بھائی نعمان سہانہ سے محبت کرنے لگے تھے لیکن ایک رات اسے سہانہ کے بارے میں اصلیت کا پتہ تب چلا جب وہ اپنے دوستوں کی محفل میں پہنچا۔ اس کے دوست ایک رات کے لیے اسے خرید لائے تھے، کیونکہ وہ تھی ہی بکنے والی چیز۔ اس بات کا علم صرف نعمان کو نہیں تھا، باقی تو سارا زمانہ جانتا تھا۔ نعمان نے اپنی آنکھوں سے سہانہ کو اوباش مردوں کی محفل میں پاؤں میں گھنگرو باندھے رقص کرتے دیکھا تو سر جھکائے وہاں سے واپس آگیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ دیواروں سے سرٹکرائے، خودکشی کرلے۔
👇👇
ہمارے ماموں شوبز کی دنیا کے ایک معروف رائٹر اور ڈائریکٹر تھے۔ وہ سیٹ پر پہنچے تو پتا چلا کہ آج ایک آرٹسٹ لڑکی شائزہ غیر حاضر ہے۔ لڑکی نئی تھی مگر اس کو انکل نے اہم رول دیا تھا۔ اس کی غیر حاضری کی وجہ سے آج کی شوٹنگ منسوخ کرنا پڑ رہی تھی۔ انکل کا پارہ چڑھ گیا اور وہ غصے میں بولے کہ شائزہ کو ڈرامے سے نکال دو، بلکہ میں ابھی خود اس کے گھر جا کر کہہ دیتا ہوں کہ کل سے اسے نہیں آنا، ہمارا معاہدہ ختم۔رنگ میں بھنگ پڑ چکی تھی۔ ریہرسل فوراً بند کر دی گئی۔ میرا بھائی نعمان، جو ماموں کے ہمراہ شوق میں اسٹوڈیو گیا تھا، اسے ساتھ لے کر وہ شائزہ کے گھر چلے گئے۔
انکل نے بھائی سے کہا کہ پتا نہیں ان چھوکریوں کو کیا ہو جاتا ہے؟ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور ابھی سے سپراسٹار جیسے نخرے شروع ہوگئے۔گھر والوں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور شائزہ فوراً کولڈ ڈرنک لے کر آگئی۔ وہ کافی پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے میرے انکل سے کچھ باتیں کیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ان کی زبردست منت سماجت کر رہی ہو اور اپنی وہ پریشانی بیان کر رہی تھی جس کی وجہ سے وہ نہ آسکی تھی۔ آخرکار اس کو فلم میں بھی تو ان ہی کے ذریعے کام ملا تھا۔ اس کی معذرت سن کر انکل مان گئے اور اسے مزید دو دن کی مہلت عنایت کر دی۔ابھی باتیں جاری تھیں کہ اسی اثنا میں ایک لڑکی اسکول یونیفارم میں، میلوں سے چلا ہوا سا بستہ اٹھائے اندر آئی۔ صاف لگ رہا تھا کہ اسکول سے آرہی ہے۔ اس نے سلام کیا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ وہ اتنی شاداب و حسین تھی جیسے کوئی حور آسمانوں سے سیدھی زمین پر اتر آئی ہو۔ نعمان بھائی ہی نہیں، انکل بھی اسے دیکھتے رہ گئے۔
شائزہ نے بتایا کہ یہ اس کی چھوٹی بہن سہانہ ہے، میٹرک میں پڑھتی ہے۔انکل نے پوچھا کہ کیا اسے اسٹیج یا فلم میں کام کرنے کا شوق ہے؟شائزہ نے جواب دیا کہ ہاں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ پہلے میٹرک کرلے۔ اس کے بعد اس لائن کو جوائن کرے۔ اگر یہ فلم لائن میں آئے گی تو ضرور صفِ اول کی ہیروئن بنے گی، کیونکہ اس کے چہرے پر ایک خاص کشش ہے۔ اگر اسے اداکاری کا فن آتا ہے تو کامیابی کی راہیں خودبخود کھل جائیں گی۔عجیب بات یہ تھی کہ نعمان بھائی کے دل پر سہانہ کی صورت نقش ہو کر رہ گئی تھی۔ اب وہ جب بھی پڑھنے بیٹھتا، سہانہ کی صورت اس کی نظروں کے سامنے آجاتی تھی۔ اس طرح کافی دن گزر گئے۔ ایک روز نعمان نے ماموں جان سے پوچھ ہی لیا کہ انکل! آپ کا ڈرامہ کب مکمل ہو رہا ہے؟
انکل بولے کہ وہ تو کب کا مکمل ہو چکا۔ آج کل ہم ایک اور ڈرامہ کر رہے ہیں۔ تم چاہو تو اس میں حصہ لے سکتے ہو۔نعمان کبھی کبھار کالج کے ڈراموں میں حصہ لیا کرتا تھا، تاہم شہرت سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی، پھر بھی انکل کے کہنے پر اس نے ہامی بھر لی۔اگلے دن جب وہ ریہرسل کے لیے پہنچا تو دیکھا کہ وہاں شائزہ کے ساتھ اس کی بہن سہانہ بھی آئی ہوئی ہے۔شائزہ نے پوچھا کہ نعمان، تم دوبارہ ہمارے گھر نہیں آئے؟نعمان نے کہا کہ فرصت ہی نہیں ملی۔شائزہ نے کہا کہ اب ضرور آنا۔اس بار سہانہ بولی اور نعمان حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ سہانہ کی چمک دار آنکھوں میں شرارت تھی جیسے اس کے من کا پھول کھل اٹھا ہو۔ اس سے باتیں کر کے نعمان کو دلی مسرت ہوئی اور اس نے سہانہ سے اس کے گھر کا نمبر مانگ لیا۔اب وہ روز اس لڑکی کو فون کرتا اور دونوں ادھر اُدھر کی باتیں کرتے۔
سہانہ نے بتایا تھا کہ فی الحال وہ شوبز میں آنے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے۔ بہرحال دو برس تک دونوں میں ٹیلی فون پر رابطہ رہا۔ ایف اے کے بعد سہانہ نے کالج کو خیرباد کہہ دیا۔ اب وہ گھر پر باقاعدہ رقص و موسیقی کی تربیت لے رہی تھی مگر لگتا تھا کہ یہ معصوم سی بھولی بھالی لڑکی اس فیلڈ میں چل نہیں سکے گی۔ بہرحال یہ اس کا ماحول تھا اور جس طبقے سے وہ تعلق رکھتی تھی، وہاں روزی کمانے کا یہی ذریعہ تھا۔نعمان اکثر اس کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ اسے وہ اچھی لگتی تھی، مگر وہ اسے اداکارہ یا رقاصہ کے روپ میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اسے اس خاندان سے نکال کر ایک باعزت زندگی دینا چاہتا تھا، جبکہ اس خاندان کی لڑکیاں کئی مردوں کو دوست رکھتی تھیں اور یوں ہی ان کی زندگی کی گاڑی چل رہی تھی۔ نعمان اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ میرے والد صاحب کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ ان کا کروڑوں کا کاروبار تھا۔ ہم چار بہنیں اور چار بھائی تھے۔
میں سب سے بڑی، میرے بعد نعمان، اور باقی سب چھوٹے تھے۔ایک دن اس نے سہانہ کو فون کیا اور اس سے کچھ ایسی باتیں کیں جیسے وہ اسے فلم لائن میں جانے سے روکنا چاہتا ہو۔ اس نے پہلی بار اس سے اظہارِ محبت کیا اور کہا کہ تم رقص و موسیقی چھوڑ کر دوبارہ کالج میں داخلہ لے لو اور تعلیمی میدان کو اپنا لو۔ میں ہر طرح سے تمہاری مدد کروں گا اور تمہیں اس ماحول سے نکال کر اپنے گھر لے آؤں گا، بشرطیکہ تم بھی میرا ساتھ دو۔ ہم تب ہی خوشگوار اور باعزت زندگی گزار سکیں گے۔سہانہ نے بھی اس کی محبت کا دم بھرتے ہوئے بات مان لی۔وہ دن میرے بھائی کی زندگی کا خوش قسمت ترین دن تھا۔ برسوں بعد اس کی آرزو بر آئی تھی۔اس کے بعد سہانہ اکثر بھائی سے ملنے لگی۔ جب وہ ملنے آتی تو نعمان کو ہر طرف بہار ہی بہار نظر آتی۔ نعمان اس کے گھر نہیں جاتا تھا کیونکہ اسے ان کے خاندانی پس منظر کا علم تھا۔
وہ اسے ایسے ماحول میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا بلکہ پاکیزہ اور صاف ستھرے ماحول میں لا کر اپنے گھر کی عزت بنانا چاہتا تھا۔ یہی اس کی شدید آرزو تھی، خواہ اسے کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑتی۔میں اور بھائی دونوں جانتے تھے کہ ہمارے والدین سہانہ کو کسی طور قبول نہیں کریں گے، لیکن نعمان اس لڑکی کی خاطر گھر والوں سے ہی نہیں سارے جہان سے ٹکر لینے کو تیار تھا۔ زبردستی اس کے گھر والوں سے چھیننا پڑتا یا اپنے گھر والوں سے بغاوت کرنا پڑتی تو بھی وہ ہر صورت سہانہ کو حاصل کرنے کا تہیہ کر چکا تھا۔اس معاملے کا اس کے دو تین قریبی دوستوں کو علم تھا۔ وہ اسے سمجھاتے کہ اس لڑکی کا خیال چھوڑ دو، وہ جس گھرانے میں رہتی ہے وہاں سے سوائے خواری کے کچھ نہ ملے گا۔ مگر بھائی انہیں جھاڑ دیتا اور کسی کی بات کی پروا نہ کرتا۔ جب انکل کو اس معاملے کا علم ہوا تو انہوں نے بھی سمجھایا، کچھ لوگوں کی مثالیں دیں کہ کیسے شریف لوگ ایسے رشتے جوڑ کر برباد ہوگئے۔ ایسی لڑکیاں جو اس بازار میں بیٹھ چکی ہوں، بہت کم ہوتی ہیں جو واقعی ساتھ نباہتی ہیں۔ اکثر گھریلو پابندیوں سے گھبرا جاتی ہیں اور ذمہ داریاں قبول نہیں کر پاتیں۔مگر نعمان نے ماموں کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دی اور بدستور سہانہ سے رابطے میں رہا، فون پر باتیں، زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں، وعدے۔ سہانہ کہتی کہ اس نے رقص سیکھنا ترک کر دیا ہے اور گریجویشن کی تیاری میں مصروف ہے۔ اس کی ان باتوں سے میرا بھائی بے حد خوش تھا۔
میرے والد صاحب چاہتے تھے کہ نعمان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ بھجوا دیں، مگر وہ سہانہ کی وجہ سے بیرونِ ملک جانا نہیں چاہتا تھا۔ جب والد صاحب اس پر بہت خفا ہوئے، تب وہ جانے پر راضی ہوا۔ اس نے سہانہ کو بتایا کہ وہ چار سال کے لیے اعلیٰ تعلیم کی خاطر برطانیہ جارہا ہے، تاہم ہر چھ ماہ بعد پاکستان آیا کرے گا۔ یہ سن کر سہانہ خفا ہوگئی اور بولی کہ تم چلے گئے تو میں بے دست و پا ہوجاؤں گی۔ تب میرے گھر والے مجھے مجبور کرکے کسی بھی راستے پر دھکیل سکتے ہیں۔ اگر تم یہاں نہ ہوگے تو میں کیسے ان کا مقابلہ کرسکوں گی؟ میں تمہارے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتی، تم ہرگز برطانیہ مت جانا۔نعمان نے وعدہ کر لیا کہ وہ نہیں جائے گا۔ اس نے اپنا پاسپورٹ اور کاغذات پھاڑ دیے اور گھر والوں کے آگے ڈٹ گیا۔ اس نے نہ اپنے مستقبل کی پروا کی اور نہ کسی کی ناراضی کو اہمیت دی، جس پر سب گھر والے اس سے ناراض ہوگئے۔ ابّا جان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نعمان، تم میرے سامنے مت آیا کرو، میں تمہاری صورت دیکھنا نہیں چاہتا۔
افسوس کہ بھائی کو نہ اپنے باپ کی ناراضی کا خیال تھا اور نہ ماں کے صدمے کا احساس۔ اسے تو صرف اس بات کی خوشی تھی کہ سہانہ اس سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی۔ اسی خوش فہمی میں اس نے اپنا سنہرا مستقبل تاریک کرلیا اور سہانہ کے پیار کے اندھیرے سمندر میں تیرنے لگا۔اس واقعے کو کچھ دن گزرے تھے کہ نعمان کے ایک دوست نے اسے بتایا کہ تمہاری سہانہ کو ہمارے کچھ رشتہ دار تفریح کے لیے لے گئے تھے۔ اس نے وہاں رقص کرکے ان کا دل بہلایا اور لاکھوں روپے کمالیے۔ یہ سن کر نعمان کے اوسان خطا ہوگئے۔ وہ سمجھا کہ اس کا دوست جھوٹ بول کر اس کا دل سہانہ سے پھیرنا چاہتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کی محبوبہ ایسی ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اس نے سہانہ سے فون پر پوچھا تو وہ صاف مکر گئی، تبھی میرا بھائی دوست سے جا کر لڑ پڑا۔دوست نے کہا کہ لڑتے کیوں ہو یار؟ وہ ایک بکنے والی چیز ہے۔ ہم دوبارہ خرید کر تمہیں وہ تماشا دکھا دیں گے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ایک ماہ بعد راشد نے نعمان سے کہا کہ کل فلاں جگہ رات دس بجے کے بعد آجانا اور اپنی محبوبہ کی جلوہ سامانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔نعمان میں ایسی ہمت کہاں تھی، مگر وہ دل پر پتھر رکھ کر گیا، کیونکہ راشد نے اسے چیلنج کیا تھا۔ وہ راشد کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتا تھا، مگر راشد جھوٹا نہ تھا۔
واقعی وہ ایک رات کے لیے اسے خرید لائے تھے، کیونکہ وہ تھی ہی بکنے والی چیز۔ اس بات کا علم صرف نعمان کو نہیں تھا، باقی تو سارا زمانہ جانتا تھا۔ گویا جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔نعمان نے اپنی آنکھوں سے سہانہ کو اوباش مردوں کی محفل میں پاؤں میں گھنگرو باندھے رقص کرتے دیکھا تو سر جھکائے وہاں سے واپس آگیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ دیواروں سے سر ٹکرائے، خودکشی کرلے یا پھر سہانہ کو ختم کر دے، مگر وہ ایسا کچھ بھی نہ کرسکتا تھا۔ البتہ ہمیشہ کے لیے ناتا ختم کرنے سے پہلے اس نے ایک بار سہانہ سے بات کرنے کی کوشش ضرور کی۔ اس نے پوچھا کہ اس نے کیوں بے وفائی کی۔ سہانہ نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا اور الٹا کہنے لگی کہ اب دوبارہ یہاں مت آنا۔ یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کر دیا۔نعمان دل گرفتہ وہاں سے چلا آیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
وہ دعا کر رہا تھا کہ کاش باپ کا سامنا کرنے سے پہلے اسے موت آجائے، جن کا اس نے دل توڑا تھا۔چند دن بعد اس کی ملاقات شائزہ سے ہوئی۔ اس کے منہ سے سہانہ کا ذکر سن کر نعمان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شائزہ نے کہا کہ نعمان، دکھ مت کرو، تم ایک اچھے خاندان سے ہو۔ سہانہ تمہارے لائق نہیں۔ تم کسی اچھی اور شریف فیملی کی لڑکی سے شادی کرلو اور اس کا مزید انتظار نہ کرو۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ میں نے ایک امیر آدمی سے شادی کرلی ہے اور اس کے ساتھ خوش ہوں۔ میرے گھر والے اس شادی پر راضی نہ تھے۔ میں نے ان سے ناتا توڑ کر شادی کی ہے اور میرے شوہر کی پہلی شرط یہی تھی کہ میں اپنے گھر والوں سے نہ ملوں۔
پہلے میں کماتی تھی تو گھر چلتا تھا، اب یہ بوجھ سہانہ کے کندھوں پر آگیا ہے اور اس کی کمائی سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ یہ اس کی مجبوری ہے، کیونکہ یہ ہماری ماں کا آبائی پیشہ ہے۔ ہم اس سے کنارہ نہیں کرسکتے، مگر میں نے ہمت کرکے کنارہ کرلیا ہے۔یہ سن کر نعمان کو بڑا دھچکا لگا اور اس کی عقل ٹھکانے آگئی۔ اس نے والدین سے معافی مانگی اور پڑھنے کے لیے برطانیہ چلا گیا۔ وہاں اس کی زندگی سنور گئی، گرچہ دل ٹوٹا ہوا تھا۔ سہانہ رفتہ رفتہ فلمی دنیا میں مشہور ہوتی گئی اور آخرکار ایک کامیاب اداکارہ بن گئی۔ شاید یہی اس کا خواب تھا۔
(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ
