشتہ کراتی ہے اور لنچ بنا کر دیتی ہے۔ وہ اس بات سے خوش نہیں ہے کہ بچیاں تم سے جدا رہیں۔ چاہتی ہے کہ تم واپس گھر آجائو۔ میں نے سب کچھ خاموشی سے سنا اور کوئی تبصرہ نہ کیا۔ یہی کہا۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس اللہ کو یہی منظور تھا۔ اب جب شگفتہ آتی مجھ سے کہتی۔ واقعی فرزانہ اچھی انسان ہے۔ وہ تمہارے شوہر سے کہتی رہتی ہے کہ عالیہ باجی کو گھر لے آئو۔ ہم دونوں مل کر رہیں گی۔ وہ اماں جی کو بھی سمجھاتی ہے کہ دوسرے کی لڑکی کا خیال کرنا چاہئے۔ کسی عورت کا گھر برباد کرنا یا اس کے بچے جدا کرنا ٹھیک بات نہیں۔ اس بات پر ساس اور فرزانہ میں کافی اختلاف رہتا ہے۔ایک روز ایک تقریب میں فرزانہ سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی۔ وہ میری دونوں بچیوں کو ساتھ لائی تھی۔ میں خود پر قابو نہ رکھ سکی اور بھری محفل میں بچیوں سے لپٹ گئی۔ آج تو آنسوئوں پر بھی اختیار نہ رہا۔ میری حالت دیکھ کر فرزانہ بھی رونے لگی، بولی۔ باجی میں نے بہت منع کیا مگر جمیلہ باجی اور ان کے شوہر نے مجبور کر دیا۔ کہا اگر ہمارا کہا نہ مانا تو ہمارے گھر رہنے بھی مت آنا۔ آپ کو قسم ہے اپنے رب کی اپنے گھر آجایئے۔ وعدہ کرتی ہوں اگر آپ نے شاداب سے صلح کرلی تو میں آپ کی زندگی سے نکل جائوں گی۔ آپ کو اس طرح اپنے بچوں کے لئے تڑپتا نہیں دیکھ سکتی۔
وہ واقعی یہ الفاظ دل سے کہہ رہی تھی اور میرے دل پر اس کی بات اثر کر رہی تھی کہ دل سے نکلی بات اثر رکھتی ہے۔ اس کے بعد تو جیسے فرزانہ نے اپنا مشن بنا لیا کہ وہ مجھے گھر لے کر ہی جائے گی۔ اس نے شاداب کے بھی کان کھالئے کہ باجی کو گھر واپس لائو گے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے رہو گے تو میں رہوں گی ورنہ چلی جائوں گی۔ایک دن شگفتہ نے آکر بتایا کہ فرزانہ روٹھ کر اپنی ایک سہیلی کے گھر چلی گئی ہے اور جھگڑا اس بات پر ہوا ہے کہ وہ تم کو گھر واپس لانے پر اصرار کر رہی تھی۔ اور یہ افواہ بھی سنی ہے کہ شاداب اس کو طلاق دینے والا ہے۔ کچھ دنوں بعد میری سسرال کے کچھ معزز لوگ ابو کے پاس صلح صفائی کو آئے۔ شاداب بھی ساتھ تھے۔ ابو سے معافی مانگی اور مجھے گھر لے گئے۔ میں اسی دن کی منتظر تھی کہ اپنے گھر لوٹ جانا چاہتی تھی۔ بچیوں کے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔

گھر میں قدم رکھتے ہی سکون مل گیا جیسے کسی کو اپنی کھوئی ہوئی جنت واپس مل جائے۔ میرا کمرہ صاف ستھرا اسى طرح سجا ہوا تھا۔ ہر شے قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔ میری شادی کے وقت کی تصویر جو شاداب کے ساتھ تھی وہ بھی میز پر ویسے ہی رکھی تھی۔ کسی نے اس کو وہاں سے نہ بتایا تھا۔ مجھ کو یہ تصویر دیکھ کر لگا جیسے کہ دوبارہ ایک نئی زندگی مل گئی ہو۔ بچیاں دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئیں جیسے ڈالی سے پھول لگے ہوں۔ ایسا سکون پہلے کبھی اپنے اندر محسوس نہیں کیا تھا۔ لیکن… فرزانہ ؟ جانی وہ کہاں چلی گئی تھی۔ کس سے پوچھتی۔ کون جواب دیتا۔ اس سوال کا…. ایک روز سو کر اٹھی تو دیکھا کہ ساس کے کمرے میں فرزانہ سو رہی ہے۔ وہ واپس آگئی تھی۔ شاید رات کو جب میں اپنے کمرے میں سو گئی تھی۔ گیارہ بجے جب میں بچوں کے کاموں سے فارغ ہو کر ذرا سستانے کو بیٹھی وہ آگئی۔ سلام کیا، بولی اب مجھ سے منہ مت موڑ لینا۔ یہ سب کچھ میں نے تمہارے لئے کیا تھا باجی… اگر میں روٹھ کر نہ جاتی تو تم کبھی اپنے بچوں کے پاس واپس لوٹ کر نہ آسکتی تھیں۔ باجی یہ زندگی چند روزہ ہے۔ مل جل کر رہیں گے جس کا جتنا نصیب ہوگا اس کو مل جائے گا۔ اس میں لڑنا جھگڑنا کیسا۔ میں تمہارے بچوں کی آیا بن کر رہوں گی۔ کیونکہ میرا میکہ نہیں ہے۔ عزت کی زندگی صرف اسی گھر میں ملے گی۔ عورت کا نکاح ایک ہی بار ہو تو اچھا ہے۔اس کی آنکھوں کے بہتے آنسوئوں نے میرے دل پر اثر کیا کہ جب وہ اٹھ کر میرے گلے لگی میں نے بھی اس کو گلے سے لگالیا۔ 
اپنی کہوں تو دل میں ٹھان کر آئی تھی فرزانہ کی طلاق کرائوں گی مگر اس کے حسن سلوک نے میرے ضمیر کو جگا دیا۔ وہ طلاق لینا نہ چاہتی تھی اور میں اپنے گھر سے، بچوں سے جدا ہونا نہ چاہتی تھی۔ شاداب نے بھی اس کے ساتھ عشق کی پینگیں نہ بڑھائی تھیں۔ ماں کی وجہ سے مجبور ہو گئے تھے۔ معذور ماں کو میں نہ سنبھال سکتی تھی۔ دل پر پتھر رکھ لیا۔ سوچا کہ اس لڑکی کو نکالا تو اللہ پاک مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ میرے بچوں کی خیر ہو۔ اس کی بددعا سے کوئی اور بلا مجھ پر نہ ٹوٹ جائے۔ اگر سوتن بلا ہوتی ہے تو پھر یہی بلا ہی بہتر ہے۔الله کی کرنی فرزانہ کو اولاد نہ ہوئی۔ ساس کی وفات کے بعد بھی اس نے ہی گھر کو سنبھالا۔ بچوں کی پرورش میں چھوٹی بہن کی مانند میرا ساتھ دیا. گهر کا سارا کام وہی کرتی اور میں آرام سے رہتی۔ شاداب کی زندگی دو حصوں میں ضرور تقسیم ہو گئی لیکن میری نہیں۔ وہ ایک شب فرزانہ کے کمرے میں رہتے اور ایک شب میرے کمرے میں۔ انہوں نے انصاف کا ترازو برابر رکھا۔ 
 
اس گھر میں میرا درجہ بڑی بہو کا تھا، یہ اعزاز مجھے ہی حاصل رہا کہ میں صاحب اولاد اور وہ بے اولاد تھی۔ فرزانہ نے میرے بچوں سے سگی ماں جیسا پیار کیا تو وہ بھی اس کے ساتھ پیار کرنے لگے۔ ہمارے گھر کے سکون کو اس طرح دو عورتوں کی قربانی نے تہہ و بالا ہونے بچا لیا۔ بچے بڑے ہوگئے۔ وہ فرزانہ کی قدر و عزت ویسے ہی کرتے ہیں جیسی کہ میری کرتے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ انسان چاہے تو دشمن کا دل جیت سکتا ہے اور آدمی اپنی قدر خود کرواتا ہے۔ عزت کے بدلے عزت اور بدنیتی کے بدلے ذلت کم از کم میرا تو یہی تجربہ ہے۔ آج میں بوڑھی ہوچلی ہوں۔ فرزانہ نے دکھ سکھ میں میرا ساتھ دیا۔ لہٰذا مجھے سوتن کے ہونے سے کوئی پریشانی نہیں ہے

(ختم شد)
romantic stories 
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ