Urdu Font Stories
محبت کا امتحان - (دو سہیلیوں کی درد بھری کہانی)
قسط وار کہانیاں |
پسندیدگی کے جذبات دونوں طرف ہوں تو محبت کی گاڑی سرپٹ دوڑنے لگتی ہے۔ ماہم اور سالار بھی ان راہوں کے مسافر ہو گئے تھے جن کی منزل محبت سے زیادہ محبت کا حصول ہوتی ہے۔ دونوں کی پسندیدگی کی منزل ایک دوسرے سے شادی کرنا تھی، لیکن یہ جنت تو قسمت والوں کو ملتی ہے۔ سالار اور ماہم انجام سے بے خبر اپنی منزل کی جستجو میں جئے جا رہے تھے کہ ایک روز ماہم نے اپنی پیاری سہیلی سارہ سے کہا:تم ہی کچھ تدبیر کرو کہ میری اور سالار کی شادی ہو جائے۔ اِدھر مجھ کو والدین کو اپنی مرضی بتانے سے ڈر لگتا ہے، تو اُدھر سالار بھی اسی مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے والدین خالص دیہاتی ہیں، وہ کبھی مجھ کو بہو بنانا پسند نہ کریں گے۔ یہ لوگ رشتے اپنوں میں ہی کرتے ہیں۔
سارہ نے کہا، تیری محبت کی کہانی بڑی روایتی ہے بنو! اگر حوصلہ نہ ہو تو دریا میں نہیں اُترنا چاہیے۔ چلو حل نکالتے ہیں تمہارے مسئلے کا۔ پہلے تم ایم اے تو پورا کر لو اور مجھے اپنے اس گل غام سے بھی ملواؤ جس سے شادی کرنے کی آرزو میں تم مری جا رہی ہو۔ سالار گاؤں سے پڑھنے آیا ہوا تھا، لہٰذا اپنے والد کے ایک دوست کے مکان میں قیام پذیر تھا۔ گاؤں سے وہ ایک ملازم بھی لایا تھا جو اس کا کھانا پکانا اور دیگر کام کرتا تھا۔ گاڑی اس کو اس کے انکل نے دی ہوئی تھی کہ جب ضرورت ہو، لے لیا کرو۔ ان سب سہولیات کے میسر ہونے کے باوجود سالار نے کبھی اپنے انکل کی مہربانیوں سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا تھا۔ وہ چاہتا تو ماہم کو اپنی رہائش گاہ لے جاتا، جہاں وہ اکیلا رہتا تھا، لیکن اس نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ان کے تعلق کو دو سال ہونے کو آئے تھے مگر وہ کبھی تنہائی میں ملاقات نہ کرتے۔ جب بھی ملتے، پبلک پلیس پر ملتے۔ دونوں کے دلوں میں کھوٹ تھا اور نہ برائی کا خیال۔ اسی سبب ایک دوسرے کی عزت بھی قائم تھی۔
سارہ کی فرمائش پر ماہم نے اس کا تعارف سالار سے کرایا۔ سارہ بولی، بھئی بھلا اتنے لوگوں کی موجودگی میں کیا بات ہو سکتی ہے۔ سالار سے کہو کہ ہمیں اپنی قیام گاہ پر مدعو کرے۔ماہم بولی، وہ اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ ہاں تم کو چائے پلانے کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں لے جا سکتا ہے یا پھر کلفٹن کے ساحل پر۔ تم کہاں اس سے ملنا پسند کرو گی؟سارہ نے کہا، دونوں جگہ، کیونکہ میں تمہاری طرح بزدل نہیں ہوں اور نہ اپنی بدنامی سے ڈرتی ہوں۔ انسان کو خود اچھا ہونا چاہیے۔ اگر اپنے پر اعتماد ہو تو کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ماہم ایک سیدھی سادی لڑکی تھی۔ وہ ایسی فلسفیانہ باتیں کرنا نہ جانتی تھی، اور نہ ہی وہ سارہ کے جیسی چالاک تھی۔ اس نے سالار کو بتایا کہ اس کی عزیز از جان سہیلی اس سے اکیلے میں ملنا چاہتی ہے۔سالار نے ہنستے ہوئے کہا، کیا وہ تم کو بھی مائنس کرنا چاہتی ہے؟ماہم نے کہا، نہیں بابا۔سالار بولا، پھر تو مجھے بخشو۔ یہ بات سالار نے کچھ اس انداز سے کہی کہ ماہم ہنس پڑی۔سالار نے کہا، ہنس کیوں رہی ہو؟ میں تو اس وجہ سے تمہاری سہیلی سے ملنا چاہ رہا تھا کہ اس کے ذریعے ہم آسانی سے مل سکتے تھے۔
سارہ کی فرمائش پر ماہم نے اس کا تعارف سالار سے کرایا۔ سارہ بولی، بھئی بھلا اتنے لوگوں کی موجودگی میں کیا بات ہو سکتی ہے۔ سالار سے کہو کہ ہمیں اپنی قیام گاہ پر مدعو کرے۔ماہم بولی، وہ اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ ہاں تم کو چائے پلانے کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں لے جا سکتا ہے یا پھر کلفٹن کے ساحل پر۔ تم کہاں اس سے ملنا پسند کرو گی؟سارہ نے کہا، دونوں جگہ، کیونکہ میں تمہاری طرح بزدل نہیں ہوں اور نہ اپنی بدنامی سے ڈرتی ہوں۔ انسان کو خود اچھا ہونا چاہیے۔ اگر اپنے پر اعتماد ہو تو کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ماہم ایک سیدھی سادی لڑکی تھی۔ وہ ایسی فلسفیانہ باتیں کرنا نہ جانتی تھی، اور نہ ہی وہ سارہ کے جیسی چالاک تھی۔ اس نے سالار کو بتایا کہ اس کی عزیز از جان سہیلی اس سے اکیلے میں ملنا چاہتی ہے۔سالار نے ہنستے ہوئے کہا، کیا وہ تم کو بھی مائنس کرنا چاہتی ہے؟ماہم نے کہا، نہیں بابا۔سالار بولا، پھر تو مجھے بخشو۔ یہ بات سالار نے کچھ اس انداز سے کہی کہ ماہم ہنس پڑی۔سالار نے کہا، ہنس کیوں رہی ہو؟ میں تو اس وجہ سے تمہاری سہیلی سے ملنا چاہ رہا تھا کہ اس کے ذریعے ہم آسانی سے مل سکتے تھے۔
تم میرے ساتھ اکیلے سیر کو جانے پر ہچکچاتی ہو۔ جب ہم تین ہوں گے تو نہیں ہچکچاؤ گی۔خیر، اس کے بعد ماہم اور سالار کی ملاقاتیں آسان ہو گئیں۔ پہلے وہ صرف یونیورسٹی کی حد تک بات چیت کر لیتے تھے، اب سارہ ہمراہ ہوتی تو باہر بھی ملنے میں آسانی محسوس کرتے کیونکہ سارہ ان دونوں کے درمیان رابطہ بن گئی تھی۔ وہ ان دونوں کو ملاقات کے لیے موقع فراہم کرتی تھی، لیکن خود بھی ان کے ساتھ ہوتی۔ ماہم تو پہلے ہی سارہ کی گرویدہ تھی، اب اور بھی احسان مند ہو گئی۔ ماہم خوبصورت تھی، لیکن بہت سادہ طبیعت اور دیانتدارانہ سوچ کی مالک تھی، جبکہ سارہ قدرے چالاک اور فیشن ایبل تھی۔ وہ ہمہ وقت خود پر توجہ مرکوز رکھتی اور اپنے آپ کو نک سک سے درست رکھتی تھی۔ اپنی سانولی صورت کے سبب اس کی شخصیت میں احساس کمتری نے جگہ پالی تھی، جس کو وہ اچھے لباس اور میک اپ سے پورا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ باتیں بھی خوب چٹک مٹک والی کرتی، تبھی محفل میں ماہم سے زیادہ توجہ کا مرکز بن جاتی تھی۔
دراصل وہ کبھی یہ برداشت نہ کر سکتی تھی کہ ماہم کے مقابل کوئی اس کو نظرانداز کرے۔ اگر ایسا محسوس کرتی تو بہت زیادہ افسردہ ہو جاتی تھی۔ ماہم اپنی سہیلی کو اتنی پیاری تھی کہ وہ اس کو افسردہ نہیں دیکھ سکتی تھی، سو اس کی آزردگی کا خیال کرکے خود سے آگے آگے رکھتی اور اپنا آپ پس منظر میں رکھنے کی کوشش کرتی تاکہ سارہ کو تکلیف نہ ہو۔ جب یونیورسٹی میں سالار فارغ وقت میں آتا تو ماہم سارہ کی تعریفیں کرتی، شعوری طور پر اس کے دل میں سہیلی کے لیے جگہ بنانے کی سعی کرتی تاکہ سالار بھی اس کو اتنی ہی اہمیت دے جتنی وہ دیتی تھی۔ وہ ساتھ ہوتی تو موقع دیتی کہ وہ اسی سے باتیں کرے اور خود اپنی توجہ ادھر ادھر کر لیتی۔
سالار ماہم کی اس مجبوری کو سمجھتا تھا، تبھی سارہ کو توجہ دیتا اور اس سے خوب گپ شپ کرتا۔ اب سارہ نے جان لیا کہ ماہم اور سالار کی ملاقاتیں بالکل معصوم ہیں۔ ان کی سوچوں میں کسی قسم کی آلودگی کا دخل نہ تھا۔ وہ سیدھے سادے طریقے سے جلد از جلد شادی کے بندھن میں بندھ جانا چاہتے تھے، اور اس کے لیے ماہم کو سارہ کی مدد درکار تھی۔ سالار کو ماہم کی سہیلی کے ساتھ ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کو ہرگز دھوکا دینا نہیں چاہتا تھا، اور ماہم بھی ایسی لڑکی نہ تھی جو محض تفریح کے لیے فلرٹ کرتی ہو۔ وہ تو خود کو اس کی شریک حیات کے طور پر دیکھتی تھی۔ بے شک دونوں شادی کے خواہاں تھے، لیکن ان کے گھر والے اڑچن ڈال رہے تھے۔ ان کو رضامند کرنا آسان نہ تھا۔
سالار ماہم کی اس مجبوری کو سمجھتا تھا، تبھی سارہ کو توجہ دیتا اور اس سے خوب گپ شپ کرتا۔ اب سارہ نے جان لیا کہ ماہم اور سالار کی ملاقاتیں بالکل معصوم ہیں۔ ان کی سوچوں میں کسی قسم کی آلودگی کا دخل نہ تھا۔ وہ سیدھے سادے طریقے سے جلد از جلد شادی کے بندھن میں بندھ جانا چاہتے تھے، اور اس کے لیے ماہم کو سارہ کی مدد درکار تھی۔ سالار کو ماہم کی سہیلی کے ساتھ ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کو ہرگز دھوکا دینا نہیں چاہتا تھا، اور ماہم بھی ایسی لڑکی نہ تھی جو محض تفریح کے لیے فلرٹ کرتی ہو۔ وہ تو خود کو اس کی شریک حیات کے طور پر دیکھتی تھی۔ بے شک دونوں شادی کے خواہاں تھے، لیکن ان کے گھر والے اڑچن ڈال رہے تھے۔ ان کو رضامند کرنا آسان نہ تھا۔
ایک طرف شہری اور دیہاتی زندگی کا تضاد تھا، تو دوسری جانب ماہم کے خاندان میں ایک سے ایک اچھے رشتے موجود تھے، مگر ماہم کسی رشتے پر راضی نہ تھی۔ جس دل کو کسی کی لگن لگی ہو، اس کے ساتھ زبردستی کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔ والدین کے انکار پر جب وہ اداس و پژمردہ رہنے لگی، تو ماں باپ کو اس بارے میں سوچنا ہی پڑا۔ آخر وہ ان کے دل کا ٹکڑا تھی اور والدین کو اس کی خوشیاں عزیز تھیں۔ وہ اس بات میں حق بجانب تھی کہ اپنی پسند کے کسی شریف لڑکے کے ساتھ زندگی گزارے۔ کسی اور سے اسے زبردستی شادی پر مجبور کرنا والدین کو ظلم محسوس ہوا۔ جب دیکھا کہ بیٹی بیمار پڑ گئی ہے، تو انہوں نے ہار مان لی اور سالار کو گھر بلا کر ماہم کے والد نے اس سے بات چیت کی۔ انہوں نے لڑکے کو پسند کیا، لیکن ایک شرط بھی رکھی کہ اگر وہ اپنے والدین کو راضی کرلے، تو شادی ہو سکتی ہے۔ اب مشکل سالار کی طرف سے تھی۔ اُدھر ماہم کا دم لبوں پر اٹکا ہوا تھا۔
امید و بیم کی کیفیت نے اسے اور زیادہ بیمار ڈال دیا تھا کہ نہ جانے سالار کے والدین راضی ہوں گے یا نہیں۔ وہ بار بار سارہ سے کہتی: ابو نے کیسی شرط لگا دی ہے؟ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ سالار کے والدین راضی نہیں ہوں گے۔ اس کا تو مطلب انکار کرنا ہی ہوا نا؟سارہ اسے تسلی دیتی، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ذرا صبر کرو۔ میں سالار کو سمجھاتی ہوں کہ اسے کیا کرنا چاہیے تاکہ اس کے والدین بھی راضی ہو جائیں۔ بالآخر سالار نے بھی وہی حربہ استعمال کیا۔ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور ایک روز بیگ میں چند جوڑے رکھ کر گھر والوں سے کہا کہ وہ ہمیشہ کے لیے ان کا گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ اگر اسے روکنے کی کوشش کی گئی، تو وہ خودکشی کر لے گا۔
والدین جانتے تھے کہ لڑکا جوان ہے، اسے خودکشی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر وہ جا کر شہر میں اس لڑکی سے نکاح کر لے، تو بھی کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ بیٹا ہاتھ سے نکل جائے گا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ سالار کے والد نے سوچا۔ بیوی نے بھی شوہر کو سمجھایا کہ یہ نئے زمانے کے بچے ہیں، ان پر زبردستی اپنی مرضی نہیں ٹھونسی جا سکتی۔ یوں سالار کے والدین ماہم کو بہو بنانے پر راضی ہو گئے اور رشتے کا پیغام لے کر ماہم کے والدین کے پاس چلے گئے۔ تھوڑی سی حیل و حجت کے بعد رشتہ منظور کر لیا گیا۔ منہ میٹھا کرانے کو مٹھائی منگوائی گئی اور رسمِ منگنی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ یوں سالار اور ماہم کو زندگی کی وہ خوشی نصیب ہوئی جو بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔ دونوں بے پناہ خوش تھے۔ وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ ان کا مسئلہ یوں بھی حل ہو سکتا ہے۔ بہت زیادہ نا امیدی کے بعد جب خوشی ملے تو آدمی حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ ماہم تو اتنی خوش تھی کہ سارہ سے لپٹ کر رو پڑی۔ سارہ نے کہا:ماہم، تم بھی عجیب لڑکی ہو! لوگ خوشی میں قہقہے لگاتے ہیں اور تم رو رہی ہو۔
منگنی کے بعد دونوں کا آپس میں ملنا دشوار ہو گیا۔ خاندانی روایات کے مطابق اب شادی تک وہ نہیں مل سکتے تھے۔ دونوں خاندان ہی اس روایت کے پابند تھے۔ ان کی ملاقات صرف سارہ کروا سکتی تھی، لیکن اس نے بھی ان کی ملاقات کا ذریعہ بننے سے انکار کر دیا۔ بولی:اگر انکل اور آنٹی کو پتا چل گیا، تو وہ مجھ سے بدظن ہو جائیں گے۔ لہٰذا اب دونوں تھوڑے عرصے کی دوری برداشت کر لو۔ البتہ وہ ان کے نامہ پیغام کا ذریعہ ضرور بنی رہی۔ جب بھی سارہ سالار کا خط ماہم کو لا کر دیتی، وہ اس کے ہاتھ چوم لیتی اور کہتی:تمہارے بغیر تو میں مر ہی جاتی۔ اُس زمانے میں موبائل فون کا رواج نہ تھا، اس لیے خطوط ہی آدھی ملاقات کا ذریعہ ہوتے تھے۔ اب اکثر ماہم کے پیغامات پہنچانے کے باعث سارہ کو سالار سے ملنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اُس پر تو سالار سے ملنے پر کوئی پابندی نہ تھی، جب چاہتی اس سے ملنے چلی جاتی۔ بار بار کی ان ملاقاتوں سے سارہ کا دل سہیلی کے منگیتر کی جانب مائل ہونے لگا۔ اسے سالار سے ملے بغیر چین نہ آتا۔ سج سنور کر جاتی، تو سالار کو بھی اس کی طرف دیکھنے کا موقع ملتا۔ اب ماہم تو نگاہوں سے اوجھل ہو گئی، اور ایک اور لڑکی مسلسل روبرو آتی رہتی تھی۔ وہ مروت میں محبوبہ کی سہیلی کو چائے پلانے اور ریسٹورنٹ لے جانے لگا۔
منگنی کے بعد دونوں کا آپس میں ملنا دشوار ہو گیا۔ خاندانی روایات کے مطابق اب شادی تک وہ نہیں مل سکتے تھے۔ دونوں خاندان ہی اس روایت کے پابند تھے۔ ان کی ملاقات صرف سارہ کروا سکتی تھی، لیکن اس نے بھی ان کی ملاقات کا ذریعہ بننے سے انکار کر دیا۔ بولی:اگر انکل اور آنٹی کو پتا چل گیا، تو وہ مجھ سے بدظن ہو جائیں گے۔ لہٰذا اب دونوں تھوڑے عرصے کی دوری برداشت کر لو۔ البتہ وہ ان کے نامہ پیغام کا ذریعہ ضرور بنی رہی۔ جب بھی سارہ سالار کا خط ماہم کو لا کر دیتی، وہ اس کے ہاتھ چوم لیتی اور کہتی:تمہارے بغیر تو میں مر ہی جاتی۔ اُس زمانے میں موبائل فون کا رواج نہ تھا، اس لیے خطوط ہی آدھی ملاقات کا ذریعہ ہوتے تھے۔ اب اکثر ماہم کے پیغامات پہنچانے کے باعث سارہ کو سالار سے ملنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اُس پر تو سالار سے ملنے پر کوئی پابندی نہ تھی، جب چاہتی اس سے ملنے چلی جاتی۔ بار بار کی ان ملاقاتوں سے سارہ کا دل سہیلی کے منگیتر کی جانب مائل ہونے لگا۔ اسے سالار سے ملے بغیر چین نہ آتا۔ سج سنور کر جاتی، تو سالار کو بھی اس کی طرف دیکھنے کا موقع ملتا۔ اب ماہم تو نگاہوں سے اوجھل ہو گئی، اور ایک اور لڑکی مسلسل روبرو آتی رہتی تھی۔ وہ مروت میں محبوبہ کی سہیلی کو چائے پلانے اور ریسٹورنٹ لے جانے لگا۔
احسان مند تھا کہ وہ اس کی محبوبہ کے خط پہنچانے آتی تھی، لیکن کسی کو کیا خبر کہ وہ اپنے دل کی مجبوری سے بھی آتی ہے۔ وہ اکثر سالار سے کہتی کہ اسے کلفٹن لے چلے۔ گاڑی میسر تھی، اور سالار کو انکار کرتے نہ بنتا۔ اس نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ دیوانی لڑکی اس کی قربت میں خوش ہو جاتی ہے، خوب چہک چہک کر باتیں کرتی، اور سیر کے وقت کو طول دینے کی کوشش کرتی۔ شام سے رات ہو جاتی، تب بھی وہ کہتی، ذرا اور رکو، ابھی سیر سے جی نہیں بھرا۔ تمہارے کون سے ایسے کام رکے ہوئے ہیں کہ جلدی کی دہائی مچا رہے ہو؟ پہلے یہ گھومنا پھرنا کبھی کبھار ہوتا، لیکن اب روز ہونے لگا۔ ایم اے کے امتحان ہو چکے تھے اور رزلٹ بھی آ گیا تھا۔ سالار اسی شہر میں نوکری کی تلاش میں تھا، اور باقی وقت بیزار ہو کر گزرتا تھا۔ ماہم سے تو پردہ ہو چکا تھا۔ وہ جب اس کے گھر جاتا، تو ماہم اپنے والد اور بھائیوں کے لحاظ کی وجہ سے اس کے سامنے نہیں آتی تھی۔ لہٰذا یہ خلا سارہ کی کمپنی سے پورا ہونے لگا۔ اُدھر سارہ کی زندگی میں بھی کوئی رنگ نہیں تھا، سوائے تنہائی کے جو اسے تھکا دیتی تھی۔ شروع میں تو وہ سالار سے ملاقاتوں کی باتیں ماہم کو مزے لے کر سناتی، لیکن پھر اس سے باتیں چھپانے لگی۔
وہ اب اس کے خط بھی سالار تک پہنچانے کے بجائے پھاڑ کر پھینک دیتی اور اس کے پیغامات گول کر جاتی تھی۔ ماہم کریدتی تو کہتی:تمہیں کیا مشکل ہے؟ شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں؟ اتنی بھی کیا بے قراری؟ میں اس سے مل ہی نہیں پائی، تو تمہیں اس کا حال کیا بتاؤں؟ اُدھر سارہ جب سالار سے ملتی تو ماہم کی باتیں کم کرتی اور اپنی باتیں زیادہ کرتی، یا پھر ادھر اُدھر کی باتیں کر کے وقت گزارتی۔ سارہ کے اس خود سپردگی والے رویے پر سالار پہلے تو ششدر ہوا، لیکن پھر دل لگی کے طور پر انجوائے کرنے لگا۔ اس نے سارہ کے سامنے اپنی منگیتر کا ذکر کرنا چھوڑ دیا اور اسی کو مدنظر رکھنے لگا۔ وہ محض سارہ کو خوش کرنے کے لیے ایسا کر رہا تھا، لیکن یہ لڑکی اس دھیان میں ایسی پکی ہو گئی کہ اس نے ماہم کو اپنا رقیب سمجھ لیا اور اسے سالار سے دور کرنے کے طریقے سوچنے لگی۔ دونوں خوب گھومتے پھرتے اور آپس میں یوں وقت گزارتے جیسے ان دونوں کے درمیان ماہم تھی ہی نہیں۔ سارہ نے سہیلی کے منگیتر کی قربت حاصل کر لی تھی۔ وہ اب ماہم کو راستے سے ہٹانے میں کسی قسم کے شش و پنج سے کام نہیں لے رہی تھی۔ سالار تو سوچتا ہی رہ گیا اور اس خود غرض لڑکی نے جو کرنا تھا، کر دیا۔
ایک روز سارہ نے اپنے گھر پر سالگرہ کی تقریب رکھی اور ماہم کو بھی مدعو کیا۔ اس نے ہوشیاری سے ماہم کی پلیٹ میں کچھ ایسی چیز ملائی کہ کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد ہی ماہم کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ ماہم نے تقریب کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے کسی سے کچھ نہ کہا اور سارہ سے جلدی گھر جانے کی درخواست کی۔ سارہ تو چاہتی یہی تھی کہ وہ جلد از جلد اپنے گھر چلی جائے، اس نے ماہم کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسے گھر بھجوا دیا۔ گھر پہنچ کر ماہم کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے اور خراب ہو گئی، اسے متلی ہونے لگی تو اس کی ماں نے کہا کہ بیکری کی چیزیں کھانے سے شاید فوڈ پوائزننگ ہو گئی ہے۔ وہ پڑوس میں گئی تاکہ شوہر اور بیٹے کو فون کرے کہ وہ دکان بند کر کے جلدی گھر پہنچیں تاکہ ماہم کو اسپتال لے جا سکیں۔ دکان زیادہ دور نہ تھی، لیکن باپ اور بھائی کے آتے آتے ماہم نے گھر میں ہی دم توڑ دیا۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی جلدی اس دنیا سے چلی جائے گی۔ ان لوگوں نے سارہ پر شک نہ کیا اور یہی سمجھا کہ اتفاق سے ان کی بیٹی زہر خورانی کا شکار ہو گئی۔ انہوں نے رو دھو کر بیٹی کو دفنا دیا۔
ایک روز سارہ نے اپنے گھر پر سالگرہ کی تقریب رکھی اور ماہم کو بھی مدعو کیا۔ اس نے ہوشیاری سے ماہم کی پلیٹ میں کچھ ایسی چیز ملائی کہ کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد ہی ماہم کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ ماہم نے تقریب کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے کسی سے کچھ نہ کہا اور سارہ سے جلدی گھر جانے کی درخواست کی۔ سارہ تو چاہتی یہی تھی کہ وہ جلد از جلد اپنے گھر چلی جائے، اس نے ماہم کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسے گھر بھجوا دیا۔ گھر پہنچ کر ماہم کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے اور خراب ہو گئی، اسے متلی ہونے لگی تو اس کی ماں نے کہا کہ بیکری کی چیزیں کھانے سے شاید فوڈ پوائزننگ ہو گئی ہے۔ وہ پڑوس میں گئی تاکہ شوہر اور بیٹے کو فون کرے کہ وہ دکان بند کر کے جلدی گھر پہنچیں تاکہ ماہم کو اسپتال لے جا سکیں۔ دکان زیادہ دور نہ تھی، لیکن باپ اور بھائی کے آتے آتے ماہم نے گھر میں ہی دم توڑ دیا۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی جلدی اس دنیا سے چلی جائے گی۔ ان لوگوں نے سارہ پر شک نہ کیا اور یہی سمجھا کہ اتفاق سے ان کی بیٹی زہر خورانی کا شکار ہو گئی۔ انہوں نے رو دھو کر بیٹی کو دفنا دیا۔
عجب اتفاق تھا کہ جس روز اسے دفنایا گیا، ایک ہفتہ بعد اسی دن اسے دلہن بننا تھا۔ لوگوں نے اس حادثے کو نصیب کا لکھا سمجھ کر والدین کو صبر کی تلقین کی، لیکن ماہم کی موت کی خبر سالار پر بجلی بن کر گری۔ وہ حقیقت میں ماہم سے محبت کرتا تھا، سہیلی سے تو محض دل لگی میں پھنس گیا تھا۔ وہ بہت افسردہ ہوا اور خوب رویا۔ اس کے آنسو پونچھنے اور اسے تسلی دینے والی بھی سارہ ہی تھی۔ سالار نے سارہ پر شک نہ کیا کہ وہ اپنی سہیلی کو زہر دے کر مار سکتی ہے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بہترین سہیلی، جو ہر وقت ماہم کے ساتھ رہتی تھی، اسے نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ کچھ دن وہ بے حد افسردہ رہا، اور اس دوران وہ سارہ سے مل کر ہی دل کا سکون پانے کی کوشش کرتا رہا۔ بالآخر اسے سکونِ دل میسر آ ہی گیا۔
اس نے سارہ کو اپنا دلی اور روحانی سہارا بنا لیا اور اس کے ساتھ شادی کر لی۔ ماہم تو اس دنیا میں نہیں رہی تھی، اور اگر اسے کسی اور سے سکون مل سکتا تھا تو وہ سارہ ہی تھی۔
Urdu
stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu
Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu
stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu
horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text,
Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories,
Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories,
Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories,
Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in
urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral
Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے