ایک روز جب میں تھانے پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا ہے۔ یہ خبر چونکا دینے والی اور عجیب تھی، میں نے اطلاع دینے والے کو اپنے کمرے میں بلایا۔ اس شخص کا نام سلیم تھا، جو قصبے کے بازار میں مٹھائی کی دکان چلاتا تھا۔ اس کی عمر تقریباً چالیس سال تھی، قد پانچ فٹ، اور اس نے اپنے وزن کو خاصی فراخ دلی سے بڑھایا ہوا تھا، شاید اپنے پیشے کی وجہ سے۔ مٹھائی فروش عموماً موٹے ہی ہوتے ہیں، کیونکہ وہ مٹھائی نہ بھی کھائیں تو اس کی خوشبو سے ہی فربہ ہو جاتے ہیں۔ میں نے بہت کم مٹھائی فروشوں کو دبلا دیکھا ہے۔ میں نے سلیم کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سنجیدگی سے پوچھا، "سلیم، کیا تم یہ بتانے آئے ہو کہ عارف نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا؟" اس نے گردن ہلا کر کہا، "جی ہاں، تھانیدار صاحب!"
میں نے سلیم سے کہا، "تو اب بات یہ ہے کہ عارف نے اپنی بیوی زینب کو قتل کر دیا، اور تم اس کی اطلاع دینے تھانے آئے؟" اس نے تصدیق میں سر ہلایا۔ واقعے کی جگہ جانے سے پہلے، میں نے سلیم سے چند اہم سوالات کیے تاکہ معلوم ہو کہ اس کا عارف سے کیا تعلق ہے اور اسے قتل کی خبر کیسے ملی۔ اس نے بتایا کہ اس کی مٹھائی کی دکان بخت پور کے مین بازار میں ہے، اور اس کے برابر میں عارف کی دکان ہے جہاں وہ کباب اور تکے بیچتا ہے۔ کاروباری طور پر وہ ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، اس لیے ان میں کافی بے تکلفی تھی۔ عارف، سلیم کو ہمدرد دوست سمجھ کر اپنے دکھڑے سناتا رہتا تھا۔ سلیم کو عارف کی بے بسی کا احساس تھا، لیکن وہ اس کی مشکلات کم کرنے کے لیے کچھ نہ کر سکتا تھا۔
سلیم خود شادی شدہ تھا اور جانتا تھا کہ میاں بیوی کے معاملات نازک ہوتے ہیں۔ اس نے عارف کو جتنا ممکن ہوا مشورے دیے، لیکن ہر ترکیب ناکام رہی۔ عارف نے زینب کو قابو کرنے کی جتنی کوشش کی، وہ اتنی ہی سرکش ہوتی گئی۔ جب زینب کی خودسری حد سے بڑھ گئی، تو عارف کو اس کے کردار پر شک ہونے لگا۔ اس نے یہ بات سلیم سے بھی شیئر کی۔ سلیم نے تشویش سے کہا، "تم پہلے ہی زینب کی حرکتوں سے پریشان ہو، اور اب یہ نیا مسئلہ؟" عارف نے افسردگی سے کہا، "مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔" سلیم نے مشورہ دیا کہ وہ زینب سے تنہائی میں بات کرے، لیکن عارف نے بتایا کہ اس کی ایسی کوشش ناکام ہو چکی تھی۔ زینب نے الٹا اسے برا بھلا کہا اور کہا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے جو ایسی باتیں سوچتا ہے۔
سلیم نے پوچھا، "تو اب تم نے کیا سوچا؟" عارف نے سر پکڑ کر کہا، "میری سمجھ کام نہیں کر رہی۔" سلیم نے صبر سے کہا، "تمہاری شادی کو چار سال ہوئے ہیں، اور کوئی اولاد بھی نہیں۔ جب کوئی مجبوری نہیں، تو ایسی اذیت ناک زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ اس سے نجات حاصل کر لو۔"
سلیم کی بات سن کر عارف نے سوچتے ہوئے کہا، "یار، یہ خیال میرے ذہن میں بھی آیا تھا کہ زینب کو طلاق دے کر اپنی زندگی کی اذیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دوں۔ لیکن یہ بتاؤ، پھر گزرے ہوئے چار سالوں کا حساب کون دے گا؟"
سلیم اس بات پر چونک پڑا اور سوالیہ انداز میں بولا، "چار سال کا حساب؟ کیا مطلب؟"
عارف نے معنی خیز لہجے میں گردن ہلاتے ہوئے کہا، "ہاں، حساب! ان چار سالوں میں میں ہر رات مرتا رہا اور ہر صبح دوبارہ زندہ ہونا پڑا۔ زینب کے ہر ظلم، زیادتی اور بدتمیزی کو میں نے برداشت کیا۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ لوگوں کو ہمارے جھگڑوں کی خبر نہ ہو۔ اور پھر مجھے اپنی خالہ فاطمہ کی باتیں بھی یاد تھیں۔ سلیم، تم جانتے ہو کہ زینب میری خالہ کی بیٹی ہے۔ خالہ نے مرتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے، اور میں اسے تمہارے حوالے کر رہی ہوں۔ تم اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا۔ خالہ میری ماں کی چھوٹی اور لاڈلی بہن تھی۔ اب وہ دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں۔ میں صرف خالہ کی وجہ سے زینب کی ہر حرکت برداشت کرتا رہا، لیکن اب میری برداشت ختم ہو چکی ہے۔ خالہ، جس کی وجہ سے میں یہ تکلیف سہتا رہا، اب قبر میں جا چکی ہے۔ اگر میں زینب کو طلاق دے کر اپنی زندگی سے نکال دوں تو وہ آوارہ ہو جائے گی۔ لیکن ان چار سالوں میں جو زہر میں نے پل پل پیا، اس کا حساب کون دے گا؟ میں زینب کو اتنی آسانی سے آزاد نہیں کر سکتا!"
سلیم نے پریشانی سے پوچھا، "تو پھر تم نے کیا سوچا ہے؟"
عارف نے اٹل لہجے میں کہا، "میں زینب کو طلاق نہیں دوں گا۔" سلیم نے کہا، "تو کیا تم اسی اذیت ناک زندگی میں جیتے رہو گے؟" عارف نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "کچھ دنوں تک تو اسی حال میں جینا پڑے گا۔"
سلیم نے عارف کی باتوں سے محسوس کیا کہ اس نے زینب کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کر لیا ہے، بس یہ جاننا باقی تھا کہ وہ فیصلہ کیا ہے۔ عارف نے سلیم کے پوچھنے پر کہا، "دیکھو سلیم، میں تم سے ہر بات کھل کر کرتا ہوں، اس لیے یہ بتانے میں بھی کوئی ہرج نہیں کہ میں نے زینب کے بارے میں کیا سوچا ہے۔ میں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اگر میں کامیاب ہو گیا تو اسے ختم کر دوں گا، تاکہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری!"
سلیم نے تشویش بھری نظروں سے عارف کو دیکھا اور پوچھا، "تو کیا تمہارا مطلب قتل ہے؟" عارف نے بے رحمی سے کہا، "ہاں، یہی میرا مطلب ہے۔" سلیم نے کہا، "تم جانتے ہو کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟" عارف نے بے پروائی سے جواب دیا، "مجھے کسی نتیجے کی پروا نہیں۔"
سلیم نے ڈراتے ہوئے کہا، "اگر تم نے زینب کو قتل کیا تو تمہاری باقی زندگی جیل میں گزرے گی۔" عارف نے تلخی سے کہا، "تو کیا تم سمجھتے ہو کہ میں پچھلے چار سال سے جنت میں رہ رہا ہوں؟ مجھے یقین ہے کہ جیل کی زندگی میری موجودہ زندگی سے بہتر ہوگی۔"
سلیم نے سمجھاتے ہوئے کہا، "یار عارف، میں تمہاری اس خطرناک سوچ کی حمایت نہیں کروں گا۔ گھریلو پریشانیوں نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے۔" عارف نے جذباتی لہجے میں کہا، "میں تم سے حمایت مانگ بھی نہیں رہا۔ اور تم نے یہ بھی ٹھیک کہا کہ میرے دماغ پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ یار سلیم، تپش وہیں محسوس ہوتی ہے جہاں آگ جل رہی ہو۔ میں اپنے حالات کو تم سے بہتر سمجھتا ہوں۔ تم صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اگر تم میری جگہ ہوتے تو تمہارا فیصلہ بھی کچھ اسی طرح کا ہوتا!"
سلیم کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ عارف اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس کے لہجے سے جنونی کیفیت جھلک رہی تھی۔ بہرحال، سلیم نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے کہا، "تم نے جو خوفناک ارادے ظاہر کیے ہیں، وہ مشروط ہیں۔ تم نے کہا کہ اگر تم زینب کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو اسے مار ڈالو گے۔ اگر تم اسے رنگے ہاتھوں نہ پکڑ سکے تو پھر کیا کرو گے؟"
عارف نے پختہ لہجے میں کہا، "پہلے تو مجھے یقین ہے کہ میں ناکام نہیں ہوں گا۔ اگر ایسا ہوا تو بعد کی بعد میں سوچوں گا۔" سلیم خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ عارف اپنی صحت کے لحاظ سے اتنا مضبوط دکھائی نہیں دیتا تھا کہ وہ غیرت کے نام پر کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے سکے۔ وہ ایک کمزور اور ڈرپوک قسم کا شوہر لگتا تھا۔ اس لیے سلیم نے اس کی خطرناک باتوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا۔
سلیم خود اسی قصبے کا رہنے والا تھا، لیکن اس نے زینب کے کردار کے بارے میں پہلے کبھی ایسی کوئی بات نہیں سنی تھی۔ یہ درست تھا کہ زینب تیز مزاج اور سرکش بیوی تھی، لیکن اس کے بے وفائی کی بات سلیم کے لیے حیران کن اور ناقابل یقین تھی۔ اگلے چند دنوں تک ان کے درمیان زینب کے بارے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ عارف نے اپنی گھریلو پریشانیوں کا ذکر بھی بند کر دیا۔ سلیم کو عارف کی اس پراسرار خاموشی پر حیرت ہوتی تھی، لیکن اس نے اسے کریدنا مناسب نہ سمجھا۔
اب سلیم میرے سامنے بیٹھا یہ سب کچھ مجھے بتا رہا تھا۔ واقعے کی جگہ، یعنی عارف کا گھر، تھانے سے زیادہ دور نہیں تھا۔ میں نے ضروری تیاری کی، حوالدار نصیر کو ساتھ لیا اور سلیم کو بھی ہمراہ لے کر وہاں روانہ ہو گیا۔ راستے میں میں نے سلیم سے پوچھا، "تم دونوں کے درمیان زینب کے بارے میں وہ خطرناک گفتگو کتنے دن پہلے ہوئی تھی؟"
سلیم نے سوچتے ہوئے کہا، "یہی کوئی بارہ سے پندرہ دن پہلے کی بات ہوگی۔"
میں نے کہا، "زینب کا قتل تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ عارف نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔" سلیم نے سنجیدگی سے کہا، "مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے، جناب!"
میں نے پوچھا، "یہ بتاؤ، تمہیں کیسے پتا چلا کہ عارف نے زینب کو قتل کیا؟ کیا تم اس کے پڑوس میں رہتے ہو؟" سلیم نے کہا، "نہیں، عارف کا گھر میرے گھر سے کئی گلیاں دور ہے۔" میں نے کہا، "تو پھر تم آج صبح اس کے گھر کیوں گئے؟"
سلیم نے کچھ لمحے خاموش رہ کر کہا، "دراصل بات یہ ہے، جناب، کہ کچھ عرصہ پہلے عارف نے مجھ سے کچھ رقم ادھار لی تھی۔ مجھے اچانک پیسوں کی ضرورت پڑ گئی تھی، اس لیے میں وہ رقم واپس لینے گیا تھا۔"
سلیم نے مزید بتایا کہ آج صبح جب میں عارف کے گھر رقم وصول کرنے گیا تو مجھے یقین تھا کہ وہ جاگ چکا ہوگا۔ کل رات میں نے اس سے رقم کا تقاضہ کیا تھا، تو اس نے کہا تھا کہ رقم گھر میں موجود ہے اور صبح جلدی آ کر لے جانا، کیونکہ اسے کہیں جانا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ کہیں میں دیر نہ کر جاؤں اور وہ گھر سے نکل جائے۔
میں نے دروازے پر دستک دی اور انتظار کیا، لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ میں نے دوبارہ دستک دی، مگر پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ عارف کہیں چلا تو نہیں گیا، شاید میں دیر سے پہنچا۔ تیسری بار میں نے زور سے دستک دی اور دروازے پر دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا۔ میں نے عارف کا نام لے کر پکارا اور گھر میں داخل ہوا، لیکن لگتا تھا کہ گھر خالی ہے۔ اس ویرانی نے مجھ میں تجسس جگایا کہ آگے بڑھ کر دیکھوں کہ معاملہ کیا ہے۔ مانتا ہوں کہ بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونا غلط تھا، لیکن اس وقت خود پر قابو نہ رہا اور میں آگے بڑھتا چلا گیا۔
ایک کمرے میں پہنچ کر... سلیم نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا، جھرجھری لی اور خوفزدہ نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، "ایک کمرے میں... میں نے زینب کو مردہ حالت میں دیکھا۔ اس کی گردن کٹی ہوئی تھی!" وہ دوبارہ خاموش ہو گیا۔
میں نے اسے غور سے دیکھا، وہ واقعی خوفزدہ لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا، "زینب کو مردہ دیکھ کر تم نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ عارف نے اسے قتل کیا؟ اور پھر تم تھانے اطلاع دینے آ گئے؟" اس نے جلدی سے سر ہلا کر کہا، "جی ہاں، جناب!" میں نے مزید پوچھا، "کیا اس وقت عارف گھر میں کہیں نظر آیا؟" وہ ٹھوس لہجے میں بولا، "نہیں جناب، وہ وہاں نہیں تھا۔" میں نے پوچھا، "تم نے گھر میں کتنا وقت گزارا؟" اس نے سوچتے ہوئے کہا، "دو یا تین منٹ۔ زینب کی لاش دیکھتے ہی میں گھر سے نکل کر تھانے کی طرف بھاگا۔"
میں نے کہا، "عارف کے گھر سے نکلنے کے بعد تم نے کسی اور کو قتل کی خبر دی؟ یا سیدھے تھانے آئے؟" اس نے بتایا، "جب میں گھبراہٹ میں گھر سے نکلا تو ہاشم، عارف کا پڑوسی، اپنے دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہوا، تم اتنے خوفزدہ کیوں ہو؟ میں نے اسے بتایا کہ میں ایک ضروری کام سے عارف کے گھر آیا تھا، لیکن وہ خود غائب ہے اور گھر میں زینب کی لاش پڑی ہے۔ میں تھانے جا رہا ہوں۔"
تھوڑی دیر بعد ہم عارف کے گھر کے سامنے کھڑے تھے، جہاں ایک درجن کے قریب لوگ جمع تھے۔ ایک چھوٹی داڑھی والے شخص نے دروازے کو اس طرح گھیر رکھا تھا جیسے وہ پہرہ دے رہا ہو۔ سلیم نے بتایا کہ یہ ہاشم تھا۔ ہاشم لوگوں کو گھر میں داخل ہونے سے روک رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے سکون کی سانس لی اور بلند آواز میں کہا، "لو، پولیس آ گئی!" لوگ ایک طرف ہٹ گئے۔ ہاشم نے آگے بڑھ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا، "تھانیدار صاحب، اچھا ہوا آپ آ گئے۔ میں نے بڑی مشکل سے لوگوں کو روکا۔"
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور عارف کے گھر میں داخل ہوا۔ میں نے نصیر، سلیم، اور ہاشم کو اپنے ساتھ آنے کی اجازت دی، جبکہ باقی لوگوں کو باہر روکنے کی ہدایت کی۔ ہم صحن سے گزر کر اس کمرے میں پہنچے جہاں سلیم نے زینب کی لاش دیکھی تھی۔ عارف کا گھر تین کمروں کا ایک چھوٹا مکان تھا۔ زینب بستر پر بے ترتیب پڑی تھی، اس کی گردن شہ رگ سے کٹی ہوئی تھی۔ خون نے بستر کو بری طرح آلودہ کر دیا تھا، اور اس کی حالت سے لگتا تھا کہ مرنے سے پہلے وہ بہت تڑپی ہوگی۔
میں نے بستر اور خون کے دھبوں کا بغور جائزہ لیا۔ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ زینب کی موت کو زیادہ وقت نہیں گزرا۔ اسے رات کے آخری پہر یا فجر کے وقت قتل کیا گیا تھا، شاید نیند میں، کیونکہ کمرے میں افراتفری کے آثار نہ تھے۔ ایک محتاط اندازے سے پتا چلا کہ اسے تیز دھار چھری یا خنجر سے قتل کیا گیا۔ زینب کی عمر 25-26 سال سے زیادہ نہ لگتی تھی۔ مردہ ہونے کے باوجود اس کی خوبصورتی نمایاں تھی۔ مجھے اس کی موت پر دلی افسوس ہوا۔
میں نے ضروری کارروائی شروع کی اور آدھے گھنٹے کی کوشش کے بعد آلہ قتل برآمد کر لیا۔ یہ ایک بڑی چھری تھی، جو گوشت کاٹنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس کے پھل پر لگا خون بتا رہا تھا کہ اسی سے زینب کی گردن کاٹی گئی۔ چھری کچن میں برتنوں کے پیچھے چھپی ہوئی ملی۔ میں نے کارروائی مکمل کر کے لاش اور آلہ قتل کو پوسٹمارٹم کے لیے ہسپتال بھجوا دیا۔