شعبہ حادثات سے اسپتال کے اسپیشل وارڈ میں ایک مریضہ داخل کی گئی اس وقت میری ڈیوٹی اسی وارڈ میں تھی ۔ اس لئے اس کی نگرانی کا کام مجھے سونپا گیا تھا، جوں ہی میں اس کے کریب گئی اور حال پوچھا تو اس نے بے بسی سے کراہتے ھوۓ ہوئے سر پٹخ دیا اور پھر اس کو دورہ پڑ گیا۔ ہاتھ پاؤں اکڑ گئے، وہ ہلنے جلنے سے معذور ہو گئی۔ یہ کفیت چھ، سات گھنٹے طاری رہی۔
یہ پہلی مریضہ تھی کہ جس کی حالت پر میرا دل پسیج گیا اور مجھ سے رہا نہ گیا۔ ابھی ڈاکٹر کے راؤنڈ میں کچھ وقت باقی تھا، مگر میں نے ڈاکٹر صاحب کی منت کی ۔ وہ بہت رحم دل انسان تھے ۔ مریضہ کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا اور منہ سے کبھی کبھی ہلکی سی سسکی بھی نکل جاتی تھی۔ وہ وقفے وقفے سے کسی کو پکارتی تھی۔ میں نے غور سے سنا۔ وہ کسی کا نام لے کر پکار رہی تھی۔ اب میں ڈر رہی تھی کہ اگر ڈاکٹر نے میری استدعا پر کان نہ دھرا اور آنے میں تاخیر کردی تو کہیں یہ بے چاری چل بسے اور میرا ضمیر ہمیشہ مجھ کو ملامت کرتا رہے۔ صد شکر کہ ڈاکٹر صاحب فورا میرے ساتھ آگئے۔ مریضہ کو دیکھا، پھر مجھ سے پوچھا۔ اس کے گھر سے کوئی نہیں آیا ؟ جی نہیں، بس وہ لوگ ایڈمٹ کر وا گئے تھے، اس کے بعد سے کوئی نہیں آیا۔ میں نے بتایا۔ اچھا! انہوں نے کہا۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں ۔ تمہیں اس خاتون کی دیکھ بھال خاص طور پر کرنی ہے۔ اگر حالت زیادہ خراب ہو، تو مجھے فوراً آگاہ کرنا۔ یہ ہدایت دے کر وہ چلے گئے۔
ہفتہ بھر ، میں اور ڈاکٹر صاحب جانفشانی ہے اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ سات روز کے بعد ایک شخص اس خاتون سے ملنے آیا۔ وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ ہلکے ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس، ایک چرمی بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔ چہرے پر کچھ پریشانی کے آثار تھے۔ میں سمجھ گئی کہ یہی اس لاوارث عورت کا رشتہ دار ہے۔ عورت کا نام در شہوار تھا اور وہ بستر پر آنکھیں بند کیے پڑی تھی۔ ہلدی سیاہ پیلا رنگ لئے ، وہ ایک زندہ لاش لگ رہی تھی ۔ شاید سورہی تھی یا انجکشن کی وجہ سے مدہوش تھی ، بہر حال وہ اپنے گردو پیش سے بے نیاز تھی۔ یہ آپ کی کیا لگتی ہیں؟ میں نے آنے والے سے پوچھا تو وہ سرد مہری سے بولا ۔ بیوی ہے میری۔ اس کے اس طرح جواب دینے پر میں حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
بیوی ہے تو اتنے دنوں آپ ان کی خبر گیری کو کیوں نہیں آئے ؟ اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوا۔ آپ کو کیا معلوم کہ گھر پر چھوٹے چار بچے ہیں ۔ بچوں کے پاس رہوں یا ادھر آؤں۔ پھر اس نے بٹوہ نکالا اور کچھ رقم مریضہ کے سرہانے پر رکھ دی اور بولا ۔ اچھا سسٹر! میں چلتا ہوں ۔ یہ ہوش میں آجائے تو تم اس کو دے دینا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میں دیر تک سوچتی رہی کہ یہ کیسا سنگدل شوہر ہے، جس کو اپنے چار بچوں کی ماں کے جینے مرنے کی پروا نہیں۔ اس آدمی کے جانے کے دو گھنٹے کے بعد در شہوار نے آنکھیں کھول دیں اور ہوش میں آتے ہی پوچھا۔ کوئی نہیں آیا؟ ؟ میں نے بتایا دیا تمہارے شوھر آئے تھے، کچھ رقم دیے گئے ہیں ۔ تمہارے تکیے کے نیچے پڑی ہے، اٹھا لو۔ یہ سن کر اس نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں اور بولی۔ میں کیوں زندہ ہوں؟ اے اللہ مجھے موت کیوں نہیں دے دیتا۔ وفا کا کیا یہی صلہ ہے؟ میں نے کہا۔ زیادہ مت سوچو، نہ زیادہ باتیں نہ کرو۔ وہ تو دیر تک بیٹھے رہے تھے، تم ہی نے آنکھ نہ کھولی ۔ لو، پانی پی لو۔ اس کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اٹھنا چاہا مگر تکلیف کی وجہ سے اٹھ نہ سکی، میں نے ہی اس کے حلق میں پانی ٹپکایا۔
دو چار دن کے بعد اس کی طبیعت میں کچھ افاقہ ہوا تو میں نے اصرار کر کے اس کو راز دل کہنے پر مجبور کر دیا۔ وہ پہلے تو کچھ بتانے پر تیار نہ تھی ، لیکن جب میں نے اپنی آپ بیتی اس کو سنائی تو اس نے بھی خود پر بیتی سے مجھ کو آگاہ کر دیا۔ میں نے درشہوار کو بتایا کہ دیکھو ! دکھ سکھ ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔ مجھ کو دیکھو، جانے کیسے حالات سے مجبور ہو کر نرس بنی اور اب دن رات مریضوں کی خدمت پر معمور ہوں ۔ تو اپنے بارے میں بتاؤ سسٹر ! در شہوار بولی۔ بتاتی ہوں۔
میں لاہور کی رہنے والی ہوں۔ کالج میں پڑھتی تھی کہ ایک کلاس فیلو نے مجھ میں دلچسپی لی۔ امیر باپ کا بیٹا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔ میں پڑھائی جلد ختم کرنا چاہتی تھی کیونکہ ابا جان کو دمہ تھا، گرچہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور لائق طالبہ تھی لیکن گھر کے مالی حالات اچھے نہ رہے ، جس کی وجہ سے والد کا علاج نہ ہوسکتا تھا۔ ابا کمانے سے رہ گئے اور ہمارے گھر فاقے ہونے لگے ۔ میرے حالات جان کر کلاس فیلو ساتھی خاور نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میں بہت غریب تھی اور وہ بہت امیر تھا۔ میں نے درمیان میں پڑھائی چھوڑ دی اور گھر کے حالات کو سہارا دینے کی خاطر ڈاکٹر بنے کے خواب کو بھول کر نرسنگ ٹرینگ لی اور پھر اسپتال میں ملازمت کرلی، جبکہ وہ میرا ساتھی خاور ڈاکٹر بن کر ملک سے باہر چلا گیا ۔ اب اسی کی یاد میں عمر گزارنے کا عہد کیا ہے۔ بس اتنی سی میری کہانی ہے۔ ایک دکھیاری کی باتیں دوسری دکھیاری کو اچھی لگیں۔ یوں در شہوار کہنے لگی۔ اس دنیا میں وفا کی کوئی قیمت نہیں اور مرد سے وفا؟ تم اپنی زندگی گنوا رہی ہو۔ مجھے دیکھو اور میری زندگی سے سبق سیکھو۔ تو بتاؤ نا! تمہارے ساتھ کیا ہوا؟ کیسے تم اس حالت کو پہنچیں؟ آخر وہ بے تکلف ہو گئی اور مجھے اپنا دل زندگی کھول کر دکھا دیا۔ تم جانتی ہو، میں کس حال میں یہاں آئی تھی۔ مجھے کتنی تکلیف تھی اور جسمانی تکلیف سے زیادہ روح تکلیف میں مبتلا تھی۔
میں اس بات کے تصور سے ہی خوف زدہ تھی کہ میرا شوہر مجھے طلاق دے دے گا اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے مجھ سے جدا کر دیے جائیں گے۔ اسی خیال سے میں نے گولیاں پھانک لی تھیں۔ پھر تم نے دیکھ لیا نا در شہوار! کہ زندگی اور موت تو خدا کے اختیار میں ہے۔ جب تم آئی تھیں تو جانتی ہو تمہاری کیا حالت تھی؟ تمہارے منہ سے خون جاری تھا اور تم تکلیف سے تڑپ رہی تھیں ۔ تمہیں ہم لوگ آپریشن تھیٹر میں لے گئے تھے۔ مہربان ڈاکٹر صاحب نے تب کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد تمہیں اللہ کے کرم سے بچالیا اور ایک رات تو میں صبح گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک تمہارے سرہانے بیٹھی رہی تھی۔ وہ تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھتی رہی، پھر گویا ہوئی۔ میری شادی چودہ برس قبل ہوئی، شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہماری زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ ہم میاں بیوی اپنے چار بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش تھے کہ اچانک ایک خط نے میری زندگی میں آگ لگادی، اس خط کی بھی اپنی ایک کہانی ہے۔
میری ایک سہیلی تھی رشیدہ۔ ہم ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ رشیدہ ان دنوں میٹرک میں تھی۔ ایک لڑکے سے اس کی محبت کا چکر چل رہا تھا۔ یہ دونوں آپس میں شادی کرنا چاہتے تھے، مگر ماں، باپ راضی نہیں تھے۔ وہ دونوں چھپ کر ملتے تھے۔ یہ تو آگ اور پانی کا کھیل ہوتا ہے۔ محبت کے ہاتھوں، رشیدہ کا دامن کانٹوں پر جا پڑا اور دریدہ ہو گیا۔ ادھر اس کی منگنی اس کے والدین نے اپنے رشتہ داروں کے ہاں کر دی۔ وہ بہت پریشان تھی اور اس سے زیادہ اس کی ماں پریشان تھی کیونکہ جو ہو چکا تھا، اس کا نتیجہ بہت جلد ظاہر ہونے والا تھا اور یہ بڑی پریشانی و بدنامی کی بات تھی۔ رشیدہ اور اس کے گھر والوں کے لیے یہ تو زندگی اور موت کا سوال تھا۔ کوئی راہ نہ پاکر رشیدہ کی ماں میری ماں کے پاس آئی اور ان کو اپنی پریشانیاں بتائیں۔ امی بہت رحم دل تھیں، اسے روتے دیکھ کر بولیں۔ بہن مجھ سے اور تو کچھ نہیں ہو سکتا، صرف تمہاری لڑکی کی جان اور تیری عزت بچانے کی خاطر تمہاری بیٹی کو رکھ لیتی ہوں ۔ رشیدہ کو تم میرے پاس چھوڑ جاؤ ۔ خدانے جو چاہا وہی ہوگا۔ یوں وہ بیٹی کو ہمارے گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔ اپنے رشتہ داروں اور شوہر سے کہہ دیا کہ رشیدہ بیمار تھی ۔ ڈاکٹروں نے آب و ہوا کی تبدیلی کا کہا ہے، اس لئے میں نے اس کو خالدہ کے گھر مری بھیج دیا ہے۔ ان دنوں ہم مری میں رہتے تھے، جہاں ہمارا ددھیال تھا۔ والد کویت میں ملازمت کر رہے تھے۔ وہ ہر ماہ اچھی خاصی رقم ہم کو بھجواتے تھے۔ خود وہ دو تین سال بعد چکر لگاتے تھے۔
ان کی غیر موجودگی میں رشیدہ کا ہمارے گھر رہنا اور راز کا راز رہنا دونوں ہی ممکن ہو سکے تھے کیونکہ رشیدہ کی ماں امی کی دور کی رشتہ دار بھی تھیں ۔ رشیدہ اپریل میں آئی اور اگست میں ایک بے بی کو جنم دیا۔ ایک ہفتے بعد وہ واپس اپنے والدین کے گھر پنڈی چلی گئی ۔ چند ماہ بعد اس کی شادی ہوگئی۔ رشیدہ کی خواہش تھی کہ یہ بچہ یتیم خانے یا لا وارثوں کے ادارے میں دینے سے بہتر ہے ، اس شخص کے حوالے کر دیا جائے جو اس کو اس دنیا میں لانے کا ذمہ دار ہے۔ وہ مجھے اس کا پتا دے گئی تھی۔ میں نے امی سے مشورہ کیا اور رشیدہ کے دیے ہوئے پتے پر اس شخص کو خط لکھ دیا کہ اپنا بچہ آکر لے جاؤ۔ خط لکھنے کے ہفتہ بعد وہ آیا اور اپنا بچہ لے گیا۔ اس کے بعد وہ پھر کبھی نہیں آیا۔ اس دوران میری شادی ہوگئی اور بچے بھی ہو گئے۔ شادی کو چودہ پندرہ برس بیت گئے تھے اور میں اپنی زندگی کی خوشیوں گم تھی ۔
یہ واقعہ میرے ذہن کے تہہ خانے میں ڈوب گیا، لیکن رشیدہ اس بچے کی یاد کو اپنے دل سے نہ نکال سکی۔ قدرت کی کرنی کہ شادی کے بعد اس کے اولاد بھی نہ ہوئی اور نہ بخار میں افاقہ ہوا۔ وہ جب آتی ، مجھ سے اپنے اس بچے کا ذکر ضرور کرتی تھی ، جسے اس نے سات دن کا چھوڑا تھا اور پھر اس کی صورت بھی نہ دیکھ سکی تھی۔ جب رشیدہ بیمار تھی تو وہ اور زیادہ اس بچے کو یاد کر کے روتی تھی کیونکہ اس کے شوہر نے اولاد کی خاطر دوسری شادی کرلی تھی اور اس کی سوکن کے گھر میں اس کی نگاہوں کے سامنے پانچ بچے کھیلتے پھرتے تھے۔ خدا جانے یہ غم تھا یا وہ کسی دیرینہ بیماری کا شکار تھی، بہر حال اس کا انتقال ہو گیا۔ یہ کہانی یہاں ختم ہو جاتی ، اگر وہ خط میں موصول نہ ہوتا ، جو رشیدہ کے اس محبوب نے مجھے لکھا
تھا، جس کا بچہ ہم نے اس کے سپر د کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ لڑکا اب بڑا ہو چکا ہے اور اپنی ماں کو صرف ایک بار دیکھنا چاہتا ہے۔ شاید ماں بھی اپنے بچے کی صورت دیکھنے کو ترستی ہو، تو کیا تم ایک بار اور ترس نہ کھاؤ گی۔ ایک بار ترس کھا کر تم نے اس معصوم جان کی زندگی بچائی تھی اور اس کو اس کے باپ کے حوالے کر کے، اسے اس دنیا میں زندہ رہنے کا حق دیا تھا۔
کیا دوسری بار تم اس کو اس کی ماں کا چہرہ نہ دکھاؤ گی؟ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آخری دفعہ
تم کو زحمت دے رہا ہوں، اس کے بعد میں اور میرا بیٹا اس ملک سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے، پھر بھی تم کو دوبارہ تنگ نہ کریں گے۔ یہ میرا وعدہ ہے، ایک احسان اور کر دو۔ اس شخص نے اپنا فرضی نام تحریر کیا تھا۔ اس نے خط کو کسی القاب کے بغیر ہی شروع کیا تھا، یعنی اوپر نہ تو میرا نام لکھا تھا اور نہ رشیدہ کا۔ شاید لکھنے والے نے اپنے طور پر احتیاط سے کام لیا تھا، مگر اس نادان شخص کی احتیاط میری زندگی برباد کر گئی۔
جب یہ خط میرے شوہر نے پڑھا تو وہ آگ بگولہ ہو گئے ۔ وہ یہی سمجھے کہ میں ماضی میں کئے گئے کسی گناہ کی قصور وار ہوں ۔ اس خط نے تو میرے گھر میں آگ لگادی۔ میری بے گناہی کا کوئی ثبوت، میرے پاس نہیں تھا۔ رشیدہ اور اس کی ماں فوت ہو چکی تھیں۔ میری امی بھی انتقال کر چکی تھیں ۔ ہمارے سوا اس راز کا امین وہی شخص تھا، جس نے وہ خط مجھے لکھا تھا۔ اس نے میرا پتا وہاں کسی رشتہ دار سے معلوم کر لیا تھا ، جہاں ہم ان دنوں مری شہر میں قیام پذیر تھے، تاہم اس نے اپنا پتا خط میں صرف یہ لکھا تھا کہ فلاں دن ، فلاں وقت ، فلاں جگہ ہم آئیں گے۔ یہ ہماری آخری ملاقات ہو گی ، صرف اس بچے کی خاطر کیونکہ اس کے گردے خراب ہو گئے ہیں ۔ ڈاکٹروں نے بیرون ملک علاج کرانے کا کہا ہے اور یہ ماں کی دعا لے کر کے جانا چاہتا ہے۔ اس فلاں جگہ، فلاں وقت میرے شوہر گئے، مگر ان کو کوئی نہ ملا کہ یہ ایک ریسٹورنٹ تھا۔
ہزاروں لوگ تھے ۔ ہجوم میں بھلا کون کس کے دل کی بات جان سکتا ہے۔ یہ بتاتے ہوئے درشہوار کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ، وہ کہہ رہی تھی۔ میں رو رو کر پاگل ہوگئی۔ میں نے لاکھ قسمیں کھائیں کہ مجھے اس شخص کا پتا نہیں معلوم ، مگر میرے شوہر نہ مانے۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ تم ہی اس بچے کی ماں ہو، ور نہ یہ شخص تمہارا پتا ڈھونڈ کر تم کو خط کیوں لکھتا ۔ رشیدہ کا قصہ ڈھونگ ہے ۔ تم اس شخص کا اتا پتا خوب جانتی ہو۔ آخر مجھے شوہر اور طلاق کے خوف سے زہریلی گولیوں کا سہارا لینا پڑا، کہ اب موت ہی میری بے گناہی کا ثبوت ہو سکتی ہے۔ درشہوار کی کہانی سن کر میں نے اسے تسلی دی اور ڈاکٹر صاحب کو اس کی کہانی سنائی ۔ انہوں نے اس کے گھر فون کیا ، پھر خود جا کر اس کے شوہر سے ملے اور اپنی مریضہ کی سچائی ثابت کرنے کی اس حد تک کوشش کی کہ اخبار میں اس خط کی چند سطور کے حوالے سے اشتہار دے کر اس شخص کا پتا مانگا اور اشتہار میں لکھا کہ ایک ماں اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے ہیں برس سے ترس رہی ہے۔ خدا را پتا بھیجئے تا کہ ملاقات کی سبیل پیدا ہو۔ اس اشتہار کی اشاعت کے پانچویں روز ایک خط در شہوار کے نام آیا، جو اس کے خاوند نے وصول کیا۔
اس میں اس شخص نے اپنا نام پتا درج کیا تھا اور در شہوار کو بہن کے لقب سے مخاطب کر کے خط کی ابتدا کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب در شہوار کے شوہر کو لے کر اس شخص سے ملے اور تمام حالات اس کی زبانی سنے، تب کہیں جا کر اس بے چاری خاتون کے شوہر صاحب کو اعتبار آیا اور پھر ڈاکٹر صاحب کی ذاتی کوشش سے ایک اجڑی ہوئی عورت کا گھر دوبارہ آباد ہو گیا ، جس نے شدید عالم مایوسی میں خودکشی کوشش کی تھی مگر اس کی زندگی باقی تھی ، سو وہ بچ گئی اور اپنے شوہر کے ہمراہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ خوش و خرم ہو گئی ۔ وہ جب تک زندہ رہے گی ، ڈاکٹر صاحب کو دعائیں دیتی رہے گی۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
2 تبصرے
Kahno lihkny KY Liye
جواب دیںحذف کریںKahni lihkny KY Liye
حذف کریں