میرے والد پولیس انسپکٹر تھے۔ جس دن میری پیدائش ہوئی، اسی دن ایک پولیس مقابلے میں اُنہیں گولی لگ گئی، اور وہ شہید ہو گئے۔ یوں میری پیدائش کے ساتھ ہی مجھ پر نحوست کا لیبل لگا دیا گیا۔ دادی نے مجھے منحوس قرار دیا، اور وہ ہر وقت مجھے اسی نام سے پکارا کرتیں۔ ان کے اس رویے کا اثر ماں پر بھی ہوا، اور یوں ماں کو بھی مجھ سے ایک انجانی سی چِڑ ہونے لگی۔ اب ہم تایا اور تائی کے رحم و کرم پر تھے۔ تائی کو ویسے بھی میری ماں پسند نہیں تھی، اور اب جب وہ بیوہ ہو کر ان کے در پر آ بسی تھی، تو ان کا رویہ اور بھی سخت ہو گیا۔ وہ اکثر ماں کو طعنوں سے نوازتیں اور کبھی اچھے سلوک کا مظاہرہ نہ کرتیں۔
میرا رنگ سانولا تھا۔ تایا کی بڑی بیٹی مجھے “کاجل” کہہ کر پکارتی تھی، شاید رنگت کے سبب، شاید کسی اور وجہ سے، نہ جانے اس میں محبت تھی یا تحقیر، مگر رفتہ رفتہ میرا نام ہی “کاجل” پڑ گیا۔ سب گھر والے مجھے اسی نام سے بلاتے تھے، جیسے کاجل کی سیاہی کی طرح میں نے بھی ان کی زندگی سیاہ کر دی ہو۔ جوں جوں بڑی ہوتی گئی، لوگوں کی نظر میں میری “نحوست” بھی بڑھتی گئی۔ اس رویے نے مجھے تنہائی پسند بنا دیا۔ میں کسی سے بات نہ کرتی، بس خاموشی سے اپنے کاموں میں لگی رہتی۔
میری ہم نشین بس گھر کی دیواریں تھیں، یا میرے خواب، یا پھر میری ایک سہیلی نازش، جو ہم عمر تھی اور پڑوس میں رہتی تھی۔میں نے پانچویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کی۔ پڑھنے کا شوق تھا، آگے بڑھنے کی خواہش تھی، مگر ماں نے روک دیا۔ بولیں، گھر بیٹھو، کام کرو۔ میرے اور تمہاری تائی کے گھر کے کام مجھ سے نہیں ہوتے۔ جب سے بیوہ ہوئی ہوں، جیٹھ کھانے کو تو کچھ نہیں دیتے، اوپر سے ان کی بیوی نے مجھے نوکر سمجھ لیا ہے۔ خود بیماری کا بہانہ بنا کر پلنگ پر پڑی رہتی ہے۔ میرے صرف دو بھائی تھے، بہن کوئی نہ تھی۔ ظاہر ہے، لڑکے تو گھر کے کاموں میں ہاتھ نہیں بٹاتے۔ ماں کے ہاتھ کا سہارا بننے والی تو لڑکیاں ہی ہوتی ہیں، اس لیے مجھے تائی کے گھر کے کاموں میں لگا دیا گیا۔
مجھے اپنے گھر سے نفرت ہونے لگی تھی۔ نہ باپ کی شفقت نصیب ہوئی، نہ ماں کا پیار۔ دل میں شاید ماں کو محبت ہو، مگر کبھی ظاہر نہ کی۔ اسی لیے میں اندر سے بجھ کر رہ گئی۔ میری ہم عمر لڑکیاں شوخ و چنچل تھیں، مگر میں سنجیدہ، خاموش طبیعت کی ہو گئی۔ نازش اکثر کہتی، تم تو ابھی سے بڑی بی بن گئی ہو۔ وہ میرے دکھ کو سمجھتی تھی، جانتی تھی کہ میں ناحق سزا کاٹ رہی ہوں، اس جرم کی جو کبھی کیا ہی نہیں، بس پیدا ہوتے ہی یتیم ہو گئی۔ نازش مجھے دلاسہ دیتی، تسلیاں دیتی، مگر میرے دل کی کلی ہمیشہ مرجھائی رہتی۔ ان دنوں میری زندگی بے رنگ تھی… مگر پھر، ایک دن زندگی نے مجھے بالکل نیا روپ دکھایا۔
میں فجر کی نماز ہمیشہ اپنے گھر کی چھت پر ادا کیا کرتی تھی۔ اس روز بھی حسبِ معمول نماز پڑھ رہی تھی۔ دعا مانگنے کے بعد جیسے ہی نظریں اٹھائیں، نازش کے گھر کی چھت پر ایک نوجوان کھڑا نظر آیا، جو میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ پیر پٹختی ہوئی جھنجھلا کر نیچے چلی آئی۔ دوپہر کو نازش مٹھائی لے کر آئی تو میں نے فوراً پوچھا کہ تمہارے گھر کون بد معاش آیا ہے۔ وہ حیرت سے بولی، تم کس کی بات کر رہی ہو؟ میں نے صبح والا سارا واقعہ سنا دیا۔ وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی کہ اچھا تو تم سجاد بھائی کی بات کر رہی ہو؟ تمہیں سخت غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ میرے ماموں زاد ہیں، بہت شریف انسان ہیں۔ لاہور سے ایم بی اے کیا ہے، آج ہی ان کا رزلٹ آیا ہے اور انہوں نے بہت اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی خوشی میں مٹھائی لائی ہوں۔
اس کی بات سن کر دل کو کچھ سکون ملا۔ اس کے بعد بھی کئی بار سجاد سے سامنا ہوا۔ اس کی نظروں میں سچائی اور شرافت کے سوا کچھ نہ پایا، لیکن پھر بھی میں نے ہمیشہ نظر انداز کرنا ہی مناسب سمجھا۔ایک دن نازش دو خواتین اور ہماری ہم عمر ایک لڑکی کے ساتھ میرے گھر آئی۔ میں نے ان سب کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد نازش مجھے الگ لے جا کر بولی کہ یہ سجاد کی خالہ، ماں، اور بہن ہیں۔ یہ تمہارے رشتے کے لیے آئی ہیں۔ میں حیرت و پریشانی میں ڈوب گئی کہ نازش، یہ میرا رشتہ لینے کیسے آگئیں؟ نہ دیکھا، نہ بھالا؟ وہ مسکرا کر بولی کہ دیکھنے بھالنے ہی تو آئی ہیں۔ سجاد بھائی نے انہیں فون کر کے لاہور سے بلایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی ہی لڑکی کی تلاش تھی۔ امی ان کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہیں۔ رخصت ہوتے ہوئے وہ میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتی ہوئیں چلی گئیں۔ امی اُن سے مل کر بہت خوش تھیں۔
یہ رشتے کی بات طے کر کے گئی تھیں۔ زندگی میں پہلی بار امی نے مجھے گلے سے لگایا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ ان کا وہ شفقت بھرا رویہ دیکھ کر میں فوراً راضی ہو گئی۔ سجاد کے خاندان کے لاہور واپس جانے سے قبل ہی شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی۔ مجھے دلہن بنایا گیا، بارات آئی، خوب رونق اور ہنگامہ ہوا، فائرنگ بھی ہوئی۔
لیکن اچانک یہ جشن چیخ و پکار میں بدل گیا۔ میں نے سمجھا کہ میری بد نصیبی کے دن ختم ہو گئے ہیں، مگر یہ میری خوش فہمی نکلی۔ رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، گھر کے لوگ باہر دوڑے، تب پتہ چلا کہ سجاد کے چھوٹے بھائی کو گولی لگ گئی ہے اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ یوں شادی کا گھر، ماتم کدہ میں تبدیل ہو گیا۔ چند بزرگوں نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نکاح سادگی سے کر دیا، اور مجھے رخصت کر دیا کہ یتیم بچی ہے، اس فرض کو اب مؤخر کرنا مناسب نہیں۔ مجھے اپنے مستقبل کی سیاہی صاف دکھائی دینے لگی تھی۔ اگرچہ میرا اصل نام روشن آراء تھا، مگر اب مجھے لگتا تھا کہ میں واقعی کم نصیب آراء ہوں۔ میں کیسی دلہن تھی، جو دلہا کے گھر پہنچی تو خوشیوں کی بجائے موت کا سایہ وہاں موجود تھا۔ جب میری ساس کو ہوش آیا، تو وہ مجھ پر جھپٹ پڑیں۔ کہنے لگیں کہ یہ منحوس ہے، میرے بیٹے کو کھا گئی۔
سجاد نے مجھے تسلی دی کہ امی کو گہرا صدمہ ہے، اسی لیے ایسا کہہ رہی ہیں۔ اب سسرال میں صرف سجاد ہی میرے ہمدرد تھے۔ چہلم تک مجھے میکے بھیج دیا گیا۔ چہلم کے دن سجاد مجھے لینے آئے۔ مگر اگلے ہی دن ان کی ماں نے میرا جینا دوبارہ حرام کر دیا۔ ہر وقت طعنوں کی بوچھاڑ ہوتی۔ کہتیں کہ سجاد، اسے طلاق دے دو۔ یہ کیسی منحوس گھڑی کی پیداوار ہے۔ سنا ہے، جس دن یہ سبز مقدم پیدا ہوئی تھی، اس کے باپ کو زندہ واپس آنا نصیب نہ ہوا تھا۔نند کہتی، دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو واقعی منحوس ہوتے ہیں۔سجاد نے ماں کی باتوں کو نظرانداز کیا، کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتے تھے۔ بس وہی ایک سہارا تھا میرا، ورنہ باقی سب نے ظلم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میری اکلوتی نند بہت تیز زبان تھی۔ وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ مل کر مجھے تضحیک کا نشانہ بناتی۔ کبھی کبھی دل چاہتا کہ مر جاؤں۔
اسی اذیت میں ایک سال گزر گیا۔ میں ہمیشہ گھر میں قید رہی۔ کسی خوشی یا تقریب میں شامل ہونے کی اجازت نہ تھی۔نند کا رشتہ آیا، منگنی طے ہوئی، لیکن مجھے ہر موقع سے الگ رکھا گیا۔ منگنی کے دن مجھے کمرے میں قید کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ ادھر قدم مت رکھنا، کہیں تمہاری منحوس چھاؤں میری بیٹی پر نہ پڑ جائے۔شادی والے دن بھی میری ساس چاہتی تھیں کہ میں کمرے میں بند رہوں، مگر خاندان والوں اور سجاد کے اصرار پر وہ مان گئیں، اور مجھے رخصتی میں شامل ہونے دیا گیا۔نند سسرال سدھار گئی۔میں نے صبر کیا، ہر ظلم سہا، کیونکہ سجاد مجھ سے پیار کرتے تھے۔ میں نے اپنا فیصلہ خدا کے سپرد کر دیا تھا۔
سچ ہے، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اگلے دن جب میں فجر کی نماز کے لیے اٹھی، تو اچانک دروازے کی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی۔ سب لوگ تھک کر سوئے ہوئے تھے۔ میں نے گیٹ پر جا کر پوچھا کون ہے؟ تبھی منزہ کی روتی ہوئی آواز سنائی دی، بھا بھی، دروازہ کھولو، میں ہوں۔ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا منزہ دروازے پر کھڑی رو رہی ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا، ارے منزہ! اتنی صبح کیسے؟ کون آیا ہے تمہارے ساتھ؟ وہ روتے ہوئے میرے گلے لگ گئی اور بولی، بھا بھی، مجھے معاف کر دو۔ میں حیرت زدہ اس کی حالت دیکھ رہی تھی۔ رونے کی آواز سن کر سجاد اور ان کی امی بھی باہر آ گئے۔ منزہ نے اپنی ماں کو دیکھتے ہی کہا، دیکھو ماں، یہ اللہ کا عذاب ہے۔ ہم نے مل کر بھا بھی کو بہت دکھ دیا۔ اس وقت ذرا سا بھی احساس نہ ہوا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم انہیں منحوس کہا کرتے تھے نا، تو آج وہی کچھ میرے ساتھ ہو گیا ہے۔ وہ روتے ہوئے کہنے لگی کہ رات پچھلے پہر میرے شوہر غسل خانے میں گئے۔ ان کا پاؤں پھسلا، سر زمین پر زور سے لگا اور وہ وہیں جان کی بازی ہار گئے۔ چوٹ لگتے ہی انہیں دل کا دورہ بھی پڑ گیا اور وہ انتقال کر گئے۔
تبھی میری ساس نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ جاؤ، اسے اس کی ماں کے دروازے پر چھوڑ آؤ۔ میرے جیٹھ نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور گلی میں چھوڑ گئے، جبکہ میرے شوہر کے والد کی میت اسپتال لے جائی گئی۔ ساس کہتی ہے کہ اس سبز قدم کے آتے ہی اس نے میرے سہاگ پر نحوست کا سایہ ڈال دیا اور وہ مر گیا۔ یہ سن کر میری ساس رونے لگیں۔ میرے شوہر سجاد نے کہا کہ اماں، رو مت، صبر کرو۔ انسان جو بوتا ہے، وہی کاٹتا ہے۔ میری ساس مجھ سے مخاطب ہوئیں، بیٹی، مجھے معاف کر دے۔ تیرے دل پر بھی وہی گزری ہوگی جو آج میرے اور میری بیٹی کے دل پر گزر رہی ہے۔ تبھی میری جٹھانی بولی کہ اماں، جب تک خود پر نہ گزرے، انسان دوسرے کی تکلیف کو محسوس نہیں کرتا۔ میں نے نرمی سے کہا، اماں جی، یہ باتیں چھوڑیں، ہمیں ابھی اسی وقت منزہ کو اس کے سسرال لے جانا چاہیے۔ وہاں اس کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔
میرے اصرار پر ہم فوراً وہاں پہنچے۔ اب وہ شادی کا گھر نہیں رہا تھا، بلکہ سوگ کا گھر بن چکا تھا۔ پورا خاندان جمع تھا، اس لیے منزہ کے سسرال والے خاموش رہے۔ بعد میں ہم نے اس کی ساس کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں کسی انسان کا دخل نہیں۔ زندگی اور موت کا اختیار صرف اسی کے پاس ہے۔ ایسی باتیں کر کے اللہ کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے کچھ قریبی رشتہ دار بھی موجود تھے۔ ان میں سے دو خواتین نے یہاں تک کہا کہ تمہاری بہو اب اس گھر کی عزت ہے، اگر اسے یوں نکالو گی تو کل تمہاری بیٹیوں کو کون اپنائے گا؟ بھائی صاحب کی موت تقدیر کا لکھا تھا، اس بیچاری کا کیا قصور؟ ان باتوں نے منزہ کی ساس کے دل میں خوفِ خدا بیدار کر دیا۔ انہوں نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ جذبات میں آ کر مجھ سے یہ غلطی ہوئی۔
بیٹوں کی شادیاں روز روز نہیں ہوتیں اور نہ بہوئیں روز روز بدلی جاتی ہیں۔ سچ کہوں تو یہ ہماری ہی جگ ہنسائی ہے کہ ہم نے بہو کو موت کا ذمے دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو اپنی موت آپ مرے ہیں، اس میں بہو کی نحوست کہاں سے آ گئی؟ جب ان کی طرف سے یہ کلمات سننے کو ملے اور انہوں نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا، تو میرے سسرال والوں کے دل بھی نرم پڑ گئے۔ ان کا غصہ تھم گیا، اور منزہ اپنی سسرال میں واپس جا کر آباد ہو گئی۔ آج منزہ اپنے گھر میں خوش ہے، اور میں بھی۔ اب نہ اسے کوئی منحوس کہتا ہے اور نہ مجھے، کیونکہ ایسے حادثے صرف اتفاق یا تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں، کسی انسان کی نحوست سے نہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے، اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ اور ہر اندھیرے کے بعد اجالا ضرور آتا ہے۔ تاہم کبھی کبھی سوچتی ہوں، اگر میری نند پر یہ وقت نہ آیا ہوتا، تو شاید میرے دن بھی نہ پھرتے۔ سسرال والے مجھے ہمیشہ منحوس سمجھتے رہتے اور میری زندگی ہمیشہ اندھیرے میں ڈوبی رہتی۔