عورت اک کھلونا

Sublimegate Urdu Stories

نانا کا نام چاند محمد تھا۔ سب انہیں چاند میاں بلاتے تھے۔ وہ ایک زمیندار کے منشی تھے۔ میٹرک پاس تھے اور جب میٹرک کے طالبعلم تھے، تبھی سے زمیندار سعد خان صاحب کے والد کے پاس ملازم تھے۔ تب سعد بھی شہر میں گریجویشن کر رہے تھے۔ ان کی گریجویشن مکمل کرنے سے قبل ہی ان کے والد نے ان کی شادی اپنے بڑے بھائی کی بیٹی سے کر دی تھی اور جب انہوں نے بی اے کیا، تو وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ کچھ دنوں بعد بڑے زمیندار صاحب کا انتقال ہو گیا۔ سعد اکلوتے تھے۔ اپنے والد کے تمام اثاثے اور زمینداری انہیں وراثت میں مل گئی۔ سعد صاحب بہت اچھے اخلاق کے اور خدا ترس زمیندار تھے۔ 

چاند میاں ان کی بہت عزت کرتے تھے کیونکہ انہوں نے کئی بار بہت مشکل حالات میں اس عریب منشی کی مدد کی تھی۔ تبھی وہ اپنے محسن کے لیے جان دینے کو بھی تیار رہتے تھے۔ ان کی شادی خالہ زاد سے ہوئی تھی اور اس شادی کے اخراجات بھی سعد صاحب کے والد نے اٹھائے تھے۔ چاند میاں کی ایک ہی بیٹی تھی۔ اس بچی کے بعد دو لڑکے ہوئے، مگر اوائل عمر میں وفات پا گئے، بعد میں اولاد نہ ہوئی۔ وہ اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس کا نام انہوں نے حوریہ رکھا تھا۔ کہتے تھے کہ میری بیٹی حور جیسی خوبصورت ہے، تب ان کی بیوی ہنس کر کہتیں، کیا تم نے کبھی کسی حور کو دیکھا ہے جو بیٹی کو حور بلاتے ہو؟ یہ جیسی بھی ہے، میرے لیے تو حور ہی ہے، وہ جواب دیتے تھے۔ 

سارا دن چاند میاں سعد صاحب کے ڈیرے پر ہوتے اور حوریہ اپنے چھوٹے سے گھر میں ماں کے ساتھ رہتی۔ وہ اپنے گھر کے آنگن میں اکیلے ہی کھیل کر جوان ہو گئی۔ ماں اُسے گھر سے باہر کھیلنے نہیں دیتی تھی۔ خور نے اپنے گھر کی دہلیز سے کبھی کبھار ہی قدم نکالا ہو گا، وہ بھی جب کبھی اس کی ماں اپنے رشتہ داروں سے ملنے یا ان کے ہاں شادی یا غمی کے موقع پر جاتی تو بیٹی کو ساتھ لے جاتی۔ خور کو اس خاتون نے کبھی زمیندار کے گھر بھیجا، نہ خود وہاں جاتی تھی۔ وہ گھر میں گاؤں کی بچیوں کو کلام پاک پڑھاتی تھیں۔ بچیاں آتیں تو حور خوش ہو جاتی اور ان کے ساتھ کبھی کبھار کھیلنے کی کوشش کرتی۔ چاند میاں کی بیوی پابند صوم و صلوٰۃ تھی، کم سنی سے ہی اپنی بچی کو خود قرآن مجید پڑھایا اور نماز بھی سکھائی۔ خور پانچ وقت نماز کی پابندی کرتی تھی۔ اس کے چہرے پر نور تھا۔ اس کا پاکیزہ چہرہ چاند کی طرح دکھتا تھا۔ خور کو کبھی زمانے کی ہوا نہ لگی، نہ ہی اس نے کبھی اپنی ماں سے، گھر سے باہر یا ارد گرد جانے کی ضد کی۔ چاند میاں کی عادت تھی کہ سارا دن سعد صاحب کی طرف رہتے، ان کے بچوں کو اُٹھاتے، گھماتے پھرتے، اسکول لاتے لے جاتے، مگر انہوں نے کبھی اپنی بیٹی کی طرف توجہ نہ دی، اس کو اسکول بھی داخل نہ کرایا۔

 بے شک وہ اس سے پیار کرتے تھے، مگر اس کے لاڈ اٹھانے کا وقت انہیں کم ہی ملتا تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا اور چاند میاں کی بیٹی اب چودہ برس کی ہو چکی تھی۔ وہ بہت حسین نکلی تھی۔ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت اور سلیقہ مند بھی تھی۔ سارے گاؤں میں اس بچی کی تعریف ہوتی تھی۔ ماں کو حور کی شادی کی فکر تھی۔ جب وہ سولہ برس کی ہوئی، تو وہ چاند میاں کے پیچھے پڑ گئیں کہ لڑکی کے ہاتھ پیلے کرنے کی کرو۔ منشی جی کہتے، ہماری ایک ہی تو بیٹی ہے، ابھی اس کی عمر کیا ہے؟ اتنی جلدی اس کی شادی کی کیوں پڑی ہے؟ چند دن اور ماں باپ کے گھر کا سکون لینے دو اور دعا کرو کہ کوئی اچھا رشتہ مل جائے تو کر دیں گے شادی بھی۔ میری تو ہر وقت یہی دعا ہے کہ گھر بیٹھے بیٹی کا اچھا رشتہ آجائے، ہمیں کسی سے رشتہ مانگنے کی ضرورت نہ پڑے بس خدا اس کا نصیب اچھا کرے۔ میاں بیوی میں اکثر ایسی ہی باتیں ہوتی رہیں۔

ایک دن سعد صاحب کہیں شکار پر جا رہے تھے۔ وہ منشی کو ساتھ لے جانے کے لیے خود ان کے گھر آگئے۔ چاند میاں کے لیے یہ عزت افزائی تھی کہ سعد اللہ خان صاحب خود چل کر ان کے دروازے تک آئے تھے۔ انہوں نے سعد صاحب کو گھر کے اندر بٹھایا، تاہم کچھ محل سے ہو گئے کیونکہ وہ غریب آدمی تھے، کچا سا مکان تھا۔ انہیں اپنے گھر کا کوئی کونہ اس لائق نظر نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے مالک کو وہاں بٹھائیں اور ان کی حیثیت کے مطابق خاطر تواضع کریں۔ گھر میں صرف چھاچھ موجود تھی، لہٰذا بیٹی سے کہا، حور، ایک گلاس چھاچھ بھر کر مالک کے لیے لے آ۔ سعد جان چار پائی پر بیٹھے تھے کیونکہ گھر میں کرسی نہیں تھی۔ خور چھاچھ لے آئی اور ان کو دینے کے لیے گلاس آگے بڑھایا۔ لڑکی کے چاند سے چہرے پر نظر پڑتے ہی خان صاحب جیسے پلک جھپکنا بھول گئے۔ آخر چاند میاں نے خود اُٹھ کر گلاس بیٹی سے لے کر خان صاحب کو تھما دیا۔ وہ چونک گئے اور ان کا دل رکھنے کے لیے چھاچھ پی لی اور بولے، چاند میاں، تمہاری بیٹی تو بڑی ہو گئی ہے، اس کا رشتہ نہیں کیا؟ اسی فکر میں ہوں۔ جب اچھا رشتہ ملے گا تو یہ فرض ادا کر دوں گا۔ منشی جی نے جواب دیا، اچھا تو پھر چلو، دیر ہو رہی ہے، شکار کا وقت نکل رہا ہے۔

 وہ فوراً منشی جی کو ساتھ لے کر ان کے گھر سے نکل گئے۔جب چاند میاں گھر لوٹے تو ان کے چہرے پر سکون و مسرت کے ملے جلے آثار تھے۔ بیوی نے پوچھا، کس بات کی خوشی ہے کہ چہرہ شادمان دکھ رہا ہے؟ وہ بولے، میں حیرت کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہوں اور تم اس کو خوشی بتا رہی ہو۔ حیرت کی بات کیا ہے؟ سعد اللہ خان صاحب نے حور کا رشتہ مانگا ہے۔ کیا اپنے بیٹے کے لیے؟ ارے نہیں بھئی، اپنے لیے۔ وہ ہماری بیٹی سے عقد کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ سن کر ان کی بیوی یکدم سنسنی میں آ گئیں اور کہنے لگیں، تو میاں یہ خوشی کی بات تو نہیں، الٹا پریشانی کی بات ہے۔ اتنی کم عمر بچی اور عقد کی آرزو۔ دوسری بیوی بننا کم سن بچیوں کے لیے آسان بات نہیں ہے۔ ابھی ہماری حوریہ کی عمر کیا ہے اور صاحب کی عمر دیکھو، آسمان کا فرق ہے۔ چاند میاں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کیونکہ وہ تو روز اول سے سعد صاحب کے فریفتہ اور گرویدہ تھے۔ انہیں ان کی عمر بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ بیوی نے یہ حقیقت بھی بتائی کہ سعد خان کی بیوی ان کی تایا زاد اور بہت بڑے باپ کی بیٹی ہے۔ اس کے پیچھے پورا خاندان ہے اور ان کے بچے بھی جوان ہونے کے قریب ہیں۔ میری بیٹی کی وہاں کیا حیثیت ہوگی؟ چاند میاں بولے، زمیندار صاحب وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں کسی اور جگہ منتقل کر دیں گے۔ انہوں نے ہماری حفاظت کا ذمہ بھی اٹھایا ہے۔

 شوہر کے آگے بحث نہیں ہو سکتی تھی، دل مغموم ہو کر خاموش ہو گئیں کیونکہ اس وقت یہ بات سمجھانے کا موقع نہیں تھا، کسی اور وقت کوشش کریں گی۔ وہ دن بھی آ گیا کہ نہ چاہتے ہوئے چاند میاں اور ان کی بیوی نے اپنا گھر، گاؤں اور اپنے لوگ چھوڑ دیئے کیونکہ یہی صاحب کا حکم تھا۔ خور پر پڑنے والی ایک نظر نے فی الحال تو ان لوگوں کو در بدر کر دیا تھا۔ چند دنوں بعد خان صاحب کے کچھ خاص دوستوں کی موجودگی میں منشی جی کی بیٹی کا نکاح زمیندار احمد سعد اللہ خان صاحب سے ہو گیا۔ لڑکی کی ماں تمام دن روتی رہی۔ انہیں اپنی اکلوتی بیٹی کی خوشی دیکھنے کا بڑا ارمان تھا، مگر حالات نے مجبور کر دیا کہ چاند میاں بیٹی کی شادی ایسے ہی کریں۔ خود خور بھی اس طرح کی شادی پر پریشان تھی۔ اس نے گاؤں میں کئی شادیاں دیکھی تھیں۔ چاند میاں نے سعد خان کی خواہش پر اپنی بیٹی کے خواب قربان کر دیے۔ خور بالکل خوش نہ تھی۔ ایک تو عمر کا فرق تھا، گرچہ زندگی کی تمام آسائشیں شوہر نے مہیا کی تھیں، لیکن خور کا دل اپنے شوہر سے کیسے لگتا جب وہ ہفتے میں دو دن اور کبھی کبھی تو صرف ایک دن کے لیے آتے تھے۔ اب چاند میاں بھی پریشان رہنے لگے کہ وہ اب تک گاؤں واپس نہیں گئے تھے۔ کیا اب وہ کبھی بھی اپنے لوگوں میں گاؤں واپس جا سکتے تھے؟ ہاں، پہلی اولاد نے جنم لیا، تب حوریہ کے ہاں ماں خوش ہو گئی کیونکہ بچی کی پرورش میں مصروف ہو گئی تھیں۔ عابدہ کی پیدائش پر سعد خان نے خوشی کا اظہار کیا تو حور کی والدہ نے بیٹی کو سمجھایا کہ زمیندار لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کرتے، مگر اپنی بچیوں کی عزت و تحفظ کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ زمیندار سعد خان نے بچی کی پیدائش پر اخراجات میں کمی نہ آنے دی بلکہ اور زیادہ روپیہ پیسہ دینے لگے۔ وہ ویسے ہی اپنی دوسری بیوی سے ملنے آتے رہے، جیسے پہلے آتے تھے۔ 

عابدہ کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے حور کو ایک بیٹے سے نوازا۔ اس کے بعد ان کے ہاں تیسری بچی پیدا ہوئی، اور وہ تیسری بیٹی میں خود تھی۔ سعد اللہ خان ہمارے پاس آتے تھے، اور ہمیں معلوم تھا کہ وہ ہمارے والد ہیں، جو ہمارے نزدیک بہت بڑی بات تھی۔ ان کی پہلی بیوی سے جو اولاد ہوئی تھی، وہ تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ہم تین اور ہمارے چار سوتیلے بھائی بہن، گویا والد صاحب کی سات اولادیں ہو گئیں۔ تاہم، سوتیلے بھائی بہن ہمارے وجود سے ابھی تک لاعلم تھے، مگر ایسی باتیں کب تک چھپی رہتی ہیں؟ ادھر ہمارے نانا چاند میاں بیرونی تمام کام سر انجام دیتے تھے، والد تو کبھی کبھار آتے تھے۔ایک دن ان کی ملاقات گاؤں کے ایک شخص سے ہوئی۔ میرا بھائی بھی ساتھ تھا۔ اس شخص نے پوچھا، یہ کون ہے؟ نانا بولے، یہ میرا نواسا ہے۔ وہ شخص بولا، تم نے کب اور کس سے بیٹی کی شادی کی اور برادری کو بھی آگاہ نہیں کیا؟ چاند میاں سادہ دل تھے، کہہ بیٹھے، بس میاں! مجبوری تھی۔ اچھا رشتہ مل گیا تو شادی کر دی۔ برادری کو بتاتا تو رکاوٹ ڈالتے کہ غیروں میں رشتہ نہیں کرنا۔انہوں نے اس شخص کو وہ سب کچھ بتا دیا جو بتانا نہیں تھا۔ یہی زمیندار صاحب یعنی ہمارے والد کا حکم تھا، جس کی نانا خود پاسداری نہ کر سکے، لیکن اس آدمی سے تاکید کر دی کہ تم اسے اپنا سمجھ کر سب بتا دیا ہے۔ تم آگے کسی کو نہ بتانا اور اپنے دل میں یہ راز دفن کر لینا۔ جو اپنا راز راز نہ رکھ سکے، دوسرا کوئی کیونکر اس کی پاسداری کرے گا؟

پس یہ بات سارے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ خبر والد کے سسرالیوں تک پہنچ گئی۔ ان کی پہلی بیوی کے بھائی وغیرہ بابا جان کے سر ہو گئے کہ بتاؤ معاملہ کیا ہے؟ اب انہیں بتانا پڑا کہ انہوں نے دوسری شادی کر لی تھی اور دوسری زوجہ سے تین بچے بھی ہیں۔ اس اقرار پر چاند میاں کی بیوی یعنی ہماری نانی بہت خوش ہوئیں کہ چلو، سب کو علم ہو گیا، اب ہماری بیٹی اور اس کی اولاد بھی حویلی میں قدم رکھنے کی حق دار ہو گئی ہے، مگر یہ ایک خواب تھا۔پہلے تو خاندان والوں نے والد صاحب پر دباؤ ڈالا کہ وہ دوسری بیوی کو طلاق دیں کیونکہ یہ لڑکی خاندانی نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پہلی بیوی اور بچوں کے نام ساری جائیداد لکھ دیں۔ والد صاحب نے خاندان کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایسا ہی کیا۔ یوں ہم لوگ اپنے جائز حق سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے۔ والد کا خیال تھا کہ وہ پہلے ایسا کریں گے، بعد میں جو کچھ اپنے نام پر رہنے دیا ہے اور جس کا علم ان کے خاندان والوں کو نہیں ہے، وہ اثاثے دوسری بیوی اور ان کے بچوں کے نام کر دیں گے، مگر وہ اب جو ان اولاد کے سامنے بے بس ہو گئے تھے، اس لیے ہماری طرف بہت کم آتے تھے۔ ہم ان کی صورت دیکھنے کو ترس جاتے، مگر اب بھی انہوں نے ہمارے اخراجات میں کمی نہیں آنے دی تھی۔

ہماری نانی نانا سے کہتی تھیں کہ اسی دن سے ڈرتی تھی۔ ابھی دیکھنا آگے کیا ہوتا ہے؟ خدا سعد کو سلامت رکھے، اگر وہ نہ رہا تو یہ زمین بھی ہم پر تنگ ہو جائے گی۔ اگر یہ مکان حوریہ کے نام نہ ہوتا تو ہم کب کے در بدر ہو چکے ہوتے۔ ان کے اندیشے درست ثابت ہوئے۔ آہستہ آہستہ ہم لوگ بڑے ہوتے گئے۔ باجی عابدہ نے میٹرک پاس کر لیا۔ انہیں نوکری کرنے کا بہت شوق تھا، اس لیے انہوں نے تعلیم مکمل کی۔ والد اثرورسوخ والے آدمی تھے۔ انہوں نے بہت اصرار کے بعد اسکول میں ٹیچر بننے کی اجازت لی اور سرکاری نوکری لگوائی۔ یہ بھی امی جان کی کوئی نیکی کام آئی کہ والد صاحب باجی کی ملازمت پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ نوکری بھی خود لگوا کر دی۔ تاہم اپنی زندگی میں ہی باجی کی شادی بھی ایک اچھے اور خوشحال گھرانے میں کروادی۔ وہ صاحب حیثیت لوگ تھے، باجی بہت خوش تھیں۔میرا بھائی قیر خان اب جوان ہو چکا تھا۔ وہ ماں سے اپنی حیثیت کا مطالبہ کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا، میرے دوسرے بھائی گاڑیوں میں پھرتے ہیں اور میرے پاس موٹر سائیکل بھی نہیں ہے۔ وہ والد سے جھگڑا کرتا رہتا، وہ آتے تو ادھر اُدھر ہو جاتا، ان سے بات تک نہیں کرتا تھا۔
 ہر وقت ناراض اور اکھڑا کھڑا رہتا تھا۔ وہ کہتا تھا، جو شخص ہمیں نام اور تحفظ نہیں دے سکتا، وہ باپ کہلانے کے لائق نہیں۔ اس نے تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی اور آخرکار وطن چھوڑ گیا۔ امی بہت روتیں لیکن کوئی قیر بھائی کو نہیں روک سکا۔ اب میں اور بوڑھا نانا باقی رہ گئے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ظلمت کے یہ دن ختم ہو جائیں گے اور خوشیوں کی سحر طلوع ہوگی، مگر یہ ہماری خام خیالی تھی۔آنے والے دنوں نے مصیبتوں کے پہاڑ ہمارے سر پر توڑے کہ جینے کی آرزو بھی نہ رہی۔ وقت نے ہم سے ہمارے بڑے سہارے نانا اور پھر نانا اور نانی چھین لیے۔ امی اکیلی رہ گئی۔ جب ہم ان سے بات کرتے کہ بابا جان سے اس بات کا ذکر کریں، تو وہ صرف تسلی دیتے۔ والد نے ماں سے وعدہ کیا تھا کہ میں بچوں کو ان کا حصہ دوں گا، مگر موت نے ان کو مہلت نہ دی۔ ایک دن انہیں شدید دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے چل بسے۔ اب ہمارے پاس کچھ باقی نہ رہا تھا، سب کچھ ختم ہو گیا۔ سوتیلے بھائی جائیداد پر قبضہ کر چکے تھے، سگا بھائی سمندر پار چلا گیا۔ وہاں شادی کر لی اور اپنا حق مانگتا رہا۔ جب ملنے کی امید نہ رہی تو ماں باپ کو ہی چھوڑ دیا۔ با جی عابدہ کے سسرال والوں نے اس امید پر رشتہ جوڑا تھا کہ لڑکی باپ کی جائیداد میں سے خاصی وراثت کی حق دار بنے گی۔ جب کچھ نہ ملا تو وہ سسرال والوں کے دل سے اُتر گئیں اور انہوں نے شوہر کی دوسری شادی کروادی۔ سوتن نے باجی اور ان کے بچوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ بالآخر باجی نے ماں کے گھر آ کر پناہ لی۔ شوہر نے میکے جانے کی پاداش میں بیوی بچوں کو طلاق دے دی۔

ہمارے حالات پہلے ہی بہت خراب تھے، تاہم باجی کے لوٹ آنے سے اتنا سکون ملا کہ وہ برسر روزگار تھیں اور اب سینئر سرکاری ٹیچر تھیں۔ ان کی تنخواہ سے ہماری بھی دال روٹی چلنے لگی۔ ایک دن والدہ بہت اداس بیٹھی بیٹے کو یاد کر کے رورہی تھیں کہ اچانک دروازہ کھلا۔ دیکھا تو سامنے قیر بھائی کھڑے تھے۔ ماں دوڑ کر ان کے گلے لگ گئیں اور خوب روئیں۔ بھائی نے تسلی دی کہ غیر ملک جا کر پھر جلدی نہیں آسکتے، ورنہ دوسری بار ویزے کا مسئلہ ہوتا ہے۔ وہاں میں نکما نہیں رہا ماں، پہلے خود کا پیٹ پالنے کو جد وجہد کی، پھر شادی ہو گئی، دو بچے ہو گئے۔ اب ذرا سا سکون ملا ہے تو آپ لوگوں سے ملنے آگیا ہوں۔ بھائی نے ہمارے حالات دیکھے تو واپس جا کر کچھ رقم بھیجنے لگے، جس سے ہماری تعلیم کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ایف اے کے بعد میں نے نرسنگ ٹریننگ میں داخلہ لے لیا۔ گرچہ یہ ہماری خاندانی روایات کے خلاف تھا، لیکن ہم جان خاندان میں شامل خلاف تھے ہی کب۔ 
مسلسل حادثات نے امی کو بہت کمزور کر دیا تھا۔ وہ بیمار رہنے لگی تھیں۔ انہی دنوں باجی کی ملاقات سلطان نامی شخص سے ہوئی۔ وہ شادی شدہ تھا، مگر اس کے اولاد نہیں تھی۔ بیوی گاؤں میں رہتی تھی اور وہ خود محکمہ تعلیم میں ہونے کی وجہ سے شہر میں رہائش پذیر تھا۔ والدہ سے اس نے میری بہن کا ہاتھ طلب کیا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے، امی نے میری دوسری بہن زاہدہ کی شادی اس شخص سے کر دی۔ وہ اُسے اپنے ساتھ لے جانے کی بجائے ہمارے ہی گھر میں رہنے لگا۔ میری ٹریننگ مکمل ہو گئی تو عابدہ باجی نے کسی سے کہہ سن کر میرا تبادلہ اسی شہر کے سرکاری اسپتال میں کروا دیا، جہاں امی کا گھر تھا۔ اب مجھے اپنی ماں کی خدمت کا موقع مل گیا، جن کو کینسر کے موذی مرض نے آلیا تھا۔

 باجی اپنی جاب اور بچوں میں مصروف رہتی تھیں۔ زاہدہ باجی گھر سنبھالتی تھیں۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے دو بچوں سے نواز دیا، لیکن تیسرے بچے کی پیدائش پر زچہ و بچہ دونوں نہ بچ پائے۔ اس صدمے نے ماں کو جیتے جی مار ڈالا۔ بالآخر وہ بھی اس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئیں۔اب باجی عابدہ اور سلطان اس گھر کے سربراہ رہ گئے۔ زاہدہ باجی کے دونوں بچوں کی ذمہ داری مجھ پر تھی، میں جاب بھی کرتی تھی۔ میں اکثر رات کی ڈیوٹی لگواتی تاکہ باجی کے اسکول سے آنے تک گھر اور بچوں کو سنبھال سکوں، اس وجہ سے میری صحت متاثر رہنے لگی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سلطان، زاہدہ باجی کے انتقال کے بعد ہمارے گھر سے چلا جاتا، مگر اپنے بچوں کی وجہ سے نہ گیا اور نہ اس نے اپنی پہلی بیوی کو بچے سونپے، کیونکہ اس کی نظریں مجھ پر لگی تھیں۔عابدہ باجی کے بچے کالج جانے کے لائق ہو گئے، تو وہ انہیں اچھے کالج میں پڑھانے کی خاطر لاہور شفٹ ہو گئیں اور انہوں نے تبادلہ بھی وہاں کروالیا۔ اب گھر میں سلطان، میں اور ان کے بچے رہ گئے۔
 بہنوئی کے ساتھ تنہا رہنا میرے لیے ممکن نہ تھا، جب کہ ان کے بچے مجھے ماں جیسا سمجھتے تھے۔ وہ مجھے چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ وہ اسکول سے آتے تو سلطان آفس سے گھر آ جاتا، میرے آنے تک ان کی وہی دیکھ بھال کرتا تھا۔یہ ایسی مجبوری بن گئی کہ آخر ایک دن اس نے ہاتھ جوڑ کر بچوں کی خاطر مجھ سے شادی کی درخواست کر دی۔ میں ہرگز اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن دوسری راہ بھی سمجھائی نہ دیتی تھی۔ میرا کوئی رشتہ نہ آیا تھا۔ کوئی آیا بھی تو کبھی باجی اور کبھی بہنوئی کو پسند نہ آیا۔کاش میرے والد دوسری شادی کرتے وقت یہ سوچ لیتے کہ دوسری بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ آج سلطان کے بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دو بار ماں بنایا، مگر میرے بچے چار دن کی زندگی لے کر گئے تھے۔ سلطان کے بچے مجھے ماں کہتے ہیں تو میرے دل کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ