ملن کی رات

Sublimegate Urdu Stories

باجی شاہدہ کی عمر تیس سال ہو گئی تو وہ زندگی سے مایوس ہو گئی، انہی دنوں وہ اک نوجوان ٹھیکیدار کی چکر میں پھنس گئی جس نے باجی کو سہانے خواب دیکھاکرشادی کا وعدہ کیا اور ایک رات فرار کا مکمل پلان بنا لیا۔ اس رات باجی چپکے سے گھر سےنکلی اور ساتھ والے ہمارے پرانے گھر کے کمرے میں اس کا انتظار کرنے لگی، جہاں وہ اس نوجوان سے پہلے بھی ملتی رہی تھی۔ باجی گھبرا رہی تھی کہ اچانک کھڑکی سے کوئی بھاری چیز اندر آ گری۔
👇👇
باجی بہت خاموش طبع اور نیک اطوار تھیں۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کوئی ایسی حرکت کر سکتی ہیں جس کے باعث خاندان کی عزت پر حرف آئے۔ ہوا یوں کہ والد کو گھر کے لیے ٹھیکیدار کی ضرورت پڑی۔ انہوں نے ایک دوست سے تذکرہ کیا۔ وہ ایک نوجوان ٹھیکیدار کو لے آئے جس کا نام احتشام تھا۔ والد نے معاوضہ طے کیا اور کام اُس کے سپرد کر دیا۔ احتشام نے بتایا کہ کام کی تکمیل میں تقریباً چھ ماہ لگ جائیں گے۔ ابو نے منظوری دے دی اور ٹھیکیدار صاحب مزدور لے کر آ گئے۔ ابو سارا دن اپنے کاروبار میں مصروف رہتے اور ٹھیکیدار دن بھر ہمارے گھر پر تعمیر کا کام کرواتا رہتا۔ شام کو ابو آکر کام چیک کر لیتے تھے۔ وہ احتشام کے کام سے مطمئن ہوگئے تو رفتہ رفتہ اس شخص پر اعتماد قائم ہو گیا۔ وہ دیانت داری سے کام کروا رہا تھا۔ والد اس کی قدر کرنے لگے۔ انہوں نے امی جان کو ہدایت کر دی کہ ٹھیکیدار کو دوپہر کا کھانا اور چائے وغیرہ دے دیا کرو اور اس کا خیال رکھا کرو۔ والدہ نے ایسا ہی کیا۔انہی دنوں امی کو اچانک گردے میں تکلیف ہوئی اور انہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ ہم اسکول کالج میں ہوتے، امی اسپتال میں ہوتیں اور باجی ملازمہ کے ساتھ گھر پر ہوتی تھیں۔ وہ امی کا کھانا اسپتال بھجواتیں اور احتشام کو بھی کھانا دے دیا کرتی تھیں۔ وہ بیٹھک میں بیٹھ کر کھا لیا کرتا۔ گھر تقریباً مکمل ہو گیا تھا، بس اب فِنشنگ ہو رہی تھی۔ بجلی کی فٹنگ کے لیے کبھی کبھی احتشام گھر کے اندر آتا جاتا تھا۔ جب گھر میں اور کوئی نہ ہوتا تو وہ باجی سے بات کر لیا کرتا۔

اس طرح دونوں میں بات چیت کا آغاز ہو گیا۔ میری بہن بہت سیدھی سادی تھی۔ یہی سادگی اس کی تباہی کا سبب بن گئی اور وہ بہت جلد احتشام کی شاطرانہ چال کی زد میں آ گئی۔ اس شخص نے ان کا اعتماد کیسے جیتا، خبر نہیں۔ بہرحال باجی شاہدہ نے اسے بتا دیا کہ ان کی منگنی بچپن میں چچا زاد سے ہوئی تھی، جو چودہ برس رہی، مگر جب شادی کا وقت آیا تو منگیتر نے شادی سے انکار کر دیا۔ وہ اپنے کالج کی کسی لڑکی کو پسند کرنے لگا تھا۔ اس انکار سے ان کے دل کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس کے بعد کافی رشتے آئے، مگر انہوں نے ٹھکرا دیے۔ اب ان کی عمر تیس برس ہونے کو تھی، مگر کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں آتا تھا بلکہ رشتے آنے ہی بند ہوگئے تھے۔ یوں وہ تنہائی محسوس کرنے لگیں۔ میری بہن کو اس قسم کی باتیں ایک غیر شخص سے نہیں کرنی چاہئیں تھیں جس سے بات چیت کو چند دن ہی گزرے تھے، مگر شاطر احتشام نے ان کا نفسیاتی مسئلہ سمجھ لیا اور ان کا ہمدرد بن کر اپنی چکنی چپڑی باتوں سے شیشے میں اتار لیا۔ اس نے انہیں یقین دلایا کہ اب تمہاری عمر بھر شادی نہیں ہوسکتی، البتہ چاہو تو میں تم سے شادی کرنے پر تیار ہوں۔

باجی نے بتایا کہ والدین اور خاندان کے بزرگ کبھی اس رشتے پر راضی نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں بیٹیوں کے رشتے غیر خاندان میں نہیں کرتے۔ احتشام نے کہا کہ اس طرح تو تم عمر بھر بن بیاہی رہ جاؤ گی۔ یہی وقت ہے، اپنے حق میں اچھا فیصلہ کرلو۔ تم خوبصورت اور دبلی پتلی ہو، بیس برس کی لگتی ہو۔ آج میں نے تم کو پیشکش کر دی ہے، کل کوئی اس دہلیز کو پار کرکے تمہارے نصیب جگانے نہیں آئے گا۔اس نے کچھ اس طرح سے عدم تحفظ کا خوف میری بہن کے دل میں بٹھایا کہ وہ خود کو بے یار و مددگار سمجھنے لگیں اور اسے پسند کرتے ہوئے، اس کے لیے بے چین رہنے لگیں۔ ادھر اپنے بزرگوں کا خوف تھا کہ رشتہ کے لیے راضی نہ ہوں گے اور کچھ ماہ بعد جب تعمیری کام ختم ہو جائے گا تو احتشام بھی ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا اور پھر کبھی ہمارے در پر لوٹ کر نہیں آئے گا۔ یہی سارے عوامل تھے جن کی وجہ سے میری سادہ دل باجی سنجیدگی سے احتشام کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئیں بلکہ سچ مچ اس کی محبت میں گرفتار ہوگئیں۔ جمعے کو مزدور چھٹی کرتے تو ٹھیکیدار بھی نہیں آتا۔ یہ دن کاٹنا شاہدہ باجی کے لیے مشکل ہوجاتا۔

میری باجی واقعی بہت خوبصورت تھیں۔ ایسی بات نہ تھی کہ ان کے لیے مستقبل میں کسی اچھے گھر سے رشتہ نہ آتا۔ میرے والدین، چچا چچی سبھی کوشش کر رہے تھے۔ والد صاحب کا شہر میں ایک مقام تھا، لوگ ان کی عزت کرتے، ان کو جھک کر سلام کرتے تھے، مگر باجی بزرگوں سے مایوس تھیں۔ لہٰذا کسی کمزور لمحے انہوں نے احتشام کے اس منصوبے کو مان لیا کہ دونوں کسی بڑے شہر جاکر کورٹ میرج کرلیں، یعنی گھر سے بھاگ کر شادی کرلیں اور باقی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی گزاریں۔ خدا جانے احتشام نے اس بات کے لیے شاہدہ باجی کو کیسے راضی کیا، یہ میری عقل میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اتنے قلیل عرصے میں وہ اس قدر اس اجنبی پر بھروسہ کرکے اس کے ساتھ جانے پر تیار ہوگئیں اور ہمیں علم بھی نہ ہوا کہ گھر میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔امی اسپتال سے گھر آگئیں۔ وہ تمام دن اپنے کمرے میں لیٹی رہتی تھیں۔ ان کے گردے کا آپریشن ہوا تھا اور ڈاکٹر نے انہیں مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔ میں سارا وقت امی کے قریب ہوتی اور گھر کی تمام دیکھ بھال شاہدہ باجی کرتی تھیں۔ تعمیر کا کام آخری مرحلے میں آ گیا تھا۔ ابو نے احتشام کا حساب کتاب کر دیا تھا۔ اب ایک دن کا کام باقی تھا۔ مزدور سب چلے گئے تھے، صرف ایک آدھ بلب اور ٹیوب لائٹ کی فٹنگ باقی رہ گئی تھی۔ اگلے روز احتشام نے ہمارے گھر سے رخصت ہو جانا تھا۔ رات کے کسی پہر جب گھر والے سو گئے تو باجی نے کپڑوں کا ایک بیگ تیار کیا۔ اسی وقت ہماری بوڑھی ملازمہ کی اچانک آنکھ کھل گئی۔

اب اُدھر کی سنیے۔ میری دلیر بہن رات کو گھر سے نکلی تو قریب ہی ہمارا دوسرا مکان تھا۔ جو عرصے سے بند پڑا ہوا تھا۔ والد صاحب کا خیال تھا کہ اس کی بھی ازسرِنو تعمیر کروا کر اسے مردانہ خانہ یعنی ڈیرہ بنا لیں گے۔ باجی شاہدہ گھر سے نکلنے سے قبل اس پرانے مکان کی چابی اٹھا کر پرس میں رکھ لیں۔ رات کو اس مکان کا تالا کھولا اور اندر چلی گئیں۔ شاید وہ احتشام سے اس پرانے مکان میں پہلے بھی ملاقات کر چکی تھیں۔ چونکہ اس مکان میں کوئی رہتا نہ تھا، لہٰذا اس میں نہ فرنیچر تھا اور نہ لائٹ۔ پانی کا کنکشن تک بحال نہ تھا۔ البتہ بلیاں کبھی کبھار چکر لگا جاتی تھیں۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق باجی وہاں بیٹھ کر احتشام کا انتظار کرنے لگیں، جس نے آدھی رات کو آکر انہیں نجانے کہاں لے جانا تھا۔ وہ اکیلی انتظار میں بیٹھی رہیں، مگر احتشام نہ آیا۔ البتہ ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے بلی کود پڑی تو وہ ڈر گئیں۔ بلی کے پیچھے گلی کا کوئی کتا بھاگا تھا۔ وہ دروازے کے قریب آ کر بھونکنے لگا، تو باجی اور خوف زدہ ہو گئیں۔ مکان میں گھپ اندھیرا تھا۔ یوں بھی میری بہن اتنی نڈر نہیں تھی۔ گھر سے تو کبھی اکیلی نکلتی بھی نہ تھی۔ رات کو ڈراؤنی کہانیاں سننے سے گریز کرتی تھی اور جنّوں بھوتوں کے خیال سے ڈرتی بھی تھی۔نجانے میری باجی نے یہ خوفناک رات وہاں کیسے گزاری۔ 
واپس اس لیے گھر نہیں آئیں کہ صبح کی پہلی کرن تک امید تھی کہ احتشام آجائے گا۔ جب دن کی روشنی پھیل گئی تو بھی گھر آنے کی جرأت نہ کر سکیں کہ دیوار کے اُدھر سے گھر والوں کی آوازیں سن رہی تھیں۔ سب انہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ گھر والوں کو بھی خیال نہ آیا کہ وہ اپنے ہی کھنڈر نما مکان میں چھپ سکتی ہیں۔ پولیس احتشام کی تلاش میں نکل پڑی۔ جہاں جہاں اس کے پائے جانے کا امکان تھا، وہاں چھاپے لگائے گئے۔ اور وہ مزے سے اپنی بہن کے گھر میں سویا ہوا تھا! شام کو پولیس اس کی بہن کے گھر پہنچ گئی۔ جونہی وہ گھر سے باہر آیا، پولیس نے اسے شاہدہ کے اغوا کے الزام میں گرفتار کرلیا، جب کہ ڈری سہمی شاہدہ برابر والے مکان کے اندرونی کمرے میں بھوکی پیاسی دبکی بیٹھی تھی۔ شاید وہ اس دن بھی احتشام کا انتظار کر رہی تھی کہ رات نہیں آسکا، آج آجائے گا۔

کسی مجبوری کی وجہ سے نہ آیا ہوگا۔ ادھر احتشام کو پولیس تھانے لے گئی۔ صبح تک پوچھ گچھ کی، لیکن کچھ ثابت نہ ہوسکا۔ تب ہی اس کے بھائی اور والد تھانے آئے اور محلے والوں کو بھی ساتھ لائے۔ پڑوسیوں نے گواہی دی کہ وہ گھر میں ہی موجود رہا ہے۔ اس کے والد نے پولیس والوں سے کچھ معاملہ طے کیا اور اسے بے قصور سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔اگلی صبح والد صاحب کی نظر پرانے مکان کے دروازے پر پڑی، جو بند تھا مگر اس پر لگا تالا غائب تھا۔ انہوں نے دروازے پر دباؤ ڈالا، تو وہ اندر سے بند تھا۔ گویا کسی نے تالا کھول کر اندر سے کنڈی لگا لی تھی۔ والد صاحب اپنے گھر کی چھت سے برابر والے مکان کی چھت پر سیڑھی لگا کر اترے اور گھر کے ہر کمرے میں گئے۔ تب انہیں ایک کمرے میں شاہدہ مل گئی، جو بھوک، پیاس اور خوف کی وجہ سے بے ہوش پڑی تھی۔والد صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا کہ بیٹی صحیح سلامت مل گئی۔ مگر پولیس رپورٹ اور تلاشِ گمشدگی کی وجہ سے بات محلے میں پھیل چکی تھی، اور ان کی عزت کی دھجیاں بکھر گئی تھیں۔
 محلے میں ہر زبان پر یہی جملہ تھا کہ منظور صاحب کی بیٹی شاہدہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ بہرحال والد صاحب شاہدہ کو اٹھا کر گھر لائے اور انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی گئی۔ چمچ سے چائے ڈالی، پھر دودھ کا گلاس کسی طرح پلایا۔ ان کی نقاہت دور ہوئی، تب وہ ہوش میں آئیں۔ ہم خوش بھی تھے اور رنجیدہ بھی، کیونکہ محلے میں باتیں بن رہی تھیں۔ بات رشتہ داروں تک بھی پہنچی۔ چچا کو بتایا تو وہ یہ بات نہ چھپا سکے۔ یوں رشتہ داروں میں ڈھنڈورا پٹ گیا اور شاہدہ سب کی نظروں سے گر گئیں۔ اب محلے کی وہ لڑکیاں بھی ہم سے بات نہ کرتیں جن سے کبھی ہم بات کرنا پسند نہ کرتے تھے۔ گھر والے، حتیٰ کہ ملازمہ تک، بات بات پر اسے ٹوکتے کہ یہ تم نے کیا کیا، باپ کا سر نیچا کر دیا۔ وہ سب کے نفرت بھرے لہجوں کو سہتی رہتی اور چپ رہتی۔ پہلے رشتہ آنے کی امید تھی، مگر جب لڑکی کی شہرت خراب ہو جائے تو اس کی سزا صرف اسے نہیں بلکہ اس کی بہنوں بلکہ پورے گھر کو بھگتنی پڑتی ہے۔

اس واقعے کو چار برس گزر گئے تھے۔ ایک دن ابو کسی کام سے دور کے ایک رشتہ دار کے گھر، ان کے گاؤں گئے۔ ان لوگوں کو اس واقعے کا علم نہ تھا۔ انہوں نے والد صاحب کی خوب خاطر تواضع کی اور باتوں باتوں میں کہا کہ ان کا بیٹا شہر سے پڑھ کر آیا ہے، اور شہر کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی ملازمت بھی لگی ہے، اپنی زمینوں کی پیداوار بھی ہے، گزر بسر بہت اچھی ہے۔ آپ کی نظر میں کوئی میٹرک پاس لڑکی ہو تو میرے بیٹے کے لیے رشتہ بتائیے گا۔والد صاحب نے کہا کہ ہم بھی اپنی بیٹی شاہدہ کے لیے اچھے رشتے کی تلاش میں ہیں۔ آج کل اچھے رشتے بہت مشکل سے ملتے ہیں۔ آپ لوگ ہمارے اپنے ہیں، مجھے بیٹی آپ کو دینے میں کوئی قباحت نہ ہوگی، مگر میری شاہدہ آپ کے بیٹے سے دو سال بڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک دو سال کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آپ میرے بیٹے کو فرزندی میں قبول کرلیں، یہ میرے لیے فخر کی بات ہوگی۔والد صاحب کو اور کیا چاہیے تھا۔ انہوں نے فوراً سلیم احمد کا رشتہ قبول کرلیا۔
 شادی میں ابو نے کسی قریبی رشتہ دار کو مدعو نہ کیا، اور سادگی سے بیٹی کو رخصت کردیا۔آج شاہدہ باجی ہر لحاظ سے خوش ہیں، لیکن دو باتیں انہیں رنجیدہ رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ شہر میں پلی بڑھی تھیں اور گاؤں کی زندگی ملی۔ ان کے گھر میں گائیں، بھینسیں، بکریاں ہیں جن کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے۔ گاؤں کا ماحول انہیں عجیب لگتا ہے، اور ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں ان کا ماضی شوہر کے سامنے نہ کھل جائے۔خدا کا شکر کہ ان کے سسرالی شہر نہیں آتے اور نہ کسی نے کبھی ان کے ماضی کا ذکر کیا ہے۔ باجی بھی میکے بہت کم آتی ہیں، زیادہ تر گاؤں میں ہی رہتی ہیں۔جب میں اپنی بہن کی زندگی کے بارے میں سوچتی ہوں تو دکھی ہو جاتی ہوں۔ کہاں شہر کی پروردہ لڑکی اور کہاں دیہات کی کٹھن زندگی! لیکن کیا کیا جائے۔ یہ تو نصیب کی باتیں ہیں۔ 

(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ