فقیرنی سے عشق

Sublimegate Urdu Stories

ہمارے گھر کے قریب امیر محمد خان کا گھر تھا۔ وہ ایک خوشحال زمیندار تھے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا، شہریار۔ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا، کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ وہ غریبوں کی دل کھول کر مدد کرتے تھے۔ ان کے گھر کے سامنے ایک بہت بڑا میدان تھا۔ ایک دفعہ اس میدان میں کچھ خانہ بدوش آ کر جھونپڑیاں ڈال کر عارضی طور پر رہنے لگے۔ یہ لوگ کبھی مزدوری کرتے اور کبھی بھیک مانگ کر گزارہ کرتے۔ مردوں کو کبھی کبھار مزدوری مل جاتی، لیکن عورتیں زیادہ تر بھیک مانگ کر کچھ رقم کما لیتی تھیں۔ انہی عورتوں میں کچھ لڑکیاں بھی شامل تھیں جو بھیک مانگتی تھیں۔

ان میں ایک لڑکی مہرو بھی تھی، جو بے حد خوبصورت تھی۔ اس کی عمر پندرہ سولہ برس کے لگ بھگ تھی، مگر وہ اپنی عمر سے دو سال بڑی دکھائی دیتی تھی۔ ایک دن وہ آٹے کی خیرات لینے امیر محمد خان کے گھر آئی۔ اس وقت شہریار گھر پر موجود تھا۔ شہریار کی ماں نے کٹورا بھر کر آٹا اس کی جھولی میں ڈالا، تو مہرو نے دعا دی۔ اسی لمحے شہریار کی نظر اس کے تابناک چہرے پر جا ٹھہری۔ وہ لڑکی اسے بہت بھا گئی۔ جب مہرو گھر سے نکل رہی تھی تو شہریار کی نظریں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔ وہ جیسے کسی ماورائی طاقت کے زیرِ اثر، اس کے پیچھے چل پڑا۔ مہرو بے خبر تھی اور اپنی جھونپڑی میں چلی گئی، جبکہ شہریار اپنے خیالات میں گم واپس لوٹ آیا۔

اب یہ روز کا معمول بن گیا۔ مہرو عصر کے وقت آٹا لینے آتی، اور شہریار دن بھر اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھر پر ہی بیٹھا رہتا۔ اس نے زمینوں پر جانا اور کھیتی باڑی کا کام دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ ٹریکٹر کے قریب بھی نہیں جاتا تھا۔ ماں بار بار پوچھتی کہ وہ گھر میں کیوں پڑا رہتا ہے، آخر اسے کیا ہو گیا ہے؟ کسی ڈاکٹر کو دکھاؤ، خدا نخواستہ طبیعت تو ناساز نہیں؟ شہریار جواب دیتا کہ اسے کچھ نہیں ہوا، طبیعت بالکل ٹھیک ہے، خوب کھاتا پیتا ہے۔ مگر یہ سچ نہ تھا۔ خود شہریار کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے کیا ہو رہا ہے۔

جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے، اس کی دیوانگی بڑھتی جا رہی تھی۔ اب نہ اسے کھانے کا ہوش تھا اور نہ پینے کا۔ بس اس کی نظریں دیوانوں کی طرح مہرو کو ڈھونڈتی تھیں۔ ماں باپ اپنی اکلوتی اولاد کی حالت دیکھ کر پریشان تھے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ شہریار کو آخر ہو کیا گیا ہے۔ آخر ایک دن ماں نے قسم دے کر پوچھ ہی لیا، کیونکہ وہ ماں تھی۔ مجبور ہو کر شہریار نے اپنے دل کی بات بتا دی۔ ماں کے صبر کے سارے بندھن ٹوٹ گئے، کیونکہ اس کے بیٹے کو ایک فقیرنی سے عشق ہو گیا تھا۔ ماں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

ماں نے افسوس سے کہا کہ اگر عشق ہی کرنا تھا تو کسی اچھے خاندان کی لڑکی کو منتخب کرتے، وہ تو مانگنے والی ہے اور ہم عزت دار لوگ ہیں۔ تم ہی بتاؤ، یہ رشتہ کیسے ہوگا؟ لوگ کیا کہیں گے؟ شہریار نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ اسے لوگوں کی پروا نہیں، اسے مہرو سے شادی کرنی ہے اور اگر ماں نے اس کا ساتھ نہ دیا تو وہ اسے بھلا دے گا۔ ماں تھی، مجبور ہو گئی۔ بیٹے کے دکھ کو دیکھ کر اس کا دل موم ہو گیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے خاوند کو راضی کر لے گی۔ ممتا میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ زمیندار کو بھی آخرکار ہاں کرنا پڑی، کیونکہ وہ بھی بیٹے سے بے حد محبت کرتا تھا۔

جب اگلی بار مہرو خیرات لینے آئی تو زمیندار نے اسے کہا کہ وہ اپنی ماں کو بھی ساتھ لائے تاکہ اسے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکے۔ رقم کے لالچ میں وہ اپنی ماں کو لے کر آ گئی۔ تب شہریار کی ماں نے اسے عزت سے بٹھایا اور مدعا بیان کیا۔ پہلے تو وہ عورت ہکا بکا رہ گئی۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ پھر جب گھر کی مالکن نے اسے یقین دلایا تو وہ کہنے لگی کہ امیری غریبی کی بات ایک طرف، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے قبیلے والے یہ رشتہ کبھی نہیں مانیں گے، کیونکہ ان کے ہاں لڑکی کو غیر قبیلے میں بیاہنا رواج نہیں۔

شہریار کی ماں نے پوچھا کہ کیا مہرو کسی کی منگیتر ہے؟ عورت نے بتایا کہ ہاں، مہرو کی منگنی ہوئی تھی، لیکن اس کا منگیتر چار سال پہلے قبیلے والوں سے ناراض ہو کر چلا گیا اور پھر لوٹا نہیں۔ خدا جانے کہاں ہے؟ مگر قبیلے کے اصول کے مطابق مہرو کو کچھ عرصہ اس کا انتظار کرنا پڑے گا، کم از کم چار سال۔ شہریار کی ماں نے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ عورت نے بتایا کہ وہ مہرو کے تایا کا بیٹا ہے اور اس کا تایا بھی اپنے بیٹے کے ساتھ روٹھ کر چلا گیا تھا۔ دونوں باپ بیٹے اب ان کے ساتھ نہیں ہیں۔

اس پر شہریار کی ماں نے سمجھایا کہ جب وہ قبیلے سے رخصت ہو چکے ہیں تو تم پر کوئی پابندی نہیں۔ تم اپنی بیٹی کا نکاح جہاں چاہو کر سکتی ہو۔ دیکھو تو سہی، اس شاندار گھر کو، جس کی وہ مالکن بنے گی۔ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تمہاری بیٹی بھی عیش کرے؟ تم لوگ ساری عمر بھیک مانگتے ہو اور چھت کو ترستے ہو۔ عورت نے کہا کہ دل تو کرتا ہے، مگر ہمارے مرد نہیں مانیں گے۔ پھر بھی، میں مہرو کے باپ سے بات کروں گی۔

شہریار کی ماں نے اسے سمجھایا کہ وہ اس کے باپ کو مالک کے پاس بھیج دے، خیرات اور دان کے لیے تو وہ دوڑ کر آ جائے گا۔ اگر رشتے کی بات کرو گی تو شاید وہ کبھی نہ آئے۔ عورت نے کہا کہ اچھا، تو پھر میرے سرتاج خود آجائیں گے۔ شہریار کی ماں نے پوچھا، کس وقت؟ عورت نے جواب دیا، رات کو، پہلی جھونپڑی ہماری ہے۔

بیٹے کی خوشی کی خاطر اونچے شملے والے باپ کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا۔ وہ سر، جو سوائے معبود کے کسی کے آگے نہیں جھکتا تھا، اُسے ایک غلیظ، پھٹی پرانی سی جھونپڑی میں کمر تک جھک کر داخل ہونا پڑا۔ مہرو ایک طرف بیٹھی تھی۔ جھونپڑی میں پڑی چارپائیوں پر ایک کپڑا بچھا کر اس نے زمیندار کو عزت سے بٹھایا۔ جب امیر محمد خان نے اپنا مدعا بیان کیا، تو مہرو کے باپ نے کہا کہ سردار صاحب! میرے لیے اس سے بڑھ کر عزت کی اور کیا بات ہو سکتی ہے، مگر میں قبیلے کے رواجوں کا پابند ہوں۔ ہم اپنی لڑکیوں کی شادیاں قبیلے سے باہر نہیں کرتے۔

امیر خان نے پیش کش کی کہ کیا تم رَفتم (رقم) بطور عوض رشتہ قبول کر سکتے ہو؟ مہرو کے باپ نے جواب دیا کہ ہم یہ رقم بھی نہیں لے سکتے۔ ہم بہت مجبور ہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو بیلے کے مالک ہمیں یہاں سے نکال دیں گے۔ زمیندار نے کہا کہ تو نکال دیں، تم ہمارے پاس رہ جانا۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ مگر مہرو کے باپ نے جواب دیا، نہیں سردار صاحب! یہ بے غیرتی والی زندگی ہے۔ ہم مانگ کر ضرور کھاتے ہیں، مگر لڑکی کے سسرال میں رہ کر نہیں جی سکتے۔

مایوس ہو کر زمیندار واپس آ گیا اور شہریار کو سمجھانے لگا کہ تم اپنا خیال بدل لو۔ یہ لوگ نہیں بدل سکتے۔ اگر بدلنا ہوتا تو کسی جگہ گھر بنا کر بس چکے ہوتے، مگر صدیوں سے خانہ بدوشی ان کی زندگی کا حصہ ہے، اور ان کی حالت کبھی نہیں بدلی۔ دل تو دل ہوتا ہے، یہ ضدی کب کسی کی مانتا ہے۔ مگر شہریار کا دل نہ مانا۔ اس نے خود کوشش کرنے کی ٹھانی۔

وہ مہرو کے باپ کے پاس گیا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اس نے کہا کہ میں چاہوں تو طاقت سے مہرو کو حاصل کر سکتا ہوں، مگر میں اسے عزت اور محبت سے حاصل کرنا چاہتا ہوں تاکہ مہرو کو رسوائی نہ ہو۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اس کا کوئی حل ہے؟

مہرو کے باپ نے کہا کہ وہ قبیلے کے بڑوں سے مشورہ کرے گا۔ کچھ دن بعد قبیلے والوں نے ایک ایسی شرط رکھ دی جسے شہریار نہ توڑ سکتا تھا اور نہ آسانی سے قبول کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم ہماری لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو تو شرط یہ ہے کہ تم ہمیشہ کے لیے ہماری دنیا میں رہو گے۔ واپس اپنی زندگی، اپنا مقام، اپنا آرام و آسائش سب چھوڑ دو گے، اور ہمارے ساتھ خانہ بدوشی اختیار کرو گے۔

وہ سمجھ رہے تھے کہ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والا، کاروں میں سفر کرنے والا، نرم گدوں پر سونے والا نوجوان، بھلا کانٹوں کی سیج کیسے قبول کرے گا؟ مگر شہریار کے لیے یہ کوئی مشکل شرط نہ تھی۔ اسے تو اپنے محبوب کا قرب چاہیے تھا۔ والدین نے بہت سمجھایا کہ یہ تمہارے لیے کڑی شرط ہے۔ تم عزت داروں کی اولاد ہو، در در بھیک مانگو گے؟ خدارا، مت جاؤ!

مگر کہتے ہیں کہ عشق نہ ذات دیکھتا ہے، نہ شرافت۔ شہریار نے محل چھوڑ کر جھونپڑی کی زندگی قبول کر لی۔ گلے میں جھولی ڈال لی، ہاتھ میں کاسہ تھام لیا۔ جب وہ خانہ بدوش اپنی جھونپڑیاں توڑ کر آگے جانے لگے، تو شہریار بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔اب وہ جہاں بھی اپنی بستی بساتے، شہریار بھی ان کے ساتھ ہوتا۔ سب لوگ اسے خانہ بدوش سمجھتے، اور وہ خود کو خانہ بدوش کہلوانے پر خوش تھا، کیونکہ اب وہ مہرو کے قریب ہو چکا تھا۔

پہلے جو لمحات مشکل سے گزرتے تھے، اب لگتا تھا کہ لمحوں کو پر لگ گئے ہیں اور پل ہوا میں اُڑتے جا رہے ہیں۔ اب اسے کوئی غم نہ تھا۔ اس کی قربانی دیکھ کر مہرو بھی اسے چاہنے لگی تھی، تاہم ایک خوف ضرور اسے ستاتا تھا کہ کہیں اس کا روٹھا ہوا منگیتر واپس نہ آ جائے، کیونکہ اس کا آ جانا ان دونوں کی خوشیوں کی موت ہوتا۔

شہریار کا حلیہ مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ اس کی داڑھی بڑھ گئی تھی، بال کندھوں تک آ چکے تھے، اور لباس بھی فقیروں جیسا ہو گیا تھا۔ جبکہ پہلے وہ اجلا اور خوشنما لباس پہنتا تھا، اب یہ عالم تھا کہ اگر وہ اپنے والدین کے سامنے سے بھی گزر جاتا تو شاید وہ اسے پہچان نہ پاتے۔ مگر اس حالت میں بھی وہ خوش تھا۔ اسے اپنی پُرآسائش زندگی بالکل یاد نہ آتی تھی۔

وقت گزرنے میں دیر نہیں لگتی۔ چار سال بیت گئے۔ مہرو کا منگیتر واپس نہ آیا، لہٰذا اس کے والدین نے وعدے کے مطابق سادگی سے بیٹی کا نکاح شہریار سے کر دیا۔ قبیلے والوں نے بھی اس پر اعتراض نہ کیا، کیونکہ شرط انہوں نے ہی رکھی تھی۔ شہریار بے حد خوش تھا کہ اس کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ اس نے دولت، جاگیر، ثروت، حتیٰ کہ اپنے والدین تک کو چھوڑ دیا تھا۔ آخرکار اسے اپنی منزل مل گئی تھی۔

وہ مہرو کو کسی کام کے قریب نہ آنے دیتا، اس کے سارے کام خود کرتا تھا۔ چاہتا تھا کہ وہ بس اس کے سامنے بیٹھی رہے اور وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہے۔ ایک سال بعد دونوں ایک بیٹے کے ماں باپ بن گئے۔ وہ بہت خوش تھے۔ اگلے برس مہرو نے ایک بیٹی کو جنم دیا، جو صورت میں بالکل اپنی ماں پر گئی تھی۔ دونوں اپنی محبت میں کھوئے ہوئے تھے، لیکن انسان کو زیادہ خوشی راس نہیں آتی۔

اچانک ایک دن مہرو کا تایا، اپنے بیٹے بہرام کے ساتھ واپس آ گیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ مہرو کا نکاح غیر قبیلے کے ایک نوجوان سے کر دیا گیا ہے، تو وہ بہت خفا ہوئے۔ انہوں نے شور مچایا کہ ہمارا انتظار کیوں نہ کیا گیا؟ ہم روٹھ کر گئے تھے، مر تو نہیں گئے تھے! روٹھے ہوئے لوگ آخر کبھی نہ کبھی واپس آ ہی جاتے ہیں۔

اب ایک نازک مسئلہ آن کھڑا ہوا تھا۔ قبیلے کے بزرگوں سے اجازت لی جا چکی تھی اور شہریار نے وہ شرط بھی پوری کر دی تھی۔ وہ واپس اپنی دنیا میں نہیں گیا تھا۔ قبیلے والوں نے بہرام اور اس کے باپ کو سمجھایا کہ لڑکی ہماری اپنی ہے، اس کا گھر بس چکا ہے۔ وہ دو بچوں کی ماں ہے۔ اب اس کا گھر اجاڑنا درست نہیں۔ مہرو کا اس تمام قصے میں کوئی قصور نہیں۔ نہ اس نے خود محبت کی اور نہ اپنی مرضی سے شادی کی۔ بلکہ شہریار نے اسے چاہا اور باقاعدہ فقیر بن کر قبیلے میں شامل ہوا۔ مگر محبت کی طرح رقابت کے بھی کوئی اصول نہیں ہوتے۔

بہرام وقتی طور پر چپ ہو گیا، لیکن اس کے دل میں حسد اور غیرت کی آگ بھڑکنے لگی۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ مہرو کو حاصل کر کے رہے گا، چاہے وہ کسی کی بیوی ہی کیوں نہ ہو۔ اب اسے یوں چھوڑ دینا غیرت کی موت کے مترادف تھا۔
جب ان کا پڑاؤ کسی اور علاقے میں ہوا، تو ایک رات، جب شہریار سو رہا تھا اور مہرو جاگ رہی تھی، اسے قریب کی جھونپڑی سے سرگوشیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ رات کا وقت تھا، شاید ایک بجے کا۔ مہرو نے کان لگائے تو سنا، بہرام اپنے باپ سے کہہ رہا تھا کہ مہرو کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں شہریار اور اس کے بیٹے کو راستے سے ہٹانا ہو گا، ورنہ وہ لڑکا جوان ہو کر باپ کا بدلہ لے گا۔باپ نے پوچھا کہ مگر کیسے؟بہرام نے جواب دیا کہ زہر دے کر، یا کسی زہریلے سانپ سے ڈسوا کر۔یہ سن کر مہرو کے ہوش اُڑ گئے۔ اس نے فوراً شہریار کو جگایا اور کہا، خدا کے لیے، تم یہاں سے نکل جاؤ، اور اپنے بیٹے کو بھی لے جاؤ۔ اگر اس کی زندگی عزیز ہے، تو فوراً چلے جاؤ۔ یہ لوگ کسی دن تمہیں دھوکے سے قتل کر دیں گے، اور میرے ماں باپ بھی چپ سادھ لیں گے۔

یہ فیصلہ شہریار کے لیے بہت مشکل تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جس عورت کے لیے اس نے سب کچھ قربان کیا، وہ اس کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔ لیکن مہرو ہاتھ جوڑ کر کہہ رہی تھی، خدا کے لیے اپنی اور اپنے بیٹے کی جان بچا لو۔ میں تم سے ضرور آ ملوں گی۔ اگر ابھی تمہارے ساتھ گئی، تو یہ لوگ ہمارا پیچھا کر کے ہمیں مار ڈالیں گے۔ تم اکیلے جاؤ، تو یہ کبھی تمہارے پیچھے نہیں آئیں گے، بلکہ شکر کریں گے کہ تم سے جان چھوٹی۔ پھر یہ اپنا پڑاؤ کہیں اور ڈال لیں گے۔شہریار نے پوچھا، تم کیسے آؤ گی؟مہرو نے کہا، مجھے پتا ہے تمہارا گھر کہاں ہے، تمہاری زمینیں کہاں ہیں۔ میں خود آ جاؤں گی۔مہرو نے وعدہ کیا کہ وہ ان کی بیٹی کو ضرور اس تک پہنچائے گی۔ اور اگر زندگی نے وفا کی، تو وہ اس سے ضرور آ ملے گی۔

کوئی مرد اپنی بیوی ، بچی اور گھر بار چھوڑ کر نہیں جاتا، به شرط یہ کہ کوئی بڑی مجبوری نہ ہو۔ مہرو، شہر یار کی مجبوری تھی۔ وہ اس کی منت سماجت کو نہیں ٹال سکتا تھا، لہذا اسی کی خوشی کی خاطر وہ اس کی زندگی سے نکل آیا تھا۔ انہی دنوں مہرو نے بچی کو جنم دیا تھا، جو ابھی چالیس دن کی تھی۔ شہر یار دیکھ رہا تھا کہ اس کی بیوی سفر کی سختی سہنے کے قابل نہیں ہے، لہذا ان کو خدا کے سپرد کر کے وہ بیٹے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جب وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا، تو بہت خستہ حال تھا۔ والدین نے اسے نہیں پہچانا، تو نوکر چاکر کیا پہچانتے، پھر جب پہچان لیا تو ماں ماں نے بے تابی سے اسے گلے لگایا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کی دن، رات کی دعائیں رنگ لے آئیں اور ان کا لخت جگر خود چل کر آ گیا تھا۔ شہر یار بہت تھکا ہوا تھا۔ چاہتا تھا کہ کسی کے گلے لگ کر بہت روئے۔ ایسے میں ماں سے بہتر کون ہو سکتا ہے ، لہذاوہ ماں کے گلے لگا تو روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ والد نے پیار کیا، اسے دلاسا دیا، بچے کو پیار کیا اور دودھ وغیرہ پلا کر سلا دیا۔ شہریار نے ایک دن آرام کیا۔ اس کے کپڑے سلوائے گئے، بچے کے بھی کپڑے خرید ے گئے۔ ان کے بال کٹوائے ، نہا دھو کر دونوں انسانوں کے روپ میں آگئے۔ شہر یار تو نہ زندوں میں تھا ، نہ مردوں میں۔ سارا دن چپ سادھے رہتا تھا، البتہ ماں، باپ خوش تھے۔ وہ سارا وقت پوتے سے کھیلتے تھے۔ وقت ایسے ہی گزرتا گیا، یہاں تک کہ ان کا پوتا فخر خان بڑا ہو گیا اور انہوں نے اس کو اسکول میں داخل کر دیا۔
دادا ہر وقت اس کے ساتھ کھیلتے اور دادی کی محبت میں تو وہ ماں کو بھی بھول گیا۔ شہریار البته مہرو کو نہ بھلا سکا۔ وہ ہر وقت خاموش رہتا۔ یونہی دس برس بیت گئے۔ کبھی اس نے والدین کو نہ بتایا کہ مہرو کہاں گئی اور نہ انہوں نے کریدا کہ تم کیوں اسے چھوڑ آئے؟ کئی بار ماں ، باپ نے سمجھایا کہ بیٹا تم شادی کر کے دوبارہ گھر بالو، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے بیٹے کو طعنہ دے کہ اس کی ماں فقیرنی تھی اور تمہارے بار تمہارے باپ نے اس کے پیچھے سب کچھ لٹا دیا۔ ایک دن اس کی ماں رو پڑی۔ کہا کہ ہمارا بھی تم پر حق ہے۔ ہم نے تم کو جنم دیا ہے۔ ماں باپ کو بیٹے کا سہرا دیکھنے کی آرزو ہوتی ہے۔ اپنی والدہ کا دکھ شہر یار سے نہیں دیکھا گیا۔ بولا۔ ٹھیک ہے ماں، جہاں تم چاہتی ہو میری شادی کر دو۔ ملک امیر کی بیگم نے بہت سوچ سمجھ کر ایک اچھی سی، خاندانی لڑکی سے بیٹے کی شادی کر دی۔ وہ ایک صابر لڑکی تھی، جس نے کبھی شہر یار کو تنگ کیا اور نہ اس سے کوئی سوال کیا۔ دونوں کی اچھی گزرنے لگی کیونکہ شہر یار نے دوسری بیوی کی کبھی حق تلفی نہیں کی تھی۔ دونوں صبر شکر سے زندگی بسر کرنے لگے۔

بیس برس بعد اچانک مہرو آ گئی۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ بوڑھی ہو چکی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھاگو تھی، جو بالکل ماں کی جوانی کی تصویر تھی۔ دونوں اندر آئیں تو شہر یار نے ان کو فوراً پہچان لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ مہرو اندر آئے، لیکن وہ جان چکی تھی کہ اس کا شوہر دوسری شادی کر چکا ہے ، لہذا اس نے وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ وہ صرف بیٹی کو اس کے حوالے کرنے آئی تھی۔ وہ بیٹی کو چھوڑ کر چلی گئی۔ بھاگو گھبرائی ہوئی تھی۔ شہر یار نے کہا۔ بیٹی ! گھبراؤ نہیں ، اندر آجاؤ۔ میں تمہارا بدنصیب باپ ہوں اور دیکھو، تمہاری ماں رکی نہیں۔ شاید اسے کسی کا خوف ہے۔ نہیں بابا ! اسے خوف نہیں ہے بلکہ وہ بیمار ہے۔ اسے ٹی بی ہے، اسی لئے وہ مجھے یہاں چھوڑ گئی ہے تا کہ مجھے یہ بیماری نہ لگ جائے۔ میں کل ہی اس کا چیک آپ کرواؤں گا، اسپتال لے چلوں گا اپنی بیٹی کو۔ شہر یار نے سوچا، پھر اپنی بیٹی کو ماں کے حوالے کر کے مہرو کے پیچھے گیا، جو سڑک پر آگے ہی آگے چلتی جارہی تھی۔ کچھ دوری پر ایک میدان تھا، جہاں ان خانہ بدوشوں کی بستی تھی۔ انہوں نے پھٹے ہوئے کپڑوں کی عارضی بستیاں بنائی ہوئی تھیں۔ ایک جھونپڑی کے قریب اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس میں مہرو گئی تھی۔ وہ ٹیلے سے اترا اور قریب جا کر کھڑا ہو گیا، جیسے ماضی میں کھو گیا ہو۔
کھڑے کھڑے اسے کچھ کمزوری سی محسوس ہوئی تو وہ آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کو ٹھنڈا پسینہ آرہا تھا اور کانوں میں پائل کی آواز آرہی تھی ، وہی آواز جس نے اسے گھائل کیا تھا۔ تبھی پائل کی آواز قریب آگئی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کی بیٹی جو اس کے پیچھے پیچھے چلتی آئی تھی، اب اس کے قریب آچکی تھی۔ اس نے کہا۔ بابا ! میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ میں اپنی ماں کے ساتھ رہوں گی کیونکہ وہ چند دن کی مہمان ہے۔ کیا تیری یہی خوشی ہے ؟ ہاں بابا ! میری یہی خوشی ہے۔ بھاگو نے کہا۔ میری خوشی مجھ سے مت چھینو کیونکہ ماں مجبور ہے اور وہ تمہارے پاس نہیں آسکتی۔ اس کی بہرام سے شادی کر دی گئی تھی۔ اب شہر یار کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہونے لگا۔ وہ واپس جا رہا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک آواز گونجنے لگی۔ ایک روپے کا سوال ہے بابا ! ہم صبح سے بھوکے ہیں، ثواب ہو گا بابا یہ آواز مہرو کی تھی یا بھاگوکی ؟ وہ نہیں سمجھ پایا، لیکن یہ آواز کسی ظالم دشمن کی طرح اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ 

وہ بھاگنے لگا۔ جس قدر وہ بھاگ رہا تھا، آواز اسی قدر تیزی سے اس کے پیچھے آرہی تھی، یہاں تک کہ وہ اپنے مکان پر پہنچ گیا۔ اس نے جلدی سے گیٹ بند کیا اور کمرے میں جا کر بستر پر گر گیا۔ آج اسے بستر سے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا، کیونکہ وہ اب گہری نیند سو چکا تھا۔ اس کالا متناہی انتظار ختم ہو گیا تھا