ٹھیکیدار کی بیوی

Sublimegate Urdu Stories

یہ واردات پاکستانی علاقے کی ہے لیکن اس وقت کی ہے جب ابھی پاکستان کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اس واسطے میں اصل جگہ کا نام اور اس واردات سے تعلق رکھنے والے افراد کے صحیح نام نہیں لکھوں گا ۔ یہ احتیاط بہت ہی ضروری ہوتی ہے تاکہ کسی کی رسوائی نہ ہو۔ رات کے دو بج چکے تھے جب مجھ کو گھر میں گہری نیند سے جگایا گیا۔ تھانے میں ہے ایک کانٹیبل یہ اطلاع لے کر آیا تھا کہ قتل کی ایک رپورٹ آئی ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے، کانٹیبل نے کہا کہ ٹھیکیدار ہے۔ اس نے ٹھیکیدار کا نام لیا۔ یہ ایک قصبہ تھا اور اس ٹھیکیدار کو سب لوگ جانتے تھے۔ اس کو صرف ٹھیکیدار کہہ دینا کافی ہوتا تھا۔ نام لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ میں بھی اس کو جانتا تھا۔ کانٹیبل کو اتنا ہی معلوم ہو سکا تھا کہ ٹھیکیدار کی بیوی قتل ہوگئی تھی ۔ ٹھیکیدار تو قصبے کی ایک بڑی شخصیت تھا، اگر اس کی بجائے کوئی بہت ہی معمولی اور غریب آدمی آجاتا تو بھی میں اس کو نہیں ٹال سکتا تھا اس واسطے کہ تھانے میں آنے والی کسی بھی رپورٹ کو ٹالنا انگریزوں کی نگاہ میں بہت بڑی کوتاہی اور ایک جرم تھا۔ میں بڑی جلدی سے تیار ہوا اور کانٹیبل کے ساتھ تھانے پہنچا۔

تھانہ میرے گھر کے بہت قریب تھا۔ میرا فوراً پہنچنا اس واسطے بھی ضروری تھا کہ یہ قتل کی واردات تھی ۔ جس طرح اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا جاتا ہے ایسے ہی انگریزوں کے قانون میں قتل کو یوں سمجھا جاتا تھا جیسے زمین و آسمان مل گئے ہوں ۔ اس کے علاوہ میرا تجربہ یہ تھا کہ قتل کی جائے وقوعہ پر جتنی جلدی پہنچا جائے اتنا ہی فائدے مند ہوتا ہے۔ کوئی گھرا کھوج مل جاتا ہے یا کوئی چیز نظر آجاتی ہے جس کو عام لوگ اہمیت نہیں دیتے لیکن تفتیشی افسر کے واسطے وہ بڑی کارآمد چیز ہوتی ہے۔

ٹھیکیدار میرے دفتر میں افسردہ بیٹھا تھا۔ مجھ کو دیکھ کر اٹھا اور ہاتھ ملایا۔ میں نے پوچھا کون قتل ہو گیا، ٹھیکیدار صاحب!

میری بیوی اس نے جواب دیا ۔ ڈکیتی کی واردات تو نہیں ہوئی ؟ یہ میں نے اس واسطے پوچھا کہ رات کے اس وقت قتل کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ ڈاکہ پڑا اور مزاحمت کرنے پر ڈاکوؤں نے گھر کے کسی فرد کو مار ڈالا۔ کیا کیا کیا ہوا اور اس کے اہلکاروں نے گھر سے سی اس نے قریبی بڑے شہر کا نام لے کر بتایا کہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں وہاں گیا ہوا۔ تھا اور ایک گھنٹہ پہلے واپس آیا ہے۔ اس وقت ایک ریل گاڑی گزرا کرتی تھی ۔ وہ اس پر واپس آیا تھا۔ گھر تک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بیٹھک (ڈرائنگ روم) کا دروازہ ذرا سا کھلا ہوا ہے۔ وہ حیران ہوا کہ یہ دروازہ کیوں کھلا ہوا ہے۔ یہ دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ اس سے ذرا آگے حویلی کا بڑا دروازہ تھا۔ ٹھیکیدار نے اس بڑے دروازے پر دستک دینی تھی لیکن بیٹھک کا دروازہ کھلا دیکھ کر اس میں داخل ہو گیا ۔ اس کے آگے ایک کمرہ تھا۔ اس کمرے میں گیا تو اس سے آگے ٹھیکیدار کا بیڈ روم تھا۔ اس کی بتی جل رہی تھی ۔ اتنی رات گئے بتی نہیں جلنی چاہئے تھی ۔

وہ بیڈ روم میں گیا تو دیکھا کہ اس کی بیوی کمر سے نیچے نگی پلنگ پر پڑی تھی اور اس کا جسم ذراسی بھی حرکت نہیں کر رہا تھا۔اس نے بیوی کو آواز دی تو بھی وہ نہ ہلی اور نہ بولی۔ قریب جا کر دیکھا تو ٹھیکیدار کو معلوم ہوا کہ وہ تو مرگئی ہے۔ اس کا منہ کھلا ہوا اور آنکھیں بھی کھلی اور ٹھہری ہوئی تھیں ۔ ٹھیکیدار ساری واردات سمجھ گیا۔ اس کی بیوی کے ساتھ کسی نے زیادتی کی تھی اور اس کو مار کر چلا گیا۔ بیٹھک کا کھلا ہوا دروازہ یہ ظاہر کرتا تھا کہ قاتل باہر سے آیا تھا۔ حویلی کے صحن کی طرف یعنی اندرونی طرف کھلنے والے دروازے کی اندر سے چیخنی چڑھی ہوئی تھی اور کھڑکی کی چٹنیاں بھی چڑھی ہوئی تھیں ۔ اس سے یہ پتہ لگتا تھا کہ اندر کی طرف سے کوئی بیڈ روم میں نہیں آیا۔ ایک دروازہ پہلو والی چھوٹی گلی میں کھلتا تھا۔ یہ بھی اندر سے بند تھا۔ قاتل بڑی گلی کی طرف سے بیٹھک کے دروازے سے داخل ہوا اور ساتھ والے کمرے سے گزر کر بیڈ روم تک پہنچا۔ 

اس سے پتہ لگتا تھا کہ ملزم ان کمروں سے اور اس راستے سے واقف تھا۔ میں نے بڑی تیزی سے ایف آئی آرلکھی اور یہ سوچ کر اس کے ساتھ چل پڑا کہ ضروری باتیں اس سے راستے میں پوچھوں گا۔ اپنے ساتھ عملے کے دو چار آدمی لینے تھے وہ لے لئے ۔ تھانے سے نکلتے ہی میں نے اس سے پہلی بات یہ پوچھی کہ کسی کے ساتھ اس کی دشمنی ہوگی ۔ اس نے یہ جواب دے کر مجھ کو مایوس کر دیا کہ دشمنی کسی کے بھی ساتھ نہیں تھی ۔ یہ سن لیں کہ یہ ٹھیکیدار کس پائے کا آدمی تھا۔ جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ فوجوں اور محاذوں کے واسطے اتنا زیادہ سامان ضرورت پڑتا تھا کہ ٹھیکیداریاں بہت ہی زیادہ ہوگئی تھیں۔ مثلاً گولہ بارود آگے بھیجنے کے واسطے لکڑی کے بکس، ایک ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میں درکار ہوتے تھے ۔ کئی لوگوں نے یہ بکس بنانے اور سپلائی کرنے کے ٹھیکے لے لئے تھے۔ اس کے علاوہ اور بہت سا سامان فوجوں کے واسطے سپلائی ہوتا تھا۔ لوگوں کے تو دن پھر گئے تھے۔ یہ ٹھیکیدار جنگ سے پہلے کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا تھا لیکن آدمی بہت ہی ہوشیار اور موقع پرست تھا۔ اس نے فوراً ٹھیکے حاصل کرلئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ تو جیسے آسمان پر چڑھ گیا ہو۔ اس کا کام اتنا زیادہ ہو گیا کہ قصبے میں ہی اس نے ایک قسم کا کارخانہ کھول لیا اور کئی بے روز گار لوگوں کا روز گار لگ گیا۔ دولت تو اس طرح برسنے لگی جس طرح مینہ برستا ہے۔

اولاد جوان تھی اور اس نے ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ شادی کرتی۔ اس لڑکی کی عمر بائیس سال تھی اور وہ خود دو تین سال بعد ساٹھ سال کا ہونے والا تھا۔ اس کی یہ نوجوان بیوی قتل ہو گئی تھی۔ میں اس کی یہ باتیں غور سے سنتا جارہا تھا اور یہ بھی سوچتا جارہا تھا کہ قتل کا باعث کیا ہو سکتا ہے اور قاتل کون ہے۔ اس نے یہ بتایا کہ دوسری بیوی نوجوان ہے تو مجھے کو خیال آیا کہ اس لڑکی کو پہلی بیوی نے قتل کروایا ہو گا لیکن ٹھیکیدار نے بتایا کہ پہلی یعنی پرانی بیوی ایک سال پہلے مرگئی تھی ۔ ٹھیکیدار نے دوسری شادی پہلی بیوی کی موجودگی میں کی تھی ۔ اس کو طلاق نہیں دی تھی ۔ دوسری شادی کے بعد پرانی بیوی ایک سال زندہ رہی۔ پھر ٹھیکیدار نے بتایا کہ اس کے تین بیٹے ہیں ۔ بڑے کی عمر ستائیس اٹھائیس سال تھی ، اس سے چھوٹا بیٹا تئیس چوبیس سال کا تھا اور اس کے بعد ایک اور بیٹا تھا جس کی عمر سولہ سترہ سال ہو گئی تھی۔اتنے میں اس کا گھر آگیا جو ایک کشادہ گلی میں تھا۔ وہ مجھ کو بیٹھک کے اس دروازے سے اندر لے گیا

جو اس نے بتایا تھا کہ رات کو کھلا ہوا تھا۔ اس بیٹھک کے آگے جو کمرہ تھا اس میں ٹرنک اور ایک دو فرنیچر کی چیزیں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے آگے بیڈروم تھا۔ لاش کے اوپر چادر پڑی ہوئی تھی۔ پلنگ خاصا چوڑا اور بہت خوبصورت تھا۔ خوبصورتی یہ تھی کہ اس کا تکیہ لکڑی کا بنا ہوا نہایت اچھا تھا اور اس پر چتر کاری کی ہوئی تھی ۔ مقتولہ کی شلوار اس تکئے کے ساتھ لٹک رہی تھی جس طرح اس نے خود یہاں لٹکائی ہومیں نے ٹھیکیدار کو یہ کاغذ دکھا کر پوچھا کہ یہ کس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ ٹھیکیدار نے کاغذ دیکھ کر بتایا کہ اس کا ایک منشی ہے یا اس کو مینجر کہہ لیں ، وہ گھر میں آتا جاتا رہتا ہے اور یہ اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چٹ ہے۔ یہ بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ بڑا شریف اور دیانتدار آدمی ہے۔ ٹھیکیدار نے اس کاغذ کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی لیکن میں نے کاغذ اس سے لے کر اپنے ہاتھ میں رکھ لیا۔

اور اس طرح جیب میں ڈال لیا کہ ٹھیکیدار نہ دیکھ سکے۔ ہو سکتا تھا یہ کاغذکوئی اہمیت نہ رکھتا ہو لیکن میں ایسی کوئی چیز نظر انداز یا ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ تھا۔ سراغ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ملا کرتے ہیں اس وقت ٹھیکیدار کے تینوں بیٹے کمرے میں موجود تھے۔ میں جب لاش سے چادر ہٹانے لگا تو وہ تینوں باہر نکل گئے ۔ انہیں معلوم تھا کہ لاش آدھی ننگی ہے۔ میں نے چادر ہٹا کر لاش کی حالت دیکھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ مقتولہ کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ پھر میں نے لاش کی گردن دیکھی ۔ وہاں صاف نشان گلا گھونٹنے کے نظر آرہے تھے۔ خون کا ایک قطرہ بھی نظر نہیں آتا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جسم پر کوئی زخم نہیں ۔ میں نے جسم کو ہر طرف سے اچھی طرح دیکھا۔

چوٹ کا نشان بھی نہیں تھا۔ میں جب لاش کو کروٹ پر کر کے معائنہ کر رہا تھا تو مجھ کو جرسی کا ایک موٹا بٹن پلنگ پر نظر آیا جو میں نے اٹھا کر مٹھی میں دبا لیا تا کہ ٹھیکیدار یا اس کا کوئی بیٹا دیکھ نہ سکے ۔ وہاں کوئی بیٹا تو تھا نہیں ، وہ کمرے سے نکل گئے تھے۔ ٹھیکیدار نہیں دیکھ سکا تھا کہ میں نے پلنگ سے بٹن اٹھا کر مٹھی میں د بالیا ہے۔ یہ بٹن یقیناً کسی کی جرسی سے ٹوٹ کر گرا تھا۔ یہ چوڑا نہیں بلکہ گنبد نما بٹن تھا اور خاصا خوبصورت تھا۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا تھا کہ بڑی اچھی قسم کی جرسی کا بٹن ہے۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ مقتولہ کی آبرو ریزی جبری طور پر ہوئی ہے یا مقتولہ کی رضا مندی ہے ۔ مقتولہ کے جسم پر صرف قمیض تھی 

یہ قمیض کہیں سے بھی پھٹی ہوئی یا کھینچی ہوئی نہیں تھی ۔ تشدد کا اور مزاحمت کا کوئی نشان نظر نہیں آتا تھا۔ اس طرح کی تفتیشی کہانیوں میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ مزاحمت اور تشدد میں عورت کی چوڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور یہ ٹکڑے جائے وقوعہ پر بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ میں نے. لاش کے بازو د یکھے۔ دونوں بازوؤں میں سونے کا ایک ایک کڑا تھا اور اس کے ساتھ کانچ کی چوڑیاں بھی تھیں لیکن کوئی ایک بھی چوڑی ٹوٹی ہوئی نہیں تھی ۔ بستر پر اچھی طرح دیکھا، فرش پر بھی دیکھا، چوڑی کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آیا۔ یہ ایک قدرتی بات ہے اور یہ میرا تجر بہ اور مشاہدہ بھی ہے کہ مرد جب کسی عورت کو قابو کر نا چا ہتا ہے تو اس کی کلائی یا بازو پکڑ کر مروڑتا ہے یا عورت مزاحمت کرتی ہے تو اس کھینچا تانی اور دھینگا مشتی میں چوڑیوں کا ٹوٹنا لازمی ہوتا ہے۔ یہاں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے ۔

شلوار تکئے کے ساتھ اس طرح لٹکی ہوئی تھی جیسے خود لٹکائی گئی ہو۔ معاملہ زبردستی کا ہوتا تو شلوار پھٹی ہوئی ہوتی یا پلنگ پر یا فرش پر پڑی ہوئی ہوتی۔ میرے واسطے سوچنے والی بات یہ تھی کہ بیٹھک کا دروازہ کس نے کھولا تھا کہ ملزم اندر آیا۔ میں نے اس وقت ان باتوں پر زیادہ غور نہ کیا اس واسطے کہ میں لاش کو اور اس کے اردگرد دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد یہ دیکھنا تھا کہ کون کدھر سے آیا اور کدھر سے گیا۔ ایک بات فورآ میرے دماغ میں آگئی ۔ میں نے ٹھیکیدار کے تینوں بیٹوں کو دیکھ لیا تھا۔ تینوں جوان تھے ۔ چھوٹے کی عمر اس نے سولہ سترہ بتائی تھی۔ وہ بھی جوانی میں داخل ہو چکا تھا۔ میرے دماغ میں ان کے متعلق شک اور شبہ پیدا ہو گیا۔

لاش کو جب اچھی طرح دیکھ لیا تو اس کو پوسٹ مارٹم کے واسطے بھیجنے کا بندوبست کیا۔ ہیڈ کانسٹیبل میرے ساتھ تھا، اس کو لاش کے ساتھ بھیجنا تھا۔ اس کو بلا کر الگ سمجھا دیا کہ ایک تو لاش کا پوسٹ مارٹم ہو گا اور ٹھیکیدار کے تینوں بیٹے ساتھ جائیں گے اور ڈاکٹر کو بتانا ہے کہ ان کا ٹسٹ ضروری ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل سمجھتا تھا کہ میرا مطلب کیا ہے۔ میں نے تینوں بیٹوں کو بلایا اور ان کو کہا کہ وہ لاش کے ساتھ جائیں اور ڈاکٹر جو اور وہاں کسی قسم کا اعتراض یا کوئی اور ناگوار بات نہ ہو۔ وہ کچھ بھی کہے وہ اس طرح کریں اب میں کمرے کی ایک خاص بات بیان کرتا ہوں ۔ ایک تو یہ کمرہ بہت ہی سجا سجایا تھا اور پلنگ بالکل نیا تھا اور اس کے ساتھ اعلیٰ قسم کا سنگار میز تھا۔ سنگار میز کی دو دراز میں تھیں اور دونوں کھوئی ہوئی تھیں۔ زیورات کے دوڈ بے کھلے ہوئے میز پر رکھے ہوئے تھے اور ان میں جو زیورات تھے وہ میز پر بکھرے ہوئے تھے۔ دروازوں کے اندر بھی ایک دو چیزیں پڑی تھیں ۔ صاف پتہ لگتا تھا کہ دراز کی تلاشی لی گئی ہے ۔ دوسری دراز کی اشیاء بھی الٹ پلٹ کی گئی تھیں۔ زنانہ پرس میز پر رکھا ہوا اور کھلا ہوا تھا۔ میں نے اس کے اندر دیکھا۔ تو اس میں پانچ نوٹ سوسو روپے کے کچھ دس روپے اور کچھ پانچ روپے کے نوٹ پڑے ہوئے تھے ۔

اتنے قیمتی زیورات اور اتنی رقم اس طرح چھوڑ کر جانے والا کوئی اندھا تو نہیں تھا یا۔ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ نہیں تھا۔ میں یہی کہہ سکتا تھا کہ وہ ڈکیتی یا چوری کی نیت سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ مقتولہ کوخراب کرنے آیا اور چلا گیا۔ قتل کی وجہ یہی ہو سکتی تھی کہ مقتولہ نے اس کو پہچان لیا ہو گا اور قاتل نے ضروری سمجھا کہ اس کو ختم کر دیا جائے لیکن میں نے ٹھیکیدار سے پوچھا کہ مقتولہ اپنی یہ اشیاء کیا اسی طرح بے احتیاطی سے میز پر پھینک دینے کی عادی تھی؟ ٹھیکیدار نے کہا کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرتی تھی بلکہ سنگار میز کو بڑی احتیاط سے صاف ستھرا رکھتی تھی اور یہ ساری اشیاء دراز کے اندر رہتی تھیں۔ یہ تو مجھ کو یقین ہو گیا تھا کہ زیورات کے ڈبے کھول کر دیکھے گئے اور پھر درازوں کی تلاشی لی گئی ۔ صرف ہار ہی دیکھا جائے تو بہت ہی قیمتی تھا۔ اس دور میں سو کے پانچ نوٹ آج کے سات آٹھ ہزار روپوں کے برابر ہوا کرتے تھے ۔

یہاں پر مجھ کو شبہ ہوا کہ ملزم اس گھر کا ہی کوئی فرد ہے یا کوئی ایسا شخص جس کو اتنے قیمتی مال کا ذرا سا بھی لالچ نہیں تھا یعنی وہ کوئی ٹھیکیدار جیسا ہی دولت مند آدمی تھا۔ مجھے کو زیادہ شبہ ٹھیکیدار کے اپنے ہی کسی بیٹے پر تھا۔ یہ خیال رکھیں کہ مقتولہ ٹھیکیدار کے بیٹوں کی ماں نہیں تھی۔ وہ باہر کی ایک لڑکی تھی جس کو ٹھیکیدار نے خریدا ہی ہوا ہو گا ۔

ایسی وارداتیں بھی ہوئیں کہ باپ نے اپنے جوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں قتل کر دیا اس واسطے کہ بیٹے نے باپ کی نئی دلہن کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے تھے ۔ ایسا بھی ہوا کہ جوان بیٹا باپ کی نئی اور نو جوان بیوی کو ساتھ لے کر گھر سے ہی بھاگ گیا۔ یہاں بھی مجھ کو کچھ ایسا ہی ڈرامہ نظر آرہا تھا۔ ٹھیکیدار کی ایک بات نے میرے شک کو پختہ کر دیا تھا۔ یہ میں آگے چل کر بتاؤں گا۔ میں نے حویلی کو اندر سے دیکھنا اس واسطے ضروری سمجھا کہ اوپر سے کوئی شخص نیچے آ سکتا ہے یا نہیں۔ ٹھیکیدار مجھے کو اندر لے گیا۔ میں نے سب سے پہلے سیڑھیوں کی پوچھی ۔ ٹھیکیدار نے آگے بڑھ کر ایک دروازے کی زنجیر اتار دی یہ سیڑھیوں کا دروازہ تھا۔ میں او پر گیا۔ او پر ایک منزل اور تھی ۔ ادھر ادھر دیکھا تو پتہ لگا کہ اوپر سے ادھر آنا ممکن نہیں ۔ میں نیچے آ گیا۔ تصحن میں دو عورتیں کھڑی تھیں ۔ ایک جوان تھی جوشکل وصورت ، لباس اور ڈیل ڈول سے اسی گھر کی فرد گلتی تھی ۔ دوسری ادھیڑ عمر تھی جو نوکرانی معلوم ہوتی تھی یا محلے کی کوئی . کم درجہ عورت تھی۔ محلے میں ابھی کسی کو پتہ نہیں لگا تھا کہ اس گھر میں قتل کی واردات ہوگئی ہے اور پولیس آئی ہوئی ہے۔ یہ اس واسطے کہ ابھی آدھی رات کے بعد تین بجے تھے ۔ سارا قصبہ گہری نیند میں گم تھا۔ ٹھیکیدار نے جوان عورت کی طرف اشارہ کر کے مجھ کو کہا کہ یہ اس کی بہو ہے یعنی بڑے بیٹے کی بیوی ۔ اس کے ایک ہی بیٹے کی ابھی شادی ہوئی تھی ۔

یہ تو میں نے دیکھ لیا تھا کہ سیٹرھیوں کا دروازہ نیچے کی طرف سے بند تھا پھر بھی میں نے پوچھا کہ یہ ہر رات بند کر دیا جاتا ہے یا کھلا رہتا ہے۔ ٹھیکیدار نے کہا بند کر دیا جاتا ہے اور زنجیر چڑھی رہتی ہے۔

میں نے ٹھیکیدار کو بیٹھک میں لے جا کر بٹھایا اور اس کو کہا کہ وہ مجھ کو اپنی پہلی بیوی، بیٹوں اور پھر مقتولہ کے ساتھ شادی کی بابت کچھ بتائے ۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ پوری بات سنادے تو پھر میں اس سے سوال و جواب کروں ۔ یہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ ٹھیکیدار نے پہلی بیوی کی موجودگی میں اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی تھی ۔ میرے سوالوں اور جرح سے یہ صورت سامنے آئی کہ قدرتی بات تھی کہ پہلی بیوی ناراض ہوئی لیکن اس کا بس نہیں چل سکتا تھا۔ اس کو ایک نو جوان سوکن قبول کرنی پڑی۔ یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ ٹھیکیدار کے بیٹے کوئی دودھ پیتے بچے نہیں تھے کہ کچھ بھی محسوس نہ کر سکتے ٹھیکیدار نے بتایا کہ مینوں بیٹے اس کے ساتھ ناراض ہو گئے اور پھر گھر میں یہ فضا بن گئی کہ کوئی انتہائی ضروری بات ہوتی تو کوئی بیٹا باپ کے ساتھ بات کر لیتا تھا ورنہ فضا میں کھچاؤ اور چپقلش بھری رہتی تھی۔

تینوں بیٹوں نے نئی ماں کو قبول نہیں کیا تھا اور اس کا اظہار اس طرح ہوا کہ کوئی ایک بھی بیٹا اس لڑکی یعنی مقتولہ کے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر کوئی کھانا کھانا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ ٹھیکیدار نے اس کا یہ علاج کیا تھا کہ اس نوکرانی کو جس کو میں نے صحن میں کھڑے دیکھا تھا یہ کام سونپا تھا کہ وہ نئی بیوی کا پورا پورا خیال رکھے اور اسے کمرے میں کھانا دیا کرے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ نوکرانی نئی دولہن کی یعنی مقتولہ کی نوکرانی بن گئی تھی اور یہ ادھیڑ عمر عورت مقتولہ کا بہت ہی خیال رکھتی تھی ۔ میں نے ٹھیکیدار سے پوچھا کہ گھر میں لڑائی جھگڑا رہتا ہوگا، یہ قدرتی بات تھی لیکن ٹھیکیدار نے کہا کہ اللہ کا کرم یہ رہا کہ لڑائی جھگڑا کبھی بھی نہیں ہوا۔ اس کا بیان یہ تھا کہ مقتولہ نے شروع سے ہی گھر کی مالکہ بننے کا دعویٰ کیا ہی نہیں، نہ کبھی اس نے گھر کے معاملات ، باورچی خانے یا انتظامات میں دخل اندازی کی ۔ وہ گھر میں ہر کسی کے ساتھ اچھے مراسم رکھنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس کا مزاج لڑنے جھگڑنے والا نہیں تھا بلکہ ہننے کھیلنے کی عادی تھی۔ ٹھیکیدار نے یہ بھی بتایا کہ وہ نوکرانی سے اور اپنی بہو سے الگ رپورٹ لیتا رہتا تھا۔ مقتولہ زیادہ وقت اپنے کمرے میں گزارتی یا اپنے ماں باپ کے ہاں چلی جایا کرتی تھی اور شام سے پہلے واپس آجاتی تھی۔

کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی ٹیم کے قاتل کو پکڑوں؟ میں نے پوچھا۔
یہ کیا سوال کیا ہے آپ !“ ٹھیکیدار نے کہا ” میں تو کہتا ہوں کہ قاتل کو تلاش کریں اور اسے میرے حوالے کر دیں، میں اپنے ہاتھوں اس کا گلا گھونٹ کر مار دوں۔

پھر یوں کریں میں نے کہا۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو پھر ان بیٹوں کو بھی کچھ دیر کے لئے بیٹے سمجھنا چھوڑ دیں۔ اگر آپ نوکرانی سے اور اپنی بہو سے رپورٹیں لیتے رہتے تھے تو آپ نے یہ ضرور معلوم کیا ہو گا کہ آپ کے بیٹوں کا مقتولہ کے ساتھ رویہ کیا تھا ۔ میرے دماغ میں کئی شکوک آرہے ہیں جو میں ابھی آپ کو نہیں بتاؤں گا”۔ یہ بھی سن لیں۔ اس نے کہا۔ ”میں جب گھر آیا اور بیوی کی لاش دیکھی اور لاش کو اس برہنہ حالت میں دیکھا تو اپنے بیٹوں کو جگایا اور ان کو اس کمرے میں لے آیا۔ میرا خدا گواہ ہے کہ اس وقت میں نے اپنے بیٹوں کو بھی دشمن سمجھا تھا۔ میں نے ان کو کہا کہ اگر تم میں سے کسی نے یا تم مینوں نے اس کو خراب کر کے قتل کیا ہے تو بتا دو، میں تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروں گا اور اس کو دفن کر دوں گا۔ اگر نہیں بتاؤ گے تو میں تمہارے خلاف شک لکھوا دوں گا اور پولیس تمہارے ساتھ جو اچھا بر اسلوک کرے گی میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ تینوں بیٹوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اسے قتل ہی کرنا ہوتا تو اس وقت کر دیتے جب ہماری ماں زندہ تھی۔ یہ تو میں نے دیکھا تھا کہ بیڈ روم کا صحن کی طرف کھلنے والا دروازہ اندر سے پکا بند تھا اور کھڑکی کی پینٹنیاں چڑھی ہوئی تھیں۔ پھر یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ بیٹھک کا باہر والا دروازہ کھلا تھا۔ اگر میرے بیٹوں میں کسی نے یہ اردات کی ہوتی تو باہر والا دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی۔

وہ اپنے بیٹوں پر شک کرتا یا نہ کرتا، مجھ کو ان پر شک تھا۔ اسی شک کی وجہ سے میں نے ان کو ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا تھا۔ ڈاکٹر نے لاش سے کچھ مواد لینا تھا اور کچھ موادان تینوں بیٹوں کا الگ الگ لے کر لاہورٹسٹ کے واسطے بھیجنا تھا۔ ٹھیکیدار کے ساتھ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تھانے سے دوسرا ہیڈ کانسٹیبل آ گیا۔ میرے ساتھ جو ہیڈ کانسٹیبل تھا اس کو میں نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے واسطے بھیج دیا تھا۔ اس کو کہا تھا کہ لاش ڈاکٹر کے سپرد کر کے تھانے جائے اور دوسرے ہیڈ کانٹیل کو کہے کہ انگلیوں کے نشان لینے والا سامان لے کر میرے پاس پہنچ جائے ۔ میں نے سنگار میز دیکھا تھا جو بڑی اچھی چمکدار سطح والا تھا۔ اس پر ملزم کی انگلیوں کے نشانات کی موجودگی ضروری تھی ۔ دراز پر بھی انگلیوں کے نشانات ہونے چاہئیں تھے۔ مقتولہ کا پرس سخت چمڑے کا تھا، اس پر بھی نشانات کی موجودگی کا یقین تھا۔ زیورات کے ڈبوں پر مل کا کپڑا چڑھا ہوا تھا اس واسطے ان سے نشان لینے ممکن نہیں تھے ۔ البتہ ٹین کی ایک چھوٹی صند و چی تھی یا اسے بڑی ڈبیا کہہ لیں جس پر رنگ کیا ہوا تھا اور اس پر پھول بنائے ہوئے تھے ۔ ایسی سطح انگلیوں کے نشان اپنے اندر محفوظ کرنے میں موزوں ہوتی ہے۔ ہر تھانے میں انگلیوں کے نشان منتقل اور محفوظ کر لینے کا پورا سامان ہوتا ہے۔ یہ میں اپنے ساتھ نہیں لے گیا تھا۔ جائے ” وقوعہ پر دیکھا تو اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہیڈ کانٹیل سامان لے کر آ گیا تو میں نے اس کو وہ جگہیں اور اشیاء دکھا ئیں جن سے انگلیوں کے نشان (فنگر پرنٹ) لینے تھے۔ وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور میں ٹھیکیدار کے ساتھ سوال و جواب کرنے لگا۔ اس کو کہا کہ وہ اپنے ہر بیٹے کی عادات ، فطرت وغیرہ کی بابت صحیح رپورٹ دے۔

بڑے بیٹے کی بابت اس نے یہ رپورٹ دی کہ پکا مولوی ٹائپ آدمی ہے اور بے حد شریف ۔ یہ خاص خیال رکھیں کہ کسی کو مولوی ٹائپ کہا جائے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ طبعا شریف آدمی ہے۔ اکثر مولوی ٹائپ دیکھے گئے جو ظاہری طور پر شریف لگتے ہیں لیکن اندر سے فتنہ اور فساد پیدا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اس بیٹے کی بابت ٹھیکیدار نے کہا کہ وہ ہر طرح کی قسم کھانے کو تیار ہے کہ مذہب کے معاملے میں اور اخلاقیات کی بابت بہت ہی سخت ہے ۔ اس سے چھوٹے بیٹے جس کی عمرتئیس چوبیس سال تھی ، کی بابت ٹھیکیدار نے بتایا کہ اپنے بڑے بھائی کے بالکل الٹ ہے۔ آوارہ زندہ مزاج ،کھلنڈرا، غیر ذمہ دار ، فضول خرج، پیسے کا دشمن اور فلموں کا شوقین ۔ یہ رپورٹ سنی تو میں نے اپنی یہ رائے قائم کی کہ ایسے شہزادوں پر جنسیات اور بدکاری کا غلبہ ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس کو ذہن میں مشتبہ رکھ لیا۔

اس سے چھوٹے بیٹے کی بابت ٹھیکیدار نے بتایا کہ اس کو وہ ناریل سمجھتا ہے۔ نہ مولوی ہے نہ آوارہ اور اس کے خلاف کسی کو کوئی شکایت نہیں ۔ غصہ بہت کم اور خوش طبیعت لڑکا ہے۔ میں ٹھیکیدار کو کہتا تھا کہ وہ اپنی کوئی رائے دے اور اپنے کسی شک شبے کا اظہار کرے لیکن وہ نہ رائے دیتا نہ کسی پر شک کرتا تھا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اس کو کوئی خاص افسوس بھی نہیں تھا۔ اس کے پاس دولت تھی۔ وہ ایسی ایک اور لڑ کی خرید کر گھر لاسکتا تھا۔ اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار ضرور کیا کہ واردات اتنی شرمناک ہوئی ہے کہ لوگ سنیں گے تو ہر کوئی اپنی اپنی کہانی گھڑلے گا اور اس کی بہت رسوائی ہوگی. میں اس کو کہنے ہی لگا تھا کہ پہلے وہ کون سا نیک نام ہے جس نے اس عمر میں ایک نو عمر لڑکی کے ساتھ شادی کر لی تھی لیکن مجھ کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل نہیں تھا اور کچھ فائدہ بھی نہیں تھا۔

اس گھر میں دوسری اہم فرد ٹھیکیدار کی بہو تھی ۔ میں نے ٹھیکیدار کو یہ کہ اندر بھیج دیا کہ اپنی بہو کہ میرے پاس بھیج دے۔ مجھ کو ڈر تھا کہ یہ اپنی بہو کے کان میں اپنی کوئی ہدایت نہ ڈال دے لیکن وہ اندر گیا اور ایک منٹ میں اس کی بہو میرے پاس آگئی ۔ بڑی اچھی شکل و صورت کی جوان لڑکی تھی اور جب اس کے ساتھ باتیں ہوئیں تو میری طبیعت خوش ہو گئی اس واسطے کہ بڑے اعتماد اور وثوق سے بات کرتی تھی۔ یہ شک ہوتا ہی نہیں تھا کہ بات کو گول کر رہی ہے یا غلط جواب دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں نے اس کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ وہ چھپائے کچھ بھی نہیں اور اس کا ایک بھی لفظ کسی کو پتہ نہیں چلنے دیا جائے گا۔ ماحول کی بابت ، مقتولہ کی بابت اور ٹھیکیدار کے بیٹوں کی بابت مجھ کو سب کچھ بتائے اور اس کے علاوہ کوئی اور بات جو وہ اہم اور ضروری سمجھتی ہے وہ بتائے۔

اس نے بات مقتولہ سے شروع کی اور پہلے لفظ یہ کہے کہ چال چلن کی ٹھیک نہیں تھی ۔ شادی سے پہلے بھی اس کا چال چلن مشکوک تھا اور اچھی خاصی چالاک لڑکی تھی ۔ اس کو بیدار جیسے بڑی عمر کے آدمی کے ساتھ شادی کر کے دکھ اور صدمہ ہونا چاہئے تھا لیکن عجیب بات یہ دیکھی کہ وہ بہت خوش تھی جیسے وہ اسی ٹھیکیدار کے ساتھ شادی کی خواہشمند تھی اور اللہ نے اس کی یہ خواہش پوری کر دی۔ اس خاتون نے بتایا کہ لڑکی بڑی شوخ ، بے حیا اور خوش رہنے والی تھی اور اس کی ہنسی مذاق میں فحاشی زیادہ ہوتی تھی۔ اس گھر میں ہر کسی کے ساتھ اس نے اچھے مراسم رکھے ہوئے تھے۔ ٹھیکیدار کی پہلی بیوی اس کے ساتھ بات بھی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن یہ لڑکی اس کے ساتھ بھی خوش رہتی تھی۔ گھر کے کام کاج اور دیگر امور میں وہ دخل اندازی کرتی ہی نہیں تھی ۔

ٹھیکیدار کی اس بہو نے کہا کہ مقتولہ کا خوش رہنا قابل فہم تھا۔ اس کے ماں باپ بھی اچھی شہرت کے لوگ نہیں تھے ۔ اس سے اندازہ کریں کہ انہوں نے نہ جانے کتنی رقم لے کر . اپنی نوعمر لڑ کی اتنی زیادہ عمر کے آدمی کے ساتھ بیاہ دی تھی۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی کہ مقتولہ ٹھیکیدار سے پیسے بٹور کر اپنے ماں باپ کو دیتی رہتی تھی۔ ٹھیکیدار کی بہو نے کہا کہ یہ بات صرف وہی نہیں کہہ رہی بلکہ کسی سے بھی پوچھ لیں ، یہی جواب ملے گا۔

پھر اس نے اپنا کوئی در پردہ بندو بست کر رکھا ہوگا۔ میں نے کہا۔ ”اس کا کوئی دوست ہو گا جس کے ساتھ اس کی ملاقاتیں رہتی ہوں گی اور اس طرح یہ اپنے جذبات کی تسکین کرتی رہتی ہوگی۔ یہ سن کر بہو نے کہا کہ اس لڑکی نے اپنی ایک الگ تھلگ دنیا بنا رکھی تھی ۔ اس کے دو کمرے الگ تھے۔ ایک بیڈ روم اور ایک ساتھ والا کمرہ ۔ آگے بیٹھک تھی جس میں سے بندہ سیدھا مقتولہ کے بیڈ روم تک پہنچ جاتا تھا۔ مقتولہ دونوں کمروں کے دروازے جو اندر کی طرف کھلتے تھے کے بند رکھتی تھی۔ سیہ اس وقت کھلتے تھے جب وہ اندر حویلی میں آتی تھی ٹھیکیدار کی اس بہو کے ساتھ مقتولہ کے دوستانہ مراسم پیدا ہو گئے تھے ۔ بہو اس کو بچے دل سے اپنی دوست نہیں بجھتی تھی ، ظاہری طور پر اس کے ساتھ ٹھیک ٹھاک رہتی تھی لیکن زیادہ لفٹ نہیں کراتی تھی۔ اب ایک نہایت اہم بات بتاؤ میں نے پوچھا ” تینوں بھائیوں میں کون مقتولہ کے ساتھ ذرا بے تکلف تھا؟“ کوئی بھی نہیں۔ بہو نے جواب دیا۔ ” میرا خیال ہے کہ میں سمجھ گئی ہوں آپ کا بے تکلفی سے کیا مطلب ہے۔ میرا خاوند اور ان کا سب سے چھوٹا بھائی تو اس سے منہ ہی نہیں لگاتے تھے۔ درمیانہ بھائی ذرا آزاد خیال اور زندہ دل ہے وہ کبھی اس کے ساتھ کھل کر بات کر لیا کرتا تھا لیکن میں اسے بے تکلفی نہیں کہوں گی۔ ان تینوں بھائیوں میں کوئی ایک بھی اس کے کمرے میں نہیں جاتا تھا۔ اگر کبھی جانے کی ضرورت پڑی تھی تو ایک دو منٹ بعد باہر آ گئے۔