خود لذتی کا انجام

Sublimegate Urdu Stories

براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇
کہانی

لاہور کے ایک گنجان محلے میں، جہاں گلیوں میں زندگی کا شور صبح سے رات تک گونجتا رہتا، ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام عادل تھا۔ عادل کی زندگی جوانی کے رنگین خوابوں سے شروع ہوئی تھی، لیکن جلد ہی وہ غلط راستوں پر چل نکلا۔ وہ ایک دلکش اور ذہین نوجوان تھا، لیکن اس کی بے فکری اور لذتوں کی تلاش نے اسے خود لذتی اور راتوں کی رہداریوں کی دنیا میں دھکیل دیا۔ رات بھر کی پارٹیوں، شراب، اور عیاشی نے اس کی زندگی کو ایک ایسی دلدل میں بدل دیا جہاں سے نکلنا ناممکن لگتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک خالی پن تھا، جیسے اس کی روح کہیں کھو گئی ہو۔

دوسری طرف تھی زارا، ایک سادہ لیکن خوبصورت لڑکی، جو اسی محلے میں رہتی تھی۔ زارا ایک پرائمری اسکول کی ٹیچر تھی، جس کی آنکھوں میں محبت اور امید کی چمک تھی۔ وہ عادل کو بچپن سے جانتی تھی، جب وہ دونوں ایک ہی گلی میں کھیلا کرتے تھے۔ زارا کو عادل کی بے فکری ہمیشہ سے پسند تھی، لیکن جب اس نے عادل کو ایسی حالت میں دیکھا، تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ پھر بھی، اس کی محبت کم نہ ہوئی۔ وہ عادل کی ہر غلطی کو نظر انداز کرتی، یہ سوچ کر کہ شاید اس کی محبت اسے بدل دے گی۔

زارا کی محبت عادل کے لیے ایک معمہ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے قابل نہیں۔ اس کی زندگی ایک دھوکا تھی۔ ایک ایسی سچائی جو وہ خود سے بھی چھپاتا تھا۔ اس نے برائی چھوڑنے کی کئی بار کوشش کی، لیکن ہر بار وہ واپس اسی دلدل میں گر جاتا۔ زارا کی خالص محبت اسے پریشان کرتی تھی۔ وہ سوچتا، "میں اسے کیا دوں گا؟ ایک ٹوٹی ہوئی زندگی؟ ایک جھوٹا وعدہ؟" لیکن زارا کی ضد اور اس کی گہری محبت نے عادل کو ہار ماننے پر مجبور کر دیا۔

ایک دن، زارا نے عادل سے کہا، "عادل، تم جیسے بھی ہو، میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ میں تمہیں بدلنا نہیں چاہتی، بس تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔" عادل نے اس کی بات سن کر سر جھکا لیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ زارا کو وہ خوشی نہیں دے سکتا جس کی وہ مستحق تھی۔ لیکن زارا کے گھر والوں نے بھی اس رشتے کو قبول کر لیا، کیونکہ وہ زارا کی ضد کے آگے ہار مان چکے تھے۔ بالآخر، دونوں کی شادی طے ہو گئی۔

شادی کا دن لاہور کے ایک سادہ سے گھر میں منایا گیا۔ زارا کی آنکھوں میں خوشی تھی، لیکن عادل کے دل میں ایک بوجھ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا راز اب زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتا۔ شادی کی رسومات کے بعد، جب رات گہری ہوئی اور زارا اپنے دولہا کے ساتھ اپنے نئے کمرے میں داخل ہوئی، تو عادل کی بے چینی عروج پر تھی۔ عادل جانتا تھا کہ وہ زارا کو ازواجی خوشی نہیں دے سکے گا۔

زارا نے عادل کا ہاتھ پکڑا اور مسکراتے ہوئے کہا، "عادل، آج سے ہماری نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔" لیکن عادل کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ اس نے زارا سے نظریں چراتے ہوئے کہا، "زارا، مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔" زارا نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ عادل نے گہری سانس لی اور کہا، "میں... میں تمہارے قابل نہیں ہوں۔ میری زندگی ایک جھوٹ ہے۔ میں اب بھی اس بری عادت سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔ میں نے کوشش کی، لیکن... میں ہر بار ناکام ہوا۔"

زارا کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے صدمہ سا آیا، لیکن پھر اس نے خود کو سنبھالا۔ اس نے عادل کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑا اور کہا، "عادل، مجھے تمہارا ماضی معلوم تھا۔ میں جانتی تھی کہ تم کامل نہیں ہو۔ لیکن محبت کمال کی تلاش نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو سہارا دینے کا نام ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، چاہے جو ہو جائے۔"

عادل حیران تھا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ زارا اس کے راز کو جاننے کے بعد بھی اس کے ساتھ رہے گی۔ لیکن زارا نے اپنا وعدہ نبھایا۔ وہ عادل کے ساتھ اس کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کے پاس گئی، اسے راتوں کو جب وہ بے چین ہوتا، تسلی دیتی، اور اس کی ہر چھوٹی سی کامیابی پر اس کی حوصلہ افزائی کرتی۔ عادل کے لیے یہ ایک نئی جنگ تھی۔ ایک ایسی جنگ جس میں وہ اکیلا نہیں تھا۔

لیکن یہ سفر آسان نہ تھا۔ عادل کے ماضی کے سائے اسے بار بار پریشان کرتے۔ کبھی اس کے پرانے دوست اسے واپس پہلے والی زندگی کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے، تو کبھی اس کا اپنا جسم اسے دھوکا دیتا۔ زارا کا صبر اور محبت ہی وہ واحد چیز تھی جو اسے ڈگمگانے سے بچاتی تھی۔

عادل کے لیے زارا کا صبر ایک معجزہ تھا۔ وہ رات، جب اس نے اپنی زندگی کے تاریک راز زارا کے سامنے کھولے، اس کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہوئی۔ زارا کی آنکھوں میں نہ تو نفرت تھی، نہ ہی فیصلہ کن نظریں۔ صرف ایک گہری محبت اور عزم تھا کہ وہ عادل کو اس دلدل سے نکالے گی جس میں وہ برسوں سے پھنسا ہوا تھا۔ عادل کی جوانی کی غلطیاں ، غلط دوستوں کی صحبت، راتوں کی عیاشی، اور ایک ایسی زندگی جو بے مقصد دوڑ رہی تھی۔ اسے اس مقام تک لے آئی تھیں جہاں اسے خود پر یقین نہیں رہا تھا۔ لیکن زارا کی محبت اس کے لیے ایک روشنی کی کرن بن کر آئی۔

زارا نے عادل سے کہا، "ہم مل کر یہ جنگ لڑیں گے، عادل۔ تم اکیلے نہیں ہو۔" اس کی آواز میں ایک ایسی طاقت تھی جو عادل کے دل کو چھو گئی۔ اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ شاید وہ واقعی بدل سکتا ہے۔ زارا نے اسے ایک مشہور بحالی مرکز سے رابطہ کرنے کی تجویز دی، جہاں وہ اپنی ذاتی کمزوریوں سے لڑنے کے لیے پیشہ ورانہ مدد لے سکتا تھا۔ عادل نے ہچکچاتے ہوئے اسے قبول کیا، لیکن اس کے دل میں ایک خوف تھا۔ کیا وہ واقعی اس تاریک ماضی سے نکل پائے گا؟

لیکن عادل کا ماضی اسے آسانی سے پیچھا چھڑانے والا نہ تھا۔ ایک دن، جب وہ کسی ضرور کام سے جا را تھا، اس کا ایک پرانا دوست، راشد، اس سے ملنے آیا۔ راشد وہی شخص تھا جو عادل کو راتوں کی عیاشی کی دنیا میں لے گیا تھا۔ اس نے عادل کو پھر سے اپنی پرانی زندگی کی طرف کھینچنے کی کوشش کی۔ "عادل، بس ایک رات! پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں!" اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ عادل کا دل ایک لمحے کے لیے ڈگمگایا۔ اس کی کمزوری اسے پھر سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔

لیکن اسی لمحے اسے زارا کی مسکراہٹ یاد آئی۔ اس نے راشد سے کہا، "نہیں، راشد۔ وہ زندگی اب میری نہیں۔" یہ پہلا موقع تھا جب عادل نے اپنی کمزوری پر قابو پایا۔ وہ گھر واپس آیا اور زارا کو ساری بات بتائی۔ زارا نے اس کی بات سن کر اسے گلے لگایا اور کہا، "میں تم پر فخر کرتی ہوں، عادل۔ تم نے خود کو نہیں، مجھے بچایا ہے۔"

وقت گزرتا گیا، اور عادل آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو سنوارنے لگا۔ اس نے بحالی مرکز سے تربیت مکمل کی اور ایک چھوٹی سی دکان کھولی، جہاں وہ موٹرسائیکل کے پرزے فروخت کرتا تھا۔ یہ ایک سادہ سی شروعات تھی، لیکن زارا کے ساتھ اس کی زندگی اب معنی خیز تھی۔ زارا اس کے ساتھ ہر قدم پر کھڑی رہی، اور اس کی محبت نے عادل کو ایک نیا انسان بنا دیا۔

ایک شام، جب دونوں لاہور کی گلیوں میں چہل قدمی کر رہے تھے، عادل نے زارا کا ہاتھ پکڑا اور کہا، "زارا، تم نے مجھے نہ صرف بچایا، بلکہ مجھے زندگی کا مطلب سمجھایا۔ میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔" زارا نے مسکراتے ہوئے کہا، "عادل، یہ احسان نہیں، محبت ہے۔ اور محبت کا کوئی قرض نہیں ہوتا۔"

ان کی کہانی ایک ایسی محبت کی کہانی بن گئی جو نہ صرف عادل کی گمراہی کو شکست دیتی ہے، بلکہ یہ ثابت کرتی ہے کہ صبر اور محبت کے سامنے کوئی سیاہ سایہ نہیں ٹھہر سکتا۔ عادل اور زارا کی زندگی اب ایک نئے رنگ سے بھر گئی تھی، جہاں ہر صبح ایک نیا وعدہ لے کر آتی تھی۔

زارا کے ساتھ اس کی زندگی ایک نئے رنگ سے بھر گئی تھی۔ لیکن عادل کے دل میں ایک راز دفن تھا، جو اسے راتوں کو چین سے سونے نہ دیتا تھا۔

عادل جانتا تھا کہ اس کی جوانی کی غلطیوں نے اسے ایک ایسی قیمت چکانی پڑی تھی جو اس کے مردانہ وقار کو ہمیشہ کے لیے چھین لیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اسے برسوں پہلے بتا دیا تھا کہ وہ کبھی باپ نہیں بن سکتا۔ یہ راز اس نے اپنے سینے میں چھپا رکھا تھا، حتیٰ کہ زارا سے بھی۔ وہ زارا کی محبت کے قابل نہ ہونے کا احساس پہلے ہی اسے کھائے جا رہا تھا، اور یہ راز اس کے لیے ایک اور بوجھ تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ زارا کو اپنی محبت اور وفاداری سے خوش رکھے گا، لیکن اس کے دل میں ہمیشہ ایک خوف رہتا کہ شاید ایک دن یہ راز اس کے رشتے کو تباہ کر دے۔

ایک شام، جب عادل اپنی دکان سے گھر لوٹا، تو زارا اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، اور اس کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ جو عادل نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ زارا نے اس کا ہاتھ پکڑا اور دھیمی آواز میں کہا، "عادل، میں ماں بننے والی ہوں۔ ہمارے گھر میں ایک ننھا مہمان آنے والا ہے۔"

عادل کے لیے یہ بات ایک بجلی کی طرح تھی۔ اس کا چہرہ ایک لمحے کے لیے پیلا پڑ گیا۔ وہ زارا کی طرف دیکھتا رہا، جیسے اس نے کچھ غلط سن لیا ہو۔ اس کا ذہن اس راز کی طرف دوڑا جو اس نے برسوں سے چھپایا تھا۔ "یہ... یہ کیسے ممکن ہے؟" اس نے دھیمی آواز میں پوچھا، لیکن اس کی آواز میں خوشی کے بجائے ایک عجیب سا بوجھ تھا۔ زارا نے اس کی حیرانی کو غلط سمجھا اور ہنستے ہوئے کہا، "کیوں، عادل؟ یہ ہماری محبت کا تحفہ ہے!"

لیکن عادل کا دل ایک گہرے شک میں ڈوب گیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ باپ بننے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں ہزاروں سوالات اٹھنے لگے۔ کیا زارا اس سے جھوٹ بول رہی تھی؟ کیا اس نے کوئی دھوکا کیا؟ اس کی محبت، اس کا صبر—کیا یہ سب ایک ڈھونگ تھا؟ عادل کا دل زارا سے نفرت سے بھرنے لگا۔ وہ اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ زارا نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا اور پریشان ہو کر پوچھا، "عادل، کیا بات ہے؟ تم خوش نہیں ہو؟"

عادل نے سرد لہجے میں کہا، "مجھے کچھ وقت چاہیے، زارا۔" وہ کمرے سے باہر چلا گیا، اور زارا حیران و پریشان وہیں کھڑی رہ گئی۔

اگلے چند ہفتوں میں، عادل اور زارا کے درمیان ایک خاموش دیوار کھڑی ہو گئی۔ عادل زارا سے بات کرنے سے کتراتا۔ وہ دن بھر دکان پر رہتا، اور جب گھر آتا تو زارا سے فاصلہ رکھتا۔ زارا اس تبدیلی کو سمجھ نہ پائی۔ وہ عادل سے بار بار پوچھتی، "عادل، کیا ہوا ہے؟ کیا میں نے کچھ غلط کیا؟" لیکن عادل کے جوابات سرد اور مختصر ہوتے۔ اس کے دل میں زارا کے لیے شک بڑھتا جا رہا تھا، اور یہ شک آہستہ آہستہ نفرت میں بدل رہا تھا۔

زارا، جو ہمیشہ صبر کی تصویر تھی، اب خود کو ٹوٹتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ وہ عادل کی سردمہری سے پریشان تھی، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ ایک رات، جب عادل گھر دیر سے لوٹا، زارا نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا، "عادل، ہم اس طرح نہیں رہ سکتے۔ مجھے بتاؤ، کیا بات ہے؟ کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے؟"

عادل کا غصہ پھٹ پڑا۔ "محبت؟" اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔ "تم مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو، زارا! یہ بچہ میرا نہیں ہو سکتا!" زارا کے چہرے پر صدمہ پھیل گیا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ "عادل، تم کیا کہہ رہے ہو؟" اس نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔ "میں نے تمہارے سوا کبھی کسی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی۔"

لیکن عادل کا شک اسے سننے نہ دیتا۔ اس نے زارا سے منہ موڑ لیا اور کہا، "بس، زارا۔ مجھے مزید جھوٹ نہیں سننے۔" وہ کمرے سے باہر چلا گیا، اور زارا تنہا اپنے آنسوؤں کے ساتھ رہ گئی۔

زارا کے دل پر ایک بوجھ سا تھا۔ وہ عادل کے شک کو سمجھ نہ پائی، لیکن اسے یقین تھا کہ اس کی محبت عادل کو واپس لے آئے گی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ عادل کے شک کی وجہ جانے گی۔ ایک دن، جب عادل گھر پر نہیں تھا، زارا نے اس کے پرانے دستاویزات چیک کیے۔ اسے عادل کے ڈاکٹری رپورٹس ملیں، جن میں لکھا تھا کہ وہ کبھی باپ نہیں بن سکتا۔ زارا کے لیے یہ ایک صدمہ تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی اسے عادل کے شک کی وجہ سمجھ آئی۔

زارا نے ایک ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور اپنا مکمل معائنہ کرایا۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کا حمل بالکل نارمل ہے، اور یہ ایک معجزہ ہے کہ عادل کے حالات کے باوجود یہ ممکن ہوا۔ زارا نے عادل کو سچ بتانے کا فیصلہ کیا، لیکن وہ جانتی تھی کہ عادل کا شک اسے آسانی سے یقین کرنے نہ دے گا۔

ایک شام، زارا نے عادل کو گھر بلایا اور اس کے سامنے ڈاکٹری رپورٹس رکھ دیں۔ "عادل، یہ ہمارا بچہ ہے۔ یہ ہماری محبت کا معجزہ ہے۔" اس نے دھیمی لیکن پرعزم آواز میں کہا۔ عادل نے رپورٹس کو دیکھا، لیکن اس کے دل میں شک اب بھی باقی تھا۔ "زارا، میں... میں نہیں جانتا کہ کیا سوچوں۔" اس نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔

زارا نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا، "عادل، اگر تم مجھ پر یقین نہیں کرتے، تو ٹھیک ہے۔ لیکن اس بچے پر یقین کرو۔ یہ ہمارا مستقبل ہے۔" عادل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے اپنی نفرت اور شک پر شرمندگی ہوئی، لیکن وہ اب بھی اپنے آپ کو معاف کرنے کے قابل نہ تھا۔

عادل اور زارا کے رشتے میں شک کی دیوار بلند ہوتی جا رہی تھی۔ عادل کا دل زارا کی خوشخبری سے پیدا ہونے والے شک سے ابھی تک باہر نہ نکل سکا تھا۔ وہ دن رات اسی سوچ میں ڈوبا رہتا کہ زارا نے اسے دھوکا دیا ہوگا۔ زارا، جو اپنی حمل کی خوشی کو عادل کے ساتھ بانٹنا چاہتی تھی، اس کی سردمہری سے دل شکستہ ہو رہی تھی۔ لیکن اس نے اپنا صبر برقرار رکھا، یہ سوچ کر کہ وقت عادل کے زخموں کو بھر دے گا۔

ایک شام، جب عادل اپنی دکان پر مصروف تھا، زارا کے کزن، فیصل، ان کے گھر ایک پیغام لے کر آیا۔ فیصل زارا کا بچپن کا دوست اور کزن تھا، جو اب کراچی میں رہتا تھا اور کبھی کبھار لاہور اپنے رشتہ داروں سے ملنے آتا تھا۔ پیغام زارا کے والدین کی طرف سے تھا، جو اس کی خیریت دریافت کرنا چاہتے تھے۔ عادل گھر پر موجود نہ تھا، تو زارا نے فیصل کو اندر بٹھایا۔ "آؤ، فیصل! کتنا عرصہ ہو گیا!" زارا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس نے فیصل کے لیے کھانا گرم کیا اور دونوں بچپن کی یادوں میں کھو گئے۔

دونوں ہنسی مزاق کر رہے تھے، جیسے بچپن میں کیا کرتے تھے۔ فیصل نے زارا سے اس کی نئی زندگی کے بارے میں پوچھا، اور زارا نے اپنی حمل کی خوشخبری اس کے ساتھ بانٹی۔ فیصل نے خوشی سے اسے مبارکباد دی اور کہا، "زارا، تم ہمیشہ سے ایک مضبوط لڑکی تھی۔ یہ بچہ خوش قسمت ہوگا کہ تم اس کی ماں ہو۔" دونوں کی ہنسی گھر میں گونج رہی تھی، اور ماحول بچپن کی معصومیت سے بھر گیا تھا۔
لیکن اسی لمحے، عادل گھر میں داخل ہوا۔ اس نے زارا اور فیصل کو ہنستے مسکراتے دیکھا، اور اس کا دل جیسے ٹکڑوں میں بکھر گیا۔ فیصل کی زارا کے ساتھ قربت، ان کی ہنسی، اور وہ گرمجوشی جو عادل نے زارا کے چہرے پر کبھی اپنے لیے نہ دیکھی تھی، اس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اس کے دل میں وہی پرانا شک دوبارہ سر اٹھانے لگا۔ "یہ بچہ... شاید فیصل کا ہے،" اس کے ذہن میں ایک زہریلا خیال گونج اٹھا۔

عادل نے خاموشی سے اپنا بیگ ایک طرف رکھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ زارا نے اس کی آمد نوٹ کی، لیکن اس کی خاموشی کو سمجھ نہ سکی۔ فیصل نے زارا سے اجازت مانگی اور چلا گیا، لیکن عادل کے دل میں شک کا طوفان اٹھ چکا تھا۔ اس رات، جب زارا نے عادل سے بات کرنے کی کوشش کی، تو اس نے سرد لہجے میں کہا، "زارا، تمہارا کزن آج بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ کیا بات تھی؟"

زارا نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ "عادل، وہ بس پیغام دینے آیا تھا۔ ہم بچپن کے دوست ہیں، بس پرانی باتیں کر رہے تھے۔" لیکن عادل کی آنکھوں میں ایک عجیب سی آگ تھی۔ "پرانی باتیں؟ یا کچھ اور؟" اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔ زارا کے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ "عادل، تم پھر سے وہی باتیں کر رہے ہو؟ میں نے تم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔"

عادل کا غصہ اب قابو سے باہر تھا۔ "جھوٹ؟ زارا، تمہارا یہ بچہ میرا نہیں ہو سکتا! اور اب تمہارا کزن یہاں ہنسی مزاق کر رہا ہے۔ کیا میں اندھا ہوں؟" زارا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ "عادل، تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو؟ فیصل میرا بھائی جیسا ہے! یہ بچہ ہمارا ہے، تمہارا اور میرا!"

لیکن عادل کا شک اب اس کی سمجھ پر حاوی ہو چکا تھا۔ وہ زارا کی باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس نے زارا سے کہا، "مجھے وقت چاہیے، زارا۔ میں اس گھر میں نہیں رہ سکتا جب تک مجھے سچ نہ پتا چل جائے۔" وہ اپنا بیگ اٹھا کر گھر سے نکل گیا، اور زارا تنہا اپنے آنسوؤں کے ساتھ رہ گئی۔

زارا کے لیے یہ سب ایک خواب کی طرح تھا۔ وہ عادل کی محبت کے لیے برسوں لڑی تھی، اس کی کمزوریوں کو قبول کیا تھا، اور اس کے راز کو اپنے دل میں سمو لیا تھا۔ لیکن اب عادل کا شک اس کے صبر کی آخری حد تھی۔ وہ جانتی تھی کہ عادل کا ماضی اسے اس حال تک لے آیا تھا، لیکن وہ یہ بھی مانتی تھی کہ اس کی محبت اسے واپس لا سکتی ہے۔

زارا نے فیصل سے رابطہ کیا اور اسے ساری بات بتائی۔ فیصل نے حیرانی سے کہا، "زارا، عادل کو کیسے یہ غلط فہمی ہوئی؟ میں تو بس تم سے ملنے آیا تھا۔" زارا نے فیصل سے کہا کہ وہ عادل سے بات کرے اور اس کی غلط فہمی دور کرے۔ لیکن فیصل نے مشورہ دیا کہ عادل کو خود سچ تک پہنچنے کا موقع دیا جائے۔ "اگر وہ تم پر یقین نہیں کرتا، تو اسے خود سچ جاننا ہوگا۔ لیکن تم ہمت نہ ہارنا، زارا۔"

زارا نے فیصل کی بات مانی اور عادل کو واپس لانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت لیا تاکہ عادل کے ساتھ جا کر اسے اپنی رپورٹس دکھائے اور اسے یقین دلائے کہ یہ بچہ ان دونوں کا ہے۔ لیکن اس کے دل میں ایک خوف تھا—کیا عادل اس کی محبت پر دوبارہ یقین کر پائے گا؟

عادل کا ذہن اب شک کے زہر سے اس قدر آلودہ ہو چکا تھا کہ وہ اپنی سمجھ اور سکون سے محروم ہو گیا۔ زارا کی محبت، اس کی وضاحتیں، اور ڈاکٹری رپورٹس بھی اس کے دل سے شک کے سائے نہ ہٹا سکیں۔ وہ راتوں کو جاگتا، اپنے ماضی کی غلطیوں اور زارا پر اپنے الزامات کے درمیان جھولتا رہتا۔ اس کا ذہنی توازن دن بہ دن گرتا گیا۔ وہ اپنی دکان پر بھی توجہ نہ دے پاتا، اور اس کی زندگی ایک ایسی دلدل میں پھنس گئی جہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہ آتی تھی۔
زارا نے اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اسے ماہرین نفسیات کے پاس لے گئی، اس سے گھنٹوں باتیں کرتی، اور اسے یقین دلاتی کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے۔ لیکن عادل کا ذہن اب ایک ایسی تاریکی میں ڈوب چکا تھا جہاں زارا کی آواز بھی اس تک نہ پہنچتی تھی۔ وہ زارا سے دور ہوتا گیا، اور اس کی آنکھوں میں نفرت کی جگہ ایک عجیب سا خلا لے رہا تھا۔

ایک سرد رات، جب لاہور کی گلیاں بارش سے بھیگ رہی تھیں، عادل اپنے درد اور شک کے بوجھ تلے دب کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس نے زارا کے لیے ایک خط چھوڑا، جس میں لکھا تھا: "زارا، میں تمہارے قابل نہ تھا۔ میرا شک میری سزا بن گیا۔ مجھے معاف کر دو۔" زارا نے وہ خط پڑھا، اور اس کے آنسو بارش کے قطروں کے ساتھ مل گئے۔ وہ عادل کے لیے دعا مانگتی رہی، لیکن اس کا دل ٹوٹ چکا تھا۔

زارا اب اکیلی رہ گئی تھی، اپنے ہونے والے بچے کے ساتھ۔ اس کی زندگی ایک عجیب سے خلا میں ڈوب گئی تھی، لیکن اس کے اندر وہ طاقت اب بھی موجود تھی جو اسے عادل کے مشکل دنوں میں آگے بڑھاتی رہی تھی۔ اس نے اپنے بچے کے لیے جینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس مشکل وقت میں، فیصل اس کے لیے ایک سہارا بن کر آیا۔

فیصل، جو زارا کا بچپن کا دوست اور کزن تھا، اس کی حالت کو دیکھ کر لاہور منتقل ہو گیا۔ وہ زارا کے گھر اکثر آتا، اسے تسلی دیتا، اور اس کے بچے کی پیدائش کے لیے تیاریوں میں مدد کرتا۔ زارا کی تنہائی کو فیصل کی دوستی نے بتدریج کم کیا۔ وہ اسے ہنسانے کی کوشش کرتا، اس کے ساتھ پرانے دنوں کی باتیں کرتا، اور اسے ایک نئی امید دیتا۔

ایک دن، جب زارا کا بیٹا، عرفان، پیدا ہوا، فیصل اس کے ساتھ ہسپتال میں موجود تھا۔ زارا نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور اس کے چہرے پر ایک سکون آیا۔ اس نے فیصل سے کہا، "فیصل، تم نے مجھے اس مشکل وقت میں سنبھالا۔ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟" فیصل نے مسکراتے ہوئے کہا، "زارا، تمہاری خوشی ہی میرا شکریہ ہے۔"

وقت گزرتا گیا، اور فیصل زارا کے لیے ایک مضبوط سہارا بن گیا۔ زارا نے دیکھا کہ فیصل نہ صرف اس کا دوست تھا، بلکہ وہ عرفان کے لیے بھی ایک باپ کی طرح بن گیا تھا۔ فیصل عرفان کو اپنے کندھوں پر اٹھاتا، اس کے ساتھ کھیلتا، اور اسے کہانیاں سناتا۔ زارا کے دل میں فیصل کے لیے احترام آہستہ آہستہ ایک گہرے جذبے میں بدلنے لگا۔

ایک شام، جب فیصل عرفان کو سلانے کے بعد زارا کے ساتھ بیٹھا تھا، اس نے دھیمی آواز میں کہا، "زارا، میں جانتا ہوں کہ تم نے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ لیکن اگر تم اجازت دو، تو میں تمہارے اور عرفان کے ساتھ اپنی باقی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔" زارا کی آنکھیں حیرت اور جذباتی لمحوں سے بھر آئیں۔ اس نے فیصل کا ہاتھ پکڑا اور کہا، "فیصل، تم نے مجھے دوبارہ جینا سکھایا۔ ہاں، میں تیار ہوں۔"
کچھ مہینوں بعد، زارا اور فیصل کی شادی ہو گئی۔ فیصل نے عرفان کو اپنا نام دیا اور اسے اپنے بیٹے کی طرح پالا۔ زارا کی زندگی، جو کبھی عادل کے شک کی وجہ سے بکھر گئی تھی، اب فیصل کی محبت اور وفاداری سے دوبارہ مکمل ہو گئی۔

عادل کی کہانی ایک سبق تھی۔ اس کا شک، جو اس کے اپنے ماضی کی غلطیوں سے جنم لیا تھا، اس کی زندگی کو نگل گیا۔ اس نے زارا کی محبت کو سمجھنے کی بجائے اس پر الزام لگائے، اور اس کا نتیجہ اس کی اپنی تباہی کی صورت میں نکلا۔ زارا، جو ہمیشہ صبر اور محبت کی تصویر رہی، نے اپنی زندگی کو دوبارہ سنوارا، لیکن عادل کا شک اسے ہمیشہ کے لیے تنہا کر گیا۔

زارا اور فیصل کی زندگی اب عرفان کی ہنسی سے گونجتی تھی۔ ان کا گھر محبت اور سکون سے بھر گیا تھا۔ لیکن زارا کبھی کبھار رات کے سناٹے میں عادل کے لیے دعا مانگتی، یہ سوچ کر کہ اگر وہ اپنے شک پر قابو پا لیتا، تو شاید اس کی زندگی کا انجام کچھ اور ہوتا۔

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ شک ایک ایسی آگ ہے جو نہ صرف رشتوں کو جلاتی ہے، بلکہ خود انسان کی اپنی زندگی کو بھی خاکستر کر دیتی ہے۔ محبت اور یقین ہی وہ روشنی ہیں جو ہر تاریکی کو چھٹا سکتے ہیں۔
(ختم شد)
👇👇
اگر کہانی پسند آئی ہو تو کمنٹ میں ضرور بتایئں شکریہ