بھابی سے نکاح

Sublimegate Urdu Stories

بانو کی ماں ایک غریب بیوہ تھی۔ اس کے اور بھی بچے تھے، جن کا پیٹ بھرنے کو وہ دن بھر محنت مزدوری کرتی تھی۔ بانو چونکہ ہمارے گھر کا کام کاج کر دیا کرتی تھی، تبھی اماں ان کے گھر کھانا وغیرہ بھجوا دیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ کپڑوں سے بھی مدد بہم پہنچاتی تھیں۔ اسی سبب سے بانو کی ماں نے بیٹی کو ہمارے حوالے کر رکھا تھا۔ان دنوں میرے بڑے بھائی شرجیل سیکنڈ ایئر کے طالب علم تھے۔ ان پر جانے کیا بھوت سوار ہوا کہ وہ اس لڑکی کو بہانے بہانے تنگ کرنے لگے۔ میں ان سے چار سال چھوٹی تھی، کچھ نہ کہہ سکتی تھی، مگر بھائی کی حرکتیں مجھے ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ ہونی ہو کر رہتی ہے، اور کسی کی بدنیتی چھپی نہیں رہتی۔ یہ بات سارے گھر کو معلوم ہو گئی، محلے تک پہنچی اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ عورتیں بانو کی ماں کو لعنت ملامت کرنے لگیں۔ 

تنگ آ کر اس نے بیٹی کا گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ اماں اس وجہ سے پریشان تھیں کہ سارے گھر کا کام بانو کرتی تھی، اب ان پر بوجھ آپڑا تھا، اور شرجیل بھائی اس پابندی سے یوں چکرا گئے کہ گھر میں جو ایک دِل لگی کا سامان تھا، وہ نہ رہا۔ تاہم کچھ سیانوں نے شکر کیا کہ بانو کی ماں نے عقل مندی سے کام لیا، جو بیٹی کو گھر بٹھا لیا ہے۔ لیکن بھائی نے پھر بھی لڑکی کا پیچھا نہ چھوڑا اور بچوں کے ہاتھ خط لکھ لکھ کر بانو کو بھجوانے لگے۔ کبھی چھت پر آنے کو کہتے، اور بہت سی چیزیں اس وقت اس کو بھجواتے جب اس کی ماں گھر پر نہ ہوتی۔ بانو ناسمجھ تھی۔ شرجیل بھیا کی دھمکیوں میں آ جاتی اور ڈر کر ان کا کہا مان لیتی۔ کبھی وہ چھت پر آ جاتی، کبھی باڑے میں آ کر بیٹھ جاتی۔ یوں یہ برائی اپنی انتہا کو پہنچی، تو بانو کی ماں ایک دن گھبرا کر ہماری ماں کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اب تم ہی بتاؤ، میری بیٹی سے کون شادی کرے گا، تمہارا شرجیل قصوروار ہے، اب تم میری بیٹی کی شادی اپنے بیٹے سے کر دو۔

یہ بات سُن کر میری ماں آگ بگولا ہو گئیں۔ اس بیوہ کو بے نقط سنا دیں اور ایسے کلمات منہ سے نکالے کہ وہ غریب دم بخود رہ گئی۔ وہ بیچاری تو محلے والوں کے خوف سے بیٹی کو لے کر نجانے کہاں چلی گئی۔ جاتے جاتے البتہ بددعا دے گئی کہ خدا کرے تمہارا بیٹا بھی سہرے کی خوشیاں نہ دیکھ سکے۔ اماں نے کہا تھا کہ ہمارے ٹکڑوں پر پلی ہے اور اب ہماری برابری کرنے کو آ گئی ہے۔ بانو کی ماں کو غریب جان کر اماں ایسا بول تو گئیں، مگر یہ بھول گئیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔

وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ شرجیل بھائی نے گریجویشن مکمل کر لی، ملازمت بھی اچھی مل گئی، تبھی میری ماں کو بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کی سوجھی۔ ان دنوں پاکستان اور بھارت میں رشتہ داروں سے ملنے کو آنا جانا آسان تھا۔ وہاں سے لوگ اپنے لڑکوں کے لیے قریبی رشتہ داروں کی لڑکیاں بھی بیاہ کر لے آتے تھے۔اماں اپنے بھائی علم الدین سے بے حد محبت کرتی تھیں، جو بھارت میں رہتے تھے۔ ان سے ناتا جوڑے رکھنے کو وہ ان کی لڑکی رافعہ سے بیٹے کا عقد چاہتی تھیں۔ لہٰذا اپنی دیرینہ آرزو پوری کرنے کو انہوں نے ماموں کو دہلی خط لکھا۔ ماموں نے جواب دیا کہ بہن، میری بیٹی تمہاری بیٹی ہے، جب چاہو آؤ اور رافعہ کو بہو بنا کر لے جاؤ۔یہ نوید ملتے ہی والدہ نے کسی کو بتائے بغیر پاسپورٹ اور ویزا تیار کرایا اور شرجیل بھائی کو لے کر بھارت چلی گئیں۔ شرجیل بھائی تو سدا کے دل پھینک تھے، جس لڑکی کو دیکھتے دل ہار بیٹھتے۔ رافعہ پڑھی لکھی، سلجھی ہوئی، بات کرنے کا سلیقہ رکھنے والی، اچھے اطوار کی اور خوبصورت بھی تھی۔ عرض، کون کافر ایسے رشتے سے انکار کرتا۔ شرجیل بھائی نے فوراً ہاں کر دی۔ 

پس وہاں چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ ہوا، اور اماں خیر سے بہو بیٹے کے ساتھ واپس لوٹ آئیں۔ رافعہ بھابھی کو پاکستان اچھا لگا، اور وہ ہم سب کو پسند آ گئیں۔ سبھی بھابھی کی قسمت پر رشک کرنے لگے کہ ایسے دل پھینک کو کتنی اچھی بیوی مل گئی۔ سب نے یہی کہا کہ اب دیکھنا، یہ لڑکا سدھر جائے گا۔ اتنی خوبصورت اور سلیقے والی بیوی ملی ہے، مگر بھائی شرجیل نہ سدھرے۔ جلد ہی ان کے کرتوت ہماری بھابھی کو معلوم ہو گئے، مگر وہ صبر والی تھیں۔ خاموشی سے برداشت کرتی رہیں، کسی سے گلہ نہ کرتیں۔ میکے والوں کو بھی کبھی کچھ نہ لکھا کہ ماں باپ خواہ مخواہ پریشان رہیں گے۔ کہتیں کہ جو میری قسمت میں تھا، مل گیا، اب زندگی سلیقے سے گزارنی ہے۔ شرجیل بھائی کی شادی کو دو برس گزر گئے، مگر انہوں نے غلط قسم کے دوستوں کی صحبت نہ چھوڑی۔ غلط جگہوں پر جانا ان کا معمول بن چکا تھا۔ وہ اکثر رات گئے گھر لوٹتے تھے۔ بھابھی بیچاری گھٹ گھٹ کر رہ جاتیں، منہ سے ایک لفظ نہ کہتیں۔ اماں بھی چپ تماشہ دیکھ رہی تھیں۔ جوان بیٹا ہے، بدنامی سے ڈرتی تھیں۔

ایک دن ہم سب بیٹھے تھے کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرا چھوٹا بھائی یاسر دروازے پر گیا۔ بڑے بھائی کو گھر سے گئے دوسرا دن تھا، ہم سب ان ہی کا انتظار کر رہے تھے۔ آنے والے نے بتایا کہ ایک مغنیہ کے کوٹھے پر شرجیل اپنے دوستوں کے ساتھ گانا سننے گئے تھے۔ کسی بات پر وہاں جھگڑا ہو گیا، وہ زخمی ہو کر اسپتال میں ہیں۔ جلدی چلیے، ان کی حالت نازک ہے۔ شرجیل بھائی دو دن اسپتال میں بے ہوش رہے، سر پر شدید چوٹ آئی تھی۔ آخرکار وہ بے ہوشی کی حالت میں ہی انتقال کر گئے، اور وہ رقاصہ بھی جان کی بازی ہار گئی۔ ہمارے گھر میں تو کہرام برپا ہو گیا۔ جب میرے جوان بھائی کی لاش گھر لائی گئی، ہر آنکھ اشک بار تھی۔ رو دھو کر آخر سبھی کو چپ ہو جانا پڑا۔ بیچاری رافعہ بھابھی کی حالت غیر تھی۔ ان کا سہاگ اجڑ گیا تھا۔ شوہر کیسا بھی ہو، بیوی ہمیشہ اس کی زندگی کی خواہاں ہوتی ہے۔ بیوگی کا عذاب کم نہیں ہوتا۔ بھائی کی وفات کے بعد رافعہ بھابھی گھر میں سبھی کو الگ الگ سی لگنے لگیں۔ 

اماں کو بھی ان سے ویسی انسیت نہ رہی جیسی پہلے تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ مرحوم بیٹے کی بیوہ کو گلے سے لگاتیں، تاکہ اس کا غم کچھ ہلکا ہوتا، مگر وہ تو بھابھی کی مخالفت میں بیٹے کا غم بھی بھول گئیں۔ حد سے بڑھ کر بہو سے گریزاں رہنے لگیں۔ کہا کرتی تھیں، اگر جانتی کہ اس لڑکی اور میرے بیٹے کے ستارے ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے، تو کبھی اسے بہو نہ بناتیں۔ایسی باتوں کا بھلا کس کے پاس کیا جواب ہوتا؟ انہیں یہ خبر نہ تھی کہ جس بہو کو وہ منحوس قدم سمجھ رہی ہیں، وہ حاملہ ہے۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو شاید وہ اپنی بھتیجی سے یوں بے رخی نہ برتتیں۔اس سے پہلے کہ وہ رافعہ کو واپس میکے بھیجنے کی کوئی تدبیر کرتیں، بھابھی نے بتایا کہ اماں، میں امید سے ہوں، اور کچھ ماہ بعد آپ کے آنگن میں پوتے یا پوتی کی آمد متوقع ہے۔ اس پر اماں کا دل ٹھہر گیا، اور انہوں نے رافعہ کو گلے سے لگا لیا۔ انتظار کے دن گزر گئے، اور بھابھی کے یہاں ایک بیٹے نے جنم لیا۔ ماں نے آگے بڑھ کر نومولود کو بانہوں میں بھرا، کلیجے سے لگا لیا اور کہا کہ یہ تو میرے شرجیل کی ہو بہو تصویر ہے، میرے لختِ جگر کی نشانی، اس کا جانشین ہے۔ منے کا نام رابیل رکھا گیا۔اس کی پیدائش کے بعد گھر کا ماحول ہی بدل گیا۔

 ماں، جو پہلے ہمہ وقت افسردہ اور ملول رہا کرتی تھیں، پوتے کو پا کر بہت خوش ہو گئیں۔ وہ ان کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ہر ایک سے کہا کرتی تھیں کہ دیکھو، میرے شرجیل کی روح واپس آ گئی ہے۔وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ یاسر نے تعلیم مکمل کر لی، تو اسے ملازمت مل گئی۔ شرجیل کی جگہ اس نے لے لی بلکہ پورے گھر کو ہی سنبھال لیا۔ بھابھی کو بھی اس نے کسی قسم کی مالی پریشانی نہ ہونے دی۔رابیل ڈیڑھ سال کا ہو چکا تھا۔ رافعہ بھابھی نے پورا گھر سنبھال رکھا تھا۔ وہ دن بھر کام کاج میں لگی رہتی تھیں، کہیں آتی جاتیں نہ تھیں۔ اور نہ میری اماں ہی یہ چاہتی تھیں کہ وہ محلے پڑوس میں میل جول رکھیں۔ اس طرح پانچ برس یونہی گزر گئے۔

صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ایک دن بھابھی نے کہا کہ مجھے اپنے والدین سے ملنا ہے، میں انڈیا جانا چاہتی ہوں۔ جب سے شادی ہو کر آئی تھیں، وہ ایک بار بھی میکے نہیں گئی تھیں۔ ان کے دل پر ماں باپ اور بہن بھائیوں کی یاد شدت سے طاری ہونے لگی تھی۔ ماں نے جب بہو کی آرزو سنی تو سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ کہنے لگیں، اگر تم میکے جا کر واپس نہ آئیں تو میں کیا کروں گی؟ پوتے کے بغیر کیسے جیوں گی؟ میں تو ایک پل کو بھی رابیل کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بھابھی ساس کی باتوں سے پریشان ہو گئیں۔ میں دیکھ رہی تھی ان کی بے بسی کو، اور ادھر اماں کو بھی کس قدر ناانصاف واقع ہوئی تھیں۔ انہیں صرف پوتے کی جدائی کا دکھ تھا، یہ احساس تک نہ تھا کہ بیچاری رافعہ جو اتنے برسوں سے اپنوں سے جدا ہے، اس کے دل پر کیا بیتتی ہو گی۔ یاسر اور مجھ سے بھابھی کی حالت دیکھی نہ گئی۔ ہم دونوں نے کہا، بھابھی، آپ ضرور انڈیا جائیں گی۔ ہم دیکھتے ہیں، کون آپ کو روکتا ہے۔ یاسر بھائی نے بھی کہا، بھابھی، میں خود آپ کو آپ کے میکے لے کر جاؤں گا۔
بھابھی تو خوش ہو گئیں، جیسے مردہ تن میں جان پڑ گئی ہو۔ لیکن اماں منہ لپیٹ کر لیٹ گئیں۔ سارا دن بڑبڑاتی رہیں، یاسر سے بات کرنا چھوڑ دیا۔ ہر آنے جانے والے سے ہمارے بارے میں جانے کیا کیا کہتیں۔ یہاں تک کہ کہہ دیا کہ اگر میرا بس چلے تو پوتے کی خاطر یاسر سے رافعہ کا عقدِ ثانی کرا دوں، مگر رابیل کی جدائی مجھ سے برداشت نہیں ہوگی۔یہ بات بھابھی نے بھی سن لی۔ ان کے دل پر کیا گزری ہو گی، یہ سوچ کر ہی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ وہ تو دیور کو چھوٹے بھیا کہتی تھیں، اور یاسر بھی انہیں بڑے بھائی کی امانت سمجھتا تھا۔ وہ کیسے ایسی بات کا تصور بھی کر سکتا تھا؟ ہمارے لیے تو رافعہ آج بھی اتنی ہی محترم تھیں جتنی بھائی شرجیل کی زندگی میں تھیں۔یہ بات اگر صرف گھر تک محدود رہتی، تو شاید برداشت ہو جاتی۔ مگر جب یاسر نے اپنے اور بھابھی کے پاسپورٹ بنوائے اور ویزے بھی لگوا لیے، تو اماں نے طوفان کھڑا کر دیا۔ انہوں نے رشتہ داروں اور محلے والوں سے کہنا شروع کر دیا کہ یاسر اور رافعہ اس لیے انڈیا جا رہے ہیں کہ وہاں جا کر نکاح کر لیں گے۔یہ الزام گولی کی طرح دل میں لگا۔

 پہلے تو میں اور یاسر روئے، بھابھی بھی دل برداشتہ ہو گئیں۔ اچانک میرے دل میں ایک خیال آیا: شاید اماں ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ اگر رافعہ اس گھر کی عزت ہیں، تو کیوں نہ اس گھر کی عزت بن کر ہی رہیں؟ ورنہ وہ جب چاہیں، رابیل کو لے کر چلی جائیں گی۔ ہم کیسے روک سکیں گے؟ ہم کو رابیل کی جدائی تو بہرحال برداشت کرنا ہوگی۔ بھابھی نے بھی صاف کہہ دیا کہ اگر ایک بار اپنے والدین کے پاس انڈیا چلی گئی، تو پھر کبھی واپس نہیں آؤں گی۔ جب شوہر ہی نہیں رہا، تو مجھ پر اس گھر میں عمر بھر رہنے کی پابندی کیوں؟تب ہم نے سوچا، کیوں نہ کوئی ایسا حل تلاش کریں جس سے بھابھی بھی بس جائیں، اور رابیل بھی ہم سے جدا نہ ہو۔ لیکن یہ سب سوچنے تک محدود تھا۔ حقیقت میں بھابھی سے یہ بات کہنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ماں، جیسی بھی ہو، آخر ماں ہوتی ہے۔ کوئی بیٹا یہ نہیں چاہتا کہ ماں کو دُکھی دیکھے۔ یاسر بھی یہی چاہتا تھا کہ اس کا لاڈلا پوتا ماں سے جدا نہ ہو۔ مگر ہم اُسے اس کی ماں سے بھی جدا نہیں کر سکتے تھے۔بہرحال، وہ دن بھی آیا، جب بھابھی اپنے بیٹے کے ساتھ، یاسر کے ہمراہ انڈیا روانہ ہو رہی تھیں۔ پوتے کو گلے سے لپٹا کر اماں کی حالت ایسی ہو گئی جیسے جان نکل رہی ہو۔ وہ اسے بار بار چومتی رہیں۔ میں وہ منظر دیکھ نہیں پائی۔ تبھی دل میں ایک خواہش جاگی، کاش رافعہ دوبارہ ہماری بھابھی بننے کو تیار ہو جائے۔ یاسر سے نکاح کر لے۔ ہمارا گھر پھر سے ہرا بھرا ہو جائے۔
رافعہ ابھی جوان تھی، خوبصورت تھی، ایک بچے کی ماں تھی۔ کیا ساری عمر وہ بیوگی اور تنہائی میں گزار دے گی؟ تبھی میں نے ایک خط ماموں علم الدین کے نام لکھا اور یاسر کے حوالے کیا کہ یہ امی کی طرف سے ہے، انہیں دے دینا۔ اس خط میں میں نے التجا کی تھی کہ ایک بار پھر ہمیں موقع دیں، اور رافعہ کے لیے یاسر کا رشتہ قبول کر لیں، تاکہ رابیل ہم سے جدا نہ ہو۔یہ بات بھابھی سے کہنا میرے بس کی بات نہ تھی، مگر مجھے امید تھی کہ ماموں اپنی بیٹی کو سمجھا لیں گے۔ آخر ان کے لیے بھی یہ مسئلہ آسان نہ تھا کہ بیٹی کی دوبارہ شادی کریں یا اسے ہمیشہ بیوگی میں رکھیں۔یاسر سے بھی میں نے التجا کی کہ بھیا، امی اور رابیل کی خاطر ماموں کے قدموں میں بیٹھ جانا، اور رافعہ کو بھی نرمی سے سمجھانے کی کوشش کرنا۔ وہ خاموش ہو گیا، کچھ نہ بولا۔ہم نے بھابھی کو گلے لگا کر رخصت کیا۔ امی اور میں خوب روئے، مگر اس وقت کوئی بات نہیں کی۔ سوچا، بھابھی وہاں جا کر سکون میں رہیں گی، تبھی کچھ نیا سوچ سکیں گی۔چار دن تو مہمان داری میں گزر گئے۔ چوتھے دن یاسر نے وہ خط ماموں کے حوالے کیا۔ ماموں نے پڑھا، پھر خاموش ہو گئے۔ ممانی نے بھی پڑھا، اور چپ سادھ لی۔ شاید وہ بیٹی سے مشورہ کرنا چاہتے تھے۔ضرور انہوں نے اکیلے میں رافعہ سے بات کی۔ پھر یاسر سے کہا، اگر ہماری بیٹی وہاں خوش ہے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مگر اسے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔

رافعہ کو سوچنے کے لیے وقت دیا گیا۔ بالآخر اس نے کہہ دیا کہ دیور سے عقدِ ثانی مجھے قبول نہیں۔ میں خود کو دوسری شادی پر آمادہ ہی نہیں کر پا رہی۔زبردستی تو ہو نہیں سکتی تھی۔ سبھی خاموش ہو گئے۔ یاسر کی واپسی کا وقت آ گیا۔ اس نے بوجھل دل کے ساتھ سب کو خدا حافظ کہا، اور رابیل کو آخری بار گلے سے لگا لیا۔بچے کو تبھی احساس ہو گیا کہ اس کا چچا اسے چھوڑ کر جا رہا ہے۔ وہ چیخیں مار مار کر رونے لگا اور یاسر کی گردن سے لپٹ گیا۔ اسے جدا کرنا مشکل ہو گیا۔ وہ چلا رہا تھا:مما! مجھے چاچا کے ساتھ دادی کے پاس جانا ہے! مما! تم بھی ہمارے ساتھ چلو! گھر واپس چلو!بچے کی چیخ و پکار نے سب کو سکتے میں ڈال دیا۔ رافعہ بھی بے بس ہو گئی۔ یوں یاسر کا جانا ملتوی ہو گیا۔ رافعہ کو کہنا پڑا: یاسر، کچھ دن ٹھہرو، ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔ رابیل یہاں نہیں رہنے والا۔ یہ مجھے پریشان کرے گا۔ یہ جہاں پیدا ہوا ہے، وہیں رہے گا۔ اور اس کے بغیر میں بھی نہیں رہ سکتی۔ اب وہی میرا گھر ہے، وہیں جانا ہوگا۔
اسی ہفتہ کے اندر رافعہ کا نکاح یا سر سے کر دیا گیا اور یہ تینوں ایک نئے رشتے میں بندھ کر گھر کو لوٹ آئے۔ اماں کو بتایا تو وہ شرجیل بھائی کو یاد کر کے روئیں اور رابیل کو دل سے لگا کر خوش بھی ہو گئیں۔ یاسر الگ سوچ رہا تھا کہ یہ قدم اس نے اپنی خوشی سے نہیں صرف اور صرف ماں کی خوشی کے لئے اٹھایا تھا، جیسا کہ بھابھی رافعہ نے اپنے بیٹے کو خوش دیکھنے کے لئے قربانی دی تھی۔ شاید مشرقی مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ اولاد کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہیں۔ بہر حال، آج اماں اس دنیا میں نہیں ہیں، مگر ان کی دعاؤں سے ہم سب بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ رافعہ پہلے سے زیادہ خوش ہے کیونکہ یاسر بھائی میں کوئی بری عادت نہیں ہے۔ ان کی منزل تو ان کا گھر ہے۔ ان کو نہ راتیں گھر سے باہر گزارنے کا شوق ہے اور نہ غلط جگہوں پر جانے کی عادت۔ سب ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ