میں نے جیب سے کاغذ کا وہ ٹکڑا نکال جو مجھ کو مقتولہ کے پلنگ کے نیچے پڑا ملا تھا۔ اس کا زر کی نہیں کھول کر میں نے کاغذ اس کے آگے رکھا اور پوچھا کہ یہ کس کے ہاتھ کی تحریر ہے۔ اس نے عجیب حرکت کی ۔ پہلے اس کا غذ کو دیکھا اور یک لخت اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھے اور ایک ہاتھ میں کی اوپر والی جیب میں لے گیا پھر جرسی کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے جیسے اس نے کوئی چیز گم کردی ہو اور اس کو جیبوں میں تلاش کر رہا ہو۔ میں فورا سمجھ گیا کہ اس نے یہ پر چی اپنی جرسی کی جیب میں یا قمیض کی جیب میں رکھی تھی اور اب اس کو پتہ لگا ہے کہ یہ پر چی کہیں گر پڑی تھی ۔ اس کو جب اپنی جیبوں میں یہ پر چی نہ ملی تو اس کا جسم سے بالکل یا ہو یا ہو ں یا نہ ہوا اور مایا کہ اس سے کی ہے جیسے بالکل ہی جام ہو گیا ہو۔ میں نے اپنا سوال پھر دہرایا کہ یہ کس کے ہاتھ کی تحریر ہے۔
پتہ نہیں جناب ! اس نے بڑی مشکل سے جواب دیا۔
پھر اپنی جیبوں میں کیا ڈھونڈ رہے تھے ؟“ میں نے پوچھا۔ کچھ دیر اس نے جواب نہ دیا تو میں نے کہا۔ یہ تحریر تمہاری ہے اور تم یہ پر چی اپنی جیبوں میں ڈھونڈ رہے تھے ۔ تم جانتے ہو کہ مجھے کو یہ پرچی کہاں سے ملی ہے۔ اب بتاؤ کہ یہ پر چی وہاں مقتولہ کے پلنگ کے قریب کس وقت گری تھی۔
مجھ کو پتہ ہی نہیں چلا کہاں گری تھی ۔ اس نے رک رک کر جواب دیا۔ یہ تم نے اپنی کس جیب میں رکھی تھی ؟ میں نے پوچھا۔ شاید جرسی کی کسی جیب میں رکھی تھی۔ اس نے بڑی ہی نحیف اور مریل سی آواز میں جواب دیا ۔
مجھ کو اچانک یاد آ گیا کہ مقتولہ کے پلنگ سے مجھ کو کسی جرسی کا ایک بٹن ملا تھا۔ تب خیال آیا کہ اقبال نے جرسی پہن رکھی ہے اور یہ خاصی قیمتی جری ہے۔ نوکرانی نے مجھے کو بتایا تھا کہ مقتولہ نے اقبال کو ان سردیوں کے شروع میں بڑی قیمتی اور نئی جرسی دی تھی ۔ میں نے اقبال کی جرسی کے بٹن دیکھے تو وہ سو فیصد ویسے ہی تھے جیسا بٹن مجھ کو پانگ سے ملا تھا۔ میں نے اس کو کھڑا ہونے کو کہا۔ وہ کھڑا ہوا تو اس طرح لگا کہ بجلی بڑی زور سے چمکی ہو اور مجھ کو
دونوں جہاں نظر آگئے ہوں۔ اقبال کی جرسی کا نیچے سے اوپر کو دوسرا بٹن ٹوٹا ہوا تھا یعنی بیٹن تھا ہی نہیں ، وہاں صرف
دھا گہ تھا۔
یہ لو اقبال ! میں نے اپنی جیب سے بٹن نکال کر اس کے آگے رکھ دیا اور کہا۔ “تمہاری جرسی کا بٹن میرے پاس ہے ۔ اتنی اعلیٰ جری کا ایک بٹن ٹوٹا ہوا ہے اور یہ اچھی نہیں لگتی۔ بٹن لے لو لیکن اس سے پہلے مجھ کو یہ بتا دو کہ بٹن مقتولہ کے پلنگ پر کس طرح گرا تھا۔ یہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ یہ گزشتہ رات اس کے پلنگ پر گرا تھا۔ میرے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ نہیں جن کے ذریعے میں بیان کر سکوں کہ بٹن دیکھ کر اس نوجوان کی کیا حالت ہوئی۔ میرا تو خیال ہے کہ اس پر غشی طاری ہو گئی تھی ، صرف آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں ۔ اس کے چہرے پر تریلی سی پھوٹ آئی۔ جرم کے اقرار کا اس سے زیادہ واضح اظہار اور کیا ہوسکتا ہے! میں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور دل ہی دل میں کہا ، یا اللہ ، کیا تیری ذات باری مجھے جیسے گناہ گار پر بھی اس قدر مہربان ہو سکتی ہے؟ یہ تو ایک معجزہ ہے. پھر میں نے دل ہی دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
میں انگریزوں کے وقت کی بات کر رہا ہوں جب تھانیدار اپنی تفتیش کی کامیابی پر خوشیاں منایا کرتے تھے کہ اصل ملزم پکڑ لیا ہے۔ آج کے تھانیدار اپنی اس کامیابی پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی مرضی اور ڈیمانڈ کے مطابق مک مکا ہو گیا ہے خواہ کسی کا پورا خاندان ہی قتل ہو گیا ہو۔
میں نے اس ہیڈ کانٹیبل کو بلوایا جس نے انگلیوں کے نشان لیے تھے ۔ اس کو کہا کہ وہ اقبال کی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں اور انگوٹھوں کے نشان کا غذ پر لے لے ۔ ہیڈ کانٹیبل لے آیا اور اقبال کا ایک ہاتھ پکڑ کہ انگوٹھا اور انگلیاں پیڈ پر رکھے ۔ اقبال نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور ہنگامہ بپا کر دیا۔ وہ لڑتا جھگڑتا نہیں تھا بلکہ روتا اور منتیں کرتا تھا کہ پہلے اس کی بات سن لی جائے اور اس پر رحم کیا جائے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ آپ مسلمان ہیں اور اللہ اور رسول اور قرآن کے نام پر مجھے پر رحم کریں میں غریب باپ کا بیٹا ہوں ۔ پہلے میری مجبوریاں سن لیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے آنسو بہے جا رہے تھے اور میں خاموشی سے اس کا واویلا اور فریادیں سن رہا تھا۔
وه در اصل یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس کے انگوٹھے لگوا لیے اور انگلیوں کے نشان لے لیے تو اس کو پھانسی کی سزا مل جائے گی ۔ میں اس پر تشدد کر کے خاموش کروا سکتا تھا اور اس کی ہڈی پلی ایک کر کے کہتا کہ تم اگر قاتل ہو تو فورا اقبال جرم کرو لیکن میں نے اس کی بجائے شفقت اور پیار کا رویہ اختیار کیا۔ اس کو کہا کہ میں مسلمان ہوں جیسا کہ اس نے کہا ہے اور میں ثابت کر دکھاؤں گا کہ پکا مسلمان ہوں اور ایک مسلمان بھائی کی خاطر کچھ قربانی دے سکتا ہوں ۔
قصہ مختصر یہ کہ میں نے اس کو پہلا پھسلا لیا اور اس کو کہا کہ وہ بے تکلفی سے بات کوے، چھپائے کچھ بھی نہیں اور پھر میں اس کی مدد کر نے قابل ہوں گا۔ اس کو بولنے کے موڈ میں لانے کے واسطے مجھ کو محنت کرنی پڑی جس میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ جرائم پیشہ نہیں تھا۔ نمازی پر ہیز گار اور دیانت دار آدمی تھا۔ وہ تو تھانے اور تھانیدار کا رعب برداشت کرنے کے بھی قابل نہیں تھا۔ میں نے اس کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگا لیا اور پوچھا کہ یہی وہ جرسی ہے جو مقتولہ نے اس کو دی تھی۔ اس نے جواب دیا کہ یہی ہے پھر میں نے پوچھا کہ یہ بٹن کہاں اور کس طرح ٹوٹ کر گرا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ اس کو کچھ پتہ نہیں ۔ صبح اس کو خبر ملی کہ ٹھیکیدار کی بیگم مقتل ہو گئی ہے تو وہ بڑی تیزی میں کپڑے بدل کر اور یہی جرسی پہن کر دوڑ پڑا اور ٹھیکیدار کے گھر پہنچا۔ میں نے کہا کہ پرسوں یہ بٹن جرسی کے ساتھ تھا یا نہیں۔ اس نے جواب دیا کہ پرسوں بٹن جرسی کے ساتھ تھا اور یہ گزشتہ رات ہی ٹوٹا ہو گا۔ اگر یہ شخص مجرمانہ ذہنیت کا ہوتا تو یہ جرسی پہن کر تھانے نہ آتا یا تھانے آنے سے پہلے یہ جری اتار آتا لیکن اس کو اتنی بھی ہوش نہیں تھی کہ اس کا ایک بٹن ٹوٹ کر کہیں گر گیا ہے۔ میں نے اس سے ایسے ہی ایک بات پوچھی تو اس نے ہاتھ جوڑ کر منت کی کہ میں شروع سے اس کی بات سنوں اور وہ آخر تک پوری اور بالکل سچی بات سنائے گا۔
میں نے کہا کہ چلو ایسے کرلو۔ اس نے بات اپنے گھر کی مالی حالت سے شروع کی۔ یہ میں نے پہلے تحریر کر دی ہے یعنی وہ ایک ہندو آڑھتی کا منشی تھا پھر اس کا باپ آرے میں بازو کٹ جانے سے معذور ہو گیا۔ ٹھیکیدار نے اقبال کو اپنے ہاں رکھ لیا۔ اس کو ہندو آڑھتی سے جو تنخواہ ملتی تھی اس سے تین گناہ زیادہ تنخواہ ٹھیکیدار نے مقرر کر دی۔
اقبال شریف باپ کا دیانتدار بیٹا تھا اور اپنے گھر کی حالت اور ضروریات کو بھی سمجھتا تھا۔ اس نے اتنی محنت اور لگن سے کام کیا کہ ٹھیکیدار نے اس کو ایک رتبہ دے دیا اور حساب کتاب اس کے حوالے کر دیا۔ یہ باتیں تو پہلے میں نے تحریر کر دی ہیں۔ اس کے بعد ” ٹھیکیدار نے دوسری شادی کر لی۔ اقبال نے بتایا کہ اس کے دوست اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے کہ نئی بیگم کو خوش رکھنا وہ بہت انعام دے گی ۔ یہ سب جانتے تھے کہ یہ لڑکی اچھے چال چلن والی نہیں لیکن اقبال کے ساتھ اس نے کوئی ایسی ویسی بات نہ کی۔ اقبال کی فطرت میں ذراسی بھی بد معاشی نہیں تھی۔ ٹھیکیدارا قبال پر پوری طرح اعتماد کرتا تھا۔ اس نے اقبال کو ایک اور ڈیوٹی دے دی۔ پہلے تو اقبال ٹھیکیدار کے گھر کے انتظامات اور اخراجات چلاتا تھا اور اس سلسلے میں ٹھیکیدار کے گھر آتا جاتا ہی رہتا تھا۔ نئی بیوی آ گئی تو ٹھیکیدار نے اقبال کو کہا کہ وہ اس لڑکی سے بھی پوچھ لیا کرے کہ اس کو کچھ چاہئے تو وہ لاد نے گا۔ ٹھیکیدار نے دوسری بات یہ کہی کہ نئی بیوی پر نظر ر کھے اور اس کو پتہ لگے بغیر اس کی نگرانی کرتا رہا کرے کہ وہ گھر سے اگر باہر جاتی ہے تو کہاں جاتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ ٹھیکیدار کو بھی معلوم تھا کہ اس کی بیوی اچھے چال چلن والی نہیں۔
اقبال نے مقتولہ کے پاس جانا شروع کر دیا۔ مقتولہ سے وہ اس کی کوئی ضرورت یا اس کا کوئی کام ہوتو پوچھتا تھا اور وہ جو کچھ بھی کہتی اقبال کر دیتا تھا۔ قتل سے آٹھ نو مہینے پہلے مقتولہ نے اقبال کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بے تکلفی شروع کر دی۔ پہلے وہ کام کی بات پوچھتا اور کام کر دیتا تھا اور مقتولہ نے اس کو کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ بیٹھ جائے یا کچھ دیر کے واسطے رک جائے ۔ اب یعنی آٹھ نو مہینے پہلے مقتولہ نے اس کو اپنے پاس بٹھانا شروع کر دیا اور اس سے اس کی گھر یلو اور ذاتی باتیں پوچھنے اور ان میں دلچسپی ظاہر کرنے لگی۔ صاف پتہ لگتا تھا کہ مقتولہ اقبال کو دوست بنانا چاہتی ہے۔
نوکرانی نے جو بیان دیا تھا، میں نے حساب جوڑا تو پتہ لگا کہ یہ وہ دن تھے جب مقتولہ کے پہلے دوست نے اس سے ملنے اور اس کے حکم پر اس کے ہاں آنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب اس کو پہلے دوست جیسا ایک دوست چاہئے تھا۔ اقبال اس کے خاوند کا ملازم تھا، جوان بھی خوبرو بھی تھا۔ وہ ہر لحاظ سے مقتولہ کے پیمانوں پر پورا اترتا تھا۔
اس نے اقبال پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیے اقبال اس کو ٹالتا رہا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مقتولہ چاہتی کیا ہے۔ اقبال کو ایک خیال یہ آتا تھا کہ وہ مقتولہ کے خاوند کا ملازم ہے اور خاوند اس پر پورا اعتماد رکھتا ہے۔ اقبال اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانا گناہ سمجھتا تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ تھا ہی گناہ جس کی مقتولہ اس کو دعوت دیتی رہتی تھی ۔ اقبال نمازی تھا اور اس کا کردار بڑا ہی صاف اور ستھرا تھا۔
ایک روز اقبال روز مرہ کے کمرے میں مطابق ٹھیکیدار کے گھر گیا اور مقتولہ کے کمرے میں گیا۔ مقتولہ کی حالت تو ایسی تھی جیسے کوئی نشئی نشے سے ٹوٹا ہوا ہوتا ہے ۔ اس نے انتہائی بے ہودہ اور مخش حرکتیں کر کے اقبال کے حیوانی جذبات کو ابھارا۔ اقبال نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا تو مقتولہ نے دوسرا حربہ استعمال کیا۔ اس کو معلوم تھا کہ اقبال کس قدر حاجت مند ہے اور اس کا باپ معذور ہے اور اس کی وہ بہنیں شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہیں ۔ مقتولہ نے اقبال کو دھمکی دی کہ اس نے اس کی بات نہ مانی تو وہ ٹھیکیدار کو کہہ کر نوکری سے نکلوا دے گی اور الزام یہ لگائے گی کہ اقبال نے اس پر دست درازی کی ہے اور پہلے بھی کرتا رہا ہے اور مقتولہ برداشت سے کام لیتی رہی ہے۔
یہ ضرب اتنی کاری ثابت ہوئی کہ اقبال نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ویسے بھی یہ قدرتی بات ہے۔ اقبال کی عمر تیس چوبیس سال ہی تو تھی ۔ اقبال جب مجھے کو یہ بیان دے رہا تھا تو وہ ایک بار پھر رو پڑا اور کچھ دیر روتا ہی رہا اور اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ اس کا اب خوف دور ہو گیا تھا اس واسطے کہ وہ اپنے ضمیر سے اور اپنی روح سے بوجھ اتار کر پھینک رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس پہلے گناہ کے بعد وہ رات کو مسجد میں گیا، نفل پڑھے اور اس کے بعد اللہ کے حضور بہت رویا اور گناہوں کی معافی مانگی۔ وہ کچھ اطمینان اور سکون میں آگیا اور اس نے ارادہ کر لیا کہ آئندہ ایسا گناہ نہیں کرے گا لیکن وہ ایک چکر میں آگیا تھا۔ مقتولہ نے یہ گناہ ہر تیسرے چوتھے روز سرزد کرانا شروع کر دیا۔ اقبال تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آکر بُری طرح پس رہا تھا۔ ایک طرف وہ اللہ کے حضور تو بہ تابع کرتا اور بخشش مانگتا اور دوسری طرف وہ اس قدر مجبور اور بے بس تھا۔ کہ یہ نوکری چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ وہ جب معذوز باپ اور جوان بہنوں کو دیکھتا تو ان کے واسطے بڑی سے بڑی قربانی دینے پر تیار ہو جاتا تھا۔ مولوی لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اس شخص کو گناہ نہیں کرنا چاہئے تھا،
اس کی بجائے وہ بھو کا مر جاتا لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں ۔ بہتر وہی جانتا ہے جو کسی مصیبت میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ مقتولہ نے اب اقبال کی یہی کمزوری بھانپ لی تھی اور اس کو نوکری سے نکلوا دینے کی دھمکیاں دے کر ایک قسم کی بلیک میلنگ کر رہی تھی ۔ اقبال نے کہا کہ اس نے مقتولہ کے آگے ہاتھ جوڑے تھے اور کہا تھا کہ وہ اس کو معاف کر دے لیکن مقتولہ اتنی آزاد اور بے حیا عورت تھی کہ کوئی اور بات سمجھتی ہی نہیں تھی۔ وہ دھمکیوں اور بلیک میلنگ سے ہٹ کر اقبال کو پیسے بھی دیتی رہتی تھی۔ دو مرتبہ اس نے اقبال کو بڑے اچھے کپڑے سلوا کر دیے تھے اور تیسری بار عید پر اس نے اقبال کو اور ہی زیادہ قیمتی سوٹ یعنی شلوار میں دیا تھا۔ پھر ان سردیوں کے آغاز میں اس کو یہ قیمتی جرسی دی تھی۔ مقتولہ نے گزشتہ چار مہینوں سے یہ معمول شروع کر دیا تھا کہ دن کی بجائے اقبال کو ہفتے میں ایک اور کبھی دو دفعہ رات کے وقت بلاتی تھی ۔ جس رات بلانا ہوتا اس روز اس کو کہہ دیتی تھی کہ ساڑھے دس اور گیارہ کے درمیان آجائے اور اس کو بیٹھک کا دروازہ کھلا ملے گا۔ اقبال کبھی چوری چھپے آجاتا اور کبھی اپنے گھر یہ جھوٹ بولتا کہ آج کام زیادہ ہے اور ٹھیکیدار بھی جاگ رہا ہے۔
اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا اور اقبال کی شادی ہوگئی ۔ مقتولہ نے اقبال کی دلہن کو نہایت اچھا سوٹ دیا تھا اور سلامی بھی بے شمار دی تھی۔ اب اقبال اس گناہ کو اور ہی زیادہ گناہ سمجھنے لگا اس واسطے کہ اس کو بہت برا لگتا تھا کہ ۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ بے وفائی کر رہا ہے۔ اپنی بیوی کے ساتھ وہ کوئی دھوکہ فریب اور بد دیانتی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مقتولہ کو ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اب وہ اس کو معاف کر دے اس واسطے کہ اس نے شادی کر لی ہے اور اس کی بیوی اس کو چاہتی ہے اور اس پر بھروسہ بھی کرتی ہے لیکن مقتولہ نے اپنا رویہ اور زیادہ سخت کر لیا۔
قتل کی رات سے تقریباً پندرہ روز پہلے کا واقعہ اقبال نے اس طرح بتایا کہ وہ پکا ارادہ کر کے مقتولہ کے پاس گیا اور اس کو کہا کہ اب وہ اس گناہ سے تو بہ کرتا ہے اور اگر وہ اس کو نکلوانا چاہتی ہے تو نکلوادے اور وہ فوج میں بھرتی ہو جائے گا۔ اقبال نے بتایا کہ اس نے بات کہہ تو دی لیکن وہ ٹھیکیدار کی اتنی اچھی اور اتنی زیادہ تنخواہ والی نوکری چھوڑ نا نہیں چاہتا اور چھوڑ سکتا ہی نہیں تھا۔ مقتولہ نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور کہا کہ وہ اس کو بھرتی ہونے کے قابل چھوڑے گی ہی نہیں ، اس کو گرفتار کروادے گی ۔ اقبال کو معلوم تھا کہ ٹھیکیدار بڑے شہر میں بڑے افسروں کے ساتھ ملتا جلتا ہے اور وہ اس کا بیڑہ غرق کر سکتا ہے ۔
اسی روز کا ذکر ہے کہ مقتولہ نے ہنسی مذاق میں اقبال کی انگلی سے اس کی شادی کی انگوٹھی اتاری اور اپنے پاس رکھ لی۔ مقتولہ نے کہا کہ اس کو اس انگوٹھی کی کوئی ضرورت نہیں ، اس کے پاس اتنے زیادہ زیوارات ہیں کہ وہ اس کو ایسی دس انگوٹھیاں دے سکتی ہے
لیکن اس انگوٹھی کو وہ نشانی کے طور پر رکھے گی ۔ اقبال نے جب ضد کی تو مقتولہ نے اس کو دوسری انگوٹھی دے کر کہا کہ اس کی بجائے یہ انگلی میں ڈال لو۔ یہ انگوٹھی زیادہ وزنی ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمتی تھی لیکن اقبال نے قبول نہ کی ۔ اقبال کے واسطے یہ ایک نئی مصیبت پیدا ہوگئی۔ وہ گھر جاتا تو انگوٹھی والی انگلی بیوی سے چھپا کر رکھتا۔ بیوی خالی انگلی دیکھ کر ضرور پوچھتی کہ انگوٹھی کہاں ہے۔ ادھر ہر روز مقتولہ کی منتیں کرتا کہ انگوٹھی اس کو دے دے لیکن وہ نہیں دیتی تھی۔
قتل سے تین دن پہلے اقبال کی بیوی نے خالی انگی دیکھ کر پوچھ ہی لیا کہ انگوٹھی کہاں ہے۔ اقبال نے یہ جھوٹ بولا کہ دفتر میں ویسے ہی اتاری تھی اور دراز میں رہ گئی ہے۔ بیوی نے کہا کہ ایسی بے احتیاطی نہ کیا کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ انگوٹھی گم ہی ہو جائے ، کل ضرور لے آئے ۔
اگلے روز دن کے وقت اقبال روزمرہ معمول کے مطابق مقتولہ کے کمرے میں گیا اور ہاتھ جوڑ کر اس سے انگوٹھی مانگی لیکن مقتولہ بدکردارلر کی تھی جس میں جذبات کا نام و نشان نہ تھا، اس نے انگوٹھی نہ دی اور یہ تو اس نے قبول ہی نہ کیا کہ اقبال اپنی بیوی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا۔
اس روز اقبال نے اپنے دل و دماغ میں زبر دست طوفان اٹھتا محسوس کیا۔ عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی اور اس کے بعد جب سارے نمازی مسجد سے نکل گئے تو اس نے نفل پڑھنے شروع کیے اور اس کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ کتنے پڑھ چکا ہے اور کتنے اور پڑھے گا۔ نفل پڑھنے کے دوران اس کے آنسو بہتے رہے۔ دعا میں اس نے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگی اور بخشش بھی مانگی۔
اقبال نے قسمیں کھا کہ یہ بات سنائی کہ اس رات ایک سفید ریش بزرگ خواب میں آئے اور انہوں نے اتنا ہی کہا کہ ایسے گناہ گار کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دو، تمہاری نجات اس میں ہے۔ اس کے بعد بزرگ غائب ہو گئے اور اقبال کی آنکھ کھل گئی۔ اس روز تو اس کی جذباتی حالت اس قدر بُری تھی کہ وہ پاگل ہو جاتا تو کوئی بعید نہیں تھا۔
اس نے کہا کہ اس بزرگ کی بات اس کے دل پر ایسی نقش ہوئی کہ اس نے مقتولہ کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اتفاق سے اگلے روز مقتولہ نے اس کو کہا کہ رات اسی وقت آجانا ، بیٹھک کا دروازہ کو رات ای کھلا ملے گا۔ اقبال چلا گیا۔ جاتے ہی اس نے انگوٹھی کا مطالبہ کیا لیکن مقتولہ نے ہنسی مذاق میں یہ بات ٹال دی اور اقبال کو اپنے مقصد کی طرف لے گئی۔ وہ اتنی استادلڑ کی تھی کہ اقبال کو ہر حالت میں رام کرنے کا گر جانتی تھی ۔
اقبال نے اس کا یہ نشہ پورا کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اس کا دماغ پھر گیا اور اس پر وہ پاگل پن طاری ہو گیا جس میں انسان اپنی یا کسی کی جان لے لیا کرتا ہے۔ مقتولہ ابھی پلنگ پر چت لیٹی ہوئی تھی کہ اقبال نے اس کی گردن اپنے ” دونوں ہاتھوں میں لے لی اور دانت پیس کر پورا زور لگا یا جس سے اس کی گرفت لوہے کے جیسی ہوگئی اور مقتولہ جینے کے حق سے محروم ہو گئی۔
اقبال تیزی سے پلنگ سے اتر اور سنگار میز کی درازیں کھولیں اور ڈبے کھول کر اور درازوں کی تلاشی لے کر اپنے انگوٹھی ڈھونڈ لی اور جیب میں ڈال کر وہاں سے نکل گیا۔ وہ بہت ہی جلدی میں تھا اس واسطے زیورات اور دیگر اشیاء کو بکھرارہنے دیا۔ اس کو معلوم نہیں تھا کہ وہ انگلیوں کے نشانات کی صورت میں اپنی نشانی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اس کو یہ بھی معلوم نہیں
تھا کہ قتل کر دینا کوئی مشکل نہیں ، اصل کام قتل کو ہضم کرنا ہے جو شاید کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ جرسی کے بٹن کی بابت اس نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ اس کو بٹن ٹوٹنے کا کچھ پتہ نہیں لگا۔ اتنا یاد تھا کہ اس نے مقتولہ کا گلا دبایا تو مقتولہ نے تڑپتے ہوئے اس کی جرسی دونوں مٹھیوں میں بٹنوں والی جگہ سے پکڑی تھی پھر اس کے دونوں ہاتھ دائیں اور بائیں ہو گئے تھے۔ شاید اس وقت بٹن جرسی سے ٹوٹ کر پلنگ پر گر پڑا ہو گا ۔ کاغذ کی پر چی بھی اسی وقت جیب سے گری ہوگی۔اس طرح اقبال نے مقتولہ کو قتل کیا اور میرے آگے اقبال جرم بھی کر دیا۔
اس کے بعد اس نے مجھ کو کہا کہ میں اگر اپکا مسلمان ہوں تو اس کی مدد کروں ۔ اقبال نے جس دکھے ہوئے اندازہ میں مجھ کو یہ بات سنائی تھی اس کا میرے دل پر بہت بُرا اثر ہوا۔ مجھ کو معلوم تھا اور آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ امیر کبیر لوگوں کے گھروں کی عورتیں غریب نوکروں کو جس طرح چاہتی ہیں استعمال کر لیتی ہیں اور بجھتی ہیں کہ دنیا کا قانون ہی نہیں بلکہ خدائی بھی ان کے ہاتھ آگئی ہے۔
میں نے دل میں عہد کر لیا کہ اقبال کو سزا نہیں ہونے دوں گا لیکن اس کے واسطے کوئی استادی کھیلنی پڑتی تھی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ میں اس کو بے گناہ قرار دے دیتا اور یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ میں مقدمہ اتناڈ ھیلا بنا تا جو کورٹ میں جاتے ہی ناکام ہو جاتا۔ اس طرح میری نالائقی ثابت ہوتی تھی۔ بہر حال میں نے ایک راستہ سوچ لیا اور اقبال کو بتا دیا کہ سیشن کورٹ سے اس کو عمر قید یا سزائے موت مل جائے گی لیکن اپیل میں وہ بری ہو جائے گا۔
میں ان تفصیلات میں اور ان باریکیوں میں نہیں جانا چاہتا اور ضروری بھی نہیں سمجھتا کہ میں نے کون سی گنجائش رکھ دی تھی اور کسی طرح رکھی تھی ۔ پولیس آفیسر اس استادی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ میں نے خود اقبال کو کہا تھا کہ وہ سیشن کورٹ میں جا کر اقبالی بیان سے منحرف ہو جائے اور یہ بیان دے کہ اس کو تھانے میں مار پیٹ کر یہ بیان لیا گیا تھا۔
مقدمہ جب سیشن کوٹ میں گیا تو اقبال نے میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بیان وہی دیا جو میں نے اس کو بتایا تھا یعنی وہ اپنے اقبالی بیان سے منحرف ہو گیا۔ میں نے مقدمہ ٹھیک ٹھاک تیار کیا تھا صرف ایک آدھ خانہ خالی رکھا تھا اور آخر سیشن جج نے اقبال کو عمر قیدسنادی۔
اس سزا کے خلاف اقبال کے وکیل نے اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی میں نے سیشن کورٹ کے فیصلے کے روز اقبال کو الگ کر کے کہہ دیا تھا کہ اس سزا سے وہ گھبرائے نہیں اور اپنے وکیل سے کہے کہ مجھ کو الگ تھلگ ضرور ملے ۔ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر کے وکیل مجھ سے ملا تھا اور میں نے اس کو دو پوائنٹ بتائے تھے ۔ وکیل نے ہائی کورٹ میں وہی دو پوائنٹ پکڑے اور ایک آدھ خود پیدا کر لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہائی کورٹ نے شک کا فائدہ دے کر اقبال کر بری کر دیا۔
میں اللہ کے حضور سرخرو ہو گیا۔ اقبال بڑی لمبی سزا سے تو بچ گیا لیکن اس کے ماں باپ اور بہنوں نے بہت بُرا وقت دیکھا۔ بہنوں کے لیے جو تھوڑا سا زیور بنا تھاوہ بک گیا اور مقدمے میں لگ گی کی آمدنی اتنا عرصہ بند رہی۔ اقبال کا باپ بائیں ہاتھ سے جو محنت مزدوری کر سکتا تھا۔ برہا اور اس کی ماں اور بہنیں لوگوں کے کپڑے سی کر بھی اور میلے کپڑے گھر لا کر دھو کر بھی کچھ پیسہ کماتی رہیں، لیکن اللہ نے ان کی مدد کی۔ وہ اس طرح کہ سیشن کورٹ نے ابھی فیصلہ نہیں سنایا تھا کہ ٹھیکیدار بس پر بڑے شہر کو جارہا تھا کہ یہ بس ایک ٹرک سے ایسی زور سے ٹکرائی کہ بارہ چودہ مسافر مارے گئے اور ان میں ٹھیکیدار بھی تھا۔
چونکہ اس کے دونوں بڑے بیٹے اس کے ساتھ کام کرتے تھے اس واسطے انہوں نے ٹھیکیداری کو سنبھال لیا۔ اقبال جب بری ہو کر باہر آیا تو وہ مجھ سے ملا، میرا شکریہ ادا کیا اور اپنے گھر کی ۔ حالت بتائی ۔ وہ مجھ کو کہتا تھا کہ میں اس کے روز گار کا کوئی بندو بست کر دوں ۔ ایک روز ٹھیکیدار کے بڑے بیٹے سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے یہ کیس چھیڑ دیا اور اس کو وہ سارا بیان سنایا جو اقبال نے مجھ کو دیا تھا اور اس میں اقبال کی مذہب پرستی کا ذکر زیادہ کیا ۔ ٹھیکیدار کا بڑا بیٹا تو تھا ہی اسلام پسند اور پکا مومن ۔ اقبال کے کردار کا یہ پہلو اس کے دل میں اتر گیا۔ مقتولہ کے خلاف تو اس کے دل میں زہریلی نفرت بھری ہوئی تھی۔ اس نے مقتولہ کے قتل کو بالکل جائز سمجھا اور اس نے کہا کہ اس کو اپنے باپ کی موت کا بھی کوئی خاص افسوس نہیں اس واسطے کہ وہ ایک بد چلن لڑکی کو گھر لے آیا تھا۔
میں نے اس کو کہا کہ وہ اگر اچھا سمجھے تو اقبال کو اپنے ساتھ لگا ہے، یہ ایک نیکی ہو گی ۔ اس شخص نے کوئی دلیل نہ دی بلکہ یہ کہا کہ وہ آج ہی اقبال کو بلا لے گا اور اس کو روزگار پر لگا دے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اقبال کا روزگار پہلے کی طرح لگ گیا۔ میرے دماغ میں دراصل وہ بزرگ آگئے تھے جو اقبال کو خواب میں ملے تھے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ وہ محض ایک خواب ہی نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی اور وہ حقیقی اشارہ تھا جو اقبال کو ملا تھا۔
(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ