اس نے شہر کے چھوٹے سے اسپتال میں جب میں نے بطور نرس چارج لیا، تو رہائش کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس شہر میں میرا کوئی واقف کار بھی نہ تھا، جس کے ہاں چند روز قیام کر سکتی۔ جو کوارٹر مجھے ملنے والا تھا، وہ ایک ہفتے بعد خالی ہونا تھا۔ دراصل اس کوارٹر میں بھی ایک نرس، پروین، قیام پذیر تھی۔ وہ پہلے اسی اسپتال میں کام کرتی تھی، پھر کسی نامعلوم وجہ کے سبب استعفیٰ دے چکی تھی۔ چونکہ اس کے رہنے سہنے کا انتظام ابھی تک نہ ہو سکا تھا، لہٰذا اس نے کوارٹر خالی نہ کیا تھا۔ یوں بھی میں اپنی تعیناتی سے دو دن قبل ہی مظفرگڑھ آ گئی تھی۔ خیال تھا کہ مجھے فوری رہائش مل جائے گی۔
ناچار میں اسی کوارٹر پر گئی جو مجھے الاٹ ہونے والا تھا، کیونکہ میرے آرڈر اسی جگہ کے تھے۔ دستک پر ایک سانولی سلونی، دلکش نقوش والی خاتون نے دروازہ کھولا۔ عمر اس کی ستائیس اٹھائیس سال کے قریب ہوگی، لیکن چھریرے بدن کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے کم لگ رہی تھی۔ یہی پروین تھی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو اس نے مجھے کمرے میں لے جا کر بٹھایا۔ وہ بہت مغموم اور پریشان نظرآ رہی تھی۔ میں نے بتایا کہ صبح ہی بس اڈے پر اتری ہوں، ملتان سے آئی ہوں۔ چونکہ یہاں کوئی واقف کار نہیں، اس لیے سیدھی اسپتال آ گئی۔ آفس سے پتا کیا تو انہوں نے آپ کے کوارٹر کا نمبر دے دیا اور بتایا کہ دو روز میں خالی ہو جائے گا۔ آپ اکیلی رہتی ہیں، تو سوچا کہ کیوں نہ آپ کے پاس کچھ دیر آرام کر لوں۔ اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا، ضرور۔
تھوڑی دیر ہمارے درمیان خاموشی رہی۔ تبھی وہ اپنے خیالوں سے چونک گئی، جیسے اسے یاد آ گیا ہو کہ اس کے گھر کوئی مہمان آیا ہے۔ کہنے لگی، کیا آپ کے لیے ناشتہ لاؤں؟ میں نے جواب دیا، نہیں، میں نے کینٹین سے کر لیا ہے۔ اس نے بے دھیانی میں میری بات سنی۔ میں نے دوبارہ کہا، میری تعیناتی آپ کی جگہ ہوئی ہے اور رہائش کا مسئلہ ہے۔ پروین نے کہا، میں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دو دن بعد کوارٹر خالی کر دوں گی، کیونکہ مجھے کرائے کے مکان کی چابی یکم کو ملے گی۔ آپ یہ دو دن میرے ساتھ ٹھہر سکتی ہیں۔ میں نے پوچھا، آپ نے استعفیٰ کیوں دیا، پروین بہن؟ اس نے جواب دیا، اس سوال کے جواب کے پیچھے تو میری زندگی کی پوری کہانی ہے۔ آپ معلوم کر کے کیا کریں گی؟ میں نے کہا، کیوں نہیں، انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ آپ مجھے اپنا دوست اور غمگسار سمجھ لیجیے۔پھر وہ چائے بنا کر لے آئی۔ ابھی تک ہمارے بیچ تھوڑا سا تکلف تھا۔ بہرحال، میں نے چائے پی تو وہ بولی، تم کچھ دیر آرام کر لو۔
آرام کیا کرنا، مظفرگڑھ کون سا دور تھا۔ لیٹر ملا تو سوچا ایک آدھ دن پہلے چلی جاؤں تاکہ یہاں کے معاملات کو سمجھ لوں، کوارٹر کا الاٹمنٹ بھی لینا ہے۔ جو کچھ پروین پر بیت رہی تھی، میں سمجھ رہی تھی، لہٰذا دوبارہ پوچھا کہ آخر ملازمت چھوڑ کیوں رہی ہیں؟ کوئی تو وجہ ہو گی۔ وہ بھی جیسے کسی غمگسار کی منتظر ہو، کہنے لگی، کیا آپ کو کسی نے میرے بارے میں کچھ بتایا ہے؟ میں نے کہا، ہاں، جیسے ہی کینٹین میں قدم رکھا، وہاں بیٹھی نرسوں سے کئی طرح کی باتیں سننے کو ملیں۔ تب پروین نے لب کھولے۔ کہنے لگی کہ میں شادی سے قبل ایک کرسچین فیملی سے تعلق رکھتی تھی اور اسی اسپتال میں کام کرتی تھی۔ فیصل اپنے کسی رشتہ دار کی بیماری کے سلسلے میں یہاں آیا تھا۔ پہلے ہی روز ہماری جان پہچان ہو گئی جو بعد میں شادی کے بندھن میں بدل گئی۔
فیصل مجھ سے آٹھ برس چھوٹا تھا، نوجوان اور خوبصورت۔ میں نے اس میں یہی ظاہری خوبیاں دیکھیں اور اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ معلوم نہ تھا کہ نو عمر شوہر ہمیشہ ساتھ نہیں نبھاتے، وہ زندگی کے پکے ساتھی ثابت نہیں ہوتے۔ جب ہم نے شادی کا فیصلہ کیا تو بہت سے لوگوں نے مخالفت کی۔ میرے والدین بالکل راضی نہ تھے اور نہ ہی فیصل کے گھر والے چاہتے تھے کہ وہ مجھ سے شادی کرے، لیکن ہم نے کسی کی پروا نہ کی اور سب کو ناراض کر کے کورٹ میرج کر لی۔ میں نے فیصل کی خاطر اپنا مذہب چھوڑا، اس لیے میرے والدین نے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا اور پلٹ کر کبھی خبر نہ لی، مگر مجھے کسی کی پروا نہ تھی۔ میں اور فیصل خوشی سے زندگی گزارنے لگے۔
فیصل نے صرف میٹرک کیا تھا، کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا، لیکن شادی کی وجہ سے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ اس کا کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا، اس لیے تمام خرچ مجھے اٹھانا پڑا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ روزگار کی فکر نہ کرے، میں برسرِ روزگار ہوں، تم تعلیم مکمل کرو، تعلیم کے بغیر انسان کچھ نہیں ہوتا۔ میری ہمت افزائی سے اس نے کالج میں داخلہ لیا، گریجویشن مکمل کی اور پھر اچھی ملازمت بھی مل گئی۔ اس دوران گھر کے تمام اخراجات میں نے اٹھائے، اس امید پر کہ ایک دن میرا شوہر کمائے گا اور میں سکون سے گھر بیٹھوں گی۔
بدقسمتی سے اس دوران ہماری کوئی اولاد نہ ہوئی، جو ہمارے درمیان رشتہ مضبوط کرتی۔ فیصل روز ملازمت کے سلسلے میں نزدیکی شہر جاتا تھا جہاں اس کے والدین اور خاندان رہتے تھے۔ نجانے کب اس کی اپنے گھر والوں سے صلح ہو گئی اور وہ روز انہی کے پاس جانے لگا، لیکن مجھے کچھ خبر نہ دی۔ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ والدین کو دیتا، مجھے اس پر اعتراض نہ تھا، لیکن دکھ اس بات کا تھا کہ اس نے مجھے یہ تک نہ بتایا کہ وہ اپنی والدین کی مرضی سے دوسری شادی کرنے والا ہے۔ میں حالات سے بے خبر اپنی زندگی میں مصروف رہی۔ وہ نت نئے کپڑے اور جوتے خریدتا، جبکہ میں اکیلی گھر کے خرچ میں جتی رہتی۔ میں نے کبھی فیصل سے شکوہ نہ کیا، نہ ہی اسے خرچ دینے پر مجبور کیا، صرف اپنے گھر کو کسی طرح بکھرنے سے بچانا چاہتی تھی۔ فیصل روز بروز بدلنے لگا۔ وہ مجھ سے لا تعلق ہو گیا اور یوں میں اس کی سرد مہری کا شکار ہو گئی۔
وہ گھر بھی دو تین روز کے بعد آتا اور زیادہ تر اپنے والدین کے گھر رہ جاتا۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اس کو کیا ہو گیا ہے۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ دوسری شادی کر چکا ہے۔ وہ مجھ سے طرح طرح کے بہانے کرتا جو مجھے جھوٹے محسوس ہوتے۔ اس کی دوسری بیوی اس کے خاندان کی لڑکی تھی، نو عمر اور خوبصورت۔ وہ فیصل کو بہت پسند آئی۔ سال بعد اس کے ہاں ایک بیٹی بھی ہو گئی اور میں ابھی تک اس کی دوسری شادی سے لا علم تھی۔ایک روز میری ایک سہیلی ہمارے شہر آئی۔ وہ اسی محلے میں رہتی تھی جہاں فیصل کی دوسری بیوی کے والدین کا گھر تھا۔ اس نے جب میرے گھر میں فیصل کو دیکھا تو حیرت سے بولی، پروین! کیا یہی تیرا شوہر ہے؟ یہ تو شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ ہے۔ میں اس کی بیوی کو جانتی ہوں، وہ ہمارے پڑوس میں رہتی ہے۔
میں یہ سن کر سکتے میں آ گئی۔ فیصل سے پوچھا تو وہ شرمندہ ہو گیا اور معافی مانگنے لگا کہ وہ مجبور تھا، والدین کے سامنے بے بس ہو گیا تھا۔ عمر بھر کے لیے انہیں ناراض نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ دوسری شادی انہی کی خواہش پر ہوئی ہے۔
کیا بتاؤں اس وقت دل کی کیا حالت ہوئی۔ گویا جسم میں جان ہی نہ رہی ہو۔ آنسو آنکھوں میں جم کر رہ گئے، دم گھٹنے لگا۔ فیصل سے یکایک شدید نفرت محسوس ہونے لگی، جس کی خاطر سارا جہاں میں نے اپنے خوابوں کی دنیا بسائی تھی، وہی آج اپنا نہیں رہا تھا۔ زندگی کی ہر سچائی سے ایمان اٹھ گیا۔ شوہر اور اس کے ساتھ گزرتی ازدواجی زندگی ایک مذاق نظر آنے لگی۔ میاں بیوی کا رشتہ اتنا ناقابل اعتبار، اتنا ناپائیدار، اتنا صدمہ ہوا کہ گر کر بے ہوش ہو گئی۔ اس کے بعد فیصل سے کوئی ناتا رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ بےوفا شخص سے پیمان وفا باندھے رکھنا میرے نزدیک خود کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔
میں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ طلاق کے بعد میری زندگی ایک بوجھ بن جائے گی۔ اس علاقے میں مطلقہ عورت کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا، مگر میں اس کے دلائل اور منطق سے متفق نہ ہوئی۔ اس نے تو دوسری شادی کی تھی، میں نے نہیں۔ بےوفائی بھی اس نے کی، میں نے نہیں۔ دھوکہ اس نے دیا، میں نے کھایا؟ جو خود کو مجرم سمجھتی تھی۔ میری نظر میں تو میرا شوہر ہی مجرم تھا کہ اس نے چھپ کر شادی کر لی تھی اور مجھے بھنک بھی نہ پڑنے دی، جب کہ ابھی تک مجھ سے فائدہ اٹھا رہا تھا اور اپنی کمائی بھی اپنے پاس رکھتا تھا۔ بھلا معاشرہ مجھے اچھی نظر سے نہ دیکھے، مگر یہ میری بھول تھی۔ معاشرہ ایسا ہی تھا، فیصل نے سچ کہا تھا۔ طلاق کے بعد لوگ مجھے ہی مورد الزام ٹھہرانے لگے، ناکردہ گناہوں کی سزا بھی مجھے ملنے لگی۔
ہر شخص یہی کہتا کہ یہ بڑی خراب عورت ہے، پہلے محبت کی شادی کی اور پھر طلاق لے لی۔ دیکھا محبت کی شادی کا انجام! سوتن کے ساتھ گزارہ کر لیتی تو کیا بر اٹھتا؟ اس کے تو اولاد بھی نہیں ہے، شوہر تو منتیں کرتا رہا، مگر یہ نہ مانی اور اپنا گھر توڑ لیا۔ کسی نے میری قربانیوں کو نہ دیکھا۔ جب آرام کرنے کا وقت آیا تو دوسری عورت فیصل کے گھر کی ملکہ بن گئی اور دکھ کے وقت میں اس کی زندگی کی ساتھی تھی۔ اس بات نے مجھے بڑا صدمہ دیا، اس پر لوگوں کے رویے اور انداز بھی میرے ساتھ بدل گئے۔ اگر میں گھر کے کام کے لیے کسی کی مدد لیتی، کسی کو بھائی بنا لیتی تو سب غلط انداز سے سوچنے لگتے، چہ میگوئیاں شروع ہو جاتیں۔ فیصل کے ایک دوست میری بہت قدر کرتے تھے اور مجھے اپنی بہن جیسا جانتے تھے۔ طلاق کا سن کر غمگسار ہوئے تو محلے والوں نے غلط باتیں اڑانا شروع کر دیں۔ حیران تھی کہ یہ معاشرہ کیا ہے، جو بے گناہ عورت کو بھی سزا دیتا ہے۔ کیا مطلقہ عورت کو جینے کا حق نہیں ہوتا؟ ان باتوں سے میرا جی برا ہو گیا۔ سوچ لیا کہ اب یہ جگہ، یہ شہر چھوڑ دوں گی، جہاں فیصل کے ساتھ گزاری زندگی عفریت بن کر میرے ساتھ چمٹ گئی ہے۔
تبادلے کی کوشش کی مگر تبادلہ بغیر سفارش یہاں ممکن نہ تھا، لہٰذا ذہنی اذیت سے بچنے کے لیے نوکری سے استعفیٰ دے دیا جو منظور ہو گیا۔ پروین کی باتیں سن کر مجھے دکھ ہوا۔ اسے سمجھایا کہ تم نے نوکری سے استعفیٰ دے کر برا کیا، تمہاری زندگی کا واحد سہارا یہی نوکری ہی تو تھی۔ وہ بولی نہیں، خداوند کی ذات میرا سہارا ہے، اسی کے بھروسے پر استعفیٰ دیا ہے۔ اب دیکھو کیا ہوتا ہے؟ آگے کا اللہ مالک ہے۔
دو روز بعد وہ کوارٹر خالی کر کے چلی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بے روزگاری کے ہاتھوں بہت تنگ ہو گئی۔ معاشی پریشانی نے اسے پاگل کر دیا۔ آخر وہ لاہور اپنے آفیسر کے پاس گئی اور رو رو کر تمام حالات بتائے۔ آفیسر ایک رحم دل آدمی تھا، جس کی کوششوں سے اسے دوبارہ ملازمت مل گئی۔ کافی عرصہ مجھے پروین کے بارے کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ دس برس بعد اچانک میری ملاقات اس سے لاہور میں ہو گئی۔ میں وہاں اپنی ایک سہیلی کی شادی میں گئی تھی، پروین بھی وہاں آئی ہوئی تھی۔ وہ خوش اور ہشاش بشاش نظر آتی تھی۔ بڑے تپاک سے مجھ سے ملی اور کہنے لگی کہ میں نے اپنے پرانے آفس کے کلرک وحید سے شادی کر لی ہے جو اس دولہا کا رشتہ دار ہے، جن کی شادی میں آج ہم آئے ہوئے ہیں۔ میرا ایک بیٹا بھی ہے۔ اس کی ساری باتیں ٹھیک تھیں، البتہ ایک بات مجھے پسند نہ آئی۔
وہ یہ کہ پروین نے جس شخص سے شادی کی تھی اس نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور اس عورت سے جو بیٹا تھا، اسے چھین کر پروین کے سپرد کر دیا تھا۔ یہ ظلم پروین نے ایک عورت ہو کر دوسری عورت پر ہونے دیا۔ میں نے اس بارے اسے بتایا تو وہ بے نیازی سے کہنے لگی کہ میں کیا کرتی، اتنی بے سہارا ہو گئی تھی کہ سہارا نہ ملتا تو میری زندگی کی کشتی کسی بھنور میں پھنس کر ڈوب جاتی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ میں نے عزت سے شادی کر لی۔ اگر کسی عورت کو میری وجہ سے طلاق ہوئی ہے تو مجھے بھی تو کسی عورت کی وجہ سے طلاق ہوئی تھی۔ ایسا تو دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
تم جس دکھ سے گزر چکی ہو، تم کو اس کی شدت کا اندازہ بھلانا۔ پھر تم نے اس صدمے سے اپنے جیسی عورت کو کیوں دوچار کیا؟ مگر وہ میری نصیحت اور ملامت سننے کے موڈ میں نہ تھی۔ وہ شادی میں بن سنور کر آئی تھی۔ خوشی کے ماحول میں ایسی بات سن کر اس کا دل برا ہو گیا۔ اسے میری باتیں احمقانہ اور بچگانہ لگیں۔ تبھی وہ بولی، خیال و فکر کی دنیا اور ہوتی ہے اور عمل کی دنیا اور، انسان تجربے سے سمجھتا ہے اور تم نہیں سمجھو گی۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلی گئی اور میں اسے بس دیکھتی رہ گئی۔
(ختم شد)