قربانی کی قیمت

Sublimegate Urdu Stories

ایک دن کالج سے گھر آئی تو پتا چلا کہ ابو کے گردے میں سخت درد تھا، ان کو اسپتال لے گئے تھے۔ میں پریشان ہو گئی۔ بھائی اور امی، ابو کے ساتھ اسپتال میں تھے۔ دل گھبرا رہا تھا کہ کوئی اچھی خبر لے کر آئیں، مگر دل کو قرار نہ آیا۔ رات کو بھائی نے آ کر بتایا کہ ابو کا کل آپریشن ہے۔ ابھی وہ ایمرجنسی میں ہیں۔ 

اگلے روز ان کا آپریشن کر دیا گیا۔ جوں جوں دن گزرتے گئے، پریشانی بڑھتی گئی کیونکہ والد کی کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ تین ماہ تک وہ کام پر نہ جا سکے۔ والد کے بزنس میں شریک کارایان صاحب تھے، جو اب اکیلے کاروبار سنبھال رہے تھے۔ وہ روز شام کو ابو کی مزاج پرسی کو آتے تھے۔ علاج کے لیے رقم اور کچھ باتیں تسلی کے لیے کہہ جاتے تو دل کو بڑی ڈھارس بندھ جاتی تھی۔ وہ بظاہر تو اچھے آدمی معلوم ہوتے تھے، لیکن ایک روز انہوں نے کاروبار میں نجانے کیا گھپلا بتایا، جس سے والد صاحب کو سراسر نقصان ہوا۔ 

والد صاحب ایک بیمار انسان تھے، وہ اتنا نقصان برداشت نہ کر سکے۔ اس پر آپریشن اور بیماری کا خرچہ بھی کافی ہو گیا تھا۔ ایان صاحب نے کچھ روز بعد ان سے کہا کہ نقصان کا آدھا سرمایہ آپ کو فراہم کرنا ہو گا ورنہ سمجھ لیجئے کہ کاروبار ٹھپ ہے۔ ابو نے کہا، تم میری حالت دیکھ رہے ہو اور حالات بھی تمہارے سامنے ہیں۔ اتنا فوری پیسہ میں فراہم کرنے سے قاصر ہوں۔ ذریعہ روزگار بھی اور میرا دوسرا کوئی نہیں ہے۔ کنبے کی کفالت کیونکر ہو گی؟ تم ہی میری طرف کے روپے کا بھی کسی صورت انتظام کر دو۔ کاروبار کو چلتے رہنا چاہیے۔

 بزنس میں نفع نقصان ہوتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ کا کرم ہو جائے گا۔ گھاٹا بھی بالآخر پورا کر لیں گے، بس مجھے کچھ دن کی مہلت چاہیے۔ ان شاء اللہ صحت یاب ہوتے ہی پھر سے تمہارا بازو بن جاؤں گا۔ ہمارا کنبہ کافی بڑا ہے اور والد ہی واحد کفیل تھے، لہٰذا ایان صاحب کی خوشامد ہماری مجبوری بن گئی۔ وہ روز آتے، مجھ سے چائے بنوانے کی فرمائش کرتے۔ کبھی کہتے کہ آج تمہارے ہاتھ کا کھانا کھانے کو جی چاہ رہا ہے، تم پکاتی بہت اچھا ہو۔ میں ان کی ہر فرمائش پوری کرتی۔ ہماری بھی مجبوری تھی۔ میں ان کو انکل کہتی تھی۔ اگرچہ ان کی کوئی اولاد نہ تھی، لیکن اگر ہوتی تو میرے جتنی ان کی بیٹی ضرور ہوتی۔ وہ ہر ماہ معقول رقم خرچے کے لیے ہمیں دیتے کیونکہ کاروبار مشترکہ تھا، لہٰذا ہمیں ان سے خرچہ لینے میں عار نہ تھا۔ البتہ ان کی نت نئی کھانے پینے کی فرمائشوں سے الجھن ضرور ہوتی۔ اس طرح میں ٹھیک طرح سے پڑھ نہیں پاتی تھی۔ امی سے اپنی کوفت ظاہر کرتی تو وہ کہتیں، بیٹی کیا کریں، ہماری بھی مجبوری ہے اور ان کی بھی۔ تمہارے ابو لاغر پڑے ہیں تو ایان صاحب بھی بیچارے کب سے گھر کے کھانوں کو ترسے ہوئے ہیں۔ اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر آتے ہیں۔

قصہ یہ تھا کہ ان کی بیوی عرصہ ہوا وفات پاچکی تھیں اور انہوں نے ابھی تک دوسری شادی نہیں کی تھی۔ گھر میں اکیلے رہتے تھے، ایک دو ملازم تھے۔ بزنس میں دن رات مصروف رہے۔ شادی کی طرف دھیان کیا بھی تو نہ ہو سکا۔ یہ چاہتے تو تھے کہ دوبارہ گھر بسالیں مگر نہ بسا سکے۔ وجہ کا علم نہیں، لیکن اب جو انہوں نے ابو کی بیماری اور تیمارداری کے سبب ہمارے گھر کو اپنا گھرآنگن بنا لیا اور والدہ کو دو ایک بار اپنے گھر کو بسانے کا اشارے کنایوں میں تذکرہ کیا تو وہ یہی سمجھیں کہ اس نیک کام میں وہ نیک نیتی سے ان کی مدد چاہتے ہیں تاکہ وہ کسی اچھی خاتون سے ان کا رشتہ کروادیں تاکہ کسی شریف گھرانے سے ناتا جڑ جائے۔ والدہ کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی خاص عنایتیں ہم پر یوں ہی نہیں ہیں بلکہ مجھ کو دیکھ کر ان کی نیت میں فتور آچکا ہے۔

 ایک روز انہوں نے بالآخر موقع پاکر والدہ سے مدعا بیان کر دیا کہ اگر وہ میرا ہاتھ ایان صاحب کے ہاتھ میں دے دیں تو اس گھر کی سب پریشانیاں وہ اپنے دامن میں سمیٹ لیں گے۔ میرے بہن بھائی اور دو بہنیں جو ان دنوں فیس نہ دے سکنے کی وجہ سے اسکول چھوڑ کر گھر بیٹھے تھے، دوبارہ اسکول جانے لگیں گے اور ان کے حصے کا نقصان جو بطور ادھار رقم کاروبار میں ڈال کر ان کو اپنا بزنس پارٹنر برقرار رکھا ہے، اس کو خود برداشت کر کے قرض معاف کر دیں گے، ورنہ جو خرچہ انہوں نے والد کی بیماری پر خرچ کیا تھا وہ بل بھی ادا کرنا ہوگا۔ امی جان نے بہت عاجزی سے اصرار کیا کہ تھوڑی سی مہلت دے دیجئے۔ میرے شوہر کو ٹھیک ہو لینے دیجئے۔ آپ کی ساری رقم ادا کر دیں گے۔

 مگر ایان صاحب کسی صورت نہ مانے۔ ادھر والد صاحب تھے کہ حالت سنبھلنے کی بجائے بگڑتی جاتی تھی۔ دراصل ان کو کینسر تشخیص ہو گیا تھا۔ پھر تو وہ بستر سے ہی لگ گئے۔ والدہ ایان کی طرف سے اپنی بیٹی کے رشتے کے مطالبے کو بیمار شوہر سے بیان نہ کرنا چاہتی تھیں کہ کہیں صدمے سے وہ وقت سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جائیں۔ انہوں نے ایان صاحب کو کہا، ٹھیک ہے مجھے جواب کے لیے چند روز کی مہلت دے دیجیے، ان دنوں گھر میں بہت زیادہ پریشانی ہے۔ تھوڑی سی حالت میرے خاوند کی سنبھلنے دیجئے تو میں ان سے بات کرتی ہوں۔

آخری دنوں میں اللہ تعالیٰ نے میرے والد کو اس صدمے سے بچانا تھا، سو وہ ایان صاحب کے اس مطالبے کو اپنے کانوں سے سننے سے پہلے ہی چل بسے۔ میں نے تو شکر کیا کہ اس دنیا سے جانے سے پہلے وہ یہ دلدوز خبر سن کر نہ گئے، ورنہ شاید قبر میں بھی ان کے آنسو خشک نہ ہوتے کہ جس کو دوست اور ہمدرد سمجھتے رہے، وہ کس طمع کو دل میں پال کر ان کے آڑے وقت میں ساتھ دیتا رہا تھا۔ یوں والد کی وفات کے بعد یہ گھرانہ جو کبھی خوشحال تھا، اب کوڑی کوڑی کو محتاج تھا۔ والد صاحب کی قبر کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایان صاحب نے امی جان کو یاد دلایا کہ آپ نے چند روز کی مہلت مانگی، وہ میں نے دے دی۔ تو میری عرض ہے اب تو آپ ہی کلی طور پر اس گھر کی سربراہ ہیں اور تمام فیصلے آپ کے ہیں۔ وہ ارشاد ہو، ورنہ پھر حساب کتاب کا کھاتہ آپ کے سپرد کرتا ہوں۔ چاہے تو یہ مکان فروخت کر کے میرا قرضہ ادا کر دیجئے یا پھر جو بھی صورت ہو، مجھے آگاہ فرمائیے کہ میں ایک کاروباری آدمی ہوں، زیادہ دنوں تک سرمایہ وصول کیے بغیر اپنے کاروبار کو ناکامی سے دوچار نہیں کر سکتا۔ کر بھی لوں تو آگے آپ لوگ کیونکر زندگی کی گاڑی کو چلائیں گے؟ یہ بھی سوچ لیجیے۔
میں اور زیادہ آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں اور نہ آنا جانا رکھ پاؤں گا کہ دنیا با تیں بنائے گی۔ جس سے تعلق واسطہ تھا وہ تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔ بغیر کسی رشتے کے آپ لوگوں سے میل جول پر لوگ مجھ کو غلط سمجھیں گے۔ اسی لئے ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ اپنی صاحب زادی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے کر مجھ کو فرزندی میں قبول کیجئے تاکہ لوگوں کے منہ بند ہو جائیں اور آپ کی ساری مشکلات حل ہو جائیں۔ میں آپ کے کنبے کا بیڑہ اٹھالوں گا۔ آپ نے ابھی تین بچیوں کی شادیاں کرنا ہیں اور تین لڑکوں کو پڑھانا بھی ہے ، آپ اکیلی کیسے کریں گی؟ایان صاحب کی طویل تقریر سے والدہ کو چکر آنے لگے۔ وہ مہر بہ لب تھیں مگر آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں ساتھ والے کمرے کے دروازے سے کان لگا کر سب سن چکی تھی۔

 تب میں نے ہمت کی اور سامنے آ گئی۔ میں نے کہا، ایان صاحب پہلے آپ کو انکل کہتی تھی مگر آپ کے پاکیزہ اور مبارک خیالات معلوم ہو جانے کے بعد پچھلے رشتوں کو متروک کرتے ہوئے آپ کی پیشکش کو قبول کرتی ہوں۔ والدہ عدت میں ہیں، یہ مدت گزر جانے دیجئے۔ اس کے بعد آپ مٹھائی لے آئے گا۔ مجھ کو آپ کی پیشکش قبول ہے۔ امی نے بوکھلا کر میری جانب دیکھا۔ میں نے امی کو گلے سے لگایا، تسلی دی۔ ایان صاحب خوش خوش بغلیں بجاتے چلے گئے۔ یہ تم نے کیا کہہ دیا میری بچی؟ وہ مجھ سے جیسے فریاد کناں ہوں۔ امی کہنے لگیں، ایک جان جانے سے اگر اتنی جانوں کا بھلا ہوتا ہو تو عقل مندی اس میں ہے کہ ایک جان کی قربانی دے دی جائے۔ قربانی بھی تو اپنے ہی اپنوں کے لیے دیتے ہیں۔

سوچنے ذرا… میں میٹرک پاس ہوں اور آپ کے سارے بچے مجھ سے چھوٹے ہیں، یہ حضرت مکان بھی ہمارا کوئی ادھار دیں گے، ان کا قرضہ پھر بھی ہم نہیں اتار سکیں گے۔ اپنے گھر کی چھت تو بچا لیجیے۔ یہ مکان بک گیا تو کیا اتنے بچوں کو لے کر سڑک پر بیٹھیں گی؟ آپ کی تین جوان بچیاں ہیں، ان کو لے کر کہاں جائیں گی؟غرص کسی طور اماں کو سمجھا بجھا کر چپ کرایا۔ وہ رفتہ رفتہ راضی ہو ئیں کہ جب میری عمر اور صورت دیکھتی تھیں اور پھر ایان صاحب کو تو ان کا دل نہیں مانتا تھا بلکہ چیخ چیخ کر رونے کو چاہتا تھا۔ 
میں نے اپنے ارمانوں کا گلا دبایا اور خواہشوں کو موت کی گہری نیند سلا کر ایان صاحب سے شادی کر لی۔ یوں میں زخمی ہو کر ریزہ ریزہ حالات کی کسمپرسی سے گزر گئی۔ آنکھیں بند کر کے کنویں میں چھلانگ لگادی۔ ہرکسی نے اماں کو لتاڑا، مگر وہ خاموش رہیں، کسی کو جواب نہ دیا کیونکہ جو رشتہ دار ایان کے ساتھ میری شادی کرانے پر ان کو لتاڑ رہے تھے ، در حقیقت وہ ان کے ان برے دنوں میں کام آنے والے ہرگز نہیں تھے۔ وہ صرف باتیں ہی بنانے والے لوگ تھے۔ سو ایسوں کی باتوں کو کیا اہمیت دینا۔ دنیا کا تو کام ہی باتیں بنانا ہے۔ وہ اپنے گھر کی اور میں ماں کی مجبوریاں سمجھتی تھی۔ گھر کے حالات مجھ پر روز روشن کی طرح عیاں تھے۔ سو بہن بھائیوں کے مستقبل اور ماں باپ کی خوش حالی کو برقرار رکھنے کے لئے وقت کے ظلم کے سامنے میں نے اپنے سر کو جھکا دیا- 

بے شک ایان نے اپنے گھر میں ہر طرف میرے لئے سکھ کے گلاب بچھا دیئے مگر جب دل مر جھایا گیا ہو تو پھول بھی کانٹے سے ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی میں نے ان کانٹوں کو آنکھوں سے لگا لیا کیونکہ ایان نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا اس کو پورا کیا۔ میری بہنوں اور بھائیوں کو تعلیم دلوائی، ان کی شادیاں کیں اور میرے میکے کا تمام خرچہ اٹھایا۔ وہ عمر میں مجھ سے دگنے سہی مگر برے آدمی ہر گز نہ تھے۔ وہ صوم و صلوۃ کے پابند اور قول و قرار کے کھرے تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں مجھ کو ہرراحت دینے کی کوشش کی۔ میں نے بھی سوچ لیا کہ شادی میں محبت ہی شرط اول نہیں ہوتی، اعتبار و احترام بھی اہم ہوتا ہے۔ اس طرح خود کو سمجھانے سے یہ سودا برا معلوم نہ ہوتا تھا۔ بے شک مجھے میرے خواب نہ ملے ، میرے بہن بھائیوں کو تو ان کے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔
 والدہ کی ضعیفی اچھے طریقے سے گزر گئی۔ اب ایان صاحب کی زندگی کی دعا کرتی تھی کہ ان کے ہوتے کسی کو ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ لوگ تو اس بے جوڑ شادی پر افسوس کرتے اور مجھ پر ترس کھاتے رہے مگر مجھے اب اپنے اس فیصلے پر کوئی دکھ کوئی ملال نہیں پر تھا کیونکہ اللہ تعالی نے میری قربانی رائیگاں نہیں جانے دی۔ مجھے سکون قلب عطا کر دیا اور میرے بہن بھائی اور ماں کو زمانے کی ٹھوکروں میں گرنے پڑنے سے بھی بچالیا۔

آج ایان صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن میں ان کی کمی بہت زیادہ محسوس کرتی ہوں۔ سچ ہے جو دکھ کا ساتھی ہوتا ہے ، جو مخلص ہوتا ہے ، جو آپ کے لئے عزت بھری زندگی کا اور خوشیوں کا احترام کرتا ہے۔ اس سے اچھا سا تھی اور کوئی نہیں ہوتا۔
(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ