آصف ایک عام سا لیکن اپنی ذات میں منفرد لڑکا تھا۔ گاؤں کی سادگی اور مٹی کی خوشبو اس کی شخصیت کا حصہ تھی۔ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا جادو تھا کہ لوگ اسے دیکھتے ہی متاثر ہو جاتے۔ وہ تیلی آنکھیں، جو نہ صرف خوبصورت تھیں بلکہ ان میں ایک عجیب کشش تھی، آصف کی پہچان بن چکی تھیں۔
گاؤں میں اس کی دو چھوٹی بہنیں تھیں، جو جوان ہو چکی تھیں۔ ان کی معصوم ہنسی اور معصوم چہروں نے آصف کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا تھا۔ ان کی شادی کا خواب آصف کی نیندیں حرام کیے ہوئے تھا۔ وہ ہر روز یہ سوچتا کہ کب وہ ان کے لیے ایسا انتظام کرے گا کہ وہ خوشحال زندگی گزار سکیں۔
آصف کا تعلق محنتی لوگوں کے خاندان سے تھا، اور وہ خود بھی کام کرنے سے کبھی نہیں کتراتا تھا۔ الیکٹریشن کا کام اس نے اپنے گاؤں کے استاد سے سیکھا تھا۔ وہ شہر آیا، کیونکہ گاؤں کی چھوٹی دکان اور محدود مواقع اس کی محنت کا صلہ نہیں دے سکتے تھے۔ شہر میں وہ اپنے استاد کی دکان پر کام کرتا تھا، لیکن اکثر اوقات لوگوں کے گھروں میں جا کر بجلی کے کام بھی کرتا۔
یہاں، شہر کی چکاچوند میں، وہ اپنی سادگی اور ایمانداری کے لیے مشہور تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ آصف کے ہاتھوں میں بھی جادو ہے۔ وہ خراب سے خراب چیز کو ٹھیک کر دیتا تھا، اور اس کا کام ہمیشہ بے عیب ہوتا۔ لیکن شاید آصف کی سب سے بڑی خاصیت اس کی ایمانداری تھی۔ وہ کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیتا تھا، اور ہمیشہ اپنی مزدوری اتنی ہی لیتا جتنی جائز تھی۔
گاؤں کی مٹی اور خاندانی روایات آصف کے کردار میں گہری جمی ہوئی تھیں۔ لیکن وہ اپنے حالات سے بھاگ نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنی بہنوں کے لیے، اپنی ماں کے لیے، اور خود اپنی عزت کے لیے سخت محنت کر رہا تھا۔
استاد شفیق دکان کے کاؤنٹر پر بیٹھے تھے، سامنے کچھ گاہک اپنی چھوٹی موٹی چیزوں کی مرمت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ آصف اپنی معمول کی مصروفیات میں تھا، کبھی کسی پنکھے کے پر صاف کر رہا تھا، تو کبھی خراب وائرنگ کو درست کر رہا تھا۔ استاد شفیق کے چہرے پر ایک خاص سنجیدگی تھی، جیسے وہ کسی اہم بات کے بارے میں سوچ رہے ہوں۔
اچانک انہوں نے آصف کو آواز دی، "آصف! ذرا اِدھر آنا، ایک ضروری بات کرنی ہے۔"
آصف نے کام چھوڑا اور جلدی سے استاد کے پاس آیا۔ "جی استاد جی، فرمائیں؟"
استاد نے کچھ دیر کے لیے آصف کو غور سے دیکھا اور پھر کہا، "دیکھو بیٹا، تمہیں ایک خاص جگہ جانا ہے۔ اکرم صاحب کا فون آیا تھا۔ ان کے گھر میں ائیر کولر خراب ہو گیا ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم فوری طور پر اسے ٹھیک کریں۔"
آصف نے سنجیدگی سے سر ہلاتے ہوئے کہا، "جی استاد جی، میں فوراً چلا جاتا ہوں۔ بس پتہ بتا دیں۔"
استاد نے ایک کاغذ پر پتہ لکھا اور اسے آصف کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، "یہ ایک بڑا گھر ہے، وہاں کے لوگ امیر ہیں۔ اس لیے تمہیں اپنی بات چیت اور رویے میں خاص خیال رکھنا ہوگا۔ وہاں جا کر کوئی غلطی نہ کرنا، ٹھیک ہے؟"
آصف نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "استاد جی، آپ فکر نہ کریں۔ میں اپنا کام ایمانداری سے کروں گا۔"
استاد نے تھوڑی دیر سوچتے ہوئے مزید کہا، "دیکھو بیٹا، یہ کام عام کاموں جیسا نہیں ہے۔ اکرم میرا پرانا دوست ہے، اور وہ اپنے والد کی طبیعت کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔ ان کا کولر خراب ہونے کی وجہ سے ان کے والد کو گرمی کی تکلیف ہو رہی ہے۔ اس لیے تمہیں نہایت احتیاط سے اور جلدی کام کرنا ہوگا۔"
آصف نے اثبات میں سر ہلایا۔ استاد نے اپنی پرانی موٹر سائیکل کی چابیاں اٹھا کر آصف کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، "یہ لو، یہ موٹر سائیکل لے جاؤ۔ ایڈریس آسان ہے، لیکن اگر کچھ سمجھ نہ آئے تو مجھے فون کر لینا۔"
آصف نے استاد کا شکریہ ادا کیا، کاغذ پر لکھے پتے کو جیب میں رکھا اور موٹر سائیکل پر سوار ہو گیا۔ استاد نے جاتے ہوئے اسے دعا دی، "خدا تمہارے ساتھ ہو، بیٹا۔ کام اچھے سے کرنا، میری عزت کا سوال ہے۔"
آصف نے مسکراتے ہوئے کہا، "استاد جی، آپ کی عزت میری عزت ہے۔ میں کوئی شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔"
پھر موٹر سائیکل کے انجن کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ آصف روانہ ہو گیا، اس بات سے بے خبر کہ یہ کام اس کی زندگی کے رخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔
آصف استاد کی ہدایات کے مطابق بتائے گئے پتے پر پہنچا۔ گرمی کا موسم تھا، اور سڑکوں پر تپش جیسے ہر چیز کو پگھلا رہی ہو۔ استاد کی پرانی لیکن چلتی ہوئی موٹر سائیکل پر سوار آصف نے آخر کار وہ پتہ تلاش کر لیا جو اسے دیا گیا تھا۔ وہ ایک بڑا اور شاندار گھر تھا، جس کی اونچی دیواریں اور لوہے کا بڑا دروازہ دیکھ کر ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ یہاں خوشحال لوگ رہتے ہیں۔
دروازے پر پہنچ کر آصف نے بیل دی۔ اندر سے آتی آوازوں سے پتہ چل رہا تھا کہ گھر کے اندر زندگی رواں دواں ہے۔ کچھ لمحوں بعد، اس نے دروازے کے قریب صحن میں جھانک کر دیکھا۔ صحن کافی وسیع تھا اور ایک طرف پرانی سی چارپائی پر ایک بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھا۔ وہ بیمار لگ رہا تھا، اس کا سانس دھیرے دھیرے چل رہا تھا، اور اس کے قریب ایک گلاس پانی رکھا تھا۔
آصف کو اندازہ ہو گیا کہ یہ شاید اکرم کا باپ ہوگا، جس کے بارے میں استاد نے ذکر کیا تھا۔ ابھی وہ یہی سوچ رہا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ ایک نوکر نے دروازہ کھولا اور آصف سے اس کے آنے کی وجہ پوچھی۔ آصف نے مؤدبانہ لہجے میں بتایا، "میں استاد شفیق کا شاگرد ہوں۔ اکرم صاحب نے کام کے لیے بلایا تھا۔"
ملازم نے آصف کو سیڑھیاں دکھاتے ہوئے کہا، "بی بی جی اوپر والے کمرے میں ہیں، وہی آپ کو کولر دکھائیں گی۔"
آصف سر ہلاتا ہوا اوپر چلا گیا۔ سیڑھیوں کے ہر قدم پر وہ خود کو یہ یاد دلاتا رہا کہ یہاں صرف کام کے لیے آیا ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنا فرض پوری ایمانداری سے نبھائے۔
اوپر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلا، اور سامنے اکرم کی دوسری بیوی، سمرین، کھڑی تھی۔ وہ نہایت خوبصورت اور ماڈرن خاتون تھیں، جن کی شخصیت نے آصف کو ایک لمحے کے لیے حیران کر دیا۔
"آئیں، اندر آئیں۔ یہ کولر خراب ہے، بہت گرمی ہو رہی ہے، اسے ٹھیک کر دیں۔" سمرین نے سنجیدہ انداز میں کہا لیکن ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر چھپی نہ رہی۔
آصف نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "جی، بی بی جی۔"
یہ سن کر سمرین مسکرائی اور بولی، "مجھے بی بی جی مت کہو، میرا نام سمرین ہے۔"
آصف شرمندہ سا ہوا اور سر جھکا کر کام میں لگ گیا۔ کولر کا پینل کھولا اور اندر کی خرابی دیکھنے لگا۔ گرمی کی شدت سے اس کی پیشانی پر پسینہ بہنے لگا، اور وہ بار بار اپنے ہاتھوں سے اسے صاف کرتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد سمرین دوسرے کمرے سے شربت کا گلاس لے کر آئی۔ "لگتا ہے تمہیں بہت گرمی لگ رہی ہے، یہ شربت پی لو۔" اس نے آصف کو پیش کیا۔
آصف نے شربت لیتے ہوئے ہچکچاہٹ سے کہا، "شکریہ، بی... میرا مطلب ہے، سمرین بی بی۔"
سمرین نے ہنستے ہوئے گلاس پکڑایا اور بولی، "بس سمرین کہو۔"
آصف نے جلدی جلدی شربت پیا اور خالی گلاس واپس کیا۔ لیکن گلاس پکڑاتے وقت اس کے ہاتھ سمرین کے نرم ہاتھ سے چھو گئے۔ آصف نے فوراً نظریں نیچی کر لیں، لیکن سمرین کی مسکراہٹ نے اسے مزید الجھا دیا۔ وہ مسکراتے ہوئے چلی گئی، لیکن جاتے ہوئے ایک ادا سے پلٹ کر آصف کو دیکھا۔
آصف نے گہری سانس لی اور اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی کشمکش پیدا ہو چکی تھی، لیکن اس نے خود کو بار بار سمجھایا کہ وہ یہاں صرف کام کے لیے آیا ہے اور اپنی عزت اور استاد کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا۔
آصف کی آنکھوں میں ایک خاص سی دھندلاہٹ چھا گئی تھی۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا اور اس کی نظریں مشکل سے کھلی ہوئی تھیں۔ سمرین کی مسکراہٹ کا جادو پہلے ہی اس پر چھا چکا تھا اور اس کا دل تیز دھڑک رہا تھا۔ وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا، مگر ہر لمحہ سمرین کی موجودگی نے اسے مزید بے قابو کر دیا تھا۔
"تم ٹھیک ہو؟" سمرین کی نرم آواز آصف کے کانوں میں گونجی۔ وہ دھندلی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا، لیکن کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ "تمہیں کچھ آرام کی ضرورت ہے، آصف۔" سمرین نے آصف کی طرف جھک کر کہا، اس کے جسم کی خوشبو آصف کے ذہن کو مزید الجھاتی جا رہی تھی۔
آصف نے خود کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر سمرین کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی جس نے اس کے اندر کا توازن مکمل طور پر بگاڑ دیا تھا۔ وہ خود کو اس کی طرف کھینچا ہوا محسوس کرتا رہا، جیسے کوئی نظر نہیں آ رہا تھا سواۓ سمرین کے۔
"آصف، تم تھک گئے ہو، کچھ دیر آرام کر لو۔" سمرین نے آصف کو بستر پر بٹھا دیا۔ آصف کی نظریں سمرین کی مسکراہٹ پر رکی ہوئی تھیں، اور وہ چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر کے لیے بس یہی لمحے میں گم ہو جائے۔ لیکن اس کی حالت میں بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ وہ سمرین کی باتوں کا جواب نہ دے سکا، کیونکہ اس کا دماغ سست ہو چکا تھا، اور اس کی آنکھوں میں دھندلاہٹ مزید بڑھ گئی تھی۔ وہ خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔
"آصف، تم کچھ نہیں کر پاؤ گے، تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔" سمرین کی آواز میں ایک شیطانی لچک تھی، جو آصف کی عقل پر غلبہ پا چکی تھی۔ جیسے ہی آصف بستر پر لیٹ گیا، سمرین اس کے قریب آئی، اور اس کی مسکراہٹ آصف کو مزید بے قابو کر رہی تھی۔ آخر وہ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا۔ اور بے ہوش ہو گیا۔
آصف بے ہوش ہونے کے بعد، سمرین نے جو کیا تھا وہ اس کے لیے ایک سنگین غلطی تھی، اور آصف کی حالت اس وقت بگڑ رہی تھی۔ سمرین نے اپنی خواہشات کے پیچھے اندھا ہو کر اس لڑکے کی جوانی اور عزت کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی، آصف بے ہوش ہو چکا تھا اور وہ شیطانی عورت اس کی عزت سے کھیل رہی تھی اس کی جوانی برباد کر رہی تھی، آصف درد سے کسمسا رہا تھا۔ کافہ دیر سمرین اپنی پیاس بجھاتی رہی اور آخر کا اس نے وہ سب پا لیا جس کے لیے اس نے آصف کو بے ہوش کیا تھا۔
مزید پڑھیں |
دوسری طرف، آصف کا دماغ ابھی مکمل طور پر ہوش میں نہیں آیا تھا، مگر اس کے جسم کی حالت بہت خراب تھی۔ اس نے اپنا آپ کھو دیا تھا اور سمرین کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی، لیکن آصف اس کے چہرے کو بے دلی سے دیکھ رہا تھا۔
دو گھنٹے کے بعد، آصف کی آنکھیں دھندلے دھندلے کھلیں۔ اس کا جسم درد سے تڑپ رہا تھا اور وہ بے اختیار کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن اس کے دماغ نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ سمرین نے جلدی سے اسے پیسے دیے، اور اسے رخصت کر دے۔ آصف ابھی بھی مکمل طور پر ہوش میں نہیں آیا تھا، اور اس کا جسم اتنا کمزور تھا کہ وہ چلنے میں بھی مشکل محسوس کر رہا تھا۔ آصف نے موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے کسی طرح اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی، لیکن وہ پورا نہیں ہو سکا۔ اور دکان کی جانب موٹر سائیکل دوڑا دی۔ آصف کی حالت غیر تھی، اور وہ اپنی موٹر سائیکل پر بالکل بھی سنبھال نہ سکا۔ جلد ہی وہ تیز رفتار کے باعث ایک حادثے کا شکار ہو گیا اور اپنے گھر واپس پہنچنے سے پہلے ہی اپنی زندگی کی سب سے بڑی قیمت چکا دی۔
آصف کی ماں اور بہنیں اس غم سے نڈھال تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ آصف ایک محنتی لڑکا تھا، لیکن اس کا گزرنا ایک بے رحم معاشرتی سازش کا شکار ہو گیا تھا۔ استاد نے بتایا کہ آصف تیز رفتاری کے باعث حادثے کا شکار ہوا، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ آصف کی جوانی اور ایمانداری کی قیمت سمرین کے شیطانی کھیل نے چھین لی تھی۔
مزید پڑھیں |
اس کہانی کا اختتام افسوسناک ہے، لیکن یہ ہمیں معاشرتی حقیقت کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ سمرین جیسے افراد، جو دوسروں کی عزت کے ساتھ کھیلتے ہیں اور ان کی زندگیوں کو برباد کر دیتے ہیں، ایسے کرداروں کا محاسبہ ضروری ہے۔ نوجوانوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم اور عزت کا خیال رکھیں، تاکہ وہ ایسے شیطانی لوگوں کے جال میں نہ پھنسیں۔ معاشرے کو ایسے برے رویوں کا سامنا کرنا ہوگا اور ہمیں ان کا خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ یہ کھیل کسی اور کی زندگی سے نہ کھیل سکے۔