میں ابھی طلاق چاہتی ہوں، آپ نے سنا۔ وہ جو آج ہی اس کی شادی میں آئی تھی، 16 سنگھار کیے اور اس کی سیج سجائے بیٹھی تھی، منہ دکھائی میں وہ اس سے طلاق مانگ رہی تھی۔ کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم آج کی رات مجھ سے طلاق مانگو گی اور میں تمہیں طلاق دے دوں گی؟ کیا سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے۔ وہ اسے بازو سے تھامے پکڑتے ہوئے چھوڑ دیا جبکہ شانزے کا دل پسلیاں توڑ کر بری طرح باہر آنے کو مچلا رہا تھا۔ میں آپ سے کہہ رہی ہوں، مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ، مجھے طلاق دیں۔ غزان بھائی، وہ بے دھیانی میں اسے بھائی کہہ گئی تھی کہ اگلے ہی پل غزان اس کے ہونٹوں پر جھکا اور اسے اس بات کی سخت سزا دے گیا۔ وہ بے آواز ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی، بری طرح جھپٹے ہوئے خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ہچکیاں لے گئی۔
غزان اتنی شدت سے اسے بھائی کا مطلب اچھی طرح سمجھاتا ہوا پیچھے ہٹا اور کہا: “آئندہ اس زبان کو محدود رکھنا، ورنہ نوماہ بعد اپنا بچہ تمہاری کوکھ سے پیدا کرتے ہوئے تمہیں اچھی طرح سمجھا دوں گا کہ میں تمہارا کیا لگتا ہوں۔” غزان نے اپنی واسکٹ ایک طرف اچھالتے ہوئے اپنی قمیض کے اوپر کے دو بٹن کھولے، اس وقت اسے شدید گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔ شانزے اپنے ہونٹوں کو رگڑتی ہوئی اس کی جانب طنزیہ انداز میں دیکھنے لگی: “یہاں نو دن کس نے دیکھے ہیں؟ آپ نو ماں کی بات کر رہے ہیں۔” شانزے کے اپنے ہونٹوں کو رگڑ کر اس کا دیا ہوا لمس مٹاتے دیکھ کر وہ انگاروں میں جلا تھا، اور اگلے ہی پل پھر سے اس پر جھکا، اس بار شدید سختی سے اس کی سسکیوں کا بھی گلا گھونٹ دیا۔
اس کی رُکتی ہوئی سانس کو محسوس کرتے ہوئے وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا: “آئندہ میرا دیا ہوا لمس بھی مٹانے کی کوشش کی تو وہاں وہاں لمس بکھیر دوں گا کہ تم سمیٹ نہیں پاؤ گی۔” اور اسے سخت نظروں سے نوازتے ہوئے جھٹکے سے اس کی کلائی چھوڑ دی۔ “بہت برے ہیں آپ۔” غزان کے اس انداز پر وہ اس کی جانب شکوہ کنایہ انداز میں دیکھتے ہوئے بولی، جبکہ غزان نے سر جھٹکا اور باتھ روم کا رخ کیا۔ اس کے جاتے ہی شانزے غصے سے لہنگا سنبھالتی ہوئی بستر پر ڈھیر ہو گئی۔ اسے اپنے ہونٹوں پر شدید جلن محسوس ہو رہی تھی، ابھی تک یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ غزان نے اسے اتنی بے دردی سے اپنا نشانہ بنایا۔ وہ تو جب بھی سامنے آتا تھا، بہت شائستہ طریقے سے بات کرتا تھا، نرم لہجہ استعمال کرتا تھا، بلکہ زندگی میں کبھی غزان نے اس سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی۔ اور آج جب وہ ایک حادثے کی وجہ سے اس کی زندگی میں داخل ہو گئی تھی، تو وہ اپنی شریفانہ طبیعت بھول کر بے باکی پر اتر آیا تھا۔ لیکن شانزے سے بھی سوچ چکی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے۔
جھٹ سے اٹھتی ہوئی وہ ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی۔ غزان نے باہر آتے ہوئے کمرے میں اسے ناپاکر ڈریسنگ روم کا بند دروازہ دیکھا، غصے سے گہری سانسیں بھرتے ہوئے اور دراز سے سگریٹ کی ڈبیا نکالتے ہوئے لائٹر سے سگریٹ سلگا کر بالکونی میں چلا گیا۔ آج سب کچھ کتنی جلدی جلدی ہوا تھا، اسے تو اب تک یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا۔ شام سے اپنی خالہ کے بیٹے فرزاد کی بچپن کی منگیتر تھی، اور یہ رشتہ اس کے والدین کی وفات کے بعد بھی اس کی خالہ نے جوڑے رکھا، کیونکہ وہ شانزے سے بہت پیار کرتی تھی۔ شانزےاپنی خالہ کی بہت عزت اور احترام کرتی تھی، لیکن فرزاد سے کبھی آزاد نہیں ہوئی۔ اس منگنی کو اس نے کبھی اتنی اہمیت نہیں دی تھی کہ وہ فرزاد کے بارے میں کوئی خواب سجاتی، لیکن ایک سکون تھا کہ شادی کے بعد اس کا بھی اپنا گھر ہوگا۔ لیکن یہ سکون آج اس کی شادی والے دن ہی بے سکونی میں بدل گیا، کیونکہ شانزےکی بارات نہیں آئی تھی۔ فرزاد کسی اور لڑکی سے محبت کرتا تھا، اس لیے وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
اس کی والدہ بہت روئیں، اشفاق مغل کے آگے ہاتھ جوڑے اپنے بیٹے کے کیے کی معافی بھی مانگی، لیکن شانزےکا سامنا نہ کر سکی۔ شانزےاپنے تایا جان اشفاق مغل کو بہت عزیز تھی، اور اس کے ساتھ یہ سب ہوتے دیکھ کر وہ برداشت نہ کر پائے۔ ان کے سامنے ان کا آخری سہارا، آخری امید، ان کا بیٹا غزان مغل آیا تھا۔ غزان کو اچانک ہی اشفاق صاحب نے اس نکاح کے لیے کہا تو وہ گم سم ہو گیا، لیکن پھر اپنے ابّا کی عزت اور ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس نکاح کے لیے مان گیا۔ لیکن مسز شازیہ بری طرح پیچ و تاب کھاتی رہ گئیں۔ غزان کے لیے انہوں نے اپنی بہن غزالہ کے گھر مہرو کا رشتہ طے کیا تھا۔ وہ اپنی بہن کی بیٹی لانا چاہتی تھیں، اور اس بات سے سب واقف تھے۔ لیکن قسمت نے ایسا کھیل کھیلا کہ کوئی کچھ کر ہی نہ سکا۔ جوڑا شانزےسے بنا تھا، تو مہروک سے کیسے شادی کر لیتا۔
سگریٹ کو جوتے کے نیچے مسلتے ہوئے اور تازہ ہوا کو اپنے اندر اتارتے ہوئے وہ گرل پر ہاتھ جمائے کھڑا ہو گیا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے کافی حد تک اسے پرسکون کر دیا تھا۔ اس نے نیچے دیکھا تو اس کی نظر مہرو پر جا ٹھہری۔ اس کی نظریں بھی غزان پر ہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں ڈھیروں آنسو تھے، جنہیں دیکھ کر غزان نے ہونٹ بھینچے اور شیشے کا دروازہ بند کر دیا، جبکہ مہرو نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھے۔ غزان واپس اندر آیا تو نزہت کو بستر پر کمبل منہ تک لپیٹے دیکھ کر وہ ہونٹ بھینچتا ہوا بستر کی جانب بڑھا کہ اسی لمحے شانزےنے کھٹ سے اٹھ کر کہا، “آپ یہاں نہیں سو سکتے۔” “کیوں نہیں سو سکتا؟” وہ اس کی جانب رخ پھیرتے ہوئے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھنے لگا۔ “بس نہیں سو سکتے، آپ یہاں پلیز۔” وہ بے بسی سے بولی۔ “اپنی زبان کو کنٹرول کر لو، ۔ میں بہت لحاظ کر رہا ہوں۔ اگر مجھے غصہ آیا تو ساری رات سوچتی رہو گی کہ میں بستر پر کیوں سوئی۔” وہ اپنا تکیہ زور سے پٹکتی ہوئی آنکھیں میچ گئی۔ “میرے اوپر غصہ نہ کریں، آپ غزان۔” پھر سے زبان کے جوہر دکھانے لگی کہ اس کی تیز نظروں کو محسوس کرتے ہوئے وہ یکدم چپ ہو گئی نزہت، پلیز چپ کر کے سو جاؤ۔ میرے دماغ کو مت گھماؤ، ورنہ ایک ہی رات میں ایک سے زیادہ ایک بار اپنا حق لے لوں گا تو تم صبح چلنے کے قابل نہیں رہو گی۔
وہ اتنی بے باک باتیں کر رہا تھا کہ شانزے لاجواب ہو کر خاموش ہو گئی۔ بلکہ وہ تو حیران تھی کہ آخر غزان اس کے ساتھ اس طرح کی باتیں کیوں کر رہا تھا۔ خیر، اگر کچھ کرنا ہوتا تو وہ بولتا نہیں۔ وہ دل ہی دل میں خود کو مطمئن کرتی ہوئی، خود بھی اس سے فاصلہ رکھتے ہوئے تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔ اس بار اسے خاموشی سے لیٹتا دیکھ کر وہ بھی خاموشی سے آنکھیں بند کر کے سو گئی۔ شانزے نے رخ بدل کر مدھم روشنی میں اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے تھا۔ 28 سالہ غزان مغل خاندان کا ایک بہت ہی خوبصورت مرد تھا، اور خاندان کی بہت سی لڑکیوں کی نظر اس پر تھی۔ لیکن اس کی والدہ نے اس کا نام اپنی بھانجی مہرو کے ساتھ جوڑا تھا، جس پر نہ تو وہ ناراض تھا اور نہ ہی راضی۔ اس کا زیادہ تر دھیان اپنے کاروبار کی طرف تھا۔ اپنے ہوٹل کو وہ دن دگنی، رات چوگنی ترقی دے رہا تھا۔ اس کا کاروبار ہواوں میں اڑ رہا تھا، اور پیسے کی ریل پیل اتنی تھی کہ اس کی تائی امی شازیہ بیگم ہر روز نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے لینا، گھر کی سجاوٹ، قیمتی اور مختلف قسم کی چیزیں گھر میں لاتی رہتی تھیں اور بہت خوش بھی تھیں۔ لیکن ان کی خوشی کو شانزے کے نام کا گرہن لگ چکا تھا۔
وہ ابھی تک پیچ و تاب کھا رہی تھیں کہ اسی دوران اشفاق صاحب اندر داخل ہوئے تو وہ ان کی طرف مڑی، “کیا سوچ کر آپ نے غزان کا نکاح شانزے سے کر دیا؟ آپ جانتے ہیں کہ غزان اور مہرو کا رشتہ طے تھا، تو پھر آپ نے کیسے اس کا نکاح کر دیا؟” وہ تیز لہجے میں بولی۔ آپ اپنے لہجے کو تھوڑا کم رکھیں گی۔” اپنی کلائی سے گھڑی اتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے انہوں نے سنجیدگی سے کہنا شروع کیامیرے بیٹے کی شادی کر دی آپ نے، مجھے اس فیصلے میں شامل تک کرنا ضروری نہیں سمجھا، اور اب کہہ رہے ہیں میں بھڑکوں بھی نہیں؟” وہ ان کے پاس بیٹھتی ہوئی، دھیمے لیکن مضبوط لہجے میں بولی، “بالکل، آپ جانتے ہیں کہ یہ نکاح وقت کی ضرورت تھا، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ اس لیے بحث مت کریں میرے ساتھ۔ میرا دماغ پہلے ہی بہت بری طرح دکھ رہا ہے۔” اشفاق صاحب نے بیٹ کراون کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے کہا، “یہ نکاح وقت کی ضرورت تھا یا نہیں، لیکن ایک بات آپ یاد رکھیں گا، شانزے کو میں کبھی اپنی بہو تسلیم نہیں کروں گا۔
میرے لیے غزان کی بیوی صرف مہرو ہی بنے گی، اور میں غزان کی مہرو سے دوسری شادی کرواؤں گی۔” صاحب اپنی بیوی کے نادر خیالات سن کر دنگ رہ گئے۔ “آپ ہوش میں تو ہیں؟ کیا بات کر رہی ہیں؟ شانزے آپ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ہو گی، لیکن میرے لیے وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے، اور مجھے دل و جان سے عزیز ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کروں گا۔ آپ اسے میری وارننگ سمجھیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔” وہ غصے سے کہتے ہوئے اٹھے اور باتھ روم کا رخ کر گئے، جبکہ مسز شازیہ نے غصے سے اپنی مٹھی بھینچی۔ وہ خاموش ہو گئی تھی، لیکن ان کے ارادے بہت مضبوط تھے۔ خطرناک تھے۔
٭٭٭
وہ غزان کو دیکھتے دیکھتے سو گئی تھی۔ اس کی نرم سانسوں کا احساس کرتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھنے لگا۔ وہ بھی تین دن پہلے ہی اپنی اٹھارہویں سالگرہ خوشی سے منا رہی تھی۔ وہ چھوٹی سی معصوم لڑکی غزان کی زندگی میں شامل ہو چکی تھی، جس کا اندازہ غزان کو بھی نہیں تھا۔ اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کی زندگی ایک ایسی لڑکی سے جوڑ دی جو اسی کے گھر میں رہتی تھی، ہمیشہ اس کی نظروں کے سامنے رہی، لیکن کبھی غزان نے اسے کسی غلط نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن آج تو وہ اس کے ساتھ نکاح ہوتے ہی کیسی جسارت کر گیا تھا۔ غزان نے اپنی آنکھیں بند کیں، “مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ نہ جانے وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی۔” غزان دل ہی دل میں سوچتا ہوا اسے دیکھنے لگا۔ “مجھے طلاق چاہیے۔” اس کی کہی ہوئی بات کو یاد کرتے ہوئے اس نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچے۔ “ضروری تھا۔ غزان، آج ہی نکاح ہوا اور آج ہی وہ ہم کلام میں سوچتی ہوئی رخ بدلنے لگی کہ اچانک شانزے نے کروٹ لی اور اس کی طرف ہوتی ہوئی اس کے قریب ہوئی اور اپنی بازو غزان کے سینے پر رکھ دی۔
اس کا دل ایک دم سے دھڑکا۔ خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے آہستہ سے اس کا ہاتھ ہٹا دیا، لیکن اگلے ہی لمحے وہ پھر قریب ہو گئی۔ اس بار غزان نے جھٹکے سے اس کی بازو ہٹا دی، جس سے اس کی نیند سے بھاری آنکھیں کھل گئیں۔ “سونے دے، تنگ کیوں کر رہے ہو؟” وہ نیند میں ڈوبی آواز میں بولی۔ “تمہارا دل ہے کہ تمہارے ساتھ زبردستی کر کے اپنا حق وصول کروں؟” وہ جو معنی خیز انداز میں کہتا، اسے ایک پل میں ڈرا گیا، لیکن وہ جانتی تھی کہ غزان کبھی بھی اسے اس کی مرضی کے خلاف نہیں چھوئے گا۔ جبکہ یہ سوچتے ہوئے وہ کچھ دیر پہلے اپنے ہونٹوں پر کی گئی اس کی جسارت کو بھول گئی تھی۔ “شوہر اپنی بیویوں کے ساتھ زبردستی نہیں کرتے۔” وہ اب بھی آنکھیں بند کیے سادگی اور معصومیت سے بولی۔ “اچھا، تو پھر پیار محبت سے اپنا حق وصول کر لوں گا۔ کیا خیال ہے؟” وہ اسے کھینچ کر اپنے قریب کرتا ہوا اس کی نیند بھگا دی۔ “غزان بھائی۔” وہ بولتے بولتے پھر رک گئی۔ “بولو، بولو نا۔ ویسے بھی میری زبان کچھ میٹھا چاہتی ہے۔” غزان نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ “نہیں، میں کچھ نہیں کہہ رہی۔” اب وہ بری طرح بے چین ہو کر خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی پیچھے ہٹی اور اپنا سر تکیے پر رکھ لیا۔
تو وہ اس کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا۔ “ہمیں امید ہے کہ آئندہ کے لیے احتیاط کرو گی اور طلاق جیسا لفظ دوبارہ اپنے ہونٹوں پر نہیں لاؤ گی۔ میرے لانے یا نہ لانے سے کیا ہوگا؟ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ کچھ دنوں میں ہی آپ مجھے خود طلاق دے دیں گے۔” وہ پورے یقین کے لہجے میں بولی۔ “اچھا، اور میں ایسا کیوں کرنے لگا؟” غزان اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت اور غصے سے پوچھنے لگا۔ “ٹاٹ میں پیوند اچھا نہیں لگتا۔ مجھے میری حیثیت اور اوقات کا بہت اچھے سے اندازہ ہے۔” وہ درد بھرے لہجے میں بولی۔ غزان کو بہت کچھ بے قرار کر دیا، جس پر غزان صرف ہونٹ بھینچ کر رہ گیا، جبکہ اس کی خاموشی شانزے کو بری طرح تکلیف دے گئی۔
٭٭٭
“آنٹی، پلیز، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہی غزان کی دلہن بنوں گی۔ پھر کیسے آج وہ وعدہ ٹوٹ گیا؟” مہروکی باتوں پر شازیہ بیگم نے اپنی مٹھی سختی سے بھینچی۔ “تھوڑا صبر کر لو، میری جان۔ یہ سب وقتی ہے۔ کیونکہ غزان اور شانزے کا کوئی جوڑ نہیں۔ دو دن بعد ہی اس رشتے کو نبھانے کا بوجھ جو سر پر چڑھا ہے، وہ اتر جائے گا۔ اور تم دیکھنا، جو جس کا ہوتا ہے، اس سے مل ہی جاتا ہے۔ غزان تمہارا تھا، تمہارا ہے، اور تمہارا ہی رہے گا۔ مہرو نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا، “چلو، ناشتہ کرو، میری جان۔ اگر ابھی سے ہمت ہار گئی تو آگے کا مقابلہ کیسے کرو گی؟ اور ویسے بھی، اس لڑکی میں اتنی جان نہیں کہ ہمارا مقابلہ کر سکے۔ تو پریشان مت ہو۔” مسز شازیہ نے مسکراتے ہوئے اسے حوصلہ دیا، تو وہ اس بات پر سر ہلا دی۔
٭٭٭
اب نکلو باتھ روم سے، یا اندر ہی رہنا ہے؟ آج غزان مسلسل باہر چکر لگا رہا تھا، اور شانزے کو باتھ روم سے نکلتے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ وہ باتھ روم سے نکل ہی نہیں رہی تھی۔ ایسے میں غزان کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا، جبکہ وہ مسلسل ایک جگہ کھڑی اپنی فراک کے ساتھ الجھی ہوئی تھی، جس کی زپ بند ہی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ شاور لینے کے بعد اس وقت ٹھنڈ سے کانپ بھی رہی تھی، اور اپنی گیلی فراک کو دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ “کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ باہر چلے جاتے اور میں کوئی اور ڈریس الماری سے نکال لیتی۔” ایک بار پھر زپ کے ساتھ الجھتے ہوئے اور بری طرح پریشان ہو کر سوچ رہی تھی۔ “شانزے، میں آخری وارننگ دے رہا ہوں۔ اگر اب بھی تم باہر نہیں آئی تو میں چابی لگا کر دروازہ کھول کر اندر آ جاؤں گا۔ پھر روتی رہنا۔” باہر سے غزان کی غصے بھری آواز سن کر وہ گھبرا گئی۔
اپنا حلق تر کرتے ہوئے آگے بڑھی اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے ہی وہ آگ بگولہ بنے کھڑا تھا۔ “ہٹو، راستے سے۔” اسے بازو سے پکڑ کر دور کھڑا کرتے ہوئے خود باتھ روم کی طرف بڑھا۔ ایک پل کے لیے اس کے قدم رک گئے۔ وہ اپنی ڈھلکی ہوئی فراک کو مشکل سے سنبھالے سینے سے لگی ہوئی تھی، جبکہ اس کی پوری کمر کھلی ہوئی تھی۔ “کیا بے ہودہ پن ہے یہ؟ یہ کون سی ڈریس پہن رکھی ہے تم نے؟” غزان کے خون میں شرارے پھوٹ پڑے۔ وہ گھبرا کر اس کی طرف مڑی۔ “یہ بند نہیں ہو رہی تھی۔” پلکیں اٹھاتے ہوئے جھپکی اور بمشکل بول پائی۔ “بند نہیں ہو رہی تھی، تو کیا اس حالت میں باہر آ جاتی؟” وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا۔ “آپ جائیں نا، باتھ روم میں آپ نے اتنا شور مچا رکھا ہے۔ اب آپ کو جلدی نہیں۔” اور اپنے قریب آتا دیکھ کر بے اختیار اپنے قدم پیچھے لے گئی۔
غزان نے اچانک اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا، اسے تھامتے ہوئے اپنی طرف کھینچا۔ وہ سیدھی اس کے سینے سے لگ گئی۔ دونوں کی دھڑکنوں میں شدید تیزی آ گئی۔ غزان اپنے جذبات پر بمشکل قابو پاتے ہوئے ہاتھ پیچھے لے گیا اور اس کی زپ کو اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے بند کرنے لگا، جبکہ اس دوران دونوں کی نظریں ایک دوسرے میں گڑی ہوئی تھیں۔ کسی نے بھی اپنی پلک نہیں جھپکائی۔ زپ بند کرتے ہوئے اسے آہستہ سے چھوڑ دیا اور بغیر کچھ کہے باتھ روم میں غائب ہو گیا، دروازہ زور سے بند کرتے ہوئے۔ “اف! کتنے غصے والے ہیں یہ۔ میری تو پہلے ہی ان سے جان جاتی تھی۔ اب تو بیوی بن گئی ہوں، ہر وقت غصہ ناک پر رہتا ہے۔ میرا کیا ہو گا؟” وہ اوپر دیکھتے ہوئے گہری سانس بھری۔ “فکر کیوں کرتی ہو؟ کون سا یہ رشتہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے؟ تائی جان اتنی صفائی سے اس رشتے کو ختم کریں گی کہ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔” وہ تلخی سے سوچتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ہیئر ڈرائر سے اپنے بالوں کو خشک کرتے ہوئے وہ اردگرد سے بے خبر ہو گئی تھی۔ اس کے لمبے، گہرے بھورے بال اس کی خوبصورتی کا سب سے بڑا حصہ تھے، اور وہ اپنے بالوں سے عشق ہی کرتی تھی۔ اسی وجہ سے شانزے کے بال بے انتہا خوبصورت تھے۔ وہ اردگرد سے بے خبر اپنے بالوں کو سنوار رہی تھی کہ غزان کب اس کے پاس آ کھڑا ہوا، اسے پتا ہی نہ چلا۔ وہ تو تب چوکی جب غزان نے اس کے ہاتھ سے ڈرائر لے لیا۔ “اب ہٹو یہاں سے۔” منہ بناتے ہوئے کہا۔ اب وہ اپنے گیلی بالوں کو خشک کر رہا تھا۔
شانزے کے ماتھے پر بل پڑ گئے، لیکن بغیر کچھ کہے وہ واپس مڑی۔ “کہاں جا رہی ہو؟” اسے دروازے کی طرف بڑھتے دیکھ کر اس کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھنے لگا۔ “باہر، اور کہاں؟ رکو، ایک ساتھ چلتے ہیں۔” وہ ڈرائر کو تیزی سے ادھر ادھر کرتے ہوئے بولا۔ “آپ اتنا وقت لگا رہے ہیں۔ دیکھو تو کتنا وقت ہو گیا ہے، پتا بھی ہے؟ تائی امی کا فون بھی آ گیا ہے۔” “میں نے دیر کرائی ہے یا تم نے جو بعد میں گھس کے جا کر بیٹھ گئے اور نکلنا ہی ضروری نہیں سمجھا؟” وہ اس پر بھڑک اٹھا۔ شانزے نے منہ بسور لیا۔ “چلو اب۔” وہ اس کے لیے کمرے سے باہر نکلا کہ ایک پل کو رکا۔ “اپنا چہرہ درست کرو۔” اس بار گہری نظروں سے اس کا سراپا دیکھتے ہوئے کہا۔ “میری شکل ایسی ہی ہے۔” وہ تڑپ کر بولی۔ غزان نے ماتھے پر بل ڈالے اسے گھورا۔ “شانزے، جتنا کہوں، اتنا کیا کرو۔ مجھے فضول میں بحث کرنے والی تمہاری عادت اچھی نہیں لگتی۔” “مجھے تو آپ سرے سے ہی اچھے نہیں لگتے۔” بے اختیار شانزے کے منہ سے نکل گیا۔
ایک پل کو خاموشی چھا گئی۔ تمہیں جو اچھا لگتا تھا، اللہ نے وہ تمہاری قسمت میں نہیں لکھا۔ اس لیے زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں، میرے سامنے۔ وہ بھی حساب پورا کرتے ہوئے باہر نکلا تو شانزے نے اس کی بات پر اپنے آنسو روکے اور اس کے پیچھے ہی نکلی۔ ناشتے کی میز پر اشفاق صاحب، شازیہ بیگم اور مہرو بھی موجود تھیں۔ اس کا خاندان تو جا چکا تھا، لیکن اس کا یہاں کتنے دنوں کا قیام ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ اپنی تائی امی کی نظروں سے بچتی ہوئی غزان کے پیچھے چھپ گئی۔ غزان نے مشترکہ سلام کیا تو اشفاق صاحب نے جواب دیتے ہوئے محبت سے بیٹے کو گلے لگا لیا اور شانزے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ دونوں ایک ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔