سب کچھ تمہارا

Sublimegate Urdu Stories

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہمارے یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم رائج تھا۔ ابو اور چچاؤں کا لیدرایکسپورٹ کا کاروبار تھا۔ دفتر کا کام والد صاحب کے ذمہ تھا، اسی لیے وہ زیادہ تر گھر سے باہر رہتے تھے۔ دونوں پھوپھیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور گھر کا سارا انتظام دادی جان نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالتی تھیں۔ ہم دو بہن بھائی تھے، جبکہ بڑے چچا، عبد الکریم، کے بھی دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ چھوٹے چچا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ دادی جان اپنی بہن کے رشتہ داروں کی شادی میں گئیں۔ وہاں انہوں نے ماہ نور کو دیکھا اور اُسے چھوٹے چچا کے لیے پسند کر لیا۔ ماہ نور نہایت خوبصورت لڑکی تھی، لیکن دادی نے اس کے اطوار و عادات جاننے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ انہوں نے چچاجان سے ماہ نور کا ذکر کیا، تو بیٹے نے ماں کی پسند کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا، اور دادی کی کوششوں سے ماہ نور ایک ماہ کے اندر اندر ہماری چچی بن گئیں۔

وہ بلاشبہ خوبصورت تھیں، مگر ایک ہفتے بعد ہی اُن کی عادات کھل کر سامنے آنے لگیں۔ انہیں اپنے حسن کا پورا ادراک تھا، اور اُن کے خیال میں کام کرنے سے حسن میلا ہو جاتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ وہ کام کرنے کے لیے نہیں، بلکہ آرام کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔ شروع کے دنوں میں سب نے ان کا احترام کیا اور خدمت بھی، جس سے انہیں یہ گمان ہوا کہ دولہا کے گھر والوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی خدمت کریں اور ان کا حد درجہ احترام بھی۔ اس زعم میں نہ انہوں نے بڑے چھوٹے کا لحاظ رکھا، نہ کوئی تمیز۔ ایک ماہ یوں ہی گزر گیا، وہ اپنی “چھوٹی ہوئی بہو” والی حیثیت پر قائم رہیں۔ سارا دن ٹی وی دیکھتیں یا سوتی رہتیں، لیکن دادی کو یہ سب قبول نہ تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ دوسری بہوؤں کی طرح یہ بھی گھریلو کام کاج میں برابر کی شریک ہوں۔ ایک دن ہم سب، بشمول دادی جان، نانی امی کے گھر گئے۔ تائی گھر پر تھیں؛ انہیں بخار تھا اور وہ کمزوری سے نڈھال تھیں۔ ان کی دس سالہ بیٹی، میری کزن ماریہ، نے ماہ نور سے کہا کہ امی کو بخار ہے، وہ بہت کمزور ہو گئی ہیں۔ کچھ کھانے کو بنا دیں۔ ماہ نور نخوت سے بولیں کہ وہ یہاں تم لوگوں کے لیے روٹیاں پکانے نہیں آئی ہے۔

 ماریہ چپ چاپ وہاں سے چلی آئی۔ اس نے کچن میں جا کر خود کھانا بنانے کی کوشش کی، مگر بدقسمتی سے خود کو جلا بیٹھی۔ اسی وقت تایا ابا آگئے، وہ ماریہ کو فوراً اسپتال لے گئے اور تائی کے لیے دوا اور کھانا بھی لے آئے۔ شام کو جب دادی جان کو ساری صورتِ حال معلوم ہوئی تو ان کی برداشت کی حد ختم ہو گئی۔ انہوں نے چھوٹے چچا اور چچی کو خوب ڈانٹ پلائی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے دن دونوں اپنا سامان پیک کر کے چلے گئے۔ جاتے ہوئے چھوٹے چچا نے کہا کہ جس گھر میں میری بیوی کی عزت نہیں، وہاں میں نہیں رہ سکتا۔ مجھے میرا حصہ چاہیے، میں یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ دادی جان نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی، لیکن ماہ نور کے اکسانے پر وہ ماں، بہن، بھائیوں، غرض سب کو چھوڑ کر اپنی بیوی کے میکے جا بیٹھے۔ تایا اور ابو کو اس بات کا بے حد افسوس ہوا۔ انہوں نے بھی انہیں سمجھانے کی بھرپور کوشش کی، مگر سب بے سود رہا۔ آخرکار تایا اور ابو نے مجبور ہو کر کراچی والا بزنس چھوٹے چچا کے حوالے کر دیا۔ دادی جان کو اپنا چھوٹا بیٹا سب سے زیادہ عزیز تھا، اسی لیے وہ چچا حفیظ کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کر سکیں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں۔

ان دنوں ابو فیصل آباد میں تھے۔ دادی کی وفات کے بعد ہم بھی فیصل آباد ابو کے پاس چلے آئے اور لاہور کا سارا کاروبار تایا جان کے حوالے کر دیا گیا۔ یوں تین بھائی، جنہوں نے ترقی کا سفر اکٹھے شروع کیا تھا، بکھر کر رہ گئے۔ فیصل آباد میں ابو کرائے کے گھر میں رہتے تھے اور نیا گھر تعمیر کروا رہے تھے۔ جب گھر مکمل ہو گیا تو امی نے قرآن خوانی کروانے کا فیصلہ کیا۔ میں ہمسایوں میں قرآن خوانی کی دعوت دینے نکلی۔ یہ میری اور صائمہ کی پہلی ملاقات کا دن تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ کوئی دوست ملی، کیونکہ مجھے شروع سے ہی تنہائی سے انجانے خوف سا محسوس ہوتا تھا۔ قرآن خوانی کے بعد سب عورتیں چلی گئیں، لیکن میں نے صائمہ کو روک لیا۔ اس دن میں اور صائمہ نے آپس میں خوب باتیں کیں۔ اس نے بتایا کہ وہ دو بہن بھائی ہیں، والدین کی لاڈلی ہے اور یہ لوگ اس محلے میں نئے آئے ہیں کیونکہ اس کے بھائی کی اس شہر میں پوسٹنگ ہوئی ہے۔ وہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ روز روز کی ملاقات نے ہماری دوستی کو مضبوط کر دیا۔ کبھی وہ ہمارے گھر آ جاتی اور میں اس کے گھر چلی جاتی۔ ایک دوسرے کو روز کی رپورٹ دینا ہماری عادت بن چکی تھی۔انہی دنوں بڑی پھوپھی ہمارے گھر آئیں۔ وہ اپنے چھوٹے صاحبزادے رمیز کے لیے میرا رشتہ لے کر آئی تھیں۔ لڑکا پڑھا لکھا تھا، سب سے بڑھ کر اپنا تھا، اس لیے ہماری منظوری ہو گئی۔

 پھوپی چاہتی تھیں کہ ہمارا نکاح جلد ہو جائے کیونکہ رمیز کو ہائر اسٹڈیز کے لیے امریکہ جانا تھا۔ پھوپی کی خواہش کے مطابق میرا نکاح رمیز کے ساتھ ہو گیا۔ میں بہت خوش تھی کیونکہ وہ مجھے پسند تھا اور اب میں خود کو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کر رہی تھی۔ میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کی مانند صائمہ کے ساتھ بیٹھ کر پہروں رمیز کی باتیں کرتی، یہ جانے بغیر کہ میری دوست پر کیا بیت رہی ہے۔ نکاح والے دن میں نے خاص طور پر صائمہ کو مدعو کیا تھا، لیکن وہ نہ آئی تو مجھے حیرت اور پریشانی ہوئی۔ نکاح کے بعد رمیز نے مجھے ایک خوبصورت تحفہ دیا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے سوچا چلو صائمہ سے مل کر آتی ہوں اور اسے تحفہ بھی دوں۔ جب اس کے گھر گئی تو بھابی نے بتایا کہ اسے بخار ہے اور وہ اپنے کمرے میں ہے۔ واقعی اسے بہت بخار تھا۔ آنکھیں سوجی ہوئی تھیں جیسے روتی رہی ہو۔میں صائمہ کی یہ حالت دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ کل ہی تو وہ مجھ سے مل کر گئی تھی اور بہت خوش تھی۔ میرے پوچھنے پر وہ رو پڑی۔ میں نے کہا صائمہ! کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں کہ جو اپنا دکھ مجھ سے نہیں چھپاتے؟میں نے اسے پانی پلایا تو وہ کچھ دیر چپ رہی، پھر اس نے بتایا کہ آج ہی کا دن تھا جب وہ اور بلال جدا ہوئے تھے۔ میرے اصرار پر تب اس نے اپنی کہانی سنائی۔

 یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے، جب ہم گلشن کالونی میں رہتے تھے۔ ان دنوں میں فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔ سونیا، میری پھوپی کی بیٹی تھی، ہمارے گھر کی دیواریں ساتھ ساتھ تھیں، وہ میری ہم عمر اور ہم جماعت بھی تھی۔ ہم دونوں میں بہت پیار تھا۔ ایک دوسرے کے بغیر ایک منٹ نہیں رہ سکتے تھے۔ غرض یہ کہ ہم دو جسم ایک جان تھے۔ایک دن سونیا سخت بیمار ہوئی۔ صبح ہمارا ٹیسٹ تھا اور میں اس کے بغیر جانا نہیں چاہتی تھی، لیکن اس نے کہا کہ تم اکیلی چلی جاؤ ورنہ تمہارا حرج ہوگا۔ آج صبح اس کے بغیر جب میں کالج جانے نکلی تو عجیب محسوس ہو رہا تھا کیونکہ ہم دونوں ہمیشہ پیدل جاتے تھے۔ حالانکہ میں چاہتی تھی کہ وین الگ لے جائیں، مگر سونیا کا اصرار تھا کہ پیدل جائیں گے تاکہ صبح سویرے واک بھی ہو جائے۔اس کے بغیر ڈرتے ڈرتے میں کسی طرح کالج پہنچ گئی۔ چھٹی کے وقت جب سب لڑکیاں کالج کے دروازے سے نکلیں تو میں بھی باہر نکل آئی، لیکن جانے کیوں آج مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔

 میں نے سوچا کہ بس پر چلی جاتی ہوں، لیکن نہیں، کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ یہ سوچ کر آہستہ آہستہ چلنے لگی کہ شاید بس رستے میں مل جائے۔ اچانک ایک اسکوٹر آ کر میرے بالکل سامنے رکا۔ دل کی دھڑکن کے ساتھ میری رفتار بھی بڑھ گئی، سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا کہ ساتھ کون ہے۔اچانک ایک مردانہ آواز نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے کہا کہ بات سنو، گھبراؤ نہیں، میں برا آدمی نہیں ہوں، بلال نام ہے اور تمہارے کالج کے ساتھ دو کوٹھیاں چھوڑ کر رہتا ہوں۔ آپ کو اور آپ کی دوست کو روزانہ یہاں سے گزرتے دیکھتا ہوں۔ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں، بات کرنے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا جو آج مل گیا۔میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ مجھے وہ کافی معقول لڑکا نظر آیا، لیکن ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں یہ غلط نہ ہو۔ اچانک بس آ گئی اور میں اس میں سوار ہو گئی۔ گھر آ کر بہت پریشان تھی۔ ہر بات جب تک سونیا کو نہ بتا لیتی، سکون نہیں آتا تھا۔ اسی وقت اس کے گھر گئی کیونکہ بہت مضطرب تھی۔ وہ سو رہی تھی۔ ناچار واپس آ گئی۔ کھانا کھا کر میں نے بھی سونے کی کوشش کی، لیکن بلال کے خیال نے سونے نہ دیا۔ 

اگلے روز بھی سونیا کالج نہیں گئی، اکیلے ہی جانا پڑا۔ میں ڈرتے ڈرتے نکلی، مگر دل ہی دل میں اس کا انتظار کہیں چھپا ہوا تھا۔ تمام دن کالج میں کھوئی کھوئی ہی رہی۔ چھٹی کے وقت گیٹ سے نکل کر اسے حسب توقع اپنا منتظر پایا۔ جب میں سڑک پر چل رہی تھی تو بلال میرے ساتھ ہو گیا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ آپ نے میرے بارے میں کیا سوچا ہے؟ ہمت کر کے جواب دیا کہ دیکھو بلال! یہ گلی کوچوں میں چلنے والی چاہت میرے نزدیک وقت کا زیاں اور بدنامی کا باعث ہوتی ہے۔ ہم اس کو محبت کا نام نہیں دے سکتے۔ اگر تم مجھ سے واقعی متاثر ہو تو سیدھا راستہ یہ ہے کہ اپنی ماں کو رشتہ کے لیے ہمارے گھر بھجواؤ۔ یہ سن کر اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس نے سوال کیا کہ ایک بات بتا دو، کیا میں بھی تمہیں اچھا لگتا ہوں؟ رشتہ تو بھی مانگا جاتا ہے جب لڑکی عندیہ دے۔ میں اس جواب پر بے اختیار نہیں دی۔ اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ کہنے لگا جلد ہی میں آپ کے گھر رشتہ بھجواؤں گا، آئیے میں آپ کو گھر چھوڑ دوں۔ میں نے اس کی پیشکش قبول کی اور وہ مجھے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر چھوڑ کر چلا گیا۔
رات میں شام کے وقت سونیا سے ملنے گئی تو اس کی طبیعت نسبتا ٹھیک تھی۔ پوچھا کب کالج جاؤ گی؟ بولی کل چلوں گی۔ آج کا دن کیسا رہا؟ اس نے سوال کیا تو میں اسے بتانے لگی کہ ٹیسٹ ٹھیک رہا اور پھر بات رک گئی۔ میں چپ ہوگئی۔ اس نے غور سے مجھے دیکھا پھر بولی صائمہ کیا بات ہے آج تم بہت خوش لگ رہی ہو؟ تب میں نے سونیا کو بلال سے دونوں ملاقاتوں کے نکلنے کے بارے میں بتا دیا۔کہنے لگی تم تو بڑی چھپی رستم نکلی میرے پیچھے اتنے بڑے معرکے سر کر لیے ہیں، یہ تو میں سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ ویسے صائمہ اگر وہ تم کو اتنا ہی پسند کرتا ہے تو تمہیں اس کو راستے میں نہیں ملنا چاہئے، یہ بہت بری بات ہے۔ میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا تو اس کو احساس ہوا کہ کوئی غلط بات کہہ دی ہے، اس نے بات سنبھال لی۔ میرا مقصد تم کو دکھ دینا نہیں تھا، صرف اس لیے کہہ رہی تھی کہیں دل لگی نہ کر رہی ہو کیونکہ آج کل کے لڑکوں کا یہ مشغلہ ہے۔ یہ بھولی بھالی لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنساتے ہیں اور چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

 جب یہ معصوم لڑکیاں ان کے سامنے محبت کی بھیک مانگتی ہیں تو ان کی انا کو تسکین ملتی ہے۔اس کی باتیں سن کر مجھ کو جھرجھری آئی اور میں نے کہا تم کتنی خطرناک باتیں کرتی ہو سونیا۔ وہ بننے لگی بولی میں صرف تمہارے بھلے کو یہ بات کر رہی ہوں، چلو ٹھیک ہے، کل چل کر تمہارے بلال سے ملیں گے۔اگلے دن چھٹی کے وقت جب میں اور سونیا باہر نکلے تو بلال وہاں موجود تھا۔ چونکہ اس وقت گیٹ پر رش تھا، اس نے سر کے اشارے سے سلام کیا۔ پھر جب ہم گلی میں پہنچے تو وہ آ گیا۔ میں نے کہا آپ برا نہ مانیں، اس قسم کا تعلق مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ اگر میری دوست اچھی لگتی ہے تو سیدھا راستہ کیوں نہیں اپناتے، اس کے گھر رشتہ بھیج دیں۔ بلال کہنے لگا میں ابھی پیروزگار ہوں، جیسے ہی نوکری ملے گی اپنی امی کو رشتے کے لیے ان کے گھر بھیجوں گا۔ یہ کہہ کر وہ پلٹ گیا۔ میری دوست نے رائے دی کہ یہ اچھا لڑکا ہے۔ پیپر سے شروع ہونے والے تھے اس لیے ایک ماہ کے لیے ہم فری کر دیے گئے۔ یہ کالج میں ہمارا آخری دن تھا۔ میں بلال سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن چھٹی کے وقت وہ نظر نہیں آیا تو میں پریشان ہوگئی۔
میرے پاس اس کے گھر کا پتہ اور فون نمبر بھی تھا مگر فون لگ ہی نہ رہا تھا۔ اگلے ہفتے میں اور سونیا رول نمبر سلپ لینے کالج گئے اور واپسی پر بلال کے گھر چلی گئی۔ بلال کے گھر پر تالا لگا تھا۔ سونیا کی سوال پوچھتی نگاہیں میرے اندر کھب رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ سڑک پر موجود ہر چیز مجھ سے سوال کر رہی ہے۔ گھر پر شخص نے آ کر بھی میں سارا وقت یہی سوچتی رہی کہ کیا واقعی بلال مجھ سے دھوکہ کر رہا تھا یا اس پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے؟سارا دن سوچ سوچ کر میرا سر دُکھنے لگا۔ گھر والوں سے پڑھائی کے بہانے میں کمرے میں گم صم بیٹھی رہی۔ رات کو سونیا مجھ سے ملنے آئی اور میری حالت دیکھ کر برس پڑی۔ میں نے کہا تھا نا کہ پتہ کر لو کہیں وہ لڑکا فلرٹ تو نہیں لیکن تمہاری آنکھوں پر تو محبت کی پٹی بندھی تھی۔ یہ سن کر میں رونے لگی تو سونیا نے مجھے گلے لگا لیا اور حوصلہ دینے لگی۔ اس نے کہا ہم دونوں مل کر بلال کو ڈھونڈیں گے۔ کالج کے پیپرز میں نے کیسے دیے، یہ میں ہی جانتی ہوں۔ یہ میری آنکھیں ہر جگہ صرف بلال کو ہی تلاش کرتی تھیں۔ میں جب یہ سوچتی کہ وہ بے وفا ہے، دل چاہتا تھا کہ خودکشی کر لوں۔رزلٹ کے بعد جب کالج کھلا تو پہلے دن جب ہم بلال کے گھر کے آگے سے گزرے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اس کا گھر کھلا ہوا تھا۔ میں بے اختیار اندر چلی گئی۔ 

سامنے ایک عمر رسیدہ خاتون پریشان حال کھڑی تھیں۔ میں نے پوچھا بلال کا گھر یہی ہے؟ ہاں، میں اس کی ماں ہوں، آپ کو کیا کام ہے اس سے؟ مجھے ان سے ملنا ہے، کیا وہ بیمار ہیں؟ میں نے ویسے ہی کہہ دیا۔وہ بولیں کیا تم اس کو دیکھنے آئی ہو؟ اچھا اندر آ جاؤ۔ وہ مجھے بلال کے کمرے میں لے گئیں تو مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ میرے سامنے بلال تھا مگر وہیل چیئر پر۔ صائمہ تم یہاں؟ میں والہانہ انداز سے اس کی طرف لپکی اور اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ کیا ہوا بلال تمہیں؟ آنسو میری آنکھوں سے خود بخود بہنے لگے۔اس روز جب میں تم سے اور سونیا سے مل کر جا رہا تھا، بے دھیانی کے عالم میں سڑک کے بیچوں بیچ پہنچ گیا۔ سامنے ایک ٹرک نے میری موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور جب میری آنکھیں کھلیں تو میں اسپتال میں تھا۔ انہوں نے میرے دونوں پاؤں کاٹ دیے ہیں۔ ایسی حالت میں، میں تم سے کیسے مل سکتا تھا؟میں رو رہی تھی، اس کی والدہ بھی رو رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں صائمہ اگر تم اس سے محبت کرتی ہو تو وعدہ کرو کہ آئندہ اس سے ملنے نہیں آؤ گی۔
میں نے دکھی ہو کر کہا کیوں خالہ جان؟ تو ان کے بدلے بلال نے جواب دیا کہ میں تمہاری زندگی تباہ نہیں کر سکتا۔ لیکن بلال پاؤں تو نقلی بھی لگ سکتے ہیں۔ میں تم کو مشکل حالات میں چھوڑ دوں، یہ محبت کی توہین ہے۔ اگر میری ایسی حالت ہو جاتی اور تم مجھے چھوڑ کر چلے جاتے تب کیا ہوتا؟بلال نے کہا بس صائمہ جذباتی بن کر مت سوچو، یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ تم کو میری پیاری ماں نے کی قسم ہے کہ آئندہ میری زندگی میں مت آنا ورنہ میں ڈسٹرب ہوتا رہوں گا۔ اگر مجھے نہیں بھی دیکھو تو اچھی بن جانا۔ سوچ لو کہ وہ بلال جو تم کو اپنا نا چاہتا تھا، وہ مر گیا ہے۔ سونیا نے مجھے تھاما اور زبردستی اس کے گھر سے لے آئی۔ اس کی ماں نے دروازہ بند کر لیا۔ میری دوست مجھے کس طرح گھر تک لائی، میں نہیں جانتی۔ میری بگڑی حالت دیکھ کر سب پریشان تھے۔ اگلے ہفتے بھائی کے ٹرانسفر کے آرڈر آئے تو ہم یہاں پر آ گئے۔آج اس واقعے کو پانچ سال ہو چکے ہیں۔ میری دو پسندیدہ ہستیاں جن کے بغیر میں جینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، بلال اور سونیا۔ ان کے بغیر میں پانچ سال سے زندہ ہوں۔ کاش میری زندگی ختم ہونے کے دن آ گئے ہوں۔ 

سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ صائمہ جو ہر وقت ہنسنے، مسکرانے کی ایکٹنگ کرتی رہتی تھی، اندر سے اتنی زیادہ دکھی ہوگی۔ اب بھی میری دوست ایسی زندگی گزار رہی ہے کہ وہ زندہ تو ہے لیکن اندر سے مر چکی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ اسے صبر عطا فرمائے اور بلال کو بھلانے میں اس کی مدد کرے۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ