پراسرار وادی

Sublimegate Urdu Stories

براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں اور نیچے دی گئی کہانی پڑھیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇


زینب کراچی کے ایک تنگ و تاریک فلیٹ میں اپنی ماں فوزیہ کے ساتھ رہتی تھی۔ فوزیہ ایک سرکاری سکول کی ٹیچر تھیں، جہاں وہ صبح سویرے نکلتیں اور بچوں کو پڑھانے میں اپنا دن گزارتیں۔ زینب، جو اب سترہ سال کی ہو چکی تھی، کالج میں داخلے کی تیاری کر رہی تھی۔ کراچی کی گھٹن بھری گلیاں، رکشوں کی کھڑکھڑاہٹ، سمندر کی نمکین ہوا، اور شام کے وقت چائے کے ساتھ مکھن کی خوشبو اس کی زندگی کا حصہ تھی۔ لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی ہر وقت موجود رہتی، جیسے وہ اس شہر سے تعلق نہ رکھتی ہو۔ اس کا باپ اسلم، جو ہنزہ میں ایک پولیس افسر تھا، سے اس کی ماں کی طلاق برسوں پہلے ہو چکی تھی۔

 ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں زینب ہنزہ جاتی، جہاں وہ پہاڑوں کی گود میں چند ہفتے گزارتی۔ اس بار وہ اپنا سامان پیک کر رہی تھی، لیکن یہ سفر معمول سے مختلف تھا۔

ہنزہ کی وادی اپنی سحر انگیز خوبصورتی کے لیے مشہور تھی۔ بلند پہاڑ، گہری وادیاں، جھرنوں کی سریلی آوازیں، اور ٹھنڈی ہوائیں زینب کو ہمیشہ اپنی طرف کھینچتی تھیں۔ لیکن اس بار وہ ہنزہ مستقل رہنے جا رہی تھی۔ فوزیہ کو دبئی میں ایک نئی نوکری مل گئی تھی، اور وہ چاہتی تھیں کہ زینب اپنے والد کے ساتھ رہے۔ زینب کو یہ فیصلہ پسند نہیں تھا۔ کراچی کی زندگی، سمندر کنارے چہل قدمی، سہیلیوں کے ساتھ گپ شپ، اور شام کی چائے اس کے لیے سب کچھ تھی۔ لیکن ماں کی خوشی کے لیے وہ خاموشی سے راضی ہو گئی۔

"زینب، اپنا کوٹ مت بھولنا۔ ہنزہ میں سردی بہت ہوتی ہے،" فوزیہ نے باورچی خانے سے آواز دی۔ وہ زینب کے لیے آخری بار بریانی بنا رہی تھیں، جس کی خوشبو پورے گھر میں پھیل رہی تھی۔

"ہاں، اماں، پیک کر لیا،" زینب نے جواب دیا، لیکن اس کا دل کہیں اور تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ یہ سفر اس کی زندگی بدلنے والا ہے۔

کراچی سے گلگت تک کا بس کا سفر لمبا تھا۔ زینب نے کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ جمایا، ایئر پوڈز لگائے، اور گانے سننے لگی۔ شہر کی حدود سے نکلتے ہی کھیتوں اور چھوٹے گاؤں کے مناظر نظر آنے لگے۔ جیسے جیسے بس پہاڑی راستوں پر چڑھی، زینب نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ بلند پہاڑوں کے سائے اور گہری وادیوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ہنزہ کے قریب پہنچتے ہی موسم بدل گیا۔ گہرے بادل چھا گئے، اور ہلکی بارش شروع ہو گئی۔ زینب نے ہڈ والا سویٹر پہنا اور بیگ مضبوطی سے پکڑ لیا۔

بس اسٹیشن پر اسلم اسے لینے آیا تھا۔ اس کی پرانی جیکٹ اور چہرے پر ہلکی مسکراہٹ دیکھ کر زینب کو عجیب سا لگا۔ "زینب، بیٹی، کیسی ہے؟" اسلم نے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔ زینب نے سر ہلایا اور خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑی۔
ہنزہ کا گھر چھوٹا لیکن خوبصورت تھا۔ لکڑی سے بنا یہ گھر وادی کی ایک پہاڑی پر تھا، جس کے سامنے خوبانی اور سیب کے درختوں کا باغیچہ تھا۔ شام کو سورج کی سنہری روشنی میں باغیچہ جگمگا اٹھتا۔ زینب کو یہ جگہ پسند تھی، لیکن تنہائی اسے کھاتی تھی۔ اسلم نے بتایا کہ وہ قریبی کالج میں داخلہ لے گی، جو قصبے سے کچھ دور ایک پتھریلی پگڈنڈی کے ذریعے جاتا تھا۔

پہلے دن زینب کالج کے لیے تیار ہوئی۔ اس نے ماں کا دیا نیلا دوپٹہ سر پر ڈالا اور بیگ کندھے پر لٹکایا۔ پتھریلی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اسے چھوٹے گھر، پتھر کی دیواریں، اور بچوں کی آوازیں سنائی دیں۔ کالج کے صحن میں داخل ہوتے ہی کچھ طالبات اور طالب علموں کی نظریں اس پر ٹھہر گئیں۔ ہنزہ جیسے چھوٹے قصبے میں اجنبی ہونا آسان نہیں تھا۔ زینب نے نظریں جھکائیں اور کلاس روم کی طرف بڑھ گئی۔
کلاس میں اس کی ملاقات ایمن سے ہوئی، جو ایک ہنس مکھ لڑکی تھی۔ ایمن نے اسے اپنے ساتھ بٹھایا اور باتیں شروع کر دیں۔ "تم کراچی سے آئی ہو، نا؟ وہاں کی زندگی کیسی ہے؟ سمندر کے کنارے مزہ آتا ہو گا!" ایمن کی آواز میں جوش تھا۔ زینب نے مختصر جواب دیا۔ وہ خاموش طبیعت کی تھی، لیکن ایمن کی دوستانہ طبیعت نے اسے سہج دیا۔ ایمن نے کالج کے بارے میں سب کچھ بتایا—کون سے پروفیسر سخت ہیں، کون سے طالب علم شرارتی ہیں، اور کینٹین کی چائے کیسی ہے۔

دوپہر کو کینٹین میں زینب کی نظر ایک لڑکے پر پڑی۔ وہ کونے میں اکیلا بیٹھا تھا۔ اس کے لمبے سیاہ بال بکھرے ہوئے تھے، اور اس نے سیاہ جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سرد مہری تھی، لیکن ایک گہرائی بھی جو زینب کو کھینچ رہی تھی۔ وہ اسے دیکھتا رہا، لیکن زینب نے جیسے ہی اس کی طرف دیکھا، اس نے نظریں جھکا لیں۔

"وہ کون ہے؟" زینب نے ایمن سے سرگوشی میں پوچھا۔
"وہ علی ہے۔ علی خان۔ عجیب سا ہے۔ اکیلا رہتا ہے، زیادہ بات نہیں کرتا۔ اس کے خاندان کے بارے میں کوئی زیادہ نہیں جانتا۔ بس اتنا کہ وہ ہنزہ کے پرانے باشندوں سے ہیں۔" ایمن نے دھیمی آواز سے کہا۔ "کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کا خاندان... عجیب ہے۔ ان کے گھر کے قریب جنگل میں عجیب چیزیں ہوتی ہیں۔"
"کیسے؟" زینب نے تجسس سے پوچھا۔

"بس افواہیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ رات کو عجیب روشنیاں نظر آتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ان کے خاندان کے لوگ رات کو جنگل میں جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب باتیں ہیں۔" ایمن نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، لیکن اس کی آواز میں ہلکی گھبراہٹ تھی۔
زینب نے دوبارہ علی کی طرف دیکھا۔ وہ کتاب پڑھ رہا تھا، لیکن زینب کو لگا کہ وہ چپکے سے اسے دیکھ رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جو اسے بے چین کر رہا تھا۔ اس دن کے بعد، زینب نے محسوس کیا کہ علی ہمیشہ اس سے دور رہتا، لیکن اس کی نظریں اس پر ہوتی تھیں۔ کلاس، کینٹین، یا کالج کے صحن میں وہ اسے دیکھتا، لیکن فوراً نظریں ہٹا لیتا۔

ایک دن کالج سے واپسی پر زینب کا پاؤں پتھر سے ٹکرایا، اور وہ گرتی گرتی بچی۔ اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گرے، ایک مضبوط ہاتھ نے اسے پکڑ لیا۔ علی اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کی گرفت مضبوط تھی، اور آنکھوں میں عجیب سی چمک۔
"ٹھیک ہو؟" اس کی آواز گہری تھی۔
"ہاں... شکریہ،" زینب نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ علی کی آنکھیں اسے گھور رہی تھیں، جیسے وہ اس کے ذہن کو پڑھ رہا ہو۔ اس کا چہرہ اتنا قریب تھا کہ زینب اس کی سانسوں کی سردی محسوس کر سکتی تھی۔
علی نے فوراً اس کا بازو چھوڑا اور چلا گیا۔ زینب کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ علی سے ڈر لگے یا وہ اس کی طرف کھنچی جا رہی ہے۔

اس رات زینب کو نیند نہیں آئی۔ باہر وادی کی خاموشی تھی، بس ہوا کی سریلی آواز سنائی دیتی تھی۔ کھڑکی سے جھانکتے ہوئے اس نے باغیچے کے پار جنگل کی طرف ایک ہلکی روشنی دیکھی۔ ایمن کی باتیں یاد آئیں۔ وہ سویٹر پہن کر چپکے سے نکل گئی۔ جنگل کے قریب پہنچ کر، روشنی غائب تھی، لیکن ایک دھیمی سرگوشی سنائی دی۔ ٹارچ جلائی، تو کوئی نظر نہ آیا، لیکن اسے لگا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔

"زینب!" علی کی گہری آواز گونجی۔ وہ چونک کر مڑی۔ اس کی آنکھیں چاند کی روشنی میں چمک رہی تھیں۔ "یہاں کیا کر رہی ہو؟"
"میں... ایک روشنی دیکھی تھی،" زینب ہکلائی۔
"یہاں کچھ نہیں۔ گھر جاؤ،" علی کا لہجہ سخت تھا۔ اس نے زینب کا بازو پکڑ کر گھر کی طرف لے جانا شروع کیا۔ زینب کے ذہن میں سوالات اٹھے۔ علی رات کو جنگل میں کیا کر رہا تھا؟ وہ روشنی کیا تھی؟
گھر کے قریب پہنچ کر، علی نے کہا، "رات کو جنگل مت جایا کرو۔ یہ جگہ محفوظ نہیں۔"

زینب کچھ کہتی، اس سے پہلے کہ وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ زینب کمرے میں لیٹ گئی، لیکن اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ علی کا پراسرار رویہ، اس کی آنکھوں کی چمک، اور جنگل کی روشنی اس کے ذہن میں گھوم رہی تھی۔ وہ سوچتی رہی کہ کیا ایمن کا کہا سچ تھا؟ علی کیوں اتنا رازدار تھا؟ اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ سفر اسے ایک ایسی دنیا میں لے جا رہا تھا، جس کا اسے کبھی گمان بھی نہیں تھا۔

زینب کی رات کٹتی تھی جیسے کوئی بھاری پتھر اس کے سینے پر رکھا ہو۔ علی کی گہری آواز، اس کی چاندنی میں چمکتی آنکھیں، اور جنگل کی وہ پراسرار روشنی اس کے ذہن میں بار بار لوٹتی تھیں۔ کھڑکی سے باہر ہنزہ کی وادی دھند کی سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ خوبانی کے درختوں پر اوس کی بوندیں موتیوں کی طرح جگمگا رہی تھیں، اور دور پہاڑوں کی چوٹیاں بادل کے سائے میں گم تھیں۔ زینب نے گرم سویٹر پہنا، لیکن اس کی ہتھیلیاں سرد تھیں۔ وہ ناشتے کی میز پر بیٹھی تو اسلم ایک پرانا اخبار پڑھ رہا تھا، اس کی پیشانی پر فکر کی لکیریں نمایاں تھیں۔
"بیٹی، نیند آئی؟" اسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا، لیکن اس کی آواز میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔

"ہاں، ابو، ٹھیک تھی،" زینب نے جھوٹ بولا۔ وہ رات کا واقعہ باپ سے چھپانا چاہتی تھی۔ اسلم نے اسے گرم چائے کا کپ تھمایا اور بولا، "آج موسم خراب ہونے والا ہے۔ کالج جلدی چلی جانا۔"

زینب نے سر ہلایا، لیکن اس کا دماغ کہیں اور تھا۔ پتھریلی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے اس نے جنگل کی طرف دیکھا۔ دن کی روشنی میں وہ گھنا جنگل پرسکون لگ رہا تھا، لیکن رات کی سرگوشی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ کالج پہنچ کر اس نے ایمن کو ڈھونڈا۔ ایمن کینٹین میں بیٹھی تھی، ہاتھ میں چائے کا کپ اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ۔
"زینب! آج کیسی لگ رہی ہو؟" ایمن نے جوش سے پوچھا۔
"بس... ٹھیک ہوں۔" زینب نے بیگ اتارا اور ایمن کے سامنے بیٹھ گئی۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی، پھر دھیمی آواز میں بولی، "ایمن، وہ جنگل والی باتیں... کیا وہ سچ ہیں؟"

ایمن کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ اس نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور گردن ہلائی۔ "تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ کچھ ہوا؟"
زینب نے رات کا واقعہ سنایا، لیکن علی کا ذکر چھپا لیا۔ ایمن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "زینب، تم رات کو جنگل گئی تھیں؟ کیا تم پاگل ہو؟ وہ جگہ خطرناک ہے!"
"لیکن وہ روشنی کیا تھی؟" زینب نے اصرار کیا، اس کی آواز میں بے چینی تھی۔
ایمن نے گردوپیش دیکھا، جیسے کوئی سن رہا ہو۔ پھر دھیمی آواز میں بولی، "زینب، وہ جنگل پرانا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہاں چیزیں... عام نہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہاں روحیں بھٹکتی ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہنزہ کے پرانے خاندان وہاں خفیہ رسومات کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب افواہیں ہیں۔"

زینب کے ذہن میں سوالات کا طوفان اٹھا۔ وہ کچھ اور پوچھنا چاہتی تھی، لیکن کلاس کا وقت ہو گیا۔ کلاس روم میں اس کی نظر علی پر پڑی۔ وہ اپنی معمول کی جگہ پر بیٹھا تھا، ایک پرانی نوٹ بک میں کچھ لکھ رہا تھا۔ اس کی جیکٹ کا کالر کھڑا تھا، اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ زینب نے اسے دیکھا، لیکن اس بار علی نے نظریں نہیں ملائیں۔ اس کی خاموشی زینب کو اور بے چین کر رہی تھی۔

دوپہر کو زینب لائبریری میں گئی۔ اسے ہنزہ کی تاریخ پر کچھ جاننا تھا۔ گھنٹوں ڈھونڈنے کے بعد اسے ایک پرانی کتاب ملی۔ اس کا چرمی سرورق دھول سے اٹا تھا، اور صفحات زرد پڑ چکے تھے۔ عنوان تھا، "ہنزہ کی گمشدہ داستانیں"۔ زینب نے کتاب کھولی تو اسے پرانے نقشوں، عجیب علامتوں، اور مقامی خاندانوں کی کہانیاں ملیں۔ ایک باب "خان خاندان" کے بارے میں تھا۔ زینب کا دل دھڑکا۔ کتاب کے مطابق، خان خاندان ہنزہ کے قدیم باشندوں میں سے تھا، جن کا تعلق وادی کے رازوں سے تھا۔ لکھا تھا کہ وہ جنگل کے ایک خفیہ مقام پر "ستاروں کی رسم" انجام دیتے تھے، جو صدیوں سے چلی آ رہی تھی۔ لیکن اس رسم کا مقصد غائب تھا، جیسے جان بوجھ کر چھپایا گیا ہو۔

ایک صفحے پر زینب کو ایک عجیب نقشہ ملا۔ جنگل کے بیچ ایک گول دائرہ بنا تھا، جس کے ارد گرد ستاروں کی علامتیں تھیں۔ زینب نے نوٹ کیا کہ یہ نقشہ اس جگہ سے ملتا جلتا تھا جہاں اس نے روشنی دیکھی تھی۔ اس کا دل جوش سے بھر گیا۔ کیا یہ وہی جگہ تھی؟

زینب کتاب پڑھنے میں گم تھی کہ لائبریری بند ہونے کا اعلان ہوا۔ وہ اٹھی اور کتاب بیگ میں ڈال لی۔ باہر نکلتے ہی اسے ایک سایہ نظر آیا۔ وہ چونکی۔ علی کونے میں کھڑا تھا، اسے گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی سردی تھی۔
"تم یہ کتاب کیوں پڑھ رہی ہو؟" اس کی آواز گہری اور دھمکی بھری تھی۔
زینب نے بیگ مضبوطی سے پکڑا۔ "بس... ہنزہ کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔"
علی ایک قدم قریب آیا۔ اس کی آنکھوں میں شدت تھی۔ "کچھ چیزیں جاننے کے لیے نہیں ہوتیں، زینب۔ یہ کتاب واپس رکھ دو۔"
"تمکو کیسے پتا میں نے یہ کتاب لی؟" زینب نے حیرت سے پوچھا، اس کا دل دھڑک رہا تھا۔

علی نے جواب نہ دیا۔ وہ اسے ایک لمحے تک گھورتا رہا، پھر پلٹ کر چلا گیا۔ زینب کی سانس پھول رہی تھی۔ علی کو کیسے پتہ تھا؟ کیا وہ اس کا پیچھا کر رہا تھا؟
اس رات زینب نے کتاب کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ ایک صفحے پر ایک علامت تھی. ایک دائرہ جس کے بیچ ایک ستارہ تھا۔ اس کے نیچے لکھا تھا، "ستاروں کا دروازہ"۔ زینب کے ہاتھ کانپنے لگے۔ کیا یہ وہی جگہ تھی جہاں وہ گئی تھی؟ کتاب میں لکھا تھا کہ یہ دروازہ صرف مخصوص وقت پر کھلتا ہے، جب ستارے ایک خاص ترتیب میں ہوں۔ لیکن اسے کھولنے کی قیمت بھاری تھی۔ ایک قربانی۔

زینب نے کتاب بند کی اور کھڑکی سے باہر دیکھا۔ جنگل کی طرف سے ایک ہلکی روشنی چمکی، پھر غائب ہو گی۔۔ پر۔۔۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ کیا یہ کوئی اشارہ تھا؟

اگلی صبح وہ ایمن سے ملی اور نقشہ دکھایا۔ ایمن نے نقشہ دیکھا اور بولی، "یہ تو عجیب ہے۔ لیکن زینب، تم اسے سنجیدہ نہ لو۔ یہ پرانی کہانیاں ہیں۔"
"لیکن اگر یہ سچ ہے؟" زینب نے اصرار کیا، اس کی آواز میں جوش تھا۔۔۔،،
ایمن نے ہنستے ہوئے کہا، "ٹھیک ہے، اگر تو اتنی بے چین ہے تو ہم شام کو جنگل جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن بس تھوڑی دیر!"
زینب نے ہچکچاتے ہوئے ہامی بھری۔ وہ جانتی تھی کہ یہ خطرناک ہو سکتا ہے، لیکن تجسس اسے روک نہیں پا رہا تھا۔ شام کو وہ اور ایمن جنگل کے قریب پہنچیں۔۔۔،، سورج غروب ہو رہا تھا، اور جنگل میں اندھیرا پھیل رہا تھا۔۔ زینب نے ٹورچ نکالی اور نقشے کی سمت میں چل پڑی۔

کچھ دیر چلنے کے بعد انہیں ایک خالی جگہ ملی۔ زمین پر پتھر دائرے کی شکل میں رکھے تھے، بالکل نقشے کی طرح۔۔۔ زینب کا دل زور سے دھڑکا۔ "یہ وہی جگہ ہے!" اس نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔،،
ایمن گھبرائی۔ "زینب، مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ چلو واپس چلیں۔"
لیکن زینب نے اس کی بات نہ سنی۔ وہ دائرے کے بیچ جا کھڑی ہوئی۔ زمین پر عجیب نشانات تھے، جیسے پتھروں سے بنے ہوں۔۔۔،، اس نے جھک کر انہیں چھوا، اور اچانک ایک ہلکی ہوا محسوس ہوئی۔ زمین سے ایک دھیمی روشنی نکلنے لگی، جیسے کوئی پراسرار طاقت جاگ اٹھی۔

"زینب !" ایمن چیخی، لیکن اس کی آواز دھیمی پڑ گئی۔ زینب کے گرد ہوا تیزی سے گھومنے لگی۔۔۔،، اسے لگا جیسے وہ زمین سے اُبھر رہی ہو۔۔۔،، اس کی آنکھوں کے سامنے عجیب تصاویر ابھریں—ایک ستاروں بھرا آسمان، ایک پراسرار عجل، اور ایک عورت جو اسے پکار رہی تھی۔ اس عورت کا چہرہ... فوزیہ سے ملتا جلتا تھا۔۔۔،،
"زینب، واپس آؤ!" عورت کی آواز گونجی، لیکن اس میں ایک عجیب سی گہرائی تھی۔ زینب نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی، لیکن اچانک سب کچھ رکا۔ وہ زمین پر گری۔ ایمن اس کے پاس دوڑی۔ "تم ٹھیک ہو؟ یہ کیا تھا؟"

زینب سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کا دماغ بھنور میں تھا۔ اس نے ایمن کو سب کچھ بتایا۔ ایمن کے چہرے پر خوف تھا۔ "زینب، یہ جگہ... یہ عام نہیں ہے۔ ہمیں یہاں سے جانا چاہیے۔"
واپسی کے راستے زینب خاموش تھی۔ وہ عورت کی تصویر اس کے ذہن میں بار بار آ رہی تھی۔ کیا وہ اس کی ماں تھی؟ یا یہ کوئی واہمہ تھا؟
اگلی صبح کالج میں زینب نے علی کو ڈھونڈا۔ وہ کینٹین کے کونے میں بیٹھا تھا، ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ زینب نے ہمت کر کے اس کے سامنے جا کر کہا، "علی، مجھے تم سے بات کرنی ہے۔"

علی نے کتاب بند کی اور اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ "کیا بات ہے؟"
زینب نے جنگل کے واقعے کا ذکر کیا اور پوچھا، "تم جانتے ہو کہ وہ جگہ کیا ہے، نا؟"
علی خاموش رہا۔ کچھ دیر بعد بولا، "زینب، تم ایک ایسی چیز کے پیچھے ہو جو تمہارے لیے خطرناک ہے۔ میری بات مانو، اسے چھوڑ دو۔"
"لیکن کیوں؟ وہ جگہ کیا ہے؟ تمہارا اس سے کیا تعلق ہے؟" زینب نے اصرار کیا، اس کی آواز میں غصہ تھا۔
علی نے گہری سانس لی۔ "وہ جگہ... ہمارے خاندان کی ہے۔ لیکن اب وہ محفوظ نہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بند رہنی چاہییں۔"

زینب حیران تھی۔ "تمہارے خاندان کی؟ وہ رسومات کیا ہیں؟"
علی نے جواب نہ دیا۔ وہ اٹھا اور چلا گیا۔ زینب کے دل میں غصہ اور تجسس دونوں بھڑک اٹھے۔ وہ اس راز کو سلجھانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
اس رات زینب نے اپنی ماں کو فون کیا۔ فوزیہ کی آواز سن کر اسے سکون ملا، لیکن وہ جنگل کی بات نہ کر سکی۔ فوزیہ نے بتایا کہ دبئی میں سب ٹھیک ہے، لیکن اس کی آواز میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔ زینب نے پوچھا، "اماں، آپ نے کبھی ہنزہ کے جنگلوں کے بارے میں کچھ سنا؟"

فوزیہ خاموش ہو گئی۔ کچھ دیر بعد بولی، "زینب، ہنزہ خوبصورت ہے، لیکن وہاں کی کچھ جگہوں سے دور رہنا۔"

زینب کے دل میں شک بڑھ گیا۔ کیا اس کی ماں کچھ جانتی تھی؟
اگلی شام زینب نے جنگل واپس جانے کا فیصلہ کیا، لیکن اس بار اکیلی۔ وہ نقشہ، ٹارچ، اور ایک چھوٹا چاقو لے کر نکلی۔ جنگل میں گہرا اندھیرا تھا، اور ہوا میں ایک عجیب سی سکتہ طاری تھا۔ وہ دائرے تک پہنچی اور پتھروں کے بیچ کھڑی ہو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور گہری سانس لی۔