غلط فہمی

Sublimegate Urdu Stories

سائرہ کومیرے بھائی اشعر نے پہلی بار ایک کزن کی شادی میں دیکھا تھا۔ یہ لوگ دولہا کے والد کے جاننے والے تھے، اس لیے شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ حسین صاحب سے تایا ابو کی پرانی شناسائی تھی، بلکہ یوں کہیے کہ دوستی کا رشتہ تھا۔ سائرہ، حسین صاحب کی بیٹی تھی، جو شادی میں بہت بن ٹھن کر آئی تھی اور دولہا کی بہنوں کے ساتھ ادھر اُدھر گھومتی نظر آتی تھی۔ 

جانے وہ کون سی گھڑی تھی کہ بھائی اشعر کی نظر اس رنگین تتلی پر پڑ گئی اور وہ اس کے ظاہری حسن پر فریفتہ ہو گئے۔ گھر آ کر انہوں نے والدہ سے ضد کی کہ مجھے سائرہ سے ہی شادی کرنی ہے، لہٰذا حسین صاحب کے گھر رشتہ لے کر جائیں۔ ہمارے والدین کی اس فیملی سے کوئی جان پہچان نہ تھی۔ امی نے تو سائرہ کو شاید غور سے دیکھا بھی نہ تھا، انہیں تو اس کی صورت بھی یاد نہ رہی تھی۔ شادی کے گھر میں درجنوں لڑکیاں ایک سے ایک سج سنور کر آئی ہوئی تھیں۔ تاہم، مجھے وہ یاد رہی کیونکہ سلمیٰ نے میرا اس سے تعارف کرایا تھا۔ وہ مہندی والے دن سبز لہنگا پہن کر آئی تھی، سرخ کرتی اور سبز دوپٹہ، جس پر منفرد قسم کا سلمیٰ، دبکے کا نفیس کام کیا گیا تھا۔

 اس کے فاخرانہ لباس اور بے نیازی بھرے انداز سے لگتا تھا کہ وہ کسی امیر گھرانے کی لاڈلی بیٹی ہے۔ بھائی اشعر کے دل پر اس کی تصویر کچھ اس طرح نقش ہو گئی تھی کہ انہوں نے امی سے صاف کہہ دیا، جس طرح بھی ہو، آپ حسین صاحب کے گھر جانے کی کوئی سبیل نکالیے، میں کسی اور لڑکی سے شادی نہیں کروں گا۔ والد صاحب چاہتے تھے کہ تایا کی بیٹی ماہِرہ سے اشعر بھائی کا رشتہ طے ہو جائے، یہی تایا تائی کی بھی خواہش تھی۔ تبھی والدہ کے لیے والد صاحب کو راضی کرنا آسان نہ تھا کہ وہ اشعر کی پسند کو لے کر حسن صاحب کے ہاں رشتے کی بات کرنے جائیں۔ کافی سوچ بچار کے بعد آخرکار رشتوں کی ایک پھوپھی خالدہ بی بی، جن کی اس گھرانے سے کچھ جان پہچان تھی، راضی ہو گئیں۔

 ایک روز وہ ہمارے گھر آئیں اور منجھلے بھائی وجاہت سے کہا، بیٹا! تم میرے ساتھ چلو، میں تو حسن صاحب کے گھر کا راستہ جانتی ہوں اور ان کی بیوی سے واقف ہوں، لیکن کسی کو ساتھ ہونا چاہیے۔ والدہ نے مجھے وجاہت بھائی کے ساتھ روانہ کر دیا کہ پہلے تم دونوں جا کر لڑکی والوں کے گھر، ان کے رہن سہن اور ماحول کو دیکھو، پھر میں خود جاؤں گی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ گھر بہت عالیشان اور صاف ستھرا ہے۔ سائرہ کی والدہ بڑی خوش اخلاق اور باوقار خاتون تھیں۔ خود سائرہ بھی نہایت مہمان نواز اور خوش مزاج نکلی۔ یہ لوگ جس محبت اور سج دھج سے ملے، بس دل موہ لیا۔ سائرہ میں بناوٹ کا نام و نشان نہ تھا۔ وہ لگی لپٹی نہیں بلکہ صاف بات کرتی تھی۔ 

اس نے مجھ سے سرگوشی میں پوچھا، “تم لوگ یہاں آنے کا سبب کیا ہے؟” میرے دل میں ایک کھٹکا سا ہوگیا، کیا وہ رشتہ دیکھنے تو نہیں آئی ہو؟ اس نے ایسی سیدھی اور کھری بات منہ پر کہہ دی کہ میں اس کا منہ دیکھتی رہ گئی۔ میں سوچنے میں پڑ گئی کہ کیوں صاف بات نہ کہوں۔ جو دل میں ہے، وہی کہنا چاہیے۔ آخرکار مجھے من کی بات کھولنی پڑی، میں نے کہا، “ہاں بھئی، ہم تمہارا رشتہ لینے آئے ہیں، تبھی یہاں آئے ہیں۔ مجھے تو شادی کے گھر میں دیکھ لیا تھا، یوں کہہ لو کہ ہمارا گھر اور رہن سہن دیکھنے آئے ہیں۔” سائرہ نے جواب دیا، “وہ تو ہمارے بڑے دیکھنے آئیں گے۔ کیا تمہارے بڑوں کی خواہش ہے کہ میرا رشتہ لیا جائے؟” میں نے صاف صاف کہا، “میرے بھائی کی خواہش ہے۔” وہ سمجھی کہ وجاہت، جو میرے ساتھ آیا تھا، اس کی خواہش پر ہم آئے ہیں، حالانکہ وہ تو صرف ہمیں اپنی گاڑی میں لایا تھا۔ اور گاڑی کون چلاتا؟ ہمارا تو ڈرائیور بھی نہیں تھا۔ 

سائرہ نے تبھی وجاہت کو غور سے دیکھا جو اس کے بھائی اور والد کے ساتھ محو گفتگو تھا۔ خالدہ پھوپھو بھی ان کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں اور سائرہ البتہ بڑوں کے درمیان نہ بیٹھیں، ہم باہر برآمدے میں محو گفتگو ہو گئیں۔ میں نے دیکھا کہ رشتے کا معاملہ معلوم ہوتے ہی سائرہ کا چہرہ کھل گیا اور وہ بہت خوش نظر آنے لگی۔ ملازمہ سے چائے کے ساتھ بہت سے مزیدار کھانے کے لوازمات، شامی کباب، رول، روسٹ، اور پکوڑے بنانے کا بھی کہہ دیا۔ شام کا وقت تھا مگر اس نے اتنی مہمان نوازی کی کہ کھانے کی دعوت جیسا اہتمام ہو گیا۔ اس کی ان عنایتوں پر یقین ہو گیا کہ اس نے ہم سے رشتہ جوڑنے پر دل سے آمادگی ظاہر کی ہے، تاہم لڑکی کے انتظامات سے کیا ہوتا ہے؟ جب تک بڑے راضی نہ ہوں اور ہم تو بالکل اجنبی اور غیر تھے، ان کے لیے جیسے وہ ہمارے لیے غیر تھے۔

سنا کرتے تھے کہ بغیر جد و جہد کے کوئی سکون کا پھل نہیں ملتا۔ ہم نے بھی خوب جد و جہد کی تھی۔ وجاہت اور میں نے دونوں طرف کے والدین کو راضی کر لیا کہ اب سائرہ ہی ہماری بھابھی بن کر گھر آئے گی۔ بھائی اشعر تو اس قدر خوش تھے کہ ہم سے کہتے تھے، “ڈھونڈے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ دیکھو میری لگن کچی تھی، سائرہ مل گئی نا بالآخر!” بہرحال خالدہ پھوپھو نے کافی تگ و دو کی اور اس مبارک کام کا بیڑا اٹھا لیا۔ یوں میرے بھائی اشعر کے ساتھ سائرہ کا رشتہ طے ہو گیا۔ اشعر بھائی بات طے ہو جانے پر ایسے خوش تھے جیسے دونوں جہان کی نعمتیں ان کو مل گئی ہوں۔ وہ خود سے زیادہ کسی اور کو خوش نصیب نہیں سمجھتے تھے۔اب ہم سب بہن بھائی بہانے بہانے سے سائرہ کے گھر جانے لگے۔ وجاہت ساتھ ہوتے کیونکہ گاڑی وہی چلاتے تھے۔ کچھ دنوں تک سائرہ یہی سمجھتی رہی کہ اس کی بات چیت وجاہت کے ساتھ پکی ہوئی ہے کیونکہ وہی ان کے گھر پہلی بار آیا تھا۔

جب تک نکاح نہ ہوا سوائے بھائی جان کے ہم سب بڑی آزادی سے حسن انکل کے گھر آتے جاتے تھے اور سائرہ سے مل سکتے تھے پھر شادی کی تاریخ طے ہو گئی اور رخصتی کے لیے لڑکی کے والدین نے تین ماہ کی مہلت مانگی اس دوران ان کی طرف سے جہیز اور ہماری طرف سے بری بنائی جا رہی تھی۔ بھابھی کے جوڑے جو ہم نے بری کے لیے بنوا کر دینے تھے وہ ہم نے ان کی پسند سے خریدنے تھے اس لیے وجاہت کے ہمراہ ہم اب تقریباً روز سائرہ کے گھر جاتے اور پھر اسے لے کر بازار یا درزی کے پاس چلے جاتے بھائی وجاہت گاڑی میں بیٹھے رہتے اور ہم خریداری کر کے آ جاتے میں سائرہ سے خوب گپ شپ لگاتی جیسے وہ میری بھابھی بن گئی ہو وجاہت سے وہ بے تکلفی سے مگر حد میں رہ کر بات کرتی اور وہ بھی ایک حد میں رہ کر باتیں کرتا تھا کیونکہ وجاہت کا رشتہ سائرہ کے ساتھ دیور کا بننے جا رہا تھا اس کی کچھ ہنسی مذاق کی بھی عادت تھی وہ سائرہ کے گھر والوں سے خوب گپیں لگاتا اور ان کو ہنساتا تھا اس لیے اس کے سبھی گھر والوں میں وہ ہر دلعزیز ہو چکا تھا ۔ 

وہ اس کی آمد سے خوش ہوتے اگر کسی روز نہ آتا تو کہتے آج میاں وجاہت کیوں نہیں آئے شکوہ کرتے کہ وہ نہیں آیا تو مزہ نہیں آ رہا آتے ہی رونق لگادیتا تھا خاص طور پر سائرہ کے دونوں بھائی وجاہت پر جان چھڑکنے لگے تھے میری چھوٹی بہنیں جب سائرہ سے مل کر آتیں تو اشعر بھائی سے کہتیں کہ بھابھی کہتی ہیں نہ جانے یہ تین ماہ کا عرصہ کب گزرے گا کاش وقت جلدی گزر جائے اور میں تم لوگوں کے گھر ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں کیونکہ مجھے تم سب بہن بھائیوں سے محبت ہو گئی ہے یہاں تو تنہائی سے بہت بوریت ہوتی ہے ایسی باتیں سن کر اشعر بھائی خوش ہو جاتے وہ اس قدر شرمیلے تھے کہ ایک بار بھی اپنی ہونے والی سسرال نہ گئے اور نہ سائرہ سے بات کی سائرہ یہی سمجھتی رہی کہ اس کا رشتہ وجاہت سے طے ہوا ہے۔ جس روز رسم ہونی تھی۔ اشعر بھائی جان اپنی ہونے والی دلہن کے گھر بڑی عزت و احترام کے ساتھ گئے۔

 سائرہ کے بھائی بھی ان کو گھیرے میں لے کر ہال میں چلے گئے جہاں ان کے کچھ رشتے دار اور مولوی صاحب موجود تھے منگنی کی بجائے اب نکاح کا پروگرام بن چکا تھا۔ سو حسن صاحب اور ان کے بیٹے اشعر بھائی کو واقعی اہمیت دے رہے تھے سائرہ مگر حیران تھی کہ وجاہت تو کبھی اندر کبھی باہر آ جا رہا ہے۔ یہ لوگ کس کو دولہا کہ رہے ہیں اور اتنی اہمیت دے رہے ہیں اس نے مجھ سے پوچھا کیا میرا نکاح تمہارے بھائی سے نہیں ہو رہا میں نے کہا ہاں بھائی سے ہی تو ہو رہا ہے اور کس سے ہو رہا ہے لیکن وجاہت تو عام سے سادہ کپڑوں میں آیا ہے میں نے بتایا کہ تمہارا نکاح وجاہت سے نہیں بلکہ میرے بڑے بھائی اشعر سے ہو رہا ہے وجاہت تو میرا دوسرے نمبر کا بھائی ہے۔یہ کیا کہہ رہی ہو؟ تم نے تو کبھی اشعر کا ذکر میرے سامنے کیا ہی نہیں اور نہ ہی وہ کبھی ہمارے گھر آیا ہے۔

 مجھے دیکھنے تو پہلے روز تمہارے ساتھ وجاہت آیا تھا۔ ہاں، آیا تھا لیکن اشعر بھائی نے تمہیں شادی میں دیکھ لیا تھا، اس لیے دوبارہ دیکھنے نہیں آئے۔ کہتے تھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ بار بار لڑکی کے گھر جائیں۔ عجیب بات ہے اور عجیب ہے تمہارا بھائی۔ وہ حیران و پریشان تھی، اب کیا کروں؟ میں تو وجاہت کا سمجھ رہی تھی۔ ارے بھئی، تم نے وجاہت کو دیکھا ہے؟ اگر اشعر کو دیکھو گی تو خربوزے کی بجائے اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھو گی. زلیخا کی سہیلیوں کی طرح۔ سائرہ، اشعر بھائی وجاہت سے کہیں زیادہ ہینڈسم اور شاندار ہیں۔ ان کی پرسنالٹی الگ ہی ہے۔ وجاہت بےچارہ تو بس ان کے سامنے بچہ سا لگتا ہے۔ ارے بھئی خوش قسمت ہو کہ اشعر جیسا دولہا مل رہا ہے۔ بس ذرا سی دیر ہی تو ہے۔ ابھی دیکھ ہی لو گی تم ان کو پھر مانوں گی کہ میں نے واقعی سو فیصد صحیح بات کہی تھی۔

 منگنی کی رسم سے تین دن پہلے پروگرام بدل دیا گیا تھا۔ بزرگوں نے کہا، منگنی چھوڑو، سیدھا نکاح کرتے ہیں۔ سادگی کے ساتھ، دھوم دھڑام شادی میں خوب کریں گے۔ جب نکاح کا وقت آیا تو دولہا بھی آیا اور یہ انکشاف بھی سائرہ پر ہوا کہ وجاہت نہیں، دراصل اشعر اس کا جیون ساتھی بننے جا رہا ہے، جس کو نہ اس نے دیکھا ہے اور نہ بات کی ہے۔ وہ صدمے میں رہ گئی، اس کا بس چلتا تو اس تقریب کو ملتوی کروا دیتی، لیکن اب تو مہمان، مولوی صاحب سب آچکے تھے۔ چند لمحوں بعد رسم نکاح ادا کی جانی تھی۔ وہ سبز لہنگا پہنے بیٹھی تھی مگر اس طرح بے جان کہ جیسے ابھی ابھی اس کی روح جسم سے پرواز کر گئی ہو۔ 
میں نے تسلی دی اور خدا کا واسطہ دیا کہ سائرہ اب خود پر قابو پا لے۔ اب وقت نہیں رہا ہے پیچھے مڑ کر دیکھنے کا۔ خیر، نکاح تو ہو گیا، لیکن سائرہ نے شاید اشعر کا چہرہ دیکھا بھی یا نہیں۔ بات کرنے کا تو موقع ہی نہ ملا اسے۔ ہم تو نکاح کر کے چلے آئے، لیکن سنا ہے کہ بعد میں اس نے ماں باپ سے بہت جھگڑا کیا کہ آپ لوگوں نے مجھ کو پہلے اشعر کا نہیں بتایا۔ نکاح والے دن بتایا تو وہ بولے تم نے شادی کے لیے ہاں کردی تھی تو ہم نے نام کیا جائے۔ ہمیں یہ دھیان ہی نہیں رہا کہ تمہارے سامنے لڑکے کا نام لیتے۔ خیر، یہ عجیب سی بات ہو گئی، ورنہ کسی نہ کسی کے منہ سے لڑکے کا نام نکل ہی جاتا ہے۔ مگر سائرہ سے سب یہی کہتے کہ لڑکا اچھا ہے، لڑکا خوبصورت ہے۔ اشعر سے کوئی نہیں کہتا تھا کہ اس کے کان کھڑے ہوتے، بھلا اس کے دل کی کسی کو کیا معلوم اور کسی کے دلوں کی اس کو کیا خبر۔ وہ سادہ زمانہ تھا اور سادے لوگ ہوتے تھے۔

نکاح کے بعد میں نے وجاہت سے کہا کہ سائرہ مجھے اس روز اداس لگ رہی تھی، میرا خیال ہے کہ آج چلتے ہیں اس کے پاس اور اشعر بھائی کی تصویریں بھی لے چلتے ہیں۔ نکاح والے دن ہم لوگ فوٹو لے کر گئے تھے اور چند تصاویر رسم نکاح کی بنوائی تھیں، ایک تصویر اشعر بھائی کی الگ سے بھی لی گئی تھی جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل اسٹوڈیو میں اتروائی تھی اور وہ اس میں بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ میں نے سوچا جب سائرہ اشعر بھائی کی تصویر دیکھے گی تو وجاہت کو بھول جائے گی۔ خیر، ہم گئے تو سائرہ نے حسب معمول استقبال کیا، ان کی والدہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھیں، ہم کچھ کہنے بھی نہ پائے تھے کہ سائرہ نے وجاہت سے پوچھا، اب تم میرے کیا لگتے ہو؟ وجاہت نے جواب دیا، دیور۔ تب وہ بولی، دیور صاحب کیا میرا کہنا مانو گے؟ آپ کے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔

 وجاہت نے جواب دیا، حکم کیجیے۔ کہا، جو مانگو گی دو گے؟ وجاہت نے کچھ حیرت سے کہا، بہت قیمتی چیز ہے تم نہ دے سکو گے۔ اب ہم دونوں بہن بھائی شش و پنج میں تھے کہ کیا کہتی ہیں، ان کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے، تبھی سائرہ گویا ہوئی، جو مانگو گی نہ دے سکو گے۔ وجاہت نے کہا، اچھا ٹھیک ہے، آپ مانگئے تو سہی، اگر نہ دے سکا تو عمر بھر آپ کو منہ نہ دکھاؤں گا، قسم کھاؤ۔ قسم کھاتا ہوں۔ سائرہ نے قسم اٹھوائی اور کہا، میں پہلے دن سے یہ سمجھتی تھی کہ تم مجھے دیکھنے آئے ہو، میں نے تمہیں پسند کر لیا اور نکاح کے دن تک یہی سمجھتی رہی کہ میری شادی تم سے ہو رہی ہے، لیکن عین نکاح والے دن پتہ چلا کہ میرا نکاح تمہارے بڑے بھائی سے ہو رہا ہے، میں نے اندر جا کر ماں سے احتجاج کیا، وہ بے ہوش ہو گئیں، میں نے ان کی خاطر اس وقت تو واویلا نہیں کیا اور حالات کو دیکھتے ہوئے چپ رہ گئی، لیکن ابھی رخصتی باقی ہے، اپنے بڑے بھائی سے صورت حال بتا کر طلاق کا کہو، بس میں تم سے یہی مانگتی ہوں کہ تم صورت حال سے اپنے بڑے 
بھائی کو آگاہ کر دو تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ میرے دل و ذہن میں وہ نہیں ہیں۔
 وجاہت بھونچکا رہ گیا، بمشکل یہ جملے اس کے لبوں سے ادا ہوئے کہ یہ میں نہیں کر سکتا، بھائی آپ کو بہت چاہتے ہیں، اب نکاح بھی ان سے ہو گیا ہے، آپ میرے بھائی کی امانت ہیں اور میری بھابھی ہیں اور بھابھی ماں جیسی ہوتی ہے۔اچھا تو پھر اپنی دوسری بات کا پاس رکھنا ہو گا۔ تم آج کے بعد میرے سامنے مت آنا۔ اگر آئے تو میں اپنا گھر نہ بسا سکوں گی اور تمہارے بھائی سے طلاق لے لوں گی۔ تم اور میں کبھی ایک گھر میں روبرو نہیں رہ سکتے۔ جس دن میں نے دلہن بن کر، یعنی تمہاری بھابھی کے روپ میں تمہارے گھر قدم رکھ دیا، تمہیں اس روز اپنا گھر چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے وہاں سے جانا ہو گا، تب ہی میں اپنا گھر بسا پاؤں گی اور دیانت داری کے ساتھ تمہارے بھائی کی شریک حیات بن جاؤں گی۔ یہ بات مجھے منظور ہے۔ وجاہت نے جذباتی ہو کر اپنی قسم کو دہرایا کہ جس روز سائرہ بھابھی بن کر ہمارے گھر میں قدم رکھے گی، وہ ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ جائے گا اور پھر کبھی اس کے سامنے نہیں آئے گا۔

یہ بڑی کڑی شرط تھی، جلا وطنی کی سزا تھی۔ سائرہ نے بنا کسی قصور کے میرے بھائی کو بن باس دے دیا تھا۔ اس نے مان لیا۔ وہ اپنے بڑے بھائی سے محبت کرتا تھا، ان کا احترام کرتا تھا، ان کو خوش دیکھنا چاہتا تھا، پھر اس نے سائرہ کو کسی اور نظر سے دیکھا بھی نہ تھا سوائے بھابھی کے۔ اس کے دل میں وہی احترام و پیار تھا سائرہ کے لیے جو ایک دیور کے دل میں اپنی بھابھی کے لیے ہوتا ہے۔ اس کو سائرہ سے ہر گز محبت نہ تھی۔ ہوتی بھی تو وجاہت کبھی اپنے بڑے بھائی کی خوشی کو برباد کرنے کا نہ سوچتا۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنی قسم کا پاس کیا۔ بھابھی نے ہمارے گھر دلہن بن کر قدم رکھا تو وہ چلا گیا، غائب ہو گیا اور پھر نہ لوٹا۔ سائرہ جس روز دلہن بن کر ہمارے آنگن میں اتری، سبھی نے اس کے قدم چومے اور وجاہت دور کھڑا دیکھتا رہا۔ وہ اب ہمارے خاندان کی عزت، ہمارے گھر کی آبرو اور ہمارے بھائی کی خوشی بن کر آچکی تھی۔ صبح گھر والوں کے بیدار ہونے سے پہلے ہی وجاہت جا چکا تھا۔
وجاہت بھائی نے اس کے بعد کسی سے رابطہ نہ رکھا۔ بھابھی سائرہ کی یہ قسم کتنی تکلیف دہ تھی، اس نے اس بات کا احساس نہ کیا، اپنے دل متوالے سے سوچا اور من مانی کر لی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ وجاہت ہم کو کس قدر یاد آتا ہے۔ یہ خیال ہی نیندیں اڑانے کو کافی تھا کہ وہ گھر والوں کو بتائے بغیر غائب ہو گیا تھا۔ماں کتنی تڑپی اور بہنیں کس قدر روئیں، مگر ہم سب کے آنسو بھی سائرہ بھابھی کی خوشی نہ لوٹا سکے۔ اشعر بھائی نے ان کو خوش رکھنے کی بہت کوشش کی مگر وہ خوش نہ رہ سکیں۔ آخر کار طلاق لے لی اور اپنے میکے لوٹ گئیں۔ سچ ہے کہ یہ دل بھی عجیب چیز ہے، مانے تو دنیا آباد ہو جائے، نہ مانے تو ایک گھر بھی آباد نہیں ہو سکتا۔