دو سال بعد مایا نے ایک بیٹی کو جنم دیا وہ بھی بے حد خوبصورت تھی۔ اس کا نام صبوح رکھا گیا۔ مایا کا دل بچی کی وجہ سے خوش رہنے لگا۔ ایک روز وہ اپنی بچی کے ساتھ صحن میں کھیل رہی تھی کہ سامنے والے گھر میں نہ جانے کب سے کوئی لڑکا کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ مایا اپنی سال بھر کی بیٹی کے ساتھ کھیل میں ایسی مگن تھی اسے پتہ نہ تھا کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ اتنے میں اس کی ساس آگئی اس نے جو لڑکے کو ادھر تکتے پایا تو سیخ پا ہو گئی۔ پھر اس نے اس بات کو اتنا اچھالا کہ گلی میں پڑے تنکوں تک کو خبر ہو گئی۔ بیٹے کے بھی خوب کان بھرے یہاں تک کہ اس نے بدگمان ہو کر بیوی کو طلاق دے دی۔
مایا روتی ہوئی میکے آگئی ماں نے دل پر پتھر رکھ کر بیٹی کو پناہ دی مگر وہ مایا کے آنے پر خوش نہ تھی۔ بیٹی کو خوب سنائیں کہ تم نے ضرور کچھ غلط کیا ہوگا کہ بسا بسایا گھر اجڑ گیا۔ مایا کی بیوہ ماں کا معاشی سہارا اس کا بڑا بیٹا تھا جو انہی دنوں برسر روزگار ہوا تھا ایک چھوٹا بیٹا تھا جو ابھی زیر تعلیم تھا وہ خوفزدہ تھی کہ اب مایا اور اس کی بیٹی کا خرچہ کیوں کر پورا ہوگا۔ مایا کو ماں کی پریشانی کا احساس ہوا تو اس نے تک و دو شروع کر دی بالاخر ایک پرائیویٹ سکول میں نوکری مل گئی جب اس کی بیٹی سکول جانے لائق ہو گئی تو اسے بھی اسی سکول میں داخل کروا دیا۔ مایا کی امی نے اس کے سسرال سے رابطے کی بہت کوشش کی تاکہ بیٹی کا گھر پھر سے بس جائے لیکن ناکامی ہوئی۔ مایا کی بیٹی اب بڑی ہو رہی تھی وہ اپنی ماں کے ساتھ سکول جاتی اور پھر ماں کے ساتھ ہی گھرآ جاتی تھی۔ وہ بہت ذہین اور پیاری بچی تھی بچپن سے خاموش طبع تھی۔ اسے ماں سے بہت محبت تھی۔ ماں بھی اپنی بیٹی کا بہت خیال کرتی تھی۔ نانی دل سے نواسی کو چاہتی تھی مگر ظاہر نہ کرتی تھی دراصل وہ اس چکر میں لگی رہتی کہ کسی طرح دوبارہ بیٹی کا گھر بس جائے۔ ایک روز مایا کی بیٹی کی طبیعت اچانک بگڑ گئی سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی ہاتھوں اور ہونٹوں کی رنگت نیلی پڑ گئی تھی جلدی سے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس نے دیکھتے ہی بتایا کہ اس کے دل میں پیدائشی سوراخ ہے بچی کی حرکات و سکنات نارمل بچوں سے مختلف تھی۔ وہ شرارتی نہ تھی خاموش خاموش رہنے والی بچی ہر وقت اپنی ماں کے ساتھ لگی رہتی تھی۔ ادھر اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی وہ ہر ہفتے اپنی بیٹی کو لینے آتا تھا ۔ تو وہ اپنے باپ کے ساتھ ایک دن کے لیے گھر چلی جاتی تھی۔
ایسے بچے جن کے ماں باپ کا گھر ٹوٹ چکا ہو ان کا دل بہت زیادہ حساس ہوتا ہے ذرا سی تیز ہوا ان کے ذہن کے دریچوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ وہ لڑکی بھی اپنی ماں کی طرح حساس تھی دل میں پیدائشی سوراخ ہونے کی وجہ سے وہ عام بچوں کی طرح نہیں تھی۔ اس کے چھوٹے سے ننھے ذہن میں پتہ نہیں کیا کیا خیالات اتے ہوں گے؟ شاید سوچتی ہو کہ آخر میرے امی ابو الگ الگ کیوں رہتے ہیں؟ وہ دوسری عورت کے ساتھ کیوں رہتے ہیں؟ اس طرح کے ہزار سوالات اس کے ذہن میں تھے وہ ماں کی گود میں سر رکھ کر خاموش لیٹی رہتی۔ وہ کوئی فرمائش اور ضد نہ کرتی تھی۔ پڑھائی میں وہ 100 فیصد نمبر لاتی تھی۔ اس کی تحریر ایسی تھی جیسے موتی پروئے ہوئے ہوں۔ اتنی سی عمر میں اتنی خوش خط تحریر اور اس قدر سوبر بچی شاید ہی کبھی کسی نے دیکھی ہوگی۔
مایا کی والدہ بار بار اس کو دوسری شادی پر اکساتی مگر وہ منع کرتی وہ نکاح ثانی نہ کرنا چاہتی تھی ۔صرف اپنی بیٹی کے لیے زندہ رہنا چاہتی تھی۔ اس کی بہترین پرورش میں عمر گزار دینا چاہتی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ اس کی بیٹی کے دل میں سوراخ کا تھا جس کے علاج معالجے پر کافی رقم درکار ہوتی تھی۔ مایا کی والدہ ہر وقت لڑتی رہتی کہ ہم کہاں سے تمہاری بچی کا علاج کرائیں تم دوسری شادی کر لو مایا کا بھائی اس کی بیٹی سے بہت محبت کرتا تھا۔ لیکن اس کی بیماری کی طرف سے فکر مند رہتا تھا وہ بھی چاہتا تھا کہ مایا شادی کر لے۔ بھاگ دوڑ کر ماں نے بیٹی کے لیے ایک رشتہ تلاش کر ہی لیا لیکن انہوں نے مایا کی بیٹی کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا۔ مایا کا نکاح خاور سے ہو گیا وہ اسے دلہن بنا کر اپنے گھر لے گیا اور یہ سب کچھ مایا کی بیٹی افسردہ نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی۔ وہ بہت اداس نظر آرہی تھی۔ ماں کو دلہن کی روپ میں دیکھ کر حیران ہو رہی تھی اس کے ننھے سے ذہن میں طرح طرح کے سوال اٹھ رہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کیا ماں مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی؟ اور مجھ سے دور ہو جائے گی؟ کیا میں پھر کبھی اپنی ماں سے نہیں مل پاؤں گی؟ کیا انکل میری ماں کو مجھ سے چھین کر لے جا رہے ہیں؟ اب میں اکیلی کیسے رہوں گی؟ ماں کے ساتھ رہنے والے یہ معصوم بچی ہزاروں خواہشات کے ساتھ خاموش نگاہوں سے دولہا کے روپ میں آئے شخص کو ماں کو لے جاتے دیکھتی رہا گئی اس کی انکھوں سے انسوؤں کی لڑیاں بہہ نکلی تھیں۔
ابھی ایک گھنٹہ بمشکل گزرا کہ مایا کا شوہر اس کو لینے آگیا کہنے لگا: مایا گھر چلو شایان کو بخار ہے وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی وہ اتنی اجلت میں گئی کہ بیٹی کو الوداع بوسہ بھی نہ دے سکی ۔یہ بوسہ اس کے لبوں پر ہی رہ گیا اور وہ شوہر کے حکم کے ساتھ غلام کی طرح چلی گئی۔ ماں کے چلے جانے کے بعد اس بچی کی حالت مزید بگڑنا شروع ہو گئی۔ اس جھٹکے نے اس کو نڈھال کر دیا اور اس کی حالت اس قدر بگڑ گئی کہ شام تک اسے پھر ہسپتال داخل کرنا پڑ گیا۔ اگلے دن وہ اس بچی کو واپس گھر لے آئے۔ بچی اپنی ماں کی تصویر کے ساتھ لپٹ کر روتی رہی اور ساری رات آنسو بہاتی رہی۔ لیکن اس کی تڑپ اور اس کےآنسوؤں کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا رات بیتتی گئی اور آخر کار صبح کے وقت جب اس کی نانی اس بچی کو جگانے کے لیے آئی تاکہ اسے ناشتہ کروا سکے تو اس نے کیا دیکھا کہ اس معصوم بچی کی روح ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے جا چکی تھی۔
آج ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ اپنے گھر کو اجاڑنے سے پہلے اپنی انا اور ضد کی خاطر میاں بیوی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے اس فیصلے سے بچے کس قدر متاثر ہوں گے۔ اگر مرد و زن کو اپنی عزت اتنی پیاری ہو تو وہ گھر توڑنے سے پہلے اپنے بچوں کو خود ہی مار دیا کریں۔