میرے ابو کے کزن ، ریاض پولیس میں انسپکٹر تھے۔ اس نئی جگہ آئے ان کو تین دن ہوئے تھے کہ ایک کیس آگیا۔ کسی عورت کے قتل کا معاملہ تھا۔ ایک بہونے اپنی ساس کو قتل کر دیا تھا۔ قتل کی وجہ اس کا کزن تھا۔ انکل ریاض نے معلومات کیں، تو لوگوں نے یہ کہانی سنائی که شازیہ سات برس کی تھی، جب اس کے ماں باپ انتقال کر گئے ، تب اس کی پھپھو اس کو اپنے گھر لے گئی۔
وہ اس سے بہت پیار کرتی تھی۔ شازیہ تھی بھی بہت پیاری لڑکی سفید رنگت ، نیلی آنکھیں، صورت میں بھی بہت کشش تھی۔ جب وہ تھوڑی بڑی ہوئی، تو پھپھو کے بیٹے کو پسند آگئی اور یوں اس کی منگنی محمود سے ہو گئی۔ وہ بہت خوش تھی اور اس خوشی میں مزید دلکش نظر آنے لگی تھی۔ جب اس کی عمر سترہ سال ہو گئی تو پھپھونے اس کی شادی کر دی۔ اس شادی سے بہت سے لوگوں کے دل ٹوٹے کیونکہ خاندان کے تقریبا تمام لڑکے اس کو اپنے خوابوں کی رانی بنا چکے تھے مگر اس کی شادی ہونے سے ان سب کی امیدیں ختم ہو گئیں، البتہ وہ خود شادی کے بعد بہت خوش تھی۔ ظاہر ہے ، اتنا چاہنے والا شوہر ملا تھا۔ اب بھی وہ آزادی سے ادھر ادھر جاتی تھی کیونکہ جب اس کے والدین فوت ہوئے تھے ، تب سے وہ قریبی عزیزوں کی آنکھوں کا تارا تھی۔ سب اس سے پیار کرتے تھے ، اس لئے وہ سارا دن کبھی کسی کے گھر تو کبھی کسی کے گھر ہوتی۔
پھپھو بھی اسے منع نہیں کرتی تھیں کہ یتیم بچی ہے، اپنوں کے گھروں میں ہی تو جاتی ہے۔ وہ خود گھر کا سارا کام خود کرتیں اور شازیہ صبح صبح چلی جاتی۔ اس کا کہنا تھا کہ میں گھر میں اکیلی بیٹھ نہیں سکتی، پھر کیا کروں ؟ آپ کسی کو بلا دیں۔ کسی سہیلی سے باتیں کروں گی، تو پھر کہیں نہیں جاؤں گی، وہ یہ سن کر خاموش ہو جاتیں۔ محمود دوسرے شہر میں کام کرتا تھا اور شازیہ اپنی ساس کے ساتھ ہوتی تھی۔ جب اس کی شادی ہو گئی اور کافی دن گزرنے کے باوجود بھی وہ نہ بدلی تو لوگوں نے باتیں بنانا شروع کر دیں۔ ہر روز عور تیں اس کی ساس کے پاس آتیں اور کہتیں کہ بہن ! بہو کو اتنا کھلا مت چھوڑو۔
کل ہم نے اس کو فرقان کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا ہے، اس کو قابو میں رکھو۔ اس کی ساس ایسی باتیں سن سن کر تھک چکی تھیں، مگر پھر بھی بہو کی طرف داری کرتی تھیں۔ ایک دن ساتھ والے گھر سے عورت ایک آئی اور انہیں بتایا کہ شاید روزانہ گھنٹوں چھت پر بیٹھ کر فرقان سے باتیں کرتی ہے۔ چونکہ ہماری چھت ان کی چھت سے ملی ہوئی ہے ، اس لئے میں روزانہ دیکھتی ہوں۔ تم اس کو منع کرو۔ اس کی ساس یہ سن کر پھٹ پڑی اور بولی۔ تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے ؟ فرقان اس کا کزن ہے اور میری بہو ایسی نہیں ہے۔
مجھے پورا بھروسہ ہے۔ اگر وہ اپنے کزن سے بات کر لیتی ہے تو کیا ہوا۔ وہ عورت چلی گئی۔ اب سب لوگ چپ ہو گئے کیونکہ اس کی ساس نے لوگوں کا منہ بند کر دیا تھا۔ ان کو بہو پر اندھا اعتماد تھا مگر بہو اس کے اعتماد کو تار تار کرنے پر تلی تھی۔ ایک دن محمود جب کام سے واپس لوٹا، تو عجیب منظر تھا۔ اس کے گھر سے رونے کی آواز میں آرہی تھی اور دروازے کے سامنے بہت سے مرد بیٹھے تھے۔ ایسا لگ رہا بھتا جیسے کوئی مر گیا ہو۔ وہ پریشان کھڑاد دیکھ رہا تھا کیونکہ آج وہ تین ہفتے بعد گھر لوٹا تھا۔ گھر سے اس کا ماموں نکلا اور محمود کو گلے سے لگا کر کہا۔ تمہاری ماں فوت ہو گئی ہے۔
محمود حیران تھا کہ اچانک یہ سب کیسے ہوا ؟ تب ماموں نے بتایا کہ کل شام جب شازی نے ہمیں بلایا، تو تمہاری ماں مر چکی تھی۔ محمود اندر گیا، سب اس سے مل رہے تھے، مگر اس کا ذہن ماں کی موت کو قبول نہیں کر رہا تھا۔ شازیہ رو رو کر اسے بتارہی تھی، مگر وہ بت بنا کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب میت کو غسل دینے کے لئے عورت کو لائے تو اس نے میت دیکھ کر کہا کہ میں یہ کام نہیں کر سکتی، آپ کسی اور کو بلا لیں۔ پھپھو کی بیٹی نے پوچھا۔ کیوں ، کیا ہوا ؟ تب اس نے میت کے بدن سے کپڑا کھینچ لیا اور کہا کہ مجھے لگتا ہے ، یہ قتل کی وادات ہے۔ اگر میں نے غسل دیا تو پولیس مجھ سے پوچھ گچھ کرے گی۔
پھپھو کا جسم بری طرح زخمی تھا۔ گردن پر ناخنوں کے نشانات اور پورے جسم پر چوٹیں تھیں۔ سب نے منتیں کیں ، مگر وہ عورت چلی گئی۔ پھر شازی سے پوچھا گیا کہ یہ سب کیا ہے ؟ تو اس نے کہا۔ میں نے آپ کو بتا یا تو تھا کہ میں اٹھی تو پھپھو باتھ روم میں گری ہوئی تھیں۔ گرنے سے ان کے جسم پر چوٹیں آئی تھیں۔ پھر بھی کسی نے میت کو غسل دینے کی ہمت نہ کی۔ آخر ان کی ایک رشتہ دار عورت نے آگے بڑھ کر کہا کہ میں غسل دے دیتی ہوں۔ ایس موقع پر شازیہ کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔ وہ بات بات پر چونک جاتی تھی، آخر عورت تھی۔ اس کا چہرہ اُس کے حرم کی چغلی کھا رہا تھا۔ سب کو شک ہو گیا کہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہے، جو وہ چھپا رہی ہے۔ سارا دن اس نے مشکوک نظروں کا سامنا کیا، مگر کوئی بات نہ کی۔ جب محمود نے ماں کو دیکھا اور لوگوں کی باتیں سنیں تو اس کو بھی شک ہو گیا کہ کوئی بات ضرور ہے، میری ماں رضائے الہی سے نہیں مری۔ آخر بیٹا تھا، یہ سوچ کر اس کا دل مٹھی میں آجا تا تھتا کہ کسی نے ظلم کر کے ماں کو مارا ہے۔
ماں کو دفناتے ہوئے محمود نے عہد کیا کہ میں اپنی ماں کو مٹی کے سپر د کر رہا ہوں مگر امانت کے طور پر، بیس دن کے اندر اندر معلومات کر کے قبر دوبارہ کھدواؤں گا۔ اس کے بعد میت دفنا دی گئی۔ محمود گھر آیا تو شازیہ سہمی سہمی سی تھی۔ اس نے بلایا تو وہ چونک پڑی اور اس کے بلانے پر بھی نہ گئی۔ وہ اس کو بلاتا رہا، مگر وہ اپنی جگہ سے نہ مل سکی۔ سب نے کہا جاؤ، تمہارا شوہر ہے، مگر وہ پسینہ پسینہ ہو گئی اور اپنے کمرے میں قدم نہ رکھا۔ محمود نے اس کا چہرہ پڑھ لیا تھا۔ وہ باہر چلا گیا۔ شام کو پھر جب وہ گھر آیا اور شازیہ کو بلایا تو وہ گھبرا گئی۔ سب نے کہا کہ پھپھو اس کی ماں جیسی تھی، اس نے شازیہ کو بہت محبت سے پالا تھا، اس لئے اُس سے یہ صدمہ برداشت نہیں ہو رہا۔
سب گھر والوں نے سمجھا بجھا کر شازیہ کو کمرے میں بھیجا اور کہا۔ جاؤ، تم اب سو جاؤ۔ وہ ڈرتی ہوئی اندر چلی گئی۔ محمود نے اس کو کچھ نہیں کہا کیونکہ اس کی حالت ایک زخمی کبوتر جیسی لگ رہی تھی۔ وہ خود بھی سو گیا۔ تقریبا آدھی رات کو شازیہ نیند سے اٹھ بیٹھی اور زور زور سے رو کر کہنے لگی کہ پھپھو کو فرقان نے مارا ہے محمود میں بے قصور ہوں۔ محمود نے اس کو تسلی دی اور کہا۔ سو جاؤ، مگر وہ خود نہ سوسکا۔ وہ سوچ رہاتھا کہ ہو سکتا ہے وہ نیند میں ڈر گئی ہو۔ جب شام ہوئی تو اس نے شازیہ کو بلایا تو وہ گھبرا گئی اور بولی۔ میں نہیں آتی، مگر اس دفعہ محمود اس کو بازو سے گھسیٹ کر کمرے میں لے گیا اور اندر سے دروازہ بند کر دیا۔
سب لوگوں کو خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں بیوی کو مارنہ دے کیونکہ ماں کا غم بہت بڑا ہوتا ہے۔ محمود نے شازیہ سے کہا کہ میرے پاس آرام سے بیٹھو، گھبراؤ نہیں۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ تم میری بیوی ہو ، میں نے تم سے شادی بھی اپنی پسند سے کی ہے۔ میں تمہیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہوں۔ تم میری جان ہو اور بھلا کوئی اپنی جان کو بھی ختم کرتا ہے ؟ تم مجھ سے ڈر کیوں رہی ہو ؟ ماں میری فوت ہوئی ہے۔ مانا وہ تمہاری پھپھو تھیں، مگر ایسا بھی کیا غم کہ تمہیں اپنا بھی ہوش نہیں رہا ہے اور مجھ سے بھی ڈرنے لگی ہو۔ ایسی باتوں سے شازیہ تھوڑی سنبھل گئی۔ اس کا خیال تھا کہ محمود کو اس پر شک ہو گیا ہے۔ بولی۔ وہ میری پھپھو تھیں، میں ان کو کیسے مار سکتی ہوں۔ اچھا یہ بتاؤ، کل رات تم کیا کہہ رہی تھیں ؟ محمود نے اچانک پوچھا تو وہ گھبرا گئی۔
تم کل کہہ رہی تھیں کہ پھپھو کو فرقان نے مارا ہے اور تم بے قصور ہو ؟! ب شازیہ کا چہرہ فق ہو گیا۔ محمود نے اس کو بالوں سے پکڑ لیا اور کہا۔ سچ سچ بتاؤ فرقان نے میری ماں کو کیوں مارا؟ بولو ، جواب دو۔ وہ غصے سے کانپ رہا تھا۔ شازیہ نے ڈر کے مارے اسے سب بتا دیا کہ فرقان ہمارے گھر آیا تھا۔ اس نے پھپھو سے پیسے مانگے تھے۔ انہوں نے نہیں دیئے تو اس نے پھپھو کو مار دیا اور مجھے کہا کہ اگر تم نے کسی کو بتایا تو میں تمہیں بھی جان سے مار دوں گا، اس لئے میں چپ رہی۔ شازیہ رورہی تھی۔ مگر لوگ کچھ اور کہتے ہیں۔ وہ تو کہتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے میری ماں مری ہے اور تو بھی مارنے میں فرقان کے ساتھ تھی۔ جلدی بتا، ورنہ ابھی تجھے شوٹ کر دوں گا۔
محمود نے دھمکی دی اور بیوی پر آنکھیں نکال لیں۔ وہ بہت غصے میں تھا، تبھی شازی نے سچ سچ بتا دیا کہ فرقان اور میں روزان سے چھپ کر ملتے تھے۔ وہ مجھے پسند کرتا تھا ، مگر میری منگنی آپ سے ہو گئی، اس لئے میں نے کچھ نہ کہا۔ مجھے وہ شروع سے اچھا لگتا تھا۔ پھپھونے مجھے پالا پوسا، بڑا کیا تھا، تو ان کو میں انکار نہ کر سکی اور آپ سے شادی کر لی۔ میں آپ کو بھی پسند کرتی تھی لیکن جب آپ گھر پر نہیں ہوتے تو میں فرقان سے ملا کرتی تھی۔ لوگوں نے پھپھو کو کہا مگر انہوں نے لوگوں کی باتوں کا یقین نہ کیا۔ اس طرح میرے حوصلے بلند ہو گئے ، پھر آپ بھی کئی کئی ہفتوں تک باہر رہتے تھے۔ میں بھی آخر انسان ہوں ، کب تک تنہائی
جھیلتی ۔ اُس رات بھی وہ مجھ سے ملنے آیا تھا۔