آپی صفیہ مجھ سے آٹھ سال بڑی تھی۔ وہ ہماری پہلی امی کی اولاد تھی۔ جب پہلی بیوی وفات پا گئیں تو والد صاحب نے ننھی منی صفیہ کی وجہ سے دوسری شادی نہ کی کیونکہ ماں کی فوتگی کے وقت یہ بد نصیب بچی دو برس کی اور اپنے پالنے میں سوتی تھی۔ بیٹی کے پالنے کو خود ابا اپنے ہاتھوں سے جھلاتے اور صفیہ کو سلاتے تھے۔ اس وقت نانی حیات تھیں۔ جو بچی کو سنبھالتی تھی۔ تاہم ان کی عمر 70 برس تھی وہ دو برس ہی جی سکیں۔ اس کے بعد صوفیہ کو پالنے اور سنبھالنے والا کوئی نہ رہا۔
رشتہ داروں کے سمجھانے پر والد صاحب نے بالاخر دوسری شادی کا قصد کیا اور میری والدہ سے نکاح کیا۔ جو عمر میں ان سے دس برس چھوٹی تھیں۔ شادی کے وقت 15 برس کی تھی تین سال بعد میں نے جنم لیا تب امی مجھے بھی سنبھالنے سے قاصر تھیں۔ وہ آپی صفیہ کو کیا سنبھالتیں بہرحال آپی تب آٹھ برس کی ہو چکی تھی۔ انہوں نے ہی مجھے بازوں میں اٹھا لیا اور وہی اب میرے تمام کام کرتی تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ جس بچی کی پرورش کی خاطر ابو نے دوسری شادی کی تھی کم سنی میں وہی میری دیکھ بھال اور پرورش پر مامور ہو گئی۔
آپی نے جب مجھے بہت پیار دیا تو میری ماں کو بھی وہ پیاری لگنے لگی۔ وہ سوتیلی بیٹی کو جان سے بڑھ کر چاہنے لگی۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھتی اور میں دن رات آپی کے پاس رہتی۔ وہی مجھے نہلاتی دھلاتی کپڑے پہناتی اور اپنے پاس سلاتی امی کو آرام ملتا تھا۔ میرے بعد دو بھائی اور آگئے۔ ان کی بھی دیکھ بھال آپی نے کی تو وہ امی ابو کی آنکھ کا تارا بن گئیں۔ وہ اب بڑی ہو گئی تھیں۔ میٹرک پاس کر لیا تھا تب ان کے لیے ایک اچھے گھرانے سے رشتہ آگیا۔ لڑکا میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا لیکن اس کے بیمار دادا پوتے کا سہرا دیکھنے پر بضد تھے۔ تبھی ان لوگوں کو جلد بیٹے کی شادی کرنا تھی آپی بھی چونکہ بہت خوبصورت تھیں لڑکے والوں کو پہلی نظر میں پسند آگئی۔ والدین نے سوچا کہ لڑکا ڈاکٹر بن رہا ہے ہماری بیٹی کا مستقبل روشن ہوگا خوشحال گھرانہ ہے انہوں نے فورا ہاں کر دی۔ یوں میری پیاری بہن بیاہ کر اپنے گھر کی ہو گئی۔
ہر لڑکی کی اپنی الگ قسمت ہوتی ہے۔ کہنے کو آپی امیر گھر بیہائی گئی تھیں اور ان کے شوہر مستقبل کے مسیحا تھے مگر وہاں ان کے ساتھ عجب مسئلہ درپیش ہوا کہ آپی کی ساس نے پہلے ہی دن حکم صادر کر دیا کہ جب تک مسعود تعلیم ختم نہیں کر لیتا دولہا اور دلہن کا کمرہ علیحدہ ہوگا۔ یعنی کہ اپی اپنے دولہا کے کمرے میں نہیں جا سکتی تھی۔ انہیں یہ کہہ کر اپنے جیون ساتھی کے کمرے میں ہی جانے نہ دیا جاتا تھا کہ میڈیکل کی پڑھائی ہے دلہن کے چونچلوں میں لگا رہا تو اس کا ذہن بھٹک جائے گا۔ وہ ڈاکٹر کی تعلیم مکمل نہ کر سکے گا اس طرح ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنے شریک زندگی سے دور رکھی جاتی تھیں۔ ان سے گھل مل کر باتیں نہ کر سکتی تھیں وہ اداس رہنے لگی تھیں۔ دونوں سیر و تفریحی کو نہ جا پاتے تھے مسعود بھائی کو کھانا وغیرہ دینے بھی ان کی والدہ یا بہن جاتی تھیں۔ ان کے سارے کام ان کی ماں ہی کرتی تھیں آپی تو دور تماشائی بنی سارا کھیل دیکھتی رہتی تھی الٹا ساس ان سے گھر کے کام لیتی اور سلواتیں سناتی تھیں۔ دل جوئی تو دور کی بات تھی اس سلوک پر میری بہن کو چپ لگ گئی۔ رفتہ رفتہ ان کی صحت خراب ہونا شروع ہو گئی۔
شروع شروع میں تو مسعود بھائی کو اپنی دلہن کی حالت پر دکھ ہوتا تھا مگر منہ سے کچھ نہ کہتے تھے کیونکہ اپنی پڑھائی کا تمام خرچہ ان کے بڑے بھائی اٹھا رہے تھے۔ جب آپی دو چار روز کو میکے آتی تو مسعود بھائی کو موقع مل جاتا تب وہ کالج سے سیدھے ہمارے گھر آ جاتے اور گھر والوں سے چھپ کر اپنی دلہن کے ساتھ رہ لیتے۔ ان دو چار دنوں میں وہ اپنی دلہن کی دل جوئی کر لیتے تھے ورنہ پھر وہی سسرال کا گھر اور وہی ساس کا دباؤ جس میں جلانے کو ہماری اپی کو ایندھن بنایا گیا تھا۔ بس اسی کھینچا تانے میں ہماری آپی کی زندگی کے دن گزرنے لگے پہلے پہل تو مسعود بھائی چوری چھپے اپنی دلہن کی طرف بہت لپکے۔ پھر ہمت ہار دی۔ گھر سے باہر کالج میں پڑھائی اور گھر کے اندر ان پر عائد پابندیوں نے انہیں اپنی بیوی سے مستقل دور اور بیگانہ کر دیا۔ جب مسعود بھائی میڈیکل کے دوسرے سال میں تھے تب ان کی شادی اپی سے ہوئی۔ چھ سال میں ان کے تین بچے ہو گئے اور وہ پاس اؤٹ بھی ہو گئے تھے۔ لیکن مزید چار سال کی اعلی تعلیم کے لیے ان کو بیرون ملک بھیجنے کی باتیں گھر میں ہونے لگی تھی۔
ڈاکٹر کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کی تعیناتی لاہور کے ایک ہسپتال میں ہو گئی وہاں ایک خوبصورت نرس جس کا نام ماریہ تھا ان سے گھل مل گئی۔ پھر اس منحوس لڑکی کی وجہ سے میری خوشیوں کی منتظر آپی کی امیدوں پر اوس پڑ گئی مسعود بھائی رفتہ رفتہ ماریہ سے قریب تر ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ بات خفیہ شادی تک جا پہنچی اس معاملے کی کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی یہاں تک کہ مسعود بھائی کو ان کے بڑے بھائی نے مزید اعلی تعلیم کے لیے امریکہ بھجوا دیا جہاں وہ پڑھنے گئے اسی ہسپتال میں کچھ نرسوں کی ضرورت کا کوٹا نکلا انہوں نے ماریہ کو مطلع کیا فارم وغیرہ بھجوا دیے۔ ہر طرح مدد کر کے اسے بلوا لیا ایک سال بعد وہ گھر والوں سے ملنے آئے۔ واپسی پر جب جا رہے تھے تو آپی اور بچوں کو ایئرپورٹ آنے سے منع کر دیا کہ بچے اداس ہو جائیں گے حتی کہ گھر والوں کو بھی سی آف کرنے سے منع کیا۔ گھر پر خدا حافظ کہہ کر اکیلے ایئرپورٹ چلے گئے۔
رشتہ داروں کے سمجھانے پر والد صاحب نے بالاخر دوسری شادی کا قصد کیا اور میری والدہ سے نکاح کیا۔ جو عمر میں ان سے دس برس چھوٹی تھیں۔ شادی کے وقت 15 برس کی تھی تین سال بعد میں نے جنم لیا تب امی مجھے بھی سنبھالنے سے قاصر تھیں۔ وہ آپی صفیہ کو کیا سنبھالتیں بہرحال آپی تب آٹھ برس کی ہو چکی تھی۔ انہوں نے ہی مجھے بازوں میں اٹھا لیا اور وہی اب میرے تمام کام کرتی تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ جس بچی کی پرورش کی خاطر ابو نے دوسری شادی کی تھی کم سنی میں وہی میری دیکھ بھال اور پرورش پر مامور ہو گئی۔
آپی نے جب مجھے بہت پیار دیا تو میری ماں کو بھی وہ پیاری لگنے لگی۔ وہ سوتیلی بیٹی کو جان سے بڑھ کر چاہنے لگی۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھتی اور میں دن رات آپی کے پاس رہتی۔ وہی مجھے نہلاتی دھلاتی کپڑے پہناتی اور اپنے پاس سلاتی امی کو آرام ملتا تھا۔ میرے بعد دو بھائی اور آگئے۔ ان کی بھی دیکھ بھال آپی نے کی تو وہ امی ابو کی آنکھ کا تارا بن گئیں۔ وہ اب بڑی ہو گئی تھیں۔ میٹرک پاس کر لیا تھا تب ان کے لیے ایک اچھے گھرانے سے رشتہ آگیا۔ لڑکا میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا لیکن اس کے بیمار دادا پوتے کا سہرا دیکھنے پر بضد تھے۔ تبھی ان لوگوں کو جلد بیٹے کی شادی کرنا تھی آپی بھی چونکہ بہت خوبصورت تھیں لڑکے والوں کو پہلی نظر میں پسند آگئی۔ والدین نے سوچا کہ لڑکا ڈاکٹر بن رہا ہے ہماری بیٹی کا مستقبل روشن ہوگا خوشحال گھرانہ ہے انہوں نے فورا ہاں کر دی۔ یوں میری پیاری بہن بیاہ کر اپنے گھر کی ہو گئی۔
ہر لڑکی کی اپنی الگ قسمت ہوتی ہے۔ کہنے کو آپی امیر گھر بیہائی گئی تھیں اور ان کے شوہر مستقبل کے مسیحا تھے مگر وہاں ان کے ساتھ عجب مسئلہ درپیش ہوا کہ آپی کی ساس نے پہلے ہی دن حکم صادر کر دیا کہ جب تک مسعود تعلیم ختم نہیں کر لیتا دولہا اور دلہن کا کمرہ علیحدہ ہوگا۔ یعنی کہ اپی اپنے دولہا کے کمرے میں نہیں جا سکتی تھی۔ انہیں یہ کہہ کر اپنے جیون ساتھی کے کمرے میں ہی جانے نہ دیا جاتا تھا کہ میڈیکل کی پڑھائی ہے دلہن کے چونچلوں میں لگا رہا تو اس کا ذہن بھٹک جائے گا۔ وہ ڈاکٹر کی تعلیم مکمل نہ کر سکے گا اس طرح ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنے شریک زندگی سے دور رکھی جاتی تھیں۔ ان سے گھل مل کر باتیں نہ کر سکتی تھیں وہ اداس رہنے لگی تھیں۔ دونوں سیر و تفریحی کو نہ جا پاتے تھے مسعود بھائی کو کھانا وغیرہ دینے بھی ان کی والدہ یا بہن جاتی تھیں۔ ان کے سارے کام ان کی ماں ہی کرتی تھیں آپی تو دور تماشائی بنی سارا کھیل دیکھتی رہتی تھی الٹا ساس ان سے گھر کے کام لیتی اور سلواتیں سناتی تھیں۔ دل جوئی تو دور کی بات تھی اس سلوک پر میری بہن کو چپ لگ گئی۔ رفتہ رفتہ ان کی صحت خراب ہونا شروع ہو گئی۔
شروع شروع میں تو مسعود بھائی کو اپنی دلہن کی حالت پر دکھ ہوتا تھا مگر منہ سے کچھ نہ کہتے تھے کیونکہ اپنی پڑھائی کا تمام خرچہ ان کے بڑے بھائی اٹھا رہے تھے۔ جب آپی دو چار روز کو میکے آتی تو مسعود بھائی کو موقع مل جاتا تب وہ کالج سے سیدھے ہمارے گھر آ جاتے اور گھر والوں سے چھپ کر اپنی دلہن کے ساتھ رہ لیتے۔ ان دو چار دنوں میں وہ اپنی دلہن کی دل جوئی کر لیتے تھے ورنہ پھر وہی سسرال کا گھر اور وہی ساس کا دباؤ جس میں جلانے کو ہماری اپی کو ایندھن بنایا گیا تھا۔ بس اسی کھینچا تانے میں ہماری آپی کی زندگی کے دن گزرنے لگے پہلے پہل تو مسعود بھائی چوری چھپے اپنی دلہن کی طرف بہت لپکے۔ پھر ہمت ہار دی۔ گھر سے باہر کالج میں پڑھائی اور گھر کے اندر ان پر عائد پابندیوں نے انہیں اپنی بیوی سے مستقل دور اور بیگانہ کر دیا۔ جب مسعود بھائی میڈیکل کے دوسرے سال میں تھے تب ان کی شادی اپی سے ہوئی۔ چھ سال میں ان کے تین بچے ہو گئے اور وہ پاس اؤٹ بھی ہو گئے تھے۔ لیکن مزید چار سال کی اعلی تعلیم کے لیے ان کو بیرون ملک بھیجنے کی باتیں گھر میں ہونے لگی تھی۔
ڈاکٹر کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کی تعیناتی لاہور کے ایک ہسپتال میں ہو گئی وہاں ایک خوبصورت نرس جس کا نام ماریہ تھا ان سے گھل مل گئی۔ پھر اس منحوس لڑکی کی وجہ سے میری خوشیوں کی منتظر آپی کی امیدوں پر اوس پڑ گئی مسعود بھائی رفتہ رفتہ ماریہ سے قریب تر ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ بات خفیہ شادی تک جا پہنچی اس معاملے کی کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی یہاں تک کہ مسعود بھائی کو ان کے بڑے بھائی نے مزید اعلی تعلیم کے لیے امریکہ بھجوا دیا جہاں وہ پڑھنے گئے اسی ہسپتال میں کچھ نرسوں کی ضرورت کا کوٹا نکلا انہوں نے ماریہ کو مطلع کیا فارم وغیرہ بھجوا دیے۔ ہر طرح مدد کر کے اسے بلوا لیا ایک سال بعد وہ گھر والوں سے ملنے آئے۔ واپسی پر جب جا رہے تھے تو آپی اور بچوں کو ایئرپورٹ آنے سے منع کر دیا کہ بچے اداس ہو جائیں گے حتی کہ گھر والوں کو بھی سی آف کرنے سے منع کیا۔ گھر پر خدا حافظ کہہ کر اکیلے ایئرپورٹ چلے گئے۔
ابو کو خبر ہوئی تو وہ اپنے گھر سے ان کو سی آف کرنے ایئرپورٹ پر پہنچ گئے وہاں پہنچ کر ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ نرس مایا کے ہمراہ جا رہے تھے جو ان کی بیوی کے طور پر ساتھ جا رہی تھی۔ والد نے دور سے ہی دیکھا اور بغیر بات کیے ازردہ دلی سے گھر واپس آگئے۔
گھر آکر امی کو بتایا وہ بھی رنجیدہ ہو گئیں۔ انہوں نے آپی کی ساس کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کیا تو پتہ چلا کہ اس راز سے صرف مسعود بھائی کی والدہ آگاہ تھی کہ مسعود نے ماریہ سے پاکستان میں ہی پہلے سال شادی کر لی تھی۔ امی ابو نے باہم مشورہ کیا کہ صفیہ بیٹی کو بتانا چاہیے یا نہیں؟ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بیٹی کو بتا دینا چاہیے۔ اسے اندھیرے میں رکھنا درست نہیں ہے۔ والدین نے اپنی صفیہ سے کہا کہ اب سسرال کا گھر چھوڑ دو۔ انتظار کے اذیت بھرے جال سے نکلو اور میکے لوٹ آؤ۔ لیکن آپی نے انکار کر دیا کہ میرے تین بچے ہیں ان کو ددھیال میں پلنے دیں انہیں لے کر نہیں آسکتی۔ میں وہیں رہوں گی مجھ سے نہ سحی مسعود کبھی تو اپنے بچوں سے ملنے ائیں گے۔
یوں ہی سال پر سال گزرتے گئے۔ آپا کے دونوں لڑکے میٹرک پاس کر گئے تو مسعود بھائی نے اعلی تعلیم کے بہانے سے ان کو اپنے پاس بلوا لیا۔ آپی نے دل پر پتھر رکھ کر دونوں لخت جگر خود سے ہزاروں میل دور باپ کے پاس بھجوا دیے۔ 10 سال بعد ایک روز مسعود بھائی اپنی چھوٹی بہن کی شادی میں شرکت کرنے اچانک پاکستان آگئے۔ دوسری بیوی یعنی ماریہ ساتھ تھی اور ان کے ماریہ سے دو لڑکے بھی ہمراہ آئے تھے۔ لیکن میرے بھانجے ساتھ نہ تھے کہا کہ ان کے امتحانات تھے لہذا وہ نہیں آسکے۔ آپی جن کی آنکھیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کی دید کو ترس رہی تھیں سامن بادوں کی مانند بر س پڑی۔ پہلی بار سوتن کا سامنا ہوا تو آپی کا چہرہ ایسا بجھا ہوا تھا جیسے جلتے اوپلے کے اوپر راکھ۔ بڑے حوصلے سے میاں کی بیگم سے ملی مگر وہ محترمہ تو ایسی ہوائی مخلوق کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ برسوں بعد شوہر کا منہ دیکھا تو وہ بھی بیگانہ سا لگا۔ ان کے لیے کچن میں کھانا بناتی جاتی تھی اور آنسو بھی پونچتی جاتی تھی۔ دو گھڑی تنہائی میں تو کیا سب کے سامنے بھی ان کی آپی کے ساتھ دکھ سکھ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
ماریہ نے بھی شوہر اور سوتن پر ایسی کڑی نظر رکھی ہوئی تھی کہ کیا مجال جو لمحہ بھر کو وہ آ کر آپی کے پاس بیٹھ جاتے اور پوچھ لیتے۔ آپی کی بیٹی دانیا کافی سمجھدار ہو چکی تھی وہ اکثر ہمارے گھر رہنے آ جاتی تھی۔ اپنی پھوپھی کی شادی میں جو سوتیلی ماں کو دیکھا تو ماریہ سے ہی نہیں باپ سے بھی اس کو نفرت محسوس ہوئی۔ جس شخص کا برسوں انتظار کیا وہ بیٹی سے ملا بھی تو دل سے نہیں۔ دانیا بہت دکھی ہو گئی بلکہ وہ بڑی سمجھدار تھی ماں کی رنجیدگی کو محسوس کر کے اس نے اپنا دکھ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس نے ماں کو تنہائیوں کی آگ میں برسوں سلگتے دیکھا تھا اور ماریہ کو بھی دیکھ لیا کہ اس عورت کی چالاکی، طراری اور تیزی اس کے انگ انگ سے پھوٹی پڑتی تھی۔
بارات والے دن ماریہ نے خوب سارے زیورات پہنے اور جب رات کو خوابگاہ میں سونے کو جانے لگی تو آپی کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ آپ ہی اس گھر کی محافظ ہیں تو یہ میرے زیور رکھ لیں۔ صبح لے لوں گی آپی نے زیورات لے کر اپنی سیف میں رکھ دیے اور چابیاں اپنے سرہانے نیچے رکھ کر سو گئی۔