یہ 1970ء کی بات ہے۔ میری شادی ایک وکیل سے ہوئی، جو ہمارے رشتہ دار تھے۔ میں بیاہ کر کراچی سے ڈی جی خان چلی گئی۔ یہاں کافی گرمی پڑتی ہے اور زندگی سخت تھی۔ ان دنوں بجلی بھی چند گھنٹوں کے لیے برائے نام آتی تھی۔ تب دل گھبراتا اور کراچی یاد آتا۔ میں شوہر سے شکوہ کرتی کہ یہاں کیسے رہا جا سکتا ہے؟ نہ بجلی ہے، نہ گیس۔ وہ کہتے کہ شکر کرو، تمہاری زندگی یہاں کے دوسرے لوگوں سے ہزار درجے بہتر ہے۔ یہاں دیہات میں لوگ جس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں اور جن حالات کا سامنا کرتے ہیں، ان کا تم تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ ان کی تسلیاں سن کر میں خاموش ہو جاتی۔
ایک دن میرے شوہر ایک عورت کو گھر لائے۔ اس کے ساتھ تین بچے تھے۔ کہنے لگے، اس کی پیشی ہے۔ یہ دور دراز دیہات سے آتی ہے، رہنے کی جگہ نہیں۔ ایک دو دن یہاں رہے گی، کل صبح پیشی کے بعد چلی جائے گی۔ میں نے اسے اپنے گھر کا وہ کمرہ دے دیا جو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ اپنی ملازمہ کے ہاتھ کھانا بھجوا دیا۔ تو وہ شکریہ ادا کرنے میرے کمرے میں آئی۔ اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے اسے بلا لیا۔وہ قالین پر بیٹھ گئی۔ میں نے پوچھا، بی بی! تم کہاں سے آئی ہو اور تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے جواب دیا، میرا نام جمیلہ ہے اور میں جام پور کے قریبی ایک دیہات سے آئی ہوں۔ میں نے پوچھا، تمہارا کیس کیا ہے؟جواب میں اس نے جو کہانی سنائی، وہ آج میں یہاں لکھ رہی ہوں۔
جمیلہ نے بتایا، ہم دیہاتی لوگ ہیں۔ کاشتکاری پر ہمارا گزارہ ہوتا ہے۔ میرے والد اور دو بھائی تھے۔ ایک بھائی ٹھیکیدار تھا اور والد کاشتکار۔ کچھ زمین اپنی تھی، کچھ ٹھیکے پر لی ہوئی۔ میرے والد کو آباد زمین نہ ملی تو انہوں نے سنتی ہونے کی وجہ سے بنجر زمین ٹھیکے پر لے لی۔ والد کی تمام پونجی اس زمین کو آباد کرنے پر خرچ ہو گئی۔ آخرکار وہ زمین ہموار ہو کر قابل کاشت بن گئی۔ اس زمین کی وجہ سے ہمارا آنا جانا گاؤں میں رہنے لگا۔ جب ہم عورتیں زمین پر جاتیں، تو زمیندار ہمیں دیکھ کر کسی بہانے آ جاتا اور تنگ کرتا تھا۔ اس کا غلط رویہ دیکھ کر ہم نے وہاں آنا جانا بند کر دیا۔ دو تین روز بعد وہ خود ہمارے گھر آ گیا اور کہا کہ تم لوگ ہمارے گھر آکر کام کر لیا کرو۔ میں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ اس کے اطوار درست نہیں تھے۔ اس پر وہ ناراض ہو گیا اور اس نے وہ زمین بھی ہم سے چھین لی جو ہم نے خون پسینے سے قابل کاشت بنائی تھی۔ ہم نے گائیں، بکریاں، حتیٰ کہ زیور بھی بیچ کر زمین آباد کی تھی، اس امید پر کہ فصل آئے گی تو سب کچھ سنور جائے گا۔ میرے والد نے صبر کیا، سوچا کہ وہ با اثر آدمی ہے، اس کے منہ لگنا مناسب نہیں۔ لیکن میرے چچا نے کہا، نہیں! میں اس ظلم کے خلاف آواز بلند کروں گا۔
جب انہوں نے آواز اٹھائی، تو اگلے ہی دن ڈیرے پر بیٹھے ہوئے انہیں کسی نے زہر ملا شربت دے دیا۔ وہ اچانک جاں بحق ہو گئے۔ چچا کی موت نے ہمیں مزید خوفزدہ کر دیا۔ والد نے ڈر کے مارے ایف آئی آر تک نہ کٹوائی۔ اگر کرتے بھی تو کوئی سنتا نہیں۔ پولیس والے ثبوت مانگتے، اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ڈیرے پر کس نے شربت دیا۔ انہیں نیم بے ہوشی کی حالت میں گھر لایا گیا۔ ان کا جسم نیلا پڑ گیا، آواز بند ہو گئی۔ بس اتنا ہی کہہ سکے کہ شربت دیا تھا۔ اس سے آگے موت نے انہیں مہلت نہ دی۔ چند دن بعد پولیس ہمارے گھر آ گئی اور کہا کہ اسلحہ برآمد کرنا ہے۔ اسلحہ تو نہ ملا، لیکن وہ ہمارا سب قیمتی سامان اٹھا لے گئے۔ موٹر سائیکل، صندوق، چارپائیاں، حتیٰ کہ گائے، بیل، اور اناج کی بوریاں تک لے گئے۔ کہنے لگے کہ یہ سب چوری کا سامان ہے۔ مجھے اور میری والدہ کو بھی پولیس ساتھ لے گئی۔ انہوں نے گھنٹوں میں ہمارا گھر اجاڑ دیا۔ گاؤں کے کچھ لوگوں نے سفارش کی، کہ ان عورتوں کا کیا قصور؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب مرد حاضر ہوں گے، عورتوں کو چھوڑ دیں گے۔کسی نے میرے والد کو اطلاع دی۔ وہ اور بھائی گھر پہنچے تو سب تباہ ہو چکا تھا۔ والد افسران کے پاس دوڑے، مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔
پولیس نے ہمیں زمیندار کے حوالے کر دیا، جو علاقے کا بااثر شخص تھا۔ اس نے ہمیں دس دن تک قید رکھا۔ یہاں تک کہ اس کی بیوی کو ہم پر ترس آیا، اور اس نے شوہر سے جھگڑ کر ہمیں رہا کروایا۔ہم اپنے گھر واپس نہ جا سکے، بلکہ ایک دور کے رشتہ دار کے ہاں جا کر پناہ لی۔ والد اور بھائی نے درخواستیں دیں، مگر کچھ نہ ہوا۔ خوف کے باعث ہم اپنی زمینیں چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور ایک غریب آبادی میں کرائے پر چھوٹا سا مکان لے لیا۔ ہم عورتیں گھروں میں کام کرنے لگیں، اور مرد مزدوری پر لگ گئے۔جس گھر میں ہم نے کام شروع کیا، وہ دین دار اور پڑھے لکھے لوگ تھے۔ جب انہوں نے ہماری بپتا سنی تو کہا کہ اگر تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ان کی رہنمائی سے ہم نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی، جو سماعت کے لیے منظور ہو گئی۔اس کے بعد جن کے خلاف ہم نے رٹ دائر کی تھی، وہ ہمارے مکان مالک سے ملنے لگے۔ مالک مکان روز آکر ہمیں سمجھانے لگا کہ کیس واپس لے لو، ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ایک دن ابا مقدمے کی پیروی کے لیے گیا اور واپس نہ آیا۔ بھائی اسے تلاش کرنے گیا، وہ بھی واپس نہ آیا۔ باپ اور بھائی کی گمشدگی، اور دشمنوں کے خوف سے میں خوفزدہ ہو گئی۔
سوتیلی ماں اپنے بھائی کے ہاں چلی گئی اور میں اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ اکیلی رہ گئی۔ شوہر پہلے ہی وفات پا چکا تھا۔ایک دن پولیس میرے گھر آئی۔ کہا کہ تمہارے خلاف لاہور میں لڑکی کے اغوا کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ تم ملزمہ ہو۔ پولیس کے ساتھ زمیندار کے آدمی بھی تھے، جنہیں میں پہچانتی تھی۔ وہ مجھے اور بچوں کو تھانے لے گئے، پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔جس کمرے میں مجھے رکھا گیا، وہاں نہ بلب تھا، نہ پانی۔ سردی کی راتیں تھیں، کپڑے بھی نہیں تھے۔ بچوں کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ صرف اس لیے کہ وہ ایک غریب عورت کے بچے تھے۔بیٹی، میں فلاں تھانے میں قید ہوں۔ تیرے بھائی کا کچھ پتہ نہیں۔ پولیس اسے کہاں لے گئی ہے، معلوم نہیں۔ میری مظلوم بچی، صبر کرو۔ اللہ تمہارا نگہبان ہو۔ معلوم نہیں یہ دکھوں کا سفر کب ختم ہو گا۔ میں بے بس ہوں۔ڈھائی ماہ بعد میرے بھائی لاہور کیمپ جیل میں آ گئے۔
کچھ عرصے بعد میرے ایک رشتہ دار نے، بچوں پر رحم کھا کر، میری اور بچوں کی ضمانت کرا دی۔ جب جیل سے رہائی ملی تو باہر آ کر پریشان کھڑی تھی۔ تین چھوٹے بچے، بڑا شہر اور میں بے یار و مددگار۔ سوچا، کہاں جاؤں؟اسی دن ایک اور عورت میری طرح رہا ہوئی تھی۔ اس کے رشتہ دار باہر اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے ان سے کہا کہ یہ مظلوم عورت ہے، اس پر رحم کرو۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، بہن! تم کہاں جانا چاہتی ہو؟ ہم تمہیں وہاں پہنچا دیتے ہیں۔میرے بچے بھوکے تھے، اس شخص نے ہوٹل سے کھانا لا کر دیا، دو سو روپے دیے اور مجھے گاؤں جانے والی بس پر بٹھا دیا۔جب میں گھر پہنچی تو دیکھا کہ آگے صاف میدان تھا۔ نہ چار دیواری رہی، نہ کمرے۔ میں نے پوچھا، میرا گھر کہاں گیا؟ لوگوں نے بتایا، سیلاب کا پانی بہا لے گیا۔میرے پاس کھانے کو بھی کچھ نہ تھا۔ جس رشتہ دار کے گھر جاتی، وہ زمیندار کے خوف سے پناہ نہ دیتا تھا۔
نہیں سمجھ آتا تھا کہ کیا کروں۔ کسی نے میرے شوہر کے بارے میں بتایا کہ ان کے پاس جاؤ، وہ غریبوں کی دادرسی کرتے ہیں۔ وہی رشتہ دار، جس نے میری ضمانت کروائی تھی، مجھے آپ کے شوہر کے دفتر چھوڑ گیا۔ وہ مجھے یہاں لے آئے اور کہا کہ جب تک تمہارا قانونی معاملہ نہ دیکھ لوں، کیس تیار نہیں کر سکتا۔یہاں تک بتا کر اس عورت نے سونے کی اجازت چاہی اور اپنے بچوں کے پاس چلی گئی۔ صبح میرے شوہر اسے اپنے ساتھ کورٹ لے گئے، پھر وہ واپس نہیں آئی۔ کچھ دن بعد میں نے اپنے شوہر سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کیس میں نے اپنے علاقے کے سردار صاحب سے کہہ کر ٹھیک کروا دیا ہے۔ یوں ہمارے علاقے کے سردار کی مہربانی سے اس عورت پر سے جھوٹا مقدمہ ختم کر دیا گیا اور اس کے باپ اور بھائی کو بھی جیل سے رہائی مل گئی۔ایسی ہزاروں کہانیاں یہاں گاؤں گاؤں، گلی گلی بکھری ہوئی ہیں۔ ذرا عدالت میں آئی مظلوم عورتوں سے ان کے دکھ پوچھ کر دیکھئے، کبھی جیل جا کر پڑتال کیجیے۔ آج بھی کتنے ہی بے گناہ برسوں سے جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہوں گے۔