رانی میرے بچپن کی سہیلی تھی۔ ہم دونوں زندگی کے ہر دور میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹ لیا کرتی تھیں۔ وہ شروع سے ہی ملنسار ، خوش اخلاق اور قوت برداشت سے مالا مال لڑکی تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے خوب لاڈ پیار میں پہلی بڑھی تھی۔ خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئی ، لہذا تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ والدین کے علاوہ رشتے دار بھی اس پر جان چھڑکتے تھے اور اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی۔
اتنے ناز سے تربیت پانے والی لڑکیاں اکثر خود پسند اور خود سر ہو جاتی ہیں جب کہ رانی نے کبھی اپنے من میں ایسی فرسودہ عادات کو جگہ نہ دی۔ اتنے بڑے زمیندار گھرانے کی ہو کر بھی محلے کی عریب لڑکیوں کے ساتھ دوستی رکھتی تھی، کبھی اس نے اپنی امارت اور ہماری غربت کا موازنہ کر کے ہماری دل شکنی نہیں کی۔ رانی کی امی کو ہم خالہ جی کہتے تھے۔ انہوں نے بھی کبھی بیٹی کو غریب لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے سے منع نہیں کیا تھا۔ میں نے بار بار محسوس کیا کہ رانی اس لئے فیاض دل ہے کہ اس کے والدین نہایت رحم دل اور سخی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تمام سہیلیوں کے بیچ ایسے دمکتی، جیسے نیلگوں آسمان پر جھلمل کرتے ستاروں کے جھرمٹ میں چاند ہو۔ ہماری نظروں میں اس کی زندگی مقابل رشک تھی۔ نہایت لاڈ پیار میں گزرا بچپن ، اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکپن اور اچھی خواہشات کی تکمیل کے لئے جوانی، پھر ایک کامیاب ازدواجی زندگی۔ یہ سب قدرت کی ایسی عنایات تھیں، جو رانی کی خوش خلقی کا انعام تھیں۔
ریاض اس کے تایا کا بیٹا تھا، جس کے ساتھ رانی کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہو گئی۔ وہ دینی میں انجینئر کے عہدے پر فائز بھت۔ دونوں اپنی زندگی کے سفر پر نہایت مسرور و مطمئن تھے۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ دینی جا چکی تھی۔ میری بھی شادی ہو گئی اور اپنے شوہر کے ہمراہ جدہ چلی گئی۔ شادی کے بعد بھی میرا اس سے رابطہ رہا۔ وہ مجھے خط اور ٹیلی فون کے ذریعے خیریت سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔ ریاض اس کے ساتھ اچھا تھا۔ زندگی میں کسی شے کی کمی نہیں تھی، تاہم پانچ سال گزرنے کے بعد اولاد جیسی نعمت سے محروم تھی۔ سچ ہے زندگی پھولوں کی سیج نہیں ۔ غم اور خوشی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قانون قدرت ہے کہ اس دنیا سے کوئی انسان تمام خواہشات کی تکمیل کر کے نہیں جاتا بلکہ کوئی نہ کوئی حسرت نا تمام ضرور ہوتی ہے جس کو دل میں دبا کر اس دار فانی سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔
اس دوران ریاض نے رانی کا بہت علاج کرایا۔ بڑی سے بڑی لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا، مگر من کی مراد پوری نہ ہو سکی۔ رانی مجھے اپنے شوہر کے بارے لکھتی تھی کہ روبی ! میں بہت خوش قسمت ہوں کہ ریاض مجھے اتنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میرا دل کبھی نہیں دکھایا۔ سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ ان کے خلوص اور پیار میں کبھی کمی نہیں آئی۔ وہ اس بات سے بھی پریشان نہیں ہوتے کہ ان کے جائیداد کا کوئی وارث نہیں ہو گا۔ تاہم وہ خود اس مسئلے پر پریشان رہنے لگی تھی اور اکثر مجھے اپنے خدشات سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔
ساتھ ساتھ کہتی تھی کہ اگر خدا کو منظور ہوا تو وہ ہم دونوں پر ضرور کرم کرے گا۔ جب اس نے ہمیں ہر نعمت سے سرفراز کیا ہے ، تو ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اصل میں ریاض اسے سمجھاتا اور تسلیاں دیتا رہتا تھا، پھر بھی جانے وہ کیوں مطمئن نہ ہوتی اور کہتی تھی۔ کاش ہمارے پیارے سینچے ہوئے شجر محبت کو پھل پھول یہ لوگ کوئی روایتی ساس نندیں نہیں تھیں کہ رانی کے ناکردہ گناہ کی سزائیں تجویز کرتیں اور ریاض کو بیوی سے محض اس وجہ سے بد دل کرنے کی کوشش کرتیں۔ وہ سب دعائیں کرتے تھے کہ یا رب کریم ! ہماری رانی کی گود ہری کر دے ایک دن اچانک رانی نے مجھے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ میں اور ریاض پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ تایا جی کی صحت کافی خراب ہے۔ تم آکر مل جائو۔ ان دنوں میں بھی اپنے شہر آئی ہوئی تھی۔ اگلے دن ہی اس سے ملنے گئی اور جب رانی کو دیکھا، جس کو دنیا کی کامیاب اور خوش قسمت عورت سمجھتی تھی ، وہ سراپا حسرت نظر آئی۔ مجھ سے ملتے ہی اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
ایک پھیکی سی مسکراہٹ لیے، اس نے میرا استقبال کیا۔ میں نے کہا۔ رانی تم نے ہمیشہ ہمیں خوش رہنے کا درس دیا۔ خود تم نے کیسا روگ پال لیا ہے ؟ کافی دیر میں اس کے پاس بیٹھی تسلی دیتی رہی، شام کو اس کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اپنے والدین کے گھر چلی آئی۔ اسی رات رانی کے سر جو کافی بیمار تھے ، فوت ہو گئے۔ تب دوبارہ میں ان کے گھر گئی۔ رانی نے رو رو کر برا حال کر لیا بھتا کیونکہ وہ صرف اس کے سر نہیں تایا بھی تھے۔ ریاض بھائی بہت غمگین تھے ۔ وہ رانی کی طرف سے تو شا کی نہ تھے، لیکن اس دن ایک عجیب سی بات ہو گئی کہ جس نے ان جیسے کڑیل جو ان کے سینے میں چھید کر دیا۔ ان کے والد کو فوت ہوئے چھ سات دن گزرے تھے اور آج جمعرات تھی۔ شام کے وقت ماں نے بیٹے کو بلا کر کہا۔ بیٹا شام ہونے کو ہے۔ جلدی جلدی کھانے پر فاتحہ پڑھوا کر روٹی کسی غریب یتیم کو دے آئو اور یاد رکھنا، چالیس دن تک باقاعدگی سے اپنے والد کی روح کو ایصال ثواب کے لئے روٹی شام سے پہلے کسی یتیم بچے تک ضرور پہنچانا کیونکہ اولاد ہی والدین کی روحوں کو ثواب پہنچاتی ہے۔ ساتھ ہی ماں کی سسکیاں نکل گئیں کہ بیٹا! دعا کرو، کوئی بے اولاد نہ مرے کہ پھر انسان کا نام لیوا
کوئی نہیں رہتا۔ ان کا نشان مٹ جاتا ہے۔ ماں نے یہ بات جذبات کی رو میں کہہ دی، مگر یہ بات ریاض کے دل پر اثر کر گئی اور وہ خاموش خاموش رہنے لگے۔ والد کی وفات کے دو ماہ بعد انہیں واپس جانا تھا۔ بیوی سے کہا۔ رانی! میرا خیال ہے کہ امی جان کی دلجوئی کے لئے تم کو کچھ عرصہ یہیں رہنا چاہیے۔
یوں شوہر کی خوشنودی کی خاطر وہ ٹھہر گئی اور ریاض بھائی اکیلے ہی دبئی چلے گئے۔ ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ شروع دنوں میں وہ باقاعدگی سے بیوی کو خط لکھتے رہے، مگر پھر آہستہ آہستہ ان کے معمول میں تبدیلی آگئی۔ اب دو ماہ گزر جاتے ، ان کا خط نہ آتا اور آتا تو بے حد مختصر ۔ رانی ان کے رویے پر خاصی بد دل ہو گئی تھی، مگر اس نے شوہر کی وفا پر کبھی شک نہیں کیا بلکہ مصروفیات سمجھ کر خاموش رہی۔ ایک دن اس کے انجانے خدشات نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ریاض نے بیوی کو خط میں لکھا۔ رانی ! ابا جان کی وفات کے بعد جب سے یہاں آیا ہوں، بہت بے چین ہوں۔ کئی بار سوچا اپنے دل کی بات تم پر آشکار کر دوں مگر ہمیشہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں کہ میری بات سے تم جیسی وفا شعار بیوی کے دل پر کیا گزرے گی۔ اس سے پہلے کہ میں تمہاری نظروں میں گروں، مر ہی جائوں، لیکن سوچتا ہوں مر گیا تو اس دنیا میں کون ہو گا، جو میری روح کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ کرائے گا۔ یہ بھی سوچتا ہوں کہ رب العزت نے ہمیں تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ کون سی ایسی چیز ہے ، جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ ان سب نعمتوں کے ساتھ ایک اولاد بھی عنایت کر دیتا تو اس کے خزانے میں کیا کمی آجاتی۔
مانتا ہوں کہ ایسا سوچنا کفران نعمت ہے ، مگر کیا کروں ؟ عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہو کر رہ گیا ہوں۔ بچوں کے نہ ہونے سے زندگی بالکل بے کیف سی لگتی ہے۔ معاف کرنا، میں نے تمام بات واضح کر دی ہے۔ اب تمہاری رائے لینا چاہتا ہوں کہ اس بارے تم کیا کہتی ہو ؟ میں تمہاری موجودگی میں دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر ایک خلش ہے جو تیر کی طرح میرے سینے میں پیوست ہو کر رہ گئی ہے۔ بے شک ہمارے بعد ہماری جائیداد کے وارثوں کی کمی نہ ہوگی، مگر ہمارے لیے فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ یہ خط پڑھ کر وہ بہت روئی۔ مجھ سے پوچھا۔ روبی بتا ! میں اس خط کا کیا جواب دوں ؟ میں نے اسے چند باتیں سمجھائیں پھر اس نے اپنے شوہر کو خط لکھا اور مجھے دکھایا۔ میرے سرتاج ! صد سلامت رہو۔ میرا ایمان ہے کہ سب سے بڑھ کر انسان کے اپنے اعمال ہوتے ہیں، جو بندے کے کام آئیں گے، پھر یہ سوچیں آج کیوں آپ کو بے قرار کر رہی ہیں ؟ کیا ہمارے آبائو اجداد اپنے ساتھ کچھ لے کر گئے ہیں، اگر وہ کچھ لے کر گئے ہیں تو صرف اور صرف اپنے اعمال ۔ یہی اعمال ان کے کام آئیں گے۔
پھر ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری جائیداد کا کوئی وارث ہو، جس کی وجہ سے ہم دنیا میں یاد رکھے جا سکیں اور ہمارا نام مٹنے نہ پائے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر انسان اس دنیا میں رہ کر کچھ کام ایسے کر جائے، جس میں خلق خدا کی خدمت کا جذبہ کار فرما ہو، تو وہ مرنے کے بعد بھی صدیوں زندہ رہتا ہے اور یاد رکھا جاتا ہے۔ یاد رہنے کے لئے صرف اولا د ہی ایک وجہ نہیں ہے۔ جب یہ ریاض کو موصول ہوا اس کے اوپر جانے کیا اثر ہوا کہ ادھر مکمل خاموشی چھا گئی۔ دو ماہ گزر گئے ، رانی کی پریشانی مقابل دید تھی۔ پیارے شوہر کے خط کے انتظار میں وہ بیمار پڑ گئی۔
رانی کی ساس نے بیٹے کو فون پر بہو کی بیماری کی اطلاع دی تو جواب آیا کہ میں تمہیں اپنے دل کی حالت لکھتے ہوئے بالکل شرمندہ نہیں، کیونکہ میرا ضمیر مطمئن ہے اور مجھے ذات باری تعالی پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ جس کو چاہے دے اور جس سے لے لے، لیکن یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ دنیا میں اولاد انسان کے لئے قدرت کا ایک بہترین عطیہ ہے۔ اگر نیک اولاد ہو تو دین و دنیا کے لئے بہتر اور اگر برائی کا راستہ اختیار کرلے تو پھر بے شک والدین موت سے پہلے مر جاتے ہیں اور دنیا ان کو اولاد کے ناتے اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتی مگر اولاد کی آرزو ہر حال میں رہتی ہے۔ میں تمہاری طرف سے پریشان ہوں کیونکہ تم نے شاید میرے خط کا اثر زیادہ لیا ہے یا شاید تم نے بھی اولاد کی کمی محسوس کرتے ہوئے اپنے دل کو روگ لگا لیا ہے۔ ہمارے ہاں اولاد نہیں ہوئی، تو تمہارا کیا قصور ہے، جس کی وجہ سے تم اپنے آپ کو یا میں تم کو سزا دوں۔
مرد اگر دوسری شادی اولاد کے لئے کرتے ہیں تو وہ قابل معافی ہوتے ہیں، تاہم میں ہر گز تم کو دکھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ میرا بس چلے تو میں دنیا کی تمام خوشیاں تمہارے قدموں پر نچھاور کر دوں، لیکن مجھے بچوں سے بھی پیار ہے۔ اس خط سے ریاض کے اپنے دل کی محرومی اور بچوں کی شدید خواہش کا اظہار ہوتا تھا۔ لگتا تھا وہ اب زیادہ دنوں تک اس خواہش کو دبا نہیں سکے گا اور دوسری شادی کی اجازت کے لئے بیوی کو مجبور کر دے گا، پھر سنا کہ وہ پاکستان آرہا ہے۔ میں حالات کا پتا کرنے رانی کی طرف گئی۔ وہ گھر کی صفائی اور سجاوٹ میں لگی تھی۔ اس کی اپنے شوہر سے والہانہ محبت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اگر ریاض نے آکر اس کے سارے خواب توڑ دیئے تو کیا ہوگا ؟ وہی ہوا، جس کا مجھے اندیش تھا۔ ریاض کی آمد کے دو تین دن بعد ہی رانی کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی۔
اس کا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا اور اس سے اجازت مانگ رہا تھا۔ وہ اولاد کی نعمت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا کیونکہ رانی بانجھ تھی۔ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا، مگر عورت کو ہی اس کی سزا ملتی ہے ، حالانکہ یہ سب قدرت کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس نے غمناک دل سے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دے دی، تاکہ اپنے شوہر کو خوش اور آسودہ دیکھ سکے۔ ساس نے ایک لڑکی غریب خاندان سے اس مقصد کے لئے پسند کر لی، جو اس کی دور کی رشتہ دار بھی تھی۔ غریب لڑکی کو اسی وجہ سے چنا گیا کہ وہ رانی کی تابعدار رہے گی۔ شوہر بہت مشکور تھا۔ اس نے بھی کہا کہ وہ عمر بھر رانی کی تابعدار رہے گا اور اس کا یہ احسان کبھی نہیں بھولے گا۔
اب رانی اندر سے گھلنے اور مرنے لگی۔ اس کی حالت روز با روز نا گفتہ بہ ہوتی جارہی تھی، جیسے کوئی اس کو اندر ہی اندر کھا رہا ہو۔ بالآخر وہ شدید بیمار ہو گئی۔ جن دنوں اس کی سائنس نئی بہو لانے کے اہتمام میں لگی تھی ، رانی گھل گھل کر ختم ہوتی نظر آئی۔ ایک دن ریاض زیورات کے ڈبے ہاتھ میں تھامے گھر آیا اور آتے ہی رانی کے پاس گیا اور بولا۔ دیکھو، جیسا سیٹ اُس کے لئے ہے، تمہارا اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ لو، دیکھو تو سہی۔ رانی نے شوہر کے اصرار پر مخملی ڈبے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو ریاض کو وہ ہاتھ لکڑی کا بنا ہوا محسوس ہوا۔ یکدم اسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ اس نے غور سے رانی کے چہرے کو تکا، وہاں تو کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی۔ آنکھوں کے چراغ بھی بجھے بجھے تھے۔ ریاض کے دل پر کوئی تیزی چیز بہہ گئی۔
اولاد کی خواہش پوری کرنے میں اس قدر مگن ، دوسری شادی کے کاموں میں اتنا الجھ گیا تھا کہ کافی دنوں سے اس نے رانی کی طرف غور سے دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ میرے خدا! میں نے اس کی کیا حالت کر دی۔ لمحے بھر کو اس نے سوچا، تو اس خود سے بھی شرم کی آگئی۔ اس نے زیورات کے ڈبے ایک جانب رکھ دیئے اور ماں سے کہہ دیا کہ میں دوسری شادی نہیں کر رہا۔ اولاد اگر نہیں ہوتی تو یہ خدا کی مرضی۔ میں اپنی رانی کو دکھ کی آگ میں جلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ انہی دنوں ریاض کی بھابھی نے چوتھے بچے کو جنم دیا تھا۔ اس نے اپنی بھابی کے پائوں پکڑ لیے اور اس سے بچ لے کر رانی کی جھولی میں ڈال دیا۔ آج اس واقعہ کو کئی سال گزر گئے ہیں۔ رانی تندرست و توانا اور خوش باش زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس نے آج تک اس بچے کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کی حقیقی ماں نہیں۔ خدا رانی جیسا شوہر اور ساس نندیں ہر عورت کو دے۔