وقت کے گزرنے کا پتا نہیں چلا اور صوفیہ جوان ہوگئی۔ وہ بہت خوبصورت تھی کبھی گھر سے باہر جھانک کر نہیں دیکھا تھا۔ خدا جانے کب اور کس طرح اس کی ایک لڑکے سے شناسائی ہوگئی اور وہ اس کے بہکاوے میں آ گئی۔ شام کا اندھیرا پھلنے سے پہلے وہ اس لڑکے کیساتھ گھر سے بھاگ کر ریلوے اسٹیشن جا پہنچی۔ اچانک ایک پولیس والے کی ان پر نظر پڑ گئی، وہ دونوں ہکا بکا رہ گئے۔
👇👇
شکیلہ آپا برسوں سے ہمارے محلے میں سکونت پذیر تھیں۔ بڑے تحمل اور حوصلے کے ساتھ زندگی کے دکھ جھیلے تھے۔ محنت و مشقت سے روکھی سوکھی کھا کر وقت گزارا تھا، وہ میری والدہ سے اپنے دکھ سکھ بانٹتی تھیں اور امی بھی مقدور بھر ان کی مدد کیا کرتی تھیں۔
شکیلہ کے والد سرکاری آفیسر تھے اور خوش حالی تھی۔ پہلوٹی کی اولاد ہونے کی وجہ سے گھر میں چاہت تھی۔ اچھے رشتے آتے، مگر والدین نے سوچا کہ انجان لوگوں میں بیاہنے سے بہتر ہے کہ خاندان میں بیٹی کی شادی کی جائے تاکہ لڑکے کے عیب و ثواب سب پتا ہوں۔ انہوں نے اپنی بہن کے بیٹے کا انتخاب کیا، جس کا نام سرور تھا۔ بظاہر وہ شریف نظر آتا تھا۔ یہ لوگ دوسرے شہر میں رہتے تھے، اس لیے سرور کے عیب شکیلہ کے والدین پر ظاہر نہیں ہوئے۔ دور رہنے کی وجہ سے لڑکے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔
جب شکیلہ سترہ برس کی ہوئی، تو پھوپھی رشتہ لینے آئیں۔ بلا تامل ہاں ہوگئی، اور لڑکے کی شادی کی تاریخ طے کرنے کو کہا گیا۔ بھائی نے بہن کا مان رکھا اور تاریخ دے دی۔ شادی کارڈ بھی خاندان میں تقسیم ہو گئے۔ رخصتی سے ایک ہفتہ قبل شکیلہ کے والدین کو پتا چلا کہ سرور چرس کے کاروبار میں ملوث ہے۔ اس دن غم کے مارے ان کا برا حال ہوگیا۔ انہوں نے اسی وقت شادی ملتوی کرنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن خاندان کے بزرگ درمیان میں آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ضمانت لیتے ہیں کہ اگر لڑکا چرس کے کاروبار میں ملوث ہے بھی، تو وہ اس راستے کو چھوڑ دے گا۔ بزرگوں کے دباؤ پر شکیلہ کی شادی سرور سے ہوگئی اور وہ بیاہ کر کراچی سے لاہور چلی گئی۔
یہاں آ کر انکشاف ہوا کہ دولہا صاحب نہ صرف چرس کے کاروبار میں ملوث ہیں بلکہ خود بھی نشہ کرتے ہیں۔ شکیلہ نے والدین کو مطلع کیا۔ وہ آئے اور کہا، ہم اپنی بیٹی کو لے جاتے ہیں۔ آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا۔ اگر لڑکا نشہ کرتا تھا تو ہماری بیٹی کی زندگی کیوں برباد کی؟ خاندان کے بزرگ پھر سے درمیان میں آ گئے اور کہا کہ بیٹی کو نہ لے جائیں، اس کا گھر نہ اجاڑیں، ہم اس کا علاج کروائیں گے اور یہ نشہ چھوڑ دے گا۔ شکیلہ نے والدین سے کہا کہ ایک بار بزرگوں کی بات مان لیں، کل کو کوئی دکھ ملے تو یہ بزرگ درمیان میں ہوں گے۔ والدین بیٹی کو سسرال میں چھوڑ کر واپس کراچی لوٹ گئے۔ علاج کے بعد کچھ عرصہ سرور ٹھیک رہا، لیکن پھر چوری چھپے نشہ کرنے لگا۔ اب شکیلہ کی زندگی کے کٹھن دن شروع ہوگئے۔ بدقسمتی سے اس کے سسر فوت ہوگئے اور ان کے فوت ہوتے ہی تمام جائیداد، دولت اور بزنس کا اختیار سرور کے پاس آ گیا۔ وہ اکلوتا ہونے کی وجہ سے تنہا وارث تھا۔
سرور نے بزنس بڑھانے کے بجائے باپ کی دولت بغیر سوچے سمجھے خرچ کرنا شروع کردی۔ پہلے وہ صرف چرس پیتا تھا، اب ہیروئن کا نشہ بھی شروع کر دیا۔ جب بھی نشہ کرتا، شکیلہ اس سے جھگڑتیں اور وہ بیوی کی پٹائی کردیتا۔ اس دوران وہ دو بچیوں کی ماں بن گئیں۔ وہ میکے والوں کو بھی کچھ نہ بتاتی تھیں۔ سرور کے باپ کی ویگنیں چلتی تھیں، لیکن نشے کی وجہ سے وہ تمام ویگنیں بک ہو گئیں اور سرور، جن کا مالک تھا، اب ان کا ڈرائیور بن گیا۔کچھ عرصے بعد نشہ اس قدر غالب آیا کہ سرور کے اعصاب بیکار ہوگئے اور وہ ڈرائیوری کے قابل بھی نہ رہا، تب ویگن کے مالک نے اسے نوکری سے نکال دیا۔ انہی دنوں شکیلہ آپا کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ چل بسے۔ پہلے میکے سے مالی امداد مل جاتی تھی، اب یہ آسرا بھی ختم ہوگیا۔ اب بوڑھی ساس، اپنی دونوں بچیوں اور نشئی شوہر کا بوجھ شکیلہ کے کندھوں پر آ گیا۔ اس نے سوچا کہ شاید شوہر کبھی نشہ چھوڑ دے، مگر حقیقت یہ تھی کہ جس کو یہ لگتا ہے، وہ صحیح کہاں ہوتا؟ اس کی پوری زندگی اور خاندان داؤ پر لگ گیا۔
رفتہ رفتہ محلے والوں نے بھی ان کا خیال چھوڑ دیا۔ آپا شکیلہ نے مجبور ہو کر سلائی مشین سنبھال لی اور محلے بھر کے کپڑے سینے لگے۔ سردیوں میں لوگوں کی رضائی کے کپڑے سیتے، سویٹر بناتے، کہیں شادی بیاہ ہوتا تو محلے والے شادی کے جوڑوں پر گوٹا کناری بھی انہی سے لگواتے، جس کی انہیں اچھی خاصی اجرت مل جاتی تھی۔ وہ گرمیوں میں لوگوں کے گھروں میں جاکر چارپائیاں بھی بناتی تھیں۔ یوں کسی نہ کسی طرح انہوں نے اپنے گھر کا خرچ چلایا۔ وہ اپنی بچیوں کو کسی کے در پر لے جانا پسند نہیں کرتی تھیں۔ ان کی ہمت اور صبر دیکھ کر ہم محلے والے بھی ان کا زیادہ خیال رکھنے لگے۔
سرور کے نشے کی مقدار بھی بڑھنے لگی اور شادی کے چھ سال بعد ہی وہ اس نشے کے سبب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس غم کو ان کی والدہ نہ سہ سکیں اور بیمار پڑ گئیں۔ یہ بیماری مرض الموت بن گئی اور سال بعد وہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔ اب شکیلہ آیا محلے والوں کی عزت و آبرو بن گئی تھیں۔ جس گھر جاتیں، ان کی قدر ہوتی۔ سبھی انہیں اپنی بہن اور بیٹی سمجھتے تھے۔ محلے کی بچیاں ان سے قرآن پاک پڑھنے جانے لگیں۔ ہر کسی کو ان کی زندگی کا پتا تھا، اسی لیے سب کو آپا سے ہمدردی تھی۔ آپا بھی ان لوگوں کی وجہ سے لوٹ کر میکے بھائیوں کے در پر نہیں گئیں کیونکہ وہاں بھابھیاں ہنس کر ان کا استقبال نہیں کرتیں تھیں، بلکہ دو وقت کی روٹی کے سبب وہ ان پر بھاری تھیں۔وقت گزرتا رہا اور آیا محنت و مشقت کی چکی میں پستی رہیں۔ ایک بڑے آفیسر کی بیٹی کے ایسے برے نصیب دیکھ کر سبھی افسوس کرتے تھے، مگر وہ خود ان دکھوں کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر و شکر کرنے کی وجہ سے افسوس کی منزلوں سے نکل چکی تھیں۔
آپا شکیلہ کی بیٹیاں اسکول پڑھنے جاتی تھیں۔ وقت کے گزرنے کا پتا نہیں چلتا اور وہ جوان ہوگئیں۔ ان کی ماں وقت سے قبل بوڑھی نظر آنے لگی۔ بچیوں نے بچپن سے ماں کو محنت و مشقت کرتے دیکھا تھا اور وہ ماں کی مجبوریاں سمجھتی تھیں۔ اسکول سے آ کر تینوں ماں کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ بظاہر ان میں ایسی بات نہیں تھی کہ کوئی ان پر انگلی اٹھاتا۔ وہ نیک، شریف اور سیدھی سادی لڑکیاں تھیں۔آپا کی منجھلی بیٹی کا نام صوفیہ تھا۔ وہ تینوں میں زیادہ خوبصورت تھی، تاہم حساس ہونے کے سبب حالات کی وجہ سے دل گرفتہ اور بجھی بجھی رہتی تھی۔ تاہم کبھی کسی نے اسے دروازے سے باہر جھانکتے نہیں دیکھا تھا۔ خدا جانے کب اور کس طرح اس کی ایک لڑکے سے شناسائی ہوگئی اور وہ اس کے بہکاوے میں آ گئی۔ ایک روز پتا چلا کہ آپا کی منجھلی لڑکی گھر سے غائب ہے۔ وہ گھبرائی ہوئی ہمارے گھر آئیں۔ وہ بری طرح رو رہی تھیں۔ اپنی ساری جوانی بچیوں کی پرورش پر وار دینے والی شکیلہ آپا کا بلکنا ابا جان نے دیکھا تو تھانے میں رپورٹ لکھوانے کے لیے تیار ہوگئے۔ ابا جان جب تھانے پہنچے تو پتا چلا کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اسٹیشن سے گرفتار کر کے لائے گئے ہیں اور حوالات میں بند ہیں۔ میرے والد وقت پر پہنچ گئے، تبھی مارپیٹ کی نوبت نہ آئی، ورنہ یقیناً دونوں کو پوچھ گچھ کے دوران پولیس کے جھانپڑ کھانے پڑتے کیونکہ دونوں اپنا صحیح نام بتانے سے گریز کر رہے تھے۔ بہرحال ابا جان نے صوفیہ کو شناخت کر لیا۔ لڑکا بھی میرے ماموں جان کے محلے کا رہنے والا تھا۔ والد صاحب نے اسے بھی پہچان لیا۔
قصہ یہ تھا کہ صوفیہ اسکول جاتی تھی، اس کے راستے میں ایک بڑا سا جنرل اسٹور پڑتا تھا، جو اس لڑکے ناظم کے بڑے بھائی کا تھا۔ اس اسٹور سے جب صوفیہ نے اسکول کے لیے لنچ باکس خریدا، تو وہاں ناظم سے اس کی ملاقات ہوئی۔ وہ دونوں بہنوں کے ساتھ اسکول جاتی تھی، مگر اس نے ہوشیاری سے کام لیا کہ بہنوں کو پتا بھی نہ لگنے دیا۔ وہ اکثر اسکول کے گیٹ تک جاکر بہنوں سے کہتی کہ میرے پیٹ میں درد ہے یا پھر کسی اور تکلیف کا بہانہ کرتی اور بتاتی کہ میں واپس گھر جا رہی ہوں۔ تم میری ٹیچر کو یہ درخواست دے دینا۔ بہنیں یہی سمجھتیں کہ وہ گھر لوٹ گئی ہے، لیکن وہ گھنٹہ دو گھنٹہ ناظم کے ساتھ قریبی باغ میں بیٹھ کر باتیں کرنے کے بعد گھر جاتی تھی اور ماں سے کہتی کہ میری طبیعت خراب ہوگئی تھی، اس لیے چھٹی لے کر گھر آ گئی ہوں۔ یوں صوفیہ اور ناظم بھی اسی راہ کے مسافر ہوگئے کہ جس راہ پر چل کر ہمارے معاشرے میں اکثر لڑکے اور لڑکیاں محبت کا کھیل کھیلتے ہیں۔ناظم کے والد کا جنرل اسٹور خوب چلتا تھا، اسی وجہ سے اس لڑکے کو روپے پیسے کی کمی نہ تھی، مگر صوفیہ اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے تنگ تھی۔ اس نے غربت میں آنکھ کھولی تھی۔ باپ کا سایہ سر پر نہیں رہا تھا۔ ماں دن رات لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی اور سخت محنت کے باوجود پیٹ بھر روٹی نصیب نہیں ہوتی تھی۔ انہی حالات سے تنگ آئی صوفیہ نے راہ فرار اسی میں تلاش کی کہ ناظم کی محبت کا سہارا لے کر گھر سے بھاگ جائے۔
دراصل وہ گھر سے نہیں بلکہ غربت اور حالات کی سختیوں سے بھاگ جانا چاہتی تھی، مگر بھاگ نہ سکی۔ اپنی کم سنی اور ناتجربہ کاری کے باعث دونوں اسٹیشن پر ہی پکڑے گئے۔ پولیس کو یہ کم سن جوڑا مشکوک لگ رہا تھا اور جب انہوں نے تابڑ توڑ سوالات کیے، تو یہ گھبرا گئے۔ لہٰذا پولیس کے اہلکار انہیں حوالات میں لے آئے۔ صوفیہ اور ناظم کو تھانے میں چند گھنٹے ہوئے تھے کہ میرے والد صاحب پہنچ گئے اور رات ہونے سے پہلے دونوں کو چھڑا کر گھر لے آئے۔ بہر حال آیا شکیلہ کی محلے بھر میں بدنامی تو ہو ہی گئی کیونکہ وہ بےچاری بیٹی کے غائب ہونے کی وجہ سے اس قدر گھبرا گئی تھیں کہ اسے ڈھونڈنے کے لیے محلے کے ہر گھر میں گئی تھیں۔ بدنامی کی وجہ سے وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں، تو والد صاحب نے ناظم کے باپ سے جا کر بات کی، چونکہ وہ ماموں جان کے پڑوسی تھے۔ ماموں بھی میرے والد کے ساتھ احسن صاحب کے پاس گئے تھے۔ ماموں جان نے احسن صاحب سے کہا کہ آپ کے لڑکے نے ایک شریف بیوہ کی بدنامی کرائی ہے، تو بہتر ہے کہ اب آپ پہلے چل کر اس خاتون شکیلہ بی بی سے معافی مانگیں اور صوفیہ کا رشتہ ان سے طلب کریں، ورنہ آپ کے بیٹے کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہو سکتی تھی، جو میرے بہنوئی کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ماموں کی بات سن کر ناظم کے والد سوچ میں پڑ گئے۔
وہ ایک خدا ترس انسان اور بیٹیوں والے تھے۔ میرے ماموں نے جب زیادہ دباؤ ڈالا، تو وہ مان گئے کیونکہ برسوں کا پڑوس تھا اور پڑوسیوں سے عداوت یوں بھی گلے کا پھندا ہوتی ہے۔ ماموں، احسن صاحب سے کہیں زیادہ اثر و رسوخ والے تھے۔ ان کو بات ماننی پڑی۔ وہ آپا شکیلہ کے پاس آئے اور اپنے بیٹے کی حرکت کے لیے معذرت کی کہ ان کے بیٹے نے صوفیہ کو گھر سے بھاگنے کی ترغیب دی تھی۔ اس وجہ سے اب اس کی باقی دونوں بہنوں کی شادیاں بھی مشکل ہوگئی تھیں۔ ابا جان کے سمجھانے پر شکیلہ آیا نے صوفیہ کا رشتہ ناظم کو دینے پر رضامندی ظاہر کی اور احسن صاحب کو ماموں نے راضی کر لیا۔صوفیہ نہیں جانتی تھی کہ عزت ایک گوہر نایاب ہے اور اسے کھونا نہیں چاہیے۔
یوں والد صاحب، صوفیہ ک سرپرست بنے اور اس کی شادی ناظم سے ہوگئی۔ شکیلہ آپا کے سر سے بوجھ تو کم ہوا، مگر ان کی عمر بھر کی ریاضت پر بیٹی کے اس جذباتی اقدام سے پانی ضرور پھر گیا اور محلے میں ان کی پہلے جیسی عزت نہ رہی۔ظاہر ہے جس بیوہ کی جوان لڑکی گھر سے بھاگ جائے اور یہ بات محلے والوں کو معلوم ہوجائے، تو پھر کون اس کی عزت کرے گا؟ خواہ اس بچاری کا قصور نہ ہو۔ نادان لڑکیاں غربت کے حالات سے گھبرا جاتی ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ حالات کبھی نہ کبھی ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن اگر عزت ایک بار کھو جائے، تو پھر واپس نہیں ملتی۔
(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ
.jpg)