عیاش شوہر


براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں اور نیچے دی گئی کہانی پڑھیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇


میں اپنے خاندان میں حسن کا شاہکار سمجھی جاتی تھی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ گلابی رنگت، گول چہرہ اور سنہری بالوں والی ایک پری، جسے سب “پری رو” کہا کرتے تھے۔ ماں نے میرا نام “ناز پرور” رکھا اور واقعی بہت ناز سے پرورش کی۔ ان کی دعائیں تھیں کہ میری زندگی ناز و نعمت سے بھرپور ہو اور میں دنیا کی ساری خوشیاں سمیٹوں۔ مگر نہ جانے کون سی کوتاہی مجھ سے سرزد ہوئی کہ ماں کی وہ دعا کبھی قبول نہ ہو سکی۔ ایم ایس سی مکمل کی تو ساحر نامی ایک شخص نہ جانے کہاں سے آ نکلا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پسند کر لیا۔

 چند ہی ملاقاتوں میں اس نے ماں کو شیشے میں اتار لیا اور وہ اس کے ٹھاٹھ باٹھ پر فریفتہ ہو گئیں۔ اس کی نئی نئی نوکری لگی تھی، اس لیے جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ ہو گیا۔ میں نہ کچھ سوچ سکی، نہ کچھ کہہ سکی، حالانکہ چچا کا بیٹا شان مجھ سے محبت کرتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی۔ مگر وہ محتاط تھا، کبھی اظہار نہ کیا۔ خاندان میں لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ رشتہ ہو گیا تو چاند سورج کی جوڑی بنے گی، مگر قسمت کچھ اور لکھ چکی تھی۔ جب میری منگنی کی خبر بچپن کی سہیلی کو ملی تو وہ ماں کے پاس دوڑی آئی اور بہت منت سماجت کی کہ ناز پرور کو شان کے لیے رکھ لیں، مگر ماں کا جواب واضح تھا: شریفوں کی ایک ہی زبان ہوتی ہے، اور میں زبان دے چکی ہوں۔

منگنی کے دو ماہ بعد میری شادی ہو گئی۔ ماں کی نصیحت تھی کہ شوہر کو مجازی خدا سمجھنا، لہٰذا ساحر کو سب کچھ مان کر اس کے گھر میں قدم رکھا۔ ابتدا میں وہ بہت محبت کرنے والا شوہر نظر آیا۔ میں خود کو خوش نصیب ترین عورت سمجھتی تھی۔ بیٹے بیٹیاں اللہ نے عطا کیے، شوہر چاہنے والا لگا، جو ہر وقت یہی کہتا کہ دنیا میں تم سے زیادہ پیارا کوئی نہیں۔ میں والدین کی اکلوتی بیٹی تھی، والد کے انتقال کے بعد ماں نے اپنی زندگی میں ہی پوری جائیداد میرے نام کر دی۔ خبر نہ تھی کہ ساحر کی نظر اسی پر تھی۔ میں محبت کے فریب میں اپنی ساری جائیداد اس کے نام لکھ بیٹھی۔ اس نے فوراً جائیداد بیچ کر بزنس میں لگا دی، کاروبار چمکا اور دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ پھر وہی ہوا جو اکثر ہوتا ہے۔ روپیہ آتے ہی اس کی فطرت کھلنے لگی۔ وہ آوارہ مزاجی کی طرف بڑھا اور میں، جو اپنے شوہر کو سب کچھ مان بیٹھی تھی، دھیرے دھیرے تنہا ہونے لگی۔ وہ میکے والوں سے مجھے دور کرتا گیا اور میں اس کے ہر جھوٹ پر یقین کرتی گئی۔ اپنے اپنوں کو کھو بیٹھی۔ جب شعور آیا تو اندازہ ہوا کہ میں دھوکے کا شکار بنی رہی۔

ادھر میں بچوں کو پڑھانے بیٹھتی، اُدھر وہ گھر سے غائب ہوتا۔ شادی کے ابتدائی دس برس بچوں کی پیدائش، گھر داری اور شوہر کی محبت میں گزر گئے، مگر جب میں نے اس کی طرف غور کرنا شروع کیا تو کچھ گڑبڑ محسوس ہونے لگی۔ اس کی ڈائری سے نمبر ملا، فون کیا تو نسوانی آواز سنائی دی۔ میں نے کہا کہ ساحر کی گرل فرینڈ ہوں، اس کی ڈائری سے نمبر لیا ہے۔ جواب ملا: گرل فرینڈ تو میں بھی ہوں، مگر میں نمبر لکھتی نہیں، یاد رکھتی ہوں۔ کئی عورتوں نے اس کے بارے میں ساری باتیں بتا دیں۔ جب اس پر سوال کیا تو وہ چونک گیا، پھر ڈائری مجھ سے چھپائی جانے لگی۔ جوں جوں سچ سامنے آتا گیا، میرے پاؤں تلے زمین نکلتی گئی۔ ایک دن اس نے کھلے عام شراب نوشی شروع کر دی، مجھے نشے میں مارنے لگا، بچوں کو گالیاں دینے لگا۔ وہ شخص جو کبھی مجھے دیوتا کی مانند عزیز تھا، ایک وحشی درندہ بن چکا تھا۔ میرے لیے یہ سب برداشت کرنا اذیت ناک تھا۔ میں راتوں کو روتی، تڑپتی، مگر اسے ذرہ برابر پروا نہ تھی۔ وہ تو مجھے پاگل کہتا، میری محبت کا مذاق اڑاتا۔ میں ایک دائمی کرب میں مبتلا ہو گئی، لیکن اس کے باوجود بچوں کی تربیت میں کوتاہی نہ کی۔

ساحر اب کھلے عام ہوٹلوں میں کال گرلز کے ساتھ وقت گزارتا، اور مجھے جھوٹ بول کر کہتا کہ وہ دورے پر جا رہا ہے۔ جب اس کی بے وفائی کے ناقابل تردید ثبوت میرے ہاتھ آئے، تو میری حالت پاگلوں جیسی ہو گئی۔ کبھی اس کے دوست، کبھی ڈرائیور بتاتے کہ وہ عورتوں کو لے کر گھومتا ہے۔ رفتہ رفتہ مجھے خود بھی اندازہ ہونے لگا کہ وہ شروع سے ہی ایسا تھا، مگر میں اس کی محبت میں اندھی تھی۔ میں نے اس کی خاطر سب کچھ چھوڑا، سب کو کھو دیا، مگر وہ کبھی میرا نہ تھا۔ ان حالات نے مجھے بیمار کر دیا۔ اس نے خاندان میں یہ مشہور کر دیا کہ میں بیمار ہوں اور شوہر کو خوشی نہیں دے سکتی۔ میری محبت، وفا، خوبصورتی، سب کچھ روند کر وہ آگے نکل گیا، اور میں پیچھے تنہائی، رسوائی اور محرومی کی تصویر بن کر رہ گئی۔

آخر شادی کے پچیس سال بعد، جب بچے جوان ہو کر شادی کی عمر کو پہنچ چکے تھے، تو ساحر نے ایک کال گرل قسم کی لڑکی سے چوری چھپے نکاح کر لیا۔ چار ماہ بعد جب میری بیٹی کی شادی ہوئی، تب ہمیں اس خفیہ نکاح کا علم ہوا۔ ہوا یوں کہ ہمارے داماد افتخار نے شادی کے چند دن بعد اپنی دلہن کے ساتھ کوہ مری کے ایک اعلیٰ ہوٹل میں رہائش کے لیے کمرہ بک کروایا۔ جب وہ میری بیٹی کے ہمراہ اس ہوٹل پہنچا تو میرے شوہر اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ وہیں مقیم تھے۔ داماد سے اچانک آمنا سامنا ہوا تو نظریں چرا کر ادھر اُدھر ہو گئے۔ افتخار نے مجھے فون کرکے بتایا کہ سر صاحب یہاں ہنی مون منا رہے ہیں۔ مت پوچھیں کہ مجھے کس قدر شرمندگی اور دکھ ہوا، کتنی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ کیا ایک جوان بیٹی کا باپ ایسی حرکت کرے تو اسے زیب دیتا ہے؟ میں رو رو کر نڈھال ہو گئی۔ 

وہ ساری وفائیں یاد آئیں جو میں نے اس شخص سے کیں، وہ تمام اذیتیں جو ازدواجی زندگی میں برداشت کیں، جن کا علم صرف مجھے ہے۔ اس کی خاطر وہ سب کچھ کیا جو کبھی نہ کرنا چاہتی تھی، صرف اس امید پر کہ شاید یہ میرا ہو جائے، مگر وہ سب خواب ہی رہے۔ میرا دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا۔ مجھ میں کوئی کمی نہ تھی—نہ حسن میں، نہ سلیقے میں، نہ خاندانی شرافت میں اور نہ تعلیم میں۔ مگر نہ جانے کیسی عورتیں اسے خوشی دیتی تھیں۔ وہ آوارگی جو ان میں تھی، وہ مجھ میں نہ تھی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ساحر کھلم کھلا شراب پینے لگا۔ نشے میں مجھے مارتا، بچوں کو گالیاں دیتا۔ یہ وہ شخص نہ تھا جو کبھی مجھ سے محبت کے دعوے کرتا تھا، جو میری ماں کو شرافت کا فریب دے کر مجھے بیاہ لے گیا تھا۔

دراصل وہ شروع سے ہی ایسا تھا، مگر کامیابی سے اپنی فطرت کو بائیس سال تک ہم سے چھپائے رکھا۔ اب اسے کسی کی پروا نہیں تھی۔ ایک دن اس کے دوستوں نے مجھے فون کیا کہ آپ کے شوہر فلاں جگہ پر ہیں، ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ میں دوڑی گئی اور اسے ایک ایسی جگہ سے واپس لائی جو بدنام عورتوں کے اڈے تھے، مگر اُس نے وضاحت دی کہ وہ اُن کی مدد کرتا ہے، کوئی غلط مراسم نہیں۔ میں نے سب کچھ جاننے کے باوجود پھر بھی اعتبار کر لیا، مگر میں بھولی اور وہ ایک شاطر کھلاڑی نکلا۔ ایک روز، جب میں دوپہر کو سو رہی تھی، اُس نے میری الماری کی چابی اٹھائی، سیف کھولا اور تمام زیور نکال کر رفو چکر ہو گیا۔ جب اٹھی تو سیف کھلا پڑا تھا۔ ہمارے ملازم برسوں سے کام کر رہے تھے، ان پر شک کرنا مناسب نہ تھا، مگر دل کبھی کبھار بہک جاتا ہے۔ انہی دنوں ہمارے گھریلو ملازم کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی، اس لیے مجھے گمان ہوا کہ شاید زیور اُس نے چرا لیا ہے۔ میں نے اسے سخت سست کہا، وہ بیچارہ قسمیں کھاتا رہا، مگر میرا شک دور نہ ہوا۔ تب ہی میرے تایا زاد بھائی سلیمان، جو پولیس میں تھے، آگئے۔ وہ میری آوازیں سن کر اندر آئے اور کچھ پوچھے بغیر ملازم کو تھانے لے گئے۔ پھر پولیس نے وہی کیا جو اکثر کرتی ہے۔ ایک بے گناہ پر ظلم۔ 
پھر بھی ساحر نے زبان نہ کھولی کہ زیور اُس نے چرائے ہیں۔ اتفاق سے ایک دن میں بازار میں سامان لینے گئی تو ساحر کی نئی بیوی کو دیکھ لیا۔ وہ میرے ہی زیورات پہنے ہوئے تھی، جو میرے سیف سے چوری ہوئے تھے۔ میں اپنی گاڑی سے اُتری اور ڈرائیور سے پوچھا: تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگا، زبان سے نہیں بتا سکتا، آپ اندر جا کر خود دیکھ لیں۔ میں نے اندر جا کر دیکھا اور فوری طور پر پہچان لیا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر تھا، اور وہ عورت میرے زیورات پہنے کھڑی تھی۔ یقین جانیے، میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ مگر میں نے خود کو سنبھالا، کیونکہ اگر اُس وقت ہنگامہ کرتی تو اپنی عزت خاک میں ملا بیٹھتی۔

اسی وقت میں نے سلیمان بھائی کو فون کیا کہ میرے ملازم کو چھوڑ دیجیے، وہ بے قصور ہے۔ اصل چور کا پتہ چل گیا ہے۔ اپنے زیور بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں کہ کس کے بدن کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ساری زندگی زندہ رہوں گی تو اپنے ملازم کے پیٹنے کا دکھ رہے گا۔ میں نے سلیمان بھائی کو پچیس ہزار روپے دے کر کہا کہ یہ اُس ملازم کو دے دیجیے تاکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کر سکے اور اس ظلم کا کچھ ازالہ ہو جائے۔ مگر اُس نے نہ پیسے لیے اور نہ دوبارہ ہمارے دروازے پر آیا۔ میں ہاتھ ہلاتی رہ گئی کہ پرانے ملازم سے اپنی بدگمانی کی معافی مانگوں، مگر وہ لوٹ کر ہمارے گھر کی طرف نہ آیا۔ 
اُس کے پندار کو سخت ٹھیس پہنچی تھی۔ ہم امیر لوگ بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں، اپنے مخلص، دیانت دار خدمت گزاروں کو بھی پہچان نہیں پاتے اور جو ہمیں دعائیں دے رہے ہوتے ہیں، ہم ان پر شک کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے گن گاتے ہیں جو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ پہلے والدہ کو کچھ نہ بتاتی تھی کہ انہیں دکھ ہوگا، مگر کب تک چھپاتی؟ جب دل شدتِ درد سے پھٹنے لگا، جب شوہر کی جیب سے غیر عورتوں کے ساتھ تصویریں برآمد ہونے لگیں، تو رو کر ماں کے گلے لگ جاتی۔ وہ جھوٹا دلاسہ دیتیں کہ مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں، بھونرے کی طرح پھول پھول پر منڈلاتے ہیں۔ اصل گھر تو اُس عورت کا ہوتا ہے جو اُس کے بچوں کی ماں ہوتی ہے۔ صبر و سکون سے رہو، تحمل سے زندگی گزارو کیونکہ تم ہی نے اپنے بچے سنبھالنے ہیں۔

ماں کے کہنے پر ساحر سے شادی کی تھی، انہی کے کہنے پر گھر کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا۔ مگر سہتے سہتے، صبر کرتے کرتے، میں خود بدل گئی۔ اتنی خوبصورت تھی کہ لوگ بیوٹی کوئین کہا کرتے تھے۔ جب شوہر کا اصل چہرہ سامنے آیا، تو سوچتی ہوں کہ ایسے شخص کے ساتھ میں نے اتنا وقت کیسے گزارا۔ شوہر اب دوسری بیوی کے ساتھ رہتا ہے اور میں اپنے بچوں کے ساتھ۔ لڑکیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں، مگر سسرالی لوگ اُنہیں طعنے دیتے ہیں کہ تمہارا باپ عیاش ہے۔ اگر میں اُس وقت صبر نہ کرتی، تحمل سے کام نہ لیتی، تو میری بچیوں کے رشتے کبھی اچھے گھروں میں نہ ہوتے۔ اب کوئی رات ایسی نہیں گزرتی جو میں روئے بغیر گزار دوں۔ میرے بیٹے جوان ہو چکے ہیں، مجھے تنہائی کا غم نہیں، مگر اس شخص نے میری نسوانیت کی توہین کی ہے۔ 
میرے عورت ہونے کا مان توڑا ہے۔ یہی دکھ مجھے اندر ہی اندر جلاتا ہے۔ سوچتی ہوں، لوگ شادی شدہ مردوں کو دوسری شادی سے کیوں نہیں روکتے؟ وہ مرد جو پچیس سال بعد بھی اپنی بیوی کا نہ ہو سکا، وہ دوسری کا کیسے ہوگا؟ عورت کو ہمیشہ اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ یہی اس کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہی سوچ کر میں نے صبر کیا، اور یہی سوچ کر وہ عورتیں بھی صبر کریں جن کے شوہر ساحر جیسے ہوں۔