نا فرمان بیوی

Sublimegate Urdu Stories

ایک روز دولت خان کسی کام سے گھر لوٹے تو انہوں نے دیکھا کہ وہی شخص ان کے گھر میں بیٹھا ہے اور اس کے سامنے پر تکلف طعام رکھا ہوا ہے۔ ان کی بیوی ہنس ہنس کر اس شخص سے باتیں کر رہی تھی۔ یہ منظر دولت خان برداشت نہ کرسکے۔ اسی وقت بندوق اٹھائی اور دونوں کو ہلاک کرکے خود وہاں سے فرار ہو گئے۔ اس نے پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کر لیا اور مارا مارا پھرتا رہا، جیسے دیوانہ ہوگیا ہو۔ اس طرح وہ افغانستان سے پشاور پہنچ گیا۔
👇👇
ان دنوں ہمارا گھر شہر سے دور گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم اپنی زرعی اراضی پر رہائش پذیر تھے، یعنی گاؤں بھی ہمارے کھیتوں اور رہائش سے کافی فاصلے پر تھا کیونکہ دادا نے گھر کھیتوں کے بیچ بنایا تھا۔ ساتھ ساتھ ہمارے رشتہ دار کی زمین بھی تھی، لیکن ان کے مکانات گاؤں میں تھے۔ وہ اپنے ملازمین کے ہمراہ صبح دم اپنے کھیتوں میں آجاتے، دن بھر کھیتی باڑی کے امور نمٹاتے اور شام کو گاؤں لوٹ جاتے تھے، جبکہ ہمارا تو گھر ہی وہاں تھا اور آس پاس کوئی دوسرا مکان بھی نہیں تھا۔ ہم آس پڑوس سے اس لیے محروم تھے کہ ہماری زمینوں پر کسی اور کو مکان بنانے کی اجازت نہیں تھی، اس وجہ سے بےانتہائی تنہائی کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔ میرے والد صاحب کے پاس جیپ اور بھائی کے پاس گاڑی تھی۔ یہ دونوں صبح سویرے اپنی سواریوں پر گاؤں کی طرف نکل جاتے اور شام کو گھر لوٹتے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں اگر کسی کی طبیعت خراب ہوجاتی، تو بڑی پریشانی ہوتی۔ تبھی میری والدہ کو بابا صاحب کا انتظار رہتا کیونکہ وہ حکیم تھے۔ 

امی جان ان سے چھوٹی موٹی تکالیف کے لیے دوائیں بنوا کر گھر میں رکھ لیا کرتی تھیں۔اب میں آپ کو بتاؤں یہ بابا صاحب کون تھے؟ میں تو انہیں جنگلوں کا باسی کہوں گی۔ یہ گویا تنہائی کے مسافر تھے۔ ہم نے ان کا یہی نام رکھ لیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی تنہائی میں گزاری تھی۔ حالانکہ زندگی کی منزلیں تنہا طے کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ یہ تو کوئی ان سے پوچھے جنہوں نے یہ سفر طے کیا ہو۔ ایک جانور بھی جب تنہا رہ جاتا ہے اور اپنے گرد کسی اپنے جیسے جانور کو نہیں پاتا، تو دیوانہ وار آوازیں نکالتا ہے، ہم جنسوں کو پکارتا ہے، جبکہ ایک انسان، جس کے پاس زندگی کی ساری خوشیاں ہوں، روپیہ پیسہ جائیداد ہو، مگر اس کا کوئی ساتھی نہ ہو، خوشی میں ساتھ ہنسنے اور غم میں رونے والا نہ ہو، تو وہ انسان خود کو مکمل نہیں سمجھتا، گھبرانے لگتا ہے۔ حیرت ہے کہ بابا صاحب نے اپنی زندگی تنہا کس طرح گزاری اور وہ بھی ویران صحراؤں میں۔ ان کے پاس ماضی کی تلخ یادوں کے سوا کچھ نہ تھا۔

ان دنوں ان کا بسیرا ویرانوں میں ہی تھا۔ شاید اب وہ کسی ویرانے میں سکون کی گہری نیند سو رہے ہوں گے۔ ہم تب چھوٹے تھے، نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آتے ہیں؟ ہمیں بھلا ان باتوں سے کیا لینا دینا۔ ہم تو صرف اتنا جانتے تھے کہ ہمارا یہ بزرگ مہمان ہر پندرہ روز بعد ہمارے گھر آتے، ہمیں جڑی بوٹی سے بنی دوائیں دیتے اور دو چار دن رک کر نجانے کہاں چلے جاتے۔ ان کا حلیہ بھی عجیب تھا۔ سفید براق داڑھی، سفید لباس، لمبا سا چوغہ، سر پر رومال، ہاتھ میں تسبیح، رنگت بھی سرخ و سفید، ہم انہیں بس دیکھتے رہ جاتے تھے۔تب ہم تینوں بہن بھائی چھوٹے تھے اور دوڑ کر ان کا استقبال کرتے تھے، جیسے ہمیں انہی کا انتظار ہو۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک بڑا سا جامن کا درخت تھا، جس کے قریب چھوٹی سی مسجد تھی۔ یہ مسجد میرے والد صاحب نے نوکروں سے بنوائی تھی۔ اس کی دیواریں کچی مٹی کی تھیں۔ ہم بابا صاحب کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اسی مسجد میں بٹھاتے تھے۔

جب بابا صاحب آتے، تو ہم ان کے پاس سے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹلتے۔ وہ ہمیں بڑی انکساری کے ساتھ منع کرتے، مگر ہم ان کی ایک نہیں سنتے تھے۔ کھانے کے وقت کھانا، چائے کے وقت چائے اور رات کو سونے کے لیے بستر لاکر دیتے۔ گھر والے بھی ان کا خیال رکھتے تھے۔ وہ زیادہ وقت عبادت میں گزارتے اور فراغت میں ڈھوری بناتے تھے۔ اس کام میں ہم ان کا ہاتھ بٹاتے، وہ ڈھوری بیچ کر اپنی ضرورت کی اشیاء خرید لیتے تھے۔ جب وہ اون کی طرح سفید ریشم جیسی اپنی داڑھی کنگھی سے سلجھاتے، تو وہ بڑی بھلی لگتی تھی۔ تب ہم بچے معصوم لہجے میں سوال کرتے: بابا صاحب! کیا تم اپنی داڑھی کی اون سے ڈھوری بناتے ہو؟ وہ ہمارے سوال پر ہنس پڑتے، تب ان کا جسم ہلکورے کھانے لگتا تھا۔ میری امی ان کی بڑی عزت کرتی تھیں۔ جب وہ آتے، امی سارے گھر والوں کی چھوٹی موٹی بیماریوں کی تفصیل لے کر بیٹھ جاتیں۔ بابا صاحب بیماری کی دوا کی پڑیاں بنا کر ان کو دیتے جاتے اور وہ اپنے صندوقچے میں ان کو سنبھال کر رکھتی تھیں۔ دیسی جڑی بوٹیوں سے بنی یہ دوائیں بہت اچھی اور زود اثر ہوتی تھیں۔

بابا صاحب کے ہاتھ میں شفا تھی۔ کتنا ہی پیٹ میں درد ہو یا دل میں تکلیف، بخار کی کیفیت ہو، ان کی دوا کی ایک چٹکی سے ساری شکایت دور ہوجاتی اور ہم بھلے چنگے ہوجاتے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ حکمت انہوں نے اپنے دادا سے سیکھی تھی، جو اپنے علاقے کے نامی گرامی حکیم تھے۔وہ اپنی زندگی کے بارے میں کبھی کسی کو نہیں بتاتے تھے۔ کوئی پوچھتا بھی، تو یہی کہتے: میں ایک مسافر ہوں، خدا کا بندہ ہوں اور بس۔ لیکن جب بڑے بھائی مہربان خان رات کو گھر لوٹتے، تو اکثر مسجد میں ان کے پاس بیٹھ کر کافی دیر تک باتیں کرتے رہتے تھے۔ بابا صاحب نے بھائی کو ایک دن اپنی زندگی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ ان کی زندگی ان کی بیوی کی وجہ سے برباد ہوئی، جس سے وہ بڑی محبت کرتے تھے۔

افغانستان کے رہنے والے تھے۔ ان کی شادی اپنے رشتہ دار کی لڑکی سے ہوئی تھی۔ اتفاق سے اس کا نام “محبت” تھا، جو اس کے والدین نے بیٹی کے لیے رکھا تھا۔ وہ بیوی کو بڑے چاؤ سے بیاہ کر لائے تھے۔ وہ بہت خوبصورت لڑکی تھی، بابا صاحب اس پر فریفتہ ہوگئے اور اسے اپنا جیون ساتھی ہی نہیں، بلکہ اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ سمجھنے لگے۔ وہ ان کے دل میں ایسے بس گئی تھی جیسے ان کی سانسیں ہی محبت کے دم سے چلتی ہوں۔ یہ بھی نام کی محبت نہیں تھی، بلکہ شروع میں اپنے شوہر کے لیے سراپا محبت تھی۔ شادی کے وقت بابا دولت خان اٹھارہ برس کے اور ان کی بیوی سولہ سال کی تھی۔ دونوں کی زندگی سکون اور خوشیوں سے گزرنے لگی۔ گرچہ ان کے پاس زیادہ سرمایہ نہیں تھا، مگر پیار کرنے والی بیوی کو پاکرانہوں نے یہی سمجھ لیا کہ قدرت نے ساری کائنات انہیں بخش دی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر خوشی کے پیچھے غم اور ہر غم کے پیچھے خوشی ہوتی ہے۔ دولت خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کے گھر ایک رشتہ دار آتا تھا۔ اس کا روز روز آنا دولت خان کو اچھا نہیں لگتا تھا، کیونکہ انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ شخص ان کی بیوی کی خاطر آتا ہے۔ تبھی انہوں نے بیوی کو سختی سے منع کیا کہ اگر میری غیر موجودگی میں یہ شخص ہمارے گھر آئے، تو تم اسے اندر مت بلانا۔ کہہ دینا کہ دولت خان گھر پر نہیں ہیں، جب وہ گھر پر ہوں تبھی آنا۔ تم دروازہ مت کھولنا، وہ خود شرمندہ ہوکر ہمارے گھر آنا بند کردے گا۔ ٹھیک ہے، جیسا آپ نے کہا، میں ویسا ہی کروں گی۔ کچھ عرصے بعد ایک روز دولت خان کسی کام سے گھر لوٹے تو انہوں نے دیکھا کہ وہی شخص ان کے گھر میں بیٹھا ہے اور اس کے سامنے پر تکلف طعام رکھا ہوا ہے۔ ان کی بیوی ہنس ہنس کر اس شخص سے باتیں کر رہی تھی۔

 یہ منظر دولت خان برداشت نہ کرسکے۔ اسی وقت بندوق اٹھائی اور دونوں کو ہلاک کرکے خود وہاں سے فرار ہو گئے۔ اس نے پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کر لیا اور مارا مارا پھرتا رہا، جیسے دیوانہ ہوگیا ہو۔ اس طرح وہ افغانستان سے پشاور پہنچ گیا، جہاں چند دن ایک خدا ترس ڈاکٹر کے گھر پر رہا، جس نے اس کے پیروں کے زخموں کا علاج کیا، پھر اسی کی وساطت سے اسپتال میں چوکیدار ہو گیا۔ دو چار برس چوکیداری کرتا رہا، پھر ایک نرس اس میں دلچسپی لینے لگی اور آخرکار اپنے دل کی بات زبان پر لے آئی۔ خان نے اسے بتایا کہ وہ شادی کرنے سے معذور ہے، کیونکہ وہ دلی طور پر ایک اجڑا ہوا انسان ہے۔ نرس اصرار کرنے لگی، تو اس نے جواب دیا: دیکھو پروین، میرا کوئی گھر بار نہیں ہے اور نہ ٹھکانہ، میں آج یہاں ہوں، کل کہیں اور چلا جاؤں گا، اس لیے تم مجھ سے شادی کا خیال دل سے نکال دو۔

نرس نے اس انکار کو اپنی توہین سمجھا۔ دولت خان کا اعتبار عورت ذات سے اٹھ چکا تھا، اس لیے وہ اب شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کی بیوی نے اس کے ساتھ بے وفائی کی تھی، اس کا دل توڑا تھا۔ ممکن ہے وہ بدگمانی کا شکار ہوا ہو۔ اس کی بیوی نے حکم عدولی کی تھی اور غیر شخص کو اس کی غیر موجودگی میں بلایا تھا۔ اس کے نزدیک یہ اپنے مرد کی عزت کو خاک میں ملانے والی بات تھی۔ تبھی اس کو محبت اور عورت ذات دونوں نفرت ہو گئی تھیں۔پروین بھی ایک ضدی اور ہٹ دھرم عورت تھی۔ وہ دولت خان کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت پر مرمٹی تھی۔ اس کے انکار سے پروین کے دل میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے انکار کو اپنی نسوانیت کی توہین سمجھا اور اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے ایک دن اسے جھوٹے الزام میں پھنسایا اور جیل کروادیا۔ یوں بابا صاحب کو سات برس کی سزا ہوگئی۔
بابا صاحب نے میرے بھائی سے کہا: میں سوچتا تھا کہ جس جرم کے لیے مجھے جیل جانا تھا، نہ گیا، اور اب جبکہ الزام بے بنیاد اور میں بے قصور ہوں، تو مجھے جیل ہوگئی۔ شاید یہ اسی جرم کی سزا تھی کہ بیوی کو محض بدگمانی میں قتل کیا تھا اور مجھے سات سال کی سزا مل گئی۔ سزا کاٹنے کے بعد دولت خان، بابا صاحب بن کر جیل سے نکلا، کیونکہ قید کے دوران اس نے خدا سے لو لگا لی تھی۔ وہ دن رات عبادت کرتا، جنگلوں اور ویرانوں میں پھرتا رہا کیونکہ اس کا دل آبادی میں نہیں لگتا تھا۔ گرچہ اس نے اپنی پیاری بیوی کی روح تو اپنے جسم سے جدا کردی تھی، مگر اس کی یاد کو اپنے دل و دماغ سے نہیں نکال سکا۔ پھر اسی کی یاد میں اس نے درویشی اختیار کرلی۔ وہ کہتا تھا: میری اصل دنیا میری محبت ہے، میری جیون بھر کی ساتھی مجھے نہ ہوسکی، تو اس فانی دنیا سے میرا کیا واسطہ؟ وقت گزرتا گیا، پہلے ہم بابا صاحب کو دیکھ کر دوڑ پڑتے تھے، ان کی طرف لپکتے تھے، پھر انہیں دیکھ کر احترام سے سلام کرنے لگے کیونکہ اب ہمارا لڑکپن جوانی میں بدلنے لگا تھا۔ اس کے بعد ہم شہر منتقل ہوگئے، پھر ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ نجانے وہ زندہ ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں، تو ہماری دعا ہے کہ خدا ان کا قصور معاف کرے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ انہوں نے بیوی کے قتل کے بدلے نہ سہی، جھوٹے الزام کی وجہ سے سات سال کی طویل قید با مشقت اس دنیا میں کاٹ ہی لی تھی۔

(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ