ماضی کی سزا

sublimegate urdu stories

Sublimegate Urdu Stories

ماضی کی سزا - سبق آموز کہانی

قسط وار کہانیاں
کراچی کے حالات خراب ہوئے تو ہم شہر سے واپس اپنے گاؤں میں آبسے۔ یہاں ہماری زمین تھی۔ بابا کاشتکاری کرنے لگے۔ یہاں کھیتوں میں گھومنے پھرنے کی آزادی تھی۔ ہمارے گھر کے برابر میں بابا جان کے ایک کزن کا گھر تھا ان کو ہم تا با جی کہتے تھے۔ میں ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے جانے لگی۔ تایا کے بیٹے کا نام جنید تھا، میری اس کے ساتھ خوب بنتی تھی۔ 
 
جب اس نے پرائمری اسکول سے پانچ جماعتیں مکمل کر لیں تو ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ یہ اسکول گھر سے کافی دور تھا۔ وہ کڑکتی دھوپ میں سائیکل پر ایک لمبا فاصلہ طے کر کے اسکول جاتا تھا۔ اسے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، تبھی یہ کڑی تکلیف برداشت کرتا تھا۔ اسے شہر کے کالج میں داخلہ لینا تھا اور اپنا مستقبل بنانا تھا۔ جب وہ آٹھویں کلاس میں پہنچا تو ہمار حجاب ہو گیا، یعنی اب پہلے کی طرح نہیں مل سکتے تھے۔ آپس میں بات بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ گاؤں والوں کی نظروں میں ہم اب بڑے ہو گئے تھے۔ بڑوں کو ہمارے بڑے ہو جانے کا احساس ہو گیا تھا مگر ہمارے جذبے تو بچپن کے دنوں جیسے معصوم تھے۔ ابھی ان پر اجنبیت کار نگ نہیں چڑھا تھا۔ میرا اسکول جنید کے رستے میں پڑتا تھا۔ میں بے چینی سے اس کا انتظار کرتی لیکن، اس کی چھٹی دیر سے ہوتی تھی، تبھی میں اس کو دیکھ نہیں پاتی تھی۔ ایک دن ہمارے اسکول کی چھٹی ہوئی تو وہ مجھے نظر آگیا۔ اس نے رک کر خیریت دریافت کی، میں نے ذرا ناراضی کا اظہار کیا۔ کہا کہ تم کو کیا؟ کوئی مرے یا جیے، تمہاری بلا ہے۔
 
 وہ سمجھ گیا کہ میں اس سے نہ مل پانے کی وجہ سے خفا ہوں۔ تب اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ اسکول سے جلد آیا کرے گا۔ اب وہ چھٹی سے دو گھنٹے پہلے ہی اسکول سے نکل پڑتا اور جب ہمارے اسکول کی چھٹی ہوتی تو ادھر سے گزرتا ، تب ہم آگے جا کر برگد کے گھنے درخت تلے ٹھہر جاتے اور باتیں کرتے۔ دس پندرہ منٹ کی اس ملاقات کے لئے اسے روز اسکول سے بھاگنا پڑتا یا پھر وہ بہانے سے چھٹی کر لیتا۔ گھر والے پوچھتے کہ کیا ہوا ؟ تم اسکول سے اتنی جلدی کیسے آگئے ؟ وہ کہتا کہ آج ہمارے استاد نہیں آئے تھے، اس لئے واپس آگیا۔ ان دنوں میں ایک نادان لڑکی تھی۔ یہ احساس نہ تھا چند منٹ کی ملاقات کی خاطر بچارے جنید کا کتنا نقصان کرارہی ہوں۔ مسلسل اسکول سے بھاگنے اور روز روز چھٹیاں کرنے کی وجہ سے اس کا تعلیمی ریکار ڈ خراب ہونے لگا۔ وہ ایک ہو نہار طالب علم تھا، استاد اس سے پیار کرتے تھے ، مگر اب ان کی ڈانٹ سہنی پڑتی ، تاہم وہ بھی نادان عمر میں تھا۔ اس کو اپنے تاریک ہوتے مستقبل کی کب پر وا تھی۔ اس کو تو یہ پروا تھی کہ میں ناراض نہ ہو جاؤں۔

ہمارے گاؤں میں لڑکیاں نہر سے میٹھا پانی بھر کر لاتی تھیں۔ کبھی اور لڑکیاں بھی میرے ساتھ ہو تیں اور کبھی میں اکیلی پانی بھر نے چلی جاتی۔ تب بھی مجھے جنید سے باتیں کرنے کا موقعہ مل جاتا کیونکہ وہ اپنے آنگن سے دیکھ لیتا کہ میں اکیلی پانی بھر نے جارہی ہوں، وہ میرے پیچھے آجاتا۔ ہمارے گھروں کے بیچ کی دیوارا تنی اونچی نہ تھی۔ پنجوں کے بل کھڑے ہو کر ہمارے صحن میں جھانکا جا سکتا تھا۔ جب میں نے چھٹی جماعت پاس کر لی مجھے اسکول سے ہٹا لیا گیا۔ اب اپنی چھ سالہ بھتیجی کے ساتھ نہر سے پانی بھر نے جاتی تھی۔ اکثر نہر پر جنید اور میں ایک دوسرے کو دل کی بات سناتے۔ پہلے تو ہم بلا جھجک ایک دوسرے کو اپنے دل کی بات سناتے۔ ڈرتے ڈرتے اس کے ساتھ بات کرتی کیونکہ گاؤں کی لڑکیاں ہمارے بارے طرح طرح کی باتیں کرنے لگی تھیں۔ گاؤں کے لوگوں نے بھی ہمیں نوٹس کرنا شروع کر دیا۔
 ان دنوں جنید نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ بورڈکا امتحان ہونا تھا۔ اب اسے دل لگا کر پڑھنے کی ضرورت تھی اور حاضریاں بھی پوری کرنا تھیں۔ اس کے ایک استاد ، بہت شفیق اور اچھے تھے۔ وہ اسے سمجھاتے کہ پڑھائی پر توجہ دوور نہ فیل ہو جاؤ گے۔ جب وہ نہ سمجھا تو انہوں نے تایا جی کو آکر بتادیا کہ آپ کا بیٹا پڑھائی پر توجہ نہیں دیتا۔ اگر اس نے یونہی لا پروائی جاری رکھی تو میٹرک پاس نہ کر سکے گا۔ تایا جی نے جنید کو بہت ڈانٹا۔ تب اس نے پڑھائی پر توجہ دی اور مجھ سے ملنا ترک کر دیا۔ مجھے بھی سمجھایا کچھ دنوں کی بات ہے، اگر میں نے سنجیدگی سے پڑھائی نہ کی تو میرا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ بیں نے یہ بات سمجھ لی، سوچا کہ اس میں جنید کا فائدہ ہے اور اس کا فائدہ، میرا فائدہ ہے ۔ اب وہ نہ بھی ملتا، تو میں اس سے ناراض نہ ہوتی۔ کہتی کہ تم دھیان لگا کر پڑھو۔ میں اداس ہو جاؤں گی تو تمہارے گھر آجاؤ گی لیکن گھر کے اندر نہیں آؤں گی باڑے میں بیٹھ جاؤں گی۔ ان کے باڑے میں بہت سے کبوتر تھے جو بڑے بڑے پنجروں میں تھے۔ میں اپنے چھوٹے بھتیجے کو وہاں لے جاتی ، تب میری آواز سن کر جنید بھی وہاں آجاتا اور ہم بات کر لیتے ۔ امی کو شک ہوا کہ یہ بھتیجے کو لے کر کہاں جاتی ہے ؟ اب جو نبی منو کو لے کر گھر سے نکلتی ، ماں میرے پیچھے نکل پڑتی اور سایے کی طرح ساتھ چلنے لگتی ، تب میں باڑے جانے کی بجائے واپس گھر چلی جاتی۔
 
 ہم چونکہ بچپن سے ساتھ کھیلے تھے، باتیں کرتے تھے ، تو اب بھی ہمیں باتیں کر تاد یکھ کر رشتہ داروں کو شک نہیں ہوتا تھا، مگر ماں کو پریشانی لگ جاتی۔ وہ میرے بہن بھائیوں سے کہتی کہ سونی کو اگر کسی سے باتیں کرتے دیکھو تو مجھے بتانا۔ اب یہ بڑی ہو گئی ہے۔ اس کو باہر گلی میں کھڑے ہو کر کسی سے بات چیت نہیں کرنا چاہئے ، حالانکہ میں اس وقت گیارہ بارہ سال کی تھی۔ جنید کارزلٹ آگیا تھا۔ وہ یہ خوشخبری مجھے سنانا چاہتا تھا۔ پرچوں کی تیاری میں مصروف رہنے کی وجہ سے ایک ڈیڑھ ماہ سے وہ مجھ سے نہیں ملا تھا۔ میں صحن میں تھی کہ اس نے اپنے گھر کی دیوار سے ہمارے صحن میں جھانکا اور مجھے اشارہ کیا کہ آجاؤ ۔ میں نے اشارے سے اسے بتایا کہ امی گھر پہ نہیں ہیں۔ تب اس نے اشارے میں پوچھا کہ کیا میں آجاؤں؟ میں سوچ میں پڑگئی کیونکہ دو بھا بھیاں گھر میں تھیں اور بہن بھی۔ سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ یہ دو پہر ایک بجے کا وقت تھا۔ جانے اس کے سر پر کیا بھوت سوار ہوا کہ وہ دیوار پھلانگ کر ہمارے صحن میں آگیا۔ بے شک وہ بچپن میں بلا روک ٹوک گھر میں آجاتا تھا، مگر اب تو وہ بڑا ہو چکا تھا۔ میں اس کو اپنے سامنے دیکھ کر گھبراگئی۔ ہمارے گھر کے سب کمرے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ جس کمرے میں باہر کو کھڑ کی تھی، میں نے ادھر کے دروازے کی کنڈی لگائی۔ اب میں ڈر بھی رہی تھی اور جنید سے باتیں بھی کر رہی تھی۔ اچانک برابر والے کمرے سے بھا بھی نے دروازے کو ہلایا۔ وہ نہ کھلا ۔ بھابھی نے کنڈی بجانا شروع کر دی۔ ہمارے دل کانپنے لگے۔
 وہ سمجھیں کہ ادھر والے کمرے میں کوئی نہیں ہے۔ وہ دوسری طرف کے دروازے سے باہر نکلیں۔ میں بھی جلدی سے باہر نکلی اور جنید کو کہا کہ تم ابھی اندر ہی رہو ، باہر مت نکلنا اور خود باہر نکل کر کنڈی لگادی تا کہ بھا بھی یہ سمجھیں کہ اندر کوئی نہیں ہے۔ بھابھی نے پوچھا۔ یہ کنڈی کس نے لگائی ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ شاید بچوں میں سے کسی نے لگادی ہو گی۔ بھابھی نے شک نہیں کیا اور دوسری طرف چلی گئیں لیکن اندر جنید بند تھا۔ شاید وہ خوفزدہ ہو چکا تھا۔ اس نے آہستہ سے کمرے کی دیوار میں لگی کھڑ کی کھولی اور اشارہ کیا کہ مجھ کو باہر نکالو میں نے اشارہ سے کہا کہ صبر کرو۔ بھا بھی کمرے میں چلی جائیں تو کھولتی ہوں۔

جنید سے صبر نہ ہوا اس نے ایک دو منٹ میں ہی دوبارہ کھڑ کی کھولی۔ اسی دوران بھا بھی اپنے کمرے سے باہر نکلیں تو ان کی نظر جنید پر پڑ گئی، جو ادھ کھلی کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔ وہ اس کو دیکھ کر حیران رہ گیں اور میری بہن کو بلانے دوڑیں، تبھی جلدی سے میں نے کنڈی کھول دی اور جنید باہر آگیا۔ وہ خوفزدہ تھا۔ بھا بھی جنید سے مخاطب ہوئی کہ بھائی محلے میں ایسا کام نہیں کرتے دن دھاڑے ہمارے گھر میں گھسے ہو اور آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہو۔ میں نے ایسا کون سا کام کیا ہے۔ میں تو اپنی چھوٹی بہن ساحرہ کو دیکھنے یہاں آیا تھا۔ کمرے میں قدم رکھا تو جانے کس نے باہر سے دروازہ بند کر دیا۔ وہ یہ کہہ کر نکل گیا، مگر بھا بھی نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا اور مجھ سے کہا کہ تم کیا مجھے بے وقوف سمجھتی ہو۔ ایسی باتوں سے گھر کی عزت خاک میں ملتی ہے۔ رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تمہارے بھائی آجائیں تو میں یہ بات ان کو ضرور بتاؤں گی۔ بھابھی کے تیور دیکھ کر میری جان نکل گئی۔ بھائی اپنے مقدمے کی پیشی کے سلسلے میں دو دن سے شہر گئے ہوئے تھے۔ میں دعا کرنے لگی کہ اے اللہ! کچھ ایسا ہو کہ بڑے بھائی گھر ہی نہ آئیں ، ورنہ وہ مجھے اور جنید کو مار دیں گے کیونکہ بھا بھی یہ بات ان کو ضرور بتائیں گی۔ اس لمحے کے بعد سے میری جان سولی پر اٹکی ہوئی تھی اور دل میں وسوسے تھے کہ اب کیا ہو گا۔ آخر کار یو نہی ڈرتے ڈرتے شام ہو گئی۔ شام کو میں روز کی طرح پانی بھر نے نکلی ، تو ماں دروازے پر پریشان کھڑی تھیں۔
 وہیں سے مجھے لعن طعن کرنے لگیں کہ تو نے مجھ کو کہیں کا نہ رکھا۔ دیکھ تیری بھا بھی کیا کہہ رہی ہے۔ اب تیرا بھائی جب شہر سے آئے گا تو یہ اس کو بھی ایک کی سولگائے گی۔ تبھی میں نے بلک کر دعا مانگی کہ خدا کرے بڑا بھائی کبھی شہر سے واپس نہ آسکے۔ خیر ، ماں نے ابا سے یہ بات چھپائی، لیکن دادی کو لے کر تایا جی کے پاس جا کر شکایت کی تب انہوں نے جنید سے پوچھا کہ تو ان کے گھر کس لئے گیا تھا ؟ وہ بولا۔ میں ساحرہ کو ڈھونڈ نے کیا تھا۔ وہ صبح سے نجانے کہاں غائب تھی۔ میں اندر گیا تو کسی نے باہر سے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ تایا جی نے کہا۔ کیا تو اس قدر نادان ہے؟ تجھے اتنا پتا نہیں کہ کسی کے گھر کے اندر ایسے نہیں جاتے۔ انہوں نے بیٹے کو مارا تو نہیں لیکن بہت برا بھلا کہا۔ جنید کی غلطی تھی، وہ گردن نیچے کر کے باپ کی گالیاں سنتا رہا۔ ان کو زیادہ فکر اس بات کی تھی اگر بات میرے بڑے بھائی تک پہنچ گئی تو بڑا برا ہو گا۔ وہ بڑا ہی خونخوار تھا۔ پہلے ہی اس پر قتل کا کیس بنا ہوا تھا، جس کی پیشی پر وہ شہر گیا ہوا تھا۔ امی نے بھی مجھے بہت کوسا کیونکہ وہ بھابھی سے ڈرتی تھیں کہ وہ دل کی خراب تھی۔

جانے میں نے کس دل سے دعا مانگی تھی کہ واقعی بھائی لوٹ کر گھر نہ آسکا۔ اسے سات سال کی سزا ہو گئی اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ جنید میٹرک میں ، اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تو تا یا جی نے اسے پڑھنے کے لئے شہر بھجوادیا اور پیچھے ماں نے میری شادی اپنے بھائی کے بیٹے سے کرادی۔ مجھے جنید سے بچھڑنے کا دکھ تو ضرور ہوا لیکن جیسا میری قسمت میں لکھا تھا، وہ ہو گیا۔ بے بس کا کسی پر زور نہ چلے تو وہ اپنی قسمت کو مان کر حالات کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ میں نے بھی قسمت سے سمجھوتہ کر لیا۔ جنید مجھے یاد آتا تھا مگر یوں دل پر صبر کا پتھر رکھ لیتی۔ دعا کرتی کہ خدا کرے وہ جہاں رہے خوش رہے اور کبھی میری یاد سے بے قرار نہ ہو۔ بھائی سات سال کی سزا بھگت کر بالآخر جیل سے باہر آگیا۔ کسی کو وہ واقعہ یاد نہ تھا۔ سبھی بھائی کی رہائی پا جانے پر خوش تھے کہ مدت بعد گھر آنا نصیب ہوا تھا۔ جنید بھی گاؤں آگیا تھا۔ تایا جی نے اسے کریانہ کی دکان کھول دی تھی۔
 ایک دن بیٹھے بیٹھائے اچانک بھابھی کے جی میں کیا سمائی کہ اس نے بڑے بھائی کو نمک مرچ لگا کر وہ واقعہ بتادیا کہ جنید کمرے میں تھا اور میں نے باہر سے کنڈی لگارکھی تھی۔ بڑے بھائی نے جب یہ بات سنی تو اسی وقت گھر سے چلا گیا اور اور شام تک نہ لوٹا۔ سب دعا کر رہے تھے کہ خدا خیر کرے، کہاں چلا گیا ہے ؟ اور کیوں نہیں آیا ہے۔ اچانک صبح چار بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ امی نے پوچھا۔ کون ہے ؟ تایا زاد نے کہا۔ چاچی دروازہ کھول، میں ہوں صغیر ۔ جلدی کرو ایک بری خبر ہے۔ ماں کا دل دھک سے رہ گیا۔ صغیر اندر آیا اور بولا۔ بڑے بھائی نے کلہاڑی سے جنید کا قتل کر دیا ہے۔ یہ تو کیا کہہ رہا ہے ؟ ماں ایسا کہتے ہوئے پچھاڑ کھا کر د ہلیز کے پاس گر گئی۔ ان کے لبوں سے ایک ہی فقرہ نکل سکا۔ یہ کیا کر دیا اس کم عقل نے، ابھی تو وہ سات سال کی سزا بھگت کے آیا تھا۔ صغیر ماں کو اٹھا کر اندر لایا اور برآمدے میں پڑی چار پائی پر لٹادیا، جو صدمے سے بے سدھ ہو چکی تھی۔ سب ماں کو ہوش میں لانے کی تدبیریں کرنے لگے۔ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اتنے عرصہ پہلے کا قصہ پھر سے تازہ ہو جائے گا بلا اجازت گھر میں داخل ہونے کی اتنی سی بات پر میرے والدین نے خود جنید کے ابا نے اسے کچھ نہ کہا اور معمولی سرزنش کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا۔

ہماری بھابھی نے اس کو عزت کا معاملہ بنا کر بڑے بھائی کو اشتعال دلایا۔ یوں جنید جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی قتل ہو گیا اور ہمارا گھرانہ بھی برباد ہو گیا کیونکہ بڑے بھائی کو قتل کے جرم میں دوبارہ سزا ہو گئی۔ اس بار عمر قید نہیں ہوئی بلکہ سزائے موت ہو گئی۔ میرے خاوند نے تو یہ بیان دے کر مجھے بچا لیا کہ میری بیوی پاک دامن ہے اور یہ میرے گھر میں تھی۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جس سے میری بیوی کی عزت خاک میں مل گئی ہو ، مگر بھا بھی کو اپنی شیطانی سوچ کی سزا مل گئی اور میرا بھائی اور اس کا سہاگ سولی پر چڑھ گیا۔ وہ بیوہ اور اس کے بچے یتیم ہو گئے۔ سچ ہے، کبھی گزری بات کو نہیں اچھالنا چاہیے اور نہ ہی کسی پر بہتان لگانا چاہیے۔ جب تک کسی کا گناہ کوئی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا جائے۔ دعا ہے کہ خدا میرے شوہر جیسا نیک انسان ہر کسی کو دے اور میری بھا بھی جیسی بیوقوف عورت کسی مرد کو نہ دے۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے