شکی مزاج مرد

urdu font stories online


نانا امریکہ میں رہتے تھے۔ کبھی کبھار پاکستان آتے، عزیز واقارب سے ملتے اور لوٹ جاتے۔ میری ماں ان کی اکلوتی اولاد تھیں ، انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی، اپنا وطن ان کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ ایک بار تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ گھومنے پھرنے کی عرض سے پاکستان آئیں تو میرے والد کے ایک دوست کے یہاں ٹھہریں، جو جاگیر دار تھے۔ ان کا بھتیجا فہد ان کے پاس رہا کرتا تھا۔ 
 
امی کو یہ نوجوان پسند آیا اور انہوں نے اپنے والدین کو فون کر کے اپنی پسندے آگاہ کیا۔ تب ان کے والدین فورا ہی امریکہ سے آ گئے اور اپنی بیٹی کا رشتہ فہد سے طے کر دیا۔ میری مما شروع سے سمجھ دار اور با اعتماد تھیں، لہذا پسند کی شادی میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی۔ شروع شروع میں تو سب ٹھیک ٹھاک چلا ۔ کچھ ہی عرصے بعد مد مما اور پیا کے رشتے میں کھٹاس آنے لگئی، پاپا بلا کے شرابی کہابی تھے ، بازاری عورتوں کے بھی رسیا نکلے۔ باقی سب عیب و ثواب میری ماں کو قبول تھے لیکن خاوند کی بازاری عورتوں سے دوستیاں قبول نہ تھیں۔
 
پاپا نشے میں دھت جھومتے جھامتے رات گئے گھر آتے تو میری ماں ان سے لڑتی جھگڑتیں اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی۔ اس دوران میرا بھائی را فیل پیدا ہو چکا تھا، جس کے لیے مما بہت پریشان تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے کی پرورش پر سکون ماحول میں ہو۔ جب رافیل با شعور ہوا، تو وہ پریشان رہنے لگا۔ ماں بیٹے کو غلط کاموں سے روکتیں، پاپا، اس کی طرف داری کرتے ، تب میرا بھائی یہ سمجھنے لگا کہ ماں میری خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور باپ اچھے ہیں، مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے حمایت کرنے والے کو ہی پسند کرتا ہے، خواہ حمایت غلط کاموں پر ہو۔ یوں رافیل امی ے پڑنے اور پیا کو پسند کرنے گا ، وہ ان ہی کے ساتھ رہنے لگا۔

نانا بیمار ہو گئے، تو انہوں نے اپنا بزنس اور تمام سرمایہ امی کے نام پاکستان منتقل کر دیا، تا کہ وہ اپنے والد کا بزنس سنبھال سکیں۔ کچھ دنوں بعد نانا چل ہے۔ یہ واقعہ میری پیدائش سے پہلے کا ہے ۔ ان دنوں گھر میں لڑائی جھگڑے عروج پر تھے۔ پاپا چاہتے تھے کہ نانا کا سرمایہ اور بزنس وہ خود ڈیل کریں اور مما کا خیال تھا کہ سسر کا روپیہ ہاتھ لگتے ہی یہ اسے اپنی عیاشیوں میں اڑا دیں گے اور آخر میں میرے بچوں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔ جن دنوں یہ جھگڑا چل رہا تھا، میں پیدا ہو گئی۔ جب جب میری عمر چھ ماہ تھی ، 
 
ماں نے میرے والد سے طلاق لے لی اور سرمایہ اور بزنس اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ طلاق کے وقت بیٹے کو باپ نے اپنے پاس رکھ لیا اور میں ماں کے حصے میں آ گئی۔ ممی پر بزنس کا بوجھ تھا ، انہوں نے مجھے آیا کے حوالے کر دیا۔ مجھے یاد نہیں میری ماں نے مجھے سنبھالا ہو۔ میں نوکرانیوں کے ہاتھوں میں کھلونا تھی۔ وہی مجھے کھلاتی، پلاتیں، نہلاتی، دھلاتیں۔ جب بڑی ہوئی تو مجھ کو بورڈنگ ہائوس بھیج دیا گیا کیونکہ یہ ہمارے طبقے کا رواج تھا۔ ہمیں کانونٹ میں پڑھایا جاتا اور بورڈنگ ہائوس میں بھیج دیا جاتا، تا کہ ہم انگریزی تہذیب اور طور طریقے اچھی طرح سے سیکھ لیں اور انگریز زبان پر بھی عبور حاصل کر لیں۔ میرے والدین کے حلقہ احباب میں جاگیر دار ، سیاست دان، کاروباری حضرات اور بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز لوگ شامل تھے۔ ہم بچوں کی دوستیاں بھی ایسے ہی لوگوں کے بچوں سے تھیں کیونکہ ہم جن اسکولوں میں پڑھتے تھے، وہاں عام لوگ اپنے بچے بہت کم پڑھاتے تھے۔ 
 
ہم ان تمام بڑے بڑے لوگوں کو اچھی طرح سے جانتے تھے لیکن جب کسی محفل میں مما اور پاپا مدعو ہوتے اور اس محفل میں ہم اکٹھے ہو جاتے تو اپنے باپ کو بس دور سے دیکھتی تھی ، ان سے بات نہیں کرتی تھی۔ میرا بھائی تو میری طرف دیکھتا تک نہ تھا۔ امی نے تو ہمیشہ مجھے اعتماد دیا اور کسی کام سے نہیں روکا۔ میں خود ایک محتاط شخصیت کی مالک تھی۔ میری دوستی بھی چند مخصوص لڑکیوں سے ہی تھی۔ میں لڑکوں سے دور رہتی، صرف ہیلو ہائے تک ہی بات محدود رکھتی ، حالانکہ ہم پر لڑکوں سے دوستی پر بابندی نہیں تھی۔ میں نے بی ایس سی کر لیا تو یونی ورسٹی جانے کا سوچا، تب ہی مما نے سیاست میں قدم رکھ دیا۔ وہ ہمارے علاقے کے ایک نامور جاگیردار کے مقابلے میں کھڑی ہو گئیں۔ اس شخص کی زمین داری کی وجہ سے میرے والد سے عداوت تھی، اب والدہ سے سیاسی مخالفت بھی ہو گئی۔ 
 
اس شخصیت کا نام زیرک تھا۔ جب میرا ایم بی اے کا آخری سال تھا ، امی کے کاروباری حلقے کے ایک معروف بزنس مین کی بیٹی کی شادی تھی۔ ماروی نہ صرف میری کلاس فیلو تھی، بلکہ وہ میری دوست بھی تھی۔ میں اور مما دونوں اس کی شادی میں شریک ہوئیں۔ وہاں وہی جانے پہچانے چہرے تھے ، وہی بگڑے رئیس زادے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈرنک کرتے یا پھر گرل فرینڈز کے ساتھ خوش گپیاں، لیکن اس تقریب میں، میں نے ایک ایسا لڑکا بھی دیکھا، جو نہ کسی دوست کے ساتھ بیٹھا تھا اور نہ کسی لڑکی کے ساتھ ، بلکہ وہ ایک بوڑھی خاتون کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ اس کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی سنجیدگی مجھ کو عجیب لگی۔ ہفتے بعد دوبارہ اسے یونی ورسٹی میں دیکھا اور بات کرنے میں پہل کی ، تب اس نے بتایا کہ وہ زیرک کا بیٹا ہے، یعنی امی کے سیاسی مدمقابل کا۔ 
 
اس کا نام سلیمان ھتا اور ایک ماہ پہلے ہی لندن سے آیا تھا۔ جب میں نے اسے اپنی ماں کا نام بتایا، تو وہ کہنے لگا۔ ہمارے ستارےنہیں مل سکتے ، جب وہ اپنے مد مقابل کا نام سنیں گی، تو ہر گز خوش نہ ہوں گی۔ میری مما بہت روشن خیال ہیں، وہ ایسا انہیں سوچتیں۔ میں نے کہا ۔ میں اس نوجوان کی زندہ دلی اور صاف گوئی سے متاثر ہوئی تھی۔ اب ہم یونی ورسٹی میں اکثر اکٹھے نظر آتے۔ میری ساتھی لڑکیاں مجھے چھیڑتیں کہ آخر کار تم نے بھی کسی لڑکے سے دوستی کر ہی لی۔ میں صرف مسکرا دیتی، لیکن یہ سچ تھا کہ میں سلیمان کو چاہنے لگی تھی۔ جب اسے احساس ہوا کہ میں اسے چاہنے لگی ہوں تو وہ خاموش ہو گیا۔ کچھ عرصہ اس نے مجھ سے دوری رکھی، لیکن ایک روز خود ہی فون کر کے اپنی چاہت کا بھی اظہار کر دیا۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ یہ دنیا کتنی پیاری اور کتنی خوب صورت ہے۔ دن تب بڑےسہانے ہو گئے تھے۔ سب کچھ اچھا لگتا تھا کہ روز میری سلیمان سے فون پر بات ہوتی تھی ، بے شک وہ مجھے اچھا لگتا مگر میں دوستی میں حد سے گزر جانے کو پسند نہیں کرتی تھی۔ ہم رکھ رکھائو سے باتیں کرتے، پھر ملاقتیں ہونے لگیں۔

تب ہی مما کو بھی پتا چل گیا کہ میں ان کے سیاسی مخالف کے بیٹے سے ملتی ہوں۔ ممانے پوچھا تو میں نے صاف کہہ دیا کہ میں سلیمان کو پسند کرتی ہوں۔ انہوں نے سمجھایا کہ یہ لوگ ان کی مخالف پارٹی کے ہیں۔ 
 
بلیک میل کرنے کو مجھے ٹریپ بھی کر سکتے ہیں، مجھے استعمال کر کے ان کی ہار کا سامان کر سکتے ہیں، مگر میں نے مما کو یقین دلایا کہ ان کے خدشات غلط ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سلیمان سے بات کرنے اور اپنی پسند کا اظہار کرنے میں پہل خود میری جانب سے ہوئی ہے۔ وہ بولیں کہ پھر بھی وہ اس خاندان پر بھروسہ نہیں کر سکتیں ، جو نہ صرف ان کا سیاسی مخالف ہے بلکہ پہلے سے یہ تمہارے والد سے بھی عداوت رکھتے ہیں۔ مما کے لیے بہرحال سلیمان سے میری دوستی ایک بڑی نازک صورت حال تھی۔ ایک طرف بیٹی کی خوشی، دوسری جانب اپنے مخالفوں سے ہار مان لینا یا پھر ان سے ٹکرا جانا، میرے اصرار پر بالاخر وہ سلیمان کے والدین سے ملیں۔ جانے ان لوگوں کے درمیان کیا بات ہوئی کہ سلیمان یونی ورسٹی چھوڑ کر لندن چلا گیا۔ اس بارے میں نہ تو مجھے ماں نے کچھ بتایا اور نہ سلیمان نے کہ مما کی اس کے والدین سے کی گفت گو ہوئی ہے۔ جب میں نے اس کے دوست سے نمبر لے کر اسے لندن فون کیا اور پوچھا کہ مما کی تمہارے والدین سے کیا بات ہوئی اور تم کیوں لندن چلے گئے ہو ؟ تو اس نے کہا۔ میں اب پاکستان نہیں آسکتا، بس کچھ مجبوریاں ہیں۔ تم آئندہ مجھے فون مت کرنا۔ 
آخر کیوں فون نہ کروں ؟ وجہ جان کر کیا کرو گی، جب سمندر تیر کر پار نہیں ہو سکتا تو اس میں چھلانگ لگانے سے کیا حاصل۔ یہ اس کا آخری جواب تھا ۔ میرا دل بہت دکھا تھا، لیکن میں نے اپنا درد دل میں ہی دبا لیا تھا۔ کسی سے کہتی بھی تو کیا، میں نے یونی ورسٹی چھوڑ دی، امتحان بھی نہ دیا۔ اب میں اکثر ایسے کام کرتی، جن سے مما کو غصہ آتا۔ یوں ہی کافی وقت بیت گیا اور میں سلیمان کو بھولنے لگی۔ مما اپنی مصروفیات میں کھوئی ہوئی تھیں اور میں تنہائی کے عفریت سے تنہا لڑ رہی تھی۔ مجھ پر قنوطیت نے قبضہ جما لیا۔ اب نہ میں کہیں جاتی اور نہ سہیلیوں سے ملتی، ان دنوں سخت پریشان اور منتشری تھی۔ مما تو مجھے بہت خود عرض لگتی تھیں۔ میرے خیال میں ماں اور بیٹی کی زندگی میں ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے، جب بیٹی، ماں کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ چاہے اس میں ماں کی نادانی ہو یا بیٹی کی بے وقوفی ، دونوں میں سے کوئی بھی خود کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔

مائیں کہتی ہیں ہم اولاد کا بھلا چاہتی ہیں، اپنی بچیوں کو سنبھالنا اور سمجھانا ہمارا فرض ہے اور لڑکیاں چاہتی ہیں کہ ان کے خوابوں کی تعبیر ان کو مل جائے، بدلے میں خواہ کیا کچھ ان کو دان دینا پڑے۔ میں جانے کن سپنوں کو اتنا عزیز رکھے ہوئے تھی کہ ایک دن اس کی شادی کا کارڈ آ گیا۔ کارڈ دیکھ کر دھچکا کا سالگا، لیکن ہر انسان کو مجبوراً ایسے دھچکے سہنے پڑتے ہیں۔ اب سوال یہ تھا، شادی میں جائوں یا نہ جائوں؟ تین دن بعد سلیمان خود مدعو کرنے آ گیا۔ اس کے سامنے میں ایک لفظ نہ بول کی۔ وہ بھی ایسے میں جبکہ اپنی شادی کا سندیسہ لایا تھا اور اس میں مجھ کو مدعو کرنے آیا تھا۔ میں اس کی شادی میں نہ گئی اور چند ماہ بعد میری شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ممانے اس کو مدعو نہ کیا تو میں نے بھی نہ بلایا، لیکن حیرت ہوئی جب وہ شادی والے دن سامنے آ گیا۔ دراصل وہ میرے شوہر شفقت کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔ اس کے بعد سلیمان نے ہمارے گھر باقاعدگی سے آنا جانا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا کہ زندگی کے ایک نئے امتحان کا آغاز ہو چکا ہے۔ 
اسے منع بھی نہ کر سکتی تھی کہ وہ شفقت کا دوست تھا، گھر پر اس کے لیے آتا تھا، تاہم میں اس سے حتی الامکان بات چیت سے گریز کرتی تھی۔ ایک روز ہمارے گھر پارٹی تھی اور شفقت دیگر مہمانوں کی جانب متوجہ تھے ، وہ میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ تب ہی میں برآمدے میں چلی گئی۔ وہ بھی دبے قدموں میرے پیچھے چلا آیا۔ کہنے لگا۔ کیا میرا آنا برا لگتا ہے ؟ اگر ایسی بات ہے تو میں نہیں آئوں گا۔ آپ کی مرضی، آپ جانیں یا شفقت ، آپ ان کے دوست ہیں، میرا آپ سے کیا واسطہ ہے ؟ کیوں نہیں ، ہاں، اگر تم کو میرا آنا پسند نہیں ہے تو نہیں آئوں گا۔ ہاں، تمہارے آنے سے میں واقعی پریشان ہو جاتی ہوں۔ کیوں پریشان ہو جاتی ہو ؟ جبکہ اب تو سب کچھ بدل چکا ہے۔ تم نے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ تمہاری مما نے میرے والدین سے کیا بات کہی تھی کہ اس کے بعد مجھے پاکستان چھوڑ کر لندن جانا پڑا تھا۔ سلیمان ! اب ایسی باتوں کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وقت گزر چکا ہے اور میں کسی اور کی ہو چکی ہوں۔ یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ تب ہی سلیمان نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

وہ میری اشک شوئی کرنا چاہتا تھا، تب ہی میرے شوہر آگئے۔ انہوں نے ہماری باتیں بھی سن لی تھیں۔ ان کا چہرہ متغیر ہو گیا، کہنے لگے۔ تم دونوں کب سے ایک دوسرے کو جانتے ہو؟ میں گھبرا گئی، مگر سلیمان نے بات کو سنبھالنا چاہا۔ یونی ورسٹی کے زمانے میں ، ساتھ پڑھتے تھے ہم۔ اس وقت تو میرے میاں نے حوصلے سے کام لیا اور واپس مہمانوں میں چلے گئے۔ جب پارٹی ختم ہو گئی اور سب مہمان چلے گئے ، تب شفقت نے میری خوب خبر لی۔ لاکھ یقین دلایا کہ میری سلیمان سے صرف چند دنوں کی دوستی تھی، مگر وہ نہ مانے۔ کہنے لگے کہ عورتیں شوہروں سے ماضی چھپاتی ہیں۔ اگر بات کھل جائے تو ایسے ہی کہتی ہیں۔ تمہارا اس سے تعلق تھا , ہے اور رہے گا۔ میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں، جسم کے رشتوں سے زیادہ مضبوط دل کے رشتے ہوتے ہیں، جسموں کے تعلق بھلائے جا سکتے ہیں ، دلوں کے نہیں۔ میری ماں نے شادی کے وقت شفقت کے والد سے بہت زمین اور جائیداد میرے نام لکھوائی تھی، اب طلاق بھی آسانی سے نہیں ہو سکتی تھی۔ 
میں بھی طلاق نہ لینا چاہتی تھی اور نہ شفقت دینا چاہتا تھا، لیکن اب مجھے ایسی ہی گھائل اور لٹی زندگی گزارنی تھی۔ شفقت نے مجھے دل سے معاف نہ کیا، بدگمانی کو وہ اپنے دل سے کھرچ ہی نہ سکا۔ اس واقعہ کے چار سال بعد اس نے دوسری شادی کر لی اور مجھے ادھوری زندگی جینے کو تنہا چھوڑ دیا۔ مجھے شفقت سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ مرد تو ہوتے ہی شکی مزاج ہیں۔ کوئی خاوند بیوی کے ماضی کو جان کر اسے معاف نہیں کر سکتا تو شفقت کیسے معاف کرتے۔ وہ خاوند ہیں، فرشتہ تو نہیں، ہاں مجھے سلیمان سے شکوہ ضرور ہے۔ اے کاش وہ میری زندگی میں دوبارہ نہ آتا۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے