یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم دکھ کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میرے بہنوئی لالہ نے ہمارے سروں پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ تم دونوں میرے لیے چھوٹے بہن بھائی کی طرح ہو۔ ماں باپ ہمیشہ کسی کے نہیں رہتے۔ اللہ کی مرضی، تمہاری والدہ کی اتنی ہی زندگی تھی، لیکن خود کو اکیلا نہ سمجھو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ کہہ کر وہ باجی صنم کو ہمارے گھر چھوڑ گئے۔ بیوی سے بھی کہا کہ صنم، جب ذرا ان کا غم ہلکا ہو جائے، تو مجھے خط لکھ دینا، میں آ کر تم کو لے جاؤں گا۔ابا جان ان دنوں سعودی عربی ڈیوٹی پر چلے گئے تھے۔
دولہا بھائی کے سرگودھا جاتے ہی میرے چھوٹے بھائی وقار کو گردے میں تکلیف ہو گئی اور اسے اسپتال داخل کرانا پڑا۔ وقار کی دیکھ بھال اور اسے اسپتال میں کھانا پہنچانے کا مسئلہ تھا۔ ہماری پڑوسن خالہ بشیراں بہت اچھی عورت تھیں۔ امی کی وفات کے بعد وہ روز ہمارے گھر آتی تھیں۔ وقار اسپتال میں داخل ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے ذیشان کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ صبح شام اسپتال کھانا پہنچائے گا۔ ذیشان اس سے پہلے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا تھا، نہ ہم نے کبھی اس سے بات کی تھی۔ وقار کو اسپتال داخل کران بھی وہی لے گیا تھا۔ اب کھانا لے جانے کو وہ روزانہ صبح شام ہمارے گھر آنے لگا۔ میں کچن میں ہوتی، جب تک کھانا تیار ہوتا، وہ باجی کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرتا رہتا۔ میں تو اس کے سامنے نہیں جاتی تھی۔ باجی ہی اس کے ساتھ بات کرتی تھیں۔ رفتہ رفتہ میں بھی باجی کے پاس بیٹھ جاتی۔ اس کی باتیں بہت دلچسپ ہوتیں۔ اس کی گفتگو کا رُخ زیادہ تر باجی کی طرف رہتا کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔ وہ مجھ سے ایک طرح سے دوری بنا کر رکھتا تھا۔
میں نے محسوس کر لیا کہ دو چار دن میں ہی میری بہن کے انداز، لب و لہجے اور چہرے کے رنگ بدلنے لگے ہیں۔ اب وہ ذیشان سے ایک خاص ادا سے ملنے لگی تھیں۔ میں ان کے اطوار دیکھ دیکھ کر پریشان تھی، مگر بڑی بہن ہونے کے ناتے ان کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ ذیشان کو آنے میں ذرا جو دیر ہو جاتی، باجی کا حال بگڑ جاتا۔ جو نہی وہ دروازے سے نمودار ہوتا، ان کا چہرہ کھل اٹھتا تھا۔ کچھ دن تو میں یہ سب برداشت کرتی رہی، پھر جونہی انہوں نے خلوتوں میں غلط انداز سے ملنا شروع کیا تو مجھ سے ان کا یہ طرزِ عمل سہنا مشکل ہو گیا، لیکن مجبوری یہ تھی کہ وقار کے آپریشن کے دوران ذیشان نے راتیں جاگ کر اس کے سرہانے گزاری تھیں اور اب بھی دیکھ بھال کی ڈیوٹی ذیشان اور اس کے دوست ہی دے رہے تھے۔ ہم تو ذرا دیر کو اسے دیکھ کر واپس آ جاتی تھیں کیونکہ وہ مردوں کے وارڈ میں داخل تھا۔ ہم وہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی تھیں۔ والد صاحب جدہ سے فون کر کے بھائی کی خیریت دریافت کرتے۔ ان کو اطمینان تھا کہ باجی میرے پاس رہ رہی ہیں، میں گھر میں اکیلی نہیں ہوں، اور میرے بہنوئی بھی چھٹی لے کر ہماری خبر گیری کو آتے تھے۔
پھر بھی والد نے دوبارہ چھٹی کی درخواست دے دی تھی۔ ان کو وقار کی فکر تھی، مگر نوکری بھی ان کی مجبوری تھی۔ میں دعا کرنے لگی کہ خدا کرے ابا جان کو جلد چھٹی مل جائے اور وہ آ جائیں، ورنہ میں باجی کا پردہ نہیں رکھ پاؤں گی اور ان کو فون پر ہی باجی کے حالات سے آگاہ کر دوں گی تاکہ بات جلد ختم ہو جائے اور باجی کا گھر برباد نہ ہو ۔مجھے حیرت تھی کہ باجی کو کیا ہو گیا ہے؟ ان کو اپنے گھر، بچوں اور دولہا بھائی کا بھی خیال نہیں آتا، جو ان سے اتنی محبت کرتے ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ جس روز میں نے ابا جان سے فون پر سب کچھ کہہ دینے کی ٹھانی، اسی روز وہ اچانک گھر آ گئے۔ ان کی چھٹی منظور ہو گئی تھی۔ جو نہی وہ کمرے میں داخل ہوئے، انہوں نے ذیشان اور باجی کو قریب قریب بیٹھے ہوئے دیکھ لیا۔ شاید انہوں نے ان کی کچھ گفتگو بھی سن لی تھی کہ ان کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ اس وقت تو انہوں نے باجی سے کچھ نہ کہا، مگر شان کو گھر آنے سے منع کر دیا اور دولہا بھائی کو فوراً فون کر دیا کہ میں پاکستان آ گیا ہوں، تمہارے بچے پریشان ہوں گے، آ کر گل صنم کو لے جاؤ۔
فون ملتے ہی اگلے دن دولہا بھائی اپنی بیگم کو لینے آ گئے۔ ہم یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ باجی اپنے شوہر کے ہمراہ گھر جانے سے انکار کر دیں گی۔ اب تو والد صاحب کی حالت قابلِ دید تھی، میں الگ پریشان تھی، مگر میری بہن نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ابھی اپنے گھر نہیں جا رہی ہیں۔ جب تک وقار بالکل ٹھیک نہیں ہو جاتا، وہ یہاں سے ہلیں گی بھی نہیں۔ دولہا بھائی واپس چلے گئے۔ شادی شدہ بیٹی کو زبردستی گھر سے باہر نکالنے یا اس پر ہاتھ اٹھانے سے ابا جان بے بس تھے۔ باجی پھر ذیشان سے ملنے لگیں۔ جو نہی والد صاحب اسپتال جاتے، یہ ذیشان کے پاس پہنچ جاتیں۔ وہ دن یاد کرتی ہوں تو اب بھی آنسو نکل پڑتے ہیں۔ رات رات بھر میری جاگتے اور روتے گزر جاتی تھی۔ ان دنوں میری بھانجی آٹھ برس اور بھانجا صرف چھ سال کا تھا۔ یہ دونوں دادی کے پاس تھے۔ ان کا پیار یاد کر کے کلیجہ کٹتا تھا۔ سنگدل باجی سے نفرت کرنے کو دل کرتا تھا۔ سوچتی تھی کہ یہ کیسی ماں ہے؟ اپنے معصوم بچوں کی محبت بھی جس کا دامن نہیں کھینچتی۔ان معصوموں کی شکلیں یاد کر کے رات کو روتی تو میری ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔ آخر مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ اگر میں شان کی توجہ کسی اور جانب کرادوں تو شاید میری بہن کا دل اس سے ہٹ جائے اور اس کا گھر برباد ہونے سے بچ جائے۔ اپنے بھانجے بھانجی کو ان کی ماں لوٹانے کی خاطر میں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کی ٹھان لی اور خالہ جان کی بیٹی سے سلائی سیکھنے کا بہانہ کر کے میں ان کے گھر آنے جانے لگی۔ ابا جان کو علم نہ تھا کہ ان کے جانے کے بعد میں گھر سے چلی جاتی ہوں۔
باجی دل سے یہ چاہتی تھیں کہ میں گھر سے چلی جاؤں تاکہ وہ ذیشان کے ساتھ آسانی سے مل سکیں۔ ڈرتے ڈرتے سب سے پہلے میں نے ذیشان کی بہن کو رازدار بنایا۔ طاہرہ بڑی اچھی اور سمجھ دار لڑکی تھی۔ اس نے حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے میرا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ اہم کڑی اس قصے میں موجود نہ ہوتی، تو میں کبھی بھی ذیشان تک اپنا مسئلہ نہ پہنچا پاتی۔ طاہرہ نے مجھے ذیشان سے بات کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ میں نے اسے بتایا کہ میرے والد دل کے مریض ہیں، پھر بھی ہماری خاطر اس عمر میں پردیس کاٹ رہے ہیں۔ بھائی چھوٹا ہے اور ابھی پڑھ رہا ہے۔ خدانخواستہ اگر میرے والد کو باجی کی طلاق کا صدمہ پہنچا، تو وہ اس صدمے سے دنیا سے جا سکتے ہیں۔ تب ذیشان نے کہا، تم کیا کہنا چاہتی ہو؟ کھل کر کہو۔ میں نے کہا، پہلے آپ وعدہ کرو کہ میری بہن کو کچھ نہیں بتاؤ گے۔ اس نے وعدہ کر لیا اور کہا کہ گھر پر زیادہ دیر تم سے بات نہیں ہو سکتی، امی کو شک ہو گیا تو اچھا نہیں ہو گا۔ اگر تم نے مجھ سے بات کرنی ہے تو گھر سے باہر ملو۔میں والد سے ڈرتی تھی، پھر بھی میں نے گویا جان پر کھیل کر وعدہ کر لیا۔
اب ہم ایک قریبی پارک میں ملنے لگے تھے۔ دو تین ملاقاتوں میں ذیشان پوری طرح میری طرف مائل ہو گیا اور اس نے مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم وعدہ کرو کہ مجھ سے شادی کرو گی، تو میں تمہاری بہن سے ہر قسم کی بات چیت اور رابطے ختم کر دوں گا۔ وہ مجھ سے مایوس ہو کر اپنے گھر لوٹ جائے گی۔ یہی میں چاہتی تھی، لہٰذا یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ میری شادی ذیشان سے کیونکر ممکن ہو پائے گی اور میں اس سے واقعی شادی کرنا چاہوں گی بھی یا نہیں، میں نے اس سے شادی کا وعدہ کر لیا۔ تاہم میں نے اسے بتا دیا کہ جانتے ہو میں کیوں تمہارے گھر آئی، تم سے ملی؟ اپنے دل اور جذبات سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ اپنی بہن کی خاطر، جو تمہاری وجہ سے اپنا گھر چھوڑے بیٹھی ہے۔ خدا کے لیے اب یہ تماشا بند کر دو۔ میرے والد نے تم دونوں کو ایک بار درگزر کیا اور کچھ نہیں کہا تاکہ بدنامی نہ ہو جائے، لیکن ایک باپ کے صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ باجی شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔ اس کا شوہر ایک شریف اور نیک چلن آدمی ہے اور بیوی سے وفادار ہے۔ تم میری بہن کے بھٹکنے کا سبب بن رہے ہو، تو بتاؤ تم کو اس سے کیا ملے گا جبکہ دو معصوم بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
لہٰذا جان لو کہ میرا تم تک آنا تم کو حاصل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ اپنی بہن کے گھر کو بچانے کی نیت سے ہے۔ اس کے لیے اگر مجھے قربانی دینی پڑے تو میں تیار ہوں۔ مگر مجھے یہ امید ضرور ہے کہ اگر کوئی تمہیں روشنی دکھا رہا ہو تو تم مزید اندھیرے میں بھٹکنے کے بجائے سیدھے رستے پر چلنا ہی پسند کرو گے۔ مجھے تمہارے اندر ضمیر کی روشنی پر اتنا یقین کیوں ہے، یہ نہیں جانتی، مگر میرا دل کہتا ہے کہ تم با ضمیر ہو۔ میری اس تقریر پر وہ مسکرا دیا اور کہا کہ تم نے جو بھی کہنا ہے کہتی رہو، مجھے تمہاری کسی دلیل اور تاویل سے کوئی سروکار نہیں۔ سچ یہ ہے کہ میں تم کو واقعی دل سے پسند کرنے لگا ہوں، اس لیے قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج سے تمہاری باجی سے کوئی بات چیت نہیں کروں گا۔ آئندہ میں کبھی اس کے بارے میں غلط نہیں سوچوں گا۔ میری اس بات کی صداقت کی گواہی آنے والا وقت دے گا۔
مجھے ایسی امید نہ تھی، مگر اللہ نے میرے سچے جذبے کی لاج رکھی اور واقعی ذیشان کا دل میری بہن کی طرف سے موڑ دیا۔ وہ بولا، میں محض تمہاری بہن سے دل لگی کر رہا تھا۔ اچھا ہوا تم نے مجھے اپنے نیک چلن بہنوئی کے بارے میں بتا دیا۔ ذیشان نے جو کہا کر دکھایا۔اس نے باجی گل صنم کو مایوس کیا اس قدر کہ پہلے تو وہ کمرہ بند کر کے پھوٹ پھوٹ کر روتی رہیں، پھر خود ہی اپنے گھر جانے کی تیاری باندھ لی۔ ان کو گھر ٹھکرائے جانے کے بعد اپنے گھر اور شوہر کی قدر آئی اور اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ ذیشان نے باجی سے صاف کہہ دیا کہ تم اب گھر چلی جاؤ، تم نے طلاق لے بھی لی، تو میں تم سے شادی نہیں کروں گا کیونکہ جو عورت اپنے بچوں اور شوہر کی وفا دار نہیں، وہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔
اس توہین پر باجی کے دل کو چوٹ لگی اور وہ تلملا کر رہ گئیں۔ واقعی عورتیں بعض اوقات عقل سے اتنی پیدل ہوت ہیں۔ باجی کو ذیشان سے ایسی توقع ہرگز نہ تھی۔ انہیں اس قدر جھٹکا لگا کہ بس دم نکلتے نکلتے رہ گیا۔ جب دو تین روز خوب جی بھر کر رو لیں تو یکایک ان کے ذہن کی کایا پلٹی، جیسے کوئی حسین خواب ٹوٹ گیا ہو اور وہ حقیقت کی دنیا میں واپس آ گئی ہوں۔ انہیں اپنا گھر، بچے اور شوہر یاد آ گئے۔انہوں نے ابا جان سے کہا کہ مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں۔ اور یوں باجی ان کے ساتھ اپنے گھر چلی گئیں۔ پھر میں نے بھی ذیشان سے ملنا بند کر دیا، مگر اس نے اس بات کا برا نہ منایا۔ بلکہ اپنی والدہ اور بہن کو میرے رشتے کے لیے ہمارے گھر بھیج دیا۔انہوں نے بتایا کہ شان آپ کی بڑی بیٹی سے اسی وجہ سے رابطے میں تھا کہ وہ آپ کی چھوٹی بیٹی سے رشتہ چاہتا تھا۔ اب جب آپ پردیس سے لوٹ آئے ہیں، تو بچی کا نکاح کر دیجئے۔ آپ کے جانے کے بعد وہ گھر میں یوں اکیلی کیسے رہے گی؟ ذیشان بظاہر بگڑا ہوا لڑکا نہ تھا۔ میرے بیمار بھائی کی تیمارداری میں اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اس کے والدین پرانے پڑوسی تھے۔ میرے والد نے مجھ سے عندیہ معلوم کیا تو میں نے کہا، آپ کی مرضی، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ والد صاحب نے کچھ شرطیں رکھیں، جو انہوں نے مان لیں۔ یوں میری قسمت میں ذیشان سے شادی لکھی تھی، سو ہو گئی۔