وہ شادی کے کاموں سے تھکی ہوئی تھیں جانے کب گہری نیند میں چلی گئیں ماریہ بھی ابھی طاق میں تھی۔ خدا معلوم کب وہ کمرے میں آئی اور آپی کے سرہانے سے چابیاں نکال لیں اور سیف میں سے زیور اٹھا کر لے گئی۔ جب مسعود بھائی واپسی کی تیاری کرنے لگے ماریہ نے آپی سے اپنے زیورات طلب کیے وہ بھاگی ہوئی گئیں سیف کھولا تو زیورات موجود نہیں تھے۔ سکتے میں رہ گئیں۔ کبھی اس گھر میں ایک پائی کا ہیر پھیر نہ ہوا تھا۔ وہ تو چکرا کر میں مسہری پر گر گئی۔ اب ماریہ کو موقع مل گیا اپنی تیزی دکھانے کا اور خوب شور مچایا کہ میرے زیور لائیے وہ تو تمہارے پاس میری امانت تھے۔ آپی بیچاری بوکھلا کر بار بار سیف کھولتی اور پٹ جھانک کر پھر سیف کا پٹ بند کر دیتی۔ ان کی حالت دیکھ کر میں اور دانیہ دل ہی دل میں رو رہے تھے۔
آخر ابو اور امی کو میں نے فون کیا وہ آگئے اور امی اپنا اور میرا زیور لے آئی وہ ماریہ کے آگے دھر دیا۔ ماریہ بولی پرانے ڈیزائن؟ کیا یہ بھی پہننے کے لائق ہیں جو میں بہنوں گی؟ مجھے تو اپنا والا ہی چاہیے۔ آخر کہاں گئے زیور؟ کیوں نہیں دیتی ہو؟ ساس بھی دانت نکوسنے لگی۔ آپنی رونے لگی تب مسعود بھائی بولے میں اور لیے دیتا ہوں تم کو ماریہ۔ چلو میرے ساتھ جیولری شاپ پر جو پسند آئے لے لو مگر اس جھگڑے کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔
مجھے آج بھی اپنی آپی کا رونا اور خجالت سے دھیرے دھیرے مرتے جانا بھولتا نہیں ہے۔ بالاخر مسعود بھائی اور ماریہ اپنے بچوں کو لے کر چلے گئے۔ مگر ساس نندیں، دیور سبھی آپی کا طرح طرح کی باتیں کر کے خون خشک کیے دے رہے تھے۔ رات بھر وہ روتی رہی دانیہ نے ماں کو گلے لگایا۔ چپ کرانے کی کوشش کی بیٹی سے کہا: دیکھ لینا دانیہ اب میں صبح تک جیتی نہ بچوں گی میں نے مرنے کا انتظام کر لیا ہے۔ انہوں نے کوئی ایسی دوا منگوا لی تھی جس کی زیادہ مقدار سے انسان کومے میں جا سکتا تھا اور پھر اسی حالت میں موت واقع ہو جاتی تھی۔ یہ دوا بھی مسعود بھائی نے باتوں باتوں میں بتائی تھی کہ امریکہ میں ان کے ایک مریض نے اسے پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ آپی کی لیٹر پیڈ پر نسخہ تھا آپی نے وہ لے لیا اور ڈرائیور سے دوا منگوا لی۔ جو آدھے سر کے درد کے مریضوں کو نہایت قلیل مقدار میں دی جاتی تھی وہ بھی اس وقت جب ڈاکٹر ضروری سمجھتے تھے۔
دانیہ نے دوائی کی شیشی ماں کی دراز میں دیکھ لی تھی۔ اس نے مہارت سے دوا کو غسل خانے میں خالی کر کے اس میں کوئی بے زر ٹانک بھر کے رکھ دیا۔ رات کے دو بجے جب سب ہو گئے آپی نے دوا کی پوری شیشی حلق میں انڈیل لی۔ اپنی دانست میں زندگی کا خاتمہ کرنے کو یہ عمل کیا اور مرنے کے انتظار میں لیٹ گئیں۔ مگر اس رات نہ تو سو سکیں اور نہ ہی مر سکیں۔ صبح کو کہیں آنکھ لگی۔ دانیہ نے ناشتہ تیار کیا اور جب دن کے 10 بج گئے ماں کو بیدار کیا کہ اب اٹھ جائیے چائے پی لیجیے۔ اج تو اپ نے فجر کی نماز بھی نہیں پڑھی ۔گھبرا کر آپی نے آنکھیں کھولیں پوچھا: دانیا کیا میں زندہ ہوں؟ ہاں امی جان اللہ کا شکر ہے آپ زندہ ہیں اور انشاءاللہ زندہ رہیں گی لمبی عمر جییں گی میرے لیے۔ میں اپ کو مرنے نہیں دوں گی اپ کے بعد میرا کون ہے اور میرے بنا اپنا کون ہے ذرا سوچیے تو؟
وہ لمحہ بیت گیا جب آپی نے مرنے کا فیصلہ کیا تھا انہوں نے دانیہ کو گلے سے لگایا خوب پیار کیا بولی ہاں بیٹی تو ہی تو میرا سچا ساتھی ہے میری بیٹی ہی نہیں میری دوست بھی ہے تم کو تنہا نہ چھوڑوں گی تیرے ساتھ ہی جیوں گی تیرے لیے جیوں گی ورنہ میرے بعد یہ دنیا جانے تیرا کیا حال کرے۔
کچھ دنوں بعد آپی کے بڑے بیٹے دانیال کا خط آیا ماں کو لکھا تھا کہ خود کو سزا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب کو با آواز بلند بتا دیجئے کہ اپ مجرم نہیں ہیں ماریہ نے جو زیور اپ کے پاس رکھا ہوئے تھے۔ اس نے خود ہی انہیں سیف سے نکال لیا تھا۔ وہ اس کے پاس ہیں اس نے صرف آپ کو پاپا اور باقی گھر والوں کی نظروں سے گرانے کے لیے ایسا کیا۔ وہ اچھی عورت نہیں ہے۔ نیچ خاندان سے ہے یہ حقیقت یہاں ہم کو معلوم ہو چکی ہے۔ پاپا بھی اپنی عزت کی خاطر خاموش ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ ماں جب میں پاکستان لوٹوں گا تو اپ کو سونے سے پیلا کر دوں گا۔ فکر مت کریں اپ کے دکھوں کے دن کم رہ گئے ہیں۔ بس تھوڑا سا اور انتظار کر لیں میں ماریہ سے بھی حساب لوں گا اپ کا پپا سے بھی پوچھوں گا۔
دو سال بعد دانیال اور ابراہیم تعلیم مکمل کر کے لوٹے ماں کے ساتھ رہنے کی قسم کھا کر آئے تھے۔ وہ واپس امریکہ نہیں گئے۔ پاکستان میں ہی اپنا کلینک بنایا اور یہاں ہی شادیاں کی۔ ماں اور بہن کو وہ سکھ دیا جو کسی ماں کو اس کے بیٹوں نے نہ دیا ہوگا۔ لہذا اپی اپنے بیٹوں کی محبت پا کر سارے دکھ بھول گئی۔
(ختم شد)