اُن دنوں میں سولہ، سترہ برس کی حسین لڑکی تھی۔ نیلی آنکھیں، سنہری بال، رنگ گورا اور شہابی چہرہ جو بھی دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا۔ مڈل کے بعد میں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ مجھے گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔کبھی کبھی امّی کے ساتھ رشتہ داروں کے ہاں جاتی رہی، مگر ہمارے خاندان میں زیادہ گھومنے پھرنے والی لڑکیوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ میری بھابھی نہایت اچھی اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ وہ مجھے سمجھاتیں کہ شائستہ، زیادہ گھومنا پھرنا ٹھیک نہیں۔ امّی جان جاتی ہیں تو جانے دو، مگر تم نہ جایا کرو۔ لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ اس طرح تمہاری آئندہ زندگی پر اثر پڑے گا اور کوئی اچھا رشتہ بھی نہیں ملے گا۔خیر، میں نادان تھی مگر بھابھی کی عزت کرتی اور اکثر ان کی بات مان لیتی تھی۔
جوں جوں باشعور ہوتی گئی، میرا گھومنے پھرنے کا شوق بھی ختم ہو گیا اور میں گھر میں ہی رہنے لگی۔ جن لڑکیوں کو کسی کام میں دل نہ لگے وہ گھر کی چار دیواری میں بوریت کا شکار ہو جاتی ہیں اور خود کو قیدی محسوس کرنے لگتی ہیں۔ ان دنوں میرا بھی یہی حال تھا۔ تبھی اُدھر اُدھر تاک جھانک میں لگی رہتی۔ کبھی کھڑکی سے گلی میں جھانکتی اور کبھی چھت سے نیچے دیکھتی۔ بھابھی دیکھ لیتیں تو ٹوک دیتیں یا پیار سے سمجھاتیں کہ ایسا نہ کرو، تمہارے بھائی نے دیکھ لیا تو ناراض ہوں گے اور محلے والے بھی باتیں بنائیں گے۔ میں تو محلے والوں کی باتوں کے خوف سے ہی بہت تنگ تھی۔ ہر بات پر یہی کہا جاتا کہ محلے والے باتیں بنائیں گے۔ میں سوچتی کہ میں کون سا ایسا برا کام کرتی ہوں جو وہ اعتراض کریں؟ انسان کا دل گھبرا جائے تو تازہ ہوا میں سانس لینا کیا گناہ ہے؟ امّی کی عادت تھی کہ وہ گھر میں ٹک کر بیٹھتی ہی نہیں تھیں۔ وہ مجھ پر بھی کوئی توجہ نہیں دیتی تھیں۔ مجھے محسوس ہوتا جیسے وہ میری فکر ہی نہیں کرتیں۔ وہ تو سارا دن گھومنے پھرنے میں مصروف رہتیں۔ گھر بھابھی سنبھالتی تھیں اور امّی موج میں رہتیں۔ کبھی کسی رشتہ دار کے گھر اور کبھی کسی پڑوسی کے گھر۔ محلے بھر میں ان کے معاشرتی تعلقات مضبوط تھے، اور بھابھی دن بھر گھر کے کاموں میں لگی رہتیں۔ پھر میں کیا کرتی؟
ان دنوں بھابھی کے میکے والے دوسرے شہر سے ہمارے شہر میں آکر آباد ہوگئے۔ میں نے سوچا اب بھابھی بھی کہیں آیا جایا کریں گی، مگر وہ گھر سے اتنی وابستہ تھیں کہ میکے بھی کم ہی جاتی تھیں، البتہ ان کے میکے والے ہمارے گھر آ جایا کرتے تھے۔ بھابھی کا ایک بھائی خالد، جو مجھ سے چھ برس بڑا اور غیر شادی شدہ تھا، ہفتے میں ایک دو بار بھابھی سے ملنے آنے لگا۔ وہ بانکا، سجیلا اور دلچسپ شخصیت کا مالک تھا۔ جب آتا تو بھابھی کچن یا گھر کے کاموں میں مصروف ہوتیں اور وہ میرے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگتا۔ مجھے اس کے ساتھ گپ شپ کرنا اچھا لگتا۔ جیسے بند کوٹھری میں ہوا کا دریچہ کھل گیا ہو۔اب مجھے خالد کا انتظار رہنے لگا۔ پہلے وہ ہفتے میں ایک بار آتا تھا، پھر روز آنے لگا۔ بھابھی کو اس کا آنا بُرا تو نہیں لگتا تھا، بہرحال وہ ان کا بھائی تھا، مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ پریشان رہنے لگی ہیں۔ بھائی سے محبت کے باوجود وہ گھر کی عزت پر آنچ نہیں آنے دینا چاہتی تھیں۔
میں ناسمجھ تھی، بھابھی کی روک ٹوک سے کھنچی کھنچی رہنے لگی اور انہیں اپنا دشمن سمجھنے لگی، کیونکہ ان کی ہر بات مجھے بُری لگتی تھی۔ حالانکہ یہ روک ٹوک ہر کم سن لڑکی کے لیے ضروری ہوتی ہے، مگر یہ ذمہ داری ماں کی ہوتی ہے۔ بھابھی کا رشتہ ایک سماجی رشتہ ہوتا ہے، جس سے صرف پیار کی توقع کی جاتی ہے۔ اسی لیے وہ مجھے کانٹا لگنے لگی تھیں۔ لیکن چونکہ خالد ان کا بھائی تھا، میں ان سے کوئی بگاڑ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔اب میں خالد کی اتنی عادی ہو گئی تھی کہ وہ نہ آتا تو بے چینی سے گھر میں پھرنے لگتی۔ وہ آتا تو میری آنکھوں میں چمک آ جاتی اور میں اس سے ناراضگی جتانے لگتی کہ تم کیوں نہیں آئے تھے۔ وہ اپنی بہن کے سامنے جھینپ جاتا مگر میں نہیں جھینپتی تھی، مجھے کسی کی پروا نہیں تھی۔
خالد کو البتہ زمانے کی فکر لگی رہتی۔ وہ بھی کہتا کہ دھیان رکھا کرو، کوئی باتیں نہ بنائے۔ کہیں ہمیں اکٹھے بیٹھے دیکھ نہ لے، بدنامی ہو جائے گی۔ میں لڑکی ہو کر بھی زمانے کی پروا نہیں کرتی تھی۔جب دو نوجوان آپس میں باتیں کریں تو چاہے وہ بے معنی باتیں ہوں، پھر بھی اُن میں معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ میں نے بھی خالد کے لیے دل میں لاتعداد خواب سجا لیے تھے۔ میں اسے اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتی تھی۔ وہ تنہائی میں تو محبت کی باتیں کرتا مگر سب کے سامنے لا تعلق بن جاتا۔ مجھے اس کا یہ دوغلا پن پسند نہیں تھا، مگر میں اس کی مجبوری سمجھتی تھی۔ وہ بھابھی سے چھوٹا تھا، امّی کا بھی لحاظ کرتا تھا۔ اس لیے میں اسے معاف کر دیتی تھی۔ایک دن اس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ مجھ سے شادی کرے گا۔ میں خوشی سے پھولے نہ سمائی۔ ہم قریبی رشتہ دار تھے، رشتے میں کوئی قباحت بھی نہ تھی۔ بھابھی بھی مجھ سے پیار کرتی تھیں، مجھے یقین تھا وہ ہماری مدد کریں گی اور کوئی رکاوٹ آئی بھی تو دور کر دیں گی۔ میں نے کتنے ہی خواب سجا لیے، جو بعد میں ریت کے گھروندے ثابت ہوئے اور خاک میں مل گئے۔بھابھی کبھی کبھار مجھے سمجھاتیں کہ شائستہ، تم ناسمجھ ہو۔ لڑکے بہت تیز ہوتے ہیں۔ جہاں چاہیں پیار محبت کے چکر چلا لیتے ہیں، مگر شادی ہمیشہ اسی لڑکی سے کرتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی لڑکے سے ہنس کر بات کرنے والی نہیں۔
ان کی ایسی باتوں سے میں سمجھنے لگی کہ یہ مجھے اپنی بھابھی بنانا نہیں چاہتیں۔ ان کی امّی جب بھی آتیں، وہ بھی مجھ پر خاص توجہ نہ دیتیں، جس سے اندازہ ہوتا کہ ان لوگوں کا خالد کی شادی کہیں اور کرنے کا ارادہ ہے۔ اب یہ خالد کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے والدین اور بہن کو راضی کرتا کہ میرا رشتہ اس سے کردیں، لیکن اس نے کبھی ایسی کوشش نہ کی۔ جب بھی میں نے اس موضوع پر بات کرنا چاہی، وہ بات بدل دیتا اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگتا۔پھر مجھے احساس ہوا کہ کچھ دنوں سے وہ بیزار نظر آنے لگا ہے۔ روز آنے والا اب ہفتے میں ایک بار آنے لگا۔ میری نظریں دروازے پر لگی رہتیں، مگر وہ نہ آتا۔ مجھے یوں لگتا جیسے میرا کچھ کھو گیا ہے اور میں اکیلی تنہا اس کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہوں۔ وہ میری ہر بات اور ہر راز سے واقف تھا، میں اپنے دل کی کوئی کیفیت اس سے نہیں چھپاتی تھی۔ مجھے صاف محسوس ہونے لگا کہ اس نے مجھ سے نگاہیں پھیر لی ہیں۔ وہ یوں کھنچا کھنچا رہتا جیسے میری جگہ کسی اور نے لے لی ہو۔
دل پریشان رہنے لگا کہ آخر اسے کیا ہوگیا ہے۔مجھے اداس دیکھ کر بھابھی نے ایک بار پھر سمجھانا چاہا۔ شائستہ، خالد میرا بھائی ہے، میں اسے خوب جانتی ہوں۔ وہ تم سے شادی نہیں کرے گا۔ اس کے لیے پریشان مت ہو۔بھابھی کی احسان مند ہونے کی بجائے میں ان سے خفا رہنے لگی۔ میں سوچتی کہ جانے کیوں وہ مجھ سے حسد کرنے لگی ہیں؟ میں ان کی نند ہوں، شاید اسی وجہ سے۔ یہ رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے، میٹھا ہو کر بھی کڑوا ہی رہتا ہے۔انہی دنوں ایک اچھے گھرانے سے میرے لیے رشتہ آگیا۔ والد تو مرحوم ہو چکے تھے، گھر کے فیصلے بھائی جان ہی کرتے تھے۔ انہیں لڑکا پسند آ گیا، یوں انہوں نے ہاں کر دی۔ جب مجھے پتا چلا تو میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، زبان خشک ہوگئی، مگر پھر بھی ایک آس تھی کہ جب خالد کو پتہ چلے گا تو وہ فوراً اپنی والدہ کو میرے رشتے کے لیے بھیجے گا۔
مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے دھوکا نہیں دے گا۔ جب وہ گھر آیا تو میرے دل کی دھڑکن بے قابو تھی۔ سوچا، اسے کیسے بتاؤں؟ وہ بہت پریشان اور افسردہ ہو جائے گا، مگر ہمت کر کے کہہ دیا کہ بھائی جان میرا رشتہ کہیں اور طے کر رہے ہیں۔ تم اپنی امی کو فوراً لاؤ اور اپنی باجی سے کہو کہ کچھ کریں۔اس نے بڑے سکون سے میری بات سنی اور کہا کہ بزرگ جو کرتے ہیں، بچوں کے حق میں بہتر کرتے ہیں۔ مجھے یہ بات پہلے سے معلوم تھی، تم آج بتا رہی ہو۔ تمہیں معلوم تھا تو چپ کیوں رہیں؟ تمہیں کچھ کرنا چاہیے تھا۔ آخر اپنی والدہ سے کیوں نہیں کہتے؟ کیا تب کہو گے جب میں کسی اور کے سپرد کر دی جاؤں گی اور تم منہ دیکھتے رہ جاؤ گے؟وہ یکدم غصے میں بولا: تو میں کیا کروں؟ تم کو بھگا لے جاؤں؟ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میں اس کا منہ دیکھتی رہ گئی۔ بے اختیار اتنا رونا آیا کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔
بھابھی نے میرے رونے کی آواز سنی تو دوڑتی ہوئی آئیں اور پوچھا: کیا ہوا شائستہ؟ جب انہوں نے پیار سے مجھے سنبھالا تو میں نے سارا ماجرا بتا دیا۔ وہ غمزدہ ہوگئیں اور مجھے گلے لگا لیا۔ پھر کہنے لگیں: شائستہ، میں نے تو تمہیں پہلے ہی سمجھایا تھا۔ تم ہی نہ سمجھتیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ تم سے شادی نہیں کرے گا۔ تم غمزدہ نہ ہو۔ میں اسے ایک بار منانے کی کوشش کروں گی کہ وہ تم سے شادی پر راضی ہو جائے۔ ہفتہ بھر وہ ہمارے گھر نہ آیا۔ آخرکار بھابھی نے فون کر کے اسے بلوایا اور اپنے کمرے میں لے گئیں۔ ان کے کمرے کی ایک کھڑکی میرے کمرے میں کھلتی تھی۔ میں کھڑکی سے کان لگائے کھڑی تھی۔ وہ خالد کو سمجھا رہی تھیں، منا رہی تھیں۔ کہہ رہی تھیں کہ تم نے آخر شادی کرنی ہے، تو پھر شائستہ سے کیوں نہیں؟ وہ تم سے اتنی محبت کرتی ہے۔ اس کا دل نہ توڑو۔ پہلے تم نے خود اسے وعدے کیے، پھر کیوں جھوٹی باتیں کیں؟وہ بولا: لڑکے تو ایسی ہی باتیں کرتے ہیں، وہ سچ مچ شادی تھوڑا ہی کر لیتے ہیں۔ میں جس سے شادی کروں گا، سب سے پہلے آپ کو بتاؤں گا۔ آپ شائستہ کو بتا دیں کہ میرا خیال دل سے نکال دے اور جہاں اس کا رشتہ ہو رہا ہے وہیں شادی کر لے، اسی میں بہتری ہے۔ اسے کہہ دیں کہ مجھے بھلا دے، کیونکہ یادیں تو وقت کی دھول ہوتی ہیں۔
میں نے اپنے کانوں سے یہ سب سنا تو یقین نہ آیا کہ یہ وہی خالد ہے، جو مجھ سے ہزار بار محبت کا اقرار کر چکا تھا۔ آج اسے ذرا سا بھی ملال نہیں تھا۔ اسے یہ بھی خیال نہیں آیا کہ شائستہ اسے کتنی شدت سے چاہتی ہے اور اب وہ کسی اور کی ہونے جا رہی ہے۔ اس کا یوں بدل جانا میرے لیے جان لیوا تھا۔اُدھر ناصر کی امّی روز ہمارے گھر آنے لگیں۔ وہ منگنی کی تاریخ مانگ رہی تھیں۔ بالآخر امّی نے تاریخ طے کر دی۔ جب میں نے یہ سنا تو اپنے کمرے میں جا کر منہ چھپا کر رونے لگی۔ اکیلے ہی روتی رہی۔ آج میرے اس دکھ میں ساتھ دینے والا کون تھا؟ صرف خالد، جو میری ہر بات سن لیا کرتا تھا، مگر وہی بے وفا آج دامن جھٹک کر چلا گیا۔ میں خود کو کوستی رہی کہ بھابھی کی بات کیوں نہ مانی؟ بلکہ انہیں اپنا دشمن سمجھ لیا۔مجھے یہ دکھ تھا کہ وہ مجھے تسلی تو دے سکتا تھا۔ بجائے غصے سے پیش آنے کے، آرام سے اپنی مجبوری بتا کر میرے دل کو زخمی ہونے سے بچا سکتا تھا۔ اس نے تو یہ بھی نہیں کیا۔ وہ مجھے سپنوں کے محل تک لے گیا، پھر اونچائی سے دھکا دے کر نیچے گرا دیا۔
پھر وہ دن آ ہی گیا ناصربیاہ کر لے گئے۔ اس وقت میری کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ اگر اس وقت خالد نے اپنے ترش رویے سے میرے دل کو زخمی نہ کیا ہوتا تو شاید میں کہیں بھاگ نکلتی، مگر کسی اور کی دلہن بن کر نہ بیٹھتی۔اب سوچتی ہوں کہ شاید اس نے اچھا کیا۔ یوں میری کشتی ایک کنارے تو لگ گئی۔ آج میں اپنی زندگی ناصر کے نام لکھ رہی ہوں۔ میں نے خالد کی بے وفائی کے بعد تہیہ کر لیا تھا کہ اگر میرا شوہر اچھا انسان ہوا، تو اپنی زندگی اسی کے نام لکھ دوں گی اور اس کے ساتھ کبھی بے وفائی نہیں کروں گی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ناصر کی صورت میں ایک فرشتہ سیرت انسان سے ملا دیا۔ میں آج اللہ کا شکر ادا کر کے بہت خوش ہوں۔ سچ ہے، تعالیٰ کے فیصلے کامل ہوتے ہیں۔ جو وہ اپنے بندوں کے لیے کرتا ہے، اسی میں ہماری بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔
(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ
