دوشیزہ کا انتقام

Sublimegate Urdu Stories

اگر ہو سکے تو ویڈیو کا پلے بٹن ضرور دبائیں اور آواز بند کر لیں۔ آپ کے تعاون کا شکریہ
👇👇

میں جمیل احمد، اپنی زندگی کے اس موڑ پر تھا جہاں ہر روز ایک نئی جنگ لڑنی پڑتی تھی۔ لاہور کی گلیوں میں میری پرانی سوزوکی آلٹو ٹیکسی میرا واحد سہارا تھی۔ صبح سے رات تک مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچانا، کرایہ وصول کرنا، اور گھر جا کر تھکن اتارن۔ یہی میری زندگی کا معمول بن چکا تھا۔ دو سال قبل جب میں نے ٹیکسی چلانا شروع کی، تو یہ صرف ایک مجبوری تھی۔ لیکن اب یہ میرا پیشہ بن چکا تھا۔ کمائی اچھی تھی، اور میں نے ملازمت کی تلاش چھوڑ دی۔

ٹیکسی چلاتے ہوئے میں نے زندگی کے ہر رنگ دیکھے۔ کوئی مسافر غریب اور مجبور، تو کوئی دولت مند اور مغرور۔ کبھی کوئی مظلوم اپنی کہانی سناتا، تو کبھی کوئی ظالم اپنی طاقت کا رعب جھاڑتا۔ میں نے ایک اصول بنایا تھا۔ اپنے کام سے کام رکھو، اور کسی کی ذاتی زندگی میں دخل نہ دو۔ یہی اصول میری کامیابی کی وجہ تھا۔

لیکن ایک رات، میری زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ یہ ایک ہفتہ قبل کی بات ہے۔ میں ایک مسافر کو ڈراپ کر کے واپس آ رہا تھا۔ رات کے تقریباً دس بجے تھے۔ لاہور کی سڑکیں اب خاموش ہو چکی تھیں۔ میں نے ایک چھوٹے سے ڈھابے پر ٹیکسی روکی، چائے کا آرڈر دیا، اور سگریٹ سلگائی۔ ابھی دس منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک لڑکی گھبرائی ہوئی میرے پاس آئی۔ اس نے نقاب اوڑھ رکھا تھا، لیکن اس کی آواز میں عجیب سی بے چینی تھی۔

"بھائی، اگر آپ مصروف نہیں ہیں تو مجھے مسلم ٹاؤن تک چھوڑ دیں۔" اس کی آواز کانپ رہی تھی۔

میں نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور کہا، "ہاں، ٹھیک ہے۔ چلیں۔"

اسے ٹیکسی میں بٹھایا، لیکن اچانک مجھے یاد آیا کہ پٹرول کم ہے۔ میں نے قریب کے پمپ پر ٹیکسی روکی اور ٹینکی فل کرائی۔ جب واپس ٹیکسی میں بیٹھا، تو میں حیران رہ گیا۔ وہ لڑکی اب بغیر نقاب کے تھی۔ اس کا چہرہ اتنا خوبصورت کہ میں ایک لمحے کے لیے بھول گیا کہ میں کہاں ہوں۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں، گورا رنگ، اور چہرے پر عجیب سی اداسی، جیسے کوئی راز چھپا ہو۔

میں نے نظریں جھکائیں اور ٹیکسی سٹارٹ کی۔ وہ خاموش بیٹھی باہر کی روشنیوں کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے کبھی کبھار رئیر ویو مرر سے اسے دیکھا۔ آدھے گھنٹے بعد جب ہم مسلم ٹاؤن کے پہلے چوک پر پہنچے، تو میں نے پوچھا، "آپ نے کہاں اترنا ہے؟"

اس نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے کہا، "میں سارے راستے تمہارے بارے میں سوچ رہی تھی۔"

میں چونک پڑا۔ "کیا؟"

وہ بولی، "میں نے بہت سے ٹیکسی ڈرائیوروں کے ساتھ سفر کیا، لیکن تم وہ پہلے انسان ہو جس نے پورے راستے کوئی غلط بات نہیں کی۔ تم اپنے کام سے کام رکھتے ہو۔ یہ بات مجھے بہت پسند آئی۔"

میں خاموش رہا۔ میرے پاس اس کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نے کرایہ پوچھا، پیسے دیے، اور ٹیکسی سے اتر گئی۔ لیکن اچانک واپس آئی اور کہا، "کیا تم مجھے کچھ دنوں کے لیے اسی چوک سے لے جایا کرو گے؟ مجھے سات دن تک ایک جگہ جانا ہے۔ میں دوگنا کرایہ دوں گی۔"

دوگنا کرایہ سن کر میرا دل للچایا۔ ویسے بھی مجھے اس سے کیا، وہ کہاں جاتی ہے؟ میں نے ہاں کر دی۔ اس نے کہا کہ دو دن بعد رات دس بجے اسی چوک پر ملنا۔ پھر وہ چلی گئی۔

دو دن بعد، میں وقت پر اسی چوک پر تھا۔ آج میں نے ٹیکسی نہیں چلائی تھی۔ صبح سے دل ہی نہیں کیا۔ اچھے کپڑے پہنے، پرفیوم لگایا، اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ کیا وہ واقعی آئے گی؟ یا یہ کوئی مذاق تھا؟

اچانک ایک برقع پوش خاتون گلی سے نکلی اور میری ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ میں نے کہا، "معذرت، میں کسی کا انتظار کر رہا ہوں۔"

اس نے برقع اتارا، اور میں دنگ رہ گیا۔ یہ وہی لڑکی تھی۔ اس نے کہا، "چلو، جلدی کرو۔"

میں نے ٹیکسی سٹارٹ کی۔ اس نے ایک ایڈریس بتایا، جو شہر سے باہر ایک ویران علاقے میں تھا۔ راستے میں ہم دونوں خاموش رہے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم ایک پرانی، کھنڈر نما حویلی کے سامنے رُکے۔ وہ اتری، کرایہ دیا، اور کہا، "کل اسی وقت اسی چوک پر ملنا۔ اب تم جا سکتے ہو۔"

میں واپس آ گیا، لیکن دل میں ایک سوال اٹھ رہا تھا۔ وہ اس ویران حویلی میں کیا کرنے جاتی ہے؟ یہ جگہ تو بھوتوں کا ڈیرہ لگتی تھی۔ لیکن میں نے خود کو سمجھایا کہ یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔

چھٹے دن تک میرا تجسس عروج پر تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ لڑکی کون ہے اور اس حویلی میں کیا کرتی ہے۔ اس دن جب میں اسے حویلی کے سامنے چھوڑا، تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس کا پیچھا کروں گا۔

وہ حویلی کے اندر چلی گئی۔ میں نے ٹیکسی کچھ دور جا کر روکی، اور پیدل حویلی کے عقبی حصے کی طرف گیا۔ وہاں ایک بڑا درخت تھا۔ میں اس پر چڑھا اور دیوار کے اندر کود گیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ حویلی میں سناٹا تھا۔ چاندنی رات میں ہر چیز عجیب سی لگ رہی تھی۔

میں نے آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ صحن میں وہ لڑکی کھڑی تھی۔ اچانک اس نے اپنا لباس اتارنا شروع کیا۔ میں سکتے میں آ گیا۔ وہ بالکل برہنہ ہو گئی۔ اس کا جسم چاندنی میں دودھ کی طرح چمک رہا تھا۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس نے ایک چست، سیاہ لباس پہنا، جو کسی جاسوس یا چور کا سا لگتا تھا۔ اس نے اپنا پرانا لباس ایک کونے میں چھپایا اور حویلی سے باہر نکل گئی۔

میں بھی اس کے پیچھے پیچھے رینگتا ہوا باہر آیا۔ وہ ایک کچے راستے پر چلتی ہوئی ایک شاندار بنگلے کے سامنے رکی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور ایک ایسی قلابازی کھائی کہ دوسرے لمحے وہ بنگلے کی دیوار پھلانگ کر اندر تھی۔

میں باہر کھڑا انتظار کرنے لگا۔ دل میں خوف اور تجسس کی جنگ چل رہی تھی۔ ایک گھنٹہ گزرا، جب اچانک گولی کی آواز آئی۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ لڑکی دیوار پھلانگ کر باہر گری۔ اس کی چیخ نکلی، اور وہ بے ہوش ہو گئی۔

میں گھبرا گیا۔ کیا کروں؟ بنگلے سے ابھی تک کوئی باہر نہیں آیا تھا۔ میں دوڑ کر ٹیکسی لے آیا اور اسے اٹھا کر پیچھے والی سیٹ پر ڈالا۔ اس کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا۔ میں نے فوراً ٹیکسی گھر کی طرف موڑ دی۔

گھر پہنچ کر میں نے اسے اپنے بستر پر لٹایا۔ وہ ابھی بے ہوش تھی۔ میں نے پانی کے چند چھینٹے اس کے چہرے پر مارے۔ اس کی آنکھیں کھلیں، لیکن مجھے دیکھ کر وہ خوفزدہ ہو گئی۔

"تم۔۔۔ تم یہاں کیسے؟" اس نے کانپتی آواز میں پوچھا۔

میں نے ساری کہانی سنا دی کہ کیسے میں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے بچایا۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی۔ پھر بولی، "تم بہت اچھے انسان ہو، لیکن تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ تمہاری جان بھی جا سکتی تھی۔"

میں نے پوچھا، "یہ سب کیا ماجرا ہے؟ تم کون ہو؟"

وہ میری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ "میں تم سے یہ بات اس لیے شیئر کر رہی ہوں کہ مجھے تم پر بھروسہ ہے۔ تم نے میری جان بچائی، اور میری بے ہوشی کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ تم ایک سچے مرد ہو۔"
٭٭٭
میں جمیل احمد، اس رات اپنے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مریم کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ ابھی تک بے ہوشی سے ہوش میں آئی تھی، اور اس کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف اور غصہ دونوں تھے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ یہ سب کیا ماجرا ہے، تو اس نے ایک گہری سانس لی اور اپنی کہانی شروع کی۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سی شدت تھی، جیسے وہ برسوں سے اس درد کو دل میں دبائے ہوئے تھی۔

"میرا نام مریم بیگ ہے۔" اس نے اپنی کہانی شروع کی۔ "ایک سال قبل، میں لاہور یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کی طالبہ تھی۔ میری زندگی مشکل تھی، لیکن میں ہمت نہیں ہاری تھی۔ میں ہاسٹل میں رہتی تھی اور اپنی تعلیم پر پوری توجہ دیتی تھی۔ میرے والدین اس دنیا میں نہیں تھے، اور میں اکیلی اپنا راستہ بنا رہی تھی۔"
شرجیل کا دھوکہ

مریم نے بتایا کہ یونیورسٹی میں اس کی ملاقات شرجیل ملک سے ہوئی۔ شرجیل ایک دلکش اور پراعتماد لڑکا تھا، جو اپنی دولت اور رابطوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ مریم کے پیچھے پڑ گیا، اور شروع میں اس نے خود کو ایک شریف اور خیال رکھنے والا انسان ظاہر کیا۔ وہ مریم کو تحائف دیتا، اسے کھانے پر لے جاتا، اور اس کی تعلیم کے بارے میں بات کرتا۔ مریم، جو اپنی زندگی میں تنہائی کا شکار تھی، اس کی باتوں میں آ گئی۔

"وہ مجھے کہتا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔" مریم کی آواز میں کراہٹ تھی۔ "میں نے اس پر بھروسہ کر لیا۔ ایک دن اس نے مجھے کہا کہ اس کے گھر پر ایک چھوٹی سی پارٹی ہے، اور وہ چاہتا ہے کہ میں اس کے خاندان سے ملوں۔ میں نے ہاسٹل سے اجازت لی کہ میں اپنے رشتہ داروں کے گھر جا رہی ہوں، اور اس کے ساتھ چلی گئی۔"

شرجیل نے مریم کو اپنے ایک پرتعیش بنگلے میں بلایا، جو لاہور کے ایک پوش علاقے میں تھا۔ جب مریم وہاں پہنچی، تو وہاں کوئی خاندانی پارٹی نہیں تھی۔ اس کے بجائے، شرجیل کے چار دوست موجود تھے، جو شراب پی رہے تھے اور بلند آواز میں ہنس رہے تھے۔ مریم کو فوراً خطرہ محسوس ہوا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتی، شرجیل نے اسے ایک کمرے میں زبردستی لے جا کر بند کر دیا۔

"اس رات۔۔۔" مریم کی آواز ٹوٹ گئی۔ "اس رات انہوں نے میری عزت لوٹ لی۔ شرجیل اور اس کے دوستوں نے میرے ساتھ وہی کیا جو کوئی درندہ کرتا ہے۔ میں چیختی رہی، روتی رہی، لیکن کوئی مدد کے لیے نہ آیا۔ وہ گھنٹوں میرے ساتھ زیادتی کرتے رہے۔ جب ان کا دل بھر گیا، تو وہ مجھے ایک کمرے میں چھوڑ کر خود عیاشی کرنے لگے۔"
مریم نے بتایا کہ اس گھر میں ایک ملازم تھا، جس کا نام رحمن تھا۔ وہ ایک بوڑھا اور خدا ترس انسان تھا، جو شرجیل کے گھر میں برسوں سے کام کر رہا تھا۔ وہ رات کے وقت کچھ کھانا لے کر اس کمرے کے پاس آیا جہاں مریم قید تھی۔ جب اس نے مریم کی حالت دیکھی، تو اس کا دل پسیج گیا۔ رحمن نے خاموشی سے دروازہ کھولا اور مریم کو گھر کے پچھے والے دروازے سے باہر نکالا۔

"رحمن چاچا نے مجھے کہا کہ بھاگ جاؤ، اور کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھو۔" مریم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ "میں رات کے اندھیرے میں بھاگتی رہی، جب تک کہ میں ایک پولیس چوکی پر نہ پہنچ گئی۔ لیکن میں نے پولیس کو کچھ نہ بتایا۔ شرجیل کا خاندان بہت طاقتور تھا۔ میں جانتی تھی کہ وہ مجھے ہی موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔"

مریم ہاسٹل واپس آ گئی، لیکن اس کی زندگی بدل چکی تھی۔ وہ راتوں کو جاگتی، چیختی، اور اس واقعے کو بھولنے کی ناکام کوشش کرتی۔ اس کے دل میں شرجیل اور اس کے دوستوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ اپنی پڑھائی پر توجہ نہ دے سکی اور یونیورسٹی چھوڑ دی۔

"اس واقعے نے مجھے توڑ دیا، لیکن اس نے مجھے ایک نئی طاقت بھی دی۔" مریم کی آواز میں عزم تھا۔ "میں نے فیصلہ کیا کہ میں شرجیل اور اس کے دوستوں کو سزا دوں گی۔ میں نے اپنے آپ کو بدل ڈالا۔ میں نے خود کو مضبوط بنایا۔ میں نے راتوں کو شہر کی گلیوں میں گھومنا سیکھا۔ میں نے خود دفاع کے گر سیکھے۔ میں نے ہر اس چیز کا مطالعہ کیا جو مجھے ان سے بدلہ لینے میں مدد دے سکتی تھی۔"

مریم نے شرجیل کے گروہ کے ہر رکن کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ وہ ان کے معمولات، ان کے گھروں، اور ان کی کمزوریوں سے واقف ہو گئی۔ اس نے ایک ایک کر کے شرجیل کے چاروں دوستوں کو نشانہ بنایا۔

"میں نے انہیں ہلاک کیا۔" مریم کی آواز سرد تھی۔ "ایک کو میں نے اس کے گھر کے باہر خنجر سے مارا۔ دوسرے کو زہر دیا۔ تیسرے کو اس کی گاڑی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر حادثے کا شکار کیا۔ اور چوتھے کو رات کے اندھیرے میں گھات لگا کر ختم کیا۔"

"آج رات، میرا آخری ہدف شرجیل تھا۔" مریم نے کہا۔ "میں نے اس پرانی حویلی کو اپنے پلان کے لیے استعمال کیا۔ وہاں میں اپنا لباس بدلتی تھی تاکہ کوئی مجھے پہچان نہ سکے۔ میں نے شرجیل کو پیغام بھیجا کہ کوئی اس سے ملنا چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے بنگلے میں تھا، تو میں دیوار پھلانگ کر اندر گھسی۔"
مریم نے شرجیل کو اکیلے پایا اور اس پر حملہ کیا۔ اس نے شرجیل کے سینے میں خنجر گھونپ دیا، لیکن شرجیل نے مرنے سے پہلے اپنی پستول نکالی اور مریم پر گولی چلا دی۔ گولی مریم کی پنڈلی کو چھیدتی ہوئی نکل گئی۔ وہ چیختی ہوئی دیوار پھلانگ کر باہر گری، اور اسی وقت وہ بے ہوش ہو گئی۔
٭٭٭
"اگر تم نہ ہوتے، تو شاید میں وہاں مر جاتی۔" مریم نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "تم نے میری جان بچائی۔"

میں مریم کی کہانی سن کر سکتے میں تھا۔ اس نے جو کچھ کیا، وہ غلط تھا، لیکن اس پر جو گزرا، وہ کسی دشمن پر بھی نہری۔ مریم اکیلی تھی، اور اس نے اپنی لڑائی خود لڑی۔ اس کی کہانی نے میرے دل کو چھو لیا۔

"اب تم کیا کرو گی؟" میں نے پوچھا۔
وہ مسکرائی اور بولی، "تمہاری شادی ہوئی ہے؟"
جب میں نے نفی میں سر ہلایا، تو اس نے کہا، "تو پھر مجھ سے شادی کر لو۔" 
٭٭٭
جب میں مریم کی کہانی سن رہا تھا، تو اس کی خوبصورتی اور بہادری نے میرے دل کو گہرائی سے چھو لیا۔ مریم کی چمکتی آنکھوں میں چھپی اداسی اور اس کی آواز میں پوشیدہ عزم نے میرے اندر ایک عجیب سی کشش پیدا کر دی۔ اس کی نازک سی شکل، جو ایک خوفناک ماضی سے گزر کر بھی اٹل ہمت رکھتی تھی، نے میرے دل میں ہمدردی کے ساتھ ساتھ گہری محبت کے جذبات جگائے۔ میں اس کی تنہائی اور اس کی لڑائی کو سمجھتا تھا، اور مجھے لگا کہ مریم کی زندگی کو ایک نیا سہارا دینا اس کا فرض ہے۔ جب مریم نے شادی کا ذکر کیا، تومیرے دل نے فوراً ہاں کہہ دی، کیونکہ میں جان چکا تھا کہ مریم صرف ایک خوبصورت چہرہ نہیں، بلکہ ایک ایسی روح ہے جو اس کے ساتھ زندگی کے ہر موڑ پر چل سکتی ہے۔
میں نے مریم سے شادی کر لی۔ آج وہ میرے ساتھ ہے۔ ہم ایک نئی زندگی شروع کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کہانی صرف ہماری نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی لڑکیاں ہیں جو ظلم کا شکار ہیں۔ وہ مدد کی منتظر ہیں۔ آئیے، کسی کا سہارا بنتے ہیں۔
(ختم شد)