ہماری زمین پنجاب کے ایک چھوٹے سے دیہات میں تھی۔ میرا شوہر میرا خالہ زاد تھا۔ وہ میری قدر کرتا تھا کہ میں ایک پڑھی لکھی شہری لڑکی ہو کر بھی اُس کے ساتھ دیہات میں گزارہ کر رہی تھی۔ اُن دنوں وہاں نہ بجلی تھی، نہ پانی۔ ٹی وی اور پنکھے کی سہولت تو دور کی بات، ٹھنڈا پانی پینے کو بھی میسر نہ تھا۔شادی سے پہلے میں شہر میں اپنے ماموں کے گھر رہتی تھی۔ وہاں میں نے آٹھ جماعتیں پڑھی تھیں، جب کہ عرفان نے صرف چار جماعتیں پاس کی تھیں، وہ بھی دیہات کے اسکول سے۔ اس طرح میں اپنے شوہر سے زیادہ پڑھی لکھی تھی۔ لیکن اصل بات تو پیار اور محبت کی ہوتی ہے۔ انسان کو اگر کسی سے سچا پیار ہو، تو وہ دیہات میں بھی خوش رہ سکتا ہے، اور ویرانے میں بھی اپنی جنت آباد کر سکتا ہے۔ میں نے بھی عرفان کی محبت کے بل بوتے پر اُس ویرانے میں اپنی جنت آباد کر رکھی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ اپنے شوہر کے ہوتے مجھے کسی شے کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ہماری زمین تھوڑی سی تھی، لیکن ہم محنت سے کام کرتے تھے۔ اگر فصل اچھی ہو جاتی تو سال بھر کا گزارہ ہو جاتا۔ یہ اور بات ہے کہ یہاں شہر جیسی سہولتیں نہ تھیں۔ خاص طور پر جب کوئی بیمار ہو جاتا تو پریشانی گھیر لیتی۔ بعض اوقات تو شہر کے اسپتال تک پہنچتے پہنچتے مریض دم توڑ دیتا۔ تاہم، میں دیہات میں رہ کر بھی خوش تھی۔ یہاں سکون بہت تھا، اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مجھے اپنے جیون ساتھی کی محبت حاصل تھی۔ سکون کے سوا میں نے کبھی کسی چیز کی تمنا نہیں کی تھی۔عرفان بھی میرا بہت خیال رکھتا تھا۔ چاہے وہ زمین پر ٹریکٹر چلا رہا ہوتا یا اپنے ڈیرے پر موجود ہوتا، اُس کا دھیان میری طرف ہی رہتا تھا۔ وہ خوش اخلاق اور ہنس مکھ انسان تھا، لطیفے سنا کر مجھے ہنساتا رہتا تھا۔ایک دن وہ ٹریکٹر لے کر کھیتوں کی طرف گیا، اور کام ختم کرنے کے بعد اپنے ڈیرے پر جا بیٹھا۔ کسی کام سے جب میں اپنے احاطے سے باہر نکلی، تو دیکھا کہ دو عورتیں ہماری زمین سے مٹی لے رہی ہیں۔ میں اُن کے قریب گئی، تو ایک نے دوسری سے کہا کہ بخت سُن، اُدھر دیکھ، یہی ہے زمین والی، چھوڑ دے مٹی۔دوسری نے رعونت سے میری طرف دیکھا اور اکڑ کر بولی کہ میں تو مٹی اِسی کی زمین سے لوں گی۔ دیکھتی ہے تو، تو دیکھتی رہے۔ کیا کر لے گی میرا؟ چل، تُو ٹوکری اُٹھا کر میرے سر پر رکھ دے!اُس کی بات سن کر میرے کان لال ہو گئے۔ میں مٹی اٹھانے سے کیوں منع کرتی؟ مٹی لینے کو کون روکتا ہے؟ مگر جب اُس نے اکڑ فوں سے بات کی، تو مجھے غصہ آ گیا۔
میں نے پکار کر کہا: او تحاری والی! خبردار جو یہاں سے ایک ذرّہ مٹی بھی لی! چل، ٹوکری واپس اُلٹ دے!وہ بولی، نہیں اُلٹتی! دیکھتی ہوں تُو کیا کرتی ہے؟ میں تو یہیں سے مٹی لے جاؤں گی! ہم دونوں میں تکرار شروع ہو گئی، جب کہ دوسری عورت بیچ بچاؤ کرنے لگی۔ کہنے لگی، بی بی، تنور بناتے ہیں۔ بات کیوں بڑھاتی ہو؟ ہم نے کوئی مکان تو نہیں بنانا، ایک ٹوکری مٹی سے کیا ہوتا ہے!ہماری تو تو میں میں بڑھ گئی۔ اتفاق سے میرا شوہر ڈیرے سے نکلا، تو مجھے عورت سے جھگڑتے دیکھ کر ہماری جانب آگیا۔ پوچھا کہ کیوں جھگڑ رہی ہو، کیا بات ہے؟ میں نے فریاد کے سے انداز میں اس کو بات بتا کر مدد طلب کی کہ یہ عورت ایک تو مٹی اٹھا رہی ہے، اوپر سے مجھ پر دھونس جما رہی ہے۔عرفان بولا کہ رانی، تُو گھر کے اندر جا، میں خود اس سے نمٹ لیتا ہوں۔ اس نے تمہاری اجازت کے بغیر مٹی اٹھائی کیسے؟ اپنے شوہر کی اخلاقی مدد ملتے ہی میں شیر ہو گئی اور دوبارہ برا بھلا کہہ کر گھر کے اندر چلی گئی کیونکہ اس نے خواہ مخواہ میرا دل جلایا تھا۔ صبح صبح موڈ خراب کر دیا تھا۔ سوچا کہ اب عرفان ضرور اس مغرور عورت کی خبر لے گا، جس نے اس کی چہیتی بیوی کی توہین کی تھی۔دو چار منٹ گزرے، دل کو قرار نہ آیا، تو دروازے سے جھانکا۔
یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ عورتیں ہنس ہنس کر میرے شوہر سے باتیں کر رہی ہیں اور وہ خود مٹی کی بھری ہوئی ٹوکریاں ان کے سروں پر رکھ رہا ہے۔ یہ تو جیسے میرے لیے دوزخ کا نظارہ تھا۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں کیا سمجھ رہی تھی اور یہ کیا ہو رہا تھا۔ جس شوہر کو اپنا سمجھتی تھی، اس وقت وہ کتنا غیر بن چکا تھا۔ وہ مہربان نہ رہا تھا۔ وہ میرے ہی مخالفوں کے ساتھ مل گیا تھا۔جی چاہا کہ میرے ہاتھ میں کہیں سے پستول آ جائے اور ان تینوں کو جان سے مار ڈالوں۔ اتنا غصہ آیا کہ پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ عرفان کی مجھ پر نظر پڑی تو اس کی ہنسی غائب ہو گئی اور وہ سہم کر ڈیرے کی طرف چلا گیا۔ عورتیں بھی مجھے دیکھ کر کھسیانی ہو گئیں، مگر اس کھسیانے پن میں بھی جھگڑنے والی عورت کے انداز میں ایک شانِ بے نیازی رچی ہوئی تھی، جیسے کسی کو فتح کرنے کی خوشی مسرور کر دیتی ہے۔عرفان کا یہ معمول تھا کہ روز دوپہر دو بجے گھر آ جاتا، کھانا کھاتا اور سوجاتا، مگر آج وہ گھر نہ آیا اور نہ دوپہر کا کھانا کھایا۔ وہ اپنے ڈیرے سے قریبی زمیندار کے ڈیرے پر چلا گیا۔ میں رات تک کھولتی رہی اور اس کا انتظار کرتی رہی۔ وہ جلدی گھر آ جاتا تو اپنا غصہ اس پر نکال کر سکون سے سو جاتی اور اتنی اذیت نہ ہوتی۔ اب تو سراسر میرا نقصان ہو رہا تھا۔ مجھے نیند آ رہی تھی اور نہ کسی پل آرام تھا۔رات گئے وہ گھر میں گھسا اور مجھ سے بات کیے بغیر سو گیا۔
میں سمجھی کہ جھگڑے کے ڈر سے ایسا بن رہا ہے، کہ باز پرس کروں گی، یہ صبح اٹھ کر مجھے منالے گا۔ صبح ہوئی تو عرفان ایسا بن گیا جیسے کل کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ اس درد کو مجھے اکیلے ہی سہنا پڑا۔ کچھ دن روٹھی رہی، جب اذیت بڑھ گئی تو آپ ہی اس کو منانے لگی، اور وہ بھی انجان بنا ہوا تھا۔ مان کے نہیں دے رہا تھا، جیسے قصور اس کا نہیں، میرا ہو۔ اگلے دن بھی دیر سے ڈیرے سے گھر آیا۔اب اس نے دیر سے گھر آنے کو معمول بنا لیا۔ میں کبھی پیار سے بات کرتی، کبھی روٹھتی، شکوہ کرتی، مگر اس پر اثر نہ ہوتا۔ مجھ سے بات بھی مختصر اور روکھے پھیکے انداز میں کرتا۔ بچے خود اس کی گود میں چڑھتے تو توجہ نہ دیتا، جھڑک دیتا۔ میں اس کے بدلے ہوئے رویے پر حیران تھی کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ایک دن میں گھر کے برآمدے میں بیٹھی کپڑے سی رہی تھی کہ دیہات کی ایک عورت آئی۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہنے لگی کہ رانی بی بی، تم کو کچھ پتا ہے؟ میں نے کہا، کیا مطلب جیون؟ کیا کہنا چاہ رہی ہو؟ وہ بولی، تمہارا گھر والا کسی اور عورت سے تعلق میں ہے۔ دونوں کھیتوں سے ادھر، نہر کے کنارے جو جنگل ہے، وہاں ملتے ہیں۔میرے ہاتھ مشین کے ہتھے پر جم گئے اور میں اس عورت کا منہ تکنے لگی۔
کچھ دیر ہم دونوں خاموش رہیں، پھر میں نے پوچھا، کیا نام ہے اس عورت کا؟ شمشاد۔ اور اس کی سہیلی بخت بی بی ہے، وہ بھی ساتھ ہوتی ہے؟ ہاں، کبھی کبھی ساتھ ہوتی ہے۔میں یہ سن کر دنگ رہ گئی۔ سمجھ گئی کہ یہ وہی عورت ہے، جو ہماری زمین سے مٹی اٹھانے آئی تھی اور جسے میں نے برا بھلا کہا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے؟ میں بھی کہوں کہ عرفان مجھ سے سیدھے منہ بات کیوں نہیں کرتا۔اگلے دن میں نے عرفان کا پیچھا کرنے کی ٹھانی۔ میں نہر کے کنارے اس جنگل کی طرف گئی، جہاں درخت ہی درخت تھے۔ وہاں نہر کے کنارے ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کے پاس وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں دبے پاؤں چلتی ہوئی کشتی کی دوسری اوٹ میں بیٹھ گئی اور ان کی باتیں سننے لگی۔ وہ ایک دوسرے میں اتنے گم تھے کہ میرے آنے کا ان کو احساس ہی نہیں ہوا تھا۔عرفان کہہ رہا تھا کہ شمشاد، میں کوئی راہ نکال رہا ہوں۔ ہم دونوں جلد ہی شادی کر لیں گے۔ یہ سن کر میرا بدن کانپنے لگا۔ اور کچھ نہ سن سکی، گم صم وہیں بیٹھی رہ گئی۔ شمشاد بولی، تم میرے باپ کو دو چار بیگھے زمین دے دو، وہ راضی ہو جائے گا۔ ابھی چلتی ہوں، بھائی گھر آ گیا تو وہ میری کھوج میں نکل آئے گا۔عرفان کشتی سے اٹھ کر اپنے ڈیرے کی جانب چل دیا۔ تبھی اس نے مڑ کر دیکھا۔ وہ شمشاد کو دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ مجھے زرد اور بے جان دیکھ کر سمجھ گیا کہ میں نے ان کی باتیں سن لی ہیں۔ وہ پلٹ کر آیا۔ شمشاد دوسری سمت کو چل دی اور پلٹ پلٹ کر دیکھتی جاتی تھی۔جب وہ کچھ آگے نکل گئی، تو عرفان میرے قریب آگیا۔ اس نے بازو سے پکڑ کر مجھے زمین سے اٹھایا اور اپنے سہارے سے چلاتا ہوا گھر لے آیا۔ تمام راستے میں ایک لفظ نہ بول سکی۔
بے جان لاش کی طرح اس کے ساتھ گھر آ گئی اور صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔میں نے روتے ہوئے کہا کہ عرفان، تم مجھے کب سے دھوکا دے رہے ہو؟ اس نے مجھے پانی لا کر پلایا، مگر کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ جب میں زیادہ اس سے لڑنے لگی، تب بولا کہ میں واقعی اس سے ملتا ہوں، مگر تجھے کیا مسئلہ ہے؟ میں تیسری بیوی ہوں اور مجھے پوچھنے کا حق ہے۔ میں ہر بات تم سے پوچھ سکتی ہوں، یہ بھی کہ تم اس غیر عورت سے کیوں ملتے ہو؟شرمندہ ہونے کے بجائے اس نے کھل کر کہہ دیا کہ کیا مرد کسی اور عورت کو نکاح میں نہیں لا سکتے، اگر وہ پسند آ جائے؟ میں نے پوچھا، کیا تم دوسری شادی کرنے جا رہے ہو؟ وہ بولا، ہاں، مجھے حق ہے دوسری شادی کرنے کا۔ تم کو رہنا ہے تو رہو، نہیں رہنا تو اپنے ماموں کے گھر چلی جاؤ۔اس دوٹوک جواب نے میرے دل پر گھاؤ کیا۔ میں روتی رہی، اس نے کوئی پرواہ نہ کی، اور کروٹ بدل کر سو گیا۔
اگلے دن صبح ہی میرا اس سے جھگڑا ہو گیا۔ میں نے کہا کہ آج جلدی گھر آ جانا، دوپہر کا کھانا گھر پر کھانا۔ وہ بولا، جب آنا ہو گا آ جاؤں گا۔ میرا انتظار نہ کرنا، کھانا کھا لینا تم لوگ۔ وہ ہفتے بھر اسی طرح کرتا رہا اور میں روتی رہی۔ اگر جھگڑتی تو گھر سے باہر نکل جاتا۔میں کیا کرتی؟ روتی رہتی، دیواروں سے باتیں کرتی۔ آخرکار تنگ آ کر دونوں بچوں کو ساتھ لے کر میکے چلی آئی۔ ماں کا انتقال ہو چکا تھا، اور ماں کے بعد ماموں نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ میری ماں کی دوسری جگہ شادی ہو چکی تھی، یوں بھی میرا میکہ اب اجنبی سا بن چکا تھا۔مجھے میکے آئے ایک ماہ گزر گیا، مگر عرفان نے میری خبر تک نہ لی اور نہ مجھے لینے آیا۔ آخر ممانی کے سمجھانے پر خود ہی گھر واپس لوٹی۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت چڑیا کی طرح ہوتی ہے، اپنا گھونسلہ چھوڑ دے تو چڑا دوسری لے آتا ہے۔ تم اپنا گھر چھوڑنے کی غلطی مت کرو۔عرفان کو تو شاید اسی موقع کی تلاش تھی۔ جب گھر کے اندر قدم رکھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہی عورت جسے میں اپنے گھر کے سامنے سے ٹوکری بھر مٹی بھی نہیں لینے دے رہی تھی، آج میرے ہی گھر کی مالکن بنی بیٹھی تھی۔
عرفان گھر پر نہیں تھا۔ اس کی نئی دلہن مجھ سے کہہ رہی تھی، آؤ آؤ، سفر سے آئی ہو، پانی تو پی لو۔ مگر میں نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اپنی اتنی تذلیل برداشت نہ کر سکی اور الٹے قدموں واپس لوٹ آئی۔اس بات کو دس برس بیت چکے ہیں۔ عرفان آج تک مجھے لینے نہیں آیا۔ یہ وہی عرفان ہے جو ایک ایک منٹ میرے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ میں تو سمجھتی تھی کہ اس کی محبت سونے سے بھی قیمتی ہے، مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ عورت کی محبت اور قدر و قیمت مٹی سے بھی سستی ہوتی ہے۔ سچ ہے، مرد ذات کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس کے دل کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔