طلاق شدہ لڑکی

Urdu Font Stories 5

مایا ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ جب اس نے جنم لیا اس کی پیدائش موسم خزاں میں بہار کے تازہ جھونکے کی مانند تھی۔ ماں باپ نے خوشی منائی اور تمام خاندان میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ سب حیران تھے کہ بیٹی کی پیدائش پر کون اتنی خوشی مناتا ہے؟ جبکہ بیٹی رحمت ہوتی ہے۔ لیکن اسے زحمت سمجھا جاتا ہے۔ دراصل بیٹی زحمت تبھی ہوتی ہے جب اس کی قسمت خراب نکلتی ہے۔ مایا بچپن سے ڈرپوک واقعہ ہوئی تھی۔ ایک بھائی بڑا تھا پھر مایا کے بعد ایک بہن اور ایک بھائی نے جنم لیا یوں یہ کل چار بہن بھائی تھے۔ مایا اپنے بہن بھائیوں میں کم شکل تھی اس کا رنگ بھی دبتا ہوا تھا لیکن باقی تینوں گورے چٹے تھے شاید اپنے ساملے ہونے کا احساس اسے خود اعتمادی سے دور لے گیا۔

اپنے اس احساس کمتری کی وجہ سے وہ ہر تقریب میں چھپی چھپی رہتی کوئی تصویر بناتا یا مووی بنتی وہ فورا اپنا چہرہ چھپا لیتی یا دور بھاگ جاتی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ احساس بڑھتا گیا۔ جب بھی لوگ اس کے رشتے کے لیے آتے وہ چھوٹی بہن کو پسند کرتے اسے نظر انداز کر دیا جاتا۔ بالاخر اس کی چھوٹی بہن کی شادی ہو گئی اور وہ منہ دیکھتی رہ گئی۔ مایا کے والد کا انتقال اس کے بچپن میں ہو گیا تھا۔ شاید باپ کے چلے جانے سے وہ اور زیادہ حساس ہو گئی تھی۔ ماں نے شوہر کے فوت ہوتے ہی سسرال والوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ حالانکہ مایا سے وہ بہت محبت کرتے تھے۔ وہ شروع سے ہی مشترکہ فیملی سسٹم میں پلی تھی۔ آنکھ کھولی تو ارد گرد بہت زیادہ پیار کرنے والی ہستیوں کو پایا۔ دادا، دادی ،پھوپھی غیرہ نے اسے بہت لاڈ دیا تھا۔ مایا کی شخصیت پر باپ کی وفات اور ددھیال کی جدائی سے بہت برے اثرات مرتب ہوئے تھے اور وہ ایک نامکمل شخصیت بنتی جا رہی تھی۔ مایا کی ماں کو اس کی شادی کی بہت فکر تھی انہی دنوں اس کے لیے ایک رشتہ آگیا تو بغیر چھان بین کیے انہوں نے بیٹی کی شادی کر دی وہ 17 برس کی تھی جب دلہن بن کر سسرال آگئی تھی یہاں آکر اسے احساس ہوا کہ اس کی شادی بہت غلط قسم کے لوگوں میں ہو گئی ہے۔ یہ بہت زیادہ چھوٹے دل و دماغ کے مالک تھے اور تنگ نظر بھی تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر ٹوکنا اور شک کرنا ان کا وطیرہ تھا۔ اس کا شوہر بھی عجب مزاج کا مالک تھا وہ معاملے کی صداقت جانے بغیر ماں اور بہن کی باتوں پر یقین کر کے اس پر سختی کرنے لگتا تھا۔ 

دو سال بعد مایا نے ایک بیٹی کو جنم دیا وہ بھی بے حد خوبصورت تھی۔ اس کا نام صبوح رکھا گیا۔ مایا کا دل بچی کی وجہ سے خوش رہنے لگا۔ ایک روز وہ اپنی بچی کے ساتھ صحن میں کھیل رہی تھی کہ سامنے والے گھر میں نہ جانے کب سے کوئی لڑکا کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ مایا اپنی سال بھر کی بیٹی کے ساتھ کھیل میں ایسی مگن تھی اسے پتہ نہ تھا کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ اتنے میں اس کی ساس آگئی اس نے جو لڑکے کو ادھر تکتے پایا تو سیخ پا ہو گئی۔ پھر اس نے اس بات کو اتنا اچھالا کہ گلی میں پڑے تنکوں تک کو خبر ہو گئی۔ بیٹے کے بھی خوب کان بھرے یہاں تک کہ اس نے بدگمان ہو کر بیوی کو طلاق دے دی۔

مایا روتی ہوئی میکے آگئی ماں نے دل پر پتھر رکھ کر بیٹی کو پناہ دی مگر وہ مایا کے آنے پر خوش نہ تھی۔ بیٹی کو خوب سنائیں کہ تم نے ضرور کچھ غلط کیا ہوگا کہ بسا بسایا گھر اجڑ گیا۔ مایا کی بیوہ ماں کا معاشی سہارا اس کا بڑا بیٹا تھا جو انہی دنوں برسر روزگار ہوا تھا ایک چھوٹا بیٹا تھا جو ابھی زیر تعلیم تھا وہ خوفزدہ تھی کہ اب مایا اور اس کی بیٹی کا خرچہ کیوں کر پورا ہوگا۔ مایا کو ماں کی پریشانی کا احساس ہوا تو اس نے تک و دو شروع کر دی بالاخر ایک پرائیویٹ سکول میں نوکری مل گئی جب اس کی بیٹی سکول جانے لائق ہو گئی تو اسے بھی اسی سکول میں داخل کروا دیا۔ مایا کی امی نے اس کے سسرال سے رابطے کی بہت کوشش کی تاکہ بیٹی کا گھر پھر سے بس جائے لیکن ناکامی ہوئی۔ مایا کی بیٹی اب بڑی ہو رہی تھی وہ اپنی ماں کے ساتھ سکول جاتی اور پھر ماں کے ساتھ ہی گھرآ جاتی تھی۔ وہ بہت ذہین اور پیاری بچی تھی بچپن سے خاموش طبع تھی۔ اسے ماں سے بہت محبت تھی۔ ماں بھی اپنی بیٹی کا بہت خیال کرتی تھی۔ نانی دل سے نواسی کو چاہتی تھی مگر ظاہر نہ کرتی تھی دراصل وہ اس چکر میں لگی رہتی کہ کسی طرح دوبارہ بیٹی کا گھر بس جائے۔ ایک روز مایا کی بیٹی کی طبیعت اچانک بگڑ گئی سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی ہاتھوں اور ہونٹوں کی رنگت نیلی پڑ گئی تھی جلدی سے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس نے دیکھتے ہی بتایا کہ اس کے دل میں پیدائشی سوراخ ہے بچی کی حرکات و سکنات نارمل بچوں سے مختلف تھی۔ وہ شرارتی نہ تھی خاموش خاموش رہنے والی بچی ہر وقت اپنی ماں کے ساتھ لگی رہتی تھی۔ ادھر اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی وہ ہر ہفتے اپنی بیٹی کو لینے آتا تھا ۔ تو وہ اپنے باپ کے ساتھ ایک دن کے لیے گھر چلی جاتی تھی۔ 

ایسے بچے جن کے ماں باپ کا گھر ٹوٹ چکا ہو ان کا دل بہت زیادہ حساس ہوتا ہے ذرا سی تیز ہوا ان کے ذہن کے دریچوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ وہ لڑکی بھی اپنی ماں کی طرح حساس تھی دل میں پیدائشی سوراخ ہونے کی وجہ سے وہ عام بچوں کی طرح نہیں تھی۔ اس کے چھوٹے سے ننھے ذہن میں پتہ نہیں کیا کیا خیالات اتے ہوں گے؟ شاید سوچتی ہو کہ آخر میرے امی ابو الگ الگ کیوں رہتے ہیں؟ وہ دوسری عورت کے ساتھ کیوں رہتے ہیں؟ اس طرح کے ہزار سوالات اس کے ذہن میں تھے وہ ماں کی گود میں سر رکھ کر خاموش لیٹی رہتی۔ وہ کوئی فرمائش اور ضد نہ کرتی تھی۔ پڑھائی میں وہ 100 فیصد نمبر لاتی تھی۔ اس کی تحریر ایسی تھی جیسے موتی پروئے ہوئے ہوں۔ اتنی سی عمر میں اتنی خوش خط تحریر اور اس قدر سوبر بچی شاید ہی کبھی کسی نے دیکھی ہوگی۔

مایا کی والدہ بار بار اس کو دوسری شادی پر اکساتی مگر وہ منع کرتی وہ نکاح ثانی نہ کرنا چاہتی تھی ۔صرف اپنی بیٹی کے لیے زندہ رہنا چاہتی تھی۔ اس کی بہترین پرورش میں عمر گزار دینا چاہتی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ اس کی بیٹی کے دل میں سوراخ کا تھا جس کے علاج معالجے پر کافی رقم درکار ہوتی تھی۔ مایا کی والدہ ہر وقت لڑتی رہتی کہ ہم کہاں سے تمہاری بچی کا علاج کرائیں تم دوسری شادی کر لو مایا کا بھائی اس کی بیٹی سے بہت محبت کرتا تھا۔ لیکن اس کی بیماری کی طرف سے فکر مند رہتا تھا وہ بھی چاہتا تھا کہ مایا شادی کر لے۔ بھاگ دوڑ کر ماں نے بیٹی کے لیے ایک رشتہ تلاش کر ہی لیا لیکن انہوں نے مایا کی بیٹی کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا۔ مایا کا نکاح خاور سے ہو گیا وہ اسے دلہن بنا کر اپنے گھر لے گیا اور یہ سب کچھ مایا کی بیٹی افسردہ نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی۔ وہ بہت اداس نظر آرہی تھی۔ ماں کو دلہن کی روپ میں دیکھ کر حیران ہو رہی تھی اس کے ننھے سے ذہن میں طرح طرح کے سوال اٹھ رہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کیا ماں مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی؟ اور مجھ سے دور ہو جائے گی؟ کیا میں پھر کبھی اپنی ماں سے نہیں مل پاؤں گی؟ کیا انکل میری ماں کو مجھ سے چھین کر لے جا رہے ہیں؟ اب میں اکیلی کیسے رہوں گی؟ ماں کے ساتھ رہنے والے یہ معصوم بچی ہزاروں خواہشات کے ساتھ خاموش نگاہوں سے دولہا کے روپ میں آئے شخص کو ماں کو لے جاتے دیکھتی رہا گئی اس کی انکھوں سے انسوؤں کی لڑیاں بہہ نکلی تھیں۔

رات کے وقت جب وہ لڑکی اپنی نانی کے ساتھ سوئی تو ساری رات جاگتی رہی اور چپکے چپکے روتی رہی کسی کو بھی اس کے بہتے ہوئے آنسوں کی خبر نہ ہوئی تھی۔ خاور سے شادی کے بعد مایا نے بھی اسکول چھوڑ دیا تھا کچھ دن تو بچی اس اس پر سکول جاتی رہی کہ وہاں ماں مل جائے گی۔ لیکن پتہ چلا کہ سسرال والوں نے مایا کی جاب چھڑا دی تھی۔ اب اس کا دل سکول جانے کو نہ چاہتا نانی صبح اٹھاتی وہ طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر کے لیٹی رہتی یوں روز روز وہ سکول سے چھٹیاں کرنے لگی ایک دن اس کی ماں اپنے شوہر کے ہمراہ ملنے گھرآئی تو وہ بھاگ کر اس سے لپٹ گئی جیسے صدیوں سے اپنی ماں کا انتظار کر رہی ہو۔ وہ بچی پہلے سے زیادہ سنجیدہ اور اداس بن گئی تھی ۔اسے اس شخص سے حسد ہو رہا تھا جو اس کی ماں کو لے گیا تھا اور اس کے ساتھ اپنی ماں کا بیٹھنا اسے ناگوار گزر رہا تھا۔ جب اس کی ماں اپنے گھر جانے لگی تو یہ معصوم بچی رونے لگی اس نے ضد پکڑ لی کہ وہ اپنی امی کے ساتھ جائے گی وہ رونے لگی لیکن اس کا رونا کسی نے بھی نہ دیکھا۔ مایا مجبور تھی وہ اپنے شوہر کے حکم کی تعمیل کرنا چاہتی تھی تاکہ دوبارہ کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو جائے اور اس کا گھر ٹوٹ جائے۔

مایا نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ وہ اگلی دفعہ جب آئے گی تو اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر ضرور جائے گی یہ وہ وعدہ تھا جو کبھی بھی وفا نہیں ہو سکتا تھا۔ خاور اور اس کے گھر والوں نے بچی کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ دل کی مریضہ تھی اس معصوم بچی نے ماں کی جدائی کا گہرا اثر لیا اس نے پڑھائی پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ روز روز اس کے سکول سے شکایات آتی تھیں اور اس کی صحت بھی گرتی جا رہی تھی۔
مایا کی آرزو تھی کہ اس کی بیٹی پڑھ لکھ کر اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکے تاکہ معاشرے کے ظلم و ستم کو جو اس کی ماں سہ چکی تھی وہ نہ جھیلے۔ لیکن اس کی بیٹی کی قسمت میں یہ سب نہ لکھا تھا۔ ایک دن اس کی بیماری اتنی بڑی کہ اسے ہسپتال داخل کرا دیا گیا۔ مایا کو بھائیوں نے اطلاع دی مگر وہ بیٹی سے ملنے نہ آ سکی۔ دوبارہ مایا کو فون کیا گیا اس نے کہا میرا بیٹا اسہال کی وجہ سے بیمار ہے ذرا اس کی طبیعت سنبھل جائے تو آ سکوں گی۔ کچھ دن بعد وہ آگئی ماں کو دیکھ کر اس کی بیٹی کے مردہ تن میں ایک دفعہ جان پڑ گئی۔ اس کا جی چاہا کہ ماں کبھی بھی اس کو چھوڑ کر واپس نہ جائے۔ 

ابھی ایک گھنٹہ بمشکل گزرا کہ مایا کا شوہر اس کو لینے آگیا کہنے لگا: مایا گھر چلو شایان کو بخار ہے وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی وہ اتنی اجلت میں گئی کہ بیٹی کو الوداع بوسہ بھی نہ دے سکی ۔یہ بوسہ اس کے لبوں پر ہی رہ گیا اور وہ شوہر کے حکم کے ساتھ غلام کی طرح چلی گئی۔ ماں کے چلے جانے کے بعد اس بچی کی حالت مزید بگڑنا شروع ہو گئی۔ اس جھٹکے نے اس کو نڈھال کر دیا اور اس کی حالت اس قدر بگڑ گئی کہ شام تک اسے پھر ہسپتال داخل کرنا پڑ گیا۔ اگلے دن وہ اس بچی کو واپس گھر لے آئے۔ بچی اپنی ماں کی تصویر کے ساتھ لپٹ کر روتی رہی اور ساری رات آنسو بہاتی رہی۔ لیکن اس کی تڑپ اور اس کےآنسوؤں کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا رات بیتتی گئی اور آخر کار صبح کے وقت جب اس کی نانی اس بچی کو جگانے کے لیے آئی تاکہ اسے ناشتہ کروا سکے تو اس نے کیا دیکھا کہ اس معصوم بچی کی روح ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے جا چکی تھی۔

اس بچی کی ماں کو سب سے پہلے نانی نے فون کیا کہ تمہاری بیٹی اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ یہ خبر ملتے ہی مایا تڑپ گئی اور بغیر سسرال کی پرواہ کیے وہ گھر آگئی دیکھا تو اس کی بیٹی کی کھلی آنکھیں اس کا استقبال کر رہی تھیں۔ جیسے سوال کر رہی ہوں امی اتنی دیر کیوں لگا دی؟ اور اب آنے کا کیا فائدہ۔ میں تو اب تم سے گلے بھی نہیں مل سکتی۔ مایا چیخ مار کر بیٹی کی لاش پر گر پڑی۔ میری بچی تو انتظار کرتی رہی ۔مگر میں کتنی بد نصیب تھی جو تیرے انتظار کے باوجود نہیں آ سکی۔ اس کی کھلی آنکھیں جیسے ہر ایک سے سوال کرتی ہوں۔ پانچ سال کی بچی کو کیوں تڑپایا؟ دنیا والوں کو کیا حق تھا کہ انہوں نے میرے نصیب کی خوشیاں اور محبتیں مجھ سے چھین لیں؟ کیوں؟ آخر کیوں؟

 آج ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ اپنے گھر کو اجاڑنے سے پہلے اپنی انا اور ضد کی خاطر میاں بیوی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے اس فیصلے سے بچے کس قدر متاثر ہوں گے۔ اگر مرد و زن کو اپنی عزت اتنی پیاری ہو تو وہ گھر توڑنے سے پہلے اپنے بچوں کو خود ہی مار دیا کریں۔

(ختم شد)