وہ دیہاتی علاقے کا ایک تھانہ تھا۔ تھانہ خاصے بڑے گاؤں میں تھا۔ مجھے اس تھانے میں تعینات کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ مجھے یہ بتائی گئی کہ وہاں ایک پٹھان سب انسپکٹر ہے جس کا نام زرگل خان ہے۔ زرگل خان کا ایک بچہ، جس کی عمر دس گیارہ سال تھی، وہ اغوا ہو گیا تھا، جس کی تفتیش کے لیے مجھے اس تھانے میں تعینات کیا جا رہا تھا۔ زرگل خان نے ایک ماہ کی چھٹی منظور کروا لی تھی اور زرگل خان نے میرے ساتھ رہ کر اپنے بچے کے اغوا کی تفتیش کرنی تھی۔ زرگل خان کے بچے کے اغوا کو میں یہی سمجھا تھا کہ پٹھانوں کی آپس میں خاندانی عداوتیں ہوتی ہیں، زرگل خان کا کوئی دشمن آیا ہو گا اور اس کے بچے کو اغوا کر کے علاقہ غیر میں لے گیا ہو گا۔ دوسری وجہ میرے دماغ میں یہ آئی کہ اس نے کسی پیشہ ور ڈاکو کو پکڑا ہو گا اور اس ڈاکو کے ساتھیوں نے انتقام لینے کے واسطے زرگل خان کا بچہ اغوا کر لیا ہو گا۔ میں جب اس تھانے میں چارج لینے گیا تو زرگل خان کو بہت ہی بری ذہنی حالت میں دیکھا!
میں نے سب سے پہلے زرگل خان سے اس کے بچے کے متعلق پوچھا تو زرگل خان نے مجھے بتایا کہ سب لوگ کہتے ہیں کہ میرے بچے کو چڑیلیں اٹھا کر لے گئی ہیں، مگر میں اس بات کو نہیں مانتا۔ میری اتنی عمر ہو گئی ہے، میں جنگلوں میں اور ویران علاقوں میں راتوں کو جاتا رہا ہوں، مجھے کبھی کوئی چڑیل نظر نہیں آئی! میں زرگل کی بات سن کر بہت حیران ہوا کہ بچے کو کوئی چڑیل اٹھا کر لے گئی ہے۔ جب میں نے زرگل خان سے اس تھانے کا چارج لینا شروع کیا تو زرگل خان کے بچے کے اغوا کی واردات کے علاوہ اور بھی مختلف وارداتیں کی تفتیش شامل تھیں۔ ان وارداتوں میں ایک واردات بہت ہی خوفناک اور پراسرار تھی۔ جب میں نے اس پراسرار واردات کے متعلق پوچھا تو زرگل خان نے مجھے بتایا کہ یہ واردات اس وقت کی ہے جب اس کا بچہ ابھی اغوا نہیں ہوا تھا۔ بچے کے اغوا ہونے سے کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ تھانے کا ایک کانسٹیبل کسی سمن کی تعمیل کے لیے گیا ہوا تھا۔ وہ کانسٹیبل واپس آیا تو اتنا خوفزدہ تھا کہ اس کے منہ سے بات بھی نہیں نکل رہی تھی۔ بات کرتے کرتے وہ کانسٹیبل اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا تھا اور ساتھ ساتھ کلمہ شریف پڑھنے لگتا تھا۔ اس کانسٹیبل کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
زرگل خان نے اس کو گالی دی اور بزدلی کا طعنہ بھی دیا اور کہا کہ وہ جوان مردوں کی طرح حوصلہ کر کے بات سنائے کہ آخر ہوا کیا ہے۔ زرگل خان کی جھڑکیاں کھانے کے بعد زرگل خان کو ایک گاؤں کا نام لے کر بتایا کہ سمن کی تعمیل کے بعد واپسی پر اس گاؤں کے قریب سے گزرا تو اسے عورتوں کے رونے اور بین کرنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ گاؤں میں یہ دیکھنے کے لیے چلا گیا کہ کون مر گیا ہے۔ گاؤں کے نمبردار نے کانسٹیبل کو دیکھا تو اس کے پاس آ گیا۔ کانسٹیبل نے نمبردار سے پوچھا کہ کون فوت ہو گیا ہے؟ نمبردار نے کانسٹیبل کو ایک آدمی کا نام لے کر بتایا کہ وہ فوت ہو گیا ہے۔ مرنے والے کا نام منور تھا۔ نمبردار نے کانسٹیبل سے کہا اگر تمہارا دل گردہ مضبوط ہے تو ایک نظر میت کو دیکھ لو۔ آؤ میرے ساتھ میں تمہیں میت کا چہرہ دکھاتا ہوں۔ کانسٹیبل نمبردار کے ساتھ ماتم والے گھر چلا گیا۔ اس وقت میت کو غسل دے کر کفن پہنایا جا چکا تھا۔ نمبردار نے کانسٹیبل کو قریب لے جا کر کفن ایک طرف کیا اور میت کا چہرہ ننگا کر دیا۔
کانسٹیبل نے زرگل خان کو بتایا کہ اس وقت اگر میں اکیلا ہوتا تو شاید بے ہوش ہو کر گر پڑتا۔ اس نے دیکھا کہ میت کا کلیجہ اس کے منہ سے باہر آیا ہوا تھا۔ میت کو اسی حالت میں غسل دے دیا گیا تھا۔ میت کو دیکھتے ہی کانسٹیبل باہر نکل آیا۔ نمبردار بھی کانسٹیبل کے پیچھے پیچھے باہر آیا۔ نمبردار نے باہر آ کر کانسٹیبل کو بتایا کہ منور رات کو اپنی فصل کی رکھوالی کے واسطے کھیتوں میں ہی سویا ہوا تھا۔ منور تین چار راتوں سے وہیں کھیتوں میں ہی سو رہا تھا۔ آج صبح لوگوں نے جا کر دیکھا تو منور پیٹھ کے بل چارپائی پر پڑا ہوا تھا اور اس کا کلیجہ اس کے منہ سے باہر آیا ہوا تھا۔ سب لوگ کہہ رہے تھے کہ منور کو اسی چڑیل نے مارا ہے اور یہ اسی چڑیل کا کام ہو سکتا ہے جو کبھی کبھی عورت کے روپ میں آئی کرتی ہے اور کسی خوبصورت جوان کو دیکھتی ہے تو اس کو تنگ کرتی ہے۔ اسی چڑیل نے منور کا کلیجہ منہ کے راستے باہر نکال کر اسے مار دیا ہے۔
زرگل خان نے اس کانسٹیبل کی پوری بات بھی نہ سنی اور اس سے پوچھا کہ میت کا جنازہ نکلنے میں کتنی دیر باقی تھی۔ کانسٹیبل نے زرگل خان کو بتایا کہ اس نے یہ بات تو کسی سے بھی نہیں پوچھی تھی، لیکن لگتا تھا کہ جنازہ جلدی ہی ہونے والا ہے۔ میت کو غسل دے کو کفن پہنایا جا چکا تھا۔ زرگل خان فوراً اٹھا، اس کانسٹیبل اور دو مزید کانسٹیبلوں کو لے کر ماتم والے گاؤں پہنچا۔ وہ گاؤں تھانے سے کم از کم دو میل دور تھا۔ گاؤں میں پہنچ کر زرگل خان نے دور سے دیکھ لیا کہ لوگ قبرستان پہنچ چکے تھے۔ زرگل خان سیدھا قبرستان ہی میں گیا۔ پتہ چلا کہ لوگ جنازہ پڑھ چکے ہیں اور میت کو قبر کے قریب دفنانے کے لیے لے گئے ہیں۔ میت کو قبر میں اتارنے لگے تو زرگل خان قبر پر جا پہنچا اور کہا کہ رک جاؤ، پہلے مجھے میت کا چہرہ دکھاؤ۔ میت کا منہ ننگا کیا گیا۔ زرگل خان نے دیکھا کہ میت کے منہ سے کم از کم چار پانچ انچ لمبا جگر کا ٹکڑا باہر آیا تھا۔ زرگل خان کو بتایا گیا کہ یہ ایک چڑیل کا کام ہے۔ گاؤں کا نمبردار آگے آیا۔ اس نے زرگل خان سے کہا جناب یہ بات ہمیں شاہ جی بتائی ہے کہ یہ کام چڑیل کا ہے، کیونکہ کوئی انسان کسی انسان کا کلیجہ اس طرح منہ کے راستے باہر نہیں نکال سکتا!
زرگل خان نے نمبردار کو حکم دیا کہ میت والی چارپائی اٹھاؤ اور میت کو تھانے پہنچاؤ اور خود بھی تھانے آؤ۔ زرگل خان کی بات سن کر لوگوں میں کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ وہ لوگ تھانیدار کے اس حکم کو ٹھیک نہیں سمجھتے تھے، لیکن تھانیدار کے آگے بولنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔ شاہ جی اس علاقے کا پیر تھا۔ اس نے آگے ہو کر زرگل خان سے کہا خان صاحب آپ میت کی بے حرمتی نہ کریں اور میت کو دفنانے کا حکم دیں۔ جنازہ پڑھا جا چکا ہے، اس لیے میت کو زیادہ دیر باہر رکھنا مناسب نہیں ہے۔ زرگل خان نے کہا شاہ جی اس میت کا پہلے پوسٹ مارٹم ہو گا، اس کے بعد دفنایا جائے گا۔ شاہ جی نے زرگل خان سے کہا خان صاحب آپ اس وقت تھانیداری کے رعب میں ہیں، لیکن میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو کوئی نقصان نہ ہو جائے۔ بس آپ یہ سوچ لیں کہ اس آدمی کو چڑیل نے ہلاک کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ چڑیل آپ کے پیچھے پڑ جائے۔ زرگل خان نے بڑے ہی سخت لہجے میں نمبردار سے کہا کہ چارپائی اٹھاؤ اور ایک کانسٹیبل سے کہا تم لاش کے ساتھ ہسپتال جاؤ۔ زرگل کا لہجہ دیکھ کر فوراً چار آدمیوں نے چارپائی اٹھا لی اور ہسپتال کی جانب چل پڑے! زرگل خان کسی سے کچھ کہے بغیر وہاں سے تھانے واپس آ گیا۔
زرگل خان کی اس کارروائی سے آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ زرگل خان نے یہ بات نہیں مانی تھی کہ منور کو کسی چڑیل نے مارا ہے اور مارنے کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا تھا کہ اس کا کلیجہ اس کے منہ کے راستے باہر نکال دیا تھا۔ زرگل خان پکا پٹھان تھا اور اپنی ضد کا بڑا ہی سخت تھا۔ رعب دار آدمی تھا۔ بڑے اونچے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ روپے پیسے کا بھوکا نہیں تھا۔ اس کا پیٹ بھرا ہوا تھا۔ سو فیصد دیانتدار آدمی تھا۔ اس کو جب پتہ چلا کہ کوئی چڑیل ایک آدمی کو مار گئی ہے اور اس کا کلیجہ منہ کے راستے باہر نکال دیا ہے تو اس نے کہہ دیا کہ یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے۔ اس لیے اس نے فوراً وہاں پہنچ کر لاش قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھجوا دی۔
زرگل خان نے مجھے بتایا کہ لڑکپن سے وہ چڑیلوں کی کہانیاں سنتا آیا ہے جن پر اس نے کبھی بھی یقین نہیں کیا تھا۔ دو تین مرتبہ لڑکوں کے ساتھ زرگل خان نے شرط بھی لگائی تھی کہ وہ ساری رات اس جگہ پر گزارے گا جہاں لوگ کہتے تھے کہ چڑیلیں ہوتی ہیں۔ زرگل خان نے مجھے ایسے کئی واقعات سنائے جیسے میں نے آپ کو سنائے۔ زرگل خان بھی چڑیلوں کے ان واقعات کو نہیں مانتا تھا۔ اس نے ان جگہوں پر جا کر اور وہاں بہت سارا وقت گزار کر دوستوں کو دکھا دیا تھا کہ دیکھو مجھے کوئی چڑیل نہیں ملی لیکن پھر بھی وہ لوگ اس کو غلط اور چڑیلوں کے واقعات کو سچ مانتے تھے۔ زرگل خان کے ماں باپ بھی اس کو بہت منع کرتے تھے کہ وہ کسی روز کسی چڑیل کے ہاتھوں مارا جائے گا لیکن زرگل خان بہت ہی دلیر اور اپنی بات پر ڈھیٹ بن کر اڑ جانے والا آدمی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس کو پتہ چلا کہ ایک آدمی کا کلیجہ منہ کے راستے کسی چڑیل نے نکال کر اس کو مار دیا ہے تو وہ گولی کی طرح اس گاؤں میں پہنچ گیا۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ رات دس بجے کے بعد زرگل خان کو موصول ہوئی۔ اس وقت تک زرگل خان نے گاؤں کے نمبردار اور کچھ آدمیوں کو تھانے میں بلا لیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھا تھا کہ مرنے والا گلا گھونٹے سے ہلاک ہوا ہے اور اس کے منہ میں کلیجی کا ایک ٹکڑا تھا جس کا وزن ایک پاؤ سے ذرا ہی کم تھا۔ ڈاکٹروں نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ کلیجی کسی انسان کی نہیں بلکہ کسی جانور کی ہے۔ زرگل خان نے ڈاکٹر سے جو بات معلوم کرنی تھی وہ بھی پوسٹ مارٹم میں موجود تھی۔ وہ بات یہ تھی کہ مقتول کی اپنی کلیجی اس کے جسم میں موجود تھی اور بالکل صحیح و سلامت تھی۔ لاش وارثوں کے حوالے کر کے زرگل خان نے مقتول کے باپ کو بلایا لیکن پتہ چلا کہ مقتول کا باپ بہت عرصے پہلے مر چکا ہے۔ ضرورت مقتول کے خونی رشتے داروں کی تھی جو مقتول کے گھریلو اور ذاتی معاملات صحیح طور پر بتا سکتا۔ صبح تک تھانے میں رونق لگی ہوئی تھی۔ مقتول کی ماں کی طرف سے ایف آئی آر زیر دفعہ تین سو دو تحریر ہوئی! جو زرگل خان نے مجھے دکھائی۔
میں نے نوٹ کیا کہ ایف آئی آر کچھ کمزور لکھی ہوئی تھی۔ بہرحال پھر بھی زرگل خان نے بڑی صحیح کارروائی کی تھی کہ شک کی بنا پر کسی کی رپورٹ کے بغیر قتل کا مقدمہ درج کر لیا تھا۔ اسی کو کہتے ہیں آ بیل مجھے مار! اب زرگل خان اس واردات کی تفتیش مجھے دے رہا تھا۔ زرگل خان نے اب تک جو تفتیش کی تھی وہ کچھ اس طرح تھی۔ زرگل خان نے سب سے پہلے مقتول کے بزرگوں مثلاً چاچا، تایا اور ماموں وغیرہ سے معلوم کیا تھا کہ ان کی یا مقتول کی خاندانی یا ذاتی دشمنی تو نہیں تھی۔ سب نے کہا کہ اتنی سخت دشمنی نہ خاندان کی کسی کے ساتھ تھی اور نہ ہی مقتول کی کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی تھی۔ مقتول کی ماں کا بیان بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ماں تو مانتی ہی نہیں تھی کہ اس کے بیٹے کو کسی انسان نے مارا ہے۔ وہ کہتی تھی کہ اس کا بیٹا اتنا خوبصورت جوان تھا کہ کوئی چڑیل اس پر عاشق ہو گئی تھی اور کسی دوسری چڑیل نے میرے بیٹے کو مارا ہے۔ زرگل خان نے مقتول کی ماں کو بڑی اچھی طرح سمجھایا تھا کہ اس کے بیٹے کے منہ میں بھیڑ یا بکری کی کلیجی کا ٹکڑا دیا گیا تھا لیکن مقتول کی ماں یہ بات نہیں مانتی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ میرے بیٹے کو چڑیل نے ہی مارا ہے۔ زرگل خان کے ایک سوال کے جواب میں اس نے زرگل خان کو بتایا کہ اپنی بیوی کے ساتھ مقتول کی زندگی بہت اچھی اور پیار محبت سے گزر رہی تھی۔
زرگل خان نے مقتول کے چال چلن کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔ مقتول کی ماں نے تو یہی کہنا تھا کہ میرا بیٹا پکا مومن تھا۔ یہ باتیں زرگل خان نے دوسروں سے معلوم کی تھیں۔ مقتول کے گاؤں کے نمبردار کا بیان لیا گیا۔ نمبردار نے بیان دیتے ہوئے کہا جناب خان صاحب آپ مالک اور حاکم ہیں لیکن میں اب بھی کہتا ہوں کہ منور کو کسی چڑیل نے ہی مارا ہے۔ زرگل نے تپے ہوئے لہجے میں نمبردار کو کہا تو پھر مقتول کے منہ میں کسی جانور کی کلیجی کا ٹکڑا تمہارے باپ نے دیا تھا۔ نمبردار نے کہا جناب یہ تو غیب کی باتیں ہیں۔ میں کم عقل آدمی کیا کہہ سکتا ہوں۔ جنوں اور چڑیلوں کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں۔ زرگل خان نے نمبردار سے کہا تم کم عقل نہیں بے ایمان ہو۔ میں تم سے جو پوچھتا ہوں اس کا ٹھیک ٹھیک جواب دو۔ بار بار مت کہو کہ اس کو چڑیل نے مارا ہے۔ نمبردار نے غلاموں کی طرح ہاتھ جوڑ کر کہا جناب خان صاحب میں تو آپ کی جوتیوں کا غلام ہوں۔ اگر آپ مجھ سے اپنی مرضی کا بیان لینا چاہتے ہیں تو میں آپ کا ہر حکم بجا لاؤں گا۔ میں چڑیل کا نام بار بار اس لیے لیتا ہوں کہ منور نے میرے آگے اس چڑیل کا رونا رویا تھا کہ ایک چڑیل اس کو بہت تنگ کرتی ہے۔
زرگل خان نے طنزیہ لہجے میں نمبردار سے پوچھا وہ چڑیل اس کو کس طرح تنگ کرتی تھی؟ نمبردار نے کہا جناب میں آپ کو وہ ساری بات سنا دیتا ہوں جو منور نے میرے ساتھ کی تھی۔ ڈیڑھ پونے دو مہینے پہلے کی بات ہے کہ منور نے پریشانی کی حالت میں مجھ سے کہا کہ وہ جہاں کہیں اکیلا ہوتا ہے ایک بڑی ہی خوبصورت عورت اس کے سامنے آ جاتی ہے اور اس کو پیار محبت پر مجبور کرتی ہے۔ پہلے پہل یہ عورت منور کو کھیتوں میں ملی تھی۔ منور نے اس کو ٹال دیا تھا۔ زرگل نے پوچھا کیا منور نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ عورت کہاں سے آتی ہے اور کہاں چلی جاتی ہے؟ نمبردار نے کہا کہ اس نے منور سے پوچھا تھا۔ منور کہتا تھا کہ وہ اس عورت کو کوئی اجنبی عورت سمجھتا تھا۔ وہ اس طرح اس کے سامنے آتی تھی جیسے کسی فصل میں سے نکلی ہو اور پھر وہ فصل میں ہی کہیں غائب ہو جاتی تھی۔ ایک روز منور نے اس عورت کو دیکھا تو اس کا خون خشک ہو گیا۔ اس عورت کے پاؤں الٹے تھے۔ جب منور نے عورت کے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو اس کے ہاتھ بھی الٹے تھے۔ اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں لیکن منور نے آنکھیں غور سے دیکھیں تو آنکھیں بھی ذرا ترچھی نظر آئیں۔ اب تو منور اس کے ساتھ جائز یا ناجائز کوئی بھی دوستی نہیں لگا سکتا تھا۔ زرگل خان نے نمبردار سے کہا تم مجھے یہ بتاؤ منور کو کونسا سرخاب کا پر لگا تھا کہ چڑیل اس پر عاشق ہو گئی تھی۔ نمبردار نے کہا جناب آپ سرخاب کا پر کہتے ہیں اگر آپ منور کو دیکھتے تو آپ یہ ضرور کہتے کہ یہ تو بہت ہی خوبصورت جوان ہے۔ آپ نے اس کی لاش کفن میں لپٹی ہوئی دیکھی تھی۔ اس کا چہرہ کلیجہ باہر آنے کی وجہ سے بگڑا ہوا تھا۔ اگر آپ اس کا جسم دیکھتے تو کہتے یہ ایک جوان مرد کا جسم ہے۔ زرگل خان کے دل میں ایک اور شک پیدا ہو گیا۔ اسے شک ہوا کہ گاؤں کی کسی عورت کے ساتھ مقتول کے تعلقات بن گئے ہوں گے اور وہ اسی وجہ سے مارا گیا ہو گا۔ زرگل خان نے یہاں تک ہی تفتیش کی تھی کہ اچانک اس کا بچہ غائب ہو گیا تھا۔