محبت کا فریب - دوسرا حصہ

Sublimegate Urdu Stories

شانزے کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ “شانزے بیٹا، ناشتہ کرو۔” اسے ایسے ہی بیٹھا دیکھ کر اشفاق صاحب نے مخاطب کیا تو وہ گھبرا کر ناشتے کی پلیٹ اپنے سامنے رکھتے ہوئے ایک نظر اپنی تائی امی کو دیکھی، جو اسے گھور رہی تھیں۔ پھر نظریں جھکاتے ہوئے پلیٹ سے آملیٹ اور بریڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنانے لگی، جبکہ اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پاس بیٹھے غزان سے چھپی نہ رہ سکی۔ “ارے بیٹا، آج تو آپ کا ریسیپشن ہے، تو آپ کا ہوٹل جانا ضروری ہے۔ آج آف لے لو۔” اشفاق صاحب نے غزان کی میٹنگ کی بات سن کر نرمی سے کہا۔ “نہیں بابا، جانا ضروری ہے۔ اور یہ ریسیپشن پری پلان تو تھا نہیں، ورنہ میٹنگ نہ رکھتا۔ لیکن میں جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔” مہمان نوازی بھرے انداز میں کہتے ہوئے اٹھا۔ شانزےبھی اس کے پیچھے ہی اٹھی۔ “تم کہاں جا رہی ہو؟” غزان نے اسے ٹوکا۔ “میں آپ کو تیاری میں مدد کرنے جا رہی ہوں۔” شانزے کا سارا کانفڈینس کہیں دور جا چکا تھا۔ جس انداز سے وہ غزان کے ساتھ کمرے میں بات کرتی تھی، اس وقت سامنے کھڑی شانزے تو بالکل ہی مختلف تھی۔ “میں چھوٹا سا بچہ تو نہیں، جسے تیاری کے لیے تمہاری ضرورت پڑے۔ 

خاموشی سے بیٹھ کر اپنا ناشتہ مکمل کرو۔” اور اسے دھیمے لہجے میں ڈانٹا۔ وہاں سے چلا گیا۔ اشفاق صاحب کو بھی کال آنے لگی تو وہ بھی اٹھ گئے۔ اب میز پر شازیہ بیگم، مہرو اور شانزے تھیں۔ شانزے ڈرتے ڈرتے واپس بیٹھی اور سر جھکائے اپنی پلیٹ سے ناشتہ کرنے لگی۔ “یہ سب عارضی ہے۔ اس سے زیادہ اہمیت مت سمجھ لینا۔” شازیہ بیگم نے اپنی کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اسے بے چین کر دیا۔ شانزے ہونٹ بھینچے رہ گئی۔ “بہتر ہوگا کہ ایسے حالات پیدا کرو کہ غزان خود تمہیں چھوڑ دے۔ ورنہ اگر میں کچھ کرنے پر آ گئی تو تمہارے پاس رونے کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا، اور نہ ہی کھونے کے لیے۔” اور اسے سرد لہجے میں دھمکی دے رہی تھیں۔ شانزے نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھا۔ “تائی امی، میرا کیا قصور ہے جو آپ مجھ سے اس قدر نفرت کرتی ہیں؟” آنسوؤں کے گولے کی وجہ سے بات مکمل نہ کر پائی۔ “نفرت بہت چھوٹا لفظ ہے، شانزے۔ میں تمہاری شکل بھی گھر میں برداشت نہیں کر سکتی۔ کیا میں اپنے بیٹے کے ساتھ تمہیں ساری زندگی دیکھوں؟ کبھی نہیں۔ میرے وار سہنے کی تم میں طاقت نہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ میرے بیٹے کی زندگی سے خود ہی نکل جاؤ۔” شانزے نے بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی کہ کمرے سے نکلتے ہوئے غزان کے ساتھ بری طرح ٹکرا گئی۔ 

غزان نے اسے ٹکرا کر پیچھے گرتے دیکھا تو اس کی کلائی پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ سیدھی اس کے سینے سے ٹکرائی۔ “کس ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو؟” وہ شانزے سے بات نہ بن پائی۔ “خود اس کی زندگی سے نکل جاؤ تو بہتر ہے، ورنہ میرے وار سہنے کی طاقت تم میں نہیں۔” وہ ہونٹ بھینچے ایک طرف ہٹتی ہوئی غزان کو جانے کا راستہ دے گئی۔ “امید کرتا ہوں کوئی گڑبڑ نہیں کرو گی۔ سکون سے رہو گی اور سب کو رہنے دو گی۔” اور دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے سیڑھیاں نیچے اتر گیا۔ اس کی چوڑی پشت دیکھتی رہ گئی۔ “آپ کی والدہ محترمہ نے سکون سے رہنے دیا تو سکون سے رہوں گی نا۔” وہ تلخی سے سوچتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ ایک عجیب دو راہے پر زندگی لے آئی تھی۔ نہ وہ آگے بڑھ پا رہی تھی، نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی۔

 ولیمہ کی تقریب غزان نے اپنے ہوٹل میں ہی منعقد کرائی تھی۔ تمام انتظامات بھی خود دیکھے۔ اتنی کم نوٹس پر وہ خود ہی کچھ کر سکتا تھا۔ اسٹیج کو اصل پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ غزان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، جسے کچھ ہی دیر بعد شانزے چھیننے والی تھی۔ وہ اسٹیج پر دلہن بنی غزان کے ساتھ بیٹھی ایک کم سن اپسرا لگ رہی تھی، جس کے حسن کے قصیدے ہر کوئی پڑھ رہا تھا۔ اور مہروک غصے سے پیچ و تاب کھا رہی تھی۔ خوبصورت تو وہ بھی تھی، لیکن وہ غزان کی ہم عمر تھی، جبکہ شانزے غزان سے دس سال چھوٹی تھی۔ میک اپ آرٹسٹ نے اس کا میک اپ بھی اس انداز میں کیا تھا کہ وہ اپنی عمر سے بڑی لگ بھی نہیں رہی تھی۔ اس کا اصل روپ اسے مزید خوبصورت بنا رہا تھا۔ اس کی ساری دوستیاں اس وقت اس کے پاس اسٹیج پر موجود تھیں اور اسے چھیڑ رہی تھیں۔ وہ ان کی باتوں کا بھی کم ہی جواب دے رہی تھی۔ “شمعہ، مجھے باتھ روم جانا ہے۔” اچانک وہ اپنی ایک دوست کے کان میں جھانک کر بولی۔ اسے چوکا دینے کے بعد وہ اس کے ساتھ اسٹیج سے اتری اور باتھ روم کا رخ کیا۔

 شانزے کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اب وہ جو کرنے کا سوچ رہی تھی، اسے سوچ کر ہی اس کی جان نکلنے لگی تھی۔ نہ جانے اس کے اس عمل سے غزان کا رد عمل کیا ہوگا۔ لیکن اسے یہ سب کرنا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ وہ ڈرتے ڈرتے باتھ روم سے باہر نکلی اور شمعہ کے ساتھ چلتی ہوئی اسٹیج کی طرف جا رہی تھی کہ ایک لمحے کو اس نے شمعہ کا ہاتھ چھوڑا۔ سب طرف نگاہ دوڑائی اور اگلے ہی پل سامنے سے آتے غزان کو دیکھا۔ سارے الفاظ حلق میں ہی دم توڑنے لگے۔ سب کی نظریں دونوں پر اٹھیں۔ شازیہ بیگم دھماکے کا انتظار کر رہی تھیں، لیکن شانزے کی خاموشی انہیں تیزی دلا رہی تھی۔ “مجھے آپ سب کے سامنے غزان مغل سے کچھ کہنا ہے۔” اس کی بات پر سب نے انتہائی گہری نظروں سے انہیں دیکھا۔ “جو بھی کہنا ہے، سوچ سمجھ کر کہنا۔ بند کمرے میں کی گئی غلطی کی معافی ہے، سب کے سامنے کیے گئے گناہ کی معافی نہیں۔ سزا بھی ملے گی۔” وہ اس کے قریب ہوتے ہوئے اس کے ارادے بھانپ چکا تھا، اس لیے سرگوشی کے انداز میں سخت لہجے میں بولا۔ شانزے کا روم روم سلگ اٹھا۔  “میں آپ سے نہیں ڈرتی، سمجھے؟ مجھے غزان مغل کے ساتھ نہیں رہنا۔ مجھے آپ سے ۔۔۔  بکواس بند کرو۔” شانزے کے قریب ہوتے ہوئے اس کی کلائی سختی سے پکڑ لی۔ شانزے کا سارا خون سکڑ کر چہرے پر آ گیا۔ 

دل ہی دل میں وہ غزان سے بری طرح خوف کھا گئی۔ “مجھے چھوڑ دو۔” اسے کلائی سے پکڑے ہوئے ہال سے باہر لے جانے لگا۔ کچھ نے حیرت سے، کچھ نے طنز سے، اور کچھ نے بے یقینی سے ان دونوں کو دیکھا جو ہال سے باہر نکل گئے تھے۔ غزان اسے لے کر ہوٹل کی پچھلی طرف آ گیا، جہاں اس وقت اندھیرا تھا اور کوئی نہیں تھا۔ وہاں لے جا کر اس کا ہاتھ جھٹکے سے چھوڑ دیا۔ وہ گھومتی ہوئی اس کے سامنے کھڑی ہو گئی، گہری سانسیں لیتی ہوئی خوف سے اسے دیکھنے لگی، جو اسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ “کیا بکواس کرنے لگی تھی وہاں اندر؟” وہ بولا۔ شانزے نے ڈر کر اپنی آنکھیں سختی سے بند کر لیں۔ “آنکھیں کھولو اور میری بات کا جواب دو۔” وہ اسے کن سے جکڑے چلایا۔ شانزے کا پورا وجود جھنجھلاہٹ میں آ گیا۔ اس کے پاس غزان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ سسکیاں بھرتے ہوئے اس کی کالی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ “بولو، ورنہ تمہاری جان لے لوں گا۔” آج پہلی بار وہ غزان کو اس قدر غصے میں دیکھ رہی تھی۔ “میں نے سب کے سامنے آج آپ سے طلاق…” وہ کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔ “بولو، کیوں رک گئی؟” وہ دانت چباتے ہوئے اسے بولنے پر اکسا رہا تھا۔ “مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ۔ مجھے الگ ہونا ہے۔ آپ کو مجھے چھوڑنا ہوگا، ورنہ…” شانزے بھی اب بنا سوچے سمجھے اپنے لہجے میں واپس آ گئی۔ “ورنہ کیا؟” اس نے اکسایا۔ “ورنہ میں سب کو چلا چلا کر بتاؤں گی کہ آپ نامرد ہیں۔ 

آپ کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ مجھے مطمئن نہیں کر سکے، اس لیے مجھے آپ سے…” وہ بے خوف بغیر رکے بولتی چلی جا رہی تھی کہ اچانک رک گئی۔ اپنی شرم کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اسے یہ تک پتا نہیں چلا کہ وہ جس شخص کے بارے میں بات کر رہی ہے، وہ سامنے ہی کھڑا ہے، بالکل خاموشی سے اور اسے سخت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ شانزے کے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اب غزان اسے نہیں چھوڑے گا اور سخت سزا دے گا۔ اس کی گہری خاموشی پر اس نے لرزتے ہوئے غزان کی آنکھوں میں دیکھا۔ “ڈیل ہے؟” اس کی ایک لفظی بات پر شانزے کا تھر تھرانا ایک پل کو رک گیا۔ ایسا لگا جیسے وقت ہی تھم گیا ہو۔ وہ دو قدم اس کے قریب ہوتے ہوئے سپاٹ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔ “ڈیل ہے۔ تم اندر جاؤ اور سب کے سامنے یہ الفاظ کہو۔ غزان مغل کا وعدہ ہے، تمہیں یہیں طلاق دے کر جاؤں گا۔” وہ اسے صاف شفاف لہجے میں کہتا ہوا اس کی سانسیں کھینچ گیا۔ “چلو۔” وہ اس کی کلائی کھینچتے ہوئے آگے بڑھا کہ ایک پل کو رکا۔ 

شانزے اس کے سینے سے آ کر ٹکرائی۔ “لیکن یاد رکھنا، اگر نہ کہہ سکی تو آج کی رات میں بہت اچھے طریقے سے ثابت کروں گا کہ میں کتنا مرد ہوں اور کس کس انداز سے تمہیں آج مطمئن کروں گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکو گی۔ آخری موقع دے رہا ہوں، جاؤ، بولو اور ہو جاؤ آزاد۔ بچا لو خود کو مجھ سے۔” وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بول رہا تھا۔ شانزے کی آنکھیں بھیگتی جا رہی تھیں۔ وہ اسے سختی سے کلائی سے پکڑے ہوئے ہال کی طرف واپس لوٹا۔ شانزے کی ٹانگوں سے جان نکل رہی تھی۔ وہ چاہ کر بھی سب کے سامنے ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتی تھی۔ ان کے واپس لوٹنے پر سب کی نظریں پھر ان پر جا ٹھہریں۔ غزان نے ہونٹ بھینچے اسے دیکھا، جس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا۔ “بولو۔” وہ دھیمے لیکن سخت لہجے میں بولا۔ شانزے کی سانسیں گہری ہو گئیں۔ اس کی زبان تالو سے جا لگی۔ 

اتنی بڑی بات وہ صرف غزان کے سامنے ہی بول پائی۔ وہ بھی نہ جانے کہاں سے اتنی ہمت لے آئی۔ ایسی بھری محفل میں اپنے شوہر پر الزام لگانا، وہ بھی اس صورت میں جب اس کی بارات نہ آئی اور اس نے اس سے نکاح کر کے اسے بدنامی سے بچایا۔ آج وہ سب کے سامنے بلاوجہ اسے بدنام کیسے کر دیتی؟ اس کے دماغ میں شدید ٹیس اٹھی۔ وہ اپنی تائی امی کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے مجبور ہوئی تھی۔ “اگر تم نے آج کے دن میرے بیٹے سے الگ ہونے کا فیصلہ نہ کیا تو تمہیں بھری محفل میں ذلیل و خوار کروں گی۔ میرے غزان سے دور ہو جاؤ۔ بے شک اس پر الزام لگاؤ۔ ہم جانتے ہیں، رات بھر وہ تمہارے قریب نہیں آیا، اس لیے اس پر الزام لگا دو کہ وہ نامرد ہے۔” اس کے کانوں میں مہرو کی بے جا گھسپٹ سنائی دی۔ “سب کے سامنے یہ الفاظ کہو۔ غزان مغل کا وعدہ ہے، تمہیں یہیں طلاق دے کر جاؤں گا۔” شانزے نے سامنے کھڑے غزان کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس کے دماغ میں سب الفاظ گڈمڈ ہو رہے تھے۔ “اگر نہ کہہ سکی تو آج کی رات میں بہت اچھے طریقے سے ثابت کروں گا کہ میں کتنا مرد ہوں اور کس کس انداز سے تمہیں آج مطمئن کروں گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکو گی۔ 

آخری موقع دے رہا ہوں، بولو اور ہو جاؤ آزاد۔ بچا لو خود کو مجھ سے۔” اور اگلے ہی پل وہ چکرا کر گر گئی، لیکن غزان کی باہوں نے اسے سنبھال لیا۔ وہ جانتا تھا کہ شانزے میں اتنی جرات ہی نہیں کہ ایسی کوئی بات سب کے سامنے کہہ سکے۔ لیکن اس نے غزان کے سامنے بھی ایسے الفاظ کیسے کہے، اس کا حساب تو وہ آج رات لینے ہی والا تھا۔ “
٭٭٭٭
آنٹی، وہ لوگ ابھی تک گھر نہیں آئے۔ نہ جانے کہاں ہیں۔ کہیں وہ ایک دوسرے کے قریب نہ ہو جائیں۔” اس وقت وہ سب واپس حویلی آ چکے تھے۔ ان سب کو واپس آئے دو گھنٹے سے بھی زیادہ کا وقت ہو چکا تھا، لیکن غزان اور شانزے ابھی تک نہیں لوٹے تھے۔ غزان اس کے بے ہوش وجود کو اٹھائے ہوئے ہال سے جو نکلا تھا، ابھی تک واپس نہیں لوٹا تھا۔ “اشفاق صاحب، آپ غزان سے پوچھیں نا، وہ کہاں ہے؟ ابھی تک واپس کیوں نہیں آیا؟” اشفاق صاحب کو اندر آتے دیکھ کر مسز شازیہ نے بے چینی سے پوچھا۔ “موسم خرابی کی وجہ سے وہ شانزے کو اپنے فارم ہاؤس لے گیا ہے۔” “فارم ہاؤس؟ لیکن کیوں؟” وہ بھڑک اٹھی۔ “کیوں کا کیا مطلب؟ اس کا دل کیا، وہ لے گیا۔ شانزے اس کی بیوی ہے، وہ لے جا سکتا ہے جہاں چاہے، جہاں اس کی مرضی ہو۔ ویسے بھی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، تو کوئی قباحت نہیں اس میں۔ میرے خیال سے رات بہت ہو گئی ہے، آپ لوگوں کو بھی اب آرام کرنا چاہیے۔” وہ دونوں کو ایک تیز نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

 دیکھا آپ نے؟ اب وہ وہاں فارم ہاؤس میں ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں گے، اور ہم یہاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جائیں گے۔ مہرو رو پڑی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ آج وہ غزان کی زندگی سے نکل جائے گی، لیکن وہ بولنے سے پہلے ہی بے ہوش ہو گئی۔ 
٭٭٭
باہر بہت تیز بارش ہو رہی تھی۔ اس وقت وہ خود کو بے حد بے بس محسوس کر رہی تھی۔ اگر وہ حویلی آ جاتے تو وہ کچھ نہ کچھ کر کے دونوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتی، لیکن اب وہ صرف رو ہی سکتی تھی اور مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اسے ہوش آیا۔ وہ کسمسا کر اٹھی، اپنا سر تھامتے ہوئے اس نے سامنے سوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے غزان کو دیکھا، جو گہری سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔ بلکہ دیکھنے سے زیادہ گھور رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک جلتی ہوئی سگریٹ تھی، جبکہ سامنے ڈھیروں جلی ہوئی سگریٹوں کے ٹکڑے تھے اور کچھ باہر گرے ہوئے تھے۔ وہ مسلسل ایک گھنٹے سے سگریٹ پی رہا تھا۔ شانزے کا دل دھک سے رہ گیا، جبکہ سانس سینے میں اٹک گئی۔ ایک بار پھر اس کے الفاظ یاد آئے تو شانزے نے ہمت جمع کرتے ہوئے بستر سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی، لیکن دروازہ لاک تھا۔ وہ بار بار لاک کو گھما رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گالوں پر گر رہے تھے۔ اچانک زور سے بجلی کڑکی تو وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر چلائی۔ اس وقت اس پر غزان کا اتنا خوف چھایا ہوا تھا کہ وہ بہت بری طرح لرز رہی تھی۔ اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنتے ہوئے اس کے کانپنے میں اضافہ ہو گیا۔ غزان نے جھٹکے سے اس کا رخ اپنی طرف پھیرا تو وہ دروازے کے ساتھ جا سمائی۔ 

پلیز، مجھے مت مارنا۔ اسے لگا کہ غزان اس پر ہاتھ اٹھائے گا، لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ غزان کے ارادے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اس کے سر سے پاؤں تک گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے اور جھٹکے سے اس کا دوپٹہ اتار کر دور پھینک دیا۔ دوپٹہ پنوں کے ساتھ اس کے بالوں میں اٹیچ تھا، کھینچنے سے بہت سختی سے کھینچا گیا کہ وہ تڑپ کر رہ گئی۔ کہاں بھاگ رہی ہو؟ کہا تھا نا، آج رات بتاؤں گا میری مردانگی۔ پلیز، غزان، مجھے معاف کر دو۔ میں کبھی شانزے نے روتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ ایک لمحے کو غزان کا دل پسیج گیا، لیکن اگلے ہی لمحے اس کے الفاظ یاد کرتے ہوئے اس کے دماغ میں پھر زہر اُتر آیا۔ “تمہیں معاف کرنے کا مطلب ہے تمہیں دوبارہ موقع فراہم کرنا، جو تم آج نہیں کر سکی، وہ تم آگے کر سکتی ہو۔” غزان نے کھینچ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ 

اس کی مدھم چلتی سانسیں مزید مدھم ہو گئیں۔ “میں وعدہ کرتی ہوں، میں کبھی ایسا نہیں بولوں گی۔” وہ آنسو روکتے ہوئے بولی۔ اگلے ہی لمحے وہ اسے بستر پر پٹخ دیا۔ وہ سراسیمہ کی حالت میں پیچھے ہٹتی ہوئی بیڈ کے کنارے سے جا لگی۔ “میرے ساتھ برا مت کرو۔” وہ غزان کو شرٹ لیس دیکھ کر اب باقاعدہ رونے لگی تھی۔ “جو تم نے آج میرے ساتھ کیا، اس کا کیا؟” غزان نے تلخی سے کہا۔ اس پر سایہ فگن ہوا۔ اس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے دونوں ہاتھوں کو اوپر تکیے پر پن کرتے ہوئے ایک ہی لمحے میں وہ اس پر جھک گیا۔ “میں مر جاؤں گی، غزان۔” وہ بمشکل سانس لیتے ہوئے غزان کو انگاروں پر گھسیٹ رہی تھی۔ “کیا میں مرا ہوا ہوں تمہاری باتوں سے؟” وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔ وہ آنکھیں سختی سے بند کرتے ہوئے اپنے ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست کر گئی۔ وہ جان گئی تھی کہ اب راہِ فرار نہیں۔ اس سالم انسان سے اب کوئی رحم کی بھیک مانگنا بیکار تھی، اس لیے خود کو ہمت دیتے ہوئے اور اس کی دی ہوئی سزا کو بھگتنے کے لیے خود کو تیار کرنے لگی۔ اور پھر اگلے ہی لمحے غزان اس کی گردن پر جھک گیا۔ وہ اپنی سانس روک کر سزا کو سہہ گئی، بنا ایک سسکی لیے۔ غزان نے اوپر ہوتے ہوئے اس کی بند آنکھوں کو دیکھا اُس نے اپنا پورا جسم اکڑا لیا وہ بری طرح سہمی ہوئی تھی۔ غزان لائٹس آف کرتے اُس پر اور خود پر کمبل ڈالے اُس کو ہر پردے سے آزاد کر گیا۔

 دھیرے سے اُس کے گالوں پر لب رکھتے وہ اُس پر اپنا لمس چھوڑ گیا۔ شانزے سانس لو، وہ دھیرے سے اُسے پکار رہا تھا جو اپنا سانس روکے ہوئی تھی۔ شانزے سانس لو، ورنہ میں اپنے طریقے سے تمہاری سانسیں کھینچ لوں گا۔ وہ سرگوشی کے انداز میں بولتا ہوا اُس سے بہت کچھ باور کرا گیا۔ وہ گہری سانسیں بھرتی اندھیرے میں غزان کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ غزان نے ڈِم لائٹس آن کیں تو اُس کی ہرنی سی آنکھیں دکھائی دیں۔ کیا ہوا اگر اتنا ہی ڈر تھا میری قربت کا تو ایسے کام کرتی ہی کیوں ہو؟ اب کی بار غزان کا لہجہ نرمی لیے ہوئے تھا۔ معاف کر دو، وہی رُکا ہوا ڈرا ہوا لہجہ، لیکن غزان کی نرمی پر وہ اپنے لب وا کر گئی۔ معافی چاہیے۔ وہ گمبھیر لہجے میں بولتے ایک بار پھر اُس پر جھکا تھا۔ شانز کا دل ایک الگ ہی لے میں دھڑکا۔ وہ تو سن ہی ہو گئی۔ بتاؤ نا، معافی چاہیے؟ وہ بےباکی سے خود کا سارا وزن شانز پر ڈال گیا۔ 

اُس کا نازک لمس محسوس کرتے اُس کے دل میں انگنت جذبات جاگے۔ شانز نے اس بات میں سر ہلا دیا۔ پھر اس قربت میں میرا ساتھ دو، مجھے بھی سکون پہنچاؤ اور خود بھی پُرسکون ہو جاؤ۔ وہ اپنی محبت کی باتوں سے اُس کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار بڑھا گیا تھا۔ غزان، یہ وہ بمشکل اُس کا آدھا نام پکار پائی، شانزے سے وہ گہری سانسیں بھرتا اُس کو اپنی حالت نہیں سمجھا پا رہا تھا۔ مجھے ہٹ مت، وہ پھر سے ڈر رہی تھی۔ نہیں کروں گا۔ وہ ایک بار پھر اُس پر جھکا، نرمی سے اُس کی سانسوں کو ہیل کرنے لگا۔ وہ ایک دم سے جنون ہونے لگا کہ شانزے کی سانس ہی رک گئی۔ اُس کی دونوں کلائیاں چھوڑتے اب اپنے ہاتھ اُس کی دھڑکنوں پر لے آیا۔ وہ سسکیاں بھر رہی تھی جبکہ دھیرے دھیرے اپنی شدت میں اضافہ کیے جا رہا تھا۔

 وہ بہت محبت سے اُسے سمٹے ہوئے اُس کی گردن میں اپنا چہرہ چھپا گیا۔ نہیں دے رہا تکلیف، اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دو۔ اُس کو اپنے سینے میں بچھا کر دھیرے سے اُس کے کانوں میں سرگوشی کرتے ایک بار پھر اُس کی گردن میں منہ چھپا گیا۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔  شانزے کا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ باہر برستی بارش اور اندر بستر پر موجود اُن کے گرم جسم ایک دوسرے کو مکمل پسینے سے شرابور کر چکے تھے۔ غزان کے جسم کی تپش میں شانزے کو اپنا پورا جسم لپٹا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ رہی سہی کسر روم ہیٹر نے نکال دی تھی۔ شانز، ریلیکس یور باڈی، وہ بہت نرمی سے کہتے اُس پر چھائے تو شانز کی سسکی نکل گئی۔ وہ سانس روکے غزان کو دیکھتی رہ گئی۔ اب ایسے دیکھو گی تو شدت کم ہونے کی بجائے بڑھ جائے گی اور تمہاری نازک جان سہ نہیں پائے گی۔ وہ اُس کی آنکھوں میں جھانکتے بہت محبت سے گویا ہوئے۔ آپ نے کہا تھا ہرٹ نہیں کروں گے، وہ معصومیت سے بولتی غزان کے دل میں گھر کرتی جا رہی تھی۔ نہیں کر رہا یار، صرف سیٹسفائی کر رہا ہوں تمہیں۔ اُسے ایکانک وِن کرتا اور اُس پر چھایا چلا گیا۔

 شانزے سے کی سسکیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، جس سے غزان مزید مدہوش ہوتا اُس کو اپنی باہوں میں سمٹ چلا گیا۔ اُسے شانزے سے کی حرکات پر بےانتہا غصہ تھا اور اُس کو سزا بھی دینا چاہتا تھا۔ قربت کی ایسی مار مارنا چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ اُس کے ساتھ اس طرح کی زبان استعمال کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ پر اُس کا ڈر اور خوف دیکھ کر اُس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ اُسے اتنا خوف کھا رہی تھی کہ غزان کو خود کو نارمل کرنا پڑا۔ وہ پہلی بار اُس کے قریب جا رہا تھا اور اپنی قربت کا خوف اُس پر نہیں ڈالنا چاہتا تھا، ورنہ وہ ہمیشہ اُس کی قربت میں خوف ہی کھاتی رہتی۔ وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ وہ بہت چھوٹی تھی، 18 کی ہوئی تھی، ابھی صرف اُسے ایک ہفتہ ہی تو ہوا تھا۔ ایسے میں ایک مرد کی جاندار قربت ہی سہہ جاتی تو بہت تھا، نہ کہ غصے بھری قربت سہہ سکتی تھی۔