ایک مرد کی محبت

urdu stories online


ایم اے کا رزلٹ آتے ہی جاب ہوگئی۔ اسلام آباد سے کچھ آگے ایک خوبصورت وادی کے نزدیک میری تعیناتی ہوئی تھی۔ پنڈی سے روانگی کے وقت محکمہ والوں کو مطلع کر دیا تھا، وہاں پہنچی تو اڈے پر محکمہ کے چند لوگ مجھ کو خوش آمدید کے لئے آئے ہوئے تھے، میرا سامان اُٹھوایا اور رہائش گاہ لے آئے۔
 
میری رہائش کا بندوبست بھی محکمے کی طرف سے تھا۔ یہ قیام گاہ دفتر سے زیادہ دور نہ تھی، چھوٹی سی کالونی میں ایک ہی وضع کے چند رہائشی یونٹ بنے ہوئے تھے۔ جو محکمے کے ملازمین کے لئے تھے۔ ایک ملازمہ کا بھی انتظام ہوگیا۔ جس کی مدد سے سامان رکھنے میں آسانی ہوئی۔ اس نے سوٹ کیس سے میرے ملبوسات نکال کر الماری میں لگائے اور کچن کی صفائی وغیرہ کر دی۔ میں نے سامان کی لسٹ چوکیدار کو دے دی، وہ کچن کا ضروری سامان لے آیا۔ یہ سب کام کروا کر میں اطمینان سے سو گئی۔ گھر فرنشڈ تھا، اس کی ترتیب و تبدل میں کچھ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑا۔ صرف پردے موجود نہ تھے جو شام ہی کو چوکیدار لے آیا اور لگا دیئے۔

دُوسرے روز آٹھ بجے آفس کی گاڑی لینے آ گئی، دفتر بھی نیا بنا ہوا اور شاندار تھا۔ مجهے جو کمرہ دیا گیا اس میں میری نشست کے علاوہ ایک اور میز کرسی بھی تھی، گویا میرے ساتھ کوئی دوسرا کمره شریک بھی تھا۔ مگر وہ اس وقت موجود نہ تھا، اس کی کرسی خالی تھی۔ کمرے میں دو الماریاں تھیں، ایک میری جانب اور دوسری میرے کولیگ کی میز کرسی کی طرف دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ یہ کمرہ کیبن نما تھا اور سامنے کے رُخ پر دیوار کی جگہ بڑی سی گلاس ونڈو تھی۔ جس سے باہر ہال میں دیکھا جا سکتا تھا۔ گویا میری سیٹ ان لوگوں سے زیادہ اہم تھی جو بال کمرے میں بیٹھ کر کام کرتے تھے۔ میں آفیسر ریان صاحب کی معاون کے طور پر تعینات ہوئی تھی۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ الماریوں میں کچھ فائلیں موجود تھیں اور بوسیدہ کاغذات کے بنڈل بھی اُوپر تلے دھرے ہوئے تھے۔
 
 دُوسری الماری کے سب سے نچلے خانے میں اسٹیشنری کا سامان اور ایک بیگ پڑا ہوا تھا۔ میں نے از راه تجسس کھول کر دیکھا۔ اس میں مردانہ کپڑوں کا ایک جوڑا، شیونگ باکس، دو کتابیں اور ایک لفافے میں دو تصویریں تھیں یہ کسی بیس پچیس سالہ نوجوان کے فوٹوز تھے۔ صورت دل کو موہ لینے والی تھی۔ سوچنے لگی یہ سامان الماری میں کس کا ہو سکتا ہے۔ اتنے میں پیون چائے لے آیا۔ میں نے پوچھا۔ لالہ جی یہ سامان کس کا ہے؟ جو الماری میں رکھا ہے؟ ریان صاحب کا ہے۔ پہلے ساتھ لے جا رہے تھے پھر کچھ سوچ کر الماری میں رکھ دیا۔ ریان صاحب …؟ جی ہاں… وہ یہاں بیٹھتے ہیں، اُس نے خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ کیا آج چھٹی پر ہیں؟ جی دو دن کی چھٹی گئے ہیں، جب آپ کے آنے کی اطلاع ملی وہ یہاں ہی تھے، اُسی شام گھر چلے گئے۔ لالہ کی بات سُن کر سوچنے لگی۔ میری آمد کی اطلاع ملتے ہی چھٹی چلا گیا۔ عجیب بات ہے۔ خدا کرے کوئی اچھا آدمی ہو۔

ہاف ٹائم میں بڑے صاحب نے بلایا۔ کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔ ریان صاحب آپ کو کام سمجھا دیں گے۔ دراصل وہ ایمرجنسی چھٹی پر چلے گئے، وہ اچھے آدمی ہیں۔ پھر بھی کوئی پریشانی ہو تو آپ کی نشست ہال میں لگوا دیں گے۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں بے سر… میں نے یہ اس لئے کہا کہ بال کمرے میں اتنے لوگوں کے درمیان بیٹھنے سے تو اِدھر ہی بیٹھنا بھلا تھا۔ کمرے میں سکون تھا۔ دو دن بعد ریان صاحب تشریف لے آئے۔ آتے ہی سلام کیا اور اپنی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ سلام کے سوا کوئی بات ہی نہ کی۔ مجھ کو یہ شخص مغرور سا لگا۔ اندازہ ہوگیا کہ اپنے کام سے کام رکھنے اور لئے دیئے رہنے والا ہے۔
 
 پہلا دن تو بوریت میں گزر گیا۔ انہوں نے چند فائلیں دے دیں کہ ان کی فہرست بنا کر نمبر لگایئے اور الماری میں ترتیب سے رکھتی جایئے۔ دو چار دنوں بعد اندازہ ہوا کہ یہ نیک طینت آدمی ہے۔ بڑی دھیرج سے بات کرتا اور جو کام میری سمجھ میں نہ آتا، توجہ اور طریقے سے سمجھا دیتا۔ وہ جس طرح کہتا اُسی طرح سر جھکا کر اپنا کام کرتی رہتی۔ یہاں تک کہ چھٹی کا وقت ہو جاتا۔ اُن دنوں ریان صاحب مجھ سے دفتر کا ریکارڈ دُرست کروا رہے تھے، جب فائل اوکے ہو جاتی تو نمبر ڈال کر اس کو الماری میں رکھوا دیتے۔ میں باہر کا کھانا نہیں کھاتی تھی۔ ملازمہ گھر سے پکا کر بھجواتی تو میں اصرار کر کے ریان صاحب کو شریک کرنا چاہتی۔ کبھی وہ چند لقمے میری خوشی کی خاطر لے لیتے، ورنہ معذرت کر لیتے، تاہم اس طرح ہمارے درمیان سے اجنبیت کی دیوار ہٹ گئی اور اپنائیت کا تھوڑا سا احساس پیدا ہوگیا۔ وه فطرتاً کم گو تھا۔ ساده سا، مگر حساس دل کا مالک … دوسروں کا خیال رکھنے والا۔ 
 
مشکل کی گھڑی میں سبھی کا اپنا مگر سبھی سے الگ تھلگ بھی۔ ریان بہت زیادہ خوبصورت نہ تھا مگر چہرے پر ایک ایسی مردانہ وجاہت تھی جو دوسروں کے دلوں کو موہ لیتی تھی، جب وہ ٹھہر ٹھہر کر سمجھانے والے لہجے میں بات کرتا تو بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ ایک اچھے آفیسر کی طرح مجھ سے پیش آتا، کچھ رُعب بھی رہتا اور کچھ سہولت و اپنائیت بھی مگر اُس کے روّیے سے محسوس نہ ہوتا کہ وہ آفیسر ہے۔ میں اپنا کوئی مسئلہ بتاتی وہ جهٹ حل نکال دیتا۔ میری حسن کارکردگی کے لئے پوری مدد کرتا اور جو کام مجھے مشکل لگتا خود کر لیتا تھا، جس سے پتا چلتا تھا کہ وہ ایک سچا مددگار اور انتہائی مخلص انسان ہے۔ رفتہ رفتہ وہ میرے دل و دماغ پر چھانے لگا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میں اس کی کوئی بات نہیں ٹال سکتی تھی۔ اس نے کہا کہ عورت کے لئے عبایا اچھا ہے۔ میں عبایا اور اسکارف لینے لگی حالانکہ پہلے میں پردہ نہ کرتی تھی۔ شوخ اور فیشن والے لباس پہنتی تھی، مگر پھر ریان کی سادگی کو دیکھ کر میں بهی ساده لباس پہننے لگی۔ اس نے مجھے تلاوت کی تلقین اور نماز کی ہدایت کی تو میں نے یہی وطیرہ اپنا لیا۔ صبح سویرے تلاوت کرتی اور نماز بھی باقاعدگی سے پڑھنے لگی۔ اس کا کہا میرے لئے جیسے حکم کا درجہ رکھتا ہو، میں اس کی ہر اچھی بات کا اثر لیتی اور عمل کرتی۔

اب میرے دل سے اپنے منگیتر کا خیال جاتا رہا۔ آفس ٹائم کے بعد وہ چائے کے لئے ساتھ چلنے کی فرمائش کرتا تو میں اس کے ساتھ چل پڑتی، پھر ہم اکٹھے وادی کی سیر کو جانے لگے۔ کبھی چشمے کنارے، کبھی دامنِ کوہ میں اس کا ساتھ کیا ملا، گویا مجھ کو دُنیا کا خزانہ مل گیا۔ یہ ہمارا معمول ہوگیا، شام کی چائے ساتھ پینے ہم دامنِ کوہ کی طرف نکل جاتے۔ اکٹھے چائے پینے کا جو لطف تھا اس کے بدلے دُنیا کی ہر خوشی میرے لئے کم تھی۔ گرمیوں کی دوپہروں اور ساون کی ٹھنڈی رُتوں میں خنک ہوائوں کے جھکڑ اور موتیوں ایسی گرتی بوندا باندی… گویا یہ قدرت کے وہ خزانے تھے کہ جن سے ہم اکٹھے اپنے دِلوں کے دامن بھرتے تھے اور خود کو خوش نصیب جانتے تھے۔ وہ تعریف کرنے میں بہت کنجوس تھا، بالکل بھی تعریف نہیں کرتا تھا۔ تاہم اس کے انداز بتاتے تھے کہ وہ مجھے قابل تعریف سمجھتا ہے۔ کیونکہ میں اس کے دلی جھکائو کو محسوس کر سکتی تھی۔ ہمیں ساتھ دیکھ کر دفتر والے چہ میگوئیاں کرنے لگے اور کچھ تو حسد کی آگ میں بھی جل اُٹھے۔ اس کے دوست بھی اس کو چھیڑنے اور تنگ کرنے پر آ گئے۔ دفتر میں ساتھ کام کرنے والوں میں ایک نفیس نام کا شخص ہم سے بہت جيلس تھا اور دوسرا نعیم تھا جس کی آنکھوں سے عیاری ٹپکتی تھی۔
 
 اس نے دوچار بار میری طرف ہاتھ بڑھایا مگر میں نے اس کو بالکل بھی لفٹ نہ دی، اس وجہ سے وہ اور زیادہ حسد کی آگ میں جل اُٹھا تھا۔ اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اُسے کوئی موقع ملے تو ہم کو خوار کرے چونکہ ہمارے درمیان کوئی غلط تعلق نہ تھا، لہٰذا ریان کے ساتھ سیر کو جانے پر مجھے کسی سے ڈر نہیں لگتا تھا اور نہ ہی میں ان غیر متعلق لوگوں کے آگے اپنے کسی عمل کے لئے جواب دہ تھی۔ تبھی ان بدخواہوں نے میرے گھر خط لکه دیا کہ میں اپنے آفیسر کے ساتھ گھومتی پھرتی ہوں اور غلط رنگ میں رنگی جا رہی ہوں۔ انہوں نے یہ بھی میرے والدین کو لکھا کہ ہم آپ کی عزت بچانا چاہتے ہیں، آپ کے خیرخواہ ہیں، لہٰذا بروقت ہوشیار کر رہے ہیں تاکہ آپ کو پچھتانا نہ پڑے۔ ان بدخواہوں نے غلط الزامات لگا کر ہم پر خوب کیچڑ اُچھالا۔ مگر ہمارے دیگر کولیگ ان کی باتوں میں نہ آئے۔ اس قسم کی ان کی حرکتوں سے ہم کو کافی پریشانی تو ہوئی۔

یہ جون کے ماہ کا ذکر ہے۔ ریان کو ٹور پر جانا تھا۔ ہمارا ڈرائیور بڑے صاحب کے ساتھ جا رہا تھا اور دوسرا ڈرائیور چھٹی پر تھا۔ ریان نے کہا کہ میں خود ڈرائیور کر لوں گا۔ مجھ سے کہا کہ تم بھی چلو، اس سروے میں تمہارا جانا بنتا ہے۔ ہم اس گائوں روانہ ہو گئے جہاں کا سروے مطلوب تھا، واپسی پر بھی میں کار میں ریان کے ساتھ ہی بیٹھی کیونکہ ہمارے دو کولیگ صاحب کے ساتھ جیپ میں تھے، ان کی جیپ آگے نکل گئی اور ہم ایک پُرفضا مقام پر چشمہ کے پاس ٹھہر گئے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، کار سڑک کی سائیڈ پر کھڑی کرکے میں اور ریان تھوڑا سا نشیب میں اُتر گئے تاکہ کسی اچھی جگہ چائے پی لیں۔ ایک دو بار ایسی ناہموار جگہ آ گئی کہ اُس نے پہلی بار میرا ہاتھ پکڑ کر وہ جگہ پار کرائی۔ سامنے چھوٹا سا ہرا بھرا قطعہ تھا۔ جہاں پتھر بکھرے تھے۔ ہم دونوں وہاں بیٹھ گئے۔ 
 
میں نے کپوں میں چائے ڈالی۔ ریان نے پانی کی بوتل مانگی، بیگ سے بوتل نکال رہی تھی کہ ایک جانب سے آہٹ سُنائی دی۔ مڑ کر دیکھا دو آدمی ہماری طرف آ رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے دیکھ کر خوفزده ہوگئی۔ وہ آگے ہی آگے بڑھتے آرہے تھے۔ ایک نے مجھ سے ڈھٹائی کے ساتھ بیہودہ سا مطالبہ کیا۔ ریان نے سختی سے اس کو روکا اور میری جانب کوئی غلط قدم بڑھانے سے منع کیا، مگر وہ تو جیسے میری بربادی کا ہی ٹھان کر آئے تھا۔ ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا، ایک نے ریان کو اپنے بازوئوں کے زور پر جکڑنا چاہا جبکہ دوسرے نے آگے بڑھ کر میری کلائیاں پکڑ لیں۔ میں خوف سے پیلی پڑ گئی اور ریان کا چہره غصے سے سُرخ ہوگیا۔ 
اس نے پوری قوت سے اس شخص کو دھکا دیا اوراس کے ہاتھ سے ڈنڈا چھین کر دُور پھینک دیا، تب اس آدمی نے خنجر نکال لیا۔ ریان کو اپنی جیب سے پستول نکالنا پڑا۔ ریان جب ٹور پر ہوتا وہ اپنے ساتھ لائسنس یافتہ پستول رکھتا تھا۔ کیونکہ سروے کے دوران کبھی کبھار ہماری گاڑیوں کو سنسان رستوں سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔ اس آدمی نے دیکھا کہ مدمقابل کے پاس اپنے دفاع کے لئے ہتھیار ہے۔ اس نے ساتھی کو آواز دی۔ پیچھے مڑ کر دیکھو۔ اس نے میری کلائیاں مضبوطی سے پکڑی ہوئی تھیں اور میں خود کو چھڑانے کے لئے زور لگا رہی تھی۔ تبھی پستول دیکھ کر اس نے مجھے ایسا دھکا دیا کہ میں پتھروں بھری زمین پر گر گئی۔ یہ دیکھ کر ریان نے ہوا میں فائر کیا۔ ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ پستول بھرا ہوا ہے، تبھی وہ مقابلہ کرنے کی بجائے بھاگ کھڑے ہوئے۔ صد شکر انہوں نے گاڑی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ توبہ کی کہ آئندہ سڑک سے جنگل کی طرف نہ جائیں گے۔ خاص طور پر جب گارڈ ساتھ نہ ہوں۔ وہ ڈاکو نہ لگتے تھے، کئی دنوں تک سوچا کئے آخر کون تھے؟ اچانک کہاں سے آ گئے؟ یہ اتفاق تھا یا کہ وہ ہمارا پیچھا کر رہے تھے۔

ایک روز ہمارے ایک کولیگ نے چپکے سے ریان کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ اُس نے نعیم اور نفیس کو فون پر کسی سے یہ کہتے سنا ہے کہ فلاں دن گل اور ریان کا پیچھا کرنا ہے۔ 
 
ہم ابھی واقعات کی کڑیاں ملا رہے تھے کہ ان بے وقوفوں نے میرے گھر خط لکھ دیا کہ تمہاری لڑکی اکیلی اپنے آفیسر کے ساتھ سروے کے بہانے دُور افتادہ جگہ جاتی ہے اور یہ جنگلوں میں پکنک مناتے ہیں۔ اپنی عزت کی خبر لو۔ یہ خط ملتے ہی بھائی کو لے کر والده آ گئیں، مجھے خط دکھایا اور کہا کہ بس اب یہ نوکری نہیں کرنی، گھر چلو ہم تمہاری شادی کر رہے ہیں۔ جب تمہارے دفتر کا کوئی آدمی ایسا خط لکھ رہا ہے تو ضرور کچھ مسئلہ بن سکتا ہے۔ خدا وہ وقت نہ لائے جو ہماری عزت پر حرف آئے۔ بہتر ہے کہ وقت پر عزت سے اپنے گھر کی ہو جائو، تمہاری خالہ شادی کی تاریخ بھی مانگ رہی ہیں۔ میں ہرگز ملازمت چھوڑ کر جانا نہ چاہتی تھی مگر بڑے بھائی ساتھ تھے لہٰذا انکار نہ کر سکتی تھی۔ بڑے صاحب سے بھائی نے کہا کہ ہم شاداب گل کی شادی کرنا چاہتے ہیں لہذا ایک ماہ کی رخصت چاہئے۔ رخصت مل گئی، امی اور بھائی مجھ کو گھر لے آئے۔ گھر آ کر چین نہ تھا۔ ریان کی یاد آتی۔ بہت دُکھ تھا، اس سے صحیح طرح سے بات بھی نہ کر سکتی تھی، اس واقعہ کے بعد سے پل پل ڈرنے لگی تھی۔ ہر وقت آنکھوں کے سامنے اس روز کے خوفناک واقعے کا نقشہ گھومتا رہتا تھا۔ سوچتی تھی اگر اس روز ریان نے بہادری سے کام نہ لیا ہوتا تو نجانے کیا ہو جاتا۔ 
 اس کے بعد سے تو اس کی قدر و منزلت اور بھی میری نظروں میں زیادہ ہوگئی تھی۔ اے کاش! اگر وہ مجھ سے ایک بار بھی لفظوں میں اظہار محبت کر دیتا تو میں اپنی منگنی کا بندھن توڑ دیتی اور ملازمت بھی نہ چھوڑنی پڑتی۔ کبھی سوچتی تھی کہ جس نے جان پر کھیل کر میری حفاظت کی اور میں نے اس سے وفا نہ کی۔ میری اپنے منگیتر سے شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد مجھے ملازمت چھوڑنی ہی تھی۔ استعفیٰ دینا پڑا۔ آخری بار ریان سے کوئی بات کی اور نہ خدا حافظ کر سکی۔ اس کو شادی میں بھی کیسے بلاتی کہ جو میرے دل کا حال تھا اُس کے دِل کا بھی وہی حال تھا۔ واقعہ تو ہمارے محکمے کے انہی لفنگے لوگوں کا تها جس کی وجہ سے میرا دل خوفزدہ ہوا اور میں تڑپتی، سسکتی ریان کو چھوڑ کر گھر والوں کے ساتھ جانے پر راضی ہوگئی تھی۔ میں نے امی کو بتایا تھا کہ ریان نے جان پر کھیل کر میری عزت کو بچایا۔ تب وہ اس سے ملنے گئیں۔

امّی کمرہ میں اُس سے باتیں کر رہی تھیں۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اس کا شکریہ ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے شکریہ تو ادا کیا مگر یہ بھی کہا کہ میری بیٹی کی منگنی اس کی اپنی پسند سے ہوئی ہے۔ تم دھوکے میں مت رہنا، یہ کسی اور کی امانت ہے۔ ہم نے شادی کی تاریخ رکھ دی، اس لئے میری بیٹی نے استعفیٰ دیا ہے۔
 
 میں سمجھی کہ میری ماں ریان کی احسان مند ہیں اس لئے اچھے موڈ میں اُس کے ساتھ باتیں کی ہیں۔ کیا جانتی تھی کہ وہ تو میری آرزوئوں کے چمن کو جڑوں سے کاٹ رہی ہیں۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی دیر کو آفس گئی تھی، سب سے ملنے… ریان سے بھی ملی اس نے کہا۔ میں ایک خواب دیکھ رہا تھا، تم نے تو اپنی منگنی کا نہ بتایا، اچھا ہوا تمہاری ماں نے بتا دیا اور وقت پر میری آنکھیں کھل گئیں ورنہ میں نجانے کتنے برس دھوکے میں رہتا۔ جس روز ہم نے جانا تھا وہ ایک دن پہلے ہی چلا گیا۔ بعد میں ہم کو پتا چلا کہ وہ تو استعفیٰ دے گیا ہے۔ وہ کیا گیا میرے دل کی ساری خوشیاں لے گیا۔ اُس کے آخری الفاظ میرے دماغ میں گونجتے تو راتوں کی نیند اُڑ جاتی اور میں ماں سے لپٹ کر خوب روتی تھی۔ آخری روز اُس کی اُداس صورت تو جیسے میری نگاہوں میں بس گئی تھی۔ آنکھوں اور ذہن سے ہٹتی ہی نہ تھی۔ اس واقعہ کے بعد میری شادی ہوگئی۔ گھریلو ذمہ داریوں نے جکڑ لیا تو نہ رونے کی فرصت رہی اور نہ ہنسنے کی۔
 زندگی تو بسر کر ہی لی، ایک بات کا آج بھی افسوس ہے، اے کاش! میں اس کو اپنی منگنی کا بتا دیتی یا پھر وہ ہی مجھے بتا دیتا کہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو میں منگنی ختم کرا لیتی اور یوں کف افسوس نہ ملتی۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے