میں بچپن میں کھوگئی تھی۔ بسکٹ لینے گھر سے نکلی اور گلی بھول گئی۔ عمر ساڑھے تین سال تھی۔ روتی روتی گھر سے دور نکل گئی۔ امی سورہی تھیں، ہمیشہ ان کے ساتھ بسکٹ خریدنے جاتی تھی۔ اس روز ماں کا پرس سامنے پڑا تھا، کھولا تو روپے نظر آگئے۔ ایک نوٹ مٹھی میں دبایا اور دروازہ کھول کر نکل پڑی۔
👇👇
اس کے بعد اصل ماں باپ، گھر، جو میرا اپنا تھا، سبھی ماضی کا حصہ ہو گئے۔ نجانے کیسے ایک عورت مل گئی اور رو رو کر ہلکان ہوتی بچی سے پوچھا۔ کیوں رو رہی ہو؟ ماں باپ گھر بار کے بارے سوال کئے۔ میں کچھ نہ بتا سکی۔ نوٹ ابھی تک میری مٹھی میں دیا تھا۔ وہ سمجھ گئیں کہ گم گئی ہوں ۔ صبح کی نکلی تھی ، اب شام ہونے آئی تھی۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آئیں ، کھانا کھلایا، پیار کیا تھکی ہوئی تھی جلد ہی سو گئی۔
صبح اٹھی تو نہ وہ گھر تھا نہ وہ آنگن، جہاں رہتی اور کھیلتی تھی اور نہ وہ صورتیں تھیں ، جو اس گھر میں میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ رفتہ رفتہ ماں باپ، بہن بھائی بھلا دیئے۔ مجھے اپنے ساتھ لانے والی نے یقیناً میرے ماں باپ کو ڈھونڈا ہوگا۔ میں نے اپنا نام روشی بتایا۔ اصل نام کیا تھا؟ وہ بھی یاد نہ رہا۔ ان نئے لوگوں کے گھر میں گویا میرا دوسرا جنم تھا۔ ان کی دو بیٹیاں وفات پا گئی تھیں، پھر اولاد نہ ہوئی۔ میرا انہیں یوں مل جانا گویا ان کی دعاؤں کا ثمر تھا۔ گرچہ یہ غریب یہ لوگ تھے مگر مجھے نازونعم سے پالاجب میں گیارہ برس کی ہوئی تو امی بیمار رہنے لگیں ۔ ڈاکٹروں کا علاج جاری تھا، مگر ماں کو یہ وہم تھا کہ وہ اب زیادہ نہ جئیں گی۔ یہی مجبوری تھی جس نے مجھے وقت سے پہلے دلہن بننے پر مجبور کر دیا۔ جس ڈاکٹر سے والدہ کا علاج ہو رہا تھا ، وہاں ایک بڑی عمر کے آدمی آیا کرتے تھے، جن کا اپنا چھوٹا سا میڈیکل اسٹور تھا۔ وہ دوائیں پہنچانے اسپتال آتے تھے۔ ابا جان سے ان کی سلام دعا ہوئی۔ نام ان کا قمر تھا۔
تب والد صاحب انہی کے میڈیکل اسٹور سے دوائیں لینے لگے۔ ایک دوبار میں بھی اماں کے ساتھ ڈاکٹر کے گئی تبھی قمر نے مجھے دیکھا اور ابا سے بعد میں پوھا کہ کیا آپ نے اپنی بچی کا رشتہ کرنا ہے؟ ہاں، کرنا تو ہے، دراصل اس کی ماں کو اس کی بہت فکر ہے، مگر میں ابھی اس کو بیاہنا نہیں چاہتا۔ اس کی عمر بہت چھوٹی ہے۔ ٹھیک ہے، جب بیٹی کا رشتہ کرنے کا خیال ہو مجھے بتانا۔ میرے پاس ایک اچھا رشتہ موجود ہے۔ والد نے ایک روز قمر کی کہی بات کا امی سے تذکرہ کر دیا۔ وہ بولیں۔ اگر رشتہ ٹھیک ہو تو بات کر لیں لیکن ہماری خوش بخت تو ابھی بارہ سال کی بھی نہیں ہے۔ نہیں ہے تو کیا ہوا ؟ ہو جائے گی کچھ دنوں میں۔ رشتہ پہلے سے طے کر لینے میں تو کوئی حرج نہیں۔ دو تین سال تک منگنی رہے گی پھر شادی کر دینا۔ ابا کو ماں کی یہ بات ٹھیک لگی۔ ایک روز قمر نے پھر سے رشتے کی بات چھیڑ دی تو انہوں نے کہہ دیا کہ رشتہ دکھا دو۔ پسند آیا تو بات پکی کر لیں گے اور جب ہماری بیٹی پندرہ برس کی ہو جائے گی تو شادی کریں گے۔ مجھے منظور ہے۔ وہ بولے لڑکے بارے فکر نہ کریں ، وہ شریف آدمی ہے۔ اپنا کاروبار، اپنا مکان اور تین دکانیں ہیں، جو کرایے پر لگی ہوئی ہیں۔ روپے پیسے کی بھی کمی نہیں ہے۔
دراصل میری بیوی بیمار ہیں۔ کافی علاج کروایا ٹھیک نہیں ہوئیں ۔ اب ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ پتے میں پتھری ہے، آپریشن کرانا پڑے گا لیکن اس کے لئے کافی رقم درکار ہے۔ ارے بھائی ، آپ اس کی فکر نہ کرو۔ جتنے پیسے چاہئیں مجھ سے لے لو۔ میں کہیں نہیں بھاگا جا رہا اور تم بھی کہیں نہیں جا رہے۔ رقم جب تمہارے پاس آ جائے دے دینا آپریشن ضروری ہے میں گاؤں سے شہر آتا ہوں بیوی کے علاج کی خاطر یہاں آنے جانے پر ہی کافی پیسے لگ جاتے ہیں۔ پرائمری اسکول کا ماسٹر ہوں معمولی تنخواہ ہے۔ آپریشن کے دوران کہاں قیام کروں گا ؟ بڑے مسائل ہیں۔ قیام بھی میرے گھر کر لینا آپ لوگ۔ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ میرا پانچ کمروں کا بڑا سا مکان ہے اور اس میں فی الحال میں اکیلا ہی رہتا ہوں ۔ اللہ کا دیا اتنا ہے کہ سماتا نہیں۔ یہ دولت کس کام کی جو کسی ضرورت مند کے کام نہ آئے۔
ابا کو اس آدمی نے ایسا حوصلہ دیا کہ وہ شہر کے بڑے اسپتال سے امی کا آپریشن کرانے پر راضی ہو گئے ۔ آپریشن بھی ہو گیا۔ امی ابو نے اس دوران قمر صاحب کے گھر قیام کیا۔ اسپتال آنے جانے میں بھی آسانی رہی اور امی صحت یاب ہو کر گھر لوٹ آئیں۔ اس دوران مجھے انہوں نے اپنی بہن کے گھر بھیج دیا تھا۔ خالہ نے میرا بہت خیال رکھا۔ امی تو صحت یاب ہو کر گھر آ گئیں، لیکن قرض کے بوجھ سے والد صاحب کی کمر جھک گئی۔ وہ کمر ہی نہیں آنکھیں بھی جھکا کر بات کرنے لگے۔ قرض کی واپسی کا ذہن پر بڑا بوجھ تھا۔ ان دنوں پرائمری اسکول ٹیچر کی تنخواہ بہت قلیل ہوا کرتی تھی۔ چھ ماہ تو قمر صاحب چپ رہے، پھر انہوں نے دبے لفظوں پیسوں کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔ والد صاحب تسلی دیتے کہ ذرا صبر کریں۔ کچھ دنوں میں آپ کی رقم لوٹا دوں گا۔ لوٹاتے کہاں سے، ان دنوں تو غربت گھر کی لونڈی تھی۔
میرے ابا بہت حساس، غیرت مند اور دیانت دار آدمی تھے ۔ وہ جو وعدہ کرتے، چاہتے کہ پورا کریں ورنہ ان کی جان پر بن آتی تھی۔ ادھر چھ ماہ بعد قمر صاحب کے خطوط موصول ہونے لگے ، جن میں رقم کا تقاضا ہوتا ۔ والد صاحب بالآخر شہر گئے تاکہ قمر سے مل کر قرضہ کی ادائیگی میں کچھ وقت کی اور مہلت لے لیں۔ انہیں اپنی مجبوریاں بتائیں تو وہ بولے ۔ اچھا میاں صاحب اس مسئلے کو چھوڑیں۔ آپ کی زوجہ محترمہ تو اب ما شاء اللہ سے صحت یاب ہو چکی ہیں۔ آپ نے مٹھائی تک نہ کھلائی لیکن یہ بات پرانی ہو چکی ہے، کچھ نئی بات ہو تو مٹھائی کھائیں۔ والد صاحب سمجھے نہیں تبھی وہ کہنے لگے۔ آپ کے گھر میں بچی ہے، رشتے کی بات کی تھی، بھول گئے۔ میں نے آپ ، سے کہا تو تھا کہ لڑکا اور اس کا گھر بار دکھا دیجیے تو بات آگے چلاتے ہیں۔ لڑکا اورگھر بار دونوں ہی آپ کے دیکھے بھالے ہیں۔ لڑکا آپ کے سامنے بیٹھا ہے اور گھر میں میرے آپ قیام کر چکے ہیں۔ قمر کی بات سن کر ابا جان سکتے میں آگئے۔
چالیس سال کا آدمی ، جو بدصورت بھی تھا، کالا، بھدی ناک والا ، ان کی تیرہ سالہ بیٹی کا رشتہ طلب کر رہا تھا۔ وہ اس شخص کے قرض دار تھے، اس لیے احسان مند تھے ، لہذا کوئی حیل و حجت کئے بغیر بولے۔ گھر جا کر بیوی سے بات کرتا ہوں اور آپ کا قرضہ لوٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ سوچ رہا ہوں گھر فروخت کر کے آپ کا احسان اتار دوں۔ ارے میاں صاحب اس کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کو بے گھر کرنا نہیں چاہتا، آپ کا بوجھ کم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھیک ہے آپ کر لیجیے اپنی بیگم سے مشورہ، میں اور انتظار کیے لیتا ہوں۔
والد گھر آئے تو اس طرح جیسے کسی نے بدن سے طاقت کھینچ لی ہو۔ ٹھیک طرح سے چل نہیں پارہے تھے۔ امی نے پوچھا۔ کیا ہوا؟ آپ کو طبیعت تو ٹھیک ہے۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ تو شہر گئے تھے قمر صاحب سے ملنے؟ ہاں ، انہوں نے ایسی بات کہہ دی کہ میری سر اٹھانے کی سکت چھین لی۔ کہا ہے کہ قرضہ واپس کرو یا بیٹی کا رشتہ دے دو۔ سوچ رہا ہوں، یہ گھر بیچ کر قرض چکتا کر دوں ۔ کیسی بات کرتے ہو؟ سر پہ چھت نہ رہے تو کیا در بدر ہونا ہے ہم نے بڑھاپے میں ؟ بیٹا تو پہلے ہی اللہ نے نہیں دیا۔ گھر بھی نہ رہے گا تو کیا سڑک پر بیٹھیں گے ۔ عزت سے روکھی سوکھی کھا کر بھی سر تو چھپائے ہوئے ہیں اور بیٹی بھی آخر بیاہنی ہے۔ آج نہیں تو کل ۔ قمراتنا برا نہیں، بس ذرا شکل دبتی ہے۔
اس کا کاروبار ہے، روپیہ پیسہ ہے ۔ ہماری بیٹی عیش کرے گی اور کیا چاہئے؟ ایسے رشتے قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ خاندان میں کوئی ایک آدھ رشتہ نکل بھی آیا تو سبھی غریب لوگ ہیں ۔ یہاں بھی اس بچاری نے مفلسی دیکھی اور آگے بھی یہی سوغات جہیز میں لے کر جائے گی ؟ ارے میاں! قمر کو ہاں کہو۔ قرضے کا بوجھ بھی نہ رہے گا اور بیٹی بھی خوشحال گھر میں آباد ہو جائے گی۔ میں تو تم کو دانا جانتی تھی مگر تم تو سخت نادان نکلے۔ قمر صاحب کو ہرگز مایوس نہ کرنا۔ وہ بہت مہربان اور شفیق آدمی ہے۔ ہماری رانی کو بہت خوش رکھے گا۔ غرض ایسی باتیں کر کے امی نے ابا کا نہ صرف دل ہلکا کر دیا بلکہ ان سے میری قمر سے شادی کے لئے ہاں بھی کروادی ۔ ہاں کہنے کی دیر تھی قمر نے فوری شادی کا تقاضا کر دیا۔ یوں چودہ برس کی عمر میں ہی میری شادی ہو گئی۔ میں شادی کے تقاضوں کو سمجھتی نہ تھی۔ چند دن تو اس نے چاؤ سے رکھا اس کے بعد اس کے مزاج بگڑنے لگے۔ وہ مجھ پر شک کرنے لگا کسی سے بات نہ کرنے دیتا، نہ کسی کے گھر جانے دیتا، خاموشی سے سب ظلم اٹھاتی۔ گھر میں میرے سوا کوئی نہ تھا۔ وہ اسٹور پرچلا جاتا اور میں رو کر چپ ہو جاتی ۔ ماں باپ دور تھے، ان سے بھی بات نہ ہو سکتی تھی۔
ایک دن میں بالکونی میں میں کپڑے ڈال رہی تھی کہ میرا شوہر آ گیا۔ کوئی شخص گلی سے گزر رہا تھا۔ قمر نے گلی میں جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔ بتاؤ یہ کون تھا؟ مجھے کیا پتا کون تھا۔ کوئی راہ گیر ہوگا، ایسے تو لوگ روز گزرتے رہتے تھے۔ قمر نے اگلا سوال کیا۔ سچ سچ بتاؤ! کل جب میں مال خرید نے کراچی گیا ہوا تھا، تو رات تیرے پاس کون آیا تھا؟ میں نے جواب دیا۔ کوئی بھی نہیں۔ اس پر اس نے چاقو نکال لیا اور اتنا ڈرایا دھمکایا کہ میں خوف سے بے ہوش ہوگئی ۔ مجھ پر جو بھی گزر رہی تھی، تنہا جھیل رہی تھی۔ فون گھر میں نہ تھا۔ والدین کو خط لکھ نہیں سکتی تھی کیونکہ مجھے اس کی اجازت نہیں تھی۔ میرا شوہر کاپی کے صفحے گن کر رکھ جاتا تھا کہ اس کے پیچھے کسی کو خط نہ لکھ سکوں ۔ ادھر میں اکیلی گھر میں ڈرتی رہتی تھی۔ میں ڈر کر بیمار ہو گئی اور تین دن کھانا نہ کھایا، تب اس نے مجھے کہا کہ چلو والدین کو خط لکھ دو۔
میں جلدی سے خط لکھنے بیٹھ گئی۔ میں سمجھی وہ خط کھول کر نہیں پڑے گا تبھی خط میں ساری باتیں لکھ دیں لیکن اس نے خط کھول کر پڑھ لیا۔ میری خوب مرمت کی اور خط پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ، بولا ۔ جو میں کہتا ہوں ، وہی لکھتی جاؤ۔ دِل خون کے آنسو رو رہا تھا اور میں وہ لکھ رہی تھی جو وہ لکھوا رہا تھا کہ میں بہت خوش ہوں۔ میرا شوہر میرا بہت خیال رکھتا ہے اور فی الحال ابھی میں آپ کے پاس آنا نہیں چاہتی۔ خط لکھوا کر وہ سو گیا۔ تبھی میں چیکے سے اٹھی اور ایک پرچہ لکھ کر لفافے میں ڈال دیا، جس میں لکھا تھا۔ ابا جان جلد آ کر مجھے لے جائیے ۔ میری حالت خراب ہے، بہت پریشان ہوں۔ میں نے لفافے کو پھر سے بند کر کے جہاں رکھا تھا، وہیں رکھ دیا۔ میرے شوہر نے لفافہ سپر ڈاک کر دیا تو میں نے شکرانے کے نفل پڑھے کہ خیریت گزری جو اس کو خبر نہ ہوئی۔ اس کے آٹھ دن بعد ابا جان آگئے ۔
جب انہوں نے گھر میں قدم رکھا تو میں نے لاکھ کوشش کی صبر سے بات کروں ، مگر صبر کہاں ؟ اس وقت تو مجھے سب دکھ یاد آگئے اور جی بھر کر روئی ۔ ابا جان ایک دن بڑی مشکل سے رکے۔ کچھ کھایا نہ پیا اور قمر سے کہا کہ اس کی ماں سخت بیمار ہے۔ بیٹی کو لینے آیا ہوں ۔ قمر ابو کے سامنے انکار نہ کر سکا اور بولا کہ اس کو جلد واپس پہنچا دینا اور اکیلے میں مجھ سے کہا کہ خبردار والدین کو کچھ نہ بتانا ، ورنہ جان سے مار دوں گا۔ ماں نے جب میرے حالات سنے تو خوب روئیں ۔ ابا سمجھانے لگے تو ان کے پاؤں پڑگئیں۔ بولیں۔ یہ میرا کیا دھرا ہے۔ جب تک زندہ ہوں، میں اس کو اس ظالم کے پاس جانے نہ دوں گی۔ میرے دل میں بھی اب قمر کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ پندرہ روز بعد جب وہ مجھے لینے آیا میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ کہہ دیا کہ جان سے بھی مار ڈالو تو اس کے ساتھ نہ جاؤں گی ۔ وہ واپس چلا گیا اور وہاں جا کر مجھے طلاق بھجوا دی۔ مجھے اب شادی سے نفرت ہو چکی تھی۔ جب کسی لڑکی کو دلہن بنا ہوا دیکھتی تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی کہ ہائے اللہ کیا اس بچاری کا بھی مجھ سا انجام ہوگا۔ فیصلہ کر لیا کہ اب کبھی شادی نہ کروں گی۔ میری ایک خالہ کا لڑکا ہمارے گھر میں رہنے لگا تھا۔ ایک دن وہ ہماری امی کے آگے بہت رویا کہ خوش بخت جیسی لڑکی کے آپ نے بخت جلا دیئے۔ وہ اب طلاق یافتہ بھی ہے تو مجھے قبول ہے۔
اب اگر آپ نے اس کی اور کسی سے شادی کی تو میں آپ کے گھر سے چلا جاؤں گا۔ آپ کو پھرا کیلے ہی رہنا ہوگا۔ میں نے اس کی ساری باتیں سنیں، مگر چپ رہی۔ ہمارے گھر خالو کے ایک دوست کا لڑکا زبیر سے ملنے آتا تھا، اس کا نام ابراہیم تھا۔ زبیر کی وجہ سے کوئی اس سے پردہ نہیں کرتا تھا۔ ایک دن ابراہیم نے امی سے کہا۔ میں آپ کی بیٹی کو سہارا دینا چاہتا ہوں ۔ بے شک اسے طلاق ہو گئی ہے، مگر اس کو دوبارہ گھر بسانے کا حق ہے۔ امی یہ سن کر چپ ہوئیں کیونکہ جانتی تھیں کہ ابراہیم کی منگنی ہو چکی ہے۔ انہی دنوں زبیر کی امی، خالہ بانو ہمارے گھر آگئیں اور انہوں نے امی کو رضامند کر لیا۔ خالہ بھی غریب تھیں، لہذا کسی نے زیور جوڑوں وغیرہ کا مطالبہ نہیں کیا۔ چار دن میں میری شادی کی تیاری ہو گئی ، جس دن میری شادی تھی ابراہیم آگیا۔ امی سے شکایت کی کہ میں نے خوش بخت کا رشتہ مانگا تھا اور آپ نے میرے آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ میں آپ کو بتا کر گیا تھا کہ صرف پندرہ دن کے لئے دبئی جا رہا ہوں۔ مجھ میں کیا کمی تھی؟ دبئی میں کاروبار سبھی کچھ تھا۔ اگر آپ مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ دیتیں تو آپ کی بیٹی کو میں بہت خوش رکھتا۔
اتفاق سے کمرے کی کھڑکی سے زبیر یہ سب سن رہا تھا۔ بس اتنی سی بات نے اس کے دل میں شکوک نے جنم لے لیا۔ میرا تو ابراہیم سے کچھ تعلق بھی نہ تھا۔ وہ جب ہمارے گھر ز بیر سے ملنے آتا تو میں اس کے سامنے بھی نہ جاتی تھی۔ اس نے غالباً میری داستان سن رکھی ہو گی اور ہمدردی میں رشتہ مانگ لیا ہو گا لیکن میری زندگی میں تو سیاہی بھر گیا۔ زبیر سے میری شادی تو ہو گئی مگر اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ شادی کی رات انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ کیا ابراہیم سے بھی تمہاری بات چیت ہوئی تھی؟ میں نے جواب دیا۔ نہیں کبھی بات نہیں ہوئی ۔ پھر وہ تمہاری میری شادی سے اتنا پریشان کیوں تھا؟ مجھے نہیں معلوم ۔ یہ میرا مختصر جواب تھا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ابراہیم نے میرے بارے زبیر کو کوئی بات کہی ہوگی، بہر حال شادی کی رات ان کی طبیعت خراب ہو گئی اتنی کہ اسپتال لے جانا پڑا۔
پتا چلا کہ انہوں نے خواب آوار گولیاں کھالی ہیں۔ خیر ، فوراً طبی مدد ملی اور وہ تین روز بعد ٹھیک ہو گئے۔ وہ دن اور اس کے بعد کے سبھی دن جو ہمارے ایک ساتھ گزرے، ان کے دل سے شک نہ گیا۔ انہوں نے مجھ سے کلام پاک پر بھی قسم لی، مگر تب بھی میرا اعتبار نہ کیا۔ پہلے کام چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے۔ امی ابا نے ملازمت چھوڑنے پر پریشانی کا اظہار کیا تو مجھ سے بول چال چھوڑ دی۔ آخر مجھے میرے والدین کے گھرلا کرچھوڑ دیا۔ یوں مجھ تباہ حال کی قسمت ایسی لکھی گئی تھی کہ مجھے پیدا ہونے کہ بعد کوئی گھر راس نہ آیا۔ والد وفات پا گئے، پھر امی چل بسیں اور میں انہی کے گھر میں تنہا ہی زندگی کے دن پورے کرتی رہی۔ اب بھی وہی چھت میری پناہ گاہ، میرا سائبان ہے۔ خدا مجھ ایسی قسمت کسی کو نہ دے۔
0 تبصرے