مطلب پرست ماں

Urdu Font stories 12
 
مجھے اپنے باپ کے بارے میں تو پتہ نہیں جانے کون تھے؟ کب ہم سے بچھڑے؟ لیکن ماں کا چہرہ یاد ہے۔ میں بہت چھوٹا سا تھا جب وہ مجھے لاہور کے ایک یتیم خانے میں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ ہوش سنبھالا تو پتہ چلا کہ میری ماں مجھے یہ کہہ کر چھوڑ گئی ہے کہ اس بچے کا باپ فوت ہو چکا ہے اور میں اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ آپ لوگ اس کو یہاں داخل کر لیں۔ یہ پڑھ لکھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے گا تو میرا اور اپنا بوجھ اٹھا لے گا۔ میں نے پورے 11 سال وہاں گزارے۔ دسویں تک تعلیم حاصل کی مگر ماں ایک بار بھی مجھ سے ملنے نہ آئی۔ میں ہر روز ان کی راہ دیکھتا۔ رات کو سوتا تو خواب میں دیکھتا کہ ایک شفیق اور محبت بھرا چہرہ مجھ پر جھکا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میرے بچے مجھے آنے میں دیر ہو گئی تو کیا تیرے لیے کھلونے اور مٹھائی لینے چلی گئی تھی۔ بہت سارے دن انتظار کی نظر ہو گئے ماں نہ آئی۔

گیٹ کی طرف دیکھتے دیکھتے ماہ و سال سلاخیں بن کر میرے وجود میں اترتے رہے۔ یہاں تک کہ میں نے میٹرک کر لیا ۔ اب یتیم خانے کے مہتمم نے فیصلہ کیا کہ ان لڑکوں کو جو میٹرک کر چکے ہیں خود کفیل ہونے کے لیے باہر کی دنیا میں نکلنا چاہیے۔ تاکہ یہاں اور یتیم بچوں کے لیے جگہ خالی ہو جائے۔ میرے ساتھ کہ کچھ یتیم لڑکوں کے دور پرے کے رشتہ دار موجود تھے ان سے رابطہ کیا گیا۔

جن کے رشتہ دار ملے ان کو ان رشتہ داروں کو سونپ دیا گیا۔ لیکن میرا تو اس بھری دنیا میں کوئی نہ تھا۔ میرے ساتھ 13 لڑکے تھے جن کو یتیم خانہ چھوڑ کر جانا تھا۔ 12 لڑکوں کے رشتہ دار مل گئے۔ لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ مہتمم میرے لیے سوچ میں تھے کہ میرے ساتھی یتیم لڑکے عارف نے ان سے کہا کہ میرے والد کے کزن مجھے لینے آ رہے ہیں۔ ان سے بات کریں شاید وہ جمال کو بھی میرے ساتھ قبول کر لیں۔ ہم کمائیں گے تو ان کو بھی اپنی کمائی دیا کریں گے۔ یتیم خانے میں تو زندگی ایک ڈگر پر چل رہی تھی اور کچھ نہیں تو اپنے جیسے محروم محبت لوگوں کے درمیان رہ کر محرومی کٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ مگر باہر کی دنیا کے بے مہر باسیوں کے سیلاب بلا میں تنکے کی طرح بہنا بھی عذاب ہوا۔ کسی دور کے رشتہ دار کا بھی اتا پتا معلوم نہ تھا کہ جس کے پاس چند دن کے لیے ہی سر چھپانے کا آسرہ ہوتا۔
 
 رات کو خوب ہی پھوٹ پھوٹ کر روتا تھا۔ اگلے دن عارف کا رشتہ دار اسے لینے آگیا۔ مہتمم نے اس شخص سے میرا تذکرہ کیا۔ اس کے دل میں رحم آیا اور عارف کے ساتھ مجھے بھی لے جانے پر رضامند ہو گیا۔ کہا کہ اس کی نوکری کا میں انتظام کر دوں گا۔ چار پیسے کمائے گا تو اپنی نئی زندگی شروع کر سکے گا۔ میں عارف کے ہمراہ اس کے چچا کے گھر آگی۔ا وہ کوئی امیر آدمی نہ تھا وہاں صورتحال یہ تھی کہ ان کے پاس دو چارپائیاں تھیں۔ وہ دونوں چارپائیوں پر سو جاتے اور میں زمین پر بچھونا کر لیتا۔ دو ماہ میں نے اسی طرح گزارے اور وہ ہستی جن کو لوگ دھرتی کی سب سے افضل مخلوق کہتے ہیں۔ جس کی ممتا کی داستانیں مشہور ہیں۔ مجھے وہاں شدت سے یاد آتی۔
 
 اب میرے صبر کی حد ختم ہو گئی تھی۔ میں خوب دل میں برا بھلا کہتا جو مجھے یوں بے آسرہ چھوڑ کر چلی گئیں اور پھر پلٹ کر کبھی خبر نہ لی۔ عارف کے چچا نے مجھے ایک کتب فروش کی دکان پر قلیل تنخواہ پر رکھوا دیا اور کہا بیٹے شروع میں تھوڑی تنخواہ کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ بعد میں جب کام سیکھ لیتے ہیں تو اجرت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ فی الحال ان پیسوں میں تم اپنی دو وقت کی روٹی کا خرچہ تو نکال ہی لو گے اور کسی پر بوجھ نہ بنو گے رہنے کو تو تم یہاں میرے پاس عارف کے ساتھ رہ سکتے ہو۔

کتب فروش کے پاس کام کرتے چھ ماہ گزرے تھے کہ وہاں ایک عبدالسلام نامی شخص سے ملاقات ہو گئی۔ عبدالسلام صاحب وہاں کتب خریدنے آتے تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ تم کوئی ٹیکنیکل کام سیکھ لو۔ اس طرح تمہاری آمدنی بہتر ہو جائے گی ہنر مند بھی ہو جاؤ گے۔ یوں اگر کسی روز دکاندار نے تم کو نکال دیا تو بیکار ہو جاؤ گے۔ پھر کہاں جاؤ گے؟ مجھے ان کی باتیں اچھی لگی تہیہ کر لیا کہ ضرور کوئی ہنر سیکھوں گا تاکہ معاشرے میں کچھ مقام بنا سکوں۔ انہی کی مہربانی سے میں ایک ورکشاپ میں موٹر مکینک کا کام سیکھنے لگا۔ رہائش اور کھانا مالک کی ذمے تھا اور وہ 20 روپیہ روزانہ جیب خرچ بھی دیتے تھے اس زمانے میں 20 روپے بھی 200 کے برابر تھے۔ میں نے خوب جی لگا کر کام کیا۔ ورکشاپ کے ایک استاد جی بہت اچھے آدمی تھے۔ میری محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بہت ہمت افزائی کی اور ایک سال کے بعد ورکشاپ کا سارا بندوبست مجھے سونپ دیا۔ تنخواہ بھی ڈیڑھ سو روپے ماہانہ مقرر کر دی۔ ان دنوں سونا سو روپے تولہ ملتا تھا میں نے اس ورکشاپ پر دو سال کام کیا۔ اس کے بعد استاد جی کا انتقال ہو گیا تو ان کے رشتہ داروں نے مجھے وہاں سے نکال دیا ان کو ڈر تھا کہ کہیں میں ورکشاپ کا مالک نہ بن جاؤں۔ حالانکہ میں سچے دل سے استاد جی کی بیوی اور ان کے بچوں کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔

ورک شاپ پر ایک سلمان نامی صاحب اپنی موٹر ٹھیک کرانے آیا کرتے تھے مجھے رنجیدہ پا کر اپنے ساتھ چلنے کی پیشکش کی۔ میرا کیا آسرہ تھا ان کے ساتھ ہو لیا انہوں نے میری نوکری لگوا دی اور میں ان کے گھر پر رہنے لگا۔ جب تنخواہ ملتی اپنے لیے صرف 50 روپے رکھ لیتا باقی رقم ان کی والدہ کے ہاتھ پر رکھ دیتا وہ خوش ہوتی اور میرے دل کو فرحت اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ زندگی میں پہلی بار مجھے یہاں گھر جیسا ماحول ملا تھا ایک روز میرے حالات میرے فور مین کو معلوم ہوئے انہوں نے مشورہ دیا کہ تم 100 روپے اپنے لیے بینک میں جمع کروا دیا کرو زمانے کی اونچ نیچ بھی سمجھائی۔ اب جب تنخواہ ملی میں نے سلمان کی والدہ کو 100 روپے کم دیے جس پر ان کو برا محسوس ہوا جن کو امی جان کہتا تھا اس خاتون نے 100 روپے کی خاطر مجھ سے رویہ بدل لیا۔ دکھ ہوا۔ سوچا کہ 100 روپے کی خاطر پیار بھرے رشتے میں دراڑ پڑ رہی ہے۔ سلیمان بھی جو پہلے میرے بغیر کھانا نہ کھاتے تھے اب ایسے ہو گئے جیسے بیگانے ہوتے ہیں جبکہ میں تو پیار کا بھوکا تھ۔ا ساڑھے چار سو میں سے صرف ڈیڑھ سو اپنے پاس رکھتا باقی رقم انہی کو دیتا لیکن ان کی امی نے کہا کہ اس رقم میں تو یہاں کیوں کر رہ سکتے ہو۔ تمہاری دی ہوئی رقم سے تو تمہارا کھانا ہی پورا ہوتا ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ روپیہ محبت کے پودوں کو بھی درانتی بن کر کاٹ دیتا ہے۔
 سلمان جو مجھے سگا بھائی کہتا تھا اور اس کی ماں بیٹا بیٹا کہتے نہ تھکتی تھی انہوں نے بے رخی اختیار کر لی۔ حالانکہ میں نے سوچا تھا کہ جو 100 روپیہ ماہانہ بینک میں جمع کر رہا ہوں یہ رقم میں اپنی ماں جی کو ان کی بیٹی کی شادی کے لیے دے دوں گ۔ا ان کا رویہ دیکھ کر لگا کہ میں ان پر بوجھ ہوں۔ میں نے سلمان بھائی سے رخصت چاہی تو اس نے مجھے اپنے گھر کے باہر لا کر چھوڑ دیا۔ اس روز آنسو پہنچتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کیا واقعی کوئی رشتہ سچا نہیں ؟ کسی کا کسی سے کوئی ناطہ نہیں؟ صرف ناطہ ہے تو پیسے کا ہے۔ پیسہ ہے تو رشتے بھی ہیں ورنہ صرف طبقے ہیں۔

میں عبدالسلام صاحب کے پاس آگیا انہوں نے مجھے کرائے پر ایک دو کمروں کا چھوٹا سا مکان لے دیا اس گھر کے پاس ایک صاحب رہتے تھے جن کا نام دین محمد تھا وہ اچھے انسان تھے میرے دوست بن گئے پریشان دیکھا تو بہت پیار سے دلاسا دیتے وہ انسان جس کو ساری زندگی پیار نہ ملا ہو تھوڑی سی ہمدردی ملنے سے بہک جاتا ہے۔ یہ صاحب ایک روز کہنے لگے کہ تم ڈیوٹی پر جاتے ہو تھک جاتے ہو تمہاری بھابھی تمہارا کھانا پکا دیا کرے گی۔ یوں کھانے کے عوض اپنی آدھی تنخواہ میں ان کو دینے لگا۔ اگرچہ وہ یہ رقم مجھ سے نہ لینا چاہتے تھے۔ مگر میں مصر رہا تو مان گئے۔ سال بھر یہ سلسلہ چلا انہوں نے دیکھ پرکھ لیا کہ یہ اچھا لڑکا ہے۔ دین کی تعلیم بھی یتیم خانے سے پائی تھی سیدھی راہ کو اپنا ایمان جانتا تھا انہوں نے اپنی بہن کا رشتہ مجھ سے کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ کہا اس طرح تمہارا گھر بس جائے گا تمہاری اپنی ایک فیملی بنے گی۔ کنبہ بنے گا۔ تم دنیا میں اکیلے نہ رہو گے صرف تمہاری شرافت کی وجہ سے یہ رشتہ دینے کا ارادہ کیا ہے۔

میں نے حامی بھر لی اور وہ شادی کی تیاریوں میں لگ گئے۔ ایک روز نماز پڑھ کر دعا کی کہ اے کاش ایک بار ماں مل جاتی۔ یہ دعا کرتے ہوئے میری انکھوں سے آنسو رواں ہو گئے نماز ختم کی تو خیال آیا یتیم خانے کے مہتمم سے مل آؤں۔ چھٹی کا دن ہے وہ شفیق آدمی تھے انہوں نے تعلیم بھی دلائی تو میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوا۔ ظاہر ہے ایک یتیم بچے کے لیے یہ بھی بہت بڑی بات تھی۔ مہتمم صاحب اس دفتر میں پرانی فائلیں ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ مجھے دیکھا تو کہا آؤ بیٹا آؤ تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے۔
 ایک خاتون آئی تھی۔ تمہارے لیے یہ پرچہ چھوڑ گئی ہے۔ میں نے لفافہ کھولا پرچی پر ایک فون نمبر درج تھا اور نیچے لکھا تھا تمہاری امی۔ سمجھ نہ آیا کہ میں خوشی سے ہنس دوں یا جی بھر کر روؤں۔ میں نے ماں کو اس فون نمبر پر فون کیا انہوں نے مجھے اپنی ایک سہیلی کے گھر کا پتہ بتایا کہ یہاں آ جاؤ مجھ سے ملاقات ہو جائے گی۔ میں دل میں جذبات کا طوفان بھرے وہاں پہنچا۔ خاتون پہلے سے موجود تھیں۔ بولیں جمال میں تمہاری ماں ہوں یہ کہہ کر گلے لگایا۔ میں نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا: ماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ اتنے چھوٹے سے بچے کو یتیم خانے میں ڈالا تو پھر پلٹ کر خبر بھی نہ لی؟ کیوں ماں؟ میری آواز جذبات سے لرز رہی تھی میری حالت اس بچے کی جیسی تھی جو بھرے میلے میں اپنی ماں سے بچھڑ جاتا ہے پھر ملنے کی کوئی آس نہیں ہوتی۔ وہ ہجوم میں تنہا روتا ہوا ماں کو تلاش کرتا پھرتا ہے اور پھر اچانک وہ اس کو نظر آ جاتی ہے تو دوڑ کر اس سے لپٹ جاتا ہے۔ ماں اس کو باہوں میں سمیٹ کر پیار کرتی ہے وہ اس قدر خوش ہوتا ہے اس قدر خوش ہوتا ہے کہ مر ہی جاتا ہے۔

میں ماں کے قدم چوم رہا تھا۔ ہاتھ آنکھوں سے لگا رہا تھا اور میری آنکھیں برس رہی تھیں میں آدھا مر چکا تھا۔ مگر اس آس پر جی رہا تھا کہ شاید وہ جنم دینے والی ہستی پھر سے کبھی مجھے مل جائے اور میں جان کنی کی کیفیت سے نکل کر پھر سے ثابت سالم ہو جاؤں۔ مگر ماں ملی بھی تو مجھے آدھے جیتے کو پورا مار دینے کے لیے۔ کہنے لگی: اب تم میرا غم بھول جاؤ۔  تم اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو اور میرا بھی گھر بس رہا ہے۔ میں اس آشیانہ کو اس موڑ پر اجاڑنا نہیں چاہتی کیونکہ میرے اس آشیانے میں میرے اور بھی بچے پرورش پا رہے ہیں۔ اگر تم ظاہر ہو گئے اور میرے شوہر کو علم ہو گیا کہ میں پہلے سے شادی اور ایک بچے کی ماں تھی تو میری دنیا اجڑنے میں ادھ گھنٹے کا وقت بھی نہ لگے گا۔ وہ اس وقت بچے چھین کر مجھ کو گھر سے نکال دے گا۔ اب اس راز کو ظاہر کر کے میں اپنے دوسرے بچوں کی جدائی کا درد مول نہیں لے سکتی۔ میں بہت مجبور ہوں بیٹا۔
 
 میرا دل جو ماں کی یاد میں ہما وقت پگھلتا رہتا تھا۔ یک لفظ جل کر خاکستر ہو گیا اور اس کی جگہ ایک پتھر کے ٹکڑے نے لے لی۔ وہ دھڑکتے دوھڑکتے جامد ہو گیا میں نے کہا: ٹھیک ہے ماں میں اب کبھی تمہاری خوشیوں کے راستے میں نہیں آؤں گا یہ کہہ کر بغیر مڑ کے دیکھے وہاں سے نکل آیا۔
اس کے بعد جو دل کی حالت ہوئی۔ آگر میرے دوست دین صاحب نہ سنبھالتے تو شاید میں اگلی سانس بھی نہ لے سکتا۔ انہوں نے مجھے سنبھالا اور ان کی بہن سے میری شادی ہو گئی۔ میری بیوی کے والد نے ترکے میں کافی جائیداد چھوڑی تھی۔ جس میں یہ دو بہن بھائی ہی حصہ دار تھے۔ وراثت کا حق بھائی نے بہن کو دیا اور یوں میرے مالی حالات کو بھی جیون ساتھی کے ساتھ استحکام ملا۔ اللہ نے اس کے بعد میرے دن پھیر دیے اور ترقی کرتے کرتے خوشحالی سے ہمکنار ہوتا رہا۔